Showing posts with label Press Release. Show all posts
Showing posts with label Press Release. Show all posts

Tuesday, 3 December 2024

تاریخ ساز اجلاسِ عام!

 تاریخ ساز اجلاسِ عام! 



✍️ مولانا جواد رشادی

دارالعلوم سبیل الرشاد بنگلور


حکومت ھند کی طرف سے گاھے ماھے کچھ نہ کچھ تیریں نہتےّ مسلمانوں پر ازل سے چھوڑی جاتی رہی ہیں، چھوڑی جارہی ہیں اور تا قیامِ قیامت یہ سلسلہ چلتا رہے گا، علامہ اقبال نے بہت پہلے کہہ دیا تھا،

 "ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز

چراغِ مصطفوی سے شرارِ بولہبی

شریعت کے خلاف فیصلے دیئے جاتے ہیں اور علماء و دانشوروں کی ایماء پر مسلمان اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور اپنی اپنی صوابدید کے مطابق احتجاجی مظاہرے کرتے ہیں، اس وقت جو مسئلہ سُلگ رہا ہے وہ ھے" وقف ترمیمی بل" اس بل کو منسوخ کرنے کے لئے ھندی مسلمانوں کی متحدہ اور متفقہ جماعت "آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے حکم پر ھندوستان کے گوشے گوشے میں احتجاجی جلوس نکالے گئے اظہارِ ناراضگی کے مظاہرے ہوئے جن میں سے ایک قابلِ ذکر ابھی 24/نومبر کو ریاستِ کرناٹک کی راجدھانی شہرِ گلستاں بنگلور میں ایک تاریخ ساز اور توقع سے زیادہ کامیاب عظیم الشان احتجاجی جلسۂ عام منعقد ہوا جس کی تیاری چند ھفتوں سے چل رہی تھی، صوبہ کرناٹک کے تمام اضلاع اور شہر بنگلور کے نوجوان جیالوں اور عمر رسیدہ بزرگوں نے بلا تفریقِ امیر غریب اور چھوٹے بڑے کی تمیز کئے بغیر قبل از ظہر ہی سے ہزاروں کی تعداد میں جلسہ گاہ میں پورے جوش و خروش کے ساتھ شریک ہو کر نہ صرف عیدگاہِ قدوس صاحب میدان اور قادریہ مسجد اور اس کے صحن کو کھچا کھچ بھر دیا بلکہ کولس پارک سے لے کر کنٹونمنٹ اسٹیشن برج تک نندی درگا روڈ پر عید گاہ کی پھاٹک سے لے کر فن ورلڈ پارک تک جلسہ گاہ کے اطراف و اکناف انسانی سروں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر اُمڈ آرہا تھا، ماہرین کا کہنا ہے کہ لاکھوں کی تعداد تھی، جو صرف شریعت کی حفاظت کرنا اور وقف ترمیمی بل کے خلاف اپنا احتجاج درج کرنا چاہتی تھی،

قابلِ تعریف بات یہ تھی کہ منتظمینِ جلسہ خصوصاً حضرت مولانا مفتی افتخار احمد صاحب قاسمی دامت برکاتہم، صدر جمعیۃ علماء کرناٹک اور ریاستِ کرناٹک کے ابھرتے ہوے متحرک اور فعال نوجوان عالِمِ دین عزیزِ محترم مولانا مفتی ڈاکٹر مقصود عمران رشادی زید مجدہم ،امام و خطیب جامع مسجد بنگلور سٹی، امیرِ شریعت کرناٹک حضرت مولانا صغیر احمد خان صاحب رشادی عمت فیوضہم، کی سرپرستی اور راست نگرانی و رہنمائی میں اتنے بڑے مجمعے کو بہت ہی خوش اسلوبی اور نہایت سنجیدگی کے ساتھ قابو میں کئے جارہے تھے اور اس جمِّ غفیر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تمام ہی مقررین حضرات موقع و محل کی نزاکت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنے بصیرت افروز مگر ولولہ انگیز بیانات سے لوگوں کے قلوب کو جھنجھوڑ کر گرمانے میں کامیاب ہوگئے تھے، اتنا بڑا مجمع مکمل خاموشی کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے تقریباً تمام ہی مقررین کی تقریروں میں جم کر فلک شگاف نعرے بازی بھی کر رہا تھا اور "اللہ اکبر" کی صدائیں فضاؤں میں گونج رہی تھی، وقتاً فوقتاً مقررین حضرات وعدے وعیدیں بھی لے رہے تھے جس کا پورے جوش و جذبے کے ساتھ لوگ اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھا کر اور کچھ تو کھڑے ہو کر سرِ تسلیم خم کرتے ہوئے جواب دے رہے تھے جس سے اندازہ لگ رہا تھا کہ قوم جاگ رہی ہے، اور شریعت کی حفاظت کے لئے اپنا مال و زر کیا چیز ہے جان بھی نچھاور کرنے کو ہر وقت تیار ھے، شاعر نے کیا خوب کہا :-

جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی 

حق تو یہ ہے کہ، حق ادا نہ ہوا 

اسی طرح استاذِ محترم حضرت میراں صاحب رحمہ اللہ ایک شعر گنگنایا کرتے تھے :-

میرا مجھ میں کچھ نہیں 

جو کچھ ھے وہ تیرا 

تیرا تجھ کو دے دینے سے 

کیا جاتا ھے میرا،

علامہ اقبال نے فرمایا تھا :-

نہیں ھے ناامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے 

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی، 

اتنے بڑے پیمانے پر لوگوں کو جمع کرکے چھ آٹھ گھنٹوں تک کسی بھی قسم کا کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آئے بغیر بھیڑ کو قابو میں رکھنے کی بے پناہ صلاحیتوں کی جہاں محکمہُ پولیس انگشت بدنداں ہوکر تعریف پر مجبور ہوئی تو وہیں مسلم مخالف اور اسلام سے تعصب رکھنے والی جماعت حیرت زدہ ہوکر اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھی ہے،

"ڈوب گئے ہیں لوگ سبھی حیرانی میں

جانتا ہوں میں، کون ھے کتنے پانی میں،

یاد رھے کہ ملک کے موجودہ حالات پر غور و خوض کرکے مسائل کا حل تلاشنے کے لئے" مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اراکینِ عاملہ کی دو روزہ خصوصی نشست مادرِ علمی دارالعلوم سبیل الرشاد بنگلور میں 23/24/نومبر 2024 کو پورے تزک و احتشام کے ساتھ شاندار پیمانے پر منعقد ہوئی تھی، استقبالیہ کمیٹی اور سبیل الرشاد کے اساتذہ و طلباء نے تشریف لانے والے مہمانوں کے اعزاز میں ان کا استقبال، قیام و طعام وغیرہ کا رات دن ایک کرکے پوری آمادگی اور بشاشت کے ساتھ خیال رکھا، جس کی مدح سرائی اور اس پر مسرت کا اظہار دور دراز سے آئے ہوئے چوٹی کے مقرر حضرات نے خود بھرے مجمع کے سامنے ڈنکے کی چوٹ پر فرمایا،

الغرض دو روزہ کانفرنس اور اجلاسِ عام کے کامیاب انعقاد پر اراکینِ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ، ریاستی و ضلعی سطح کی ہمہ جہتی کمیٹیاں اور دامے درمے سخنے تعاون کرنے والے سبھی احباب مبارکبادی کے مستحق ہیں، اور ہمیں یقین ہے کہ پرسنل لاء بورڈ امتِ مسلمہ کو بحرانوں سے نکال باہر کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے، مندرجہ ذیل اشعار ان سُرماؤوں کی نذر کرنا چاہوں گا، :-

ابھی کچھ لوگ باقی ہیں

جو اچھا سوچ سکتے ہیں

جو طوفاں موڑ سکتے ہیں

فلک کو کھوج سکتے ہیں

تصنّع سے مبرّا ہیں

متانت سے مرصّع ہیں

وضع داری کا پیکر ہیں

رواداری کا مظہر ہیں

نئے رستے بناتے ہیں

نئے رشتے سجاتے ہیں

ترنم گھول سکتے ہیں

دلوں کو جوڑ سکتے ہیں

تمہارے ساتھ چلنے کو

زمانہ چھوڑ سکتے ہیں

زمیں زادے ہیں دیوانے

یہ علم و فن کے پروانے

کسی کو مان دیتے ہیں

کسی کی مان لیتے ہیں

کسی کو کم نہیں کہتے

سفر میں دَم نہیں لیتے

زمیں آباد کرتے ہیں

ابھی کچھ لوگ باقی ہیں

جو اچھا سوچ سکتے......

اللہ تبارک و تعالیٰ ان جلسوں جلوسوں کی برکت سے وطنِ عزیز میں خوشگوار حالات پیدا فرمائے، پرسکون ماحول بنائے رکھے، دشمنانِ اسلام کی ناپاک سازشوں کو ناکام بنادے،علی الخصوص متعصبانہ ذہنیت رکھنے والوں کی طرف سے ہورہے عبادت گاہوں پر جھوٹے دعووں کا سلسلہ ختم فرمائے، اور وقف ترمیمی بل کو منسوخ کرنے پر حکومتِ ھند مجبور ہوجائے، آمین!

