Showing posts with label Articles. Show all posts
Showing posts with label Articles. Show all posts

Sunday, 2 October 2022

ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میں دو اہم گزارشات!

 



ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میں دو اہم گزارشات!


✍️ مفتی سید حسن ذیشان قادری قاسمی

(رکن شوریٰ مرکز تحفظ اسلام ہند)


السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ 

بہت ہی ادب واحترام اور نہایت دردمندانہ جذبات کے ساتھ آپ حضرات کی خدمات ِعالیہ میں خادمانہ گزارش ہےکہ آج کل ہمارے ملک کے جو نازک حالات بنتے جارہے ہیں وہ یقینا بڑے ناگفتہ بہ اور تشویشناک ہیں۔ روز وشب کہیں سےکوئی المناک خبر، تو کہیں سے کوئی پریشان کن خبر آجاتی ہے، ایسے نازک ماحول میں خواہی نہ خواہی چاہ کر یا انجانے میں یاغیر محسوس طریقے پر ہم سے دو غلطیاں بہت زبردست ہورہی ہیں، جسکی طرف ہمیں توجہ دینے اور احتساب کرنے کی ضرورت ہے۔

 

پہلی یہ کہ ہم اپنے دینی اداروں کے متعلق ہر اچھی بری خبر فوراً شوشل میڈیا پر نشر کردیتے ہیں، کوئی نجی مشورہ بھی ہو تو تمام اہلِ مدارس کی خیر خواہی سمجھ کر ہرطرح کا آڈیو اور ویڈیو اور کسی کسی کا لکھا ہوا  تشویشناک مضمون پھیلادیتے ہیں، جس سے ہمیں شدید نقصان ہوتاہے، شرپسند عناصر چوکنا ہوجاتے ہیں اور ہم نادانی کاشکار ہوکر خود اپنا نقصان کرجاتے ہیں۔ جو باتیں نہیں آنی چاہئے  وہ منصۂ شہود پر آجاتی ہیں۔ یہ بات ہمیں باریکی سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہماری ہرنقل وحرکت پر اور پوری شوشل میڈیا پر اربابِ ِتجسُّس کی تیز نظریں ہیں، اس لئے ہربات شوشل میڈیاپر نشر کرنے کی ہرگز نہیں ہوتی۔ خاص طور پر یوٹیوپ چینل والے حضرات سے بڑی لجاجت کے ساتھ دست بستہ عرض ہے خدارا! اب ملت سے کھلواڑ کرنا چھوڑ دیجئے! اپنے چینل کی تشہیر کیلئے اب ہر چھوٹی بڑی خبر پر تفخیمِ عنوان  (بڑھا چڑھا کر) کرکے تشویشناک ویڈیو بناکر نشرکرنا بند کردیں ورنہ ہمارا یہ عمل ملت کیلئے سخت نقصان کاباعث ہوگا اور فسطائی طاقتوں کو تقویت دیگا اور وہ چاہتے ہی ہیں کہ مسلمان خوف وہراس کاشکار ہوجائیں۔  

دوسری اہم گزارش یہ ہے کہ اس وقت ملت کو سب سے زیادہ ضرورت "رجوع الی اللہ" اور "تعلق مع اللہ" کی مکمل ترغیب کے ساتھ مضبوط حوصلہ دینے کی ہے، ملت ڈری ہوئی ہے اور نفسیاتی خوف میں مبتلا ہوتی جارہی ہے۔ خود بہت سے اہلِ مدارس کا بھی یہی حال نظر آرہا ہے کہ وہ فوراً پریشان ہوجاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر نشر کئے جارہے ہر مفکر اور نامہ نگار کی بات کوئی وحی ربانی اور مسلم نہیں ہوتی، خوف پیدا کرنے والے مضامین سے احتراز کرنا چاہئے، اس لئے اکابرین کے بتائے ہوئے نشانِ راہ اور لائحہ عمل کے ساتھ ملتِ اسلامیہ کو مضبوط حوصلے کی ضرورت ہے، ورنہ نفسیاتی خوف میں مبتلاء قوم حالات کے مقابلے کا جذبہ رکھنے کے بجائے خود نفسیاتی شکست کھاکر زندہ لاش بن جاتی ہے۔ اس لئے پہلے خود اپنے اندر حوصلہ پیدا کرکے قوم کو مضبوط حوصلہ دینے کی ضرورت ہے، جیسے ہمارے اکابر بتلاتے آرہے ہیں دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ حالات سے ہم خود بھی خائف وپریشان ہوجاتے  ہیں اور اسی خوفزدہ انداز میں ملت کے سامنے حالات کاتذکرہ کردیتے ہیں تو ملت بھی خوفزدہ اور افسردہ ہورہی ہے افسردہ دل افسردہ کند انجمنے را


 اس لئے ملت کو اب حوصلہ دینے کی سخت ضرورت ہے، قوم کو نفسیاتی خوف سے نکال کر جینے اور حالات سے نبردآزمائی کا حوصلہ دیں، ان شاء اللہ حالات کو ربِ کائنات درست فرمادیگا، امید کہ آپ حضرات بہت سنجیدگی اور خیر اندیشی کے ساتھ غور فرمائیں گے۔

Thursday, 21 July 2022

سرور کونینﷺکے دربار سے بارگاہ رب ذوالجلال تک

 🎯 سرور کونینﷺکے دربار سے بارگاہ رب ذوالجلال تک



📌 سفرحج کی ڈائری سےایک ورق

 

✍️ حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب دامت برکاتہم

(سرپرست مرکز تحفظ اسلام ہند)


  مدینہ منورہ ایسی پرکیف،راحت بخش اور دل آویز بستی ہے کہ یہاں جو آئے، واپس جانے کا تصور ہی اس کے لیے رنج اور صدمے کا باعث ہوتا ہے، ایسی مبارک بستی اور کہاں ہوگی جہاں ہر وقت نور ونکہت کی بارش ہوتی رہتی ہے، سکینت کی چادر تنی رہتی ہے اور بڑے سے بڑے مجرم کو بھی رحمۃ للعالمین کے بحر رحمت وکرم سے تسلی وسکون کے جامہائے شیریں ملتے رہتے ہیں، یہاں ایک احساس ہے اپنائیت کا، یہاں ایک کیف ہے دست شفقت کے سرپہ ہونے کا، یہاں ایک سہارا ہے توجہ وعنایت کا، یہاں ایک آسرا ہے محبت وشفاعت کا، مجھ سا گنہگار بھی یہاں کے ایک ایک ذرے سے طمانینت پاتا ہے، مجرم وخطا کار یہاں کی فضا میں سرکار کے قدموں کی آہٹ پاتا ہے، اور اس تمنا کے ساتھ وقت گذارتا ہے کہ”جی چاہتا ہے کہ نقشِ قدم چومتے چلیں!“ یہاں کے ذروں کی بھی قسمت دیکھیے، یہاں کے سنگریزوں کا نصیبہ ملاحظہ کیجیے کہ انہوں نے کائنات کی سب سے مقدس ہستی کے قدم چومے، برسوں گذرے اسی مبارک سرزمین پر مسجد نبوی کے آغوش میں روضہ اطہر کے قریب مشہور عاشق رسول اور صاحب نسبت شیخ پیر جماعت علی شاہ فروکش تھے، حج کے لیے حاضری ہوئی تھی، حج کے مناسک سے فارغ ہوکر اب ان کا قافلہ مدینۃ النبی میں خیمہ زن تھا، پیر صاحب عشق ووارفتگی میں ممتاز تھے، عشق نبوت سے سینہ لبریز تھا، قافلے میں موجود ایک شاعر نے پیر صاحب کی اجازت سے چند شعر سنائے، جذبات کیف ومستی عروج پر آگئے، یہاں تک کہ شاعر نے یہ شعر سنایا ؎

 ایسے کہاں نصیب اللہ اکبر سنگ اسود کے

یہاں کے پتھروں نے پاؤں چومے ہیں محمّد کے

  بس پیر جماعت علی شاہ بیخود ہوکر کھڑے ہوگئے، وجد کی کیفیت طاری ہوگئی، صدری میں سفر حج کے اخراجات کے ساتھ اس زمانے کے لحاظ سے کافی معقول رقم تھی، صدری اتار کر رقم سمیت شاعر کو بخش دی، اور فرمایا کہ نہ ہو اپنجاب (یعنی وہاں ہوتے تو اور نوازتے) عشق بنیا نہیں ہے کہ سود وزیاں کا حساب کرتا پھرے، یہ کام عقل کا ہے، عشق تو بے خطر آتشِ نمرود میں چھلانگ لگادیتا ہے، اور پہلے ہی قدم پر جان کی بازی لگاکر کامیابی کی سند پاتا ہے ؎

در رہ منزل لیلٰی کہ خطرہاست بجان 

شرط اول قدم آنست کہ مجنوں باشی

  بات سے بات یاد آتی ہے، ہمارے سلسلہ عالیہ کے عظیم بزرگ اور صاحب کیف وحال شیخ حضرت شاہ فضل رحماں گنج مراد آبادی نور اللہ مرقدہ کی خدمت میں ان کے مریدِ با صفا مولانا حاجی محمد شفیع بجنوری حاضر تھے، یہ خود بھی بڑے صاحب جذب وکیف شخص تھے، اور حرمین شریفین حاضری کے مشتاق ودلدادہ، اس زمانے میں جب کہ حرمین شریفین کا سفر انتہائی دشوار گذار تھا، راہ کی صعوبتیں ایک سے بڑھ کر ایک، رہزنوں کا خطرہ، سمندر کی موجوں کی طغیانی، موسم کی شدت، بھوک پیاس کی مشقت، لوگ کشتیوں پر جھولتے ہوئے اور اونٹوں پر جھومتے ہوئے حرمین حاضر ہوتے تھے، کتنے راہ ہی میں جان کی بازی ہار دیتے تھے کہ ؎

جان ہی دیدی جگر نے آج پائے یار پر

عمر بھر کی بے قراری کو قرار آہی گیا

جو مشقتوں کا صحرا اور صعوبتوں کا دریا عبور کرتے ہوئے آگے بڑھتے تھے ان کو بھی قدم بہ قدم یہ خیال ہوتا تھا کہ ؎

شب تاریک وبیم موج وگردابی چنین حائل

کجا دانند حالِ ما سبکبارانِ ساحلہا

  اس زمانے میں حرمین شریفین کا سفر واقعی عشق ومحبت کی کسوٹی تھا، کوئی ایک بار بھی حاضر ہوجاتا تھا تو غنیمت خیال کرتا تھا، ایسے دور میں مولانا شفیع بجنوری متعدد بار حاضر ہوئے، اور ان کے عشق ومحبت کا یہ صلہ ان کو ملا کہ عین موسم حج میں مکہ مکرمہ کی مبارک سر زمین نے اس مرد باخدا کو اپنی آغوش میں لے لیا، اور وہ ہمیشہ کے لیے جنت المعلی کے مکین بن گئے، ۸ ذی الحجہ کو حالت احرام میں ان کا وصال ہوا، گویا کہ قیامت تک ان کے لیے حج کا ثواب لکھا جاتا رہے گا، یہی خوش نصیب انسان اپنے مرشد کامل شاہ فضل رحماں کی بارگاہ میں ہے، سفر حج پر روانگی قریب ہے، بارگاہِ مرشد میں سفر کا ذکر آیا، مرشد نے پوچھا: سفر حج کی کچھ تیاری بھی کی؟ کچھ انتظام بھی کیا؟ مرید پر شوق اور عشق کی کیفیت طاری تھی، بے اختیار زبان سے یہ شعر نکلا ؎

در رہ منزل لیلٰی کہ خطر ہاست بجان 

شرط اول قدم آنست کہ مجنوں باشی

شعر سننا تھا کہ مرشد بھی بیخود ہوگئے، ایک زور کی چیخ ماری، لیکن فورا ہی سنبھل گئے، ارشاد ہوا: سب واہیات ہے، شریعت کی پابندی ہر حال میں ضروری ہے، اللہ اللہ کیسے تھے ہمارے اسلاف! شریعت وطریقت دونوں کے جامع، در کف جام شریعت سندان عشق کے مصداق، ہوشیاروں میں سب سے زیادہ ہوشیار، اور مستوں میں سب سے زیادہ مست، مست بھی کونسے؟ مست مئے عہد الست، بلیٰ بلیٰ کا نعرہ مستانہ بلند کرنے والے، معرفت ربانی کے دریا میں غوطہ زنی کرنے والے، ایک مالک کے نام پر جینے اوراسی کے نام پر مرنے والے، نظام الملت والدین حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء بوقت تہجد اپنی مناجات میں یہ دو شعر پڑھا کرتے تھے ؎

خواہم کہ ہمیشہ در ہوائے تو زیم

خاکے شوم و زیر پائے توزیم

مقصود من بندہ ز کونین توئی

از بہر تو بمیرم واز برائے توزیم

  اور یہ صرف ان کا حال نہیں تھا، ہمارے بزرگوں، بڑوں اور اسلاف نے اسی طریقے کو چنا تھا، وہ خشک ملّا نہیں تھے، معرفت ربانی کے ذوق آشنا، اور محبت الہی کے محرم اسرار تھے، شریعت ان کے سر کا تاج تھی اور طریقت ان کے سینے کا راز، اور ان دونوں کے درمیان توازن قائم رکھنا ان کا امتیاز! وہ پگڈنڈیوں کے راہی نہیں تھے، ان کے قدم ہمیشہ شاہراہِ شریعت وطریقت پر مستقیم رہے، سچے مسلمان، پکے صوفی!

  مدینہ منورہ کی نکھری اور اجلی صبح تھی، حالت احرام میں ایک سیہ کار تنہا مسجد نبوی کی طرف رواں دواں تھا، ریحان نے ساتھ چلنا چاہا، میں نے منع کردیا، مسجد نبوی میں داخل ہوا، رگ وپے میں ٹھنڈک پھیل گئی، ساتھ ہی اضطراب بھی بڑھا، مسجد شریف تقریبا خالی تھی، زیادہ تر قافلے مکہ مکرمہ کے لیے روانہ ہوچکے ہیں، مقامی لوگ اور بچے کچھے عازمین حج قیام گاہوں پر ہیں، ترکی حرم کا حصہ صفائی کے لیے بند تھا، اس کے قریب ہی ایک ستون کے پیچھے نماز میں مشغول ہوگیا، تحیۃ المسجد پڑھی، پھرتوبہ کی نماز، پھر شکر کی نماز، پھر حاجت کی نماز، توبہ اس بات کی کہ وقت غفلت میں گذر چکا، شکر اس کا کہ رب کریم! تونے اس مبارک مقام تک پہونچایا، التجا اس تمنا کی کہ یہاں کی حاضری پھر نصیب ہو، اور ابھی کی حاضری قبول ہوجائے، نماز بھی آنسوؤں کے ساتھ پڑھی گئی، اور پھر جب دعا کے لیے ہاتھ اٹھے تو بند ٹوٹ گیا، اللہ! اس کریم بارگاہ کو چھوڑ کر جانے کا وقت آگیا، اب یہ سایہٴ رحمت کہاں ملے گا؟ یہ سنہری جالی کا منظر، یہ گنبد خضراء کا جلوہ، یہ روضہ شریف کا نظارہ کب میسر آئے گا؟ جہان میں کہیں اور مجھ سے گنہگاروں کے لیے امان نہیں ہے، اگر کہیں امان ہے تو یہیں ہے، جس کی کملی میں مجرم منہ چھپالیتے ہیں، جس کی رحمت ورافت مومنوں کو سکون بخشتی ہے، جس کی رحمۃ للعالمینی کی چادر عادی خطا کاروں کو بھی سایہ فراہم کرتی ہے، جس کی ذات سخت دھوپ میں برگد کی ٹھنڈی چھاؤں ہے، اور صحراء کی حدت وحرارت میں کوثر وتسنیم کا سرچشمہ ہے، ایسی پاکیزہ، شفیق اور غم خوار ہستی کی بارگاہ سے رخصت کی گھڑی ہے، بار الہا! اس کا در چھوڑ کر جانا ہے جس کے ذریعے تجھ کو پہچانا ہے، پاک پروردگار! ایسے مقام سے واپسی ہے جو رشک ملائک ہےــــــــــــ دیر تک کج مج زبان میں عرض کرتا رہا، کچھ زبان نے کہا، زیادہ تر آنکھوں کے اشک نے!

آنسو مری آنکھوں میں ہیں نالے مرے لب پر

سودا مرے سر میں ہے تمنا مرے دل میں

نماز ودعا سے فارغ ہوکر باب السلام کی طرف بڑھا، الوداعی سلام پیش کرنا تھا، قدم بوجھل ہوئے جارہے تھے، روانگی کا وقت بھی قریب ہورہا تھا، جیسے تیسے بارگاہ میں حاضر ہوا، اللہ کے رسول! سیہ کار امتی کا سلام قبول ہو، وقت رخصت ہے، جا تو رہا ہوں مگر کس دل سے؟ یہ بس دل ہی جانتا ہے، چند دن بس چند لمحات کی طرح گذر گئے، یہاں آکر بھی غفلت اور سستی سے پیچھا نہ چھوٹا، شرمندہ دل اور مضطرب روح کے ساتھ آپ کا در چھوڑ کر جارہا ہوں، آپ کے در سے اللہ پاک کے گھر کی طرف سفر کرنا ہے، اللہ پاک سے آسانی، قبولیت اور پھر سے مقبول حاضری کی دعا کردیجیے، دل میں جذبات واحساسات کا سیلاب امڈا جارہا تھا، آنکھ بہتی چلی جارہی تھی، اور قدم آگے بڑھنے سے انکاری تھے، کوئی ہجوم بھی نہیں تھا، بس تھوڑے سے لوگ تھے، جو صلاۃ وسلام کا نذرانہ بارگاہِ نبوت میں پیش کررہے تھے، مگر شرطہ کو بڑی جلدی تھی، ”یا حاج تحرّک“ کی صدا بار بار کانوں سے ٹکرارہی تھی، اس لیے بادلِ نخواستہ قدم آگے کی طرف بڑھے، حضرت ابوبکر وعمر کو سلام کرتا ہوا نم آنکھوں کے ساتھ آگے بڑھا، دروازے سے نکل کر پھر کھڑا ہوگیا، گنبد خضراء کا منظر سامنے تھا، پولس والے یہاں بھی کھڑے نہیں رہنے دیتے ہیں، لیکن بھیڑ نہیں تھی تو کسی نے توجہ نہیں دی، کچھ دیر کھڑا رہا، گنبد کو دیکھتا رہا، حسرت کے آنسو بہاتا رہا، قریب میں ایک اور نوجوان بھی تھا، اس کے ساتھی تو سلام پیش کرکے آگے بڑھ گئے مگر وہ صدمہ سے بے حال تھا، بلک بلک کر رو رہا تھا، احرام کی حالت تھی، ہاتھ آنکھوں پر، اور بے قراری دیدنی! شمع نبوت پر جان لٹانے اور اپنا آپ نچھاور کرنے والے پروانے ایک دو نہیں، لاکھوں کروڑوں ہیں، زمانے کی گردشیں عشق و وارفتگی کے جذبات پر گرد نہ ڈال سکیں، مادیت اپنے تمام تر ہتھیار استعمال کرکے بھی جنون محبت کو شکست نہ دے سکی، آج بھی عشق زندہ ہے! آج بھی محبت پائندہ ہے! اور محبت بھی کیسی اور کتنی؟ جو جگر کو پگھلادے، جو دل کو گرمادے، جو حساب کم وبیش اور فکر سود وزیاں سے بیگانہ کردے، اور ذات نبوی کا دیوانہ بنادے، ایسا دیوانہ جس کی دیوانگی پر ہزار فرزانگی قربان!

