Showing posts with label Aqaaid e Islam. Show all posts
Showing posts with label Aqaaid e Islam. Show all posts

Thursday, 17 November 2022

اسلام کے تین بنیادی عقائد!

 اسلام کے تین بنیادی عقائد!



✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


عقیدہ مضبوط بندھی ہوئی گرہ کو کہتے ہیں، دین کی وہ اصولی اور ضروری باتیں جن کا جاننا اور دل سے ان پر یقین رکھنا مسلمان کیلئے ضروری ہے۔اسلام میں عقیدہ کو اولیت حاصل ہے۔ صحیح عقیدے کے بعد ہی اعمال کی ابتداء ہوتی ہے۔ صحیح عقیدہ ہی وہ بنیاد ہے جس پر دین قائم ہوتا ہے، اور اس کی درستگی پر ہی اعمال کی صحت کا دارومدار ہے۔ حیات انسانی میں عقیدہ کی جو اہمیت ہے، اس کی مثال عمارت کی بنیاد کی ہے۔ اگر اسکی بنیاد صحیح اور مضبوط ہوگی تو عمارت بھی صحیح اور مضبوط ہوگی اور اگر بنیاد ہی کھوکھلی، کمزور اور غلط ہوگی تو عمارت بھی کمزور اور غلط ہوگی اور ایک نہ ایک دن اسکے بھیانک نتائج لاحق ہونگے۔ بس کسی کا عقیدہ درست ہو اور کثرت عبادت نہ بھی ہو تو ایک نہ ایک دن جنت ضرور ملے گی اور اگر عقیدہ ہی غلط اور باطل ہو تو اسکا ٹھکانہ ہمیشہ ہمیش کیلئے جہنم ہوگا۔ تو معلوم ہوا کہ عقیدہ ہر عمل کی قبولیت کی اولین شرط ہے، اگر عقیدہ درست ہوگا تو عمل قبول ہوگا اور اگر عقیدہ غلط ہوگا تو عمل قبول نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح عقیدہ اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


اسلام کے تین بنیادی عقائد:

اللہ تبارک و تعالیٰ نے دین اسلام کا دارومدار عقائد پر رکھا ہے اور اسلام کے تین بنیادی عقائد ہیں۔ ان تینوں عقیدوں پر ایمان لانا ضروری ہی نہیں بلکہ لازمی ہے۔ اگر کوئی شخص ان تین بنیادی عقائد میں سے کسی دو پر ایمان لاکر کسی ایک پر ایمان نہیں لاتا یا اس پر شک و شبہ کرتا ہے تو ایسا شخص گمراہ اور دائرہ اسلام سے خارج ہے، کیونکہ مسلمان ہونے کیلئے ان تینوں عقیدوں پر بلا کسی شک و شبہ کے ایمان لانا ضروری ہے۔قرآن و حدیث میں اللہ تبارک تعالیٰ اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جن تین بنیادی عقیدوں کا کثرت کے ساتھ تذکرہ کیا ہے وہ یہ ہیں؛ پہلا عقیدۂ توحید، دوسرا عقیدۂ رسالت اور تیسرا عقیدۂ آخرت ہے۔ لہٰذا مسلمان ہونے کیلئے بنیادی طور پر ان تین عقائد پر ایمان لانا بہت ضروری ہے۔ بقیہ ان عقائد پر بھی ایمان لانا ضروری ہے جو ایمان مفصل میں بیان کی گئی ہیں۔


عقیدۂ توحید اور اسکی اہمیت:

اسلام کے بنیادی عقائد میں سب سے پہلا عقیدہ عقیدۂ توحید ہے۔ عقیدۂ توحید کا مطلب یہ ہیکہ انسان یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی ذات و صفات اور جُملہ اوصاف و کمالات میں یکتا و بے مثال ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، وہ وحدہ لاشریک ہے۔ ہر شئی کا مالک اور رب ہے۔ کوئی اس کا ہم پلہ یا ہم مرتبہ نہیں۔ صرف وہی با اختیار ہے۔ ساری عبادتوں کے لائق وہی پاکیزہ ذات ہے۔ اس کے علاوہ تمام معبود باطل ہیں۔ وہ ہر کمال والی صفت سے متصف ہے اور تمام عیوب ونقائص سے پاک ہے۔ حتیٰ کہ اس کی نہ اولاد ہے اور نہ ہی وہ کسی سے پیدا ہوا ہے۔ عقیدۂ توحید اسلام کی اساس اور بنیاد ہے۔ عقیدۂ توحید تمام عقائد کی جڑ اور اصل الاصول ہے اور اعمالِ صالحہ دین کی فرع ہیں۔ ہر مسلمان کو اس بات سے بخوبی آگاہ ہونا چاہیے کہ مومن اور مشرک کے درمیان حد فاصل کلمۂ توحید ”لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللہ“ ہے۔ شریعت اسلامیہ اسی کلمۂ توحید کی تشریح اور تفسیر ہے۔ عقیدہ توحید کی اہمیت کا اندازہ فقط اس بات سے لگایا جاسکتا ہیکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جتنے بھی انبیاء کو مبعوث کیا سب کے سب انبیاء حتیٰ کہ خاتم النبیین حضرت محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بنیادی مقصد اور بنیادی دعوت عقیدۂ توحید ہی تھا۔ قرآن مجید کے سورۃ اعراف میں ہیکہ تمام انبیاء کرام اسی دعوت توحید کو لے کر آئے اور اپنی قوم سے یوں مخاطب ہوئے کہ: ”یَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہُ“ کہ ”اے میری قوم! اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔“ (سورۃ الاعراف، 59)۔ ایک حدیث میں ہیکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی سب سے پہلے مشرکین مکہ کو یہی دعوت توحید دیتے ہوئے فرمایا کہ ”یَا أیُّہَا النَّاسُ قُوْلُوْا لاَ الٰہَ الاّ اللّٰہُ تُفْلِحُوْا“ کہ ”اے لوگو! لاالٰہ الا اللہ کہو کامیاب رہوگے۔“ (مسند احمد)۔ توحید کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے توحید یعنی اپنی عبادت کی خاطر اس پوری کائنات کو بنایا اور اسی توحید کی طرف بلانے کے لیے انبیاء ورسل مبعوث فرمائے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے عالم ارواح میں اپنے بندوں سے سب سے پہلے اسی توحید کا اقرار لیا کہ: ”اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ“ کہ ”کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟“ تو بنی آدم نے جواب دیا: ”قَالُوْا بَلٰی،شَہِدْنَا“ کہ ”کیوں نہیں آپ ہمارے رب ہیں۔“ (سورۃ الاعراف، 172)۔ عقیدہ توحید کی تعلیم و تفہیم کے لیے حضرات انبیاء و خاتم النبیینﷺ، اصحاب رسول رضوان اللہ علیہم اجمعین، تابعین و تبع تابعین، ائمہ عظام و سلف صالحین، بزرگانِ دین و دیوبندی اکابرین نے بے شمار قربانیاں دیں ہیں کیونکہ عقیدہ توحید صرف آخرت کی کامیابی اور کامرانیوں کی ہی ضمانت نہیں، بلکہ دنیا کی فلاح، سعادت و سیادت، غلبہ و حکمرانی اور استحکام معیشت کا علمبردار بھی ہے۔ امت مسلمہ کے عروج اور زوال کی یہی اساس ہے۔ لہٰذا عقیدۂ توحید پر ایمان دونوں جہاں کی کامیابی ہے اور اسکی حفاظت و دعوت امت مسلمہ پر فرض عین ہے!


عقیدۂ رسالت اور اسکی اہمیت:

عقیدۂ رسالت دین اسلام کا دوسرا بنیادی عقیدہ ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر دور میں اپنی مخلوق کی ہدایت اور رہنمائی کیلئے اپنے برگزیدہ بندوں نبیوں اور رسولوں کو ان کے درمیان بھیجا، جو اللہ تعالیٰ کا پیغام لیکر امت تک پہنچاتے تھے۔یہ سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوکر امام الانبیاء، خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر ختم ہوا۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم الانبیاء حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات اقدس تک تمام انبیا و رسل کی نبوت اور رسالت کو برحق ماننے کو عقیدۂ رسالت کہتے ہیں۔ قرآن مجید کی متعدد آیات میں جہاں عقیدۂ توحید کا ذکر ہے وہیں عقیدۂ رسالت کا بھی واضح طور پر ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ النُّوْرِ الَّذِیْ اَنْزَلْنَا“ کہ ”پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس نور پر وہ جو اتارا ہم نے۔“ (سورۃتغابن، 8)۔ اللہ تعالیٰ کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ رسالت کی حکمت وجود باری تعالیٰ کی شہادت اور سفر حیات میں اس کے احکامات کی اطاعت ہے۔ رسول کی اطاعت ایک مستند ذریعہ ہے جس سے ہم کو اللہ کے احکام و فرامین پہنچتے ہیں۔ اللہ کے نبی پر ایمان اور اسکی اطاعت ہم پر فرض ہے اور اسکی شہادت کے بغیر ایمان نا مکمل ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہیکہ ”قُلْ یَآ اَیُّہَا النَّاسُ کہہ دو اے لوگو! اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَاِ  میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں، الَّذِیْ لَہ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ جس کی حکومت آسمانوں اور زمین میں ہے،  لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ یُحْیِیْ وَیُمِیْتُ  اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں وہی زندہ کرتا اور مارتا ہے، فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول اُمّی نبی پر الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَکَلِمَاتِہٖ وَاتَّبِعُوْہُ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُوْنَ جو کہ اللہ پر اور اس کے سب کلاموں پر یقین رکھتا ہے اور اس کی پیروی کرو تاکہ تم راہ پاؤ۔“ (سورۃ الاعراف، 158)۔ لہٰذا ہمیں یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ عقیدۂ توحید اور عقیدۂ رسالت ایمان کا اہم حصہ ہیں، جسکی شہادت و اطاعت پر ہی ہماری نجات کا دارومدار ہے۔ بعض گمراہ لوگ تمام انبیاء و رسل پر تو ایمان لاتے ہیں لیکن خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ختم نبوت کا انکار کرتے ہیں لہٰذا یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہیکہ جب تک کوئی شخص تمام انبیاء و رسل پر ایمان نہ لائے اور ساتھ میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو خاتم الانبیاء نہ مانے وہ صاحب ایمان نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خاتم النبیین جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت کا دروازہ ہمیشہ ہمیش کیلئے بند کردیا ہے۔ ترمذی شریف کی روایت ہیکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ ”اِنَّ الرِّسَالَۃَ وَالنُّبُوَّۃَ قَدْ انْقَطعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِیْ وَلَا نَبِیَ“ کہ ”اب نبوت اور رسالت کا انقطاع عمل میں آچکا ہے، لہٰذا میرے بعد نہ کوئی رسول آئے گا اور نہ کوئی نبی۔“ لہٰذا ایک مسلمان کو تمام انبیاء و رسل پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے کا اقرار کرنا لازمی ہے، ورنہ اس کے بغیر آدمی دائرہ اسلام سے خارج ہے۔


عقیدۂ آخرت اور اسکی اہمیت:

عقیدۂ آخرت، عقیدۂ توحید و رسالت کے بعد اسلام کا تیسرا بنیادی اور اہم عقیدہ ہے۔ آخرت سے مراد یہ ہے کہ یہ دنیا ایک دن فنا ہوجائے گی اور مرنے کے بعد ایک دن ہرجاندار کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ اور ان کے اعمال کے مطابق ان کا فیصلہ کیا جائے گا، نیک لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے جنت میں اور گناہگاروں کو اپنے عدل سے جہنم میں داخل فرمائے گا، اس بات پر کسی شک و شبہ کے بغیر یقین رکھنے کو عقیدۂ آخرت کہتے ہیں۔ جس طرح دیگر عقائد کے منکرین ہوتے ہیں اسی طرح اس دنیائے فانی میں عقیدۂ آخرت کے منکرین بھی پائے جاتے ہیں، جبکہ انکی دلیلیں بے بنیاد اور سرار غلط ہیں۔ قرآن مجید کی بے شمار آیات اور آپﷺ سے بے شمار احادیث عقیدہ آخرت کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہیکہ ”قُلِ اللّٰہُ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یَجْمَعُکُمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ لَا رَیْبَ فِیْہِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ“ کہ ”کہہ دو اللہ ہی تمہیں زندہ کرتا ہے پھر تمہیں مارتا ہے پھر وہی تم سب کو قیامت میں جمع کرے گا جس میں کوئی شک نہیں لیکن اکثر آدمی نہیں جانتے۔“ (سورۃ الجاثیہ،26)۔ اس آیت مبارکہ سے واضح ہوگیا کہ عقیدہ آخرت صحیح اور حق ہے، اسی لیے آخرت پر یقین کے بغیر ہمارا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا۔ عقیدۂ آخرت انسان کو اس تصور کے ساتھ زندگی گزارنے کی تعلیم دیتا ہے کہ کل قیامت کے دن ہمیں اللہ کے حضور تن تنہا حاضر ہونا ہوگا اور اپنے اعمال کا حساب و کتاب دینا ہوگا، وہاں کوئی رشتہ داری یا آل اولاد کام آنے والی نہیں، بس اپنے اعمال صالحہ کام آئیں گے۔ عقیدۂ آخرت کی وجہ سے جواب دہی کا احساس انسان کو نیکی و تقویٰ کی راہ پر گامزن کرتا ہے، اس کے افکار و نظریات کو ایمان کے رنگ میں رنگ دیتا ہے، اس کا ایمان اسے اخلاق حسنہ اور اعمال صالحہ کی بلندیوں پر پہونچا دیتا ہے۔ الغرض آخرت پر ایمان لانا نہ صرف ضروری ہے بلکہ لازم ہے، کیونکہ اسکے بغیر انسان دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔


بنیادی عقائد پر ایمان ضروری ہے:

دین اسلام کے ان تین بنیادی عقائد توحید، رسالت اور آخرت پر ایمان لانا نہ صرف ضروری ہے بلکہ لازمی ہے، اسکے بغیر اسلام کا کوئی تصور نہیں اور آدمی اس پر ایمان لائے بغیر دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ ان تین بنیادی عقائد کے ساتھ ساتھ ہمیں ان عقائد پر بھی ایمان لانا ضروری ہے جو ایمان مفصل میں درج ہیں۔ایمان مفصل میں سات اجزاء بیان کی گئی ہیں ”اٰمَنْتُ بِاِ وَمَلَاءِکَتِہ وَ کُتُبِہ وَ رُسُلِہ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَالْقَدْرِ خَیْرِہ وَ شَرِّہ مِنَ اِ تَعَالٰی وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ“ کہ ”ایمان لایا اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اور قیامت کے دن پر اور اس پر کہ اچھی بری تقدیر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے اور موت کے بعد اٹھائے جانے پر!“۔ (صحیح مسلم)۔


خلاصۂ کلام:

خلاصہ یہ ہے کہ اسلامی عقیدے کی تعلیم وتفہیم اور اس کی طرف دعوت دینا ہر دور کا اہم فریضہ ہے۔ کیونکہ اعمال کی قبولیت عقیدے کی صحت پر موقوف ہے۔ اور دنیا وآخرت کی خوش نصیبی اسے مضبوطی سے تھامنے پر منحصر ہے اور اس عقیدے کے جمال وکمال میں نقص یا خلل ڈالنے والے تمام قسم کے امور سے بچنے پر موقوف ہے۔ لیکن افسوس کہ عقائد کی جتنی اہمیت ہے اتنے ہی ہم عقائد کے معاملے میں غافل اور اسکی محنت سے دور ہیں۔ یہی وجہ ہیکہ آج جگہ جگہ فتنوں کی کثرت ہورہی ہے اور نئے نئے ارتدادی فتنے جنم لے رہے ہیں۔لہٰذا ہمیں عقائد اسلام پر اس طرح کی پختگی حاصل کرنی چاہیے کہ اس کے خلاف سوچنے یا عمل کرنے کی ہمارے اندر ہمت نہ ہو، اس کے خلاف سننا یا دیکھنا ہم سے برداشت نہ ہو، ہم اپنے عقائد پر اس طرح مضبوط ہوجائیں کہ پوری دنیا بھی اگر ہمارے پیچھے لگ جائے تب بھی ہم اپنے عقائد پر مضبوطی کے ساتھ جمے رہیں۔ کیونکہ عقائد اصل ہیں اور اعمال فرع ہیں اور صحیح عقائد ہی مدار نجات ہیں۔ لہٰذا ہمیں اپنے اور دوسروں کے عقیدوں کو درست کرنے کی فکر کرنی چاہیے تاکہ ہمیں دونوں جہاں کی خوشیاں اور کامیابیاں میسر ہو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارے دین و ایمان اور عقائد کی حفاظت فرمائے اور صحیح عقیدہ اپنانے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین یا رب العالمین


فقط و السلام

بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

٢١؍ ربیع الثانی ١٤٤٤ھ

17؍ نومبر 2022ء، بروز جمعرات


+91 8495087865

mdfurqan7865@gmail.com



#PaighameFurqan 

#پیغام_فرقان 

#Mazmoon #Article #AqaideIslam #AqidahIslam #IslamicBeleifs

Saturday, 6 February 2021

اسلام کے تین بنیادی عقائد!