انتیسواں اجلا س عام آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا گیارہ نکاتی اعلامیہ!

 انتیسواں اجلا س عام آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا گیارہ نکاتی اعلامیہ!



✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


 آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ملت اسلامیہ ہندیہ کے سبھی مسالک و مکاتب فکر اور تمام طبقات کا باوقار متحدہ و مشترکہ پلیٹ فارم ہے، جو ملک میں تحفظ شریعت اسلامی و شعائر اسلامی کے لئے پچھلے پچاس سالوں سے مسلسل، مستعدی اور کامیابی کے ساتھ جدوجہد میں مصروف ہے۔ بورڈ شرعی معاملات میں مسلمانوں کے مفادات کی نمائندگی بھی کرتا ہے، ملک میں قوانین شریعت اسلامی و شعائر اسلامی کی حفاظت کی ذمہ داری بھی نبھاتا ہے اور مسلمانوں میں شریعت اسلامی کی پابندی کے سلسلہ میں تحریک بھی چلاتا ہے۔ بورڈ شرعی نقطہئ نظر سے حالات اور مسائل کا گہرائی سے جائزہ لینے اور لائحہ عمل تیار کرنے کے لئے ملک کے مختلف مقامات پر اپنا سالانہ اجلاس عام منعقد کرتا ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا انتیسواں اجلاس 23، 24 نومبر 2024ء ریاست کرناٹک کا معروف دینی درسگاہ دارالعلوم سبیل الرشاد بنگلور میں منعقد ہوا۔ اس موقع پر بورڈ نے ایک عظیم الشان اجلاس عام بعنوان تحفظ شریعت و تحفظ اوقاف بتاریخ 24 نومبر 2024ء بروز اتوار عید گاہ قدوس صاحب، ملرس روڈ، بنگلور میں بعد نماز عصر تا عشاء منعقد کیا۔ اس باوقار اجلاس عام کی سرپرستی امیر شریعت کرناٹک حضرت مولانا صغیر احمد خان صاحب رشادی مدظلہ نے فرمائی، جبکہ فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب مدظلہ صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اجلاس کی صدارت فرمائی، بنگلور اور ریاست کرناٹک کے چپے چپے سے لاکھوں کی تعداد میں مسلمانوں نے اس اجلاس میں حصہ لے کر تحفظ شریعت اور تحفظ اوقاف سے متعلق اکابرین امت کے پیغام کو بغور سنا۔ اس اہم اجلاس میں بورڈ کے عہدیداراں، ملت کی ممتاز شخصیات اور مختلف مسالک و مکاتب فکر کے ذمہ داران اور سربراھان کا خطاب ہوا، مختلف اکابرین امت نے تحفظ شریعت و اوقاف کے عنوان پر تفصیل سے روشنی ڈالی، اجلاس میں مسلم پرسنل لا میں مداخلت پر ایک طرف جہاں حکومت کو للکارا گیا وہیں دوسری طرف ملت کو حوصلہ بخش پیغام بھی دیا گا، اجلاس کے اختتام سے قبل آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری حضرت مولانا محمد فضل الرحیم مجددی صاحب مدظلہ نے گیارہ نکاتی اعلامیہ پیش کیا۔ جس کی تائید شرکاء اجلاس نے ہاتھ اٹھا کر کی۔ وہ گیارہ نکاتی اعلامیہ مندرجہ ذیل ہے۔


آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ انتیسواں اجلاس عام 23 ،24 نومبر 2024ء بنگلور تمام مسلمان بھائیوں اور بہنوں سے اپیل کرتا ہے کہ:

 (1) ملک کے موجودہ حالات میں سب سے زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ مسلمان اپنے اندر دین پر ثابت قدمی کا جذبہ پیدا کریں اور طے کر لیں کہ ان کو جیسی بھی آزمائش سے گزرنا پڑے، معیشت اور کاروبار کا خطرہ ہو، جان کے لالے پڑ جائیں، نوجوانوں کو بے قصور جیل میں بھیج دیا جائے؛ لیکن ہر قیمت پر اپنے اور اپنی نسلوں کے ایمان کا تحفظ کریں گے، اس وقت فرقہ پرست طاقتیں کئی جہتوں سے مسلمانوں کو ان کے دین سے منحرف کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں، آئینی طور پر ملک کے سیکولر ہونے کے باوجود نصاب تعلیم میں مشرکانہ تصورات کو داخل کیا جا رہا ہے، کلچرل پروگراموں کے نام پر دیویوں، دیوتاؤں کا تقدس ذہن میں بٹھایا جا رہا ہے، ملک کی شاندار اور قابل فخر تاریخ،جس کا تعلق مسلم دور سے ہے، کو نصاب سے باہر کر دیا گیا ہے، شہروں، سڑکوں اور اداروں کے ان ناموں کو بدلا جا رہا ہے، جن سے مسلمانوں کی نسبت کا اظہار ہوتا ہے، ایک طرف مسلمان لڑکوں کے غیر مسلم لڑکیوں سے نکاح کو تو لوجہاد قرار دیا جا رہا ہے اور دوسری طرف مسلمان لڑکیوں سے غیر مسلم لڑکوں کے تعلق کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے اور علی الاعلان اس کی ترغیب دی جا رہی ہے، مسلمانوں کو گھس پیٹھیا کہہ کر برادران وطن کی نظر میں ان کی عزت ووقار کو مجروح کیا جا رہا ہے، ان سب کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان اپنے دین، اپنی شریعت، اپنے مذہب، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ کے بارے میں احساس کمتری میں مبتلا ہو جائیں اور جب کوئی قوم ا حساس کمتری میں مبتلا ہو جائے تو اس کو اپنے فکر وعقیدہ سے منحرف کر دینا اور اکثریتی سوچ میں جذب کر لینا آسان ہو جاتا ہے؛ اس لئے یہ بات بہت ضروری ہے کہ مسلمان اپنے اندر جذبہئ استقامت پیدا کریں، انبیاء کرام، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کے عزیمت کو یاد رکھیں اور نئی نسل تک بھی یہ پیغام پہنچائیں، اس کے بغیر ہم اس ملک میں اپنے آپ کو مذہبی اور تہذیبی انضمام کی سازش سے بچا نہیں سکیں گے۔


 (2) ہمارے لئے یہ بات ایک شرعی فریضہ کے درجہ میں آگئی ہے کہ ہم ہر مسلم آبادی میں بنیادی دینی تعلیم کے مکتب قائم کریں، جو لڑکوں کے لئے بھی ہوں اور لڑکیوں کے لئے بھی، جو چھوٹے بچوں کے لئے بھی ہوں اور ان میں تعلیم بالغاں کا بھی نظم ہو، ہر مسلمان بچہ چاہے آگے جو بھی تعلیم حاصل کرے، اس مرحلہ سے گزر کر آگے بڑھے؛ تاکہ وہ IAS, IPS,بنے، ڈاکٹر، انجینئریا عصری درسگاہوں کا کامیاب استاذ بنے، کسی فن میں مہارت حاصل کرے؛ لیکن وہ اس کے ساتھ ساتھ ایک سچا اور پکا مسلمان بھی ہو اور یہ بھی ضروری ہے کہ مکاتب کے تعلیمی نظام میں قرآن مجید، ضروری مسائل، اذکارو اوراد کے ساتھ ساتھ ان کو اچھی طرح اسلامی عقائد یعنی توحید، رسالت، ختم نبوت، عظمت صحابہ، محبت اہل بیت، قرآن مجید کی حقانیت، حدیث نبوی کی اہمیت، شرک، الحاد، دہریت وغیرہ کا رد اور روز مرہ کے شرعی احکام کی حکمتوں اور مصلحتوں سے روشناس کرایا جائے، بچوں کا ذہن ایک سادہ تختی اور خالی کاغذ کی طرح ہوتا ہے اور اِس وقت اس پر جو لکھ دیا جائے، وہ زندگی کی آخری سانس تک کے لئے نقش ہو جاتا ہے اور یہ صرف دینی بقاء کے لئے ہی ہماری ضرورت نہیں ہے؛ بلکہ ہم پر ہماری نسلوں کا حق ہے؛ ورنہ ہم عند اللہ خدانخواستہ مجرم سمجھے جائیں گے اور جواب دہ ہوں گے۔


 (3) کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہمارے اس ملک میں آئے دن حضور اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کی جارہی ہے، عزت وحرمت رسول پر کیچڑ اچھالا جارہا ہے، اور پے در پے اس طرح کی حرکتیں ہورہی ہیں، پھر یہ بات بھی تکلیف دینے والی ہے کہ شانِ رسالت میں گستاخی کرنے والے مجرم کھلے عام پھر رہے ہیں، ان پر قانونی کارروائی بھی نہیں ہورہی ہے، حضور اکرم ﷺ انسانیت کے حقیقی مسیحا ہیں اور سارے جہان والوں کے لیے باعث رحمت ہیں، ایسی پیاری، مقدس اور محبوب شخصیت کی شان میں گستاخی کرنا نہایت مجرمانہ عمل ہے، آج کا یہ اجلاس شانِ رسالت میں گستاخی کرنے والوں کی سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہے، اور حکومت ہند سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ حضور اکرم ﷺ سمیت ہر محترم ومقدس شخصیت کی اہانت کو روکنے کے لیے مضبوط اور مؤثر قانون بنائے اور اس کا نفاذ کرے۔