دل سےبےاختیاریہ دعانکلی کہ

دمکتے رہیں ترےگنبد کےجلوے

چمکتی رہےترےروضےکی جالی 


  گنبد خضراء پر نگاہ جمائے کچھ دیر کھڑا رہا، دعا بھی مانگتا رہا، اور صلاۃ وسلام بھی پڑھتا رہا، جہاں مدینہ پاک چھوٹنے کا غم تھا، وہیں احساس ندامت سے بھی دل لبریز تھا، وقت کی قدر نہ ہوسکی، یہاں کی خیرات وبرکات سے دامن نہ بھرسکا، درِ فیض تو کھلا تھا مجھ سے ہی کمی کوتاہی ہوگئی، جہاں سر کے بل حاضر ہونا چاہیے تھا وہاں قدموں کے بل حاضر ہوا، اور اپنی نادانی اور غفلت کی وجہ سے خسارے میں رہا، دل میں ندامت، آنکھ میں آنسو اور زبان پریہ دعا لے کر قیام گاہ واپس لوٹا”اللھم لا تجعل عہدنا ھذا آخر العہد“، اللہ! اس حاضری کو آخری حاضری نہ بنا، اپنے محبوب کے شہر میں پھر بلالے، مقبول حاضری سے مشرف فرمادے، قیام گاہ پر سامان تیار تھا، اہلیہ نے سامان ترتیب سے رکھ دیا تھا، اور ریحان سلّمہ نے اسے نیچے اتار دیا تھا، روانگی ساڑھے دس بجے تھی، مگر معلم کی جانب سے بس آنے میں دیر ہوئی، کوئی ساڑھے بارہ بجے روانگی ہوئی، بس میں بیٹھے ہوئے اہلیہ مسجد نبوی کے میناروں پر نظر جمائے ہوئے تھیں، تھوڑی دیر کے بعد نجانے کیا خیال آیا کہ سسکیوں کے ساتھ روپڑیں، بس روانہ ہوئی تو ان کا رونا بڑھ گیا، ہمارے ٹور کے ذمہ دار حافظ سلمان صاحب کے اصرار پر میں نے چند منٹ تقریر کی، پھر دعا کرائی، دعا میں رقت طاری ہوگئی، اور ساتھیوں میں سے بہت سے روپڑے، اور دعاؤں کے ساتھ حج کی آسانی کی دعا بھی کی، اللہ پاک قبول فرمائے، ذو الحلیفہ پہونچ کر ظہر کی نماز با جماعت ادا کی، فقیر کی امامت میں سب نے نماز پڑھی، پھر دو رکعت نفل پڑھ کر تلبیہ پڑھا، لبیک اللہم لبیک، لبیک لا شریک لک لبیک، ان الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک لک، یہ بھی کیسا پیارا ترانہ ہے، کیسی البیلی دعا ہے، کتنا خوب صورت التجا کا انداز ہے!گویا کہ پروردگار نے پکارا کہ میرے بندے! مادیت کے غلبے سے نکل کر روحانیت کی طرف آ، ضلالت وشقاوت کے اندھیرے سے نکل کر ہدایت وسعادت کے اجالے کی طرف سفر کر، نفس وشیطان کو چھوڑ، رب رحمان کی طرف آ، جہالت کی گھاٹی سے ابھر، علم ومعرفت کی وادی میں بسیرا کر، اور اس پکار پر بندہ دیوانہ وار دوڑتا ہوا پاک پروردگار کی بارگاہ میں حاضر ہوا، اس ندا کے ساتھ کہ” لبیک اللہم لبیک، لبیک لا شریک لک لبیک، ان الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک لک“ حاضر ہوں، میرے اللہ! میں حاضر ہوں، تو نے بلایا، میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، تونے طلب کیا، میں تیری بارگاہ میں حاضر ہوں، حمد وثنا تیرے لیے، نعمت اور بادشاہت تیری، ملک اور اقتدار تیرا، (میں خالی ہاتھ ہوں اور سارا اختیار واقتدار تیرا ہے) اللہ پاک بندے کو بلارہا ہے کہ آ، تاکہ میں تیرا دامن نعمت سے بھردوں، تیری جھولی مراد سے لبریز کردوں، تیرے گناہ معاف کردوں، تیر ی معصیت پر قلم عفو پھیردوں، کتاب زندگی کی ساری خطائیں دم بھر میں مٹادوں، شیطان کے بنائے قلعے کو مسمار کردوں، دل میں محبت ومعرفت کے چراغ روشن کردوں، نگاہ کو عفت، زبان کو سچائی، کانوں کو حیا اور جسم کو طاعت کا مزہ دوں، پھول کی سی تازگی، پھل کی سی مٹھاس، ٹھنڈے پانی کی سی فرحت اور شبنم کی سی خنکی بخش دوں، یہ اعلان سن کر بندہ پکار اٹھتا ہے: لبیک اللہم لبیک، لبیک لا شریک لک لبیک، ان الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک لک، ندا دی جارہی ہے کہ آ، میں تجھے اخلاق کی وسعت، فکر کی بلندی اور آفاقیت ، کردار کی رفعت اور اعمال پر استقامت سے مالا مال کردوں، تیرے ذہن وفکر کے دریچے وا کردوں، تجھ پر نعمت وبرکت کے دہانے کھول دوں، تجھے شہوتوں اور لذتوں سے دور کردوں، تجھے اپنی ذات سے قریب کرلوں، یہ روح پرور ندا سن کر بندہ لپک کر آتا ہے اور پکا ر پکار کر اپنی حاضری درج کراتا ہے، لبیک اللہم لبیک، لبیک لا شریک لک لبیک، ان الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک لک۔

  احرام کی حالت میں سب کی زبان پر تلبیہ جاری ہے، آس پاس اور بہت سے قافلے موجود ہیں، کچھ نماز پڑھ رہے ہیں، کچھ لبیک کی صدا بلند کررہے ہیں، ٹور کے اکثر لوگ حج تمتع کررہے ہیں، یعنی مکہ مکرمہ پہونچ کر عمرہ کریں گے، احرام اتاردیں گے، پھر ۸ ذی الحجہ کو حج کا احرام باندھیں گے، اور حج کریں گے، ہم لوگ چونکہ براہ راست ہندوستان سے مدینہ منورہ حاضر ہوئے، اس لیے حج قران کی گنجائش تھی، ہم چاروں (راقم اور اس کی اہلیہ، ریحان اور ان کی اہلیہ) نے حج قران کی نیت کی، حضور اکرم ﷺ نے اپنے پہلے اور آخری حج کے موقع پر ذو الحلیفہ سے ہی احرام باندھا تھا اور حج قران کی نیت کی تھی، پھر اس سال بھی حج کا دن اور جمعہ کا دن ایک ساتھ آئے تھے، (جسے عام لوگ حج اکبری کہتے ہیں) اس سال بھی اللہ پاک نے دونوں مبارک دنوں کو اکٹھا کردیا ہے، ان مشابہتوں کے اکٹھا ہونے سے دل مسرور ہے، غلاموں کو آقا کی راہ پر چلنا نصیب ہورہا ہے، ۲۰۱۹ء میں بھی جب حج کے لیے حاضری ہوئی تھی تو حج قران ہی کیا تھا، اس سال بھی اللہ پاک پھر موقع دے رہا ہے، اس پر جتنا شکر ادا کروں کم ہے، اللہم لک الحمد ولک الشکر کلہ! تلبیہ کی صداؤں کے ساتھ قافلہ روانہ ہوا، سب کے دل میں شوق بھی ہے کہ بارگاہ رب کریم میں حاضر ہورہے ہیں، منی، مزدلفہ، عرفات میں ٹھہریں گے، اللہ پاک کا حکم بجالائیں گے، ساتھ ہی خوف بھی ہے کہ حج کے ارکان صحیح سے ادا ہوپائیں گے یا نہیں؟ کہیں کوئی غلطی نہ ہوجائے، کہیں کوئی قصور نہ ہوجائے! ہجوم اور ازدحام کی وجہ سے کسی رکن کی ادائیگی میں خلل نہ پڑجائے، شوق اور خوف کی ملی جلی کیفیت میں قدم آگے بڑھ رہے ہیں، دیوار کے پیچھے کیا ہے؟ خدا جانتا ہے، زمانوں اور وقت کے پار کیا ہے؟ عالم الغیب کے علم میں ہے، جو ہونا ہے ہو کر رہے گا، اور جو ہوگا وہ اللہ پاک کے حکم اور اشارے ہی سے ہوگا، اس لیے سب اسی کے آگے ہاتھ پھیلارہے ہیں، سب اسی سے خیر اور آسانی کی التجا کررہے ہیں، سب کے دل اسی کے آگے جھکے ہوئے ہیں، سب کی نگاہیں اسی کی طرف لگی ہوئی ہیں، اے کریم! اے رحیم! اے حلیم! اے عظیم! تیری رحمت عام ہے، تیری بخشش لا کلام ہے، ہر مشکل کو آسان کرنے والا، ہر مصیبت کو دور کرنے والا، عافیت اور نعمت کے خزانوں سے مالا مال کرنے والا، توفیق وسعادت کی مایہ عطا کرنے والا تو ہے، تجھ سے رحمت کا، کرم کا، عافیت کا، نعمت کا، توفیق کا، سعادت کا سوال ہے، التجا اور کسی کی نہیں تیری بارگاہ میں ہے کہ تو ہی داتا ہے، تو ہی پالنہار ہے، تو ہی بخشندہ ہے، توہی پروردگار ہے!

بس آرام دہ اور تیز رفتار ہے، البتہ جگہ جگہ چیک پوسٹ ہے، بار بار رکنا پڑرہا ہے، کہیں کہیں رفتار کم کرنی پڑ رہی ہے، وادی ستارہ کی مسجد جابر ابن سالم میں عصر کی نماز با جماعت پڑھی، مسجد میں داخل ہوا تو یاد آیا کہ اس سے پہلے بھی اس مسجد میں نماز پڑھ چکا ہوں، اس وقت مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ جارہا تھا، غالبا فجر کی نماز یہاں پڑھی تھی، کہیں ڈائری میں لکھا ہوا ہوگا، وہیں ٹھہر کر شام کی چائے پی، پھر سفر شروع ہوا، میں تلاوت میں مشغول تھا، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے تذکرے میں کہیں پڑھا تھا کہ جب انہوں نےامام مالک علیہ الرحمۃ والرضوان سے علم حاصل کرنے کی غرض سے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کا رخت سفر باندھا تو مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ اونٹ پر جاتے ہوئے روزانہ ایک کلام پاک ختم فرماتے تھے، اس وقت امام شافعی بالکل نو عمر تھے، مگر عبادت اور بندگی کا کیسا مزاج تھا، وقت کی قدر دانی کس درجے کی تھی! اللہ پاک کے کلام سے کیسی مناسبت اور کس درجے محبت تھی! ائمہ اربعہ کے ذکر کے وقت عام طور پر صرف ان کے علمی رسوخ، فقاہت، ذہانت، نکتہ رسی اور دقیقہ سنجی کا بیان ہوتا ہے، حالانکہ ان کا اصل کمال علم وعمل کی جامعیت، تقوی وطہارت، کثرت عبادت، زہد وقناعت اور توکل وانابت جیسی صفات مومنانہ تھیں، عزت وعظمت کا تاج ان کے سر کی زینت صرف ان کے علم کی وجہ سے نہیں بنا، بلکہ عمل واخلاص کا جوہر اس کا اصل سبب تھا، علم والے تو دنیا میں اور بھی گذرے ہیں، مگر چمکے وہی جنہوں نے علم کو عمل سے جوڑا، اور خشیت الہی سے سینے کو منورکیا، کیسے موقع سے مولانا روم یاد آگئے ؎

علم را برتن زنی مارے بود

علم را بردل زنی یارے بود

  مرشد کی مجلس تھی، علم وعمل پر گفتگو جاری تھی، ارشاد ہوا: کئی بڑے علماء کو میں نے دیکھا، علم پختہ تھا، ذہانت کمال درجے کی تھی، تقریر کرتے تھے تو موتی رولتے تھے، لکھتے تھے تو الفاظ کا تاج محل کھڑا کردیتے تھے، متحرک اور فعال بھی تھے، عوام سے رابطہ بھی خوب تھا، مگر با فیض نہ ہوئے، شمع جلی، جل کر بجھ گئی، نہ مقبول ہوسکے، نہ فیض کا دائرہ بڑھ اور پھیل سکا، ان میں کچھ ایسے بھی تھے جو میرے والد ماجد کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے، فقیر نے عرض کیا: دادا جان (عام طور پر یہ ناکارہ حضرت مولانا منت اللہ رحمانی نور اللہ مرقدہ کے لیے دادا جان یا بڑے حضرت کا لقب ہی استعمال کرتا تھا) کی صحبت میں رہنے کے باوجود ایسا کیوں ہوا؟ ان پر رنگ کیوں نہ چڑھا؟ مرشد کا مختصر جواب تھا، مولانا !آپ نے مولانا !روم کا شعر نہیں پڑھا؟

علم را برتن زنی مارے بود

علم را بر دل زنی یارے بود

  آہ! مرشد بھی کیا خوب انسان تھے! مختصر جملوں میں الجھی ہوئی گتھیاں سلجھانے والے، اشارے اشارے میں مشکلات کو حل کردینے والے، واقعی ان کا وجود اس مصرعے کا مصداق تھا ؎

اے لقائے تو جواب ہر سوال 

 مشکل از تو حل شود بے قیل و قال

  )اے وہ ذات کہ تیری ملاقات ہر سوال کا جواب ہے، بےشک تجھ سے بے قیل وقال ہر مشکل حل ہوجاتی ہے)

  بات دور نکل گئی، ذکر تھا امام شافعی کا، مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ جاتے ہوئے روزانہ ایک کلام پاک ختم فرماتے، یہ بات ذہن کے کسی گوشے میں چپکی ہوئی تھی، مدینہ طیبہ سے روانہ ہوتے ہوئے مسجد نبوی ہی میں نیت کی کہ یہ فقیر بھی مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کے سفر میں پندرہ پارے تلاوت کرے گا، بحمد اللہ اور اوراد واذکار اور تلبیہ کی کثرت کے ساتھ تلاوت کی یہ مقدار اس وقت پوری ہوگئی جب بس مکہ مکرمہ کی قیام گاہ کے سامنے رک رہی تھی۔ فللہ الحمد والمنۃ۔

رات ساڑھے نو بجے کا وقت تھا جب مکہ مکرمہ کی آبادی نظر آنا شروع ہوئی، دل کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں، شہر جلال آرہا ہے، پاک پروردگار کی تجلیات کا مرکز قریب ہورہا ہے، حرم محترم سے نزدیکی بڑھ رہی ہے، ”البلد الامین“ کی مبارک ہوائیں اور پرنور فضائیں بس نصیب ہونےہی والی ہیں، میرا عجیب حال ہے، مدینہ منورہ جتنا قریب آتا جاتا ہے شوق غالب ہوتا ہے، اور مکہ مکرمہ سے جتنا قرب بڑھتا ہے خوف کا غلبہ ہوتا ہے، دل ڈر جاتا ہے، کہیں کوئی غلطی نہ ہوجائے، کہیں بارگاہ رب ذو الجلال کے آداب کی خلاف ورزی نہ ہوجائے، یہ مقام کوئی عام مقام نہیں ہے، یہ مکہ مکرمہ ہے، روئے زمین کا افضل ترین مقام! یہ مہبط وحی اور مولد نبی ہے، برکتوں اور رحمتوں نے اس کا احاطہ کر رکھا ہے، تجلیات جلال رحمانی نے اسے مرکز انوار بنا رکھا ہے، یہاں کی عبادت ہر جگہ کی عبادت سے بڑھ کر! یہاں کی خطا بھی ہر جگہ کی خطا سے بڑھ کر! اس کے بارے میں ارشاد ہے: ”وَ مَنْ یُّرِدْ فِیْهِ بِاِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ“، (ترجمہ: اور جو اس میں کسی زیادتی کا ناحق ارادہ کرے ہم اُسے دردناک عذاب چکھائیں گے۔) آیت قرآنی ڈرا رہی ہے: خبر دار رہو! یہ مقام ادب ہے، ڈرتے رہو! یہ بارگاہِ رب کبریاء ہے، ہر غلطی سے بچو! ہر معصیت کے ارادے سے باز رہو! پاک مقام پر ہو، پاک اور پاکیزہ بن کر رہو! پاک پروردگار کے تقدس کا خیال رکھو، اس کی ذات کا استحضار پیدا کرو کہ وہ تم کو دیکھ رہا ہے، تمہاری باتوں کو سن رہا ہے، تمہارے دل کے ارادوں سے واقف ہے، ”الم یعلم بأن اللہ یری“ ــــــــــــ الم یعلموا أن اللہ یعلم سرھم ونجواھم وأن اللہ علام الغیوب۔

  لیجیے، خیالات اور تصورات کی دنیا سجی ہوئی تھی کہ مکہ مکرمہ کی آبادی شروع ہوگئی، ”اللھم إن ھذا الحرم حرمک والبیت بیتک الخ“ والی دعا زبان پر جاری ہوگئی، تلبیہ کی آواز بھی بلند ہونے لگی، آیا پروردگار آیا، تیرے دربار میں حاضر ہوگیا، ناپاک ہوں، مگر پاک جگہ آگیا، سیہ کار ہوں، مگر تیرے بلاوے پر حاضر ہوں، تونے بلایا، تونے اپنا مہمان بنایا، میں اس قابل تو نہ تھا، مگر تیری عطا کا کوئی کنارہ نہیں، تیری نوازش کی کوئی انتہا نہیں! حاضر ہوں، اے پروردگار حاضر ہوں، رات کے ٹھیک دس بجے تھے جب بس نے ”المختارون بلازہ“ نامی ہوٹل کے سامنے پہونچادیا، معلوم ہوا کہ مکرمہ مکرمہ کی قیام گاہ یہی ہے، بس سے قدم نیچے رکھتے ہوئے بے اختیار یہ شعر یاد آیا ؎


یہاں نہ گھاس اگتی ھے یہاں نہ پھول کھلتے ہیں

پھر بھی اس سرزمیں سے آسماں جھک کےملتے ہیں


                        *٭٭٭٭٭*


🗓 بروز پیر، 4جولائی 2022ء/۳ ذی الحجہ ۱۴۴۳ھ

Saturday, 13 February 2021

ویلنٹائن ڈے بے حیائی کا عالمی دن!



 ویلنٹائن ڈے بے حیائی کا عالمی دن!


✍️ بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


اللہ تبارک و تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک پاکیزہ مذہب اور تہذیب عطاء کیا۔ دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات کا نام ہے۔ جس نے انسان کو زندگی کے ہر گوشے میں رہنمائی فراہم کی ہے۔ اسلام نے جہاں ہمیں نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور دیگر عبادات کے حوالے سے رہنمائی فراہم کی وہیں سیاست، معاشرت، معاشیات، اخلاقیات اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں بھی بھرپور تعلیمات عطاء کی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کی کرنیں مکہ و مدینہ سے نکل کر پوری دنیا میں پہنچ چکی ہیں۔ اور دن بدن بلاد کفار میں بسنے والے لوگ دائرۂ اسلام میں داخل ہورہے ہیں۔ آج مغرب میں اسلام سب سے مقبول اور تیزی سے پھیلنے والا مذہب بن چکا ہے۔ اسلام اور مغربی تہذیب کی کشمکش صدیوں سے جاری ہے۔اسلام کی بڑھتی مقبولیت کو دیکھ کر مغرب نہ صرف پریشانی میں مبتلا ہے بلکہ اسلامی تعلیمات اور تہذیب پر منصوبوں کے تحت حملے کیے جارہا ہے اور ان مذموم مقاصد کو سر انجام دینے کیلئے باقاعدہ مختلف ادارے دن رات سرگرم ہیں۔ مغرب کے مشترکہ اہداف میں اولین ہدف مسلم معاشرے میں بے حیائی، بے شرمی، جنسی بے راہ روی اور شہوت رانی کا فروغ دینا ہے۔ اسی کے پیش نظر مغربی تہذیب نے معاشرے میں مختلف بے ہودہ رسوم و رواج، بدکاری و بے حیائی کو جنم دیا ہے۔ انہیں میں سے ایک 14؍ فروری کو ”یوم محبت“ کے نام سے منایا جانے والا ”ویلنٹائن ڈے“ ہے۔ جس کی بنیاد بے حیائی، بے شرمی، بدکاری اور زنا پر ہے۔ افسوس کہ آج مسلمان بھی مغرب کی اس سازش کا شکار ہوچکے ہیں۔

حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی

خدا کرے کہ جوانی تری رہے بے داغ


ہر سال 14؍ فروری کو دنیا کے مختلف حصّوں بالخصوص مغربی ممالک میں ”ویلنٹائن ڈے“ کو بے حیائی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر ناجائز طریقے سے محبت کرنے والوں کے درمیان نہ صرف مٹھائیوں، پھولوں، کارڈز اور ہر طرح کے تحائف کا تبادلہ ہوتا ہے بلکہ ناجائز تعلقات بھی قائم کئے جاتے ہیں۔ کارڈز بھیجنے کے حوالے سے ایک تحقیق کے مطابق عیسائیوں کا تہوار کرسمس کے بعد یہ دوسرا بڑا موقع ہوتا ہے۔ آخر ویلنٹائن ڈے کے پیچھے کیا کہانی ہے؟ آئیے اس حوالے سے سب سے مشہور روایات اور واقعات پر نظر ڈالتے ہیں۔ بعض کے نزدیک یہ وہ دن ہے جب ”سینٹ ویلنٹائن“ نے روزہ رکھا تھا اور لوگوں نے اسے”محبت کا دیوتا“ مان کر یہ دن اسی کے نام کر دیا۔ کئی شرکیہ عقائد کے حامل لوگ اسے یونانی کیوپڈ (محبت کے دیوتا) اور وینس (حسن کی دیوی) سے موسوم کرتے ہیں، یہ لوگ کیوپڈ کو ویلنٹائن ڈے کا مرکزی کردار کہتے ہیں، جو اپنی محبت کے زہر بُجھے تیر نوجوان دلوں پر چلا کر انہیں گھائل کرتا تھا۔ تاریخی شواہد کے مطابق ویلنٹائن کے آغاز کے آثار قدیم رومن تہذیب کے عروج کے زمانے سے چلے آرہے ہیں۔ (ویلنٹائن ڈے تاریخ، حقائق اور اسلام کی نظر میں: 40)