اسلام کے تین بنیادی عقائد!

✍️بندہ محمّد فرقان عفی عنہ
(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

عقیدہ مضبوط بندھی ہوئی گرہ کو کہتے ہیں، دین کی وہ اصولی اور ضروری باتیں جن کا جاننا اور دل سے ان پر یقین رکھنا مسلمان کیلئے ضروری ہے۔اسلام میں عقیدہ کو اولیت حاصل ہے۔ صحیح عقیدے کے بعد ہی اعمال کی ابتداء ہوتی ہے۔ صحیح عقیدہ ہی وہ بنیاد ہے جس پر دین قائم ہوتا ہے، اور اس کی درستگی پر ہی اعمال کی صحت کا دارومدار ہے۔ حیات انسانی میں عقیدہ کی جو اہمیت ہے، اس کی مثال عمارت کی بنیاد کی ہے۔ اگر اسکی بنیاد صحیح اور مضبوط ہوگی تو عمارت بھی صحیح اور مضبوط ہوگی اور اگر بنیاد ہی کھوکھلی، کمزور اور غلط ہوگی تو عمارت بھی کمزور اور غلط ہوگی اور ایک نہ ایک دن اسکے بھیانک نتائج لاحق ہونگے۔ بس کسی کا عقیدہ درست ہو اور کثرت عبادت نہ بھی ہو تو ایک نہ ایک دن جنت ضرور ملے گی اور اگر عقیدہ ہی غلط اور باطل ہو تو اسکا ٹھکانہ ہمیشہ ہمیش کیلئے جہنم ہوگا۔ تو معلوم ہوا کہ عقیدہ ہر عمل کی قبولیت کی اولین شرط ہے، اگر عقیدہ درست ہوگا تو عمل قبول ہوگا اور اگر عقیدہ غلط ہوگا تو عمل قبول نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح عقیدہ اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

اسلام کے تین بنیادی عقائد:
اللہ تبارک و تعالیٰ نے دین اسلام کا دارومدار عقائد پر رکھا ہے اور اسلام کے تین بنیادی عقائد ہیں۔ ان تینوں عقیدوں پر ایمان لانا ضروری ہی نہیں بلکہ لازمی ہے۔ اگر کوئی شخص ان تین بنیادی عقائد میں سے کسی دو پر ایمان لاکر کسی ایک پر ایمان نہیں لاتا یا اس پر شک و شبہ کرتا ہے تو ایسا شخص گمراہ اور اسلام سے خارج ہے کیونکہ مسلمان ہونے کیلئے ان تینوں عقیدوں پر بلا کسی شک و شبہ کے ایمان لانا ضروری ہے۔ قرآن و حدیث میں اللہ تبارک تعالیٰ اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جن تین بنیادی عقیدوں کا کثرت کے ساتھ تذکرہ کیا ہے وہ یہ ہیں؛ پہلا عقیدۂ توحید، دوسرا عقیدۂ رسالت اور تیسرا عقیدۂ آخرت ہے۔ لہٰذا مسلمان ہونے کیلئے بنیادی طور پر ان تین عقائد پر ایمان لانا بہت ضروری ہے۔ بقیہ ان عقائد پر بھی ایمان لانا ضروری ہے جو ایمان مفصل میں بیان کی گئی ہیں۔

عقیدۂ توحید اور اسکی اہمیت:
اسلام کے بنیادی عقائد میں سب سے پہلا عقیدہ عقیدۂ توحید ہے۔ عقیدۂ توحید کا مطلب یہ ہیکہ انسان یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی ذات و صفات اور جُملہ اوصاف و کمالات میں یکتا و بے مثال ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، وہ وحدہ لاشریک ہے۔ ہر شئی کا مالک اور رب ہے۔ کوئی اس کا ہم پلہ یا ہم مرتبہ نہیں۔ صرف وہی با اختیار ہے۔ ساری عبادتوں کے لائق وہی پاکیزہ ذات ہے۔ اس کے علاوہ تمام معبود باطل ہیں۔ وہ ہر کمال والی صفت سے متصف ہے اور تمام عیوب ونقائص سے پاک ہے۔ حتیٰ کہ اس کی نہ اولاد ہے اور نہ ہی وہ کسی سے پیدا ہوا ہے۔ عقیدۂ توحید اسلام کی اساس اور بنیاد ہے۔ عقیدۂ توحید تمام عقائد کی جڑ اور اصل الاصول ہے اور اعمالِ صالحہ دین کی فرع ہیں۔ ہر مسلمان کو اس بات سے بخوبی آگاہ ہونا چاہیے کہ مومن اور مشرک کے درمیان حد فاصل کلمۂ توحید ”لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللہ“ ہے۔ شریعت اسلامیہ اسی کلمۂ توحید کی تشریح اور تفسیر ہے۔ عقیدۂ توحید کی اہمیت کا اندازہ فقط اس بات سے لگایا جاسکتا ہیکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جتنے بھی انبیاء کو مبعوث کیا سب کے سب انبیاء حتی کہ خاتم النبیین حضرت محمدﷺ کا بنیادی مقصد اور بنیادی دعوت عقیدۂ توحید ہی تھی۔ قرآن مجید کے سورۃ اعراف میں ہیکہ تمام انبیاء کرام اسی دعوت توحید کو لے کر آئے اور اپنی قوم سے یوں مخاطب ہوئے کہ: ’’يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللّـٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰـهٍ غَيْـرُهٝ ؕ‘‘  کہ ”اے میری قوم! اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔“ (سورۃ الاعراف، 59)۔  ایک حدیث میں ہیکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی سب سے پہلے مشرکین مکہ کو یہی دعوت توحید دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’یَا أیُّہَا النَّاسُ قُوْلُوْا لاَ الٰہَ الاّ اللّٰہُ تُفْلِحُوْا‘‘ کہ ”اے لوگو! لاالٰہ الا اللہ کہو کامیاب رہوگے۔“ (مسند احمد)۔ توحید کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے توحید یعنی اپنی عبادت کی خاطر اس پوری کائنات کو بنایا اور اسی توحید کی طرف بلانے کے لیے انبیاء ورسل مبعوث فرمائے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے عالم ارواح میں اپنے بندوں سے سب سے پہلے اسی توحید کا اقرار لیا کہ: ’’اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۖ ‘‘ کہ ”کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟“ تو بنی آدم نے جواب دیا: ’’قَالُوْا بَلٰىۚ شَهِدْنَاۚ‘‘ کہ ”کیوں نہیں آپ ہمارے رب ہیں۔“ (سورۃ الاعراف، 172)- عقیدۂ توحید کی تعلیم و تفہیم کے لیے حضرات انبیاء و خاتم النبیینﷺ، اصحاب رسول رضوان اللہ علیہم اجمعین، تابعین و تبع تابعین، ائمہ عظام و سلف صالحین، بزرگانِ دین و دیوبندی اکابرین نے بیشمار قربانیاں دیں ہیں کیونکہ عقیدۂ توحید صرف آخرت کی کامیابی اور کامرانیوں کی ہی ضمانت نہیں، بلکہ دنیا کی فلاح، سعادت و سیادت، غلبہ و حکمرانی اور استحکام معیشت کا علمبردار بھی ہے۔ امت مسلمہ کے عروج اور زوال کی یہی اساس ہے۔ لہٰذا عقیدہئ توحید پر ایمان دونوں جہاں کی کامیابی ہے اور اسکی حفاظت و دعوت امت مسلمہ پر فرض عین ہے!

عقیدۂ رسالت اور اسکی اہمیت:
عقیدۂ رسالت دین اسلام کا دوسرا بنیادی عقیدہ ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر دور میں اپنی مخلوق کی ہدایت اور رہنمائی کیلئے اپنے برگزیدہ بندوں نبیوں اور رسولوں کو ان کے درمیان بھیجا، جو اللہ تعالیٰ کا پیغام لیکر امت تک پہنچاتے تھے۔ یہ سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوکر امام الانبیاء، خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر ختم ہوا۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم الانبیاء حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات اقدس تک تمام انبیا و رسل کی نبوت اور رسالت کو برحق ماننے کو عقیدۂ رسالت کہتے ہیں۔ قرآن مجید کی متعدد آیات میں جہاں عقیدۂ توحید کا ذکر ہے وہیں عقیدۂ رسالت کا بھی واضح طور پر ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ النُّوْرِ الَّذِیْۤ اَنْزَلْنَاؕ‘‘ کہ ”پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس نور پر وہ جو اتارا ہم نے۔“ (سورۃتغابن، 8)۔ اللہ تعالیٰ کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ رسالت کی حکمت وجود باری تعالیٰ کی شہادت اور سفر حیات میں اس کے احکامات کی اطاعت ہے۔ رسول کی اطاعت ایک مستند ذریعہ ہے جس سے ہم کو اللہ کے احکام و فرامین پہنچتے ہیں۔ اللہ کے نبی پر ایمان اور اسکی اطاعت ہم پر فرض ہے اور اسکی شہادت کے بغیر ایمان نا مکمل ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہیکہ ”قُلْ یَآ اَیُّہَا النَّاسُ کہہ دو اے لوگو! اِنِّـىْ رَسُوْلُ اللّـٰهِ اِلَيْكُمْ جَـمِيْعَا ِۨ میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں، الَّـذِىْ لَـهٝ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ ۖ  جس کی حکومت آسمانوں اور زمین میں ہے، لَآ اِلٰـهَ اِلَّا هُوَ يُحْيِىْ وَيُمِيْتُ ۖ  اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں وہی زندہ کرتا اور مارتا ہے، فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول اُمّی نبی پر الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَکَلِمَاتِہٖ وَاتَّبِعُوْہُ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُوْنَ جو کہ اللہ پر اور اس کے سب کلاموں پر یقین رکھتا ہے اور اس کی پیروی کرو تاکہ تم راہ پاؤ۔“ (سورۃ الاعراف، 158)۔ لہٰذا ہمیں یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ عقیدۂ توحید اور عقیدۂ رسالت ایمان کا اہم حصہ ہیں، جسکی شہادت و اطاعت پر ہی ہماری نجات کا دارومدار ہے۔ بعض گمراہ لوگ تمام انبیاء و رسل پر تو ایمان لاتے ہیں لیکن خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ختم نبوت کا انکار کرتے ہیں لہٰذا یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہیکہ جب تک کوئی شخص تمام انبیاء و رسل پر ایمان نہ لائے اور ساتھ میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو خاتم الانبیاء نہ مانے وہ صاحب ایمان نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خاتم النبیین پر نبوت کا دروازہ ہمیشہ ہمیش کیلئے بند کردیا ہے۔ ترمذی شریف کی روایت ہیکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’اِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدْ انْقَطعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِيْ وَلَا نَبِيَ‘‘ کہ ”اب نبوت اور رسالت کا انقطاع عمل میں آچکا ہے لہٰذا میرے بعد نہ کوئی رسول آئے گا اور نہ کوئی نبی۔“ لہٰذا ایک مسلمان کو تمام انبیاء و رسل پر ایمان لانے کے  ساتھ ساتھ رسول اللہ کے آخری نبی ہونے کا اقرار کرنا لازمی ہے ورنہ اس کے بغیر آدمی اسلام سے خارج ہے۔

عقیدۂ آخرت اور اسکی اہمیت:
عقیدۂ آخرت عقیدۂ توحید و رسالت کے بعد اسلام کا تیسرا بنیادی اور اہم عقیدہ ہے۔ آخرت سے مراد یہ ہے کہ یہ دنیا ایک دن فنا ہوجائے گی اور مرنے کے بعد ایک دن ہرجاندار کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ اور ان کے اعمال کے مطابق ان کا فیصلہ کیا جائے گا، نیک لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے جنت میں اور گناہگاروں کو اپنے عدل سے جہنم میں داخل فرمائے گا، اس بات پر کسی شک و شبہ کے بغیر یقین رکھنے کو عقیدۂ آخرت کہتے ہیں۔ جس طرح دیگر عقائد کے منکرین ہوتے ہیں اسی طرح اس دنیائے فانی میں عقیدۂ آخرت کے منکرین بھی پائے جاتے ہیں، جبکہ انکی دلیلیں بیبنیاد اور سرار غلط ہیں۔ قرآن مجید کی بے شمار آیات اور آپﷺ سے بے شمار احادیث عقیدۂ آخرت کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہیکہ ’’قُلِ اللّـٰهُ يُحْيِيْكُمْ ثُـمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُـمَّ يَجْـمَعُكُمْ اِلٰى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا رَيْبَ فِيْهِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ‘‘ کہ ”کہہ دو اللہ ہی تمہیں زندہ کرتا ہے پھر تمہیں مارتا ہے پھر وہی تم سب کو قیامت میں جمع کرے گا جس میں کوئی شک نہیں لیکن اکثر آدمی نہیں جانتے۔“ (سورۃ الجاثیہ،26)۔ اس آیت مبارکہ سے واضح ہوگیا کہ عقیدۂ آخرت صحیح اور حق ہے، اسی لیے آخرت پر یقین کے بغیر ہمارا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا۔ عقیدۂ آخرت انسان کو اس تصور کے ساتھ زندگی گزارنے کی تعلیم دیتا ہے کہ کل قیامت کے دن ہمیں اللہ کے حضور تن تنہا حاضر ہونا ہوگا اور اپنے اعمال کا حساب و کتاب دینا ہوگا، وہاں کوئی رشتہ داری یا آل اولاد کام آنے والی نہیں، بس اپنے اعمال صالحہ کام آئیں گے- عقیدۂ آخرت کی وجہ سے جواب دہی کا احساس انسان کو نیکی و تقویٰ کی راہ پر گامزن کرتا ہے، اس کے افکار و نظریات کو ایمان کے رنگ میں رنگ دیتا ہے، اس کا ایمان اسے اخلاق حسنہ اور اعمال صالحہ کی بلندیوں پر پہونچا دیتا ہے۔ الغرض آخرت پر ایمان لانا نہ صرف ضروری ہے بلکہ لازم ہے، کیونکہ اسکے بغیر انسان اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔

بنیادی عقائد پر ایمان ضروری ہے:
دین اسلام کے ان تین بنیادی عقائد توحید، رسالت اور آخرت پر ایمان لانا نہ صرف ضروری ہے بلکہ لازمی ہے، اسکے بغیر اسلام کا کوئی تصور نہیں اور آدمی اس پر ایمان لائے بغیر اسلام سے خارج ہے۔ ان تین بنیادی عقائد کے ساتھ ساتھ ہمیں ان عقائد پر بھی ایمان لانا ضروری ہے جو ایمان مفصل میں درج ہیں۔ایمان مفصل میں سات اجزاء بیان کی گئی ہیں  ’’اٰمَنْتُ بِاﷲِ وَمَلَائِکَتِه وَ کُتُبِه وَ رُسُلِه وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْقَدْرِ خَيْرِه وَ شَرِّه مِنَ اﷲِ تَعَالٰی وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ‘‘ کہ ”ایمان لایا اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اور قیامت کے دن پر اور اس پر کہ اچھی بری تقدیر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے اور موت کے بعد اٹھائے جانے پر!“- (صحیح مسلم)۔