 (4)اس وقت مسلمان لڑکوں اور لڑکیوں کے غیر مسلم لڑکوں اور لڑکیوں سے شادی کے جو واقعات پیش آرہے ہیں، اگرچہ میڈیا ان کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے؛ تاکہ مسلمانوں کے حوصلے پست ہوں اور فرقہ پرستوں کے حوصلے بلند؛ لیکن بہر حال یہ واقعات نہایت افسوسناک ہیں،اس سلسلہ میں جہاں ایک طرف نکاح کو آسان بنانا اور اسراف وفضول خرچی سے بچنا اور بچانا ضروری ہے، وہیں ذہن سازی بھی ضروری ہے، نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کا ذہن بنایا جائے کہ دین کی اہمیت مال ودولت سے زیادہ ہے اور غیر مسلم سماج میں رشتہ کرنا آخرت کے لئے تو ہے ہی نقصان وخسران کا باعث؛ لیکن ایسا رشتہ کرنے والے لڑکے اور لڑکیاں دنیا میں بھی تنہا ہو جاتے ہیں، کوئی سماج انہیں قبول نہیں کرتا ہے، ان کی آئندہ نسلوں کو بھی یہی مصیبت جھیلنی پڑتی ہے اور اکثر اس کا انجام دنیا میں بھی بہت عبرتناک ہوتا ہے؛ اس لئے ہر قیمت پر اس سے بچنا ضروری ہے، مسلم سماج کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ دین کی اہمیت مال سے بھی زیادہ ہے اور تعلیم سے بھی زیادہ، اگر کسی لڑکی نے اعلیٰ تعلیم حاصل کر لی اور اس معیار کا رشتہ نہیں مل رہا ہے تو چاہے اس سے کم معیار کا رشتہ ہو؛ لیکن ہو مسلمان، تو اس رشتہ کو قبول کرنا چاہئے؛ کیوں کہ یہ بات ظاہر ہے کہ بدقسمتی سے مسلم سماج میں اعلیٰ تعلیم کا پرسینٹیج کم ہے، ان حالات میں اگر اس پر اصرار کیا جائے تو اس سے مسلمان لڑکیوں کے دوسرے سماج کی طرف جانے کا راستہ کھلے گا۔


 (5) عدالتوں کے ذریعہ قانون شریعت کی نادرست تشریح کے واقعات اسی لئے پیش آتے ہیں کہ مسلمان اپنے خاندانی جھگڑے لے کر عدالتوں میں پہنچتے ہیں، جہاں فیصلہ کرنے والے ناقص معلومات کی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہیں، نہ قانون شریعت پر ان کا یقین ہوتا ہے اور نہ وہ ان کی حکمتوں اور گہرائیوں سے واقف ہوتے ہیں، اس کا حل یہ ہے کہ مسلمان اپنے خاندانی نزاعات کو احکام شریعت سے واقف علماء، صاحب بصیرت ائمہ وخطباء اور اس مقصد کے لئے قائم کردہ اداروں میں لے جائیں، چاہے وہ دارالقضاء کے نام سے ہوں یا محکمۂ شرعیہ کے نام سے، اس طرح ہم بہتر طور پر اپنی شریعت کی حفاظت کر سکیں گے، عدالتوں اور حکومتوں کی مداخلت سے بچا سکیں گے، نیز کم خرچ اور کم مدت میں انصاف حاصل کر سکیں گے، جہاں انصاف کا ایسا نظام موجود نہ ہو، وہاں علماء، مشائخ اور مسلم سماج کی ذمہ دار شخصیتوں کا فریضہ ہے کہ وہ اس کو نافذ کریں، اگر وہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ سے اس کی درخواست کریں تو بورڈ ان شاء اللہ پوری ذمہ داری کے ساتھ اس ملی اور اجتماعی فریضہ کی ادائیگی میں ان کی مدد کرے گا۔


(6) اسلام کا تصور یہ ہے کہ مردو عورت انسانیت کے دو حصے ہیں، النساء شقائق الرجال (سنن ابی داؤد:1711) صلاحیتوں کے اعتبار سے بعض ذمہ داریوں میں فرق کیا گیا ہے؛ مگر بنیادی طور پر مردوں اور عورتوں کے حقوق اور ایک دوسرے کے تئیں ذمہ داریاں برابر ہیں: ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف (بقرہ:228) اللہ کا شکر ہے کہ قرآن وحدیث کی ان تعلیمات کی وجہ سے اب بھی مسلم سماج میں عورتوں پر ظلم وزیادتی کے واقعات بہ مقابلہ دوسرے سماج کے کم ہوتے ہیں؛ لیکن جو کچھ ہوتے ہیں، وہ بھی قابل مذمت ہیں، خاص کر بلا ضرورت طلاق اور عورتوں کو حق میراث سے محروم رکھنا اور ان کے حصہ پر قابض ہو جانا ایسی باتیں ہیں جو معاشرہ کو بہت نقصان پہنچا رہی ہیں اور شریعت اسلامی کی بدنامی کا سبب بن رہی ہیں؛ اس لئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ اس پر توجہ دے اور نصف انسانیت کے ساتھ انصاف بلکہ اس سے آگے بڑھ کر حُسن سلوک کا رویہ اختیار کرے۔


 (7) ہم ایک ایسے سماج میں رہتے ہیں، جہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے قیام پذیر ہیں، ایسے ملے جلے سماج کے لئے خصوصی طور پر مسلمانوں کو رواداری اور وسیع الاخلاقی کا رویہ اختیار کرنا چاہئے، آگے بڑھ کر تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ہم نبی ئ رحمت کی امت ہیں اور تمام عالم کے لئے امت ِدعوت ہونے کی حیثیت سے رحم وکرم، عفوودرگزر اور خوش اخلاقی ومروت ہمارا فریضہ ہے، آگ کو آگ سے نہیں بجھایا جا سکتا ہے، آگ کو پانی سے ہی بجھایا جا سکتا ہے؛ اس لئے ہماری ذمہ داری ہے کہ نفرت کی جو آگ سلگائی جا رہی ہے، ہم اس کو محبت کی شبنم سے بجھائیں اور حالات جیسے کچھ بھی ہوں اپنے داعیانہ کردار کو فراموش نہ کریں، ملک کے موجودہ حالات میں یہی ہمارے مسائل کا حل ہے، ظلم کا بادل جتنا بھی گہرا ہو، انصاف اور محبت کا سورج اسے چاک کر دیتا ہے۔


 (8) اس وقت اوقاف کا مسئلہ نہایت اہمیت اختیار کر گیا ہے، جس سے ہماری مسجدوں، عیدگاہوں، مدرسوں، قبرستانوں، امام باڑوں، مسافر خانوں، یتیم خانوں اور دوسرے مصارف کے لئے کئے جانے والے اوقاف کا تحفظ خطرہ میں پڑ چکا ہے، بورڈ اس کے لئے سیاسی سطح پر جدوجہد کر رہا ہے، اگر حکومت نے ہماری آواز کی اَن سنی کی، تو عوامی تحریک بھی چلائی جائے گی اور ضرورت پڑنے پر قانونی جدوجہد بھی ہوگی، ان سبھی کاموں میں آپ سبھوں کا تعاون ضروری ہے، اس کے بغیر اس مشکل مسئلہ کو حل کرنا ممکن نہیں ہوگا؛ لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ پیشگی تحفظ کے طور پر ہم ا وقاف کے دستاویزات اور ضروری کاغذات کو درست کریں، جہاں ضرورت ہو سرکاری دفاتر سے کاغذات حاصل کریں، جو زمینیں کھلی ہوئی حالت میں ہوں، ان کی احاطہ بندی کرائیں اور ہم خود اوقاف پر ناجائز قبضہ سے بچیں، یہ اجتماعی ظلم ہے اور اس کا گناہ بہت بڑھا ہوا ہے، افسوس کہ خود مسلمانوں کا مسجدوں کی اراضی، قبرستانوں وغیرہ پر ناجائز قبضہ موجود ہے، یہ نہ صرف شرعاََ سخت گناہ ہے اور پوری ملت کے ساتھ حق تلفی ہے؛ بلکہ حکومت کو اس کے ناپاک عزائم کو اس سے تقویت پہنچتی ہے۔


 (9) آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا یہ عظیم الشان اجلاس جس میں ملک بھر کے مسلمانوں کی نمائندہ شخصیتیں اور مذہبی وسماجی تنظیمیں شامل ہیں، حکومت کو متوجہ کرتاہے کہ حکومت ایک قوم اور ایک مذہب کی نمائندہ نہیں ہے؛ بلکہ ملک میں بسنے والے تمام شہریوں کی نمائندہ ہے اور کسی خاص مذہب، تہذیب اور کسی خاص سیاسی پارٹی کے منشور کے مطابق اُسے ملک چلانے کا حق نہیں ہے؛ بلکہ سیکولرزم اور آئین کی پاسداری کے ساتھ اس کو ہر کام انجام دینا ہے، ایسا رویہ اختیار کرنا ہے، جس سے ظاہر ہو کہ ملک میں بسنے والی تمام قومیں یکساں حقوق کی حامل ہیں؛ مگر افسوس کہ پچھلے چند سالوں سے اقلیتوں میں یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ انہیں دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، یہ دستور وآئین کے ساتھ زیادتی ہے اور اس سے ملک کا امن وامان خطرہ میں پڑ سکتا ہے؛ اسی لئے اسے چاہئے کہ وقتی سیاسی مفادات کے لئے ملک کے اتحاد اور سلامتی کو خطرہ میں نہ ڈالے۔