ایک مشہور واقعہ یہ ہیکہ تیسری صدی عیسوی میں ایک ”ویلنٹائن“ نام کا پادری راہبہ کی محبت میں مبتلا ہوچکا تھا۔ چونکہ عیسائیت میں راہبہ سے نکاح ممنوع تھا اسلئے ایک دن پادری نے اپنی معشوقہ کو بتایا کہ اس نے خواب میں دیکھا کہ 14؍ فروری کو اگر کوئی راہبہ سے جسمانی تعلق کرلے تو وہ گناہ میں شامل نہیں ہوگا۔ راہبہ نے اسکی بات پر یقین کرلیا اور دونوں اس دن وہ سب کچھ کر گزرے۔ کلیسا کی روایات کی یوں دھجیاں اڑانے پر انکا حشر وہی ہوا جو عموماً ہوا کرتا ہے، یعنی ان دونوں کو قتل کردیا گیا۔ لیکن کچھ عرصہ بعد چند لوگوں نے انہیں ”محبت کا شہید“ جان کر عقیدت کا اظہار کیا اور انکی یاد میں یہ دن منانا شروع کردیا۔ (ویلنٹائن ڈے تاریخ، حقائق اور اسلام کی نظر میں: 41)


تاریخ یہ بھی بتاتی ہیکہ روم کے جیل خانہ میں ایک ایسے شخص کو مقید کردیا گیا جو راتوں کو لوگوں کے گھروں میں گھس کر عورتوں کے ساتھ زیادتی کرتا تھا۔ اس قیدی کا نام پادری ”سینٹ ویلنٹائن“ تھا، جس کے نام سے اس تہوار کو منسوب کرکے شہرت دی گئی۔ جس جیل میں اسے قیدی بنا کر رکھا گیا تھا اس جیل کی جیلر کی بیٹی روزانہ اپنے والد کو کھانا دینے جیل آیا کرتی تھی، پادری نے کسی طریقے سے اس لڑکی کو اپنی طرف مائل کرلیا، جس کے نتیجے میں اسے جیل سے رہائی نصیب ہوئی۔ اس کے بعد اس نے کچھ عرصہ تک ناجائز طریقے سے اسی داروغہ کی بیٹی کے ساتھ گزارا اور ایک دن اسے چھوڑ کر ایسے غائب ہوا کچھ سراغ نہ ملا! (ویلنٹائن ڈے تاریخ، حقائق اور اسلام کی نظر میں: 48)


اس طرح کی مختلف داستانیں تاریخ کے اوراق میں درج ہیں، جن کا خلاصہ یہ ہیکہ ”ویلنٹائن ڈے“ کی بنیاد ہی کلی طور پر فحاشی، عریانی، بے حیائی اور بدتہذیبی پر مبنی ہے۔ ویلنٹائن ڈے بے حیائی کو فروغ دینے کا باعث ہے، اس کا مقصد صرف اور صرف مرد و عورت کو ایک دوسرے کے قریب لانا ہے اور جنسی بے راہ روی کو محبت کا لبادہ پہنا کر ناجائز تعلقات قائم کروانا ہے۔ یہ اسلامی معاشرہ و تہذیب کو تباہ و برباد کرنے کی عالم کفر کی نہ صرف سازش ہے بلکہ اولین ہدف ہے۔ افسوس کی بات ہیکہ ”ویلنٹائن ڈے“ کے نام پر منایا جانے والا بے حیائی کے اس عالمی دن میں اب مسلمان بھی شریک ہورہے ہیں اور بے حیا، بے شرم اور دوسروں کی بیٹیوں کی عزت پر ڈاکا ڈالنے والے عیسائی پادری کی روایات کو زندہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہیکہ آج معاشرے میں اخلاقیات کا وجود ختم ہوتا نظر آرہا ہے، خاندانی نظام تباہ و بربا ہورہا ہے، مقدس رشتوں کی اہمیت ختم ہوتی جارہی ہے، عصمت و عفت اور پاکدامنی اور شرم و حیا اپنی آخری سانس لینے پر مجبور ہے۔ ان سب حالات کے باوجود بھی بدقسمتی سے آج کل کے ماڈرن مسلمان دین اسلام کی پاکیزگی تہذیب و تمدن کو چھوڑ کر مغرب کا تھوک چاٹنا اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہیں۔ اسلامی تہذیب، مذہبی و معاشرتی روایات کا تحفظ کرنے کے بجائے ویلنٹائن ڈے جیسے فحاشی اور بے غیرتی پر مبنی مغربی انداز ثقافت کے فروغ میں مسلمان شرم ناک کردار ادا کررہا ہے، کسی شاعر نے کیا خوب کہا:

جو درر ملا اپنوں سے ملا

غیروں سے شکایت کون کرے؟


اسلام تو ”حیا“ کی تعلیم دیتا ہے اور اسکی پاسداری کی خوب ترغیب دیتا ہے بلکہ حیا کو ایمان کا شعبہ قرار دیا گیا ہے۔ بخاری شریف کی روایت ہیکہ ”حیا ایمان کا ایک اہم جز ہے!“ (صحیح البخاری،163)۔ اور ایک دوسری حدیث میں فرمایا کہ ”بے شک ہر دین کی کوئی خاص خصلت (فطرت، مزاج یا پہچان) ہوتی ہے اور اسلام کی وہ خاص خصلت حیا ہے!“ (ابن ماجہ، 4181)۔ یہی وجہ ہے کہ عالم کفر نے اسلام کی پہچان ”حیا“ پر حملہ کرکے اپنی دشمنی کا آغاز کیا۔ اور آج 14؍ فروری آتے ہی بے ہودگی اور بے حیائی کا سیلاب امڈتا چلا آتا ہے۔ نسل نو اپنے مقصد حیات کو چھوڑ کر بے حیائی کا ننگا ناچ کھیلنے لگتی ہے اور ہمارے تعلیمی اداروں میں بھی اس بے حیائی کا سبق دیا جانے لگا ہے۔ نہ صرف عیسائی مشنریز کے پابند تعلیمی ادارے بلکہ آج کل مسلم اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیس میں بھی  پابندی کے ساتھ ویلنٹائن ڈے منا کر عذاب خداوندی کو دعوت دی جاتی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ”اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ“ کہ ”جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی پھیلے ان کیلئے دنیا و آخرت میں دردناک عذاب ہے!“ (سورۃ النور: 19)


اسلام دین فطرت ہے اور محبت فطرت کا تقاضا ہے، اسلام نے محبت کرنے سے نہیں روکا بلکہ اسکے کچھ حدود و قیود مقرر فرمائی تاکہ مسلمان محبت اللہ اور اسکے رسول ؐ اور انکے ارشادات کے مطابق جائز طریقے سے کرے۔ لیکن ویلنٹائن ڈے کے دن ایک لڑکا ایک لڑکی سے ناجائز طریقہ سے اظہار محبت کرتا ہے۔ آج اس رسمِ بد نے ایک طوفانِ بے حیائی برپا کردیا ہے۔ عفت و عصمت کی عظمت اور رشتہئ نکاح کے تقدس کو پامال کردیا ہے۔ معاشرہ کو پورا گندہ کرنے اور حیا و اخلاق کی تعلیمات، اور جنسی بے راہ روی کو فروغ دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑا ہے، بر سرعام اظہار محبت کے نت نئے طریقوں کے ذریعہ شرم و حیا، ادب وشرافت کو ختم کردیا گیا ہے۔ اور افسوس کی بات ہیکہ آج ملت اسلامیہ کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بھی ویلنٹائن ڈے منارہی ہیں۔ یہی وجہ ہیکہ آج ہماری نسل نو سے دین و شریعت کا تصور ختم ہوتا جارہا ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے واضح طور پر ارشاد فرمایا کہ ”حیا اور ایمان یہ دنوں ہمیشہ ساتھ اکٹھے رہتے ہیں، جب ان دونوں میں سے کوئی ایک اٹھا لیا جائے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے!“ (شعب الایمان)۔ اور اسی کے ساتھ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہیکہ ”ویلنٹائن ڈے منانا سراسر حرام ہے۔“ کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہیکہ ”قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ“ کہ ”کہ دو میرے پروردگار نے تو بے حیائی کے کاموں کو حرام قرار دیا ہے، چاہے وہ بے حیائی کھلی ہوئی ہو یا چھپی ہوئی ہو!“ (سورہ اعراف، 33)۔ اور ویلنٹائن ڈے منانا کھلے عام زنا کرنے کے برابر ہے، ویلنٹائن ڈے یوم محبت نہیں بلکہ یوم زنا ہے۔ بخاری شریف کی روایت ہیکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سر عام گناہ کرنے کے وبال پر فرمایا کہ ”میری پوری امت معاف کردی جائے گی، لیکن کھلم کھلا گناہ کرنے والوں کو معاف نہیں کیا جائے گا۔“ اور ویلنٹائن ڈے منانے کا مطلب عیسائیوں کی مشابہت اختیار کرنا ہے اور اللہ کے رسولؐ نے واضح طور پر کہا کہ ”جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ انہیں میں سے ہے!“ (ابو داؤد، 4033)


آج مسلمان مغرب کی اس سازش میں اس طرح پھنستا چلا جارہا ہے وہ اپنی شناخت اور پہچان ہی بھلا بیٹھا ہے۔ نبی کریمؐ نے جو معاشرے قائم فرمایا اسکی بنیاد ”حیا“ پر رکھی جس میں زنا کرنا ہی نہیں بلکہ اسکے اسباب پھیلانا بھی ایک جرم تھا۔ جس دین کی پہچان اور بنیادی ہی حیا ہو اس میں بے حیائی کی کہاں گنجائش ہوسکتی ہے؟ جو شریعت عورتوں کو پردہ میں رکھنے کا حکم دیتی ہو وہ کیوں کر ویلنٹائن ڈے منانے کی اجازت دے گی؟ اور یہ بات واضح ہیکہ ”ویلنٹائن ڈے منانے کی اسلام میں قطعاً اجازت نہیں۔“ ہمیں تو چاہئے تھا کہ ہم اپنے آقا دوعالم جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تہذیب و ثقافت کو اس طرح غالب کرتے کہ عالم کفر بھی اسکی نقالی پر مجبور ہوجاتا۔ لیکن ہائے افسوس کہ ہم اسکے برعکس کام کررہے ہیں۔ کیا کمی تھی میرے آقا ؐ کی پاکیزہ تہذیب و ثقافت میں کہ ہم نے اسے اپنے معاشرے سے ہی جدا کردیا؟ اور نبیؐ کے دشمنوں کی غلیظ تہذیب کو سینے سے لگایا؟ کیا ہم اس طوفان بے حیائی سے اپنے آقا ؐ کو تکلیف نہیں پہنچا رہے رہیں؟ جس نبیؐ نے ہماری خاطر اپنا سب کچھ قربان کردیا آج ہم نے انہیں یہ صلہ دیا کہ انکی سنت و شریعت کو ہی اپنی زندگی سے نکال دیا، کیا یہی ایمان اور عشقِ رسول کا تقاضہ ہے؟ آج ویلنٹائن ڈے کے نام پر جو کچھ ہورہا ہے وہ تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ لہٰذا آج ضرورت ہیکہ ہم سب ملکر عہد کریں کہ دین اسلام کی تہذیب و ثقافت کی حفاظت کرتے ہوئے ویلنٹائن ڈے کا مکمل بائیکاٹ کریں گے، معاشرے کو پاکیزہ بنانے کی فکر کریں گے اور ہم اپنی محبت کو اسلام کی مقرر کردہ حدود و قیود یعنی پاکیزہ رشتوں تک ہی محدود رکھیں گے کیونکہ پاکیزگی ایمان کا حصہ ہے اور ہمارا ایمان ہماری شان، آن اور بان ہے!

اب جس کے جی میں آئے وہ پائے روشنی

ہم نے تو دل جلاکر سر عام رکھ دیا!

Tuesday, 26 January 2021

دارالعلوم دیوبند اور جمعیۃ علماء ہند کا ملک کی جنگ آزادی میں تاریخی کردار!


 

دارالعلوم دیوبند اور جمعیۃ علماء ہند کا ملک کی جنگ آزادی میں تاریخی کردار!

جدوجہد آزادی 1803ء سے 1947ء تک : ایک جائزہ!



از قلم : جانشین شیخ الاسلام حضرت مولانا مولانا سید ارشد مدنی مدظلہ

(صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند و صدر جمعیۃ علماء ہند) 


جدوجہد آزادی ہی نہیں ملک کی کوئی بھی تاریخہندوستان کے علمائے کرام کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی، خواہ وہ ملی یا قومی قیادت و سیادت ہو یا آزادیٔ وطن کے لئے میدان جنگ میں کود پڑنا، کسی تحریک کی قیادت ہو یا پھر کسی مصیبت اور پریشانی کے وقت میں لوگوں کی مدد و غمگساری، ہر میدان میں علماء نے اہم کارنامے انجام دئے ہیں اور حکومتِ وقت کے سامنے سینہ سپر ہوکر حق اور سچ بات رکھی ہے،ایک بڑی تاریخی سچائی یہ ہے کہ ہندوستان کی آزاد ی کی تحریک علماء اور مسلمانوں نے شروع کی تھی اور یہاں کے عوام کو غلامی کا احساس اس وقت کرایا جب اس بارے میں کوئی سوچ بھی نہیںرہا تھا، ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف سب سے پہلے عَلمِ بغاوت علماء نے ہی بلند کیا تھا اور جنگ آزادی کا صوربھی انہوں نے ہی پھونکا تھا۔ ہندوستان کے بے شمار لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ملک کی پہلی آزادی کی لڑائی 1857ء میں لڑی گئی تھی، لیکن یہ بات اپنی تاریخ اور اپنے بزرگوں کی قربانیوں سے ناواقفیت پر مبنی ہے ۔ آزادی کی تاریخ 1857ء سے نہیں بلکہ 1799ء میںاس وقت شروع ہوئی جب سلطان ٹیپو شہیدؒ نے سرنگاپٹم میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا تھا، جس وقت ان کے خون میں لتھڑی ہوئی لاش پر انگریز فوجی نے کھڑے ہوکر یہ بات کہی تھی کہ ’’آج سے ہندوستان ہمارا ہے‘‘ اس کے بعدہی انگریزیہ کہنے کی ہمت پیدا کر پائے کہ ’’اب کوئی طاقت ہمارا مقابلہ کرنے والی، ہمارے پنجے میں پنجہ ڈالنے والی نہیں ہے‘‘ اور پھر انہوںنے عملی طورپرچھوٹے چھوٹے نوابوں اور راجاؤں کو شکست دیکر ان کو سر تسلیم خم کرنے پر مجبور کردیا۔ ٹیپو سلطانؒ کی شہادت اور انگریزوں کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کے بعدعلمائے کرام نے غلامی کی آہٹ کو محسوس کرلیا تھا اور اس کے بعد سے ہی جہادِ آزادی کاآغاز ہوا، جب انگریز نے 1803میں دہلی کے اندر یہ اعلان کیا کہ ’’خلق خدا کی، ملک بادشاہ کا‘‘ لیکن آج سے حکم ہمارا ہے، اس دن اس ملک کے سب سے بڑے عالم دین اور خدارسیدہ بزرگ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے بڑے بیٹے حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلویؒ نے دلّی میں یہ فتوی دیا کہ ’’آج ہمارا ملک غلام ہوگیا اور اس ملک کو آزاد کرانے کے لئے جہاد کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے‘‘ یہ جراء تمندانہ اعلان ایسے وقت میںکیا گیا کہ اس عالم دین کے علاوہ ہندوستان کے اندر کوئی ایسا نہیں تھا جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے مقابلہ میں اپنی زبان سے آزادیٔ وطن کے لیے جہادکا اعلان کرسکتا تھا۔اس فتویٰ کی پاداش میں ان کو بڑی بڑی تکلیفیں برداشت کرنی پڑیں، انھیں زہر دے دیا گیا، ان کی جائداد کو قرق کرلیا گیا، ان کی آنکھوں کی بینائی اس زہر سے جاتی رہی، ان کو دلّی شہر سے در بدر کردیا گیا،وہ ان تمام سخت ترین حالات میں بھی انھوں نے اپنی موت سے پہلے دو روحانی شاگردپیدا کردیئے، ایک حضرت سیّد احمد شہید رائے بریلویؒ اور دوسرے شاہ اسماعیل شہیدؒ، ان لوگوں نے پورے ملک کے دورے کئے اور مسلمانوں سے جہاد کی بیعت اور اس کا عہد لیا کہ وہ ہمارے ساتھ ملک کی آزادی کے لیے اپنی جان قربان کردیں گے۔ اس کے بعد بالاکوٹ کے میدان میں ہزاروں مسلمان ان دونوں صاحبان کے ساتھ سب سے پہلی آزادیٔ وطن کی جنگ میں شہید ہوئے ،یہ سب سے پہلا آزادیٔ وطن کے لئے جہاد تھا جو دوسرے جہاد آزادی (1857) کا مقدمہ تھا،جو لوگ وہاں اس وقت ناکامی کے بعد واپس ہوئے ان لوگوں نے واپس آکر پھر اِکائیوں کو جمع کیا اور افراد کو تیار کیا،اورچھبیس سال کی محنت کے بعد1857میں دوبارہ آزادیٔ وطن کے لئے جہاد شروع ہوا جس میں ہندو اور مسلمان دونوں شریک ہوئے لیکن مسلمان زیادہ تھے اور ہندو کم تھے۔


آزادیٔ وطن کے لئے یہ دوسرا جہادبھی ناکام ہوا، اس جہاد کی پاداش میں علماء کو گرفتار بھی کیا گیا اور کچھ علماء نے اپنے آپ کو نظر بند کرلیا، جب یہ علماء تین چار سال کے بعد جیل سے باہر نکلے اور عام معافی کا اعلان ہوا تو انھوں نے بڑی عجیب و غریب چیز دیکھی کہ وہ یتیم جن کے باپ جامِ شہادت نوش کرگئے، انگریز کی دشمنی کی وجہ سے ان کے یتیم بچے سڑکوں پر ہیں، ان کے سرپر کوئی ہاتھ رکھنے والا نہیں ہے، ان حالات کا فائدہ اٹھاکر انگریزوں نے فکری محاذ پربھی اپنی لڑائی تیز کردی، چنانچہ کرسچن اسکول، عیسائی پوپ اور چرچ کے لوگ باہر نکل کر ان یتیموں کا ہاتھ پکڑتے اور کہتے کہ ہمارے ساتھ چلو ہم تم کو کھانا،رہائش اور تعلیم مفت دیں گے،مقصد ذہنی اعتبار سے ان کو انگریز بنانا تھا۔ یہ وہ بچے تھے جن کے آباء واجداد نے انگریز دشمنی میں جہاد آزادی میں جامِ شہادت نوش کیا لیکن اب انہیں کی اولاد انگریزوں کے ہاتھ میں تھی اور وہ ان کو فکری اعتبار سے


ان کو انگریز بنانا تھا۔ یہ وہ بچے تھے جن کے آباء واجداد نے انگریز دشمنی میں جہاد آزادی میں جامِ شہادت نوش کیا لیکن اب انہیں کی اولاد انگریزوں کے ہاتھ میں تھی اور وہ ان کو فکری اعتبار سے اپنا غلام بنانا چاہتے تھے، ان حالات کو دیکھ کر علماء کرام سرجوڑ کر بیٹھے اور فیصلہ لیا کہ دو جہادوں میں مجاہدین شہید کر دئے گئے اب ہمیں آزادیٔ وطن کے لئے ایسی فیکٹری کی ضرورت ہے جہاں اپنے ملک ہندوستان کو آزاد کرانے کے لئے اور غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کے لئے مجاہدین تیار کئے جائیں، چنانچہ مکمل سات سال کے بعد 1866ء میں انھوں نے دارالعلوم دیوبند کی بنیادرکھی اور بالکل وہی نعرہ دیا کہ ہم بچوں کومفت کھانااور رہائش کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم سے آراستہ کریں گے اوران بچوں کو ان کے آباء اجداد کی طرح جہادِ آزادی کے لئے مجاہد بنائیں گے، لیکن یہ تو فقیر اور بوریا نشین تھے ،توان لوگوں نے مفت طعام وقیام کے ساتھ مفت تعلیم کابھی پلان کیسے تیار کیا؟ یہ قابل حیرت بات تھی کہ ان لوگوں نے مدرسہ بنایا اور قوم کو پیغام دیا کہ ’’اگر غلامی کی لعنت کی زنجیر توڑ کر آزاد ہونا ہے تو اس مدرسہ کو زندہ رکھیں‘‘ پھر لوگوں نے دل کھول کر اس کی مدد کی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چند برسوں کے اندر بخارا، سمرقند، تاشقند، اور ہندوستان کے شہر شہر سے لڑکے جمع ہونا شروع ہوگئے جن کو مفت تعلیم دی جاتی تھی ، انھوں نے قوم کو یہ بتلایا کہ اگر یہ مدرسہ زندہ ہے تو آپ زندہ ہیں، اور آپ کی اولاد زندہ ہے، آپ کے گھر میںاسلام کی روشنی زندہ ہے، اور آپ آزاد ہیں۔ جنگ آزادی، اسلام کی آبیاری،وطن کی حفاظت، اسلام دشمن طاقتوں سے لوہا لینے کیلئے ایک تحریک کی شکل میں مجاہدین آزادی کو پیدا کرنے کے لئے دارالعلوم دیوبند کی بنیاد ڈالی گئی اور پھردارالعلوم دیوبند نے ایسے سپوتوں کو پیدا کیا جنھوں نے اس ملک کے اندر آزادیٔ وطن کی آگ جلائی، اگر پوچھا جائے کہ ان میںسب سے پہلے سپوت اور دارالعلوم دیوبند کا سب سے مایۂ ناز سرمایہ کون ہے؟ تو جواب ـ’’ حضرت شیخ الہندؒ ‘‘ ہوگا، جو دیوبند کے رہنے والے مولانا محمود حسن صاحب ہیں، پستہ قد، دُبلا پتلا آدمی لیکن اس شخص کے دل کے اندر کیسی آزادیٔ وطن کی آگ تھی جس کا تصور نہیں کیا جاسکتا، صوبہ جات