خلاصۂ کلام:
خلاصہ یہ ہے کہ اسلامی عقیدے کی تعلیم وتفہیم اور اس کی طرف دعوت دینا ہر دور کا اہم فریضہ ہے۔ کیونکہ اعمال کی قبولیت عقیدے کی صحت پر موقوف ہے۔ اور دنیا وآخرت کی خوش نصیبی اسے مضبوطی سے تھامنے پر منحصر ہے اور اس عقیدے کے جمال وکمال میں نقص یا خلل ڈالنے والے تمام قسم کے امور سے بچنے پر موقوف ہے۔ لیکن افسوس کہ عقائد کی جتنی اہمیت ہے اتنے ہی ہم عقائد کے معاملے میں غافل اور اسکی محنت سے دور ہیں۔ یہی وجہ ہیکہ آج جگہ جگہ فتنوں کی کثرت ہورہی ہے اور نئے نئے ارتدادی فتنے جنم لے رہے ہیں۔لہٰذا ہمیں عقائد اسلام پر اس طرح کی پختگی حاصل کرنی چاہیے کہ اس کے خلاف سوچنے یا عمل کرنے کی ہمارے اندر ہمت نہ ہو، اس کے خلاف سننا یا دیکھنا ہم سے برداشت نہ ہو، ہم اپنے عقائد پر اس طرح مضبوط ہوجائیں کہ پوری دنیا بھی اگر ہمارے پیچھے لگ جائے تب بھی ہم اپنے عقائد پر مضبوطی کے ساتھ جمے رہیں۔ کیونکہ عقائد اصل ہیں اور اعمال فرع ہیں اور صحیح عقائد ہی مدار نجات ہیں۔ لہٰذا ہمیں اپنے اور دوسروں کے عقیدوں کو درست کرنے کی فکر کرنی چاہیے تاکہ ہمیں دونوں جہاں کی خوشیاں اور کامیابیاں میسر ہو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارے دین و ایمان اور عقائد کی حفاظت فرمائے اور صحیح عقیدہ اپنانے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

فقط و السلام
بندہ محمد فرقان عفی عنہ*
(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)
٢٣؍ جمادی الثانی ١٤٤٢ھ
مطابق 06؍ فروری 2021ء

+91 8495087865
mdfurqan7865@gmail.com
_________________
*ابن مولانا محمد ریاض الدین مظاہری
متعلم جامعہ ابو ہریرہ ؓ اکیڈمی
بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند
صدر مجلس احرار اسلام بنگلور
رکن عاملہ جمعیۃ علماء ساؤتھ بنگلور

#پیغام_فرقان
#PaighameFurqan #Article #Mazmoon #AqaidIslam #IslamicBeliefs #AqaidSeries #AqaidArticles

Tuesday, 2 February 2021

اسلام میں عقیدہ کو اولیت حاصل ہے اور صحیح عقیدہ پر ہی دین قائم ہے!


 

اسلام میں عقیدہ کو اولیت حاصل ہے اور صحیح عقیدہ پر ہی دین قائم ہے!

عقائد اسلام کی حفاظت کے عہد کیساتھ مرکز تحفظ اسلام ہند کا چالیس روزہ سلسلہ عقائد اسلام اختتام پذیر!


02؍ فروری (ایم ٹی آئی ہچ): اسلام میں عقیدہ کو اولیت حاصل ہے۔ عقیدہ مضبوط بندھی ہوئی گرہ کو کہتے ہیں، دین کی وہ اصولی اور ضروری باتیں جن کا جاننا اور دل سے ان پر یقین کرنا مسلمان کیلئے ضروری ہے۔ صحیح عقیدے کے بعد ہی اعمال کی ابتداء ہوتی ہے۔ صحیح عقیدہ ہی وہ بنیاد ہے جس پر دین قائم ہوتا ہے، اور اس کی درستگی پر ہی اعمال کی صحت کا دارومدار ہے۔ کسی کا عقیدہ درست ہو اور کثرت عبادت نہ بھی ہو تو ایک نہ ایک دن جنت ضرور ملے گی اور اگر عقیدہ ہی غلط اور باطل ہو تو اسکا ٹھکانہ ہمیشہ ہمیش کیلئے جہنم ہوگا۔معلوم ہوا کہ عقائد اصل ہیں اور اعمال فرع ہیں اور صحیح عقائد ہی مدار نجات ہیں۔ لیکن افسوس کہ عقائد کی جتنی اہمیت ہے اتنے ہی ہم عقائد کے معاملے میں غافل اور اسکی محنت سے کوسو دور ہیں۔ بلکہ غفلت کا عالم یہ ہے کہ یہ احساس ہی دلوں سے مٹتا چلا جارہا ہے کہ عقائد درست کرنے اور سیکھنے کی بھی کوئی ضرورت ہے! یہی حال عصری تعلیمی اداروں کا بھی ہے کہ ان میں پروان چڑھنے والی ہماری نوجوان نسل اپنے دین کے ضروری عقائد سے بھی نابلد رہتی ہیں۔ یہی وجہ ہیکہ آج جگہ جگہ فتنوں کی کثرت ہورہی ہے اور نئے نئے ارتدادی فتنے جنم لے رہے ہیں۔اسی طرح اہل السنۃ والجماعۃ کے حق عقائد کے خلاف بھی مسلسل مہم جاری ہے تاکہ مسلمانوں کو حق جماعت اہل السنۃ والجماعۃ سے ہٹا کر گمراہی کی راہ پر لگایا جاسکے۔ مذکورہ خیالات کا اظہار مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے کیا۔


انہوں نے فرمایا کہ اگر ہر مسلمان اپنے دین کے بنیادی عقائد سیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کریں تو ان فتنوں سے بخوبی حفاظت ہوسکتی ہے۔ اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے گزشتہ دنوں مرکز تحفظ اسلام ہند نے 07؍ ڈسمبر 2020ء سے 15؍ جنوری 2021ء تک چالیس روزہ ”سلسلہ عقائد اسلام“ کا اہتمام کیا تا کہ عام فہم انداز میں ہر مسلمان کو عقائد سیکھنے کا موقع میسر آسکے۔ اس منفرد سلسلے کا آغاز مجلس تحفظ ختم نبوت ہانگ کانگ کے امیر حضرت مولانا محمد الیاس صاحب کے خطاب سے ہوا۔ اس چالیس روزہ سلسلہ کے دوران سوشل میڈیا پر عقائد سے متعلق دس مضامین، مختلف اکابر علماء دیوبند کی تصانیف میں سے دس کتابیں اور دارالعلوم دیوبند کے دس فتاویٰ نشر کیے گئے۔اور فقیہ العصر حضرت مولانا مفتی محمد شعیب اللہ خان صاحب مفتاحی مدظلہ کی کتاب اسلامی اسباق کے باب عقائد کو قسط وار اردو، ہندی اور رومن ترجمہ کے ساتھ اشتہارات کی شکل میں نشر کئے گئے، علاوہ ازیں اسی باب کو مرکز تحفظ اسلام ہند کے رکن شوریٰ قاری عبد الرحمن الخبیر بستوی قاسمی کی پرسوز آواز میں ریکارڈ کرکے ویڈیوز کی شکل میں جاری کئے گئے تاکہ جو لوگ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے وہ اس سے محروم نہ ہوں بلکہ آڈیو یا ویڈیو کو سن کر اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔اسی کے ساتھ متکلم اسلام حضرت مولانا محمد الیاس گھمن صاحب مدظلہ کے 44؍ قسطوں پر مشتمل کتاب ”شرح عقیدہ طحاویہ“ کے دروس کو بھی نشر کیا گیا۔ اور مختلف اکابرین کے مختصر پیغامات بطور واٹساپ اسٹیٹس بھی نشر کئے گئے۔اس چالیس روزہ سلسلہ کے دوران ہر ہفتے ”آن لائن تحفظ عقائد اسلام کانفرنس“ بھی منعقد ہوتی رہی، جس کی پہلی چار نشستوں سے مجلس تحفظ ختم نبوت ہانگ کانگ کے امیر مولانا محمد الیاس صاحب اور پانچویں و اختتامی نشست سے فقیہ العصر حضرت مولانا مفتی محمد شعیب اللہ خان صاحب مفتاحی مدظلہ نے خطاب کیا اور انہیں کی دعا سے چالیس روزہ سلسلہ عقائد اسلام اپنے اختتام کو پہنچا۔ مرکز کے آرگنائزر حافظ حیات خان نے فرمایا کہ مرکز تحفظ اسلام ہند کے اس چالیس روزہ”سلسلہ عقائد اسلام“کے ذریعہ مسلمانوں کو عام فہم انداز میں اسلام کے بنیادی عقائد کو سیکھنے اور سمجھنے کا موقع میسر ہوا۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے کی تمام چیزیں مضامین و کتب، فتاویٰ، اشتہارات، دروس، پیغامات و بیانات وغیرہ ہزاروں لوگوں تک پہنچے اور ایک بڑی تعداد مرکز کے مختلف پلیٹ فارم سے جڑی ہے۔اس چالیس روزہ سلسلہ کی نگرانی مرکز کے ناظم اعلیٰ مولانا محمد رضوان حسامی و کاشفی، مرکز کے اراکین شوریٰ مفتی محمد جلال قاسمی، مولانا محافظ احمد نے انجام دیں، علاوہ ازیں مرکز کی سوشل میڈیا ڈیسک تحفظ اسلام میڈیا سروس کے تمام اراکین نے پیغامات کی ترسیلات میں بھر پور حصہ لیا۔ مرکز تحفظ اسلام ہند کے اس منفرد ”سلسلہ عقائد اسلام“ کو مختلف اکابر علماء کرام نے سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔ اللہ تعالیٰ مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو شرف قبولیت بخشے اور پوری امت مسلمہ کے عقائد و ایمان کی حفاظت فرمائے!

Tuesday, 19 January 2021

ارتدادی فتنوں سے بچاؤ کیلئے عقائد اسلام کی حفاظت وقت کی اہم ترین ضرورت!


 

ارتدادی فتنوں سے بچاؤ کیلئے عقائد اسلام کی حفاظت وقت کی اہم ترین ضرورت!

آن لائن تحفظ عقائد اسلام کانفرنس کی اختتامی نشست سے مفتی محمد شعیب اللہ خان مفتاحی کا خطاب!


بنگلور، 19؍ جنوری (ایم ٹی آئی ہچ): مرکز تحفظ اسلام ہند کی فخریہ پیشکش چالیس روزہ”سلسلہ عقائد اسلام“ کے زیر اہتمام منعقد آن لائن تحفظ عقائد اسلام کانفرنس کی اختتامی نشست سے خطاب کرتے ہوئے جامعہ اسلامیہ مسیح العلوم، بنگلور کے بانی و مہتمم، فقیہ العصر حضرت مولانا مفتی محمد شعیب اللہ خان صاحب مفتاحی مدظلہ نے فرمایا کہ عقیدہ و ایمان وہ چیز ہے جس کے اوپر انسان کی نجات کا دار و مدار ہے۔ اور اعمال کا نمبر عقیدہ کے بعد آتا ہے۔ ایک آدمی کا عقیدہ صحیح نہ ہو اور دین و شریعت کے بتائے ہوئے قانون کے مطابق نہ ہو تو ایسا آدمی روزہ بھی رکھے، نماز بھی پڑھے، زکوٰۃ بھی دے، حج بھی کرے لیکن اسکا کوئی اعتبار نہیں ہوا کرتا کیونکہ اعمال کا اعتبار ایمان اور صحیح عقیدہ پر ہے۔ اس لیے اسکی بڑی ضرورت ہے کہ مسلمان اس بات پر توجہ دیں کہ انکا ایمان صحیح ہو اور انکا عقیدہ اسلامی عقیدہ کے مطابق ہو، اس لیے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم ایمان کو بھی لیکر آئے جیسے اعمال کو لیکر آئے اور آپ نے لوگوں کو واضح طور پر بتا دیا کہ ایمان کیا ہوتا ہے؟ ایمان کیسا ہوتا ہے؟ ایمان کے لوازمات کیا ہیں؟ ایمان کے تقاضے کیا ہیں؟ کچھ چیزیں قرآن پاک نے بتائی اور کچھ چیزیں محمد عربی صلی اللہ علیہ و سلم نے اسکی تشریح میں اور اسکی وضاحت میں ارشاد فرمائیں۔ مفتی صاحب نے درد بھرے انداز میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ آج عقیدہ میں بڑی کمزوریاں پائی جاتی ہیں، اور نہ صرف یہ کہ کمزوریاں بلکہ کئی طبقات ایسے ہیں جنکے اندر عقیدہ کی خرابیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ ایک ہے کمزوری کا ہونا اور ایک ہے خرابی کا ہونا، کمزوری اگرچہ نہیں ہونا چاہیے لیکن ایک حدتک قابل برداشت ہوتی ہے لیکن عقیدہ ہی خراب ہوجائے تو ساری چیزیں بیکار ہیں۔


مولانا نے فرمایا کہ اللہ کے بارے میں، اللہ کے رسولوں کے بارے میں، تقدیر کے بارے میں، صحابہ کے بارے میں، اہل اللہ کے بارے میں کیا عقیدہ رکھنا چاہیے یہ اسلام نے واضح طور پر ہمیں بتایا ہے لیکن اس کے باوجود بعض لوگ غلطیاں کرتے ہیں اور اپنے اندر عقیدہ کی خرابی پیدا کر لیتے ہیں یہاں تک کہ انکا عقیدہ اسلامی عقیدہ سے ہٹا ہوا ہوتا ہے۔ مفتی صاحب نے فرمایا کہ اہل سنت و الجماعت جن میں اصحاب رسولؓ، تابعین، تبع تابعین اور ہر دور کے اہل حق کا طبقہ شامل ہے، انہوں نے ہم کو بتایا کہ کس کے بارے میں کیا عقیدہ رکھنا چاہیے، اس لیے کہ اگر عقیدہ خراب ہو گیا تو آدمی اہل سنت و الجماعت سے نکل جاتا ہے۔ مولانا مفتاحی نے فرمایا کہ ایک یہ ہے کہ آدمی ایمان نہ لائے، ایمان نہ لایا تو کافر ہو گیا اور اسکا اسلام سے کوئی رشتہ اور کوئی تعلق نہیں لیکن ایک آدمی ایمان تو رکھتا ہے، لیکن اسکے عقیدہ میں کچھ خرابیاں پیدا ہو گئی، اسکی وجہ سے وہ اہل سنت کے عقیدہ سے ہٹ جاتا ہے۔ اس لیے بڑی ضرورت ہے کہ اہل سنت کے عقیدہ کے مطابق اپنے عقیدوں کی اصلاح کی جائے، اپنے عقیدوں کو بنایا اور سوارا جائے۔


مفتی شعیب اللہ خان صاحب مفتاحی نے فرمایا کہ حدیث میں آقا نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا بنی اسرائیل 72؍ فرقوں میں بٹ گئے تھے اور میری امت 73؍ فرقوں میں بٹ جائے گی ان میں سے 72؍ فرقے جہنم میں جائیں گے اور ایک فرقہ نجات پائے گا، حضرات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پوچھا کہ یا رسول اللہؐ وہ ناجی فرقہ کونسا ہے؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا ”ما انا علیہ و اصحابی“ جو ان عقیدوں پر قائم ہو، جو اس ڈگر پر قائم ہو، اُس روش پر قائم ہو جس پر میں ہوں اور میرے صحابہ ہیں وہ فرقہ جنتی ہوگا۔ اور یہی عقیدہ اہل سنت و الجماعت کا ہے، جس کی طرف اللہ کے نبیؐ نے اشارہ کیا۔ مفتی صاحب نے فرمایا کہ آج ضرورت ہیکہ ہمیں اپنے اور دوسروں کے خصوصاً ہماری نئی نسلوں کے عقیدوں کو درست کرنے کی فکر کرنی چاہیے کیونکہ عقیدوں کی خرابی ہی وہ وجہ ہیکہ آج ہماری نئی نسلیں ارتدادی فتنوں کا شکار ہوتی جارہی ہیں۔ لہٰذا ارتدادی فتنوں سے بچاؤ کیلئے عقائد اسلام کی حفاظت وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ قابل ذکر ہیکہ مفتی محمد شعیب اللہ خان صاحب مفتاحی مدظلہ نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا اور اس منفرد چالیس روزہ سلسلہ عقائد اسلام پر مبارکبادی پیش کی۔ علاوہ ازیں مفتی صاحب کی ہی دعا سے یہ سلسلہ اور کانفرنس اپنے اختتام کو پہنچی۔

Thursday, 14 January 2021

انسان کی نجات صحیح عقیدہ و ایمان پر منحصر ہے؛ توحید، رسالت اور آخرت اسلام کی بنیادی عقائد ہیں

 


انسان کی نجات صحیح عقیدہ و ایمان پر منحصر ہے؛ توحید، رسالت اور آخرت اسلام کی بنیادی عقائد ہیں!

