”آزاد ہوکر بھی ہم آزاد نہیں!“
جس نے دلائی آزادی وہ قوم بنی ہے ایک قیدی!
آؤ! آزادی کے موقع پر آزادی کا عہد کریں!
بندہ محمد فرقان عفی عنہ ✍️
(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)
انیسویں صدی کا سینتالیسواں سال تھا اور ماہ اگست کی پندرہویں تاریخ تھی، جنوبی ایشیاء کا ایک بڑا حصہ برصغیر جو ہندوستان کے نام سے موسوم تھا، جس میں موجود ہندوستان، پاکستان، نیپال، بھوٹان، بنگلادیش، سریلنکا، وغیرہ بھی شامل تھیں۔جہاں انگریزی حکومت کا قبضہ تھا، جن کی سلطنت کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ انکے سلطنت میں کبھی سورج غروب نہیں ہوا کرتا تھا۔اتنی بڑی سلطنت کے مالک اور طاقتور ہونے کے باوجود مسلمانوں کی بدولت اور جد وجہد کے بعد 14/ اگست 1947ء کا سورج انگریزی حکومت کو اپنے ساتھ لئے غروب ہوگیا۔ اور 15/ اگست 1947ء کو مکمل طور پر برصغیر ”ہندوستان“ آزاد ہوگیا۔ آزادی کی یہ لڑائی کوئی معمولی لڑائی نہیں تھی۔ یہ وہی لڑائی تھی جو 1757ء میں شروع ہوئی تھی جسکا پہلا مجاہد شمال ہند سے کلکتہ کا نواب سراج الدولہ ؒتھا اور دوسرا 1799ء میں شہید ہونے والا جنوب ہند سے میسور کا شیر ٹیپو سلطان شہیدؒ تھا۔ مکمل ایک سو سال تک فقط مسلمان اس جنگ آزادی کو عملی جامہ پہناتے رہے اور لاکھوں غیور مسلمانوں نے اپنی جانیں آفرین کے حوالے کردیں۔ اس ملک کی آزادی کیلئے حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ نے فتویٰ صادر کرتے ہوئے انگریزی حکومت کے خلاف جہاد کا حکم دیا تھا۔ اسی ہند کی آزادی کیلئے حجتہ الاسلام مولانا قاسم نانوتویؒ نے 1866ء میں دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی تھی۔ جہاں سے شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندیؒ، شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ، امیر شریعت مولانا عطاء اللہ شاہ بخاریؒ، رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ، مولانا عبید اللہ سندھیؒ، مولانا شبیر احمد عثمانیؒ جیسے ہزاروں فرزندانِ اسلام نے جنم لیا۔ جنکا وجود ہی انگریز کیلئے موت کا کڑکا تھا۔ اسی دیوبند کے چمن سے ہزاروں مجاہدین آزادی وجود میں آئے اور ریشمی رمال، جمعیۃ علماء، مجلس احرار جیسے ناجانے کتنی تحریکیں آزادی کیلئے رونما ہوئیں۔ اسی کو مولانا ریاست علی بجنوریؒ نے کہا:
اسلام کے اس مرکز سے ہوئی تقدیس عیاں آزادی کی
اس باب حرم سے گونجی ہے سو بار اذاں آزادی کی
اسی ملک ہند کی آزادی کیلئے دہلی کی چاندنی چوک سے لیکر لاہور کی سرزمین تک اور دہلی کے لال قلعے سے لیکر پاکستان کی شاہجہاں مسجد تک ہر ایک درخت پر ظالم انگریزی حکومت نے ہمارے علماء کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا کر جام شہادت نوش کرنے پر مجبور کیا تھا۔ لیکن ہم نے آزادی کی لڑائی نہیں روکی، انگریزوں کے خلاف اور زیادہ ہمت و حوصلے کے ساتھ مقابلہ کرتے گئے۔ جب مسلم قائدین کو یہ محسوس ہوا کہ برادران وطن کو بھی اگر ساتھ لیکر یہ لڑائی لڑی گئی تو بہت جلد اس میں کامیابی مل سکتی ہے۔ تو دارالعلوم دیوبند جس کی بنیاد 1866ء میں اسی جنگ آزادی کیلئے رکھی گئی تھی وہاں کے شیخ الحدیث اور صدر المدرسین شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒنے آفریقہ میں قانون کی تعلیم حاصل کررہے گاندھی جی کو ہندوستان بلایا اور ایک تقریب کے دوران انہیں مولانا عبد الباری فرنگی محلیؒ نے ”مہاآتما“کا لقب دیا۔ برادران وطن کے ساتھ مل کر ہمارے اکابرین نے انگریزی حکومت کے خلاف جنگیں کی جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہی تھی اور بالآخر ہمیں انگریزی حکومت پر فتح حاصل ہوئی اور 15/ اگست 1947ء کا سورج آزادی کا تحفہ لئے طلوع ہوا اور ہمارا پیارا ملک ہندوستان آزاد ہوگیا۔ آزادی پر ہر طرف خوشیاں چھا گئیں اور آسمان سے زمین تک ہواؤں کے جھوکے اور ریت کے زرات یہ گنگنا رہے تھے:
لہو وطن کے شہیدوں کا رنگ لایا ہے
اچھل رہا ہے زمانے میں نام آزادی
ہندوستان تو آزاد ہوگیا لیکن انگریز ملک بدر ہوتے ہوتے نفرت اور اختلاف کا ایک پودہ لگا گیا۔ افسوس کہ ملک کی آزادی کے ساتھ ملک کا بٹوارہ بھی ہوگیا لیکن مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے نے ملک کے بٹوارے کی سخت مخالفت کی اس کے باوجود ہونی کو کون ٹال سکتا ہے؟ الغرض ملک کے دو ٹکڑے ہوگئے ایک حصہ ہندوستان بن گیا اور دوسرا پاکستان بن گیا۔ مسلمانوں کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان منتقل ہوجاتے لیکن مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے اپنی خوشی اور مرضی سے ہندوستان ہی میں رہنا پسند کیا۔ کچھ سال گزرنے کے بعد 26/ جنوری 1950ء میں ہمارا پیارا ملک جمہوری ملک بن گیا۔ لیکن افسوس کہ جمہوری ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ سوتیلہ سلوک ہونے لگا۔ ہر آئے دن ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے جانے لگے، ہمارے نوجوان کو دہشت گردی کے جھوٹے مقدمات کے تحت زنداں کے پیچھے بند کیا جانے لگا، ہماری ماں بہنوں کی عزت و آبرو کو لوٹا جانے لگا۔ حد تو یہ ہوگئی کہ ہمارے دین و شریعت میں براہ راست مداخلت کی گئی اور مذہب پر پابندی عائد کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ جن مسلمانوں کے جذبات اور حوصلوں کی قسمیں کھائی جاتیں تھی وہ بزدلی اور احساس کمتری میں ایسے مبتلا ہوگئے کہ اپنے آپکو مسلمان کہنے میں بھی ڈر محسوس کررہے ہیں۔فرقہ پرست طاقتوں نے ملک کے ماحول کو ایسا بگاڑ دیا کہ ہر کوئی مسلمان کو دہشت گرد سمجھنے لگا۔ ملک کے سب سے بڑے وفادر طبقے کو ”دیش دروہی“ کا لقب دے دیا گیا۔ ہمارے مسلمان کو ایسی ذہنی اذیت دی گئی کہ وہ اپنے وفاداری کا ثبوت دینے پر مجبور ہونے لگے۔ مسلمانوں کی اسی پریشانی و مظلومیت کو دیکھتے ہوئے شاعر نے کہا:
اس دیش میں برسوں سے پریشان ہیں ہم لوگ
بس جرم ہے اتنا کہ مسلمان ہیں ہم لوگ