 (10) یہ اجلاس اس حقیقت کا اظہار کرنا ضروری سمجھتا ہے کہ اس ملک میں دینی مدارس کی ایک روشن تاریخ رہی ہے اور اس نے پُر امن،ذمہ دار اور محب وطن شہریوں کو پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، ایک ایسے وقت میں جب کہ تعلیمی ادارے مکمل طور پر بزنس اور تجارت کا ذریعہ بن گئے ہیں، یہ ایک ایسا تعلیمی نظام ہے، جو نئی نسل کو اخلاق اور انسانیت کی تعلیم دیتا ہے، اس نے جنگ آزادی میں بھی ملک کی حفاظت میں مؤثر کردار ادا کیا تھا اور اب بھی ملک کی تعمیر وترقی، تعلیم کی اشاعت اور سماجی واصلاح کے پہلو سے نہایت اہم رول ادا کر رہا ہے؛ اس لئے حکومت کو ان کے کاموں میں رخنہ پیدا کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے۔


 (11) ملک بھر کے مقتدر علماء اور مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کے نمائندوں کا یہ اجتماع فلسطین کے مظلوم مسلمانوں پر اسرائیل کی بربریت اور امریکہ و یورپ کی طرف سے اس کی تائید و تقویت نہایت ہی غیرانسانی اور افسوس ناک حرکت ہے، جس میں کھلے عام بین الاقوامی قوانین کا مذاق اڑایا گیا ہے اور ظالموں کو ظلم کے لئے کھلی چھوٹ دی گئی ہے، یہ اجلاس اس کی سخت مذمت کرتا ہے، مجاہدین فلسطین کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہے، عالمی طاقتوں سے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرتا ہے، عالم اسلام بالخصوص عرب ممالک کی اسرائیل کے جنگی جرم پر خاموشی اختیار کرنے کو جرم میں شرکت تصور کرتا ہے، یہ اجلاس حکومت ہند سے بھی مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ انسانی حقوق کا پاسدار رہا ہے اور بین الاقوامی قوانین کے مخالف رویہ کی مذمت کرتا ہے، بورڈ کا احساس ہے کہ مسلمانوں کو چاہئے وہ خطوط اور ای میل کے ذریعہ امریکہ اور یورپی یونین کے ملکوں کو اپنے جذبات پہنچائیں اور جیسے ہندوستان کی آزادی کے لئے اس ملک کے معماروں نے ایک زمانہ میں برطانوی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا تھا اسی طرح اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں، کیونکہ اگر ظالم کو ظلم سے روکنے کی طاقت نہ ہوتو جس حدتک اس کو نقصان پہنچایا جاسکتا ہے پہنچایا جائے۔


#AIMPLBBangaloreConference #AIMPLB #Waqf #MTIH #TIMS

تجاویز انتیسواں اجلاس آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ منعقدہ 23, 24 نومبر 2024ء، سنیچر اتوار بمقام: دار العلوم سبیل الرشاد عربک کالج، بنگلور،

تجاویز انتیسواں اجلاس آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ
 منعقدہ 23, 24 نومبر 2024ء، سنیچر اتوار
 بمقام: دار العلوم سبیل الرشاد عربک کالج، بنگلور، کرناٹک


تجویز (1) بابت وقف ترمیمی بل:
وقف جائیدادیں ہمارا قیمتی سرمایہ ہیں، ہمارے بڑوں اور بزرگوں نے رضائے الہی کی خاطر اپنی قیمتی املاک راہِ خدا میں دیں، ملک کے طول وعرض میں یہ وقف جائیدادیں پھیلی ہوئی ہیں، مسجدیں،  مدرسے، یتیم خانے، عید گاہیں، قبرستان، درگاہیں، امام بارگاہیں اور مختلف ملی، سماجی اور رفاہی ادارے عام طریقے پر وقف کی گئی جگہ پر قائم ہیں، یہ وقف جائیدادیں کسی گورنمنٹ کی دی ہوئی نہیں ہیں، بلکہ یہ مسلمانوں کے جذبۂ سخاوت اور جذبۂ انفاق فی سبیل اللہ کی علامتیں ہیں، 1995ء میں بنایا گیا وقف ایکٹ(جس میں 2010ء اور پھر 2013ء میں ترمیم ہوئی) بڑی حد تک وقف جائیدادوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے، اب حکومت نے وقف ترمیمی بل لاکر وقف ایکٹ کو کمزور اور بے اثر بنانا چاہا ہے، اور وقف جائیدادوں پر قبضے کی راہ ہموار کی ہے، جو نہایت غلط اور نامناسب بات ہے، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے اس اجلاس کا یہ احساس ہے کہ وقف ترمیمی بل کے لاگو ہونے سے پرانی وقف جائیدادوں کی حفاظت مشکل ہوجائے گی اور نیا وقف قائم کرنے میں بھی رکاوٹ کھڑی ہوگی، اس لیے یہ اجلاس حکومت سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وقف ترمیمی بل کو فوراً واپس لیا جائے اور وقف جائیدادوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔

تجویز (2) بابت قضیہ فلسطین:
ٍ فلسطین کے مسلمانوں کے ساتھ ظالموں، جابروں اور ستمگروں نے جو رویہ اختیار کر رکھا ہے اور جس طرح غاصب اور ظالم اسرائیل فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام کررہا ہے، اور غزہ کو جس طرح نشانہ بنا کر تباہ وبرباد کیا گیا ہے وہ درد وکرب کی نہایت المناک داستا ن ہے، جس سے ہر مسلمان اور انصاف پسندانسان کا دل زخمی ہے، مشرق ومغرب، شمال وجنوب میں بسنے والے مسلمان فلسطین کے حالات کی وجہ سے غمزدہ اور رنجیدہ ہیں، جس طرح امریکہ اسرائیلی دہشت گردی کی حمایت کررہا ہے اور دنیا کے متعدد ممالک اس پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، وہ بھی ہمارے دل کا ناسور ہے، ظلم وستم دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے، معصوم بچوں بچیوں اور عورتوں تک کو قتل کیا جارہا ہے، عمارتیں گرائی جارہی ہیں، اور جبر وتشدد کا بازار گرم کیا جارہا ہے، آج کا یہ اجلاس مظلوم فلسطینیوں  کے ساتھ ہمدردی، یکجہتی کا اظہار کرتا ہے، اور ظالم وجابر طاقتوں اور ظلم وجبر پر خاموش تماشائی بننے والوں کی سخت مذمت کرتا ہے، اسی طرح جس جذبۂ ایمانی اور حمیت دینی کے ساتھ فلسطینی مسلمانوں نے ظالموں اور جابروں کا مقابلہ کیا اور ان کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر حق کا اظہار کیا اور قبلہئ اول اورا پنی سر زمین کی حفاظت کے لیے جس طرح جان کی بازی لگائی، آج کا یہ اجلاس ان کے اس جذبہ ایمانی اور جرأت وہمت کی بھرپور تحسین کرتا ہیاور اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ ہم ہر حالت میں اور ہر قیمت پر مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے رہیں گے اور ظلم وجبر کے خلاف آواز اٹھائیں گے، ہمارا حکومتِ ہند سے بھی یہ مطالبہ ہے کہ وہ اپنے سابقہ موقف کو اختیار کرے اور ظالموں کا ساتھ دینے کے بجائے مظلوموں کا ساتھ دے اور انسانیت کو بچانے کا فریضہ انجام دے۔

تجویز (3) بابت ناموس رسالت ﷺ کی حفاظت کے لیے قانون سازی:
کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہمارے اس ملک میں آئے دن حضور اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کی جارہی ہے، عزت وحرمت رسول پر کیچڑ اچھالا جارہا ہے، اور پے در پے اس طرح کی حرکتیں ہورہی ہیں، پھر یہ بات بھی تکلیف دینے والی ہے کہ شانِ رسالت میں گستاخی کرنے والے مجرم کھلے عام پھر رہے ہیں، ان پر قانونی کارروائی بھی نہیں ہورہی ہے، حضور اکرم ﷺ انسانیت کے حقیقی مسیحا ہیں اور سارے جہان والوں کے لیے باعث رحمت ہیں، ایسی پیاری، مقدس اور محبوب شخصیت کی شان میں گستاخی کرنا نہایت مجرمانہ عمل ہے، آج کا یہ اجلاس شانِ رسالت میں گستاخی کرنے والوں کی سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہے، اور حکومت ہند سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ حضور اکرم ﷺ سمیت ہر محترم ومقدس شخصیت کی اہانت کو روکنے کے لیے مضبوط اور مؤثر قانون بنائے اور اس کا نفاذ کرے۔

تجویز (4)  بابت مساجد پر غاصبانہ قبضے کی ناپاک کوششیں:
مساجد اللہ کے گھر ہیں، انہیں اللہ کی عبادت کے لیے قائم کیا گیا ہے، مسجدوں سے مسلمانوں کی جذباتی وابستگی ہے، اِدھر کئی برسوں سے مختلف مساجد کو لے کر ملک میں تنازعہ کھڑا کیا جارہا ہے، گیان واپی مسجد، متھرا کی عید گاہ کے بعد اب سنبھل کی جامع مسجد پر بھی مندر ہونے کا دعوی کیا گیا ہے، نہایت افسوس کی بات ہے کہ سیشن کورٹ نے بھی دعوی سنتے ہی سروے کا حکم دے دیا، حالانکہ عبادت گاہوں کی حفاظت پر مشتمل 1991ء کا قانون موجود ہے اور بابری مسجد کے سلسلے میں سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے 1991ء کے قانون کو ضروری قرار دیا تھا، اب عدالتیں خود اس قانون کو نظر انداز کررہی ہیں، جس سے ملک میں تنازعہ پیدا ہورہا ہے اور میڈیا کو ملک میں بسنے والے دو گروہوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرنے اور ان میں منافرت پیدا کرنے کا موقع مل رہا ہے، یہ کیسی افسوس ناک بات ہے کہ سپریم کورٹ کی ہدایت کو نظر انداز کرتے ہوئے عدالتیں ایسا رخ اور رویہ اختیار کررہی ہیں جس سے ملک میں بے چینی اور افراتفری پیدا ہورہی ہے، آج کا یہ اجلاس مساجد پر کی جانے والی یلغار کی سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہے اور عدالتوں کو متوجہ کرتا ہے کہ وہ حق اور انصاف کا ساتھ دیں، اور اپنی حدود سے تجاوز نہ کریں۔مساجد کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے جو کوششیں کی جاسکتی ہیں بورڈ کی جانب سے ان شاء اللہ ضرور کی جائیں گی۔

تجویز (5) بابت یونیفارم سول کوڈ:
الگ الگ مذہبوں اور تہذیبوں والے اس ملک کے لیے یونیفارم سول کوڈ نہ قابل قبول ہے اور نہ گوارا، رہ رہ کر یونیفارم سول کوڈ کی بات اٹھائی جاتی ہے اور یہ کوشش ہوتی ہے کہ اسے ملک کے لیے خوشنما بنا کر پیش کیا جائے، لیکن ہندوستان جیسے ملک کے لیے یونیفارم سول کوڈ نہایت نامناسب را ہ ہے، یہ ملک کی خوبصورتی کو نقصان پہونچانے والی چیز ہے، افسوس کہ اتراکھنڈ میں یونیفارم سول کوڈ کا بل لے آیا گیا اور بار بار اس طرح کی بات کی جارہی ہے کہ ملک میں یونیفارم سول کوڈ کا نفاذ ضروری ہے، آج کا یہ اجلاس یہ بات واضح کرنا چاہتا ہے کہ یونیفارم سول کوڈ صرف مسلمانوں کے لیے نہیں، ملک میں بسنے والے دیگر طبقات کے لیے بھی ان کی مذہبی آزادی اور ریت رواج کو چھین لینے کا باعث ہے، اس لیے ملک کے الگ الگ طبقات کو اس کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے اور حکومت کو یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ سے ہاتھ اٹھالینا چاہیے۔

تجویز (6) بابت خواتین کے ساتھ بد سلوکی:
آج کا یہ اجلاس اس بات پر اپنی تشویش کا اظہار کرتا ہے کہ ملک میں عورتوں کے ساتھ بد سلوکی کے واقعات بڑھ رہے ہیں، ان کی عزت وحرمت کو پامال کیا جارہا ہے، آئے دن عصمت دری کے درد ناک واقعات پیش آرہے ہیں، یہاں تک کہ چھوٹی چھوٹی بچیوں کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے، گذرے ہوئے چند مہینوں میں ملک میں کئی ایسی درد ناک وارداتیں پیش آئی ہیں جن کی وجہ سے عالمی سطح پر ہمارے ملک کی بدنامی ہوئی ہے، عورتوں کی عزت وحرمت کی حفاظت کرنا ہر ذمہ دار شہری کا فرض ہے، ظلم وتشدد کے یہ بڑھتے ہوئے واقعات پورے ملک کے لیے بد نما داغ ہیں، آج کا یہ اجلاس عورتوں پر ظلم وتشدد کرنے والوں کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے حکومت سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ عورتوں کی حفاظت اور ان کی عزت وآبروکی صیانت کے لیے ہر ممکن تدبیر اختیار کرے، اور ظلم وتشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کو روکنے کے لیے سخت سے سخت قانون بنائے اور ان کو نافذ بھی کرے۔

تجویز (7) بابت مدارسِ اسلامیہ:
مدارس اسلامیہ دین کے مراکز ہیں، یہاں صرف حر ف شناس نہیں بنایا جاتا، انسانیت نواز بھی بنایا جاتا ہے، انسانوں کو انسانیت کا درس ان درسگاہوں سے ملتا ہے، مدارس کا ماضی تابناک اور زرین رہا ہے، ملک کی آزادی میں بھی ان مدارس کا بڑا اہم کردار ہے، چاہیے تو یہ تھا کہ ان تعلیم گاہوں کو تحفظ دیا جاتا، ان کی خدمات کی قدر کی جاتی، ان کے کارنامے کو سراہا جاتا، مگر تعصب اور عناد کی وجہ سے ان با فیض اداروں کو برابر نشانہ بنایا جارہا ہے اور مختلف بہانوں سے انہیں خوفزدہ اور ہراساں کرنے کی کوشش ہورہی ہے، خاص طریقے پر یوپی، ایم پی اور آسام میں مدارس کے ساتھ نہایت نازیبا اور برا سلوک کیا جارہا ہے، سروے کے نام پر مدارس کے ارد گرد شکنجہ کسنے کی کوشش ہورہی ہے، اس سلسلے میں قریبی مدت میں سپریم کورٹ نے جو فیصلہ سنایا ہے وہ مدارس کو تحفظ فراہم کرنے والا ہے اور فرقہ پرست عناصر کے لیے ایک تازیانہ ہے، آج کا یہ اجلاس مدارس کے تئیں سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ مدارسِ اسلامیہ کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے اور ملک کے اِن با فیض اداروں کو نشانہ نہ بنایا جائے۔

تجویز (8) بابت مشترک اور مسلم مذہبی قدروں کو پامال کرنے کی مذمت:
انسانوں کے ساتھ محبت سے پیش آنا، کسی پر ظلم اور زیادتی نہ کرنا، حق تلفی سے اپنے آپ کو بچانا اور بے حیائی کی باتوں سے دور رہنا ایسی قدریں ہیں جو ہر مذہب میں پائی جاتی ہیں، ان قدروں کی حفاظت ضروری ہے، انسان کے اندر سے اگر انسانیت نکل جائے تو وہ پھر کسی کام کا نہیں رہتا، ظلم وزیادتی کا مزاج گھروں،  خاندانوں اور معاشرے کی تباہی کا سبب بن جاتا ہے، بے حیائی کا گھن اندر سے سماج کو کھوکھلا کردیتا ہے، نوجوان نسل بری باتوں، بے حیائی کے کاموں، شہوت پرستی اور غلط کاری میں پڑجائے تو پھر اس کا مستقبل دن بہ دن تاریک سے تاریک تر ہوتا چلا جاتا ہے، کسی بھی مہذب سماج میں ایسے لوگ نہایت ناپسندیدہ سمجھے جاتے ہیں جو اپنی خواہشات پر قابو نہ رکھ پائیں اور جانوروں کی طرح بے لگام ہوکر زندگی گذاریں، آج کا یہ اجلاس مشترک اور مسلم مذہبی قدروں کی حفاظت کا پیغام دیتا ہے اور مشترک اور مسلم مذہبی قدروں کو پامال کرنے والوں کی مذمت کرتا ہے، تجربہ یہ بتاتا ہے کہ مذہبی قدروں سے بیگانہ ہوجانا فرد اور معاشرے دونوں کی بربادی کا سبب بن جاتا ہے۔

تجویز(9) بابت بورڈ کی ہدایات کو اپنانے کی ضرورت:
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ حفاظتِ شریعت کا گراں قدر کارنامہ انجام دے رہا ہے، اسی کے ساتھ وہ وحدت واجتماعیت کا علامتی نشان بن چکا ہے، جہاں وہ حکومتوں کی جانب سے شرعی قانون میں کی جانے والی مداخلت کو روکنے کی کوشش کرتا ہے وہیں مسلمانوں کو بھی بار بار متوجہ کرتا ہے کہ وہ رضا کارانہ طریقے پر احکامِ الہی کو سینے سے لگائیں، شرعی قوانین وہدایات اور نبوی تعلیمات کو حرزِ جاں بنائیں، یہ کیسی نا مناسب بات ہے کہ ہم دوسروں سے یہ خواہش کریں کہ وہ ہماری شریعت میں مداخلت نہ کریں اور خود مسلمان دین وشریعت کے باغی بن کر زندگی گذاریں، شریعت کے تمام احکامات عادلانہ اور منصفانہ ہیں اور انہیں اپناکر دنیا وآخرت کی بھلائی حاصل کی جاسکتی ہے، بورڈ نے اپنے قیام کے روزِ اول سے مسلمانوں کو راہِ عمل دکھائی ہے، یہ اور بات ہے کہ ماحول کے فتنوں میں پڑکر بہت سے مسلمان اپنے آپ کو احکامِ شریعت سے دور کرلیتے ہیں اور دنیا اور آخرت میں خسارے کا سودا کرتے ہیں، آج کا یہ اجلاس مسلمانانِ ہند کو متوجہ کرتا ہے کہ وہ شریعتِ اسلامیہ پر عمل کا مزاج بنائیں اور معاشرے کی صلاح وفلاح کے لیے بورڈ کی جانب سے دی جانے والی ہدایات پر عمل پیرا ہوں۔

تجویز (10) بابت بورڈ کے شعبوں کی کار کردگی:
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے مختلف شعبے کار گذار اور فعال ہیں، اصلاح معاشرہ کمیٹی، تفہیمِ شریعت کمیٹی، دار القضاء کمیٹی، شعبہ خواتین، لیگل سیل اور سوشل میڈیا ڈیسک کی جانب سے ہر ایک کے دائرہ? کار میں خدمت کا سلسلہ جاری ہے، سماج میں پھیلی ہوئی برائیوں کو روکنے کے لیے اصلاحِ معاشرہ کمیٹی کام کررہی ہے، شریعت کے احکامات کی حکمتیں لوگوں کو سمجھانے کے لیے تفہیم شریعت کمیٹی سعی مسلسل کررہی ہے، دار القضاء کمیٹی کے ذریعے ملک کے طول وعرض میں دار القضاء کا نظام قائم کیا جارہا ہے، خلافِ شریعت فیصلوں کی روک تھام کے لیے لیگل سیل کوشاں ہے، عورتوں میں بیداری پیدا کرنے اور انہیں دین وشریعت پر قائم رکھنے کے لیے شعبہ خواتین کی کار کردگی کا سلسلہ دراز ہے، بورڈ کی سرگرمیوں کو دور تک پہونچانے، پھیلانے اور احکامِ شریعت پر کیے جانے والے اعتراضات کا مثبت طریقے پر جواب دینے کے سلسلے میں سوشل میڈیا ڈیسک کام کررہا ہے، بورڈ کے یہ شعبے اپنے اپنے کنوینر کی نگرانی میں ارکانِ بورڈ کے تعاون سے خدمت انجام دے رہے ہیں اور کوئی شبہ نہیں کہ محدود وسائل کے باوجود بہتر خدمت انجام پارہی ہے اور بورڈ کا پیغام دور دور تک پہونچ رہا ہے، آج کا یہ اجلاس بورڈ کے تمام شعبوں کی کار کردگی کی تحسین کرتا ہے اور امید کرتا ہے کہ یہ شعبے پہلے سے زیادہ بہتر انداز میں اپنے کاموں کو آگے بڑھائیں گے اور ملتِ اسلامیہ ہندیہ کی سربلندی اور سرخروئی کے لیے کوشاں رہیں گے باذن اللہ۔

تجویز (11) بابت اظہارِ تشکر:
وقف ترمیمی بل کو روکنے کے سلسلے میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے بساط بھر کوشش کی ہے، جہاں ایک طرف اپوزیشن پارٹیز کے ذمہ داران وسربراہان سے ملاقاتیں کی گئیں، وہیں دوسری طرف الائنس پارٹیز سے بھی رابطہ کیا گیا اور انہیں وقف ترمیمی بل کی روک تھام کے سلسلے میں متوجہ کیا گیا، بورڈ نے وقف ترمیمی بل کے سلسلے میں تحریری یاد داشت بھی مرتب کی، جو مفصل بھی ہے مدلل بھی، اسی طرح جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کو ای میل کے ذریعے جواب دینے کے سلسلے میں بھی بورڈ نے سعی پیہم کی، اور یہ خوش آئند اور حوصلہ افزا بات ہے کہ بورڈ کی تحریک پر تین کروڑ چھیاسٹھ لاکھ ای میل مسلمانوں کی طرف سے کیے گئے، اسی طرح ملک کے الگ الگ حصوں میں تحفظِ اوقاف پر چھوٹے بڑے بہت سے پروگرام ہوئے، جن کا سلسلہ اب بھی دراز ہے، جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کو جواب بھیجنے کے سلسلے میں امارت شرعیہ بہار، اڑیسہ جھارکھنڈ کا خصوصی تعاون شامل رہا، اسی طرح اس سلسلے میں ملک کے مختلف حصوں میں تحفظ اوقاف کانفرنس منعقد کرنے میں مختلف دینی، ملی سماجی تنظیموں اور جماعتوں کا اہم رول ہے، مختلف پارٹیز سے ملاقاتوں کے سلسلے میں بھی متعدد احباب نے تعاون کیا، آج کا یہ اجلاس امارتِ شرعیہ بہار، اڑیسہ جھارکھنڈ سمیت تمام ملی جماعتوں، تنظیموں اور اس مشن میں ساتھ دینے والے مخلصین اور ارکانِ بورڈ کا شکریہ ادا کرتا ہے اور ان کی خدمت کی تحسین کرتا ہے، نیز امیر شریعت کرناٹک حضرت مولانا صغیر احمد خان رشادی (کنوینر مجلسِ استقبالیہ) اور مجلسِ استقبالیہ کے تمام افراد اور عمائدین شہر بنگلور کا بھی شکریہ ادا کرتا ہے کہ ان کے حسن تعاون سے یہ اجلاس خیر وخوبی، سلیقہ اور ترتیب کے ساتھ منعقد ہوا اور یہاں سے ملت اسلامیہ ہندیہ کے لیے رہنما اور حیات بخش پیغام جاری کیا گیا۔

#AIMPLBBangaloreConference #AIMPLB #Waqf #MTIH #TIMS

Thursday, 16 November 2023

مسجد اقصیٰ سے ہمارا ایمانی تعلق ہے، اہل فلسطین کیلئے دعاؤں اور قنوت نازلہ کا اہتمام کریں!

 مسجد اقصیٰ سے ہمارا ایمانی تعلق ہے، اہل فلسطین کیلئے دعاؤں اور قنوت نازلہ کا اہتمام کریں!



مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”تحفظ القد س کانفرنس“ سے مولانا محمد مقصود عمران رشادی کا خطاب!


بنگلور، 09؍ نومبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے تحریک تحفظ القدس کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان آن لائن ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی آٹھویں نشست سے خطاب کرتے ہوئے جامع مسجد سٹی بنگلور کے امام و خطیب حضرت مولانا ڈاکٹر محمد مقصود عمران رشادی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ سرزمین قدس، قبلۂ اول کی بنا پر تمام امت مسلمہ کا مشترکہ اثاثہ ہے۔ یہاں انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی کثرت بعثت کی بنا پر یہ ”سرزمین انبیاء“ بھی کہلاتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد ایک مدت تک بحکم الٰہی ”بیت المقدس“ کی جانب رخ کرکے نماز ادا کی ہے، اسی لیے یہ مسلمانوں کا قبلۂ اول کہلاتا ہے۔ معراج کی رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی مسجد اقصیٰ میں تمام انبیاء کرام علیہم السلام کو نماز پڑھائی اور ”امام الانبیاء“ کے شرف سے مفتخر ہوئے اور پھر یہیں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ سفر معراج شروع ہوا، جس نے انسانیت کو سرعرش مہمان نوازی کا اعزاز عطا کیا۔ مولانا نے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو مسجد حرام سے سیدھے آسمانوں کی طرف سفر ہو سکتا تھا، لیکن درمیان میں بیت المقدس کو لا کر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت کے ذریعہ یہ عظیم پیغام دیا کہ اسلام میں بیت المقدس اور مسجد اقصی کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ بیت المقدس کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ یہ مسلمانوں کا قبلۂ اول رہا ہے۔ اس بنا پر امت محمدیہ کا سرزمین فلسطین، مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کے ساتھ ایک ایمانی رشتہ قائم ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ یہودی قوم پچھلے ستر سالوں سے اہل فلسطین پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہی ہے، یوں تو اس قوم کے ہاتھ انبیاء کرام علیہم السلام جیسی مقدس جماعت کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اور آج یہ فلسطین پر قابض ہوکر، وہاں صدیوں سے آباد مسلمانوں کا قتل عام کرکے انھیں نقل مکانی پر مجبور کررہے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ اہل فلسطین یہود کے مظالم کا مقابلہ کرنے کے لیے مادی وسائل کی قلت کا شکار ہونے کے باوجود آج تک نبرد آزما ہیں، لیکن مسلم حکمران جو طاقت، دولت اور بے شمار وسائل سے مالا مال اور لیس ہیں، وہ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ تقریباً ایک مہینے سے غزہ کی پٹی پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں، گھروں سے لیکر تعلیم گاہوں تک، مسجد سے ہسپتال تک سب کچھ تباہ و برباد کردیئے گئے، بچے، بوڑھے، جوان، مرد و عورت یکساں ان مظالم سے دوچار ہوئے، فلسطینی شہداء ہزاروں کی تعداد سے متجاوز ہوگئی، لیکن عالمی اسلامی تنظیموں خصوصاً مسلم حکمرانوں کی بے حسی و بے بسی تماشائے عالم بنی ہوئی ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ فلسطین کے حالات کی وجہ سے ہر انصاف پسند،صاف دل اور زندہ ضمیر رکھنے والا شخص رنجیدہ ہے۔ غزہ کے لاکھوں بے قصور عوام پر قیامت ٹوٹ رہی ہے، ہر طرف انسانی نعشوں کا دل دہلانے والا منظر ہے، جس سے پوری دنیا بالخصوص پورا عالم اسلام بے چینی کا شکار ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ تاریخی حیثیت سے مسجد اقصیٰ ہی وہ ایک مسئلہ ہے جس سے ہمارے شرعی ثوابت، تاریخی حقوق اور ہمارے تہذیب و تمدن کے بڑے کارنامے متعلق ہیں، لہٰذا اسکی حفاظت پوری امت کی مشترکہ ذمہ داری ہے اور مسئلہ فلسطین پوری ملت اسلامیہ کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ ہم قبلہ اوّل مسجد اقصیٰ کی حفاظت کرنے والے فلسطین و غزہ کے مظلوم مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے انکی جرأت و عزیمت کو سلام پیش کرتے ہیں۔ مولانا رشادی نے فرمایا کہ اب مسلمانوں کی ذمہ داری ہیکہ وہ اہل فلسطین کی مدد کریں، ان کے حق میں دعائیں کریں، قنوت نازلہ کا اہتمام کریں، اپنی تقریر و تحریر میں ارضِ فلسطین کو موضوع سخن بنائیں اور اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں، یہ سب ہمارے دائرہ اختیار سے باہر نہیں ہے، اور باتوفیق مسلمان اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ان پر عمل پیرا ہونے کی کوشش بھی کررہے ہیں اور کرنا بھی چاہیے۔ مولانا نے تمام انسانیت دوست ممالک، حقوق انسانی کی محافظ تنظیمیں خاص طور پر اقوام متحدہ سے اپیل کی کہ وہ فوری کارروائی کرتے ہوئے فلسطین میں امن کو قائم فرمائیں اور انکی مدد فرمائیں۔ مولانا نے ہندوستان کی حکومت، وزیر اعظم اور کرناٹک کے وزیر اعلیٰ سے بھی درخواست کی کہ وہ عالمی سطح پر ملک کی جانب سے اپنے سابقہ موقف پر قائم رہتے ہوئے فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کریں، انکی مدد و معاونت کریں اور وہاں جنگ بندی کرنے اور امن کے قیام کی کوششوں کریں۔ قابل ذکر ہیکہ اس موقع پر حضرت مولانا محمد مقصود عمران رشادی صاحب مدظلہ نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔


#Press_Release #News #Alquds #Palestine #Gaza #Alqudsseries #MasjidAqsa #MasjidAlAqsa #BaitulMaqdis #AlqudsConference #MTIH #TIMS

مسجد اقصٰی کی حفاظت امت مسلمہ کی مشترکہ اور بنیادی ذمہ داری ہے!

 مسجد اقصٰی کی حفاظت امت مسلمہ کی مشترکہ اور بنیادی ذمہ داری ہے! 

مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ سے مولانا جعفر مسعود حسنی ندوی کا خطاب!




بنگلور، 13؍ نومبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان آن لائن ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی دسویں نشست سے خطاب کرتے ہوئے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے ناظر عام حضرت مولانا سید جعفر مسعود حسنی ندوی صاحب مدظلہ نے فرمایا اس وقت اہل فلسطین کے جو حالات ہے وہ بہت تشویشناک ہیں۔ فلسطین کے معصوم بچے، مائیں، بہنیں، جوان اور بوڑھے سب اسرائیلی دہشت گردی کے ظلم و ستم کا شکار ہیں لیکن افسوس کے نام نہاد انصاف پسند لوگ اور بعض مسلم ممالک خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ مولانا نے فرمایا کہا اس سے آگے بڑھ کر دنیا کے بڑے بڑے ممالک اہل فلسطین کے غم و درد میں شامل ہونے کے بجائے اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں۔ لیکن عالم اسلام کی بے حسی افسوسناک ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ ارضِ فلسطین جسے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کا مسکن اور مدفن ہونے کا شرف حاصل ہے، جس کے ارد گرد برکت ہی برکت کا نزول ہے، جہاں سے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر معراج کا آغاز کیا، جس دھرتی پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نبیوں کی امامت کراکے امام الانبیاء کا لقب پایا، جہاں اسلام کی عظمت رفتہ اور جنت گم گشتہ کا نشان قبلۂ اول مسجد اقصٰی کی صورت میں موجود ہے، آج وہ خطہ ارضِ فلسطین اور مسجد اقصٰی صہیونی سازشوں کے نرغے میں گھیرا ہوا ہے۔ اور وہاں کے باشندے تنہ تنہا ان ظالم و جابر سے مقابلہ کررہے ہیں اور بیت المقدس کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ ارضِ فلسطین اور مسجد اقصٰی پوری ملت اسلامیہ کو پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ یہ دھرتی کب تک خون سے رنگین ہوتی رہے گی؟ کب تک فلسطینی نوجوان، بچے، مائیں اور خواتین شہید ہوتی رہیں گی؟ کب تک فلسطینیوں کے جنازے اٹھتے رہیں گے؟ فلسطینیوں کی آزادی کی صبح کب طلوع ہوگی؟ مولانا نے فرمایا کہ بیت المقدس کا مسئلہ فقط اہل فلسطین کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری ملت اسلامیہ کا مسئلہ ہے۔ لہٰذا ضرورت ہیکہ ہم اپنی نسلوں کو بیت المقدس اور فلسطین و غزہ کی مجاہدانہ تاریخ سے واقف کروائیں تاکہ ہماری نسلیں بیت المقدس کی حفاظت اور آزادی کیلئے ہمیشہ تیار رہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں اور اگر جسم کے ایک حصے کو تکلیف پہنچتی ہے تو تکلیف پورے بدن کو محسوس ہوتی ہے۔ لہٰذا ہماری ذمہ داری ہیکہ ایسے نازک حالات میں جب اہل فلسطین و غزہ بیت المقدس کی حفاظت کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں ہمیں چاہیے کہ ہم ان کیلئے دعا کریں، اور جس طرح سے ممکن ہو ان کیلئے مددگار ثابت ہوں، اس کیلئے انکے ساتھ یکجہتی کا اظہار کریں، اسرائیل جارحیت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں اور اقوام عالم کو اس پر عمل کرنے کی ترغیب بھی دیں۔ قابل ذکر ہیکہ یہ اس موقع پر دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے ناظر عام حضرت مولانا سید جعفر مسعود حسنی ندوی صاحب مدظلہ نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا انہیں کی دعا سے یہ عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی دسویں نشست اختتام پذیر ہوئی۔


#Press_Release #News #Alquds #Palestine #Gaza #Alqudsseries #MasjidAqsa #MasjidAlAqsa #BaitulMaqdis #AlqudsConference #MTIH #TIMS

Wednesday, 7 June 2023

اڑیسہ میں ہولناک ٹرین حادثے سے ہزاروں افراد متاثر، ریلیف کیلئے جمعیۃ علماء ہند میدان عمل میں سرگرم!

 اڑیسہ میں ہولناک ٹرین حادثے سے ہزاروں افراد متاثر، ریلیف کیلئے جمعیۃ علماء ہند میدان عمل میں سرگرم!






جمعیۃ علماء کرناٹک متاثرین کے ساتھ برابر کھڑی ہے اور انکی راحت رسانی کیلئے ابتدائی امداد پہنچائی جاچکی ہے!


بنگلور، 07؍ جون (پریس ریلیز): اڑیسہ کے بالاسور میں ہولناک ٹرین حادثے میں کئی لوگ جان بحق ہوگئے اور ہزاروں مسافر اس وقت ہاسپٹل میں زیر علاج ہیں، اس موقع پر جمعیۃ علماء کرناٹک نے ٹرین حادثہ پر شدید دکھ و تکلیف کا اظہار کرتے ہوئے اس میں جان بحق ہونے والے مسافروں کے اہل خانہ سے تعزیت کی اور زخمیوں کی جلد صحتیابی کیلئے دعا کی۔ جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر مولانا عبد الرحیم رشیدی اور جنرل سکریٹری محب اللہ خان امین نے فرمایا کہ ٹرین حادثے کے فوراً بعد سے ہی امیر الہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب مدظلہ کی ہدایت پر جمعیۃ علماء ہند اور ریاستی جمعیۃ علماء اڑیسہ میدان عمل میں سرگرم ہے اور زخمیوں کے علاج و معلاج، کھانے پینے کا انتظام اور دیگر راحت رسانی کا کام سرانجام دے رہی ہے۔ اسی ضمن میں جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری حضرت مولانا مفتی سید معصوم ثاقب قاسمی مدظلہ نے ریاستی جمعیۃ کے ذمہ داران کے ساتھ مقام واردات پر پہنچ کر ہر ممکن تعاون پیش کرتے ہوئے ریلیف کے کام کا جائزہ لیا۔ لیکن افسوس یہ ہیکہ مستقل مرنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے، کیونکہ یہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد تکلیف دہ واقعہ ہے جس میں ہزاروں افراد متاثر ہوئے ہیں۔ جمعیۃ علماء اڑیسہ کے اراکین مستقل ریلیف کے کام میں مصروف ہیں، زخمیوں کے علاج و معلاج، متاثرین کی امداد و راحت رسانی کے ساتھ ساتھ انکے متعلقین جو مختلف مقامات سے وہاں پہنچ رہے ہیں ان کے لیے کھانے پینے کا نظم کررہے ہیں۔ اسی کے ساتھ متاثرین کو اپنے مقامات پر پہنچانے کیلئے ان کی مدد کی جارہی ہے۔ جبکہ جو مسلم حضرات ہیں ان کی تجہیز وتکفین کا بھی اہتمام اور اس کی ضروریات کی تکمیل کی جارہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس سلسلہ میں ابتدائی امداد کے طور پر جمعیۃ علماء کرناٹک کی جانب سے جمعیۃ علماء اڑیسہ کے ذمہ داروں کو متاثرین کی امداد و راحت رسانی کیلئے رقم بھیجی جا چکی ہے۔ اور آئندہ بھی بقدر ضرورت ہر ممکن تعاون پیش کرے گی۔ اس درد و غم کے موقع پر جمعیۃ علماء کرناٹک کی متاثرین کے ساتھ برابر شریک ہے اور حکومت سے حادثے کے اسباب سے متعلق ایماندارانہ انکوائری کراکر مناسب کارروائی کی اپیل بھی کرتی ہے۔