آن لائن تحفظ عقائد اسلام کانفرنس سے مولانا محمد الیاس کا خطاب!


بنگلور، 14؍ جنوری (ایم ٹی آئی ہچ): مرکز تحفظ اسلام ہند کی آن لائن تحفظ عقائد اسلام کانفرنس کی تیسری اور چوتھی نشست سے خطاب کرتے ہوئے مجلس تحفظ ختم نبوت ہانگ کانگ کے امیر مولانا محمد الیاس صاحب نے فرمایا کہ عقیدہ و ایمان کا نور تین ستونوں پر جگمگاتا ہے جسکو علماء کی اصطلاح میں ”الایمان بثلاثیات“ کہا جاتا ہے یعنی ایمان کے تین نہایت ہی اہم مسئلے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ پورے قرآن پاک میں الم کی الف سے لیکر والناس کی سین تک جگہ جگہ ان تین چیزوں کو بیان کیا گیا ہے۔ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی مجلسوں میں مختلف لوگوں کے سامنے مختلف مقامات پر بیان کیا ہے، پہلا توحید، دوسرا رسالت، تیسرا آخرت، یہ تینوں عنوانات ہیں اور انکو یاد رکھنا بہت ضروری ہے، یہی وہ عنوانات ہیں جس پر انسان کی نجات ٹھہری ہوئی ہے۔


مولانا محمد الیاس نے عقیدۂ توحید پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ مولانا ادریس کاندھلویؒ نے اپنی کتاب”عقائد الاسلام“ میں اللہ رب ذوالجلال والاکرام کے متعلق 33؍ عقیدے لکھے ہیں۔ انہوں نے لکھا ہیکہ اللہ جل شانہ ایک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اس لیے کہ شرکت عیب ہے اور اللہ تعالیٰ ہر عیب سے پاک ہے۔ نیز شریک کی ضرورت جب ہوتی ہے کہ جب وہ کافی اور مستقل نہ ہو اور یہ نقص ہے جو الوہیت کے منافی ہے، اور جب وہ خود کافی اور مستقل ہوگا تو شریک کا وجود عبث اور بیکار ہوگا اور وہ خدا نہیں ہو سکتا۔پس شریک ثابت کرنے سے دو شریکوں میں سے کسی ایک شریک کا ناقص اور عیب دار ہونا لازم آتا ہے جو الوہیت کے منافی ہے۔ غرض یہ کہ شرکت کا ثابت کرنا شرکت کی نفی کو مستلزم ہے، پس ثابت ہوا کہ اللہ کا شریک محال ہے اور جب یہ ثابت ہو گیا کہ خدا کا کوئی شریک نہیں تو اس سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ خدا کے لیے نہ کوئی بیٹا ہو سکتا ہے اور نہ بیٹی، اس لیے کہ اولاد باپ کی ہم جنس اور ہم نوع ہوتی ہے۔ مولانا الیاس صاحب نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ذات کے اعتبار سے بھی اکیلا ہے اور صفات کے اعتبار سے بھی اکیلا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی پاک ذات میں بھی کوئی شریک نہیں اور اس پاک ذات کی صفات میں بھی کوئی شریک نہیں۔ اسی کو عقیدۂ توحید کہا جاتا ہے۔ مولانا الیاس صاحب نے اہل سنت و الجماعت کے عقیدۂ توحید پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ہے جو ہمیشہ ہمیش سے ہے اور ہمیشہ رہیگی نہ جسکی ابتدا ہے نہ انتہا، اور یہ شان صرف اور صرف اللہ کی ہے اللہ کے سوا یہ کسی کی شان نہیں۔ مولانا نے فرمایا جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات قدیم ہے ازلی و ابدی ہے ٹھیک اسی طرح اللہ کی صفات بھی قدیم ہیں، ازلی و ابدی ہیں۔ اور اہل سنت کا یہ عقیدہ بھی ہے کہ اللہ کی ذات ایک ہے اور اسکی صفتیں بہت ساری ہیں تو یہ صفات نہ عین ذات ہیں، نہ غیر ذات ہیں، بلکہ یہ سب لوازم ذات ہیں۔


مولانامحمد الیاس صاحب نے مولانا نورالحسن بخاریؒ کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا پہلا مقصد ہی عقیدۂ توحید کی خدمت ہے۔ مولانا الیاس نے دو ٹوک الفاظ میں فرمایا کہ علماء اہل سنت و الجماعت کے نزدیک عقیدہ توحید اللہ تعالیٰ کو صرف ماننے اور صرف اللہ اللہ کرنے کا نام نہیں بلکہ عقیدۂ توحید یہ ہے کہ فقط اسی ایک اللہ کی عبادت ہو اور مشکل کشاء بھی اسی ایک کو سمجھا جائے پھر حاجت روا بھی فقط اسی پاک ذات کو مانا جائے۔ قابل ذکر ہیکہ مولانا محمد الیاس صاحب نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔ اطلاعات کے مطابق مرکز تحفظ اسلام ہند کی فخریہ پیشکش چالیس روزہ ”سلسلہ عقائد اسلام“ اور آن لائن تحفظ عقائد اسلام کانفرنس کا اختتامی پروگرام 15؍ جنوری 2021ء کو منعقد ہے اور فقیہ العصر حضرت مولانا مفتی محمد شعیب اللہ خان صاحب مفتاحی مدظلہ کے خطاب و دعا سے اس سلسلے اور کانفرنس کا اختتام ہوگا۔

Wednesday, 13 January 2021

عقائد اسلام اور اسکی اہمیت!



 { پیام فرقان - 02 } 


🎯عقائد اسلام اور اسکی اہمیت!


✍️بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


عقیدہ مضبوط بندھی ہوئی گرہ کو کہتے ہیں، دین کی وہ اصولی اور ضروری باتیں جن کا جاننا اور دل سے ان پر یقین کرنا مسلمان کیلئے ضروری ہے- اسلام میں عقیدہ کو اولیت حاصل ہے- صحیح عقیدے کے بعد ہی اعمال کی ابتداء ہوتی ہے- صحیح عقیدہ ہی وہ بنیاد ہے جس پر دین قائم ہوتا ہے، اور اس کی درستگی پر ہی اعمال کی صحت کا دارومدار ہے- حیات انسانی میں عقیدہ کی جو اہمیت ہے، اس کی مثال عمارت کی بنیاد کی ہے- اگر اسکی بنیاد صحیح اور مضبوط ہوگی تو عمارت بھی صحیح اور مضبوط ہوگی اور اگر بنیاد ہی کھوکھلی، کمزور اور غلط ہوگی تو عمارت بھی کمزور اور غلط ہوگی اور ایک نہ ایک دن اسکے بھیانک نتائج لاحق ہونگے- بس کسی کا عقیدہ درست ہو اور کثرت عبادت نہ بھی ہو تو ایک نہ ایک دن جنت ضرور ملے گی اور اگر عقیدہ ہی غلط اور باطل ہو تو اسکا ٹھکانی ہمیشہ ہمیش کیلئے جہنم ہوگا- معلوم ہوا کہ عقائد اصل ہیں اور اعمال فرع ہیں اور صحیح عقائد ہی مدار نجات ہیں- لیکن افسوس کہ عقائد کی جتنی اہمیت ہے اتنے ہی ہم عقائد کے معاملے میں غافل اور اسکی محنت سے دور ہیں- یہی وجہ ہیکہ آج جگہ جگہ فتنوں کی کثرت ہورہی ہے اور نئے نئے ارتدادی فتنے جنم لے رہے ہیں- لہٰذا ہمیں عقائد اسلام پر اس طرح کی پختگی حاصل کرنی چاہیے کہ اس کے خلاف سوچنے یا عمل کرنے کی ہمارے اندر ہمت نہ ہو، اس کے خلاف سننا یا دیکھنا ہم سے برداشت نہ ہو، ہم اپنے عقائد پر اس طرح مضبوط ہوجائیں کہ پوری دنیا بھی اگر ہمارے پیچھے لگ جائے تب بھی ہم اپنے عقائد پر مضبوطی کے ساتھ جمے رہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے عقائد کی حفاظت فرمائے- آمین


فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

13 جنوری 2021ء بروز بدھ

+918495087865

mdfurqan7865@gmail.com



Tuesday, 12 January 2021

عقیدہ ایمان کا دوسرا نام ہے، عقیدۂ توحید اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے!



 عقیدہ ایمان کا دوسرا نام ہے، عقیدۂ توحید اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے!

آن لائن تحفظ عقائد اسلام کانفرنس سے مولانا محمد الیاس کا خطاب!


ٍ بنگلور، 12/ جنوری (ایم ٹی آئی ہچ): مرکز تحفظ اسلام ہند کی آن لائن تحفظ عقائد اسلام کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مجلس تحفظ ختم نبوت ہانگ کانگ کے رکن حضرت مولانا محمد الیاس صاحب نے فرمایا کہ عقیدہ کا لغوی معنی گرہ کے ہیں اور اصطلاحی (اسلامی) معنی ایمان کے ہیں یعنی عقیدہ کا دوسرا نام ایمان ہے۔ عقیدہ اس بات کو کہتے ہیں جس بات کو ماننا اور جاننا ہر انسان کے لیے ضروری ہے۔ اعمال کیلئے عقیدہ ایسا ہے جیسے انسان کے جسم کیلئے روح، معلوم ہوا کہ اعمال کی روح اور جان صحیح عقیدہ ہے۔ اسکی اہمیت فقط اس بات سے لگائی جاسکتی ہیکہ امام اعظم ابو حنیفہؒ نے اعمال کی فقہ لکھنے سے پہلے”فقہ الاکبر“ کے نام سے عقائد کی فقہ لکھی تاکہ امت کے عقائد کی حفاظت ہو سکے۔ مولانا الیاس صاحب نے فرمایا کہ مولانا ادریس کاندھلویؒ فرماتے ہیں کہ ضروریات دین کی ہر بات کو ماننا ایمان ہے اور ضروریات دین میں سے کسی بات کا انکار کرنا کفر ہے۔ انہوں نے کتاب ”عقائد الاسلام“کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ جسکے عقیدے صحیح ہوں گے اس کے حق میں دوزخ کا دائمی عذاب مفقود ہے۔ مولانا الیاس نے دو ٹوک الفاظ میں فرمایا کہ اسلام کی بنیاد میں اگر ایک عقیدہ بھی خراب ہو گیا تو اسلام کی تمام عمارت خراب ہو گئی۔ اور عقیدہ و ایمان ایک ایسا نور ہے کہ یہ جس دل میں آئیگا تو پورا آئیگا ورنہ ذرا بھی نہیں آئیگا۔ حضرت نے فرمایا یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک آدمی 90/ فیصد مسلمان ہو اور 10/ فیصد کافر ہو یا 90/ فیصد کافر ہو اور 10/ فیصد مسلمان ہو۔ لہٰذا عقائد اسلام کی اہمیت و عظمت کو جاننا اور سمجھنا بہت ضروری ہے۔


آن لائن تحفظ عقائد اسلام کانفرنس کی دوسری نشست میں عقیدۂ توحید پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا محمد الیاس نے فرمایا کہ عقیدۂ توحید اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے۔ مولانا الیاس نے کتاب ”عقائد الاسلام“ کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنی قدیم ذات اور صفات کے ساتھ خود بخود موجود اور موصوف ہے اور اسکے سوا تمام اشیاء اسی کی ایجاد سے موجود ہوئی ہیں، خدا تعالیٰ کو خدا اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ وہ خود بخود ہے اس کی ہستی خود اسی سے ہے اور اسکی ذات و صفات کے سوا تمام عالم اور اسکی تمام اشیاء حادث اور نو پیدا ہیں عدم سے وجود میں آئی ہیں۔ اسی لیے جہان کی کوئی شے ایک حال پر قائم نہیں تغیر اور تبدل کی آماجگاہ اور فنا اور زوال کی جولا نگاہ بنی ہوئی ہے۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ عالم خود بخود موجود نہیں ہوا۔ بلکہ اسکا وجود اور ہستی کسی اور ذات کا عطیہ ہے۔ پس وہ ذات بابرکات جو تمام اشیاء کے وجود اور ہستی کا مالک ہے اسی کو ہم اللہ اور خدا اور مالک الملک کہتے ہیں، اور اصل مالک یعنی مالک حقیقی بھی وہی ہے۔ جسکے قبضۂ قدرت میں تمام کائنات کا وجود ہو۔ مولانا نے فرمایا کہ خوب سمجھ لو کہ حقیقی مالک وہی ہے جو وجود کا مالک ہے اور جو وجود کا مالک نہیں وہ حقیقی مالک نہیں۔ مولانا الیاس نے فرمایا کہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء آفرینش عالم سے اس وقت تک تمام دنیا کے ہر حصے اور خطے میں تقریباً سب کے سب خدا تعالیٰ کے قائل رہے اور دنیا کے تمام مذاہب و ادیان سب اس پر متفق ہیں کہ خدائے برحق موجود ہے، اسی نے اپنی قدرت اور ارادے سے اس عالم کو پیدا کیا۔ مولانا نے فرمایا کہ مادہ پرستوں کا گروہ جن کا دوسرا نام منکرین مذہب ہے وہ نہایت بے باکی کے ساتھ خدا کے وجود کا انکار کرتے ہیں۔ اور یہ کہتا ہے کہ خدا کا کوئی واقعی وجود نہیں۔ خدا محض ایک موہوم اور فرضی شے ہے۔ حالانکہ یہ بات سراسر غلط اور بے بنیاد ہے۔ قابل ذکر ہے کہ مولانا محمد الیاس صاحب نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔ اطلاعات کے مطابق مرکز تحفظ اسلام ہند کی فخریہ پیشکش چالیس روزہ ”سلسلہ عقائد اسلام“ اپنے اختتام کی طرف گامزن ہے۔ بتایا جارہا ہیکہ اسی سلسلے کی سب سے اہم کڑی آن لائن تحفظ عقائد اسلام کانفرنس سے عنقریب مولانا احمد ومیض صاحب ندوی نقشبندی اور مفتی شعیب اللہ خان صاحب مفتاحی مدظلہم وغیرہ بھی خطاب کرنے والے ہیں۔

Wednesday, 6 January 2021

وجودِ باری تعالیٰ اور توحید کا اثبات واقعاتی دلائل سے!


 

وجودِ باری تعالیٰ اور توحید کا اثبات واقعاتی دلائل سے! 