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہندوستان کی آزادی مسلمانوں ہی کی مرہون منت ہے۔ اگر مسلمان نہ ہوتے تو یہ ملک کبھی آزاد نہ ہوتا۔ کیونکہ جہاد اور شہادت کا تصور فقط مسلمانوں میں ہی پایا جاتا ہے دیگر مذاہب و ادیان اس سوچ و فکر سے خالی و ناآشنانہ ہیں۔ ہم نے لاکھوں افراد کی قربانی دیکر اس ملک کو آزاد کروایا ہے۔ برادران وطن کو آزادی کا سبق ہمارے اکابرین نے پڑھایا ورنہ وہ تو غلامی کو اپنی زندگی کا حصہ سمجھ بیٹھے تھے۔ لیکن کفر کے کیڑے نے تو اپنا رنگ دیکھانا ہی تھا۔ جس قومِ مسلم نے انہیں غلامی کی زندگی سے نجات دلائی انہیں کے ساتھ دشمنی کا ننگا ناچ کھیلا گیا۔ہماری تاریخ کو تاریخ کے اوراق سے مٹادیا گیا۔ہماری نسلوں کے دلوں و دماغ میں اسلام دشمنی کے بیج بوئے جارہے ہیں اور مسلمانوں کو اقیلت کہ کر احساس کمتری میں مبتلا کیا جارہا ہے۔ لیکن اغیار کو نہیں معلوم کہ وہ مسلمان قوم ہی تھی جو بدر میں محض تین سو کی تعداد میں ہوتے ہوئے بھی تین ہزار پر بھاری تھی، وہ اٹھارہ سالہ محمد بن قاسم مسلمان ہی تھا جس نے اکیلے ہندوستان کو فتح کرلیا تھا، وہ طبقہ مسلمان ہی تھا جنہوں نے انگریز جن کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا انہیں ملک چھوڑنے پر مجبور کیا۔ہاں ہماری قوم تھوڑی غفلت کی نیند میں ضرور مشغول ہوگئی ہے لیکن اس بات سے کبھی انکار نہیں کیا جاسکتا کی سوتا ہوا شیر ہمیشہ شیر ہی ہوا کرتا ہے۔اور شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہوا کرتی ہے۔ اس سے ٹکرانا اپنی موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ اسی کو جگر مراد آبادی نے کہا:
ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں
ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں
آج جو لوگ مسلمانوں سے وفاداری کا ثبوت مانگتے ہیں ان لوگوں کو اپنی تاریخ کا مطالعہ کرنا چائے۔جنگ آزادی میں قربانی تو دور کی بات جنگ آزادی میں انکا نام و نشان تک موجود نہیں ہے۔ جس وقت ہمارے آبا و اجداد ملک کی آزادی کیلئے جام شہادت نوش فرمارہے تھے اس وقت یہ لوگ”خاکی چڈھی“ پہننا سیکھ رہے تھے اور آج جب انہوں نے پیانٹ (قمیض) پہننا شروع کیا تو ہماری وفاداری کا ثبوت مانگنے نکل پڑے! اس ملک کو ہم نے ہر وہ چیز دی ہے جس سے اس ملک کا نام پوری دنیا میں گونجتا ہے۔ یوم آزادی اور یوم جمہوریہ پر جس لال قلعے پر مرکزی حکومت کی جانب سے پرچم کشائی کی جاتی ہے وہ مسلمانوں کی ہی دَین ہے، دنیا کے سات عجائب کا حصہ تاج محل مسلمانوں کی ہی دَین ہے، قطب منار، چار منار، جامع مسجد، گول گنبذ وغیرہ یہ تمام مسلمانوں کی ہی دَین ہے۔ہماری زندگی اور موت کی ہر سانسیں ملک کی وفاداری اور محبت کی دلیل ہے۔
دل سے نکلے گی نہ مر کر بھی وطن کی الفت
میری مٹی سے بھی خوشبوئے وفا آئے گی
مجھے یہاں اغیار سے زیادہ شکوہ نہیں کیوں کہ وہ لوگ تو مسلمانوں کے دشمن ہیں اور دشمن کا حق ہے کہ وہ دشمنی کرے ورنہ دشمن ہونے کا کیا فائدہ؟ لیکن اپنے لوگوں سے اغیار کے مقابلے میں زیادہ شکوہ ہے کہ وہ لوگ اتنے بزدل کیوں ہیں؟ کیا انہیں یہ نہیں معلوم کہ مسلمان کبھی بزدل نہیں ہوا کرتا؟ ہماری تباہی و بربادی کی وجہ یہی ہے کہ ہم نے حق کی راہ کو ترک کردیا۔