متحدہ کا انگریز گورنر مسٹن کہتاتھا:

’’اگر شیخ الہند کو جلاکر راکھ کردیا جائے تو ان کی راکھ کے اندر سے بھی انگریز دشمنی کی بو آئے گی‘‘۔

انھوں نے ’’ریشمی رومال‘‘ کی تحریک چلاکر انگریزوں کو حیران کردیا اور ان کو آخر تک معلوم نہیںہوا یہ تحریک کون چلارہے ہیں، انگریز حضرت مولانا عبیدا للہ سندھیؒ اور دوسرے علماء کو اس تحریک کا سربراہ سمجھتے رہے لیکن شیخ الہندؒ کا دماغ تھا جو انگریزوں کی سمجھ سے بالاتر تھا اور انہوں نے سینکڑوں ایسے جیالے اور جید علماء پیدا کئے کہ جنہوں نے انگریزی حکومت کی ناک میں دم کردیا تھا، شیخ الہندؒ کے ساتھ مالٹا میں اسیر شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ بھی تھے جو شیخ الہندؒ کے خاص شاگر اور خاص خادم کا درجہ رکھتے تھے، انہوں نے شیخ الہندؒ کی خاطر جیل جانا ضروری سمجھا اور شیخ الہندؒ کی خدمت کے لئے جیل کی صعوبتوں کو کاٹا۔

شیخ الہندؒ آگے چل کر دارالعلوم کے سب بڑے استاذ بنے ، ساتھ ہی انھوں نے آزادیٔ ہند کے لئے اپنے شاگردوں کی ایک ٹیم اور جماعت تیار کرکے باضابطہ تحریک ِ آزادی شروع کی، تاریخ میں یہ تحریک ’’ تحریک ریشمی رومال‘‘ کے نام سے مشہور ہے، شیخ الہندؒ نے اس تحریک میں رنگ و روغن بھرنے کے لئے حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ کو کابل بھیجا، دوسری طرف شیخ الہندؒ خلافت ِ اسلامیہ سے تعاون حاصل کرنے کے لئے حجاز مقدس تشریف لے گئے، شیخ الہندؒ کی یہ تحریک اگر کامیاب ہوگئی ہوتی تو ہندوستان کب کا آزاد ہوگیا ہوتا لیکن قدرت ابھی اور قربانیاں چاہتی تھی، شریف ِ مکہ کی غداری کی وجہ سے ریشمی خطوط (ریشمی رومال تحریک کے خطوط)پکڑے گئے اور حجاز مقدس ہی سے آپ کو گرفتار کرلیا گیا، گرفتاری کے بعد آپ کو مالٹا بھیج دیا گیا، شیخ الہندؒ جب مالٹا سے رہا ہوکر آئے تو عا م منظر نامہ بدل چکا تھا،س لئے انھوں نے ہندوستان کی آزادی کے لئے دوسرا طریقہ اختیار کیا اور جمعیۃ علماء ہند کو مشورہ دیا کہ وہ انڈین نیشنل کانگریس کا ساتھ دے اور تشدد کو چھوڑ کر عدم تشدد کا نعر ہ لگائے، شیخ الہندؒ کی وفات کے بعد ان کے شاگرد خاص رفیق مالٹا حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ اور شیخ الہندؒ کے شاگرد حضرت مفتی کفایت اللہ صاحبؒ وغیرہ نے ان کے نقش قدم پر چل کر تحریک ِ آزادی کو آگے بڑھایا۔

یہ ایک سوال ہے کہ جمعیۃ علماء ہند کی ضرورت کیوں پڑی اور شیخ الہندؒ نے اس کو کانگریس کے ساتھ مل کر کام کرنے کا مشورہ کیوں دیا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ جدوجہد آزادی میں کوئی ایسی مشترکہ تحریک نہیں تھی، جس کے بینر تلے مسلک و مذہب


آزادیٔ ملک کی خاطر جیل کی صعوبتیں


حضرت شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ نے آزادی کے حوالے سے اپنے استاذ کی کڑھن اور بے چینی کو جذ ب کرلیا تھا، چنانچہ انھوں نے حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ ، حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کے سینہ اور دل کے اندر استعماری قوتوں کے خلاف جو آگ سمائی ہوئی تھی اس کو اور تیز تر کردیا اور جہاد آزادی کے لئے سینہ سپر ہوگئے، اُستاذِ محترم کے دنیا سے چلے جانے کے بعد حضرت مدنیؒ مکمل طور پر ملک کو آزادی دلانے میں لگ گئے، اپنے اُستاذ کی فکر کو آگے بڑھانا حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کا ایسا کارنامہ رہا جس کی نظیر ملنی مشکل ہے، اسی کا نتیجہ ہے کہ آپ نے اپنی 80؍سالہ زندگی میں کم وبیش 9؍سال انگریز کی جیل میں گذارے ہیں، یعنی یوں سمجھئے کہ ہر آٹھ دن کے اندر آپ کا ایک دن جیل میں گذرا ہے، اور اس کے اندر قید تنہائی بھی ہوئی، صعوبتیں اور مشکلات سے دوچار ہونا پڑا ہے، حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ کس جیل میں آپ کو سب سے زیادہ تکلیف ہوئی؟ تو فرمایا کہ سابرمتی جیل گجرات کے اندر قید بڑی بامشقت تھی۔


سیکولر دستور بنوانے میں جمعیۃ علماء ہند کا کردار


ان کی قیادت میں جیسے جیسے ملک کی آزادی قریب آتی گئی، یہ لوگ انڈین نیشنل کانگریس کے بنیادی لوگوں مثلاً موتی لال نہرو، جواہر لال نہرو اور مہاتما گاندھی سے برابر عہد لیتے چلتے ہیں کہ ملک کی آزادی کے بعد ملک کا دستور سیکولر دستور بنے گا اور کانگریس بھی وعدہ کرتی ہے کہ مسلمانوں کی مسجدیں، مسلمانوں کے مدرسے، مسلمانوں کے امام باڑے، مسلمانوں کے قبرستان، مسلمانوں کی زبان، مسلمانوں کا کلچر، مسلمانوں کی تہذیب سب چیزیں محفوظ رہیںگی، اور ملک کا دستور سیکولر دستور بنے گا، ان لوگوں کا تیقن اور دانش مندی دیکھئے کہ یہ سمجھتے تھے کہ ملک کی اکثریت ہندو ہے، اور آج سے نہیں ہے، آٹھ سو سال اس ملک پر مسلمانوں نے حکومت کی ہے، اکثریت تو ہندو ہی کی تھی، وہ بدل تو نہیں گئی تھی؛ لیکن دستور ہندوستان کا سیکولر ہونا چاہئے، اللہ نے ان کو عجیب وغریب عقل ودانش سے نوازا تھا، اتفاق کی بات ہے کہ ملک آزاد ہوا، اور تقسیم ہوگیا اسلام کے نام پر ایک دوسرا ملک بن گیا، اس ملک کے بن جانے کے بعد قدرتی طور پر یہ مسئلہ اُٹھنا تھا کہ جب اسلام کے نام پر مسلمانوں نے اپنا ایک حصہ لے لیا ہے، تو اس ملک کو ہندو اسٹیٹ بننا چاہئے، چنانچہ ہندؤوں کے قد آور لوگ جو برابر آزادی میں شریک تھے، اُنہوں نے ہی یہ آواز اُٹھائی کہ اب ملک کا دستور سیکولر اسٹیٹ نہ بن کرکے ایک ہندو اسٹیٹ ہونا چاہئے، جمعیۃ کے اکابرین اس رائے کے خلاف کھڑے ہوگئے، کہ جو ہم سے وعدے کئے تھے، اُن وعدوں کو پورا کرو، کیوںکہ اگر ملک تقسیم ہوا ہے تو تم نے دستخط کئے ہیں، ہم نے نہیں۔اس لئے اس ملک کا دستور سیکولر بنے گا۔جمعیۃ علماء ہند کا مطالبہ اتنا مظبوط تھا کہ اس مطالبہ کے سامنے سرتسلیم خم کرنا پڑا اور ملک کا دستور سیکولر دستور بنا۔

کیا یہی جمہوریت ہے......؟



 کیا یہی جمہوریت ہے......؟ 


عبدالرحمن الخبیر قاسمی بستوی

ترجمان:تنظیم ابنائے ثاقب

ورکن شوریٰ مرکز تحفظ اسلام ہند


محترم قارئین کرام! 

انگریزوں کے خلاف ہندوستان کی جنگ آزادی تقریباً دو سو برس تک جاری رہی، اس دوران متعدد تحریکوں نے جنم لیا، ایک تحریک ختم ہوئی کہ دوسرے نے اس کی جگہ لے لی، یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ ۱۵/اگست ۱۹۴۷ء نصف شب کو وطن عزیز آزادی کی نعمت سے بہرہ ور ہوا۔

یہ نعمت ہمیں یونہی نہیں ملی بلکہ اس کے حصول کےلئے ہمارے بزرگوں نے اپنا لہو بہایا، اور یہ لہو ایک دو دن نہیں مہینے دو مہینے نہیں بلکہ وہ صدیوں تک بہتا رہا ۱۷۵۷ء میں سراج الدولہ نے اپنے لہو سے حصول آزادی کا جو چراغ روشن کیا تھا وہ ملک بھر میں برسوں گردش کرتا رہا کبھی یہ چراغ ٹیپو سلطان شہید رحمۃ االلہ علیہ کے ہاتھ میں اور کبھی اسے مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ کے ہاتھوں نے تھاما، کبھی اس میں حضرت شیخ الہند اور ان کے شاگردوں نے خون سے روشنی دی ان بزرگوں کی قیادت میں ہزاروں لاکھوں لوگوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا گولیاں کھائیں، پھانسیوں پر لٹکے کتنے ہی لوگوں نے زندگی کے ماہ وسال قیدو بند کی صورتوں میں گزارے، جلا وطن ہوئے، اس داستانِ آزادی کا ہر حرف اور لفظ ہمارے بزرگوں کے خونِ شہادت سے رنگین ہیں۔ 

آزادی ملنے کے بعد یہ سوال ہوا کہ اب اس ملک کو کس رخ پر چلنا ہے مطلق العنانیت جبر واستبداء کی طرف یا انصاف اور مساوات کی طرف، تو اس وقت کے سیاسی لیڈروں اور حکومتی نمائندوں نے اتفاقِ رائے کے ساتھ طئے کیا کہ اب شہنشاہیت اور مطلق العنانیت کا دور ختم ہوچکا ہے، آزادی کی صبح ہوچکی ہے، یہ ملک اب جبراً استبداء کی تیرگی کے بجائے جمہوریت کی روشنی میں سفر کرے گا، اس طرح ۲۶/جنوری ۱۹۵۰ء کو ایک اور نعمت ملی اور وہ ہے اس ملک میں جمہوریت کی نعمت ۔ 

قارئین کرام! 

یہ دو دن ۱۵/اگست اور ۲۶/جنوری ہمارے لئے بڑی اہمیت کےحامل ہیں لیکن آج افسوس کہ جمہوریت صرف نام کی باقی رہ گئی ہے، آج ملک کو آزاد ہوئے ۷۲/سال اور جمہوری نظام قائم ہوئے ۷۰/سال ہوگئے، لیکن اگر ماضی کی طرف بڑھ کر دیکھا جائے تو آزادی اور جمہوریت محض سراب معلوم ہوتی ہے، جو دور سے دیکھنے میں بڑی خوبصورت و دلکش اور دلفریب ہے، مگر قریب جاکر دیکھا جائے تو سیاہ چمکتی ریت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے، کیا واقعی ہمارے اسلاف اور بزرگوں نے اسی آزادی و جمہوریت کےلئے اپنی بیش قمیت جانیں قربان کی تھیں، اور کیا ہمارے دستور ساز رہنما ایک ایسا ملک بنانا چاہتے تھے جہاں طبقاتی کشمکش ہو، جہاں پسماندگی غربت وافلاس اور جہالت ہو، جہاں رنگ ونسل پر تفریق پر مبنی سیاست کا بول بالا ہو، جہاں اقتدار کےلئے تمام اخلاقیات اٹھاکر رکھ دی جاتی ہوں، جہاں قانون تو ہو مگر کمزوروں کےلئے جہاں طاقت اور قانون سے بالا تر ہوں، جہاں تنگ نظری عصبیت اور فرقہ واریت ہو، جہاں بے گناہوں اور بے قصوروں کو ناکردہ گناہوں کی سزا دی جاتی ہو، اور جیل کی سلاخیں برداشت کرنی پڑتی ہوں، اور مجرم کھلے بندوں گھومتے پھرتے ہوں، جہاں سیدھے سادے اور بے قصور لوگوں کو دہشت گرد قرار دئیے جاتے ہوں، اور اقلیتوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہوں، اور ان کے خلاف ہندوستان چھوڑو کے نعرے لگ رہے ہوں، جہاں کسانوں کے خلاف بل پاس کر کے کسانوں پر ظلم و زیادتی کا شکار بنایا جا رہا ہو،جہاں یونیفارم سول کوڈ جیسے بل پاس کرکے مسلمانوں کی شریعت میں مداخلت کی جارہی ہو، اگر یہ جمہوریت ہے تو شاید ہی کسی مذہب سماج کو ایسی جمہوریت کی ضرورت ہو؟

اللہ سے دعا ہیکہ انھیں صحیح سمجھ عطا فرمائے اور ملک میں صحیح معنی میں جمہوری نظام چلے۔ آمین ثم آمین

Thursday, 14 January 2021

انسان کی نجات صحیح عقیدہ و ایمان پر منحصر ہے؛ توحید، رسالت اور آخرت اسلام کی بنیادی عقائد ہیں

 


انسان کی نجات صحیح عقیدہ و ایمان پر منحصر ہے؛ توحید، رسالت اور آخرت اسلام کی بنیادی عقائد ہیں!

آن لائن تحفظ عقائد اسلام کانفرنس سے مولانا محمد الیاس کا خطاب!


بنگلور، 14؍ جنوری (ایم ٹی آئی ہچ): مرکز تحفظ اسلام ہند کی آن لائن تحفظ عقائد اسلام کانفرنس کی تیسری اور چوتھی نشست سے خطاب کرتے ہوئے مجلس تحفظ ختم نبوت ہانگ کانگ کے امیر مولانا محمد الیاس صاحب نے فرمایا کہ عقیدہ و ایمان کا نور تین ستونوں پر جگمگاتا ہے جسکو علماء کی اصطلاح میں ”الایمان بثلاثیات“ کہا جاتا ہے یعنی ایمان کے تین نہایت ہی اہم مسئلے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ پورے قرآن پاک میں الم کی الف سے لیکر والناس کی سین تک جگہ جگہ ان تین چیزوں کو بیان کیا گیا ہے۔ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی مجلسوں میں مختلف لوگوں کے سامنے مختلف مقامات پر بیان کیا ہے، پہلا توحید، دوسرا رسالت، تیسرا آخرت، یہ تینوں عنوانات ہیں اور انکو یاد رکھنا بہت ضروری ہے، یہی وہ عنوانات ہیں جس پر انسان کی نجات ٹھہری ہوئی ہے۔


مولانا محمد الیاس نے عقیدۂ توحید پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ مولانا ادریس کاندھلویؒ نے اپنی کتاب”عقائد الاسلام“ میں اللہ رب ذوالجلال والاکرام کے متعلق 33؍ عقیدے لکھے ہیں۔ انہوں نے لکھا ہیکہ اللہ جل شانہ ایک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اس لیے کہ شرکت عیب ہے اور اللہ تعالیٰ ہر عیب سے پاک ہے۔ نیز شریک کی ضرورت جب ہوتی ہے کہ جب وہ کافی اور مستقل نہ ہو اور یہ نقص ہے جو الوہیت کے منافی ہے، اور جب وہ خود کافی اور مستقل ہوگا تو شریک کا وجود عبث اور بیکار ہوگا اور وہ خدا نہیں ہو سکتا۔پس شریک ثابت کرنے سے دو شریکوں میں سے کسی ایک شریک کا ناقص اور عیب دار ہونا لازم آتا ہے جو الوہیت کے منافی ہے۔ غرض یہ کہ شرکت کا ثابت کرنا شرکت کی نفی کو مستلزم ہے، پس ثابت ہوا کہ اللہ کا شریک محال ہے اور جب یہ ثابت ہو گیا کہ خدا کا کوئی شریک نہیں تو اس سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ خدا کے لیے نہ کوئی بیٹا ہو سکتا ہے اور نہ بیٹی، اس لیے کہ اولاد باپ کی ہم جنس اور ہم نوع ہوتی ہے۔ مولانا الیاس صاحب نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ذات کے اعتبار سے بھی اکیلا ہے اور صفات کے اعتبار سے بھی اکیلا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی پاک ذات میں بھی کوئی شریک نہیں اور اس پاک ذات کی صفات میں بھی کوئی شریک نہیں۔ اسی کو عقیدۂ توحید کہا جاتا ہے۔ مولانا الیاس صاحب نے اہل سنت و الجماعت کے عقیدۂ توحید پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ہے جو ہمیشہ ہمیش سے ہے اور ہمیشہ رہیگی نہ جسکی ابتدا ہے نہ انتہا، اور یہ شان صرف اور صرف اللہ کی ہے اللہ کے سوا یہ کسی کی شان نہیں۔ مولانا نے فرمایا جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات قدیم ہے ازلی و ابدی ہے ٹھیک اسی طرح اللہ کی صفات بھی قدیم ہیں، ازلی و ابدی ہیں۔ اور اہل سنت کا یہ عقیدہ بھی ہے کہ اللہ کی ذات ایک ہے اور اسکی صفتیں بہت ساری ہیں تو یہ صفات نہ عین ذات ہیں، نہ غیر ذات ہیں، بلکہ یہ سب لوازم ذات ہیں۔


مولانامحمد الیاس صاحب نے مولانا نورالحسن بخاریؒ کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا پہلا مقصد ہی عقیدۂ توحید کی خدمت ہے۔ مولانا الیاس نے دو ٹوک الفاظ میں فرمایا کہ علماء اہل سنت و الجماعت کے نزدیک عقیدہ توحید اللہ تعالیٰ کو صرف ماننے اور صرف اللہ اللہ کرنے کا نام نہیں بلکہ عقیدۂ توحید یہ ہے کہ فقط اسی ایک اللہ کی عبادت ہو اور مشکل کشاء بھی اسی ایک کو سمجھا جائے پھر حاجت روا بھی فقط اسی پاک ذات کو مانا جائے۔ قابل ذکر ہیکہ مولانا محمد الیاس صاحب نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔ اطلاعات کے مطابق مرکز تحفظ اسلام ہند کی فخریہ پیشکش چالیس روزہ ”سلسلہ عقائد اسلام“ اور آن لائن تحفظ عقائد اسلام کانفرنس کا اختتامی پروگرام 15؍ جنوری 2021ء کو منعقد ہے اور فقیہ العصر حضرت مولانا مفتی محمد شعیب اللہ خان صاحب مفتاحی مدظلہ کے خطاب و دعا سے اس سلسلے اور کانفرنس کا اختتام ہوگا۔

Tuesday, 12 January 2021

واٹساپ پرائیویسی بمقابلہ آخرت پرائیویسی! ✍️ بندہ محمّد فرقان عفی عنہ (ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)



 واٹساپ پرائیویسی بمقابلہ آخرت پرائیویسی!

✍️ بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


سوشل میڈیا کا مشہور و معروف میسنجنگ ایپ واٹس ایپ نے نئے سال میں اپنی سروس اور پرائیویسی پالیسی میں تبدیلیاں متعارف کرواتے ہوئے صارفین کو نوٹیفکیشنز بھیجی ہیں۔ اور نئی پالیسی کو قبول نہ کرنے کی صورت میں صارف اپنے واٹس ایپ اکاؤنٹ تک رسائی کھوبیٹھے گا اور اسے اکاؤنٹ ڈیلیٹ کرنا پڑے گا۔ صارفین کو نئی پالیسی قبول کرنے کے لیے آٹھ فروری تک کا وقت بھی دیا ہے۔ نئی پالیسی کے مطابق واٹس ایپ صارفین کا ڈیٹا نہ صرف استعمال کرے گا بلکہ اسے تھرڈ پارٹی بالخصوص فیس بک کے ساتھ شیئر بھی کرے گا۔ واٹس ایپ کی نئی پالیسی کے مطابق وہ صارف کا نام، موبائل نمبر، تصویر، سٹیٹس، فون ماڈل، آپریٹنگ سسٹم کے ساتھ ساتھ ڈیوائس کی انفارمیشن، آئی پی ایڈریس، موبائل نیٹ ورک اور لوکیشن بھی واٹس ایپ اور اس سے منسلک دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو مہیا کرے گا۔ اس کے ساتھ واٹس ایپ ٹرانزیکشن اور پیمنٹ کے نئے فیچر کی انفارمیشن بھی شئیر کرے گا۔ نئی پرائیویسی پالیسی میں واضح طور پہ کہا گیا ہے کہ انتظامیہ صارفین کا ڈیٹا سٹور کرنے کے لیے فیس بک کا عالمی انفرا سٹرکچر اور اس کے ڈیٹا سنٹرز استعمال کر رہی ہیں۔ ان میں امریکہ میں موجود ڈیٹا سنٹر بھی شامل ہے۔


صارفین کی جانب سے واٹس ایپ پرائیویسی پالیسی میں تبدیلی پر خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے اور ان میں ڈر و خوف کا ماحول پایا جارہا ہے۔واٹساپ صارفین کی ایک بڑی تعداد واٹساپ کو الوداع کہ چکی ہے اور ایک بڑی تعداد الوداع کہنے کی تیاری میں ہے۔ صارفین اپنی پرائیویسی بچانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور واٹس ایپ کا متبادل تلاش کرتے ہوئے دیگر میسیجنگ ایپ کی طرف منتقل ہورہے ہیں۔ پرائیویسی کے خطرات مسلمانوں کیلئے زیادہ معنیٰ رکھتی ہیں کیونکہ یہود و نصاریٰ کے رگوں کے اندر دوڑنے والے خون کے ایک ایک قطرے میں اسلام دشمنی شامل ہے۔ اور حالیہ دنوں میں اپنی پرائیویسی کو لیکر مسلمان بھی فکرمند نظر آرہے ہیں۔ لیکن کیا ہم مسلمانوں کو واقعی اپنی پرائیویسی کی فکر ہے؟ کیا واقعی پرائیویسی ہمارے لئے کوئی معنیٰ رکھتی ہے؟ کیا ہم واقعی اپنا ڈیٹا محفوظ رکھنا چاہتے ہیں؟ یقیناً ہم پرائیویسی کو لیکر فکر مند نظر آرہے ہیں۔ لیکن کیا ہمیں معلوم نہیں کہ ایک ایسا دن بھی آنے والا ہے جب ہماری زندگی کی پرائیویسی کا نام و نشان ختم کردیا جائے گا اور ہماری زندگی کا مکمل ڈیٹا سب کے سامنے کھول کر رکھا جائے گا اور شئیر کیا جائے گا!


جی ہاں! آپ نے صحیح پڑھا کہ عنقریب ایک ایسا ہولناک دن آنے والا ہے جب آپکا مکمل ڈیٹا نوع انسانی کے سامنے رکھا جائے۔ جس دن جن و انس، چرند و پرند سب حیرت کے عالم میں ادھر ادھر بھاگتے ہونگے اور ایک بھیانک آواز سے سب کے جگر ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے، پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر روئی کی طرح اڑنے لگیں گے، آسمان پھٹ جائے گا، ستارے جھڑ جائیں گے، پورا عالم فنا ہوجائے گا اور اللہ کی ذات کے علاوہ کوئی چیز باقی نہیں رہے گی۔ ہاں ہم اسی ہولناک دن کی بات کررہے ہیں جس دن سنگین حادثات پیش آئیں گے، ہر طرف شر پھیلا ہوگا اور مصیبت چھائی ہوگی، مردے قبروں سے اٹھیں گے اور میدان محشر میں آئیں گے، جہاں اللہ کی عدالت لگی ہوئی ہوگی، بڑے بڑے شیر دل اور بہادر لوگوں کے دل بھی زور زور سے دھڑکنے لگیں گے اور ان کی آنکھیں فرط خوف سے جھکی ہوں گی، اوپر آنکھ اٹھاکر دیکھنے کی انہیں ہمت نہیں ہوگی، لیکن ہر ایک کو بار گاہ الٰہی میں پیش ہونا ہوگا، رب کے سامنے آکر ہم کلام ہونا پڑے گا، درمیان میں کوئی ترجمان بھی نہیں ہوگا، زندگی کا مکمل ڈیٹا یعنی دنیا میں کیے ہوئے سب اعمال سامنے ہوں گے، ان کے بارے میں جواب دہی ہوگی، انسان کا ہر عمل اللہ کے علم، لوح محفوظ اور کرامً کاتبین کے رجسٹر میں محفوظ ہوگا۔ یہی وہ قیامت کا دن ہوگا جس دن پرائیویسی کا کوئی تصور نہ ہوگا، جہاں آپکے والدین، بیوی بچے، رشتہ دار اور پوری نوع انسانی کے سامنے آپکی زندگی کا مکمل ڈیٹا رکھا جائے گا اور حساب و کتاب ہوگا، ایک ترازو میں آپ کے اعمال تولے جائیں گے اور اعمال کے اعتبار سے نیک لوگوں کو جنت کا عیش اور بد لوگوں کو جہنم کا عذاب نصیب ہوگا۔ ایسے ہولناک دن میں اپنی پرائیویسی کو محفوظ رکھنے کے بارے میں کیا ہم نے کبھی سوچا ہے؟ جبکہ روز محشر ایک ایسی پالیسی ہے جسکو صدیوں سے بیان کیا جارہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو قرآن میں واضح الفاظ میں میدان محشر کی ہولناکی اور حساب و کتاب کا تذکرہ کیا ہے۔ قرآن کے سورۃ الانفطار میں فرمایا ”اِذَا السَّمَآءُ انْفَطَرَتْ“ کہ جب آسمان پھٹ جائے۔”وَاِذَا الْکَوَاکِبُ انْتَثَرَتْ“ اور جب ستارے جھڑ جائیں۔ ”وَاِذَا الْبِحَارُ فُجِّرَتْ“اور جب سمندر ابل پڑیں۔”وَاِذَا الْقُبُوْرُ بُعْثِرَتْ“ اور جب قبریں اکھاڑ دی جائیں۔”عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ وَاَخَّرَتْ“ تب ہر شخص جان لے گا کہ کیا آگے بھیجا اور کیا پیچھے چھوڑ آیا۔ (سورۃ الانفطار، آیت 1 یا 5)۔ ایک اور جگہ سورۃ الجاثیۃ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ”قُلِ اللّٰہُ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یَجْمَعُکُمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ لَا رَیْبَ فِیْہِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ“ کہ کہہ دو اللہ ہی تمہیں زندہ کرتا ہے پھر تمہیں مارتا ہے پھر وہی تم سب کو قیامت میں جمع کرے گا جس میں کوئی شک نہیں لیکن اکثر آدمی نہیں جانتے۔(سورۃ الجاثیۃ، آیت 26)۔ اور فرمایا ”وَوَتَرٰی کُلَّ اُمَّۃٍ جَاثِیَۃً ۚ کُلُّ اُمَّۃٍ تُدْعٰٓی اِلٰی كِتَابِـهَاۖ اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ“ اور آپ ہر ایک جماعت کو گھٹنے ٹیکے ہوئے دیکھیں گے، ہر ایک جماعت اپنے نامۂ اعمال کی طرف بلائی جائے گی، (کہا جائے گا) آج تمہیں تمہارے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔(سورۃ الجاثیۃ، آیت 28)۔ اور فرمایا ”ہٰذَا کِتَابُنَا یَنْطِقُ عَلَیْکُمْ بِالْحَقِّ اِنَّا کُنَّا نَسْتَنْسِخُ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ“ یہ ہمارا دفتر تم پر سچ سچ بول رہا ہے، کیونکہ جو کچھ تم کیا کرتے تھے اسے ہم لکھ لیا کرتے تھے۔ (سورۃ الجاثیۃ، آیت 29)۔ ایسی متعدد آیات و احادیث میں قیامت کی ہولناکی اور آخرت کا واضح طور پر تذکرہ کیا گیا ہے۔ اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہیکہ اس دنیائے فانی میں انسان کو آخرت کی تیاری کیلئے ہی بھیجا گیا ہے اور اس بات کو بار بار یاد دلوانے کیلئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے تقریباً سوا لاکھ پیغمبروں کو اپنے بندوں کے درمیان بھیجا۔ لیکن افسوس کی بات ہیکہ آج ہم قیامت کے ہولناک دن کو بھول چکے ہیں۔ ہم واٹساپ اور اسکی نئی پالیسی کے بارے میں تو فکر مند ہیں لیکن ہم نے میدان محشراور اسکے حساب و کتاب کی پالیسی کو بھلا دیا، ہمیں یہ بات تو خوب ستارہی ہے کہ واٹساپ ہمارا ڈیٹا فیس بک اور دیگر کمپنیوں کے سامنے رکھے گا لیکن ہائے افسوس کہ ہمیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ میدان محشر میں ہم لوگوں کی زندگی کا مکمل ڈیٹا ہمارے آباؤ اجداد اور نسلوں کے سامنے رکھا جائے گا، ہم اپنی پرائیویسی کی فکر کرتے ہوئے واٹساپ کا متبادل تلاش کرنے میں لگے ہوئے ہیں لیکن کیا ہم نے میدان محشر میں اپنی پرائیویسی کو محفوظ رکھنے کیلئے بنا حساب و کتاب جنت میں داخل ہونے کے متبادل طریقہ کو کبھی تلاش کیا؟ جبکہ یہ بات متعدد حدیثوں سے ثابت ہیکہ بعض خوش نصیب اللہ تعالیٰ کے نیک بندے اس روز ہر حزن و غم سے محفوظ ہوں گے، ان کے دل مطمئن ہوں گے، ان کی طبیعتوں میں کسی قسم کا اضطراب نہ ہوگا اور فرشتے ان کا استقبال کریں گے، انھیں بتائیں گے یہی وہ تمہارا دن ہے، جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا اور وہ لوگ بنا حساب و کتاب جنت میں داخل ہوجائیں۔لیکن افسوس کہ ہم دنیاوی زندگی کو پرتعیش اور کامیاب بنانے میں اس قدر مشغول ہیں کہ اپنی آخرت کو ہی بھول گئے۔ حالانکہ دنیا کی زندگی تو چند دن کی ہے اور اسی زندگی میں ہم آخرت کیلئے اچھے اعمال کرکے جنت میں اپنے لئے ہمیشہ کی زندگی کو کامیاب بناسکتے ہیں۔ اسی کو کسی نے کہا تھا:

دنیا کی عشرت یاد رہی محشر کا منظر بھول گئے

جی ایسا لگایا جینے میں مرنے کو مسلماں بھول گئے


قرآن مجید کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آخرت لازمی ہے اور آنے والی ہے۔ دنیوی زندگی محدود ہے اور اخروی زندگی لا محدود ہے۔ ہرانسان کو دنیا کی زندگی میں کیے ہوئے اعمال کا بدلہ آخرت میں ملنے والا ہے۔ دنیا دار العمل ہے اور آخرت دار الجزاء ہے۔ انبیاء کرام علیہم السلام کی زندگیاں فکر آخرت سے کبھی خالی نہیں رہیں۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی آخرت کی فکر میں گزاری اور اپنی امت کو بھی یہی تعلیم دی کہ آخرت کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں اور اسکی تیاری کریں۔ صحابہ کرام اور صلحاء عظام کی زندگیوں پر بھی فکر آخرت غالب رہتی تھی۔ اللہ کی عظمت، اس کا جلال، آخرت کی فکر اور یوم الحساب کی ہولناکی کا تصور ان کے دل و دماغ پر چھا گیا تھا۔ وہ قرآن کریم پڑھتے یا سنتے تو سسکیاں لینے لگتے۔ وہ قبریں دیکھتے تو اتنا روتے کہ داڑھی آنسوؤں سے تر ہوجاتی۔ وہ میدان جنگ میں حیدر کرار تھے لیکن تنہائیوں میں خدا کے خوف اور آخرت کی فکر سے اس طرح کانپتے، تلملاتے اور بے چین ہوتے جیسے انہیں کچھ ہوگیا ہو۔ وہ صداقت وامانت میں صدیق ہوتے لیکن چڑیوں کوچہچہاتے دیکھتے تو کہہ اُٹھتے کاش میں بھی چڑیا ہوتا کہ آخرت کے حساب کتاب سے بچ جاتا۔ ہائے افسوس کہ آج ہم نے نہ صرف اپنے اسلاف کی تعلیم کو بھلا دیا ہے بلکہ اپنے مقصد زندگی اور اپنی منزل کو ہی بھلا بیٹھے ہیں۔ہماری منزل اللہ کی رضا، اس کی خوشنودی، جنت کا حصول ہے۔ ایک مومن کا اصل گھر آخرت ہے، یہ دنیا اس گھر کی تیاری کی جگہ ہے۔ لہٰذا اس کو اس کی تیاری کرتے رہنا چاہیے۔ ہمہ وقت، ہر لحظہ، ہر آن اس کی فکر کرنی چاہیے۔ اس عارضی گھر دنیا کو اپنا وطن نہ سمجھے، سفر کے دوران سو نہ جائے، اس میں مگن نہ ہوجائے۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو منزل پر پہنچنا دشوار ہوجائے گا۔ اور ایک مومن کا اللہ سے ایک معاہدہ ہوا ہے اور وہ جان ومال کے بدلے جنت کا معاہدہ ہے۔ اللہ نے فرمایا: ”إِنَّ اللَّہَ اشْتَرَیٰ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ أَنفُسَہُمْ وَأَمْوَالَہُم بِأَنَّ لَہُمُ الْجَنَّۃَ“بے شک اللہ نے مسلمانوں سے ان کی جان اور ان کا مال اس قیمت پر خرید لیے ہیں کہ ان کے لیے جنت ہے۔(سورۃ التوبہ: 111)۔ جنت بہت قیمتی چیز ہے یہ تبھی ملے گی، جب زبان کے اعلان کے ساتھ عمل سے ثابت کیاجائے۔ اپنی جان ومال، اپنی تمام صلاحیتوں، قوتوں، لیاقتوں اور ہنرمندیوں کے ساتھ اس کے حصول کے لیے لگا جائے۔ ہرطرف سے کٹ کر اللہ کی رضا کے لیے یکسو ہوجائیں۔ جس دن ہم اسے عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوگئے تو یاد رکھیں دنیا و آخرت کی کامیابیاں ہمارے قدم چومیں گی اور ہماری آخرت کی پرائیویسی محفوظ رہے گی۔ اور ایسے حالات میں جب قرب قیامت کی نشانیاں ظاہر ہونی شروع ہوچکی ہیں تو آخرت کی تیاری میں غفلت آگے پریشانی کا سبب بن سکتی ہے۔لہٰذا اب وقت ہیکہ ہم خواب غفلت سے جاگیں اور آخرت کی تیاری کریں کیونکہ قیامت اب قریب ہے۔

کوئی تیری غفلت کی ہے انتہا بھی

جنون چھوڑ کر اب ہوش میں آبھی

جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے

یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے


فقط و السلام

بندہ محمد فرقان عفی عنہ*

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

٢٧؍ جمادی الاول ١٤٤٢ھ

مطابق 12؍ جنوری 2021ء


+91 8495087865

mdfurqan7865@gmail.com

_________________

*ابن مولانا محمد ریاض الدین مظاہری

متعلم جامعہ ابو ہریرہ ؓ اکیڈمی

ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند

صدر مجلس احرار اسلام بنگلور

رکن عاملہ جمعیۃ علماء ساؤتھ بنگلور


#پیغام_فرقان #آخرت #قیامت #واٹساپ

Friday, 8 January 2021

مسیح و مہدی سے متعلق پیشین گوئیاں!

 


مسیح و مہدی سے متعلق پیشین گوئیاں! 


 از قلم : حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب مدظلہ


رسول اللہ کے ذریعہ دین و شریعت کی جو تعلیمات ہم تک پہنچی ہیں ، وہ اسلام کا سب سے آخری اور سب سے مکمل ایڈیشن ہے ، جس کا آغاز حضرت آدم علیہ السلام سے ہوا اور جس کی انتہاء حضور ختمی مرتبت جناب محمد رسول اللہ اپر ہوئی ، اسی کو قرآن مجید نے ’ اکمال دین ‘ یعنی دین کو مکمل کرنے اور ’ اتمام نعمت ‘ یعنی نعمت وحی کو پوری کردینے سے تعبیر کیا ہے ، (المائدۃ : ۳) آپ سے پہلے ہر عہد میں نبی آیا کرتے تھے اور وہ اُمت کی نہ صرف دینی رہنمائی کرتے تھے ؛ بلکہ بعض اوقات ان کی سیاسی قیادت بھی فرمایا کرتے تھے ، جیسے حضرت داؤد علیہ السلام ، حضرت سلیمان علیہ السلام ، حضرت یوسف علیہ السلام اور خود رسول اللہ ا ، نبوت کا مقام مخلوق میں سب سے اعلیٰ ترین مقام ہے ، یہاں تک کہ اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ انبیاء کو فرشتوں پر بھی فضیلت حاصل ہے ؛ لیکن نبوت کا تعلق کسب و محنت ، جدوجہد اور مجاہدات سے نہیں تھا ؛ بلکہ یہ اللہ کی طرف سے انتخاب ہوا کرتا تھا ، جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اجتباء اور اصطفاء کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے ، (الانعام : ۸۷ ، آل عمران : ۳۳) جس کے معنی چُن لینے اور منتخب کرلینے کے ہیں ۔


لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اب اُمت کو ہادی و نمونہ اور مصلح کی ضرورت نہیں رہی ، یہ ضرورت باقی ہے اور قیامت تک باقی رہے گی اور آپ انے اس بات کی بھی صراحت فرمادی کہ اس اُمت میں مصلحین کا تسلسل رہے گا : ’’ لا تزال طائفۃ من أمتی یقاتلون علی الحق ظاہرین إلی یوم القیامۃ‘‘ ( مسلم ، عن جابر بن عبد اللہ ، کتاب الایمان ، حدیث نمبر : ۲۴۷) لیکن اُمت کے یہ مصلحین مجاہدات کے ذریعہ اپنے فریضے کو انجام دیں گے اور جدوجہد کے ذریعہ اس مقام پر پہنچیں گے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ اُمت کو نفع پہنچائیں ، یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ایسا منتخب عہدہ نہیں ہوگا کہ جس کا دعویٰ کیا جاسکے ، وہ شخص یہ کہہ سکے کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور کیا گیا ہوں اور تم لوگوں کو ہماری اطاعت و اتباع کرنی ہے ، ان مصلحین میں سب سے اعلیٰ درجہ خلفائے راشدین کا تھا اور خلافت راشدہ کا دور حدیث کی صراحت کے مطابق آپ اکے بعد تیس سال کا تھا ، جو حضرت حسن بن علی ؓکی وفات پر مکمل ہوتا ہے ، (سنن الترمذی ، باب ماجاء فی الخلافۃ ، حدیث نمبر : ۲۲۲، العرف الشذی : ۲؍۴۲۰) ان کے بعد امراء و سلاطین آئے ، جن میں اچھے بھی تھے اور بُرے بھی ، جن میں خادمین دین و شریعت بھی تھے اور ہادمین دین و شریعت بھی ، عادل بھی تھے اور ظالم بھی ؛ چنانچہ خلافت راشدہ کے بعد دینی اور سیاسی اقتدار آہستہ آہستہ تقسیم ہوگیا ، بادشاہوں نے حکومت سنبھالی اور اُمت کے مصلحین ، علماء ربانیین اور داعیان دین نے تعلیم و تربیت ، ترزکیہ و احسان ، دعوت و تبلیغ ، احکام شریعت کا اجتہاد و استنباط ، اسلامی علوم کی نشر واشاعت ، اسلام کے خلاف اُٹھنے والے ارتداد و انحراف کے فتنوں کا مقابلہ ، یہ سارے اہم فرائض انجام دیئے اور ان ہی کے ذریعہ دین کی امانت ہم تک پہنچی ہے ، یہ دراصل وہ کام ہے جس کو رسول اللہ ا نے تجدید دین قرار دیا ہے ، یعنی دین کی بنیادوں کو بار بار تازہ کرنا ، مخالفانہ تحریکوں سے اس کی حفاظت کرنا اور دین و شریعت کو ہر طرح کی آمیزش اور ملاوٹ سے بچائے رکھنا ، رسول اللہ انے فرمایا کہ ہر صدی میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے ، (سنن ابی داؤد ، کتاب الملاحم ، حدیث نمبر : ۴۲۹۱) کیوںکہ جب رسول اللہ اپر نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا اور آپ اکے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا ، تو اب اُمت میں ایسے مجددین و مصلحین کا تسلسل ضروری ہے ۔


کار ِتجدید و اصلاح کے لئے مستقبل میں صرف دو ایسی شخصیتوں کی آمد ہونے والی ہے ، جن کو خصوصی اہمیت حاصل ہے اور وہ انتہائی نازک حالات میں اسلام کی سربلندی ، اعداء اسلام کی سرکوبی اور غیر معمولی حالات میں اُمت کی رہنمائی اور قیادت کے لئے دنیا میں تشریف لائیں گے ، جن کا اصل ہدف یہودیوں اور نصرانیوں کی طرف سے مسلمانوں پر ہونے والی یلغار کا مقابلہ کرنا ہوگا ؛ چنانچہ رسول اللہ انے ارشاد فرمایا کہ وہ اُمت ہلاک نہیں ہوگی ، جس کی ابتدا مجھ سے ہوئی ہے ، جس کی انتہاء میں حضرت عیسیٰ بن مریم نازل ہوں گے اور درمیان میں امام مہدی آئیں گے : ’’لن تھلک أمۃ أنا فی أولھا وعیسیٰ بن مریم فی آخرھا والمپدی فی وسطھا‘‘ ۔ (کنز العمال ، خروج المہدی ، حدیث نمبر : ۳۸۶۷۲)


رسول اللہ اپر سلسلۂ نبوت کے مکمل ہوجانے کا ایک بڑا فائدہ اس اُمت کو جمعیت اور اور یکسوئی کی شکل میں حاصل ہوا ہے ، یعنی اب کسی نبی کا انتظار باقی نہیں رہا ، اگر نبوت کا سلسلہ جاری رہتا تو ہمیشہ لوگوں کو اگلے نبی کا انتظار ہوتا ، یہ یقینا انتہائی مصیبت اور آزمائش کی بات ہوتی ، پھر جب کوئی نیا نبی آتا تو کچھ ایمان لاتے اور کچھ لوگ انکار کرتے ، جیساکہ گذشتہ انبیاء کے ساتھ ہوتا رہا ، اس کی وجہ سے ہمیشہ اُمت اختلاف و انتشار ، بے اطمینانی اور امتحان و آزمائش سے گذرتی رہتی ، رسول اللہ اپر سلسلۂ نبوت کی تکمیل نے اس راستہ کو ہمیشہ کے لئے بند کردیا ؛ اسی لئے مسلمانوں میں فکر و نظر کے ہزار اختلاف کے باوجود رسول اللہ اکی ذات گرامی نقطۂ اتفاق بنی رہی ، یہ وحدت اُمت کی ایسی اساس ہے جو دوسری قوموں کو حاصل نہیں ۔


جن دو غیر معمولی شخصیتوں کی آمد اور ظہور کا آپ انے ذکر فرمایا ہے ، آپ نے ان کی علامتوں کو بھی بہت زیادہ واضح فرمادیا ہے ؛ کیوںکہ آپ کو اندازہ رہا ہوگا کہ جو بدبخت آپ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرے گا ، مسلمان کسی تامل وتردد کے بغیر اس کو رد کردیں گے ؛ لیکن یہ اندیشہ تھا کہ کوئی بہروپیا اپنے آپ کو مسیح یا مہدی قرار دے ، اور آپ کی پیشین گوئیوں کو اپنے لئے بہانہ بنائے ؛ اس لئے آپ نے ان دونوں شخصیتوں کی اتنی وضاحت کے ساتھ نشاندھی فرمادی ، جتنی عام طورپر ایک پیغمبر اپنے بعد آنے والے پیغمبر کی بھی نہیں کیا کرتا تھا ، قرآن مجید کا خود بیان ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے بعد رسول اللہ اکی آمد کی بشارت دی تھی اور کہا تھا کہ آنے والے نبی کا نام ’ احمد ‘ ہوگا ؛ لیکن آپ کے والدین کے کیا نام ہوں گے ، آپ کا خاندان کیا ہوگا ، کہاں آپ کی ولادت کہاں ہوگی ، کہاں آپ کی وفات ہوگی ، کتنے سال دنیا میں آپ کا قیام رہے گا ؟ اس کی صراحت اس پیشین گوئی میں نہیں ہے ؛ لیکن مسیح و مہدی کے بارے میں رسول اللہ اکے ارشادات میں ہمیں ان تمام باتوں کی صراحت ملتی ہے ۔


حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خاندان کے ذکر کی ضرورت تو اس لئے نہیں تھی کہ قرآن مجید میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ، آپ کی والدہ حضرت مریم ، آپ کے معجزات ، آپ کی دعوتی جدوجہد ، یہودیوں کے ساتھ آپ کے سلوک اور پھر آپ کے آسمان پر اُٹھائے جانے کا ذکر وضاحت و صراحت کے ساتھ موجود ہے اور رسول اللہ اکی حدیثیں اس کو مزید واضح کرتی ہیں ، اب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی کا یہ حصہ باقی رہ گیا تھا کہ جب وہ جو قیامت کے قریب آسمان سے اُتریں گے — جس کے قائل مسلمان بھی ہیں اور عیسائی بھی — تو ان کی اُترنے کی کیا کیفیت ہوگی ؟ چنانچہ احادیث میں تفصیل موجود ہے کہ آپ کا نزول دمشق میں ہوگا ، آپ سفید مینارہ پر اُتریں گے ، آپ کو ایک بادل نے اُٹھا رکھا ہوگا ، آپ کے جسم پر دو چادریں ہوں گی ، آپ دجال جو ایک یہودی فریب کار ہوگا ، کو قتل فرمائیں گے ، تشریف آوری کے اکیس سال بعد حضرت شعیب علیہ السلام کے قبیلہ میں آپ کا نکاح ہوگا ، آپ ہی کے عہد میں یاجوج ماجوج کا اسلامی سلطنت پر حملہ ہوگا ، اور وہ پورے مشرق وسطی کو تباہ وبرباد کرکے رکھ دیں گے ، اپنی تشریف آوری کے بعد چالیس سال تک دنیا میں قیام فرمائیں گے ، آپ کی وفات مدینہ منورہ میں ہوگی اور رسول ا کے روضۂ اطہر میں آپ کی تدفین ہوگی ، یہ بات بڑی اہم ہے کہ قرآن مجید میں کتنے ہی انبیاء کا ذکر آیا ہے ؛ لیکن ان کے نام کے ساتھ ان کی ولدیت کا ذکر نہیں کیا گیا ، مثلاً اسماعیل بن ابراہیم ، یعقوب بن اسحاق یا یوسف بن یعقوب نہیں فرمایا گیا ، یہی صورت حال احادیث کی ہے ؛ لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر قرآن و حدیث میں زیادہ تر عیسیٰ بن مریم کے نام سے ہے ، اور یہ ان حدیثوں میں بھی ہے جن میں قیامت کے قریب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد کی پیشین گوئی کی گئی ہے ، یہ اس بات کی صراحت ہے کہ جو مسیح پہلے دنیا سے اُٹھائے جاچکے ہیں ، وہی حضرت مریم کے بیٹے مسیح پھر آسمان سے اُتارے جائیں گے ، یہ مراد نہیں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جیسا یا آپ کی صفات کا حامل شخص موجودہ لوگوں میں ظاہر ہوگا ، یہ علامتیں اتنی واضح ہیں کہ کوئی حقیقت پسند شخص اس کی جھوٹی تاویل نہیں کرسکتا ، اس کی تاویل وہی شخص کرسکتا ہے ، جو دن کو رات کہنے سے بھی نہ شرماتا ہو۔


حضرت مسیح کا دوبارہ آسمان سے نازل ہونا ایک ایسا واقعہ ہے جس پر ڈھیر ساری حدیثیں موجود ہیں اور نقل حدیث کی جو سب سے اعلیٰ صورت ہوتی ہے جس کو ’ تواتر ‘ کہتے ہیں ، اس سے اس کا ثبوت ہے ، ہندوستان کے ایک بڑے محدث علامہ سید انور شاہ کشمیریؒ نے ’’ التصریح بما تواتر فی نزول المسیح‘‘ کے نام سے ان ساری روایتوں کو جمع فرمایا ہے ، قرآن و حدیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اُمت محمدیہ کی تائید و تقویت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ایک خصوصی مقام حاصل ہے ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام من جانب اللہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے ، اس بات نے بچپن ہی میں آپ کی دُور دُور تک شہرت پہنچائی ، پھر آپ کے ہاتھوں پر ایسے حیرت انگیز معجزے ظاہر ہوئے ، جس سے شہر شہر قریہ قریہ آپ کا چرچا ہونے لگا ، پھر جب آپ شہرت و تعارف کی بلند چوٹی پر پہنچ گئے تو آپ کی زبان مبارک سے رسول اللہ ا کی نبوت کی بشارت سنائی گئی ؛ تاکہ یہ پیغام دُور دُور تک پہنچے ؛ کیوںکہ جب کسی شخص سے حیرت انگیز باتیں ظاہر ہوتی ہیں تو اس کی ہر بات کان لگاکر سنی جاتی ہے ؛ اسی لئے جب رسول اللہ انبی بنائے گئے تو نہ صرف یہودیوں کے اور عیسائیوں میں بلکہ عربوں میں بھی یہ چرچا تھا کہ کوئی نبی ظاہر ہونے والا ہے ، یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے حکم سے اوپر اُٹھالئے گئے ، اب پھر جب آپ قیامت کے قریب اُتارے جائیں گے تو اس کا مقصد بھی اُمت محمدیہ کی تقویت اور اسلام کو غلبہ عطا کرنا ہوگا ، یہاں تک کہ آپ خود نماز کی امامت کرنے کے بجائے امام مہدی کی اقتداء میں نماز ادا کریں گے اور مسلمانوں کی خواہش کے باوجود امامت کے لئے تیار نہ ہوں گے ۔


دوسری شخصیت جن کی آپ انے خوشخبری دی ہے ، امام مہدی کی ہے ، امام مہدی نہ نبی ہوں گے، نہ ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے احکام کا نزول ہوگا ، نہ اللہ کی طرف سے ان سے کہا جائے گا کہ میں نے تم کو مہدی بنایا ہے ، یہ نبی کی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے بخشا ہوا کوئی ایسا عہدہ نہیں ہوگا ، جس پر ایمان لانے کی دعوت دی جائے ، یا ان کی مہدویت کو کلمہ کا جزء بنالیا جائے ؛ بلکہ ان کی حیثیت ایک خلیفۂ راشد کی ہوگی ، ان کا سب سے اہم کارنامہ اللہ کے راستہ میں جہاد اور عدل و انصاف کا قیام ہوگا ، وہ اس اُمت کے آخری مجدد اور خلیفۂ راشد ہوں گے ، نہ وہ مہدویت کا دعویٰ کریں گے اور نہ لوگوں کو اپنے آپ پر ایمان لانے کے لئے کہیں گے ؛ بلکہ وہ صلحاء اُمت میں سے ایک عظیم شخصیت ہوں گے ، لوگ ان کے ہاتھوں پر اطاعت اور جہاد کی بیعت کریں گے ، جیساکہ خلفائے راشدین کے ہاتھوں پر صحابہ نے کی تھی ، یہ لوگ انھیں ان علامتوں سے پہچانیں گے ، جو رسول اللہ نے بتائی ہیں اور اصرار کرکے ان کے ہاتھوں پر بیعت کریں گے ۔


چوںکہ امام مہدی اُمت ہی کے ایک فرد ہوں گے اور عام انسانوں ہی کی طرح ان کی پیدائش ہوگی ؛ اس لئے اس بات کا اندیشہ تھا کہ کچھ طالع آزما ، جھوٹے ، دھوکہ باز اور فریبی قسم کے لوگ اپنے آپ کو امام مہدی قرار دینے لگیں اور اس کو جاہ و مال کی سوداگری کا ذریعہ بنائیں ، غالباً اسی مصلحت کی خاطر آپ انے زیادہ تفصیل سے امام مہدی کے بارے میں بتایا کہ ان کا نام محمد ہوگا ، ان کے والد کا نام عبد اللہ ہوگا ، وہ حضرت فاطمہ ؓکے بڑے صاحبزادے حضرت حسن بن علی ؓکی نسل سے ہوں گے ، مدینہ منورہ میں ولادت ہوگی ، مکہ مکرمہ میں رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان لوگ آپ کے ہاتھوں پر بیعت کریں گے ، آپ کے ظہور سے پہلے دریائے فرات ( عراق ) میں ایک سونے کا پہاڑ ظاہر ہوگا ، جس کے لئے ایک خونریز جنگ ہوگی ، ان کے خلاف شام کی طرف سے سفیان نام کا ایک ظالم حکمراں مکہ پر حملہ آور ہوگا اور بری طرح شکست کھائے گا ، امام مہدی عیسائیوں کو شکست دیں گے ، ان کا قیام دمشق کی جامع مسجد میں ہوگا ، جب ان کی شناخت ہوجائے گی تو اس کے چھ سال بعد دجال کا خروج ہوگا ، آپ کی مدد کے لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے اُتارے جائیں گے اور یہودیوں کو فیصلہ کن شکست دیں گے ، امام مہدی اپنے ہاتھوں پر بیعت کے بعد سات سے نو سال تک زندہ رہیں گے ۔


یہ تو امام مہدی کے بارے میں وہ باتیں ہیں ، جو دو اور دوچار کی طرح واضح ہیں ، یہاں تک کہ حدیث میں بعض ایسی شخصیتوں کے نام بھی ظاہر کئے گئے ہیں ، جو آپ کی مدد میں پیش پیش ہوں گے ، ان کے علاوہ امام مہدی کے اوصاف بھی واضح طورپر احادیث میں ذکر کئے گئے ہیں ، ان صراحتوں کا مقصد یہی سمجھ میں آتا ہے کہ کوئی شخص اس اُمت کا استحصال نہ کرسکے اور جھوٹی حیلہ بازیوں کے ذریعہ مہدی ہونے کا دعویٰ کرکے اُمت میں انتشار کا سبب نہ بن سکے ، افسوس کہ ایسی وضاحت کے باوجود ان پیشین گوئیوں کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے مختلف گمراہ فکر لوگ مسیح اورمہدی ہونے کا دعویٰ کرتے رہے ہیں ،اور اُمت کو انحراف و انتشار میں مبتلا کرچکے ہیں ، انھوںنے احادیث کو ایسا معنی پہنانے کی کوشش کی ہے کہ الفاظ کی ایسی بازیگری کے ذریعہ تو سفید کو سیاہ اور انسان کو گدھا بھی ثابت کیا جاسکتا ہے ، اور چوںکہ حدیث میں دو شخصیتوں کا ذکر آیا ہے : حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور امام مہدی ، ان دونوں کو جمع کرنا مشکل تھا ، یا شاید ان مدعیوں کو خود ایک عہدہ لے کر دوسرے کو کوئی عہدہ دینا گوارہ نہیں تھا ؛ اس لئے انھوںنے کہنا شروع کردیا کہ میں ہی مہدی بھی ہوں اور مسیح بھی ، اس تحریف اور بے جا تاویل کی سب سے بڑی مثال مرزا غلام احمد قادیانی ہے ، جس نے عیسائی قوتوں کے شہ پر پیغمبر اسلام اکی ختم نبوت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ۔


اسی طرح کی ایک مثال ابھی کچھ عرصہ پہلے شکیل نام کے ایک شخص کی شکل میں ظاہر ہوئی ہے ، جس کے والد کا نام حنیف ہے ، جو بہار کے شہر دربھنگہ کا رہنے والا ہے ، جس نے دہلی سے اپنی انحرافی کوششوں کا آغاز کیا ، اپنے مسیح اور مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ، احادیث نبوی کی نہایت نامعقول و بے بنیاد تاویلیں کیں ، جو زیادہ تر قادیانی لٹریچر سے ماخوذ ہیں اور اسی طرح کی تاویلات ہیں، جو ایران میں ’ باب ‘ اور ’ بہاء ‘ کے ماننے والے مرتدین نے کی تھی ، اب اس نے مہاراشٹر کے شہر اورنگ آباد کو اپنا مرکز بنایا ہے اور ملک کے مختلف حصوں خاص کر جنوبی ہند کے علاقوں میں لوگوں کی دین سے ناواقفیت کا فائدہ اُٹھاکر اس فتنہ کو پھیلانے کی کوشش کررہا ہے ، یہ دعویٰ اس قدر نامعقول ، گمراہانہ اور نادرست ہے کہ اہل علم کے لئے اس پر قلم اُٹھانے کی بھی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ؛ لیکن اصل خوف مسلمانوں کی ناواقفیت و جہالت سے ہے اور اس بات سے ہے کہ اسلام دشمن طاقتوں کے غلبہ کی وجہ سے مسلمان اس وقت سخت نااُمیدی کی حالت میں ہیں ، ان کے حوصلے ٹوٹے ہوئے ہیں ، ان کی ہمتیں شکستہ ہیں اوروہ کسی مرد ِغیب کے انتظار میں ہیں ، جو اس بھنور سے اُمت کی کشتی کو نکال لے جائے ، اس لئے وہ ایسے جھوٹے دعوے کرنے والوں کے گرد آسانی سے جمع ہوجاتے ہیں اور مصیبت کی اس گھڑی میں سراب کو آب اور پیتل کو سونا سمجھنے لگتے ہیں ، اس طرح کے بعض اور واقعات بھی کہیں کہیں پیش آرہے ہیں اور بعض لوگ مسیح و مہدی کے انتظار میں اس درجہ بے قرار ہیں کہ وہ کسی بھی مصنوعی نجات دہندہ کا دامن تھامنے کے لئے تیار ہیں ، مرزا غلام احمد قادیانی نے بھی ایسے ہی حالات میں نبوت کا دعویٰ کیاتھا ، جب کہ انگریزوں کا غلبہ تھا اور مسلمان سخت مایوسی کی حالت میں تھے ۔


اس لئے علماء کو چاہئے کہ اچھی طرح اس مسئلہ کی حقیقت کو سمجھائیں اور مسلمانوں کو بھی چاہئے کہ وہ اس بات کو سمجھ لیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے اُتارا جانا ایک بنیادی عقیدہ ہے ، متواتر حدیثوں سے ثابت ہے اور اس کا انکار آخری درجہ کی گمراہی اور حدیث کا انکار ہے ، نیز مہدی کوئی ایسا منصب نہیں جس پر نبی کی طرح ایمان لایا جاتا ہو ، جو نبی کی طرح معصوم ہو اور جس پر اللہ کی طرف سے احکام اُتارے جاتے ہوں ، ایسا نہ ہوکہ وہ کسی ایسے شخص کی چرب زبانی کا شکار ہوجائیں جو دشمنانِ اسلام کے آلۂ کار ہوں اور جن کو اس اُمت میں انتشار پیدا کرنے کے لئے اُٹھایا گیا ہو ۔

وباﷲ التوفیق وھو المستعان ۔


پیشکش : سلسلہ عقائد اسلام، شعبۂ تحفظ اسلام میڈیا سروس، مرکز تحفظ اسلام ہند

حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آیات قرآنی!

 


حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آیات قرآنی!


از قلم : حضرت مولانا مفتی عبد الواحد قریشی صاحب مدظلہ


اہل السنۃ والجماعۃ کے بہت سارے عقائدہیں ۔جیسے توحید،رسالت،معاد وغیرہ، انہی عقائد میں سے ایک عقیدہ'' حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم'' ہے۔اس عقیدہ کا مختصر تعارف یہ ہے کہ نبی علیہ السلام دنیا میں تشریف فرماہونے کے بعد جب موت کا ذائقہ چکھتے ہیں تو اس کے بعد قبر مبارک میں نبی علیہ السلام کو زندگی عطاء کی جاتی ہے ۔یہ زندگی روح اور جسم عنصری کے تعلق کے ساتھ ہوتی ہے۔ اور اسی کی وجہ سے قبر مبارک پر پڑھے جانے والے صلوۃ وسلام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس سنتے ہیں ۔یہ عقیدہ امت مسلمہ میں اجماعی رہا ہے۔ احناف،شوافع،مالکیہ اور حنابلہ جو اہل السنۃ والجماعۃ ہیں ،ان میں سے کوئی بھی اس عقیدے کا منکر نہیں اور یہ عقیدہ ان کو قرآن وحدیث واجماع سے ملا ہے۔اس دور میں اہل حق علماء دیوبند کا بھی یہی عقیدہ ہے اور یہ عقیدہ انہیں توارث سے ملا ہے۔


یہ عقیدہ قرآن مجید ،تفاسیر،احادیث ،شروح احادیث،کتب عقائد وکلام اور رسائل صوفیاء کرام میں ملتا ہے۔تمام کا احصاء تو اس مختصر مضمون میں نہیں ہوسکتااس لیے صرف قرآن مجید کی تفاسیر پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔


وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ


(البقرۃ:154)


کی تفسیر میں علامہ ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :


فلیس الشہید باولٰی من النبی وان نبی اللہ حی یرزق فی قبرہ کماورد فی الحدیث


(احکام القرآن تھانوی ج1ص92)


یعنی شہید نبی سے تو بہتر نہیں اور بالیقین اللہ کے نبی قبر میں زندہ ہیں اور ان کو رزق دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں آیاہے۔ وَمَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا أَنْ تَنْكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِنْ بَعْدِهِ أَبَدًا


(الاحزاب :53)


کی تفسیر میں علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:


قلت وجاز ان يكون ذلك لاجل ان النبي صلى اللّه عليه وسلم حىّ فى قبره ولذلك لم يورث ولم يتئم أزواجه عن أبى هريرة قال قال رسول اللّه صلى اللّه عليہ وسلم من صلى علىّ عند قبرى سمعته ومن صلّى علىّ نائيا أبلغته رواه البيهقي فى شعب الايمان.