از قلم : حضرت مولانا عبد الصمد صاحب


عقیدۂ توحید کی اہمیت اور ضرورت کے متعلق حضرت مولانا مفتی محمد شفیع  ؒ کی عبارت ملاحظہ فرمائیں:

’’عقیدۂ توحید جو اسلام کا سب سے پہلا بنیادی عقیدہ ہے، یہ صر ف ایک نظر یہ نہیں، بلکہ انسان کو صحیح معنی میں انسان بنانے کا واحد ذریعہ ہے جو انسان کی تمام مشکلات کا حل اور ہر حالت میں اس کی پناہ گاہ، اور ہر غم و فکر میں اس کا غمگسار ہے، کیونکہ عقیدۂ توحید کا حاصل یہ ہے کہ: عناصر کے کون و فساد اور ان کے سارے تغیرات صرف ایک ہستی کی حیثیت کے تابع اور اس کی حکمت کے مظاہر ہیں:


ہر  تغیر  ہے  غیب  کی  آواز

ہر  تجدُّد  میں  ہیں  ہزاروں  راز


اس عقیدہ کا مالک ساری دنیا سے بے نیاز، ہر خوف و خطر سے بالاتر ہوکر زندگی گزارتا ہے۔‘‘        (معارف القرآن، ص: ۱۳۹)

ہمارے اکابر اور اسلاف نے ہر دور میں مسئلہ توحید سمجھانے کے لیے روز مرہ زندگی میں پیش آنے والے واقعات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سمجھانے کی پوری پوری کوشش فرمائی ہے۔ جب بھی اسلاف سے توحید کے متعلق سوالات کیے گئے تو اللہ تبارک نے مخالفین کے حالات کے اعتبار سے ان کے دل میں ایسی مثالیں ڈالیں جو بیان کرنے کے بعد بہت ہی مؤثر ثابت ہوئیں اور ہدایت کا ذریعہ بنیں۔ اس طرح کے واقعات تو بہت زیادہ ہیں، لیکن ہم یہاں چند نمونے کے طور پر ذکر کر رہے ہیں، جن میں ابھی تک افادیت اور تاثیر کی خوشبو مہک رہی ہے :

۱:- امام اعظم ابو حنیفہ ؒ ایک دن اپنی مسجد میں تشریف فرما تھے، دہریوں کے خلاف آپ ننگی تلوار تھے،ا دھریہ لوگ آپ کو فرصت کا موقع پاکر قتل کرنے کے در پے رہتے تھے۔ ایک دن دہریہ لوگ تلوار یں تان کر جماعت کی شکل میں امام ابوحنیفہؒ کے پاس آدھمکے اور وجودِ باری تعالیٰ کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ: میں اس وقت ایک بڑی سوچ میں ہوں، لوگوں نے مجھ سے کہا ہے کہ ایک بہت بڑی کشتی جس میں طرح طرح کا تجارتی سامان ہے، مگر نہ کوئی اس کا نگہبان ہے نہ چلانے والا ہے، مگر اس کے باوجود برابر آجا رہی ہے اور بڑی بڑی موجوں کو خود بخود چیرتی، پھاڑتی گزر جاتی ہے، رُکنے کی جگہ پر رُک جاتی ہے اور چلنے کی جگہ پر چلنے لگتی ہے، نہ کوئی ملاح ہے، نہ منتظم۔ سوال کرنے والے دہریوں نے کہا کہ: آپ کس سوچ میں پڑ گئے؟ کوئی عقلمند انسان ایسی بات کہہ سکتا ہے کہ اتنی بڑی کشتی نظام کے ساتھ طوفانی سمندر میں آئے جائے، اور کوئی اس کا نگران اور چلانے والا نہ ہو؟! حضرت امام صاحب ؒ نے فرمایا کہ: افسوس تمہاری عقلوں پر کہ ایک کشتی تو بغیر چلانے والے کے نہ چل سکے، لیکن یہ ساری دنیا آسمان وزمین کی سب چیزیں ٹھیک اپنے اپنے کام پر لگی رہیں اور اس کا مالک حاکم اور خالق کوئی نہ ہو؟ یہ جواب سن کر وہ لاجواب ہو گئے اور حق معلوم کرکے اسلام لائے۔ (التفسیر الکبیر، ج:۱، ص: ۳۳۳۔ تفسیر ابن کثیر، ج:۱، ص:۵۹۔ الخیرات الحسان، ص: ۷۹)

۲:-امام مالک ؒ سے ہارون رشید نے پوچھا کہ: اللہ تعالیٰ کے وجود پر کیا دلیل ہے؟ آپ نے فرمایا: زبانوں کا مختلف ہونا، آوازوں کا جدا ہونا، لب ولہجہ کا الگ ہونا، ثابت کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ ہے۔ (التفسیر الکبیر، ج:۱، ص: ۳۳۴۔ ابن کثیر، ج: ۱، ص: ۵۸)

۳:- امام شافعی ؒ سے وجودِ باری تعالیٰ کے بارے میں سوال کیا گیا کہ تو آپ نے جواب دیا کہ: شہتوت درخت کے سب پتے ایک ہی جیسے ہیں، ایک ہی ذائقہ کے ہوتے ہیں، کیڑے اور شہد کی مکھی اور گائے، بکریاں اور ہرن وغیرہ سب اس کو چاٹتے ہیں، کھاتے ہیں، چگتے ہیں، چرتے ہیں، اسی کو کھا کر کیڑے میں سے ریشم نکلتا ہے، شہد کی مکھی شہد دیتی ہے، ہرن میں مشک پیدا ہوتا ہے، گائے، بکریاں اسے کھا کر مینگنیاں دیتی ہیں، کیا یہ اس امر کی صاف دلیل نہیں کہ ایک ہی پتے میں مختلف خواص پیدا کرنے والا کوئی ہے؟ اور اسی کو ہم اللہ تبارک تعالیٰ کہتے ہیں، وہ ہی موجد اور صانع ہے۔ (التفسیر الکبیر، ج:۱ ، ص:۳۳۳۔ ابن کثیر، ج: ۱، ص: ۵۷)

۴:- امام احمد بن حنبل ؒ سے ایک بار وجودِ باری تعالیٰ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ: سنو، یہاں ایک نہایت مضبوط قلعہ ہے، جس میں کوئی دروازہ نہیں، نہ کوئی راستہ ہے، بلکہ سوراخ تک نہیں، باہر سے چاندی کی طرح چمک رہا ہے اور اندر سے سونے کی طرح دمک رہا ہے اور اوپر نیچے دائیں بائیں چاروں طرف سے بالکل بند ہے۔ ہوا تک اس میں نہیں جا سکتی ہے، اچانک اس کی ایک دیوار گرتی ہے اور ایک جاندار آنکھوں والا ، کانوں والا بولتا چلتا، خوبصورت شکل والا، پیاری بولی والا، چلتا پھرتا نکل آتا ہے۔ بتائو! اس بند اور محفوظ مکان میں اسے پیدا کرنے والا کوئی ہے یا نہیں؟ اور وہ ہستی انسانی ہستیوں سے بالا تر اور اس کی قدرت غیر محدود ہے یا نہیں؟ آپ کا مطلب یہ تھا کہ انڈے کو دیکھو جو ہر طرف سے بند ہے، پھر اس کی سفید زردی سے پروردگار خالق یکتا جاندار بچہ پیدا کر دیتا ہے، یہ ہی دلیل ہے خدا کے وجود پر اور اس کی توحید پر۔ (التفسیرالکبیر، ج:۱، ص: ۳۳۴۔ ابن کثیر، ج: ۱، ص: ۵۹)

۵:- عالمِ اسلام اور اہلِ بیتؓ کی مشہور شخصیت حضرت جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ  کے پاس ایک زندیق ملحد آیا اور صانع و خالق کا انکار کرنے لگا۔ امام نے اس کو سمجھانے کی غرض سے سوال کیا کہ: تم نے کبھی سمندر کا سفر کشتی پر کیا ہے؟ اس نے جواباً کہا: جی ہاں ، پھر امام نے پوچھا کہ: کیاتونے سمندر کے خوفناک حالات کابھی کبھی مشاہدہ کیا ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں! پھر امام نے فرمایا: کیسے؟ ذرا تفصیل تو بتائیں؟ اس شخص نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ: ایک دن سمندری سفر کے دوران سخت خوف زدہ طوفانی ہوا چل پڑی، جس کے نتیجہ میں کشتی بھی ٹوٹ گئی اور ملاح بھی ڈوب کر مرگئے۔ میں نے ٹوٹی ہوئی کشتی میں سے ایک تختہ کو پکڑا، لیکن بالآخر سمندری موجوں کی وجہ سے وہ تختہ بھی مجھ سے چھوٹ گیا، بالآخر سمندری موجوں  نے مجھے کنارے تک پہنچا دیا۔ یہ سن کر حضرت جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا کہ: پہلے تو سمندری سفر کے دوران سمندری پانی سے گزرنے کے لیے کشتی پر اعتماد کرکے سوار ہوا اور ساتھ ساتھ ملاحوں پر بھی اعتماد کیا، لیکن جب یہ دو نوں ختم ہو گئے تو کشتی کے ایک تختہ پر اعتماد کرکے اپنے آپ کو بچانے کے لیے تو نے اس پراعتماد کیا، یہ جب سارے سہارے ختم ہوئے تو تونے اپنے آپ کو ہلاکت کے لیے تیار کرلیا۔ اس پر حضرت جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا کہ: کیا تونے اس کے بعد سلامتی کی تمنا کی؟ کہا کہ: جی ہاں، حضرت جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا کہ: اس درد ناک حالت میں سلامتی کی امید کس سے رکھی؟ وہ شخص خاموش ہوگیا۔ اس پر حضرت جعفر رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا کہ: اس خوفناک حالت میں تونے جس سے سلامتی کی اُمید رکھی، یہ ہی تو صانع وخالق ہے، جس نے تجھے غرق ہونے سے بچایا۔ یہ سن کر وہ آپ ؒ کے ہاتھ پر مسلمان ہو گیا۔ واہ کیا ہی سمجھانے کا انداز ہے ۔ (التفسیر الکبیر، ج: ۱، ص: ۳۳۳)

۶:- امام اعظم ابو حنیفہ ؒ سے ایک بار وجودِ باری تعالیٰ کے متعلق سوال کیا گیا تو آپؒ نے فرمایا کہ: تم نے یہ نہیں دیکھا کہ والدین کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ لڑکا پیدا ہو، لیکن اس کے برعکس لڑکی پیدا ہو جاتی ہے۔ اسی طرح بعض اوقات والدین کی یہ آرزو ہوتی ہے کہ لڑکی پیدا ہو، لیکن اس کے برعکس لڑکا پیدا ہو جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کوئی ایسی ذات ہے جو والدین کی خواہش کی تکمیل میں مانع ہے اور اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتی ہے۔ یہ وہی ذات ہے جس کو ہم اللہ تبارک تعالیٰ کہتے ہیں۔ (التفسیر الکبیر، ج:۱، ص: ۳۳۳)

۷:- شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ  وجودِ باری تعالیٰ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ: جس دہریہ سے چاہیں پوچھ دیکھئے کہ تمہاری کتنی عمر ہے؟ وہ ضرور بیس ، تیس، چالیس، پچاس کوئی عدد یقینی یا تخمینی بیان کرے گا، جس کے معنی یہ ہیں کہ ہم کو موجود ہوئے اتنے برس ہوئے ہیں۔ اب اس سے پوچھئے کہ آیا آپ خود بخود پیدا ہو گئے یا کسی نے تم کو پیدا کیا ہے؟ اور پھر وہ پید ا کرنے والا ممکن ہے یا واجب؟ یہ تو ظاہر ہے کہ وہ خود بخود پیدا نہیں ہوا، ورنہ واجب الوجود ہو جاتا،ا ور ہمیشہ پایا جاتاا ور پھر معدوم نہ ہوتا۔ جس کا وجود اپنا ہو‘ وہ ہمیشہ رہتا ہے۔ یہ بد یہی بات ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس کا پیدا کرنے والا ممکن نہیں، ورنہ تسلسل لازم آئے گا، اور پھر اس ممکن کے پیدا کرنے والے اور پھر اس کے پیدا کرنے میں کلام کیا جائے اور یہ سلسلہ کسی واجب الوجود کی طرف منتہی مانا جائے گا، جس نے ہم کو اس خوبی اور محبوب کی شان میں پیدا کیا ہے، وہ رب ہے جس کا ہر زمان میں ایک جدا نام ہے اور جب وہ خالق ہے تو اس میں علم، قدرت ، حیات، ارادہ وغیرہ عمدہ صفات بھی ہیں، خواہ وہ عین ذات ہو یا غیر، خواہ لاعین ولاغیر۔ (تفسیر حقانی، ج:۱، ص: ۱۱۲)

۸:- کسی بدوی دیہاتی سے وجودِ باری تعالیٰ کے بارے میں سو ال کیا گیا تو اس نے کہا کہ: ’’یَا سُبْحَانَ اللّٰہِ اِنَّ البَعْرَۃَ تَدُلُّ عَلَی الْبَعِیْرِ‘‘ زمین پر پڑی ہوئی مینگنیاں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ یہاں سے اونٹ گزر گیا ہے۔ ’’وَإِنَّ اَثَرَ الأََ قْدَامِ یَدُ لُّ عَلَی المَسِیْرِ‘‘  زمین پر پائوں کے نشانات سے کسی آدمی کے گزرنے کا پتہ چلتا ہے۔ ’’وَالْرَّوْثُ عَلَی الْحَمِیْر‘‘  لید سے گدھے کا پتہ چلتا ہے۔  ’’فَسَمَائٌ ذَاتِ الْأَبْرَاجِ وَأَرْضٌ ذَاتُ فِجَاجِ وَبحَارٌ ذَاتُ الْأَمْوَاجِ، أَلاَ یَدُلُّ عَلٰی ذٰلِکَ؟‘‘  تو کیا برجوں والا آسمان، اور راستوں والی زمین، اور موج مارنے والے سمندر، اللہ تعالیٰ باریک بین اور خبردار کے وجود پر اور توحید پر دلیل نہیں بن سکتے؟ ۔ ( التفسیر الکبیر، ج: ۱، ص: ۳۳۴۔ تفسیر ابن کثیر، ج: ۱، ص: ۵۹)

۹:-ایک حکیم سے وجودِ باری تعالیٰ کے بارے میں سوال کیا گیا کہ آپ نے اپنے رب کو کیسے پہچانا؟ تو فرمایا کہ : ’’ ہڑ اگر خشک استعمال کی جائے تو اسہال کر دیتی ہے اور اگر تر گیلی نرم کھا ئی جائے تو اسہال کو روک دیتی ہے۔‘‘ ( التفسیر الکبیر، ج:۱، ص: ۳۳۴)

۱۰:- ایک حکیم سے سوال کیا گیا کہ آپ نے اپنے رب کو کیسے پہچانا؟ تو فرمایا کہ: شہد کی مکھی کے ذریعہ، وہ اس طرح کہ شہد کی مکھی کی دو طرف ہوتی ہیں: ان میں سے ایک طرف سے تو شہد دیتی ہے اور دوسری طرف  سے ڈنگ مارتی ہے اور یہ شہد حقیقت میں اس ڈنگ کے نتیجہ میں حاصل ہوتی ہے:  ’’عرفتہ بنحلۃ  بأحد طرفیھا تعسل والآخر تلسع والعسل مقلوب اللسع۔‘‘  (التفسیرالکبیر، ج:۱، ص: ۳۳۴)

۱۱:-  ابن المعتز کا قول ہے کہ افسوس اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اس کی ذات کے جھٹلانے پر لوگ کیسی دلیری کرجاتے ہیں، حالانکہ ہر چیز اس پر وردگار کی ہستی اور وحدہٗ لاشریک ہونے پر گواہ ہے:


فیا عجباً کیف یعص الإلٰہ

أم کیف یجحدہ الجاحد

و في کل شيء لہٗ آیۃ

تدل علی أنہ واحد

 (تفسیر ابن کثیر، ج: ۷، ص: ۵۹)


پیشکش: سلسلہ عقائد اسلام، شعبۂ تحفظ اسلام میڈیا سروس، مرکز تحفظ اسلام ہند

توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے!


 

توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے! 


 از قلم : فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب مدظلہ


ریاست تلنگانہ میں ابھی ابھی برادرانِ وطن کا تیوہار گنیش پوجا گذرا ہے ، اس علاقہ میں اس تیوہار کو بڑے تزک و احتشام اور شوق و اہتمام کے ساتھ منایا جاتا ہے ، شہروں میں اس کے بڑے بڑے جلوس نکالے جاتے ہیں ، برادرانِ وطن اپنے عقیدہ کے مطابق مذہبی جذبات کا اظہار کرتے ہیں ، یقینا انھیں اس کا پورا پورا حق حاصل ہے اور اگر یہ تقریب قانون کا حق ادا کرتے ہوئے اور امن کو برقرار رکھتے ہوئے منائی جائے تو کسی کو اس پر اعتراض کا حق نہیں ، مسلمانوں نے اس ملک میں شروع سے بجا طورپر اس کا خیال رکھا ہے کہ ان کا کوئی عمل دوسرے مذہبی گروہوں کے لئے تکلیف اور دل آزاری کا سبب نہ ہو ، اس کا خیال رکھنا نہ صرف قانون کے لحاظ سے ضروری ہے ؛ بلکہ ہمارے مذہب نے بھی ہمیں یہی تعلیم دی ہے ، اسی کا نام ’’رواداری ‘‘ہے ، کہ ہم اپنے مذہب پر عمل کریں ، مگر دوسروں کے مذہبی معاملات میں دخل نہ دیں ، نہ ہم کوئی ایسی بات کہیں ، جس سے دوسروں کا دل دُکھے اور نہ ہم کوئی ایسا عمل کریں ، جس سے دوسروں کو خلل ہو ۔


لیکن اس بار مختلف مقامات سے اس طرح کی خبریں آئیں کہ وہاں مسلمان مرد و خواتین نے باضابطہ پوجا میں شرکت کی ، بالخصوص حیدرآباد کے قریبی شہر نلگنڈہ میں کچھ ایسے لوگوں نے جن کے نام مسلمانوں کی طرح کے ہیں ، گنیش جی کا منڈپ بنایا ، اس میں مورتیاں رکھیں ، مسلمان نوجوان اور برقعہ پوش خواتین وہاں جاکر بیٹھتے رہے اور قول و عمل کے ذریعہ یگانگت کا اظہار کرتے رہے ، شہر کے بعض فکر مند اور درد مند بزرگ علماء نے خواص کو توجہ دلائی اور عوام کو روکنے کی کوشش کی ؛ لیکن بدقسمتی سے سماج کے ذمہ دار مسلمانوں کو اس کی جیسی کچھ اہمیت محسوس کرنی چاہئے تھی ، محسوس نہیں کی گئی ، ایک نادانی ان لوگوں کی ہے ، جنھوںنے ایسی حرکت کی ، اور ایک تغافل ان لوگوں کا ہے ، جنھوںنے حوصلہ سے کام لے کر قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے ایسے واقعہ کو روکنے کی کوشش نہیں کی ، اس طرح کے واقعات اب ملک بھر کے مختلف علاقوں میں پیش آنے لگے ہیں ، ایسی سوچ کا پیدا ہونا اور مسلمانوں کا یہ طرز فکر کا اختیار کرنا بڑا ہی خطرناک اور لائق تشویش بات ہے ۔


حقیقت یہ ہے کہ رواداری جائز ہے اور مداہنت ناجائز ؛ لیکن رواداری اور مداہنت کی سرحدیں ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہیں ، اس لئے بہت بے دار مغزی کے ساتھ دونوں کے فرق کو سمجھنا چاہئے ، دوسرے مذہبی طور و طریق کو اختیار کرلینا مداہنت ہے رواداری نہیں ہے ، مجھ سے تو میرا کوئی ہندو بھائی دریافت کرے کہ میں آپ کے ساتھ نماز پڑھنا چاہتا ہوں ، اگرچہ کہ میرا ادارہ مسلمان ہونے کا نہیں ہے ، تو مجھے اس کے اس ارادہ سے کوئی خوشی نہیں ہوگی ؛ بلکہ میں اس کو مشورہ دوں گا کہ بہتر ہے کہ آپ نماز نہ پڑھیں ؛ کیوںکہ آپ نماز پر یقین نہیں رکھتے ، آپ کا نماز پڑھنا ایسا ہی ہوگا کہ جیسے آپ کا ارادہ تو ہو ممبئی جانے کا ، اور آپ کا کوئی دوست دلی جارہا ہو تو آپ اس کے لحاظ میں دلی کی ٹرین میں بیٹھ جائیں ، یہ کوئی حقیقت پسندی کی بات نہ ہوگی ؛ بلکہ ناسمجھی کا عمل ہوگا ۔


ہم جب اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے عقیدہ اور عملی زندگی دونوں میں ان تعلیمات کو قبول کیا ہے ، جو قرآن و حدیث کے ذریعہ ہمیں معلوم ہوئی ہیں ، ہمارے لئے یہ بات تو ضروری ہے کہ جیسے ہم خود ایک عقیدہ رکھتے ہیں ، ہم دوسرے بھائیوں کے لئے بھی اس حق کو تسلیم کریں کہ انھیں بھی اپنی پسند کے مطابق مذہب کو اختیار کرنے کا حق حاصل ہے ، آخرت کا مسئلہ اللہ کے حوالہ ہے ؛ لیکن دنیا میں ہمارے لئے کسی پر اپنا عقیدہ تھوپنے کی اجازت نہیں ، اللہ تعالیٰ نے خود ارشاد فرمایا ہے کہ اگر اللہ کو یہ بات منظور ہوتی کہ سارے کے سارے لوگ مسلمان ہی ہوں تو تم سب کو ایک ہی اُمت بنا دیاجاتا : ’’ وَلَوْ شَآئَ ﷲ ُلَجَعَلَکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً‘‘ (المائدۃ : ۴۸ ، النحل : ۹۳) اس سے معلوم ہوا کہ مذاہب و ادیان کا اختلاف اللہ تعالیٰ کی مشیت کے دائرہ میں ہے ، اس اختلاف کو اس دنیا میں مٹایا نہیں جاسکتا ۔


لیکن ہمارے لئے اس بات کی گنجائش بھی نہیں ہے کہ ہم اپنے آپ کو مسلمان بھی کہیں اور ایسی باتوں کو بھی قبول کرلیں جو اسلامی عقیدہ سے ٹکراتی ہوں ، یہ ہرگز رواداری نہیں ، یہ مداہنت ، نفاق ، موقع پرستی اور بے ضمیری ہے ، اسلام کے تمام عقائد کی بنیاد توحید ہے ، اس عقیدہ کی ترجمانی کلمہ طیبہ ’’ لا اِلٰہ الا اللہ ‘‘ سے ہوتی ہے ، اس کلمہ میں اثبات بھی ہے اور نفی بھی ، تسلیم بھی ہے اور انکار بھی ، اقرار بھی ہے اور براء ت کا اظہار بھی ، اس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات موجود ہے اور وہ ایک ہے ، یہ پہلو کفر کی ایک خاص قسم ’’ کفر الحاد ‘‘ کی تردید کرتا ہے ، الحاد کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے وجود ہی کو نہ مانا جائے ، جیساکہ آج کل کمیونسٹ کہتے ہیں ، یا جیساکہ بہت سے اہل مغرب اور مشرقی ملکوں کے مغرب زدہ لوگ کہا کرتے ہیں ، اس کائنات کو سر کی آنکھوں سے دیکھنے اور اس کی نعمتوں سے فائدہ اُٹھانے کے باوجود خدا کا انکار کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص کہے کہ میں بغیر باپ کے اپنے آپ پیدا ہوگیا ہوں ، یقینا ایسا کہنے والے کو لوگ یا تو پاگل کہیں گے یا سمجھیں گے کہ یہ ثابت النسب نہیں ہے ۔


اس کلمہ کا منفی پہلو یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی اور خدا نہیں ، خدائی میں شرکت نہیں ہے ؛ بلکہ وحدت ہے ، یہ کفر کی ایک دوسری قسم ’’ کفر شرک ‘‘ کی تردید کے لئے ہے ، یہ بات قابل توجہ ہے کہ کلمۂ طیبہ میں پہلے اسی منفی پہلو کا ذکر کیا گیا ہے ، مثبت پہلو کا ذکر بعد میں آیا ہے ، قرآن مجید میں جو دلائل پیش کئے گئے ہیں ، وہ زیادہ تر شرک کی تردید کے لئے ہیں ، مختلف انبیاء نے جو اپنی قوموں کو خطاب فرمایا ہے ، اس کی تفصیل قرآن مجید میں موجود ہے ، ان سبھوں کا ہدف شرک کا رد کرنا تھا ، جن جن قوموں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آیا ہے ، ان کی اصل بیماری شرک ہی تھی ؛ البتہ شرک کی مختلف شکلیں ان کے یہاں مروج تھیں ، کوئی قوم مورتی پوجا کرتی تھی ، کوئی سورج ، چاند اور ستاروں کی پوجا کرتی تھی ، کسی کے یہاں بادشاہ پرستی مروج تھی ، کوئی جانور کا پرستار تھا ؛ لیکن اللہ تعالیٰ کی معبودیت میں دوسروں کو شریک ٹھہرانا ان میں قدرِ مشترک تھا ، اہل علم نے لکھا ہے کہ مسلمان کے لئے توحید کے اقرار کے ساتھ باطل معبودوں سے براء ت کا اظہار بھی ضروری ہے ، ( مفاتیح الغیب : ۶؍۲۵۴)اسی لئے اسلامی عقائد کے مشہور ترجمان امام طحاویؒ اپنی کتاب ’’ العقیدۃ الطحاویۃ‘‘ میں اور اس کے مشہور شارح علامہ ابن ابی العز حنفی فرماتے ہیں : ’’یہی وہ کلمہ توحید ہے ، جس کی طرف تمام پیغمبروں نے دعوت دی اور اس کلمہ میں توحید کا ذکر نفی و اثبات دونوں اعتبار سے ہے ، جو حصر کا تقاضا کرتا ہے ، اس لئے کہ اگر صرف خدا کا اثبات ہوتا تو اس میں ( دوسرے خدا کی ) شرکت کا احتمال ہوسکتا تھا ‘‘ ( شرح العقیدۃ الطحاویۃ : ۱۰۹) ایک اور موقع پر فرماتے ہیں :


’’جان لوکہ توحید رسولوں کی بنیادی دعوت ہے ، یہ راستہ کی پہلی منزل ہے اور یہی وہ مقام ہے جس کے ذریعہ سالک اللہ کے مقام تک پہنچ سکتا ہے ؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ نوح نے کہا : اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو ، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے ، ( اعراف : ۵۹) اور حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا : اللہ کی عبادت کرو کہ اللہ کے سوا تمہارا اور کوئی معبود نہیں ، ( اعراف : ۶۵) نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ہم نے ہر اُمت میں رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور غیر اللہ کی عبادت سے بچو ، ( نحل : ۳۶) اسی لئے مکلف پر جو پہلا فریضہ عائد ہوتا ہے ، وہ یہی ہے کہ وہ اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ‘‘۔ ( شرح العقیدۃ الطحاویۃ : ۷۷)


قرآن و حدیث کی اگر تمام تعلیمات کو جمع کیا جائے تو اس کا غالب حصہ عقیدۂ توحید کی تعلیم اور ہر قسم کے شرک کی تردید سے جڑا ہوا ہے ، مسلمان جس حال میں بھی رہے اور جیسی کچھ آزمائش سے گذرے ؛ لیکن اس کی زبان پر ہمیشہ یہی کلمہ رہے :


إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ اَعْبُدَ اﷲِ وَلَآ أُشْرِکَ بِہٖ ، إِلَیْہِ أَدْعُوْا وَإِلَیْہِ مَآبِ ۔ (الرعد : ۳۶)


مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ کی عبادت کروں اور اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤں ، میں اسی کی طرف دعوت دیتا ہوں اور اسی کی طرف ہماری واپسی ہے ۔


مسلمانوں نے سب کچھ برداشت کیا ؛ لیکن عقیدۂ توحید کے بارے میں کبھی جانتے بوجھتے مداہنت گوارا نہیں کیا ، جب صحابہ نے رسول اللہ ا کے حکم سے حبش کی طرف ہجرت فرمائی اور وہاں انھیں امن و سکون نصیب ہوا تو اہل مکہ کو یہ بات گوارا نہیں ہوئی اور انھوںنے ان کے پاس اپنے نمائندے بھیجے ، حبش کے بادشاہ نجاشی نے مسلمانوں کو بھی طلب کیا اور ان کی مخالفت میں آنے والے وفد کو بھی ، مسلمانوں کی طرف سے حضرت جعفر بن ابی طالبؓ نے ایک مؤثر تقریر فرمائی اور اس میں ان خوشگوار تبدیلیوں کا ذکر فرمایا ، جو پیغمبر اسلام صلی اللہ ا کی بعثت سے عرب کے جاہلی معاشرہ میں آئی ، جس نے کانٹوں کو پھول اور ذروں کو آفتاب بنادیا تھا ، نجاشی بہت متاثر ہوئے ، مسلمانوں کو قیام کی اجازت دی اور مخالفین کے لائے ہوئے تحائف بھی واپس کردیئے ، اہل مکہ نے دوبارہ آپس میں مشورہ کیا کہ عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا مانتے ہیں ، اور محمد ا اللہ کا بندہ ، تو کل ہم بادشاہ کے سامنے رکھیں گے کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ایسی بات کہتے ہیں ، جو آپ کے لئے بہت ہی ناگوار خاطر ہوگی ؛ چنانچہ وہ اس شکایت کو لے کر پہنچے ، مسلمانوں کے وفد کی دوبارہ طلبی ہوئی ، صحابہ نے آپس میں مشورہ کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق سوال کا ہمیں کیا جواب دینا چاہئے ، حضرت جعفر ؓنے فرمایا : خدا کی قسم ہم وہی کہیں گے ، جو ہمارے رسول ا نے ہمیں بتایا ہے ، چاہے اس کی وجہ سے جوبھی صورت حال پیش آئے ، انھوںنے پوری قوت کے ساتھ نجاشی کے سامنے یہ بات کہی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بیٹے نہیں ہیں ، خدا کے بندے اور پیغمبر ہیں ، نجاشی خود صاحب علم تھے ، حضرت جعفرؓ کی صدق کلامی اور صاف گوئی نے ان کو بے حد متاثر کیا اورانھوںنے ایک تنکا اُٹھاکر کہا کہ جتنی بات اِنھوںنے کہی ہے ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شخصیت اُس سے اِس تنکے کے برابر بھی زیادہ نہیں ہے ۔ ( مسند احمد : ۱؍ ۲۰۲، حدیث نمبر : ۱۷۴۰)


غرض کہ ایسے نازک حالات میں بھی صحابہ نے نہ صرف توحید پر استقامت اختیار کی ؛ بلکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں سکوت اختیار کرنے یا اَنجان بن جانے کا راستہ بھی اختیار نہیں کیا ، مسلمان فکری پستی کی اِس سطح پر آجائے کہ شرکِ صریح مبتلا ہوجائے ، یہ ایک ناقابل تصور بات ہے ، حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ مکہ کے بڑے بڑے سردار ولید بن مغیرہ ، عاص بن وائل ، اسود بن عبد المطلب اوراُمیہ بن خلف وغیرہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انھوںنے آپ کے سامنے دو تجویزیں رکھیں ؛ تاکہ آپسی جھگڑا ختم ہوجائے ، ایک یہ کہ ہم بھی آپ کے خدا کی عبادت کریں اور آپ بھی ہمارے بتوں کی پوجا کرلیجئے ، یا مدت متعین کرلیں کہ ایک سال آپ کے خدا کی عبادت ہو ، ہم اور آپ سب مل کر آپ کے خدا کی عبادت کریں اور ایک سال ہماری مورتیوں کی پوجا ہو اور ہم اور آپ مل کر پوجا کریں ، اسی موقع پر سورۂ کافرون نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے واضح فرمادیا کہ نہ ہم تمہارے معبودوں کی عبادت کرسکتے ہیں اور نہ تم اس بات کے لئے تیار ہو کہ تنہا ہمارے خدا کی عبادت کرو ، تواس طرح عبادت میں تو اشتراک ممکن نہیں کہ ہم اللہ کو ایک بھی مانیں اور اللہ کے ساتھ شریک بھی ٹھہرائیں ؛ لیکن قابل عمل صورت یہ ہے کہ آپ اپنے مذہب پر عمل کریں ، ہماری طرف سے کوئی چھیڑ خوانی نہیں ہوگی ، اور ہمیں ہمارے مذہب پر عمل کرنے دیں ۔ ( تفسیر قرطبی : ۲۰؍۲۲۵- ۲۲۷)


اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کی ایک شکل تو یہ ہے کہ آدمی زبان سے کسی کو شریک ٹھہرائے اور دوسری شکل یہ ہے کہ وہ اپنے عمل کے ذریعہ اس کا اظہار کرے ، جیسے کوئی شخص غیر اللہ کو سجدہ کرے ، غیر اللہ کے نام سے جانور ذبح کرے ، زبان سے کچھ نہ کہے ؛ لیکن غیر اللہ کے سامنے ایسا عمل کرے جس کو پوجا سمجھا جاتا ہو ، یہ بھی شرک ہے ، صحابہ نے آپ ا سے سجدہ کرنے کی اجازت چاہی ؛ لیکن آپ نے اس کی اجازت نہیں دی ، ( ابوداؤد ، باب فی حق الزوج علی المرأۃ ، حدیث نمبر : ۲۱۴۰) صحابہ نے دوسروں کے سامنے جھکنے کی اجازت طلب کی ؛ لیکن آپ نے اس کو بھی گوارا نہیں فرمایا ، ( سنن الترمذی ، حدیث نمبر : ۲۷۲۸) جس وقت دوسری قومیں سورج کی پوجا کیا کرتی تھیں ، آپ نے ان اوقات میں نماز پڑھنے کو منع فرمادیا ، (بخاری ، کتاب مواقیت الصلاۃ ، حدیث نمبر : ۵۸۱) شریعت کے اسی مزاج کو سامنے رکھتے ہوئے فقہاء نے شعلہ پھینکتے ہوئے چراغ کے سامنے نماز پڑھنے کو منع کیا ؛ کیوںکہ اس میں آتش پرستوں کی مشابہت ہے ، (المحیط البرہانی : ۵؍۳۰۸) نمازی اس طرح نماز پڑھے کہ بالکل اس کے سامنے کسی شخص کا چہرہ ہو ، اس کو بھی روکا گیا ، ( حوالۂ سابق) کیوںکہ اس میں شرک کا ایہام ہے ، اسی مصلحت کے تحت تصویر کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھنے کو منع فرمایا گیا ہے ، (حوالۂ سابق: ۵؍۳۰۹) کہ صاحب تصویر کی عبادت کی شکل نہ محسوس ہو ۔


دوسرے مذاہب کے شعائر کو اختیار کرنے کی ممانعت کی گئی ؛ چنانچہ مجوسی ایک خاص قسم کی ٹوپی پہنتے تھے ، اس ٹوپی سے منع کیا گیا ، برہمنوں کی طرح کمر میں زنار باندھنے سے منع کیا گیا ، ( فتاویٰ ہندیہ : ۲؍ ۲۷۶) آتش پرستوں کے یہاں مذہبی تقریب کی حیثیت سے ’ نو روز ‘منایا جاتا تھا ، اس میں شرکت کو بعض فقہاء نے کفر قرار دیا ہے ، ( مالا بد منہ : ۱۳۸) ممتاز فقیہ اور مصلح حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ فرماتے ہیں :


جو چیزیں دوسری قوموں کی مذہبی وضع ہیں ، ان کا اختیار کرنا کفر ہے ، جیسے صلیب لٹکانا ، سرپر چوٹی رکھنا ، جنیو باندھنا ،یا ’’ جے ‘‘ پکارنا وغیرہ ۔ ( حیات المسلمین : ۲۲۴)


فقہاء نے جن صورتوں کا ذکر کیا ہے ، مورتی بیٹھانا اور اس کی تعظیم میں وہاں بیٹھنا ، یا اس پر پھول چڑھانا اس سے کہیں بڑھا ہوا عمل ہے ، اس لئے جہاں بھی جو لوگ اپنی نادانی ، ناسمجھی اور غلط رہنمائی کی وجہ سے اس کے مرتکب ہوئے ہیں ، ان کو توبہ کرنی چاہئے ، استغفار کرنا چاہئے اورعزم مصمم کرنا چاہئے کہ ہم آئندہ ہر قیمت پر ایسے عمل سے بچیں گے اور دوسروں کو بھی بچائیں گے ، دنیا کے چند سکوں کے لئے ایمان کھودینا پانا نہیں ہے کھونا ہے ، اور دنیا کی متاع حقیر کے لئے آخرت کا سودا کرلینا فائدہ نہیں ہے نقصان عظیم ہے ۔


و ما عند اﷲ خیر من اللھو ومن التجارۃ واﷲ خیر الرازقین ۔


پیشکش : سلسلہ عقائد اسلام، شعبۂ تحفظ اسلام میڈیا سروس، مرکز تحفظ اسلام ہند

اسلام میں عقیدہ کی اہمیت



 اسلام میں عقیدہ کی اہمیت


از قلم :مفتی محمد انعام اللہ حسن صاحب


ہماری موت سے پہلے اور بعد کی زندگی میں مکمل کامیابی کا ضابطہ کیا ہے؟ اس سوال کا جواب قرآن مجید میں متعدد مقامات پر، الگ الگ انداز میں دیا گیا ہے ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایمان لانا اور اعمالِ صالحہ (نیک اعمال ) کا اہتمام کرنا دونوں جہاں کی حقیقی اور ابدی کامیابی کی ضمانت ہے۔

پھر ایمان اور اعمالِ صالحہ دونوں میں بنیادی چیز ایمان ہے ، اگر آدمی کے دل میں ایمان ہے تو اس کے اعمال صالحہ قابل قبول ہیں ،ورنہ اعمالِ صالحہ کے پہاڑ بھی ایمان کے بغیر آخرت میں کسی کام کے نہیں !قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے :” وَمَنْ یَّکْفُرْ بِالْاِیْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہ،، وَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ”(سورہئ مائدہ ،آیت:٥)

ترجمہ:” اور جو ایمان سے انکار کریگا تو اس کا عمل ضائع ہوجائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔”

اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ مذہبِ اسلام میں سب سے بنیادی چیز’ ایمان ‘ ہے۔

ایمان کیا ہے؟

اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جن حقیقتوں کو بغیر دیکھے مان لینے اور دل سے یقین کر لینے کا حکم دیا ہے ؛ ان پر دل سے یقین کرنے اور دل کی گہرائیوں میں انھیں جمالینے کا نام ایمان ہے۔

عقیدہ کسے کہتے ہیں؟

‘عقیدہ’؛ دل میں جمے ہوئے یقین ہی کو کہتے ہیں ، اس کی جمع ‘عقائد’ آتی ہے ۔دل میں جما ہوا یقین ‘ اللہ تعالی اوراسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کیے ہوئے حقائق کے مطابق ہوتو یہ اسلامی عقیدہ اور ایمان قرار پائے گا۔

اور اگر دل کے کسی گوشہ میں خدا ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ سچائیوں کے خلاف یقین راہ پا جائے تو اس کا نام باطل اور کفر یہ عقیدہ ہے۔

جس طرح اللہ تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی حقیقتوں کے خلاف یقین رکھنا کفر ہے؛ اسی طرح ان حقیقتوں پر شک کرنا بھی کفر ہے؛ کیوں کہ شک ‘ یقین کی ضد ہے، جبکہ ایمان ‘ خدا اور اس کے رسول کی باتوں پر یقین کا نام ہے ۔

عقیدہ کی اہمیت

اسلام میں عقیدہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے اچھی طرح لگایا جاسکتا ہے کہ عقیدہ کی درستگی اور بگاڑ پر ہی ایمان وکفر کا مدار ہے ،عقیدہ اگر اسلامی ہے تو آدمی مومن ہے ورنہ کافر !ایمان دونوں جہاں کی یقینی کامیابیوں کا ضامن ہے جبکہ کفر دونوں جہاں کی ناکامی کا قطعی سبب ہے۔

چناں چہ فرض کر لیجیے کہ ایک طرف ایسا آدمی ہے جس کا دل انسانی ہمدردی کے جذبات سے پر ہے ، جو غریبوں ، بیواؤں ،یتیموں اور مجبوروں کی دل کھول کر امداد کرتا ہو، درجنوں مسجدیں اس نے بنوائی ہوں، دسیوں مسلمانوں کو اس نے حج وعمرے کروائے ہوں،کسی مخلوق کو تکلیف نہ دیتا ہو، اپنے مسلمان دوستوں کے ساتھ کبھی عیدگاہ بھی حاضر ہوجاتا ہو؛لیکن اس کا عقیدہ خراب ہو، وہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور مخلوق کو بھی معبود مانتا ہواور اسی حالت میں مر جائے اور اس کے احسان مند مسلمان ‘ جن کو اس نے حج وعمرے کروائے ،وہ ـــ ــــــــ اس کے کفر پر مرنے کا علم رکھنے کے باوجود ــــ ــــ اگر اس کی نمازِ جنازہ پڑھنا چاہیں یا صرف دعائے مغفرت ہی کرنے پر اصرار کرنے لگیں تو انھیں اسلام ہر گز اس کی اجازت نہیں دیتا بلکہ اس کے لیے دعائے مغفرت کو گناہ قرار دیتا ہے اور پھر آخرت میں یہ کافر ہمیشہ کے لیے جہنم میں داخل کردیا جائے گا۔

اسکے برعکس دوسری طرف وہ شخص ہے جو صحیح اسلامی عقائد رکھتا ہو’ لیکن زندگی بھر میں ایک نماز بھی اس نے نہ پڑھی ہو، نہ ہی کبھی روزہ رکھا ہو؛ بلکہ ایمان کے علاوہ کوئی فرض وواجب اس کی زندگی میں نہ ہو ، نیز شرک کو چھوڑ کر ہر کبیرہ گناہ کا وہ عادی بھی ہو اور ــــــ العیاذ باللہ ـــ ـــــ اسی حالت میں اس کی موت آجائے تب بھی محض اس کے اسلامی عقائد کی وجہ سے اسکی تجہیز وتکفین اور نمازِ جنازہ کا ادا کرنا مسلمانوں کے ذمہ فرض ہے ، اگر کوئی بھی مسلمان اس فرض کو ادا نہ کرے تو سارے مسلمان گناہ گار ہونگے اور یہ مرنے والا گناہ گار مسلمان ہمیشہ جہنم میں نہیں رہے گا ، ایک نہ ایک دن ضرور جنت میں داخل کردیا جائے گا ۔

اللہ اکبر! یہ ہے اسلام میں عقیدہ کا بنیادی مقام اور اس کی اہمیت ! آخرت کے ہمیشہ ہمیش کے انعامات اور کامیابیاں ملتی ہیں تو اِ سی عقیدہ کی درستگی پر اور اگر اگلی لامحدود زندگی کی تباہی وبربادی سامنے آتی ہے تو وہ بھی اسی عقیدہ کے بگاڑ اور فساد کے سبب! یہی وجہ تھی کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کے بعد سب سے پہلے عقیدہ کی اصلاح کی دعوت دی؛ بلکہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام نے اپنی اپنی قوم کو سب سے پہلے عقائد کی درستگی ہی کی تعلیم دی ہے ۔

یہاں پہنچ کر ایک لمحہ کے لئے ہمیں بھی ضرور اپنی حالت پر غور کر لینا چاہیئے کہ کیا ہم عقائد کا علم رکھتے ہیں ؟کتنے اسلامی عقائد ایسے ہیں جن کے بارے میں آج تک ہم نے سنا بھی نہیں، صرف اس وجہ سے کہ ہم اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں ؛ اسلام کے بنیادی عقائد سے نا واقفیت پر خدا کی پکڑ سے بچ جائیںگے ؟ اللہ تعالی کی طرف سے قرآن کریم میں بارہا عقیدہ کی اصلاح کی طرف متوجہ کیا جانا کیا یونہی ایک اتفاق ہے ؟

اگر نہیں اور ہر گز نہیںتو ہمیں آج ہی اسلامی عقائد کے علم کی طرف توجہ کرنی ہوگی اور انھیں تسلیم کرتے ہوئے ان کا یقین اپنے دل میں جما لینا ہوگا ۔

واضح رہے کہ مختلف زبانوں میں اسلامی عقائد سے متعلق مستند کتابیں کتب خانوں پر دستیاب ہیں اور ان میں سے اکثر کوانٹر نیٹ کے ذریعہ بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔

اللہ تعالی ہمارے دلوں کو اسلامی عقائد کے یقین سے منور فرمائے ۔آمین


پیشکش : سلسلہ عقائد اسلام، شعبۂ تحفظ اسلام میڈیا سروس، مرکز تحفظ اسلام ہند

Sunday, 27 December 2020

Moulana Mohammed Ilyas Sb (Ameer Majlise Tahaffuze Khatm-e-Nabuwat Hong Kong) Speech In Online Tahaffuze Aqaid-e-Islam Conference

 Newspapers | 27 Dec 2020









🎯Moulana Mohammed Ilyas Sb (Ameer Majlise Tahaffuze Khatm-e-Nabuwat Hong Kong) Speech In Online Tahaffuze Aqaid-e-Islam Conference!


Saturday, 26 December 2020

انسان کی نجات عقیدہ پر موقوف ہے، عقائد کی خرابی نجات نہ ہونے کا سبب!



 انسان کی نجات عقیدہ پر موقوف ہے، عقائد کی خرابی نجات نہ ہونے کا سبب!

مرکز تحفظ اسلام ہند کی آن لائن تحفظ عقائد اسلام کانفرنس سے ہانگ کانگ کے مولانا محمد الیاس کا خطاب!


بنگلور، 26/ ڈسمبر (ایم ٹی آئی ہچ): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقدعظیم الشان آن لائن تحفظ عقائد اسلام کانفرنس کی پہلی و افتتاحی نشست سے خطاب کرتے ہوئے مجلس تحفظ ختم نبوتؐ ہانگ کانگ کے امیر حضرت مولانا محمد الیاس صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ ہمارے اکابر و اسلاف نے عقائد کی اہمیت اور ضرورت کو سمجھتے ہوئے بہت ساری کتابیں لکھیں ہیں۔ اور اکابر علماء دیوبند نے عقائد بیان کرنے سے پہلے عقائد کی اہمیت و عظمت دل میں بٹھائی ہے، کیونکہ جب تک آدمی کے دل میں کسی چیز کی عظمت نہیں ہوتی وہ اسکی حفاظت بھی نہیں کرتا۔ مولانا محمدالیاس نے اکابرین کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ انسان کی نجات عقیدہ کی حفاظت پر موقوف ہے۔ تفسیر مکی میں لکھا ہوا ہے کہ اگر کسی شخص کے عقائد خراب ہوں اور اسے غلاف کعبہ میں لپیٹ کر دفن کیا جائے تو بھی اسکی مغفرت نہیں ہوگی۔ مولانا نے فرمایا کہ آخرت کے فیصلے عقیدوں پر ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ مولانا نور الحسن بخاریؒ نے عقائد کے بارے میں ایک بات لکھی کہ”اللہ نہ کرے اگر کسی کا عقیدہ ٹھیک نہیں تو وہ قیامت کے میدان میں نیکیوں کے سمندر میں تیرتا ہوا بھی آئیگا تو اللہ تعالیٰ اسکی کسی نیکی کو میزان میں نہیں رکھے گا!“مولانا نے فرمایا کہ علامہ جلال الدین سیوطی ؒکے فیصلوں سے اکابر نے ایک بات لکھی کہ”اگر کسی شخص کا عقیدہ ٹھیک نہیں اور اس نے اپنی آنکھیں بند ہونے سے پہلے کوئی نیک کام کیا ہے تو دنیا ہی میں اسکو اسکا اجر مل جائے گا مگر آخرت میں اسکے لیے کچھ بھی نہیں۔“ مولانا محمد الیاس نے مسلمانوں پر افسوس کرتے ہوئے فرمایا کہ آج عقائد پر ہمارا کوئی مطالعہ نہیں جب کہ ہمارے اکابرین کے عقائد پر سینکڑوں کتابیں لکھیں ہیں، بالخصوص فقط مولانا ادریس کاندھلویؒ نے عقائد پر اصول اسلام، عقائد الاسلام اور علم کلام کے نام سے تین کتابیں لکھیں ہیں! مولانا محمدالیاس نے دو ٹوک الفاظ میں فرمایا کہ اگر عقیدہ صحیح ہے تو ان شاء اللہ نجات بھی ہے کیونکہ صاحب منہاج مسلم نے لکھا ہے کہ ”اگر کسی کے عقائد ٹھیک نہیں تو اسکی بخشش کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔“ مولانا نے فرمایا کہ مولانا ادریس کاندھلویؒ نے اپنی کتاب عقائد الاسلام میں لکھا ہے کہ شریعت کے دو جزو ہیں ایک اعتقادی اور دوسرا عملی، پہلا جزو اصل ہے اور دوسرا اسکی فرع اور فرمایا کہ اگر کسی کے عقیدے مضبوط ہیں اور عمل مفقود ہے تو ایک نہ ایک دن وہ جنت میں ضرور داخل ہوگا، اور اگر کسی کے عقیدے مضبوط نہیں ہیں تو اسکے جنت میں داخل ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ لہٰذا ضرورت ہیکہ ہم اپنے اور دوسروں کے عقائد کی حفاظت کریں۔بیان کے اختتام پر مولانا محمد الیاس صاحب نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔ قابل ذکر ہیکہ مرکز تحفظ اسلام ہند کی فخریہ پیشکش سلسلہ عقائد اسلام پورے زور و شور سے جاری و ساری ہے۔ سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارم پر مختلف شعبوں کے ذریعہ عقائد اسلام پر اپنی نمایاں خدمات انجام دے رہی ہے۔اسی سلسلے کے تحت ہر ہفتہ اور اتوار بعد نماز مغرب آن لائن تحفظ عقائد اسلام کانفرنس منعقد ہوتی ہے۔ جس میں اکابر علماء کے لائیو خطابات ہوتے ہیں، جو مرکز کے آفیشل یوٹیوب چینل اور فیس بک پیج تحفظ اسلام میڈیا سروس پر براہ راست نشر کیا جاتا ہے۔ لہٰذا ملت اسلامیہ سے گزارش ہیکہ اس کانفرنس میں اپنی شرکت کو یقینی بنائیں اور اس سلسلے سے بھر پور فائدہ اٹھائیں!

Thursday, 24 December 2020

Aqaid-e-Islam

 عقائد اسلام | Aqaid-e-Islam | अकाइद-ए-इस्लाम





Wednesday, 23 December 2020

Silsila Aqaid-e-Islam | Dars Aqidah Tahawiya

VIDEO : https://youtu.be/eVxZfPKJzkE


سلسلہ عقائد اسلام | درس عقیدہ طحاویہ

 توحید و صفات باری تعالیٰ | عقیدہ نمبر 25-28

مدرس : متکلم اسلام حضرت مولانا محمد الیاس گھمن صاحب مدظلہ


Silsila Aqaid-e-Islam | Dars Aqidah Tahawiya

Tawheed Wa Sifaate Bari Tala | Aqidah No : 25-28

By: Mutakallim-e-Islam Moulana Ilyas Ghuman Sb DB


सिलसिला अकाइद-ए-इस्लाम | दरस अकीदा तहाविया

तोहीद व सिफते बारि ताला | अकीदा : 25-28

मौलाना मुहम्मद इलियास घुम्मन साहब द.ब


Presented By:

Tahaffuz-e-Islam Media Service

(Bangalore, Karnataka, India)

عقائد اسلام | Aqaid-e-Islam | अकाइद-ए-इस्लाम

 




Hazrat Mohammed ﷺ Ke Bare Main Aqaid!


VIDEO : https://youtu.be/W0qWeoyzOAA


سلسلہ عقائد اسلام | درس اسلامی اسباق

حضرت محمد ﷺ کے بارے میں عقیدے!

عقیدہ نمبر : 09 - 07

✍️فقیہ العصر مفتی شعیب اللہ خان صاحب مفتاحی مدظلہ


🎙️قاری عبد الرحمٰن الخبیر قاسمی بستوی

(رکن شوریٰ مرکز تحفظ اسلام ہند)



Aqaid-e-Islam Series | Dars Islami Asbaaq

Hazrat Mohammed ﷺ Ke Bare Main Aqaid!

Aqidah No : 07 - 09

✍️ Mufti Shuaibullah Khan Miftahi Sb DB


🎙️Qari Abdur Rahman Al-Khabeer Qasmi Bastawi

(Rukn Shora Markaz Tahaffuz-e-Islam Hind)


सिलसिला अकाइद-ए-इस्लाम | दरस इस्लामी अस्बाक

हज़रत मुहम्मद ﷺ के बारे में अकीदा!

अकीदा नंबर : 07 - 09

✍️ मुफ्ती मुहम्मद शोएबुल्लाह खान साहब मिफ्ताही द.ब


🎙️कारी अब्दुर्रहमान अल-खबीर क़ासमी बस्तवी

(रूकने शुरा मर्कज़ तहफ्फुज-ए-इस्लाम हिंद)


Presented By:

Tahaffuz-e-Islam Media Service

(Bangalore, Karnataka, India)


Thursday, 17 December 2020

Aqaid-e-Islam

 عقائد اسلام | Aqaid-e-Islam | अकाइद-ए-इस्लाम





عقائد کے خلاف فتنوں کی کثرت مرض کی علامت ہے!



عقائد کے خلاف فتنوں کی کثرت مرض کی علامت ہے! 


از قلم : حضرت مولانا مولانا شاہ عالم گورکھپوری صاحب دامت برکاتہم

(نائب ناظم کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت، دارالعلوم دیوبند)


اسلام میں عقیدہ کو اوّلیت حاصل ہے پہلے خدا اور اس کے بھیجے ہوئے رسولوں اور کتابوں پر درست عقیدہ رکھنا ضروری ہوتا ہے پھر اس کے بعد ہی اعمال کی ابتدا ہوتی ہے ، تفسیر حدیث اور فقہ وغیرہ کی ضرورت بھی اسی شخص کو پڑے گی جس کا پہلے خدا ، اس کے رسول اور خدا کی کتابوں پر ایمان ہوگا ورنہ احادیث،تفسیر اور فقہ وغیرہ علوم اسلامیہ کو ماننا ایسا ہی بے سودہوگا جیسے کہ بغیر بنیاد کے عمارت کھڑی کردی جائے ۔عقیدہ کی حیثیت اور اہمیت کسی پر پوشیدہ نہیں مگر حیرت اس بات پر ہے کہ عقائد کی حفاظت کے لیے جو محنت درکار ہے اس میں مجموعی طورپر حد درجہ تغافل سے کام لیا جارہا ہے ۔ مدارس اسلامیہ میں داخل عقائد کے نصاب پر اور ان کی تعلیم اور انداز تعلیم و تعلم پر اگر منصفانہ نظر ڈالی جائے تو معلوم یہ ہوتا ہے عقائد کے باب میں وہ محنت نہیں کی جاتی جودیگر ابواب میں دور حاضر کے تقاضوں کی تکمیل کے لیے کی جاتی ہے ۔


ماضی میں اسلامی عقائد پر جب یونانی فلسفہ نے یلغار مچایا تو اس کے فریب کو توڑنے کے لیے ہمارے بڑوں نے اس طرح محنتیں کیں کہ یونانی فلسفہ کی جادوگری آج خود فلسفیوں کے لیے مضحکہ خیز بن کر رہ گئی ہے ،متکلمین اسلام کے وضع کردہ اصولوں نے فلسفہ کے راستے سے آنے والے ارتدادی سیلاب کو نہ صرف یہ کہ قیامت تک کے لیے بند کردیا بلکہ نازک خیال فلسفیوں کو بھی ہمیشہ کے لیے خاموش کردیا۔ لیکن آج صورت حال یوں بدل گئی ہے کہ جگہ جگہ فتنوں کی کثرت ہورہی ہے ، نئے نئے ارتدادی فتنے مسلمانوں کے درمیان جنم لے رہے اور پنپ رہے ہیں ،قدیم فلسفیوں کے زہریلے اثرات کو نئی نئی تعبیرات و زبان میں پیش کرکے ایک بار پھر اسلامی عقائد کو مسخ کرنے کی فکر میں بیشمار تنظیمیں شب و روز مصروف ہیں، اعمال میں تو خود مسلمانوں نے ہی دین کو بغیر ماہرینِ دین کے چلانے کی وکالت شروع کررکھی ہے لیکن پانی سر سے اتنا اونچا ہوچکا ہے کہ عقائد میں بھی اب دین کو بغیر ماہرینِ دین کے چلانے کی وبا عام مسلمانوں میں پھیلنے لگی ہے ،ہر دانشوراسلامی عقائد میں رائے زنی کرنااپنا موروثی حق سمجھنے لگا ہے ۔ پھر ملحددانشوروں کی تلچھٹ مرزا قادیانی اوراُس جیسے دیگر لوگ جیسے شکیل بن حنیف یا راشد شاز#وغیرہ ،اپنے آپ کو کیوں پیچھے رکھیں؛چناں چہ وہ بھی مسلمانوں کے درمیان عقائد کی مضبوط تعلیم نہ ہونے کا جی بھرکے فائدہ اٹھارہے ہیں ۔ظاہر سی بات ہے کہ اس خودسری کا بھیانک نتیجہ ؛ عقائد اسلامیہ کو بازیچہٴ اطفال بنانے کی صورت میں نکلے گا،جیسا کہ عام طور پر اب دیکھنے میں بھی آرہا ہے کہ جگہ جگہ اسلام کے قطعی اور یقینی عقائد و نظریات کو تختہٴ مشق بنایا جانے لگا ہے ۔ میدان میں بالکل خاموشی کی بات تو نہیں کی جاسکتی لیکن سوائے چند افراد اور دو ایک تنظیموں کے کتنے لوگ ہیں جو اس سیلاب بلاکو روکنے میں فکر مند ہیں ؟۔


فکر مندوں کا بھی حال یہ ہے کہ مرض کی بجائے علامات مرض کے علاج میں لگے ہیں جبکہ فتنوں کی کثرت اِس مرض کی علامت ہے کہ مسلمانوں کا عقیدہ کمزور ہوچکا ہے اُسے مضبوط کیاجائے تاکہ فتنوں سے بچاوٴ میں مسلمان خود اپنی طاقت استعمال کرسکیں ۔ علاج کا کامیاب طریقہ یہ ہے کہ مرض کو دُور کیا جائے اور براہ راست مرض کا علاج کیا جائے نہ کہ علامتوں کا ۔لیکن آج کل فتنوں کے پیچھے طرح طرح کی تنظیمیں قائم ہورہی ہیں علامات مرض کے پیچھے دوڑ لگانے والے کچھ لوگ دکھائی دیتے ہیں لیکن اصل مرض کے ازالے کی جانب توجہ کتنے لوگوں کی ہے ؟ ۔


بلاشبہ اس میدان میں کام کرنے والی تنظیموں پر بھی کچھ ذمہ داریاں عائدہوتی ہیں جن کے نبھانے میں وہ کوتاہ عمل ہیں لیکن مسئلے کا حل ؛کسی کو مورد الزام ٹھہرانے میں نہیں بلکہ اس بات میں ہے کہ ایمان و عقائد کے خلاف اٹھنے والے فتنوں کے سد باب کے لیے عقائد اور علم کلام کی تعلیم کے لیے محنت میں کچھ اضافہ کیا جائے اور علم کلام کی تعلیم کو نہ صرف یہ کہ معقولیت و معنویت کے ساتھ اپنے اپنے مکاتب ومدارس کے نصاب کا جزو بنایا جائے بلکہ عام فہم بیانات اورکتابوں کے ذریعہ مساجد کی صبح و شام کی تعلیم کا حصہ بنادیا جائے ۔متکلمین اسلام نے عقائد کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے جوکامیاب و لاجواب علمی اور عقلی اصول دئیے ہیں، اُن کی روشنی میں حالات حاضرہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے علاقائی اور رائج زبان و بیان کے ذریعہ عام مسلمانوں میں بھی اتنی صلاحیت پیدا کردی جائے کہ گلی کوچوں میں جنم لینے والی ارتدادی لہروں کا مسکت جواب دینے کی صلاحیت اُن میں پیدا ہوجائے ۔


علم کلام جوعقائد کو تحفظ فراہم کرتا ہے اس سے بیگانگی اور ناواقفیت کے سبب آج کا مسلمان اس قدر مرعوب ہوگیا ہے کہ اگر کوئی قادیانی یا شکیلی کسی گلی کوچے میں وسوسہ چھوڑدے تو ہمارا نوجوان اس کو بہت بڑا تیر سمجھ کر مولانا صاحبوں کے پیچھے پڑجائے گا کہ اس کا جواب کیا ہے؟ لیکن کوئی عالم دین مسجد کے ممبر و محراب سے معقول سے معقول ترجواب دے دے تو اس کو لے کر قادیانیوں یا شکیلیوں کے پیچھے کبھی نہیں پڑتا کہ تم نے بلاوجہ کا یہ وسوسہ اسلام میں کیوں پیداکیا ؟۔ مسلمانوں کے درمیان مرعوبیت کی اس حالت کو اگر پلٹنا ہے تو اس کے لیے معقول توڑ دریافت کرنا پڑے گا ۔راقم سطور نے اپنے بڑوں کی تحریرات و بیانات کی روشنی میں اس کا جو حل سمجھا ہے وہ یہ ہے کہ دور حاضر کی زبان میں علم کلام کے دلائل سے مسلمانوں کو مزین کردیا جائے ۔ اگر اس باب میں بچپن کی تعلیم مضبوط ہوجائے تو عمر کے ہرمرحلے میں اُن دلائل سے وہ بھر پور فائدہ اٹھائیں گے اورقدیم علم کلام کو اپنی من پسندجدید زبان میں پا کر ہر دہریے اور ملحدکا توڑ ؛وہ خود دریافت کریں گے ،بلکہ اسلامی عقائد کے روشن ماضی سے خود کو مربوط رکھنے کی ذمہ داری کو بھی وہ محسوس کریں گے ۔


قدیم متکلمین اسلام کے مضامین کو جدید اور سہل زبان میں بیان کرنے یا سمجھنے کے لیے ،حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ، حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ، حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی ؒ، حضرت مولانا بدر عالم میرٹھی ؒ، حضرت مولانا محمد مسلم دیوبندی ؒ، اسی طرح حضرت مولانا محمد میاں صاحب ؒ وغیرہ اکابر دیوبند کے رسائل و مضامین جو بطور خاص عقائد اور کلام کے ہی موضوع پر تصنیف کیے گئے ہیں؛ شائقین اور دلچسپی رکھنے والوں کے لیے نفع بخش ہوسکتے ہیں۔ یا ان بزرگوں کی تحریرات کی روشنی میں اپنے اپنے علاقوں میں پیش آمدہ مخالفین اسلام کے اعتراضات و وساوس کے جوابات؛ نئی نئی مثالوں کے ذریعہ ششتہ و سلیس زبان میں ترتیب بھی دیئے جاسکتے ہیں۔


پیشکش : سلسلہ عقائد اسلام، شعبۂ تحفظ اسلام میڈیا سروس، مرکز تحفظ اسلام ہند