مسیح و مہدی سے متعلق پیشین گوئیاں!
از قلم : حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب مدظلہ
رسول اللہ کے ذریعہ دین و شریعت کی جو تعلیمات ہم تک پہنچی ہیں ، وہ اسلام کا سب سے آخری اور سب سے مکمل ایڈیشن ہے ، جس کا آغاز حضرت آدم علیہ السلام سے ہوا اور جس کی انتہاء حضور ختمی مرتبت جناب محمد رسول اللہ اپر ہوئی ، اسی کو قرآن مجید نے ’ اکمال دین ‘ یعنی دین کو مکمل کرنے اور ’ اتمام نعمت ‘ یعنی نعمت وحی کو پوری کردینے سے تعبیر کیا ہے ، (المائدۃ : ۳) آپ سے پہلے ہر عہد میں نبی آیا کرتے تھے اور وہ اُمت کی نہ صرف دینی رہنمائی کرتے تھے ؛ بلکہ بعض اوقات ان کی سیاسی قیادت بھی فرمایا کرتے تھے ، جیسے حضرت داؤد علیہ السلام ، حضرت سلیمان علیہ السلام ، حضرت یوسف علیہ السلام اور خود رسول اللہ ا ، نبوت کا مقام مخلوق میں سب سے اعلیٰ ترین مقام ہے ، یہاں تک کہ اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ انبیاء کو فرشتوں پر بھی فضیلت حاصل ہے ؛ لیکن نبوت کا تعلق کسب و محنت ، جدوجہد اور مجاہدات سے نہیں تھا ؛ بلکہ یہ اللہ کی طرف سے انتخاب ہوا کرتا تھا ، جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اجتباء اور اصطفاء کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے ، (الانعام : ۸۷ ، آل عمران : ۳۳) جس کے معنی چُن لینے اور منتخب کرلینے کے ہیں ۔
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اب اُمت کو ہادی و نمونہ اور مصلح کی ضرورت نہیں رہی ، یہ ضرورت باقی ہے اور قیامت تک باقی رہے گی اور آپ انے اس بات کی بھی صراحت فرمادی کہ اس اُمت میں مصلحین کا تسلسل رہے گا : ’’ لا تزال طائفۃ من أمتی یقاتلون علی الحق ظاہرین إلی یوم القیامۃ‘‘ ( مسلم ، عن جابر بن عبد اللہ ، کتاب الایمان ، حدیث نمبر : ۲۴۷) لیکن اُمت کے یہ مصلحین مجاہدات کے ذریعہ اپنے فریضے کو انجام دیں گے اور جدوجہد کے ذریعہ اس مقام پر پہنچیں گے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ اُمت کو نفع پہنچائیں ، یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ایسا منتخب عہدہ نہیں ہوگا کہ جس کا دعویٰ کیا جاسکے ، وہ شخص یہ کہہ سکے کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور کیا گیا ہوں اور تم لوگوں کو ہماری اطاعت و اتباع کرنی ہے ، ان مصلحین میں سب سے اعلیٰ درجہ خلفائے راشدین کا تھا اور خلافت راشدہ کا دور حدیث کی صراحت کے مطابق آپ اکے بعد تیس سال کا تھا ، جو حضرت حسن بن علی ؓکی وفات پر مکمل ہوتا ہے ، (سنن الترمذی ، باب ماجاء فی الخلافۃ ، حدیث نمبر : ۲۲۲، العرف الشذی : ۲؍۴۲۰) ان کے بعد امراء و سلاطین آئے ، جن میں اچھے بھی تھے اور بُرے بھی ، جن میں خادمین دین و شریعت بھی تھے اور ہادمین دین و شریعت بھی ، عادل بھی تھے اور ظالم بھی ؛ چنانچہ خلافت راشدہ کے بعد دینی اور سیاسی اقتدار آہستہ آہستہ تقسیم ہوگیا ، بادشاہوں نے حکومت سنبھالی اور اُمت کے مصلحین ، علماء ربانیین اور داعیان دین نے تعلیم و تربیت ، ترزکیہ و احسان ، دعوت و تبلیغ ، احکام شریعت کا اجتہاد و استنباط ، اسلامی علوم کی نشر واشاعت ، اسلام کے خلاف اُٹھنے والے ارتداد و انحراف کے فتنوں کا مقابلہ ، یہ سارے اہم فرائض انجام دیئے اور ان ہی کے ذریعہ دین کی امانت ہم تک پہنچی ہے ، یہ دراصل وہ کام ہے جس کو رسول اللہ ا نے تجدید دین قرار دیا ہے ، یعنی دین کی بنیادوں کو بار بار تازہ کرنا ، مخالفانہ تحریکوں سے اس کی حفاظت کرنا اور دین و شریعت کو ہر طرح کی آمیزش اور ملاوٹ سے بچائے رکھنا ، رسول اللہ انے فرمایا کہ ہر صدی میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے ، (سنن ابی داؤد ، کتاب الملاحم ، حدیث نمبر : ۴۲۹۱) کیوںکہ جب رسول اللہ اپر نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا اور آپ اکے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا ، تو اب اُمت میں ایسے مجددین و مصلحین کا تسلسل ضروری ہے ۔
کار ِتجدید و اصلاح کے لئے مستقبل میں صرف دو ایسی شخصیتوں کی آمد ہونے والی ہے ، جن کو خصوصی اہمیت حاصل ہے اور وہ انتہائی نازک حالات میں اسلام کی سربلندی ، اعداء اسلام کی سرکوبی اور غیر معمولی حالات میں اُمت کی رہنمائی اور قیادت کے لئے دنیا میں تشریف لائیں گے ، جن کا اصل ہدف یہودیوں اور نصرانیوں کی طرف سے مسلمانوں پر ہونے والی یلغار کا مقابلہ کرنا ہوگا ؛ چنانچہ رسول اللہ انے ارشاد فرمایا کہ وہ اُمت ہلاک نہیں ہوگی ، جس کی ابتدا مجھ سے ہوئی ہے ، جس کی انتہاء میں حضرت عیسیٰ بن مریم نازل ہوں گے اور درمیان میں امام مہدی آئیں گے : ’’لن تھلک أمۃ أنا فی أولھا وعیسیٰ بن مریم فی آخرھا والمپدی فی وسطھا‘‘ ۔ (کنز العمال ، خروج المہدی ، حدیث نمبر : ۳۸۶۷۲)
رسول اللہ اپر سلسلۂ نبوت کے مکمل ہوجانے کا ایک بڑا فائدہ اس اُمت کو جمعیت اور اور یکسوئی کی شکل میں حاصل ہوا ہے ، یعنی اب کسی نبی کا انتظار باقی نہیں رہا ، اگر نبوت کا سلسلہ جاری رہتا تو ہمیشہ لوگوں کو اگلے نبی کا انتظار ہوتا ، یہ یقینا انتہائی مصیبت اور آزمائش کی بات ہوتی ، پھر جب کوئی نیا نبی آتا تو کچھ ایمان لاتے اور کچھ لوگ انکار کرتے ، جیساکہ گذشتہ انبیاء کے ساتھ ہوتا رہا ، اس کی وجہ سے ہمیشہ اُمت اختلاف و انتشار ، بے اطمینانی اور امتحان و آزمائش سے گذرتی رہتی ، رسول اللہ اپر سلسلۂ نبوت کی تکمیل نے اس راستہ کو ہمیشہ کے لئے بند کردیا ؛ اسی لئے مسلمانوں میں فکر و نظر کے ہزار اختلاف کے باوجود رسول اللہ اکی ذات گرامی نقطۂ اتفاق بنی رہی ، یہ وحدت اُمت کی ایسی اساس ہے جو دوسری قوموں کو حاصل نہیں ۔
جن دو غیر معمولی شخصیتوں کی آمد اور ظہور کا آپ انے ذکر فرمایا ہے ، آپ نے ان کی علامتوں کو بھی بہت زیادہ واضح فرمادیا ہے ؛ کیوںکہ آپ کو اندازہ رہا ہوگا کہ جو بدبخت آپ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرے گا ، مسلمان کسی تامل وتردد کے بغیر اس کو رد کردیں گے ؛ لیکن یہ اندیشہ تھا کہ کوئی بہروپیا اپنے آپ کو مسیح یا مہدی قرار دے ، اور آپ کی پیشین گوئیوں کو اپنے لئے بہانہ بنائے ؛ اس لئے آپ نے ان دونوں شخصیتوں کی اتنی وضاحت کے ساتھ نشاندھی فرمادی ، جتنی عام طورپر ایک پیغمبر اپنے بعد آنے والے پیغمبر کی بھی نہیں کیا کرتا تھا ، قرآن مجید کا خود بیان ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے بعد رسول اللہ اکی آمد کی بشارت دی تھی اور کہا تھا کہ آنے والے نبی کا نام ’ احمد ‘ ہوگا ؛ لیکن آپ کے والدین کے کیا نام ہوں گے ، آپ کا خاندان کیا ہوگا ، کہاں آپ کی ولادت کہاں ہوگی ، کہاں آپ کی وفات ہوگی ، کتنے سال دنیا میں آپ کا قیام رہے گا ؟ اس کی صراحت اس پیشین گوئی میں نہیں ہے ؛ لیکن مسیح و مہدی کے بارے میں رسول اللہ اکے ارشادات میں ہمیں ان تمام باتوں کی صراحت ملتی ہے ۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خاندان کے ذکر کی ضرورت تو اس لئے نہیں تھی کہ قرآن مجید میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ، آپ کی والدہ حضرت مریم ، آپ کے معجزات ، آپ کی دعوتی جدوجہد ، یہودیوں کے ساتھ آپ کے سلوک اور پھر آپ کے آسمان پر اُٹھائے جانے کا ذکر وضاحت و صراحت کے ساتھ موجود ہے اور رسول اللہ اکی حدیثیں اس کو مزید واضح کرتی ہیں ، اب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی کا یہ حصہ باقی رہ گیا تھا کہ جب وہ جو قیامت کے قریب آسمان سے اُتریں گے — جس کے قائل مسلمان بھی ہیں اور عیسائی بھی — تو ان کی اُترنے کی کیا کیفیت ہوگی ؟ چنانچہ احادیث میں تفصیل موجود ہے کہ آپ کا نزول دمشق میں ہوگا ، آپ سفید مینارہ پر اُتریں گے ، آپ کو ایک بادل نے اُٹھا رکھا ہوگا ، آپ کے جسم پر دو چادریں ہوں گی ، آپ دجال جو ایک یہودی فریب کار ہوگا ، کو قتل فرمائیں گے ، تشریف آوری کے اکیس سال بعد حضرت شعیب علیہ السلام کے قبیلہ میں آپ کا نکاح ہوگا ، آپ ہی کے عہد میں یاجوج ماجوج کا اسلامی سلطنت پر حملہ ہوگا ، اور وہ پورے مشرق وسطی کو تباہ وبرباد کرکے رکھ دیں گے ، اپنی تشریف آوری کے بعد چالیس سال تک دنیا میں قیام فرمائیں گے ، آپ کی وفات مدینہ منورہ میں ہوگی اور رسول ا کے روضۂ اطہر میں آپ کی تدفین ہوگی ، یہ بات بڑی اہم ہے کہ قرآن مجید میں کتنے ہی انبیاء کا ذکر آیا ہے ؛ لیکن ان کے نام کے ساتھ ان کی ولدیت کا ذکر نہیں کیا گیا ، مثلاً اسماعیل بن ابراہیم ، یعقوب بن اسحاق یا یوسف بن یعقوب نہیں فرمایا گیا ، یہی صورت حال احادیث کی ہے ؛ لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر قرآن و حدیث میں زیادہ تر عیسیٰ بن مریم کے نام سے ہے ، اور یہ ان حدیثوں میں بھی ہے جن میں قیامت کے قریب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد کی پیشین گوئی کی گئی ہے ، یہ اس بات کی صراحت ہے کہ جو مسیح پہلے دنیا سے اُٹھائے جاچکے ہیں ، وہی حضرت مریم کے بیٹے مسیح پھر آسمان سے اُتارے جائیں گے ، یہ مراد نہیں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جیسا یا آپ کی صفات کا حامل شخص موجودہ لوگوں میں ظاہر ہوگا ، یہ علامتیں اتنی واضح ہیں کہ کوئی حقیقت پسند شخص اس کی جھوٹی تاویل نہیں کرسکتا ، اس کی تاویل وہی شخص کرسکتا ہے ، جو دن کو رات کہنے سے بھی نہ شرماتا ہو۔
حضرت مسیح کا دوبارہ آسمان سے نازل ہونا ایک ایسا واقعہ ہے جس پر ڈھیر ساری حدیثیں موجود ہیں اور نقل حدیث کی جو سب سے اعلیٰ صورت ہوتی ہے جس کو ’ تواتر ‘ کہتے ہیں ، اس سے اس کا ثبوت ہے ، ہندوستان کے ایک بڑے محدث علامہ سید انور شاہ کشمیریؒ نے ’’ التصریح بما تواتر فی نزول المسیح‘‘ کے نام سے ان ساری روایتوں کو جمع فرمایا ہے ، قرآن و حدیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اُمت محمدیہ کی تائید و تقویت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ایک خصوصی مقام حاصل ہے ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام من جانب اللہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے ، اس بات نے بچپن ہی میں آپ کی دُور دُور تک شہرت پہنچائی ، پھر آپ کے ہاتھوں پر ایسے حیرت انگیز معجزے ظاہر ہوئے ، جس سے شہر شہر قریہ قریہ آپ کا چرچا ہونے لگا ، پھر جب آپ شہرت و تعارف کی بلند چوٹی پر پہنچ گئے تو آپ کی زبان مبارک سے رسول اللہ ا کی نبوت کی بشارت سنائی گئی ؛ تاکہ یہ پیغام دُور دُور تک پہنچے ؛ کیوںکہ جب کسی شخص سے حیرت انگیز باتیں ظاہر ہوتی ہیں تو اس کی ہر بات کان لگاکر سنی جاتی ہے ؛ اسی لئے جب رسول اللہ انبی بنائے گئے تو نہ صرف یہودیوں کے اور عیسائیوں میں بلکہ عربوں میں بھی یہ چرچا تھا کہ کوئی نبی ظاہر ہونے والا ہے ، یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے حکم سے اوپر اُٹھالئے گئے ، اب پھر جب آپ قیامت کے قریب اُتارے جائیں گے تو اس کا مقصد بھی اُمت محمدیہ کی تقویت اور اسلام کو غلبہ عطا کرنا ہوگا ، یہاں تک کہ آپ خود نماز کی امامت کرنے کے بجائے امام مہدی کی اقتداء میں نماز ادا کریں گے اور مسلمانوں کی خواہش کے باوجود امامت کے لئے تیار نہ ہوں گے ۔
دوسری شخصیت جن کی آپ انے خوشخبری دی ہے ، امام مہدی کی ہے ، امام مہدی نہ نبی ہوں گے، نہ ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے احکام کا نزول ہوگا ، نہ اللہ کی طرف سے ان سے کہا جائے گا کہ میں نے تم کو مہدی بنایا ہے ، یہ نبی کی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے بخشا ہوا کوئی ایسا عہدہ نہیں ہوگا ، جس پر ایمان لانے کی دعوت دی جائے ، یا ان کی مہدویت کو کلمہ کا جزء بنالیا جائے ؛ بلکہ ان کی حیثیت ایک خلیفۂ راشد کی ہوگی ، ان کا سب سے اہم کارنامہ اللہ کے راستہ میں جہاد اور عدل و انصاف کا قیام ہوگا ، وہ اس اُمت کے آخری مجدد اور خلیفۂ راشد ہوں گے ، نہ وہ مہدویت کا دعویٰ کریں گے اور نہ لوگوں کو اپنے آپ پر ایمان لانے کے لئے کہیں گے ؛ بلکہ وہ صلحاء اُمت میں سے ایک عظیم شخصیت ہوں گے ، لوگ ان کے ہاتھوں پر اطاعت اور جہاد کی بیعت کریں گے ، جیساکہ خلفائے راشدین کے ہاتھوں پر صحابہ نے کی تھی ، یہ لوگ انھیں ان علامتوں سے پہچانیں گے ، جو رسول اللہ نے بتائی ہیں اور اصرار کرکے ان کے ہاتھوں پر بیعت کریں گے ۔
چوںکہ امام مہدی اُمت ہی کے ایک فرد ہوں گے اور عام انسانوں ہی کی طرح ان کی پیدائش ہوگی ؛ اس لئے اس بات کا اندیشہ تھا کہ کچھ طالع آزما ، جھوٹے ، دھوکہ باز اور فریبی قسم کے لوگ اپنے آپ کو امام مہدی قرار دینے لگیں اور اس کو جاہ و مال کی سوداگری کا ذریعہ بنائیں ، غالباً اسی مصلحت کی خاطر آپ انے زیادہ تفصیل سے امام مہدی کے بارے میں بتایا کہ ان کا نام محمد ہوگا ، ان کے والد کا نام عبد اللہ ہوگا ، وہ حضرت فاطمہ ؓکے بڑے صاحبزادے حضرت حسن بن علی ؓکی نسل سے ہوں گے ، مدینہ منورہ میں ولادت ہوگی ، مکہ مکرمہ میں رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان لوگ آپ کے ہاتھوں پر بیعت کریں گے ، آپ کے ظہور سے پہلے دریائے فرات ( عراق ) میں ایک سونے کا پہاڑ ظاہر ہوگا ، جس کے لئے ایک خونریز جنگ ہوگی ، ان کے خلاف شام کی طرف سے سفیان نام کا ایک ظالم حکمراں مکہ پر حملہ آور ہوگا اور بری طرح شکست کھائے گا ، امام مہدی عیسائیوں کو شکست دیں گے ، ان کا قیام دمشق کی جامع مسجد میں ہوگا ، جب ان کی شناخت ہوجائے گی تو اس کے چھ سال بعد دجال کا خروج ہوگا ، آپ کی مدد کے لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے اُتارے جائیں گے اور یہودیوں کو فیصلہ کن شکست دیں گے ، امام مہدی اپنے ہاتھوں پر بیعت کے بعد سات سے نو سال تک زندہ رہیں گے ۔
یہ تو امام مہدی کے بارے میں وہ باتیں ہیں ، جو دو اور دوچار کی طرح واضح ہیں ، یہاں تک کہ حدیث میں بعض ایسی شخصیتوں کے نام بھی ظاہر کئے گئے ہیں ، جو آپ کی مدد میں پیش پیش ہوں گے ، ان کے علاوہ امام مہدی کے اوصاف بھی واضح طورپر احادیث میں ذکر کئے گئے ہیں ، ان صراحتوں کا مقصد یہی سمجھ میں آتا ہے کہ کوئی شخص اس اُمت کا استحصال نہ کرسکے اور جھوٹی حیلہ بازیوں کے ذریعہ مہدی ہونے کا دعویٰ کرکے اُمت میں انتشار کا سبب نہ بن سکے ، افسوس کہ ایسی وضاحت کے باوجود ان پیشین گوئیوں کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے مختلف گمراہ فکر لوگ مسیح اورمہدی ہونے کا دعویٰ کرتے رہے ہیں ،اور اُمت کو انحراف و انتشار میں مبتلا کرچکے ہیں ، انھوںنے احادیث کو ایسا معنی پہنانے کی کوشش کی ہے کہ الفاظ کی ایسی بازیگری کے ذریعہ تو سفید کو سیاہ اور انسان کو گدھا بھی ثابت کیا جاسکتا ہے ، اور چوںکہ حدیث میں دو شخصیتوں کا ذکر آیا ہے : حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور امام مہدی ، ان دونوں کو جمع کرنا مشکل تھا ، یا شاید ان مدعیوں کو خود ایک عہدہ لے کر دوسرے کو کوئی عہدہ دینا گوارہ نہیں تھا ؛ اس لئے انھوںنے کہنا شروع کردیا کہ میں ہی مہدی بھی ہوں اور مسیح بھی ، اس تحریف اور بے جا تاویل کی سب سے بڑی مثال مرزا غلام احمد قادیانی ہے ، جس نے عیسائی قوتوں کے شہ پر پیغمبر اسلام اکی ختم نبوت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ۔
اسی طرح کی ایک مثال ابھی کچھ عرصہ پہلے شکیل نام کے ایک شخص کی شکل میں ظاہر ہوئی ہے ، جس کے والد کا نام حنیف ہے ، جو بہار کے شہر دربھنگہ کا رہنے والا ہے ، جس نے دہلی سے اپنی انحرافی کوششوں کا آغاز کیا ، اپنے مسیح اور مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ، احادیث نبوی کی نہایت نامعقول و بے بنیاد تاویلیں کیں ، جو زیادہ تر قادیانی لٹریچر سے ماخوذ ہیں اور اسی طرح کی تاویلات ہیں، جو ایران میں ’ باب ‘ اور ’ بہاء ‘ کے ماننے والے مرتدین نے کی تھی ، اب اس نے مہاراشٹر کے شہر اورنگ آباد کو اپنا مرکز بنایا ہے اور ملک کے مختلف حصوں خاص کر جنوبی ہند کے علاقوں میں لوگوں کی دین سے ناواقفیت کا فائدہ اُٹھاکر اس فتنہ کو پھیلانے کی کوشش کررہا ہے ، یہ دعویٰ اس قدر نامعقول ، گمراہانہ اور نادرست ہے کہ اہل علم کے لئے اس پر قلم اُٹھانے کی بھی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ؛ لیکن اصل خوف مسلمانوں کی ناواقفیت و جہالت سے ہے اور اس بات سے ہے کہ اسلام دشمن طاقتوں کے غلبہ کی وجہ سے مسلمان اس وقت سخت نااُمیدی کی حالت میں ہیں ، ان کے حوصلے ٹوٹے ہوئے ہیں ، ان کی ہمتیں شکستہ ہیں اوروہ کسی مرد ِغیب کے انتظار میں ہیں ، جو اس بھنور سے اُمت کی کشتی کو نکال لے جائے ، اس لئے وہ ایسے جھوٹے دعوے کرنے والوں کے گرد آسانی سے جمع ہوجاتے ہیں اور مصیبت کی اس گھڑی میں سراب کو آب اور پیتل کو سونا سمجھنے لگتے ہیں ، اس طرح کے بعض اور واقعات بھی کہیں کہیں پیش آرہے ہیں اور بعض لوگ مسیح و مہدی کے انتظار میں اس درجہ بے قرار ہیں کہ وہ کسی بھی مصنوعی نجات دہندہ کا دامن تھامنے کے لئے تیار ہیں ، مرزا غلام احمد قادیانی نے بھی ایسے ہی حالات میں نبوت کا دعویٰ کیاتھا ، جب کہ انگریزوں کا غلبہ تھا اور مسلمان سخت مایوسی کی حالت میں تھے ۔
اس لئے علماء کو چاہئے کہ اچھی طرح اس مسئلہ کی حقیقت کو سمجھائیں اور مسلمانوں کو بھی چاہئے کہ وہ اس بات کو سمجھ لیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے اُتارا جانا ایک بنیادی عقیدہ ہے ، متواتر حدیثوں سے ثابت ہے اور اس کا انکار آخری درجہ کی گمراہی اور حدیث کا انکار ہے ، نیز مہدی کوئی ایسا منصب نہیں جس پر نبی کی طرح ایمان لایا جاتا ہو ، جو نبی کی طرح معصوم ہو اور جس پر اللہ کی طرف سے احکام اُتارے جاتے ہوں ، ایسا نہ ہوکہ وہ کسی ایسے شخص کی چرب زبانی کا شکار ہوجائیں جو دشمنانِ اسلام کے آلۂ کار ہوں اور جن کو اس اُمت میں انتشار پیدا کرنے کے لئے اُٹھایا گیا ہو ۔
وباﷲ التوفیق وھو المستعان ۔
پیشکش : سلسلہ عقائد اسلام، شعبۂ تحفظ اسلام میڈیا سروس، مرکز تحفظ اسلام ہند
ماشاء اللہ
ReplyDeleteسبحان اللہ
بارک اللہ فیھم و حفظھم اللہ ورعاہم
اللہ پاک حضرت والا اطال اللہ بقائھم کی علمی و عملی زبانی و قلمی خدمات کو شرف قبولیت سے نوازے