ہماری آنکھوں کے سامنے ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے گئے لیکن ہم نے سکوت اختیار کرلیا، ہمارے آبا و اجداد کی تاریخ کو مٹا دیا گیا اور ہم خاموش ہوکر تماشہ دیکھتے رہے، ہمارے اکابرین نے ملک کی آزادی کیلئے اپنی گردنیں کٹادیں اور ہم نے گردنیں جھکانا پسند کیا، وہ مختلف خداؤں کو مانتے ہوئے بھی ایک ہیں اور ہم ایک خدا کو مانتے ہوئے بھی انیک ہیں، نہ ہم تعلیم میں آگے رہے، نہ ترقی میں آگے، نہ ہم میں مذہب کا شعور باقی رہا، نہ خلافت اور سیاست کا سبق یاد رہا۔بس یار رہا تو یہ کہ ”ہم اقلیت ہیں۔“ ارے گولی مارو ایسی سوچ کو اگر فقط ایک ٹیپو سلطانؒ، محمد بن قاسمؒ، سلطان صلاح الدین ایوبیؒ ہماری نسلوں میں پیدا ہوجائے تو انقلاب لانے کیلئے کافی ہے۔ اور ہر ایک مسلمان کا خواب اور تمنا بھی یہی ہے لیکن اسکی دعا یہ ہے کہ اسلام کے یہ بہادر شہزادے ہمارے گھروں میں نہیں بلکہ دوسروں کہ گھروں میں پیدا ہوں! جب ہم خود بزدلی کی چادر اوڑھے ہوئے ہیں تو مجاہد صفت انسان کہاں پیدا ہونگے؟ افسوس صد افسوس
ع: ہمیں تو گلہ ہے اپنو سے غیروں سے نہیں!
لیکن اس سے ہمیں ناامید نہیں ہونا چاہئے کیونکہ ناامیدی تو کفر ہے۔اللہ کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔عنقریب وہ وقت آئے گا جب ہماری نسلوں میں ایسے بہارد پھر پیدا ہونگے، اور ہماری قوم پھر پوری شان و شوکت کے ساتھ اس ملک میں اپنی زندگی بسر کرے گی۔لہٰذا اغیار کو بھی سمجھ لینا چاہئے کہ:
ہم امن چاہتے ہیں، مگر ظلم کے خلاف
اگر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی
آج پھر سے عہد لینے کی ضرورت ہے! اے خدا کو ایک ماننے والوں، رسول اللہؐ کو آخری نبی اور انکے امتی ہونے کو تسلیم کرنے والوں، اے سوا لاکھ صحابہ کی سیرت کو ماننے والوں، اے قرآن و حدیث کو ماننے والوں، اے جنت و دوزخ پر ایمان لانے والوں، اے حرمین شریفین کو اپنا کہنے والوں، اے چودہ سو سال کی روشن تاریخ لکھنے والوں، اے اللہ کی طاقت پر یقین رکھنے والوں، اے غازیان اسلام کے راستے پر چلنے والوں، اے شہادت کی موت کی تمنا کرنے والوں، اے نبی کے دیوانوں، اے شمع اسلام کے پروانوں اٹھو! جگ جاؤ! اب بہت ہوچکا! اب وقت انقلاب ہے۔اٹھو اور آگے بڑھو! ہندوستان کے اس 74/ویں یوم آزادی کے موقع پر آؤ ہم سب مل کر عہد لیں کہ اس وطن عزیز کو ظلم و تشدد سے، جرم و بربریت سے، قومی و سیاسی فرقہ واریت سے، نفرتوں کی انگار سے، کرپشن و دھوکہ دھڑی سے، دلال و گودی میڈیا سے، مآب و سیاسی لنچنگ سے، ملک کے غدار و حقیقی دہشت گردوں سے، اقتدار کا ناجائز فائدہ اٹھانے والوں سے، جہالت و ناگواری سے، بزدلی و احساس کمتری سے پھر ایک بار آزادی دلائیں گے اور عدل و انصاف کو، پیار و محبت کو قائم کرتے ہوئے اپنے اکابرین کی تاریخ دہرائیں گے اور ایک ہوکر مل کر کہیں؛
انقلاب زندہ باد
ہندوستان زندہ باد
تکبیر اللہ اکبر
سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
فقط والسلام
بندہ محمد فرقان عفی عنہ*
(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)
15/ اگست 2020ء
پیشکش : شعبہ تحفظ اسلام میڈیا سروس، مرکز تحفظ اسلام ہند 🎁
Saturday, August 15, 2020
آزاد ہوکر بھی ہم آزاد نہیں!
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment