Showing posts with label Posters. Show all posts
Showing posts with label Posters. Show all posts

Thursday, 19 August 2021

سیرت شہید کربلا، نواسۂ رسول حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ



”سیرت شہید کربلا، نواسۂ رسول حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ“

(10؍ محرم الحرام یوم شہادت)


از قلم: بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


نواسۂ رسول، جگر گوشۂ بتول حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی ولادتِ باسعادت 5؍ شعبان المعظم سن 4 ھ مدینہ منورہ میں ہجرت کے چوتھے سال قبیلہ بنو ہاشم میں حضرت سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے گھر ہوئی۔ آپ امام الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چھوٹے نواسے، شیر خدا حضرت سیدنا علی المرتضیؓ و خاتون جنت حضرت سیدہ فاطمہ الزہرا ؓ کے چھوٹے بیٹے اور حضرت سیدنا حسنؓ کے چھوٹے بھائی ہیں۔ آپ ؓکی ولادت کی خوشخبری سنکر جناب محمد رسول اللہﷺ تشریف لائے، آپ کو گود میں لیا، داہنے کان میں اذان اور بائیں میں اقامت کہی اور اپنا لعاب مبارک آپ کے منہ میں داخل فرمایا اور دعائیں دیں اور ”حسین“ نام رکھا۔ پیدائش کے ساتویں دن عقیقہ کیا گیا اور سر کے بالوں کے برابر چاندی خیرات کی گئی۔ آپؓ کی کنیت ”ابو عبداللہ“ہے۔ آپؓ کے بارے میں رسول اللہ نے فرمایا کہ”حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے، جو حسین سے محبت کرے اللہ اس سے محبت کریگا۔ حسین میری اولاد میں بڑی شان والا ہے۔“ (صحیح ابن حبان)

 

حضرت حسین ؓ نے اپنے نانا حضور اکرمؐ سے بے پناہ شفقت و محبت کو سمیٹا اور سیدنا حضرت علی المرتضی ؓاور سیدہ فاطمۃ الزہراؓ کی آغوش محبت میں تربیت و پرورش پائی۔ جس کی وجہ سے آپؓ فضل و کمال، زہد و تقویٰ، شجاعت و بہادری، سخاوت، رحم دلی، اعلیٰ اخلاق اور دیگر محاسن و خوبیوں کے بلند درجہ پر فائز تھے۔ آپ کے والد ماجد امیر المومنین سیدنا حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ سیدنا حضرت حسن ؓسینہ سے لے کر سر مبارک تک رسول اللہؐ کے مشابہ تھے اور سیدنا حضرت حسین ؓ قدموں سے لے کر سینہ تک رسول اللہؐ کے مشابہ تھے اور آپؐ کے حسن و جمال کی عکاسی کرتے تھے۔ اس مشابہت ِرسول اللہ ؐکااثر فقط جسم کے ظاہری اعضاء تک ہی محدود نہ تھابلکہ روحانی طور پر بھی اس کے گہرے اثرات تھے۔ آپ ؓنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ وعمدہ اوصاف کا کامل مظہر تھے۔ آپؓ کے مقام کا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ ”حسن اور حسین جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں۔“ (ترمذی)


جناب محمد رسول اللہ کو اپنے لاڈلے حسین سے بے پناہ محبت تھی۔ آپ حضرت حسینؓ کو گود میں اٹھاتے، سینہ مبارک سے لگاتے، کاندھے مبارک پر اٹھاتے، کمر مبارک پر بٹھا کر پھراتے۔ نماز میں سجدے کی حالت میں اگر حضرت حسینؓ آپ کی پیٹھ مبارک پر سوار ہوجاتے تو نہ انہیں کبھی ڈانٹتے نہ ناراضگی کا اظہار فرماتے۔ بلکہ سجدہ کو طول کر دیا کرتے یہاں تک کہ بچہ خود سے بخوشی پشت پر سے علاحدہ ہوجاتا۔ آپؐ کا معمول یہ تھا کہ کبھی حضرت حسین ؓکے ہونٹوں کو بوسہ دیتے تو کبھی رخسار کو چومتے۔ آپؐ کا اپنے نواسوں سے محبت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپؐ نے فرمایا ”جس نے حسن اور حسین رضی اللہ عنہما سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا“ (مسند امام احمد)۔ نیز حضرت حسینؓ کی شان کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک دفعہ جناب محمد رسول اللہ حضرت حسینؓ کو اپنے کندھے مبارک پر اٹھائے ہوئے تھے کہ ایک صحابی یہ منظر دیکھ کر بولے ”اے بچے! تم کتنی بہترین سواری پر سوار ہو۔“ رسول اللہ نے جوابا فرمایا”سوار بھی تو کتنا بہترین ہے“ (ترمذی شریف)۔ خلیفۂ اوّل سیدنا حضرت ابو بکر صدیقؓ، خلیفۂ ثانی سیدنا حضرت عمر فاروق ؓ اورخلیفۂ سوم سیدنا حضرت عثمان ذوالنورین ؓ سمیت تمام صحابہ کرام کو بھی حسنین کریمین اور خاندانِ نبوت سے بہت زیادہ عقیدت و محبت اور الفت تھی۔


نواسۂ رسول حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ عصمت و طہارت کا مجسمہ تھے۔ آپؓ کی عبادت، زہد، سخاوت اور آپؓ کے کمالِ اخلاق کے دوست و دشمن سب ہی قائل تھے۔ عبادت گزاری کی یہ حالت تھی کہ آپ ؓ شب زندہ دار اور سوائے ایام ممنوعہ کے ہمیشہ روزہ سے ہوتے۔ قرآن مجید کی تلاوت کثرت سے فرماتے اور حج بھی بکثرت کرتے ایک روایت کے مطابق آپ نے پچیس حج پیدل فرمائے۔ آپ ؓ کی مجالس وقار و متانت کا حسین مرقع اور آپؓ کی گفتگو علم و حکمت اور فصاحت و بلاغت سے بھرپور ہوتی۔ لوگ آپؓ کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے اوران کے سامنے ایسے سکون اور خاموشی سے بیٹھتے تھے گویا کہ ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں۔ آپؓ میں سخاوت اور شجاعت کی صفت کو خود رسول اللہؐ نے بچپن میں ایسا نمایاں پایا کہ فرمایا ”حسین میں میری سخاوت اور میری جرأت ہے۔“ چنانچہ آپؓ کے دروازے پر مسافروں اور حاجتمندوں کا سلسلہ برابر قائم رہتا تھا اور کوئی سائل محروم واپس نہیں ہوتا تھا۔بعض دفعہ خود ضرورت مندوں کے پاس جاکر انکے مسائل حل کرتے۔ غلاموں اور کنیزوں کے ساتھ آپؓ عزیزوں کا سا برتاؤ کرتے تھے۔ ذرا ذرا سی بات پر آپؓ انہیں آزاد کر دیتے تھے۔ آپؓ کے علمی کمالات کے سامنے دنیا کا سر جھکا ہوا تھا۔ مذہبی مسائل اور اہم مشکلات میں آپؓ کی طرف رجوع کیا جاتا تھا۔ آپؓ کی دعاؤں کا ایک مجموعہ ”صحیفہ حسینیہ“ کے نام سے اس وقت بھی موجود ہے۔آپ رحم دل ایسے تھے کہ دشمنوں پر بھی وقت آنے پر رحم کھاتے تھے اور ایثار ایسا تھا کہ اپنی ضرورت کو نظر انداز کر کے دوسروں کی ضرورت کو پورا کرتے تھے۔


مظلومانہ شہادت:

حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کوفیوں کے بے شمار خطوط موصول ہونے پر سفر پر روانہ ہونے کا فیصلہ کیا۔ سفر پر روانہ ہونے سے پہلے اپنے چچازاد بھائی حضرت مسلم بن عقیل ؓ کو کوفے کا جائزہ لینے بھیجا تو بارہ ہزار کوفیوں نے آپکے ہاتھ پر بیعت کی۔ نیز کوفہ کے اموی حاکم بشیر نے ان کے ساتھ نرمی سے کام لیا۔ کوفیوں کے جذبات سے متاثر ہو کر آپ نے حضرت حسینؓ کو اطلاع دی کہ حالات سازگار ہیں آپ تشریف لائیں۔ لہٰذا حضرت سیدنا حسینؓ سفر پر روانہ ہوگئے۔ ان حالات کی بنا پر یزید نے فوراً کوفہ کے موجودہ حاکم نعمان کو معزول کر دیا اور عبیداللہ بن زیاد کو کوفہ کا حاکم مقرر کر دیا۔ اس نے کوفہ پہنچ کر یہ اعلان کیا کہ جو بھی یزید کی بیعت پر قائم رہے گا اسکی جان بخش دی جائیگی ورنہ اسے قتل کردیا جائے گا۔ابن زیاد کے اس اعلان کے بعد اہل کوفہ نے حضرت حسینؓ سے کئے ہوئے وعدے کو توڑ دیا۔دوران سفر حضرت حسینؓ کو یہ بھی اطلاع ملی کہ عبیداللہ بن زیاد نے حضرت مسلم بن عقیلؓ کو شہید کردیا ہے۔ جسے سن کر حضرت حسینؓ کے ساتھ آئے ہوئے لوگوں میں سے کچھ حضرات نے سفر کو ختم کردیا اور واپس ہوگئے لیکن حضرت حسین ؓنے اپنا سفر جاری رکھا۔ چنانچہ قافلہ روانہ ہوا، مقام قادسیہ سے کچھ آگے پہنچا تو حربن یزید ایک ہزار کے مسلح سوار لشکر کے ساتھ ملا۔ حضرت حسین ؓنے کوفیوں کے تمام خطوط دکھائے اور کہا کہ تم لوگوں نے خود دعوت دی ہے، اب اگر آپکا ارادہ بدل گیا ہو تو میں واپس چلا جاتا ہوں۔ لیکن آپ ؓکے مطالبے کو قبول نہیں کیا گیا۔ چنانچہ یہ مختصر سا قافلہ 2؍ محرم الحرام 61ھ کو آخر کار کربلا پہنچا۔ ابن زیاد نے خط کے ذریعے حضرت حسینؓ کو کہا کہ وہ اپنے لشکر کے ساتھ ہماری اطاعت کرلیں۔ حضرت حسینؓ نے صاف انکار کردیا۔ لہٰذا چند افراد، یعنی 72؍ افراد کے روبرو ہزاروں کا لشکر کھڑا کیا گیا۔ 10؍ محرم الحرام 61 ھ کو میدان کربلا میں عمر بن سعد اپنے لشکر کے ساتھ حملہ آور ہوا۔ اس طرح باقاعدہ لڑائی شروع ہوگئی۔ دونوں طرف سے ہلاکتیں اور شہادتیں ہوتی رہیں۔ آخر کار دغابازوں کا لشکر حاوی ہوا اور حضرت حسینؓ کے خیمہ کو گھیر کر جلا دیا اور نواسۂ رسول، جگر گوشۂ بتول حضرت سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور انکے خاندان کے کئی افراد اور رفقاء سمیت سب کو شہید کردیا گیا۔ آخر نبی کریمؐ کی پیشنگوئی صحیح ثابت ہوئی۔ اس طرح یزید کے بھیجے ہوئے لشکر نے حضرت حسین کو شہید کردیا۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ یزید نے حضرت حسین ؓکو فقط گرفتار کرنے کا حکم دیا تھا لیکن ابن زیاد نے انہیں شہید کیا اور بعض نے لکھا ہے کہ چونکہ یزید کی دور حکومت میں حضرت حسینؓ کو شہید کیا گیا تھا اور یزید اگر چاہتا تو اسے روک سکتا تھا لہٰذا حضرت حسین ؓکی شہادت کا ذمہ دار براہ راست یزید ہے۔ لہٰذا ہمارے جمہور علماء اور اکابرین کا مؤقف یہ ہے کہ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ حضرت حسینؓ کی شہادت یزید کے دور حکومت اور اسی کی فوج سے ہوئی اور یزید فاسق و فاجر بھی تھا لیکن یزید کے مسئلہ پر سکوت اختیار کرنا چاہئے یعنی اس پر نہ تو رحمت بھیجی جائے اور نہ ہی لعنت۔ یزید کے متعلق حضرت امام ابو حنیفہ ؒ فرماتے ہیں کہ ”سکوت اور توقف کرنا چاہئے، نہ اس کو کافر کہا جائے نہ اس پر لعن طعن کیا جائے، بلکہ اس کے امر کو خدا کے حوالے کردینا چاہئے“(فتاوی دارالعلوم)۔ اس کے علاوہ قطب الارشاد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ یزید کے بارے میں تحریرفرماتے ہیں کہ ”اور ہم مقلدین کو احتیاط سکوت میں ہے، کیونکہ اگر لعن جائز ہے تو لعن نہ کرنے میں کوئی حرج نہیں لعن نہ فرض ہے، نہ واجب، نہ سنت، نہ مستحب محض مباح ہے۔ اور جو وہ محل نہیں تو خود مبتلا ہونا معصیت کا اچھا نہیں“(فتاوی رشیدیہ: 78؍ قدیم)۔ الغرض حضرت سیدنا حسینؓ نے جس پامردی اور صبر سے کربلا کے میدان میں مصائب و مشکلات کو برداشت کیا وہ حریت، جرأت اور صبر و استقلال کی لازوال داستان ہے۔ باطل کی قوتوں کے سامنے سرنگوں نہ ہو کر آپ نے حق و انصاف کے اصولوں کی بالادستی، حریت فکر اور خدا کی حاکمیت کا پرچم بلند کرکے اسلامی روایات کی لاج رکھ لی۔ اور انھیں ریگزارِ عجم میں دفن ہونے سے بچا لیا۔ حضرت حسینؓ کا یہ ایثار اور قربانی تاریخ اسلام کا ایک ایسا درخشندہ باب ہے،جو رہروان منزل شوق و محبت اور حریت پسندوں کیلئے ایک اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔نواسۂ رسول حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب، سیرت و کردار اور کارناموں سے تاریخ اسلام کے ہزاروں صفحات روشن ہیں۔ سانحہ کربلا سے ایک اہم پیغام یہ بھی ملتا ہیکہ ”حق کیلئے سر کٹ تو سکتا ہے لیکن باطل کے سامنے سر جکھ نہیں سکتا۔“

مولانا محمد علی جوہر ؒنے کیا خوب کہا:

قتل حسین اصل میں مرگِ یزید تھا

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد


فقط و السلام

بندہ محمد فرقان عفی عنہ*

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

١٠؍ محرم الحرام ١٤٤٣ھ

19؍ اگست 2021ء بروز جمعرات


+91 8495087865

mdfurqan7865@gmail.com


____

*ابن مولانا محمد ریاض الدین مظاہری

متعلم جامعہ ابو ہریرہ ؓ اکیڈمی

بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند

سوشل میڈیا انچارج جمعیۃ علماء کرناٹک

صدر مجلس احرار اسلام بنگلور

رکن عاملہ جمعیۃ علماء بنگلور


#پیغام_فرقان

#PaighameFurqan #Article #HazratHusain #Husain #YaumeSahadath #Muharram

Sunday, 15 August 2021

ہندوستان کی آزادی مسلمانوں کی مرہون منت ہے، مسلمانوں کی سنہری تاریخ ہمیشہ زندہ رہے گی!









 ہندوستان کی آزادی مسلمانوں کی مرہون منت ہے، مسلمانوں کی سنہری تاریخ ہمیشہ زندہ رہے گی!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام یوم آزادی کے موقع پر جشن یوم آزادی کانفرنس!


بنگلور، 14؍ اگست (پریس ریلیز): یوم آزادی 15؍ اگست کی تاریخ ہندوستان کی ایک یادگار اور اہم ترین تاریخ ہے، اسی تاریخ کو ہمارا یہ پیارا وطن ہندوستان انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا، اور طوقِ سلاسل کا سلسلہ ختم ہوا۔ ہندوستان کو طویل جدوجہد کے بعد آزادی کی نعمت حاصل ہوئی، جس کے لیے ہمارے اسلاف نے زبردست قربانیوں کا نذرانہ پیش کیا، جان و مال کی قربانیاں دیں، تحریکیں چلائیں، تختہ دار پر چڑھے، پھانسی کے پھندے کو جرأت و حوصلہ اور کمال بہادری کے ساتھ بخوشی گلے لگایا، قید و بند کی صعوبتیں جھلیں اور حصولِ آزادی کی خاطر میدان جنگ میں نکل پڑے، اور تقریباً دو سو سال تک مسلسل قربانیوں اور جانفشانیوں کے بعد آزادی کا یہ دن دیکھنے کو نصیب ہوا اور انگریز ملک سے نکل جانے پر مجبور ہوئے اور ہندوستان آزاد ہوا۔ مذکورہ خیالات کا اظہار مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان نے کیا۔انہوں نے فرمایا کہ ہندوستان کی آزادی کی کہانی اور تاریخ مسلمانوں کے خون سے لکھی گئی ہے۔ آبادی کے لحاظ سے کم تناسب کے باوجود جدوجہد آزادی میں مسلمانوں نے نہ صرف بڑھ چڑھ کر حصہ لیا بلکہ اپنے وطن عزیز کی آزادی کو یقینی بنانے کیلئے اپنی جانوں کے نذرانے بھی پیش کئے۔ آج ہم جو اطمینان اور سکون کی زندگی گزاررہے ہیں، اور آزادی کے ساتھ جی رہے ہیں یہ سب ہمارے مسلم عوام اور علماء کی دَین ہے۔ اگر مسلمان میدان جنگ میں نہ کودتے اور علماء مسلمانوں کے اندر جذبہ جہاد و آزادی کو پروان نہ چڑھاتے تو پھر شاید کبھی یہ ہندوستان غلامی سے نجات نہیں پاسکتا تھا۔ بلکہ ہندوستان کی آزادی مسلمانوں ہی کی مرہون منت ہے۔کیونکہ ہم نے اس راہ میں اپنا اتنا خون بہایا ہیکہ دوسروں نے اتنا پسینہ بھی نہیں بہایا ہوگا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت اور ناقابل فراموش سچائی ہے کہ مسلمانوں نے ہی سب سے پہلے اور سب سے زیادہ اس ملک کو آزاد کرانے کی کوشش کی، اور اپنی آنکھوں میں اپنے پیارے وطن کی آزادی کے خواب لیے جان وتن نچھاور کیا۔ سخت ترین اذیتوں کو جھیلا، خطرناک سزاؤں کو برادشت کیا، طرح طرح کی مصیبتوں سے دوچار ہوئے، حالات و آزمائشوں میں گرفتار ہوئے، لیکن برابر آزادی کا نعرہ لگاتے رہے اور ہر ہندوستانی کو بیدار کرتے رہے، کبھی میدان سے راہ فرار اختیار نہیں کی اور نہ ہی کسی موقع پر ملک وطن کی محبت میں کمی آنے دی۔ محمد فرقان نے فرمایا کہ افسوس کی بات ہیکہ جدوجہد آزادی میں جس قوم مسلم نے سب سے زیادہ قربانیاں دیں آج اسکی تاریخ کو مٹانے کی بھر پور کوشش کی جارہی ہے اور مسلمان بھی اس سلسلے میں غفلت کا شکار نظر آرہے ہیں۔ایک سازش کے تحت فرقہ پرست طاقتیں مسلمانوں کی قربانیوں کو جان بوجھ کر چھپانے اور عوام کی نظروں سے اوجھل کرنے کی کوششیں کررہی ہیں۔ ایسے دور میں ضرورت ہیکہ ہم اپنے اسلاف کی قربانیوں کی روشن تاریخ کو ملک کے چپے چپے تک پہنچائیں بالخصوص ملت اسلامیہ ہندیہ کے نونہالوں کو اپنی تاریخ سے واقف کروائیں، کیونکہ جو قوم اپنی تاریخ ماضی فراموش کردے اسکا وجود ختم ہوجاتا ہے۔مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے فرمایا کہ اسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے مرکز تحفظ اسلام ہند نے یوم آزادی کے موقع پر ”عظیم الشان آن لائن جشن یوم آزادی کانفرنس“ منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس کی صدارت جمعیۃ علماء اترپردیش کے صدر نواسہئ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید اشہد رشیدی صاحب (مہتمم جامعہ قاسمی شاہی مرادآباد) فرمائیں گے، جبکہ بطور مہمانان و مقررین خصوصی کے طور پر دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث حضرت مولانا مفتی اشرف عباس قاسمی صاحب، جمعیۃ علماء تمل ناڈو کے صدر حضرت مولانامفتی سبیل احمد قاسمی صاحب اور جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر حضرت مولانا عبد الرحیم رشیدی صاحب شرکت فرمائیں گے۔جبکہ مرکز کے رکن شوریٰ قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی بستوی کی تلاوت اور قاری فخر الاسلام کبیر نگری کے نعتیہ اشعار سے کانفرنس کا آغاز ہوگا اور جمعیۃ علماء رائچور کے صدرمفتی سید ذیشان حسن قادری قاسمی کانفرنس کی نظامت کے فرائض انجام دینگے۔ یہ کانفرنس مرکز تحفظ اسلام ہند کے آفیشیل یوٹیوب چینل اور فیس بک پیج تحفظ اسلام میڈیا سروس پر 15؍ اگست بروز اتوار کی رات 9:00سے براہ راست لائیو نشر کیا جائے گا۔محمد فرقان نے تمام اہل وطن سے اپیل کی کہ وہ اس اہم اور عظیم الشان آن لائن جشن یوم آزادی کانفرنس میں شرکت کرکے شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں اور جنگ آزادی کی حقیقی تاریخ سے پورے ملک کو واقف کرائیں۔

Wednesday, 11 August 2021

”سیرت خلیفہ ثانی،امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ“ (یکم محرم الحرام یوم شہادت)



 ”سیرت خلیفہ ثانی،امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ“

(یکم محرم الحرام یوم شہادت)


✍️بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


امیر المومنین، خلیفۃ المسلمین حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی پیدائش مکۃ المکرمہ میں واقعہ فیل سے تیرہ سال بعد قبیلہ بنو عدی میں خطاب بن نفیل کے گھر ہوئی۔ آپؓ صحابی رسول اور مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ راشد ہیں۔ آپؓ کا شمار عشرہئ مبشرہ جن کو دنیا میں جنت کی بشارت ملی، ان میں ہوتا ہے۔ حضرت عمر ؓرسول اللہؐ کے خسربھی ہیں۔ آپؓ کی صاحبزادی ام المومنین حضرت سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا رسول اللہؐ کی ازواج میں سے ایک ہیں۔ آپ ؓکا لقب فاروق، کنیت ابو حفص ہے۔ لقب و کنیت دونوں محمدﷺ کے عطا کردہ ہیں۔ آپ کا نسب نویں پشت میں رسول اللہؐ سے جا ملتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نویں پشت میں کعب کے دو بیٹے ہیں مرہ اور عدی۔ رسول اللہؐ مرہ کی اولاد میں سے ہیں، جبکہ حضرت عمرؓ عدی کی اولاد میں سے ہیں۔


حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا شمار مکہ کے ان لوگوں میں ہوتا تھا جو پڑھ لکھ سکتے تھے۔ جب حضورؐ نے پہلے اسلام کی تبلیغ شروع کی تو حضرت عمر ؓاسکے مخالف تھے۔ آپؐ کی دعا سے آپؓ نے نبوت کے چھٹے سال ستائیس برس کی عمر میں چالیس مردوں اور گیارہ عورتوں کے بعد مشرف بااسلام ہوئے۔ اسی لئے آپکو مراد رسول کہا جاتا ہے۔ ”آپ ؓکے اسلام لانے پر فرشتوں نے بھی خوشیاں منائی تھیں“ (مستدرک حاکم)۔ ہجرت کے موقعے پر کفار مکہ کے شر سے بچنے کیلئے سب نے خاموشی سے ہجرت کی مگر آپؓ کی غیرت ایمانی نے چھپ کر ہجرت کرنا گوارا نہیں کیا۔ آپؓ نے تلوار ہاتھ میں لی، کعبہ کا طواف کیا اور کفار کے مجمع کو مخاطب کر کے کہا ”تم میں سے اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کی بیوی بیوہ ہو جائے، اس کے بچے یتیم ہوجائیں تو وہ مکہ سے باہر آکر میرا راستہ روک کر دکھائے“۔ مگر کسی کافر کی ہمت نہ ہوئی کہ آپ کا راستہ روک سکے۔ رسول اللہؐ نے آپ ؓکو مخاطب کرتے ہوئے ایک دفعہ ارشاد فرمایا کہ ”قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، عمر جس راستے پر چلتے ہیں شیطان وہ راستہ چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کرلیتا ہے“ (مصنف ابن ابی شیبہ)۔ ہجرت کے بعد سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ تمام غزوات میں رسول اللہﷺ کی معیت میں رہے۔


ٍ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کفر و نفاق کے مقابلہ میں بہت جلال والے تھے اور کفار و منافقین سے شدید نفرت رکھتے تھے۔ ایک دفعہ ایک یہودی و منافق کے مابین حضور ؐنے یہودی کے حق میں فیصلہ فرمایا مگر منافق نہ مانا اور آپؓ سے فیصلے کیلئے کہا۔ آپؓ کو جب علم ہوا کہ نبیؐ کے فیصلے کے بعد یہ آپ سے فیصلہ کروانے آیا ہے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس کو قتل کر کے فرمایا جو میرے نبیؐ کا فیصلہ نہیں مانتا میرے پاس اس کا یہی فیصلہ ہے۔ کئی موقعوں پر نبی کریم ؐکے مشورہ مانگنے پر جو مشورہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے دیا قرآن کریم کی آیات مبارکہ اس کی تائید میں نازل ہوئیں۔


حضرت عمر فاروقؓ باعظمت، انصاف پسند اور عادل حکمران تھے۔ ان کی عدالت میں مسلم و غیر مسلم دونوں کو یکساں انصاف ملا کرتا تھا۔ حضرت عمر ؓحق و صداقت کے علمبردار تھے۔ امیر المومنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے وقت وصال امت کی زمام آپؓ ہی کے سپرد کی تھی، 22؍ جمادی الثانی 13 ھجری کو آپ مسند نشین خلافت ہوئے۔آپ ؓکے دور خلافت میں عراق، مصر، لیبیا، سرزمین شام، ایران، خراسان، مشرقی اناطولیہ، جنوبی آرمینیا اور سجستان فتح ہو کر مملکت اسلامی میں شامل ہوئے۔ آپ ہی کہ دور خلافت میں پہلی مرتبہ یروشلم فتح ہوا، اس طرح ساسانی سلطنت کا مکمل رقبہ اور بازنطینی سلطنت کا تقریباً تہائی حصہ اسلامی سلطنت کے زیر نگیں آگیا۔ آپؓ نے 22؍ لاکھ مربع میل کے رقبے پر اسلام کا جھنڈا لہرایا اور قبلہ اول بیت المقدس کی شاندار فتح کا سہرا بھی آپ کے سر ہے۔ حضرت عمر بن خطاب ؓنے جس مہارت، شجاعت اور عسکری صلاحیت سے ساسانی سلطنت کی مکمل شہنشاہیت کو دو سال سے بھی کم عرصہ میں زیر کر لیا، نیز اپنی سلطنت و حدود سلطنت کا انتظام، رعایا کی جملہ ضروریات کی نگہداشت اور دیگر امور سلطنت کو جس خوش اسلوبی اور مہارت و ذمہ داری کے ساتھ نبھایا وہ ان کی عبقریت کی دلیل ہے۔ آپؓ کا دور خلافت عدل و انصاف کا درخشندہ باب اور مثالی دور ہے نیز بہت مبارک اور اشاعت و اظہار اسلام کا باعث تھا۔ آپؓ ہی نے تقویم اسلامی (اسلامی کیلنڈر) کی ابتداء ہجرت مدینہ کی بنیاد پر یکم محرم الحرام سے کروائی۔ مفتوحہ علاقوں میں 900؍ جامع مساجد اور 4000؍ عام مساجد تعمیر کروا کر اس میں تعلیم و تدریس کا انتظام کروایا، جب کہ حرمین شریفین کی توسیع بھی آپؓ کے دور خلافت میں ہوئی۔تاریخ کی سب سے پہلی مردم شماری، کرنسی سکہ کا اجراء، مہمان خانوں (سرائے) کی تعمیر، لاوارث بچوں کی خوراک،تعلیم و تربیت کا انتظام اور وطائف کا اجراء دور فاروقی میں کیا گیا۔ آپؓ کا مقام و مرتبہ کا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ”میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتے تو عمر بن خطاب ہوتے۔“(ترمذی)


27؍ ذی الحجہ سن 23ھ بروز بدھ کو مسجد نبوی میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فجر کی نماز کی امامت کررہے تھے۔ نماز کے دوران ابو ؤؤ فیروز نامی بدبخت مجوسی غلام نے زہر آلود خنجر سے آپؓ کے جسم مبارک پر تین چار وار کئے۔ جس کی وجہ سے حضرت عمرؓ زخمی ہوکر گر پڑے۔ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی۔ آپؓ کو بے ہوشی کی حالت میں گھر لایا گیا۔ ہوش آنے پر آپکو جب یہ بتایا گیا کہ حملہ آور مجوسی تھا تو آپ ؓنے اس بات پر اللہ کا شکریہ ادا کیا کہ حملہ آور مسلمان نہیں تھا۔ آپؓ کے علاج کے باوجود افاقہ نہیں ہو رہا تھا، اس دوران اپنے بیٹے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس جاکر کہیں کہ عمر کی خواہش ہے کہ انہیں اپنے رفقاء کے جوار میں دفن ہونے کی اجازت دیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا پیغام سننے کے بعد حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ”بخدا یہ جگہ میں نے اپنے لیے منتخب کرلی تھی،لیکن آج کے دن میں یہ قربان کئے دیتی ہوں۔“ تین دن کرب میں گزارنے کے بعد آپ رضی اللہ عنہ یکم محرم الحرام سن 24 ھ کو جام شہادت نوش فرماگئے۔آپؓ کی نماز جنازہ حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ نے پڑھائی۔ (المنتظم)۔روضۂ نبوی میں حضرت محمد رسول اللہ اور خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی پہلو میں حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی قبر مبارک بنائی گئی۔ اور یوں عدل و انصاف کا یہ آفتاب ومہتاب غروب ہو گیا۔ یہ مشیت خداوندی ہی ہے کہ اسلامی سال کی ابتداء ہی شہادت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ہوتی ہے اور پھر مرقدرسول اللہ کے سرہانے تا قیامت استراحت کیلئے دو گز جگہ بھی عطا فر مادی گئی۔ قیامت تک جو بھی مسلمان روضۂ اقدس میں سلامی کیلئے حاضر خدمت ہوگا وہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ پر سلام بھیجے بغیر آگے نہ بڑھ سکے گا۔ دشمنان صحابہ کا منہ بند کرنے کیلئے یہ ایک اعزاز خداوندی ہی کافی ہے۔


فقط و السلام

بندہ محمد فرقان عفی عنہ*

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

 یکم محرم الحرام ١٤٤٣ھ

11؍ اگست 2021ء بروز بدھ


+91 8495087865

mdfurqan7865@gmail.com

________

*ابن مولانا محمد ریاض الدین مظاہری

متعلم جامعہ ابو ہریرہ ؓ اکیڈمی

بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند

سوشل میڈیا انچارج جمعیۃ علماء کرناٹک

صدر مجلس احرار اسلام بنگلور

رکن عاملہ جمعیۃ علماء بنگلور


#پیغام_فرقان

#PaighameFurqan #Article #UmarFarooq #YaumeSahadath #Muharram

Wednesday, 9 December 2020

Aqaid-e-Islam

عقائد اسلام | Aqaid-e-Islam | अकाइद-ए-इस्लाम





Thursday, 15 October 2020

Salman Nadwi Ke Batil Nazriyaat Ke Mutalliq Jamia Mazahir Ul Uloom Saharanpur Ka Fatwa!

 ⭕️سلمان ندوی کے گمراہ نظریات کے متعلق جامعہ مظاہر العلوم سہارنپور کا فتویٰ!

👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻




Wednesday, 26 August 2020

آن لائن خطاب | سلسلہ ماہ محرم



مرکز تحفظ اسلام ہند کے آفیشل یوٹیوب چینل تحفظ اسلام میڈیا سروس پر!

محرم الحرام کی شرعی حیثیت!🎯

 شیخ طریقت حضرت مولانا طلحہ صاحب قاسمی نقشبندی مدظلہ

📆  27 آگست 2020ء بروز جمعرات
🕤  ٹھیک رات 9:30 بجے

خطاب سننے کے لیے درج ذیل لنک پر جاکر مرکز کے آفیشل یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کریں👇🏻

ऑनलाइन ख़िताब | सिलसिला माहे मुहर्रम

 



मर्कज़ तहफ्फुज-ए-इस्लाम हिंद के ऑफिशल यूट्यूब चैनल तहफ्फुज-ए-इस्लाम मीडिया सर्विस पर!


🎯 मुहर्रम की शरई हैसियत! 


🎙️ हज़रत मौलाना तल्हा साहब क़ासमी नक्शबंदी द.ब

📆  27 अगस्त 2020, दिन: जुमेरात


📌  ख़िताब सुनने के लिए नीचे लिंक पर जाकर मर्कज़ के ऑफिशियल यूट्यूब चैनल को सब्सक्राइब करें👇🏻

https://www.youtube.com/c/TahaffuzeIslamMediaService

Online Khitab | Muharram Series


🕌Online Khitab | Muharram Series🕌


Markaz Tahaffuz-e-Islam Hind Ke Official YouTube Channel Tahaffuz-e-Islam Media Service Per!


🎯 Muharram Ki Sharai Haisiyat!


🎙️Hazrat Moulana Talha Qasmi Naqshbandi DB


📆 27 August 2020 | Thursday

🕤 Theek Raat 9:30 PM


📌Bayan Sunne Ke Liye Markaz Ke Official YouTube Channel Ko Subscribe Karain👇🏻

https://www.youtube.com/c/TahaffuzeIslamMediaService