(تفسیر مظہری ج7ص408)


یعنی میں [مفسر علام رحمہ اللہ]کہتا ہوں کہ ازواج مطہرات سے نکاح حرام ہونے کی یہ وجہ بھی ہوسکتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر شریف میں زندہ ہیں۔اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مال کا کوئی وارث نہیں ہوتا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں بیوہ نہیں ہوتیں۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو آدمی میری قبر کے نزدیک مجھ پر درود عرض کرے گا میں اسے بنفس نفیس سنوں گااور جو دور سے پڑھے گا تو وہ مجھے پہنچایا جائیگا۔اس حدیث کو امام بیہقی رحمہ اللہ نے شعب الایمان میں روایت کیا ہے۔


اسی طرح اسی آیت کی تفسیر کے تحت حضرت اقدس مولانامفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ازواج مطہرات سے نکاح حرام ہے۔ (اس کی دو جہیں ہیں۔ از ناقل)وہ بنص قرآن مومنوں کی مائیں ہیں ……اور دوسری وجہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات کے بعد اپنی قبر شریف میں زندہ ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ ایسا ہے جیسے کوئی زندہ شوہر گھر سے غائب ہو۔


(تفسیر معارف القرآن ج7ص203)


وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ


(آل عمران :169)


اس کی تفسیر میں سحبان الہند حضرت مولانا احمد سعید دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : انبیاء علیہم السلام کی ارواح کا ان کے ابدان مقدسہ کے ساتھ قائم رہنا اور قبر پر جاکر سلام کرنے والے کے سلام کو سننا اور اس کا جواب دینا(ثابت)ہے۔


(تفسیر کشف الرحمن ج1ص114)


یاد رہے کہ اس تفسیر پر مولانا سیدحسین احمد مدنی رحمہ اللہ،شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمہ اللہ،مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ ،حضرت مولانا مفتی مہدی حسن شاہجہانپوری رحمہ اللہ کی تقاریظ ثبت ہیں اور یہ مفتی اعظم ہند حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی رحمہ اللہ کی نگرانی میں طبع ہوئی۔


يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا


(الاحزاب :45)


اس آیت کی تفسیر میں مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانامفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: تمام انبیاء کرام علیہم السلام خصوصا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے گزرنے کے بعد بھی اپنی اپنی قبروں میں زندہ ہیں۔


(معارف القرآن ج7ص177)


مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ


)الاحزاب:40)


اس آیت کی تفسیر میں علامہ آلوسی رحمہ اللہ ،علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ کا یہ قول بلا نکیر نقل فرماتے ہیں: فحصل من مجموع ھذاالکلام النقول والاحادیث ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم حی بجسدہ وروحہ


(روح المعانی ج22ص36)


یعنی اس تمام کلام سے یہ بات حاصل ہوئی کہ نقول واحادیث کے مطابق نبی علیہ السلام اپنے جسد اور روح کے ساتھ زندہ ہیں۔پھر آگے مزید لکھتے ہیں:


والمرئی اماروحہ علیہ الصلاۃ والسلام التی ہی اکمل الارواح تجردا وتقدسابان تکون قد تطورت وظہرت بصورۃ مرئیۃ بتلک الرویۃ مع بقاء تعلقہا بجسدہ الشریف الحی فی القبر السامی المنیف


(ایضاًج22ص37)


جس کا خلاصہ یہ ہے کہ نظر آنے والی یا تو روح مقدس ہوگی جو کہ تمام روحوں سے مقدس ہے۔لیکن اس کاتعلق قبر شریف میں جسد مبارک سے ہوگا جو کہ زندہ ہے۔مزید ارقام فرماتے ہیں:


وقد الف البیہقی جزء فی حیاتہم فی قبورھم واوردہ فیہ عدۃ اخبار


( ایضاًج22ص 38)


یعنی امام بیہقی رحمہ اللہ نے انبیاء کرام علیہم السلام کے اپنی قبور میں زندہ ہونے پر ایک رسالہ لکھا ہے اور اس میں بہت سی احادیث ذکر کی ہیں۔مزید لکھتے ہیں :


ثم ان کانت تلک الحیوۃ فی القبر وان کانت یترتب علیہا بعض مایترتب علی الحیوۃ فی الدنیا المعروفۃ لنا من الصلاۃ والاذان والاقامۃ ورد السلام المسموع۔


( ایضاًج22ص 38)


جس کا حاصل یہ ہے کہ قبر کی اس زندگی پر دنیا والے کچھ احکام لگتے ہیں جیسے نماز، اذان ،اقامت اور سنے ہوئے سلام کا جواب دینا۔


فَضَرَبْنَا عَلَى آذَانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَدًا


(الکہف :11)


کی تفسیر میں امام رازی رحمہ اللہ نے کرامت کی بحث چھیڑ دی اور اسی میں یہ بھی درج کیا:


اما ابوبکرفمن کراماتہ انہ لما حملت جنازتہ الی باب قبر النبی صلی اللہ علیہ وسلم ونودی: السلام علیک یارسول اللہ ھذا ابوبکر بالباب فاذا الباب قد انفتح واذا بہاتف یہتف من القبر :''ادخلوا الحبیب الی الحبیب''


(مفاتیح الغیب المعروف تفسیر کبیر ج7ص433)


یعنی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی کرامات میں سے یہ ہے کہ جب ان کا جنازہ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر اٹھاکر لایا گیا اور "السلام علیک یارسول اللہ" عرض کرکے کہاگیا کہ یہ ابوبکر دروازے پر حاضر ہیں تو دروازہ کھل گیا اور قبر مبارک سے آوازدینے والے کی آواز آئی کہ دوست کو دوست کے پاس داخل کردو۔


وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ،


(النساء :64)


اس آیت کی تفسیر میں امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :


عن علی رضی اللہ عنہ قال قدم علینا اعرابی بعد مادفنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بثلاثۃ ایام فرمی بنفسہ علی قبر رسول ،وحثا علی راسہ من ترابہ فقال قلت یارسول اللہ: فسمعنا قولک ووعیت عن اللہ فوعیناعنک وکان فیہا انزل اللہ علیک وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ الخ وقد ظلمت نفسی وجئتک تستغفرلی، فنودی من القبر انہ قد غفر لک


(الجامع الاحکام القرآن ج5ص255)


یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دفن کرنے کے 3دن بعد ایک دیہاتی آیا اور قبر پر گر کر سر پر مٹی ڈال کر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ،ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی سے اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محفوظ کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر "وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ الخ" نازل ہوئی اور یقیناً میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے لیے استغفار کریں تو قبر مبارک سے آواز آئی کہ تیری بخشش کردی گئی۔


مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ اسی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں : اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیوی حیات کے زمانہ میں ہوسکتی تھی ،اسی طرح آج بھی روضہ اقدس پر حاضری اسی حکم میں ہے…… اس کے بعد حضرت نے درج بالا واقعہ بحوالہ تفسیر بحر محیط ذکر فرمایا ہے۔


(معارف القرآن ج2ص459،460)


اسی طرح اسی آیت کے تحت علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے علامہ عتبی رحمہ اللہ کا واقعہ درج کیا ہے کہ ایک شخص نے آکر قبر مبارک پر استشفاع کیا توخواب میں علامہ عتبی رحمہ اللہ کو نبی علیہ السلام کی زیارت ہوئی کہ اس شخص کو بشارت دے دو کہ اللہ تعالی نے اس کی مغفرت فرمادی۔


(تفسیر ابن کثیر ج2ص315)


وَاسْئَلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُسُلِنَا


(الزخرف:45)


کے تحت حضرت مولانا علامہ سید انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ لکھتے ہیں :


یستدل بہ علی حیوۃ الانبیاء


(مشکلات القرآن ص234)


یعنی اس سے حیات الانبیاء پر دلیل پکڑی گئی ہے۔


وَلَا أَنْ تَنْكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِنْ بَعْدِهِ أَبَدًا


)الاحزاب:53)


کی تفسیر میں مفسر قرآن حضرت مولانا علامہ شبیراحمد عثمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس مسئلہ کی نہایت بحث حضرت مولانامحمد قاسم نانوتوی قدس سرہ کی کتاب آب حیات میں ہے۔انتہی کلامہ اور آب حیات کس مسئلہ پر لکھی گئی اہل مطالعہ پر یہ مخفی نہیں۔


پیشکش : سلسلہ عقائد اسلام، شعبۂ تحفظ اسلام میڈیا سروس، مرکز تحفظ اسلام ہند

سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں!

 


سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں!


از قلم : حضرت مولانا سید کمال اللہ بختیاری ندوی‏ مدظلہ

(لکچرر شعبۂ عربی دی نیوکالج، چینائی)

 


”اللہ تعالیٰ نے دین کی ترویج و تقسیم کا کام آدم علیہ السلام سے شروع کیا اور بالآخر سیدالمرسلین خاتم النّبیین  صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ زریں سلسلہ مکمل و ختم فرمادیا آپ  صلی اللہ علیہ وسلم وہی دین لے کر آئے جو دیگر انبیاء کرام لے کر آئے تھے جو ابتدا آفرینش سے تمام رسولوں کا دین تھا اسی دین کو تمام آمیزیشوں سے پاک کرکے اس کی اصل خالص صورت میں پیش کیا اب خدا کا حکم اس کا دین اس کا قانون وہ ہے جو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش فرمایا آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی خداکی نافرمانی ہے کلمہ طیبہ کی استدلالی و منطقی توجیہ یہ ہے کہ اس میں پہلے تمام خداؤں کا انکار پھر ایک خدائے وحدہ لاشریک لہ کا اقرار ہے اسی طرح تمام انبیاء کی سابقہ شریعتوں و طریقوں پر عمل کرنے کا انکار ہے (اس لئے کہ تمام شریعتیں شریعت محمدی  صلی اللہ علیہ وسلم میں سموگئی ہیں) اور صرف اسوئہ نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم پر چلنے کا اقرار ہے۔


قصراسلام میں ایک اینٹ کی جگہ خالی رہ گئی تھی سو وہ آپ کے ذریعے اللہ نے پرُکردی۔ آپ کی رسالت نسل انسانی پر اللہ کی سب سے بڑی رحمت اور نعمت غیرمترقبہ ہے۔ نزولِ کتب وصحف کا سلسلہ و طریقہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم پر منقطع کردیاگیا۔ سلسلہٴ نبوت و رسالت کو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کردیا گیا۔ اب آپ کے بعد کوئی رسول یا نبی نہیں آئیگا۔ قرآن کی طرح آپ کی رسالت ونبوت بھی آفاقی وعالمگیر ہے جس طرح تعلیمات قرآنی پر عمل پیرا ہونا فرض ہے اسی طرح تعلیمات نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنا فرض ہے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت تمام جن وانس کیلئے عام ہے دنیا کی ساری قومیں اور نسلیں آپ کی مدعو ہیں تمام انبیاء کرام میں رسالت کی بین الاقوامی خصوصیت اور نبوت کی ہمیشگی کا امتیاز صرف آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے۔ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم گروہ انبیاء کرام کے آخری فرد ہیں اور سلسلہٴ نبوت و رسالت کی آخری کڑی ہیں۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم خلاصہ انسانیت ہیں۔“(۱)


ختم نبوت قرآنی آیات کی روشنی میں


ختم نبوت اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے اسلام کی ساری خصوصیات اورامتیازات اسی پر موقوف ہیں۔ ختم نبوت ہی کے عقیدہ میں اسلام کا کمال اور دوام باقی ہے۔ چنانچہ اس آیت میں اس کی پوری وضاحت اور ہرطرح کی صراحت موجود ہے ”مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِن رَّسُولَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلَیْمًا“ نہیں ہیں محمد  صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ لیکن اللہ کے رسول اور تمام انبیاء کے سلسلہ کو ختم کرنے والے ہیں اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے(۲)


آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم علیہ وسلم کے متعلق اس آیت میں جو اعلان کیاگیا ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم آخری رسول ہیں۔ اب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے کے بعد کوئی رسول آنے والا نہیں ہے اس قرآنی اعلان کا مقصد محض فہرست انبیاء و رسل کے پورے ہوجانے کی اطلاع دینا نہیں ہے بلکہ اس قرآنی اعلان اور پیغام کا مقصد یہ بتانا ہے کہ اگرچہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ نبوت دنیا میں رہ جانے والی نہیں ہے مگر آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا بدل کارِ نبوت کی شکل میں ہمیشہ تاقیامت باقی ہے۔ اللہ نے اس آیت میں خاتم الرسل یا خاتم المرسلین لفظ کے بجائے خاتم النّبیین کا لفظ اختیار فرمایا ہے اس میں قابل غور نکتہ یہ ہے کہ نبی میں عمومیت ہوتی ہے اور رسول میں خصوصیت ہوتی ہے نبی وہ ہوتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ اصلاح خلق کیلئے منتخب فرماتا اور اپنی وحی سے مشرف فرماتا ہے اور اس کے لئے کوئی مستقل کتاب اور مستقل شریعت نہیں ہوتی ہے۔ پچھلی کتاب و شریعت کے تابع لوگوں کو ہدایت کرنے پر مامور ہوتا ہے جیسے حضرت ہارون علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب و شریعت کے تابع اور ہدایت کرنے پر مامور تھے۔ رسول وہ ہوتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ مستقل کتاب و مستقل شریعت سے نوازتا ہے جو رسول ہوتا ہے وہ اپنے آپ نبی ہوتا ہے لیکن جو نبی ہوتا ہے وہ رسول نہیں ہوتا لفظ خاتم النّبیین کا صاف مطلب یہ ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم انبیاء کے سلسلہ کو ختم کرنے والے اور سب سے آخر ہیں اب قیامت تک نہ تو نئی شریعت و کتاب کے ساتھ کسی کو منصب رسالت پر فائز کیاجائے گا اور نہ پچھلی شریعت کے متبع کسی شخص کو نبی بناکر بھیجا جائے گا۔


اس آیت میں ان لوگوں کے خیال کا رد بھی ہے جو اپنی جاہلانہ رسم و رواج کی بناء پر لے پالک کو حقیقی بیٹا سمجھتے اور بیٹے کا درجہ دیتے تھے۔ زید بن حارثہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کے منھ بولے بیٹے تھے چنانچہ جب انھوں نے اپنی بیوی حضرت زینب کو طلاق دیدی تو آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کرلیا تو اس نکا پر طعن کرتے تھے کہ بیٹے کی بیوی سے آپ نے نکاح کرلیا اس آیت میں یہ بتانا مقصود ہے کہ زید بن حارثہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی بیٹے نہیں ہیں وہ تو حارثہ کے بیٹے ہیں مزید تاکید کے طور پر یہ بھی بتادیاگیا کہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم تم مردوں میں سے کسی جسمانی باپ نہیں ہیں البتہ اللہ کے رسول ہونے کی حیثیت سے سب کے روحانی باپ ضرور ہیں۔ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کے چار بیٹے قاسم، طیب، طاہر حضرت خدیجہ سے اور ابراہیم حضرت ماریہ قبطیہ سے تھے لیکن ان میں سے کوئی رجال کی حد تک نہیں پہنچاتھا اوراس آیت کے نزول کے وقت آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی بیٹا نہیں تھا۔ حقیقی باپ ہوتو اس پر نکاح کے حلال وحرام کے احکام عائد ہوتے ہیں لیکن حضرت زید بن حارثہ تو لے پالک بیٹے تھے اس آیت کا مطلب یہ ہوا کہ آپ اُمت کے مردوں میں سے کسی کے بھی نسبی باپ نہیں لیکن روحانی باپ سب کے ہیں۔


یہاں لفظ خاتم پر ایسی روشنی ڈالی جارہی ہے جس سے عقیدہٴ ختم نبوت کی پوری وضاحت ہوجاتی ہے۔ لفظ خاتم دوقرأتوں سے بھی ثابت ہے۔ امام حسن اور عاصم کی قرأت سے خاتم بفتح التاء ہے اور دوسرے ائمہ قرأت سے خاتم بکسر التاء ہے۔ دونوں کا معنی ایک ہی ہے یعنی انبیاء کے سلسلہ کو ختم کرنے والے اور دونوں کے معنی آخر اور مہرکے ہیں۔ اور مہر کے معنی میں یہ دونوں لفظ استعمال ہوتے ہیں۔ مہر کے یہ معنی ہوئے کہ اب دستاویز مکمل ہوگئی۔ اس میں اب کسی قسم کی گنجائش اضافہ کی ہے نہ کمی کی ہے۔ امام راغب نے مفردات القرآن میں فرمایاہے: وَخَاتَمُ النُّبُوَّةِ لِاَنَّہُ خَتَمَ النُّبُوَّةَ الَّتِی تَمَّمَہَا بِمَجِیْئِہ “ یعنی آپ کو خاتم النبوت“ اس لئے کہاگیا کہ آپ نے نبوت کو اپنے تشریف لانے سے ختم اور مکمل فرمادیا۔ (۳)


خاتم القوم سے مراد آخر ہم قبیلے کا آخری آدمی(۴) ”خَتَمَ النُّبُوَّةَ فَطُبِعَ عَلَیْہَا فَلاَ تُفْتَحُ لِاَحَدٍ بَعْدَہُ اِلَی قِیَامِ السَّاعَةِ“ آپ نے نبوت کو ختم کردیا اور اس پر مہر لگادی اب قیامت تک یہ دروازہ نہیں کھلے گا۔(۵)


امام غزالی لکھتے ہیں: ”اِنَّ الْاُمَّةَ فَہِمَتْ بِالْاِجْمَاعِ مِنْ ہٰذَا اللَّفْظِ خَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ وَمِنْ قَرَائِنِ اَحْوَالِہِ اَنَّہُ فَہِمَ عَدْمَ نَبِیِّ بَعْدَہُ اَبَدًا وَاَنَّہُ لَیْسَ فِیْہِ تَاوِیْلٌ وَلاَ تَخْصِیْصٌ فَمُنْکِرُ ہٰذَا لاَ یَکُوْنُ الاَّ اِنْکَارَ الْاِجْمَاعِ“ بیشک امت نے اس لفظ خاتم النّبیین سے اور اسکے قرائن احوال سے بالاجماع یہی سمجھا ہے کہ اس آیت کا مطلب یہی ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہوگا اور نہ رسول اور نہ اس میں کوئی تاویل چل سکتی ہے اور نہ تخصیص اور اس کا منکر یقینا اجماع کا منکر ہے(۶)


ارشاداتِ ربانی فرموداتِ نبوی کی روشنی میں علمائے اُمت وصلحائے ملت نے اجماعی طور پر صدیوں سے اس آیت کا یہی مطلب یعنی ختم نبوت سمجھا اور سمجھایا ہے۔


ختم نبوت احادیث وروایات کی روشنی میں


حضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم تھا کہ آپ کے تشریف لے جانے کے بعد دشمنانِ اسلام نئے نئے فتنے اٹھائیں گے دین میں طرح طرح کے رخنے ڈالیں گے اور خصوصاً ختم نبوت کے تعلق سے شبہات پیدا کرکے اُمت مسلمہ کو راہِ راست سے ہٹانے کی کوشش کریں گے لہٰذا آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور پیش بندی اُمت کو ان آئندہ خطرات سے آگاہ فرمادیا اور اُمت کو پوری طرح چوکنا کردیا کہ جو بھی نبوت کا دعویٰ کرے اسے وقت کا دجال باطل پرست اور فتنہ پرور سمجھا جائے اور اسے دین سے خارج کردیا جائے چنانچہ عقیدئہ ختم نبوت ہر زمانہ میں تمام مسلمانوں کا متفق علیہ عقیدہ رہا ہے اور اس امر میں مسلمانوں کے درمیان کبھی کوئی اختلاف نہیں رہا جس کسی نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا ہے یا جس کسی نے بھی دعویٰ کو قبول کیا ہے اسے متفقہ طور پر اسلام سے خارج سمجھا گیا ہے اس پر تاریخ کے بہت سے واقعات شاہد ہیں۔ چند مندرجہ ذیل پیش کئے جارہے ہیں۔


آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے دور میں اسود عنسی نے نبوت کا دعویٰ کیا تو آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو اس کے قتل کیلئے روانہ فرمایا۔ صحابی رسول نے جاکر اسود عنسی کا قصہ تمام کردیا۔ حضرت عروة بن الزبیر کا بیان ہے کہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات کے ایک دن پہلے اسود عنسی کے مارے جانے کی خوشخبری ملی تو آپ نے خوشی کا اظہار فرمایا۔(۷)


حضرت ابوبکر صدیق کے د ور میں سب سے پہلے جو کام ہوا وہ یہ تھا کہ حضرت ابوبکر نے مسیلمہ کذاب جس نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا اسکی سرکوبی کیلئے حضرت خالد بن ولید کو صحابہ کرام کی ایک جماعت کے ساتھ روانہ فرمایا تو حضرت خالد بن ولید نے مسیلمہ بن کذاب سمیت اٹھائیس ہزار جوانوں کو ٹھکانے لگاکر فاتح کی حیثیت سے مدینہ واپس ہوئے۔ صدیقی دور میں ایک اور شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا جس کا نام طلیحہ بن خویلد بتایاجاتا ہے اس کے قتل کیلئے بھی حضرت خالد بن ولید روانہ کئے گئے تھے۔(۸) ”اسی طرح خلیفہ عبدالملک کے دور میں جب حارث نامی شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا تو خلیفہ وقت نے صحابہ و تابعین سے فتوے لیے اور متفقہ طور پر اسے قتل کیاگیا۔ خلیفہ ہارون رشید نے بھی اپنے دور میں نبوت کا دعویٰ کرنے والے شخص کو علماء کے متفقہ فتویٰ پر قتل کی سزا دی ہے“۔(۹)


امام ابوحنیفہ کے زمانے میں ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا اور کہا کہ مجھے موقع دو کہ میں اپنی نبوت کے علامات پیش کروں اس پر امام اعظم نے فرمایا کہ جو شخص اس سے نبوت کی کوئی علامت طلب کرے گا وہ بھی کافر ہوجائے گا کیونکہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم فرماچکے ہیں کہ ”لاَنَبِیَّ بَعْدِیْ“(۱۰) غرض یہ کہ شروع سے اب تک تمام اسلامی عدالتوں اور درباروں کا یہی فیصلہ رہا ہے کہ نبوت کا دعویٰ کرنے والے اور اسے ماننے والے کافر مرتد اور واجب القتل ہیں۔


اب آئیے ذرا احادیث کی روشنی میں ختم نبوت پر روشنی ڈالی جائے ”قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّ الرِّسَالَةَ النُّبُوَّةَ قَدْ اِنْقَطَعَتْ فَلاَ رَسُوْلَ بَعْدِی وَلاَنَبِیَّ“ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رسالت و نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا میرے بعد اب کوئی رسول ہے اور نہ نبی۔(۱۱)


قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ مَثَلِیْ وَمَثَلَ الْاَنْبِیَاءِ مِنْ قَبْلِیْ کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنٰی بَیْتًا فَاحْسَنَہُ وَاَجْمَلَہُ اِلاَّ مَوضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِیَةٍ فَجَعَلَ النَّٓسُ یَطُوْفُوْنَ بِہ یَعْجَبُوْنَ لَہُ وَیَقُوْلُوْنَ ہَلاَّ وُضِعَتْ ہٰذِہ اللَّبِنَةُ قَالَ فَاَنَا اللَّبِنَةُ وَاَنَا خَاتِمُ النَّبِیِّیْنَ“۔ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری اور مجھ سے پہلے گزرے ہوئے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے ایک عمارت بنائی اور خوب حسین وجمیل بنائی مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوٹی ہوئی تھی لوگ اس عمارت کے گرد پھرتے اور اظہارِ حیرت کرتے اور کہتے تھے کہ اس جگہ ایک اینٹ نہیں رکھی گئی آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو وہ اینٹ میں ہوں اور میں خاتم النّبیین ہوں یعنی میرے آنے کے بعد اب کوئی جگہ باقی نہیں ہے نبوت کی عمارت مکمل ہوچکی ہے۔(۱۲)


قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لاَنَبِیَ بَعْدِیْ وَلاَ اُمَّةَ بَعْدِیْ“ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے بعد کوئی نبی نہیں اور میری اُمت کے بعد کوئی امت نہیں یعنی کسی نئے آنے والے نبی کی امت نہیں۔(۱۳)


”قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَجِئْتُ فَخَتَمْتُ الْاَنْبِیَاءَ“ پس میں آیا اور میں نے انبیاء کا سلسلہ ختم کردیا۔(۱۴)


”قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَا مُحَمَّدٌ وَاَنَا اَحْمَدُ وَاَنَا الْمَاحِی الَّذِیْ یُمْحٰی بِی الْکُفْرُ وَاَنَا الْحَاشِرُ یُحْشَرُ النَّاسُ عَلَی عَقْبِیْ وَاَنَا الْعَاقِبُ الَّذِیْ لَیْسَ بَعْدَہُ نَبِیٌّ“ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں محمد ہوں میں احمد ہوں میں ماحی ہوں کہ میرے ذریعے سے کفر محو کیا جائے گا میں حاشر ہوں کہ میرے بعد لوگ حشر میں جمع کئے جائیں گے یعنی میرے بعداب بس قیامت ہی آنی ہے اور میں عاقب ہوں اور عاقب وہ ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔(۱۵)


”اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: فُضِّلْتُ عَلَی الْاَنْبَیاءِ بِسِتٍ اُعْطِیْتُ جَوَامِعَ الْکَلِمَ وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ وَاُحِلَّتْ لِی الْغَنَائِمُ وَجُعِلَتْ لِی الْاَرْضُ مَسْجِدًا وَطَہُوْرًا وَاُرْسِلْتُ اِلَی الْخَلْقِ کَافَّةً وَخُتِمَ بِی النَّبِیُّوْنَ“ آنحضرت نے فرمایا مجھے چھ باتوں میں دیگر انبیا پر فضیلت دی گئی ہے: (۱) مجھے جامع و مختصر بات کہنے کی صلاحیت دی گئی، (۲) مجھے رعب کے ذریعے نصرت بخشی گئی، (۳) میرے لئے اموالِ غنیمت حلال کئے گئے،(۴) میرے لئے زمین کو مسجد بھی بنادیاگیا اور پاکیزگی حاصل کرنے کا ذریعہ بھی یعنی میری شریعت میں نماز مخصوص عبادت گاہوں میں ہی نہیں بلکہ روئے زمین میں ہرجگہ پڑھی جاسکتی ہے اور پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کرکے وضو کی حاجت بھی پوری کی جاسکتی ہے،(۵) مجھے تمام دنیاکیلئے رسول بنایا گیا ہے،(۶) اور میرے اوپر انبیاء کا سلسلہ ختم کردیاگیا۔“(۱۶)


قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَوْکَانَ بَعْدِی نَبِیٌّ لَکَانَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّاب․ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے بعداگر کوئی نبی ہوتا تو عمر بن الخطاب ہوتے۔ چونکہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم کردی گئی ہے اب کسی کو کسی طرح کی بھی نبوت نہیں مل سکتی۔(۱۷)


قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِعَلِیٍّ اَنْتَ مِنِّی بِمَنْزِلَةِ ہَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی اِلاَّ اَنَّہُ لاَنَبِیَّ بَعْدِیْ․ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی سے ارشاد فرمایا کہ میرے ساتھ تمہاری نسبت وہی ہے جو موسیٰ کے ساتھ ہارون کی تھی مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔(۱۸)


”قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَوْکَانَ مُوْسٰی حَیًّا لَمَا وَسَعَہُ اِلاَّ اِتِّبَاعِیْ“ اگر موسیٰ زندہ ہوتے تو ان کیلئے میری پیروی کے علاوہ چارہ کار نہ تھا۔(۱۹)


چنانچہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے اولوالعزم پیغمبر کے تعلق سے یہ وضاحت فرمادی کہ اگر موسیٰ بھی دوبارہ اس دنیامیں آتے تو انھیں میری شریعت پر ایک امتی کی حیثیت سے عمل پیرا ہونا پڑتا۔ اسی طرح آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے مستقبل کے بارے میں بتادیا کہ جب عیسیٰ علیہ السلام آسمانسے نزول فرمائیں گے تو ان کی بھی حیثیت امتی کی ہوگی۔ حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں۔ ابوہریرہ سے روایت ہے: ”قَالَ النَّبِیُّ کَیْفَ اَنْتُمْ اِذَا نَزَلَ عِیْسَی بْنُ مَرْیَمَ فِیْکُمْ وَاِمَامُکُمْ مِنْکُمْ“ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارا کیا حال ہوگا جب ابن مریم تمہارے درمیان اتریں گے اور تمہارا قائد تمہیں میں سے ہوگا۔(۲۰)


قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ”کَانَتْ بَنُوْ اِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُہُمْ الْاَنْبِیَاءُ کُلَّمَا ہَلَکَ نَبِیٌّ خَلَفَہُ وَاِنَّہُ لاَ نَبِیَّ بَعْدِیْ وَسَیَکُوْنُ خُلَفَاءُ“ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بنی اسرائیل کی قیادت انبیاء کیا کرتے تھے جب کوئی نبی فوت پایا جاتا تو دوسرا نبی اس کا جانشین ہوجاتا تھا مگر میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا بلکہ خلفاء ہوں گے۔(۲۱)


حضرت آدم علیہ السلام سے نبوت کا سلسلہ شروع ہوا۔ انبیاء آتے رہے اوراسلام کی تعلیمات کو پیش کرتے رہے۔ اس طرح اسلام بتدریج تکمیل کی طرف بڑھتا چلاگیا۔ یہاں تک کہ عمارت کا آخری پتھر سلسلہ انبیاء کے آخری نبی، رسولوں کی فہرست کے آخری رسول محمد عربی  صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوگیا نبوت کے سلسلہ کو بند کرناتھا تو نبی کے خلفاء کی طرف اشارہ کیاگیا اور خلافت رسول کا وعدہ کیاگیا۔ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوالصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الْاَرْضِ وعدہ کرلیا اللہ نے ان لوگوں سے جو تم میں ایمان لائے اور نیک عمل کئے۔ یقینا ان کو خلافت ارضی عطا کرے گا۔(۲۲)


ختم نبوت  صلی اللہ علیہ وسلم اکابرِ اُمت کی تحقیقات کی روشنی میں


علامہ ابن جریر اپنی مشہور تفسیر میں سورة احزاب کی آیت کی تشریح میں ختم نبوت کے تعلق سے یوں رقمطراز ہیں اللہ نے آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم کردی اور اس پر مہرلگادی اب یہ دروازہ قیامت تک کسی کیلئے نہیں کھلے گا۔(۲۳)


امام طحاوی اپنی کتاب (العقیدة السلفیہ) میں ختم نبوت کے بارے میں ائمہ سلف خصوصاً امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف، امام محمد کے اقوال کی روشنی میں لکھتے ہیں کہ حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے اوراس کے محبوب اورآخری نبی ہیں اور یہ بھی لکھتے ہیں کہ سیدالانبیاء وسیدالمرسلین محمد  صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اورآپ  صلی اللہ علیہ وسلم رب العالمین کے محبوب ہیں۔(۲۴)


علامہ امام غزالی فرماتے ہیں اس امر (ختم نبوت) پر اُمت مسلمہ کا کامل اجماع ہے کہ اللہ کے رسول حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں اور پوری اُمت اس بات پر متفق ہے کہ رسولِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد ”لا نَبِیَّ بَعْدِیْ“ سے مراد یہی ہے کہ ان کے بعد نہ کوئی نبی اور نہ رسول ہوگا جو شخص بھی اس حدیث کا کوئی اور مطلب بیان کرے وہ دائرئہ اسلام سے خارج ہے اس کی تشریح باطل اور اس کی تحریر کفر ہے۔علاوہ ازیں امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ اس کے سوا اس کی کوئی تشریح نہیں جو اس کا انکار کرے وہ اجماعِ امت کا منکر ہے۔(۲۵)


علامہ زمخشری اپنی تفسیر الکشاف میں لکھتے ہیں: اگر آپ یہ سوال کریں کہ جب یہ عقیدہ ہوکہ اللہ کے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت سے پہلے آخری زمانے میں نازل ہوں گے تو پھر رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی کیسے ہوسکتے ہیں میں کہتا ہوں کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم اس معنی میںآ خری ہیں کہ ان کے بعد کوئی اور شخص نبی کی حیثیت سے مبعوث نہ ہوگا۔ رہا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا معاملہ تو وہ ان انبیاء کرام میں سے ہیں جنھیں حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے نبوت سے سرفراز کیاگیاتھا اور جب وہ دوبارہ آئیں گے تو حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے متبع ہوں گے اور انھیں کے قبلہ الکعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھیں گے۔(۲۶)


علامہ ابن کثیر تحریر فرماتے ہیں ”یہ آیت (یعنی سورہ احزاب والی) اس امر میں نص ہے کہ انکے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا کیونکہ مقامِ رسالت مقامِ نبوت سے اخص ہے کیونکہ ہر رسول نبی ہوتا ہے اور ہر نبی رسول نہیں ہوتا ہے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدجو شخص بھی اس منصب کادعویٰ کرتا ہے وہ کذاب دجال مفتر اور کافر ہے خواہ وہ کسی قسم کے غیرمعمولی کرشمے اور جادوگری کے طلاسم دکھاتا پھرے اوراسی طرح قیامت تک جو شخص بھی اس منصب کا مدعی ہو وہ کذاب ہے۔(۲۷)


علامہ آلوسی لکھتے ہیں نبی کا لفظ عام ہے اور رسول خاص ہے اس لئے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النّبیین ہونے سے خاتم المرسلین ہونا لازمی ہے کہ اس دنیا میں آپ کے منصب نبوت پر فائز ہونے کے بعد کسی بھی انسان یا جن کو یہ منصب نصیب نہیں ہوگا۔(۲۸)


علامہ جلال الدین سیوطی اس آیت ”وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا“ کے تحت لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز سے آگاہ ہے اورجانتا ہے کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہ ہوگا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب نازل ہوں گے تو وہ حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے پیروکار ہوں گے۔(۲۹)


علامہ بیضاوی یوں رقمطراز ہیں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم انبیاء کرام کی آخری کڑی ہیں جنھوں نے ان کے سلسلہ کو ختم کردیا ہے اور سلسلہٴ نبوت پر مہر لگادی ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بعث ثانیہ سے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے کی تردید نہیں ہوتی کیوں کہ وہ جب آئیں گے تو انہی کے شریعت کے پیروکار ہوں گے۔(۳۰)


تاج العروس میں اس طرح ہے: ”وَمِنْ اَسْمَائِہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَلْخَاتِمُ وَالْخَاتَمُ وَہُو الَّذِیْ فَقَدَ النُّبُوَّةَ بِمَجِیْئِہ “ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموں میں سے خاتِم اور خاتَم بھی ہیں جن کا معنی یہ ہے کہ ان کی آمد پر نبوت ختم ہوگی۔(۳۱)


حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب کی کتاب سے مضمون بعنوان ”منکرین ختم نبوت وسنت کا مغالطہ اور اس کا مدلل اورمعقول جواب“ پیش خدمت ہے۔ واقعی حکیم الاسلام کا یہ جواب اتنا مدلل اور معقول ہے کہ اس سے گمراہ فرقہ قادیانیوں کی سازش کو سمجھنے اور بھولے بھالے مسلمانوں کو ان کے فتنہ سے بچانے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ ”اس میں اکثر قادیانی یہ مغالطہ دیتے ہیں کہ نبوت تو دنیاکیلئے رحمت ہے جب نبوت ختم ہوگئی اور زحمت پیداہوگئی۔ نبوت تو ایک نور ہے جب وہ نور نہ رہا تو دنیا میں ظلمت پیدا ہوگئی تواس میں (معاذ اللہ) حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین ہے کہ آپ دنیا کو زحمت دینے کیلئے آئے یا دنیامیں معاذ اللہ ظلمت پیدا کرنے کیلئے آئے کہ نور ہی ختم کردیا اور رحمت ہی ختم کردی یہ ایک مغالطہ ہے اور مغالطہ واقع ہوا ہے ختم نبوت کے معنی سمجھنے کے اندر یاتو سمجھا نہیں ان لوگوں نے یا سمجھ کر جان بوجھ کر دغا اور فریب سے کام لیا ہے۔


ختم نبوت کے معنی قطعِ نبوت کے نہیں ہیں کہ نبوت منقطع ہوگئی ختم نبوت کے حقیقی معنی تکمیل نبوت کے ہیں کہ نبوت اپنی انتہا کو پہنچ کر حدکمال کو پہنچ گئی ہے اب کوئی درجہ نبوت کا ایسا باقی نہیں رہا کہ بعد میں کوئی نبی لایا جائے اوراس درجہ کو پورا کرایا جائے۔ ایک ہی ذاتِ اقدس نے ساری نبوت کو حد کمال پر پہنچادیا کہ نبوت کامل ہوگئی تو ختم نبوت کے معنی تکمیل نبوت کے ہیں۔ قطع نبوت کے نہیں ہیں گویا کہ ایک ہی نبوت قیامت تک کام دے گی، کسی اور نبی کے آنے کی ضرورت نہیں اس لئے کہ نبوت کے جتنے کمالات تھے وہ سب ایک ذاتِ بابرکات میں جمع کردئیے گئے۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہے کہ جیسے آسمان پر رات کے وقت ستارے چمکتے ہیں ایک نکلا دوسرا تیسرا اور پھر لاکھوں اور کروڑوں کی تعداد میں ستارے جگمگا جاتے ہیں بھراہوا ہوتا ہے آسمان ستاروں سے اور روشنی بھی پوری ہوتی ہے لیکن رات رات ہی رہتی ہے دن نہیں ہوتا کروڑوں ستارے جمع ہیں مگر رات ہی ہے روشنی کتنی بھی ہوجائے لیکن جونہی آفتاب نکلنے کا وقت آتا ہے تو ایک ایک ستارہ غائب ہونا شروع ہوتا ہے یہاں تک کہ جب آفتاب نکل آتا ہے تو اب کوئی بھی ستارہ نظر نہیں پڑتا۔ چاند بھی نظر نہیں پڑتا تو یہ مطلب نہیں کہ ستارے غائب ہوگئے دنیا سے بلکہ اس کا نور مدغم ہوگیا۔ آفتاب کے نور میں کہ اب اس نور کے بعد سب کے نور دھیمے پڑگئے اور وہ سب جذب ہوگئے آفتاب کے نور میں اب آفتاب ہی کا نور کافی ہے کسی اور ستارے کی ضرورت نہیں اور نکلے گا تواس کا چمکنا ہی نظر نہیں آئے گا آفتاب کے نور میں مغلوب ہوجائے گا تو یوں نہیں کہیں گے کہ آفتاب نے نکلنے کے بعد دنیامیں ظلمت پیدا کردی نور کو ختم کردیا بلکہ یوں کہا جائے گا کہ نور کو اتنا مکمل کردیا کہ اب چھوٹے موٹے ستاروں کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ آفتاب کافی ہے غروب تک پورا دن اسی کی روشنی میں چلے گا تو اور انبیاء بمنزلہ ستاروں کے ہیں اور نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم بمنزلہ آفتاب کے ہیں جب آفتاب طلوع ہوگیا اور ستارے غائب ہوگئے تویہ مطلب نہیں ہے کہ نبوت ختم ہوگئی بلکہ اتنی مکمل ہوگئی کہ اب قیامت تک کسی نبوت کی ضرورت نہیں گویا نبوت کی فہرست تھی جس پر مہر لگ گئی۔ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے آکر لگادی اب کوئی نبی زائد ہوگا نہ کم ہوگا یہ ممکن ہے کہ بیچ میں سے کسی نبی کو بعد میں لے آیا جائے جیسے عیسیٰ علیہ السلام بعد میں نازل ہوں گے مگر وہ اسی فہرست میں داخل ہوں گے اوران کی متبع کی حیثیت ہوگی یہ نہیں ہے کہ کوئی جدید نبی داخل ہو۔ پچھلے نبی کو اگر اللہ تعالیٰ لانا چاہیں تو لائیں گے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرہست مکمل کردی کہ اب نہ کوئی نبی زائد ہوسکتا ہے نہ کم ہوسکتا ہے۔(۳۲)

______________________________


ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ10، جلد: 90 ‏،رمضان المبارک1427 ہجری مطابق اکتوبر2006ء


پیشکش : سلسلہ عقائد اسلام، شعبۂ تحفظ اسلام میڈیا سروس، مرکز تحفظ اسلام ہند