(تصویر:  ۱۔ جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری حضرت مولانا مفتی سید معصوم ثاقب قاسمی جمعیۃ ریلیف کیمپ میں متاثرین اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے۔  ۲۔ جمعیۃ علماء کے ریلیف کیمپ میں اراکین ِجمعیۃ متاثرین کے درمیان کھانا تقسیم کرتے ہوئے۔  ۳۔ جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری حضرت مولانا مفتی سید معصوم ثاقب قاسمی جمعیۃ علماء اڑیسہ کے اراکین کے ساتھ ہاسپتال میں زخمیوں کی عیادت کرتے ہوئے۔)

Monday, 5 June 2023

شیخ طریقت حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی کی خدمات ناقابل فراموش!

 شیخ طریقت حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی کی خدمات ناقابل فراموش! 

مرکز تحفظ اسلام ہند نے مولانا رحمانی کی خدمات پر پیش کی تہنیت!




 بنگلور، 05؍ جون (پریس ریلیز): گزشتہ دنوں مرکز تحفظ اسلام ہند کے پانچ رکنی ایک وفد نے مالیگاؤں کا دورہ کرتے ہوئے مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سکریٹری شیخ طریقت حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب دامت برکاتہم سے خصوصی ملاقات کی اور انکی بے لوث خدمات پر انہیں مبارکباد پیش کرتے ہوئے انکی شال پوشی کی اور انکی خدمت میں ایک سپاس نامہ بھی پیش کیا۔ وفد میں مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان صاحب، آرگنائزر حافظ محمد حیات خان، اراکین محمد فیض، محمد حفظ اللہ اور محمد سلیم پاشاہ وغیرہ خصوصی طور پر شامل تھے۔ اس موقع پر مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب کی خدمات کو سراہتے ہوئے فرمایاکہ حضرت کی شخصیت ملک ہندوستان میں کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے، جب بھی وعظ و خطابت، ارشاد و اصلاح، بیعت و سلوک، اور تصنیفات و تالیفات کا تذکرہ ہوتا ہے تو اس تذکرہ میں حضرت کا نام سرفہرست ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مولانا رحمانی ہند و بیرون ہند کی ایک ممتاز وبافیض شخصیت، علم عمل کے مجمع البحرین، فضل و کمال کے حامل، علم و فن کے ماہر، ملک و ملت کے مقبول خادم اور ملت اسلامیہ ہندیہ کے عظیم رہنما و قائد ہیں۔ انکی ذات گرامی فکرو نظر، علم وعمل اور فضل و کمال کا ایک حسین سنگم ہے۔ وہ سادہ مزاجی، تصنع وتکلف سے بری اور اخلاق و عادات میں اسلاف کے سچے جانشین ہیں۔ نیز انکی خوش الحانی اور سحر آفریں خطابت اور دلآویز مواعظ جس طرح سامعین کے کانوں میں رس گھو لتے ہیں اسی طرح دلوں پر بھی اپنی اثر انگیزی کا رنگ دکھاتے ہیں۔ محمد فرقان نے فرمایا کہ اسی طرح شیخ طریقت مولانا رحمانی تصوف و سلوک کے ذریعہ بھی نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ انکے فیوض بیعت و صحبت اور ان سے تعلق کی برکت سے ہزاروں انسانوں کو ہدایت میسر آئی ہے، بے شمار لوگوں کو انکی برکات سے فیضیاب ہونے کا موقع میسر آیا اور سینکڑوں لوگوں کو دین برحق کی رہنمائی ملی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مولانا نے جہاں وعظ و نصیحت، خط و خطابت اور تصوف و سلوک کے میدان میں کارہائے نمایاں انجام دئے ہے وہیں دینی، ملی، سماجی اور صحافتی میدان میں بھی انکی خدمات آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ انکی ہمہ جہت خدمات حیات انسانی کے مختلف گوشوں سے متعلق ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب مختلف اداروں بالخصوص آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور خانقاہ رحمانیہ مالیگاؤں کے ذریعے جو خدمات انجام دے رہے ہیں وہ ناقابل فراموش ہیں، نیز مرکز تحفظ اسلام ہند جو انہیں کی سرپرستی اور نگرانی میں بڑی ہی اہم نمایاں خدمات انجام دے رہا ہے، یہ انہیں کی دعاؤں اور سرپرستانہ رہنمائی کا نتیجہ ہے جو خود اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔ اور بفضل باری تعالیٰ انکی ان اہم اور نمایاں خدمات سے نہ صرف ملت اسلامیہ ہندیہ بلکہ پورا عالم اسلام مستفیض ہورہا ہے۔ مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے فرمایا کہ شیخ طریقت حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب کی ان نمایاں خدمات پر مرکز تحفظ اسلام ہند انکو مبارکباد پیش کرتے ہوئے دعا گو ہیکہ اللہ تعالیٰ انکے سایۂ عافیت اور شفقت کو ملت اسلامیہ پر خصوصا اور عالم انسانی پر عموماً دراز فرمائے اور انکے علوم و معرفت اور فیوض و برکات کو ملک و عالم میں عام وتام فرمائے، آمین۔ قابل ذکر ہیکہ اس موقع پر مرکز تحفظ اسلام ہند کے وفد نے مرکز کے تنظیمی معاملات اور اسی طرح ملکی، ملی اور سماجی مسائل پر حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب کے قیمتی مشوروں سے استفادہ حاصل کیا، جہاں حضرت کے خادم خاص محمد عذیر رحمانی بھی بطور خاص شریک تھے۔





#Press_Release #News #UmrainRahmani #Tahniyat #MarkazTahniyat #MTIH #TIMS

Thursday, 23 March 2023

رمضان المبارک تقوی کے حصول کا بہترین ذریعہ، ماہ مبارک کے قیمتی اوقات عبادت و ریاضت میں گزاریں!

رمضان المبارک تقوی کے حصول کا بہترین ذریعہ، ماہ مبارک کے قیمتی اوقات عبادت و ریاضت میں گزاریں!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے جلسہ استقبال رمضان سے مفتی افتخار احمد قاسمی کا خطاب!



بنگلور، 22؍ مارچ (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد جلسہ استقبال رمضان سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست اور جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر عالی قدر خادم القرآن حضرت مولانا مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ رمضان المبارک کا مہینہ اللہ تعالیٰ کی بڑی عظیم نعمت ہے۔ اللہ کے باتوفیق بندے ہی اس قدر جانتے ہیں اور اس کے انوار وبرکات سے پورے طور پر مستفید ہوتے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک سے دو ماہ قبل ماہ رجب سے ہی رمضان المبارک کے مقدس مہینہ کا انتظار کیا کرتے تھے۔ مولانا نے فرمایا کہ ماہ رمضان المبارک برکتوں والا مہینہ ہے اور اس ماہ کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن مقدس کا نزول اسی پاک مہینے میں ہوا۔ انہوں نے فرمایا کہ رمضان کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا عشرہ مغفرت اور تیسرہ عشرہ جہنم کی آگ سے نجات کا ہے۔ اس مہینے میں شیاطین قید میں جکڑے لے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ مفتی صاحب نے فرمایا کہ اس مہینے میں اللہ تعالیٰ نے روزوں کو فرض اور تراویح کو سنت قرار دیا ہے۔ اور اس مہینے کے روزے رکھنے والے کو اللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندوں میں شمار کرتا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ رمضان المبارک میں روزہ رکھنے کا مقصد صرف یہ نہیں ہے کہ آپ بھوکا پیٹ رہیں گے۔ بلکہ رمضان المبارک میں روزہ رکھنے کا اصل مقصد تقویٰ کا حصول ہے یعنی آپ متقی و پرہیز گار بن جائیں، اللہ تعالیٰ کی یاد میں اپنی زندگی بسر کریں اور اپنی زندگی میں غلطیوں کو سدھارنے کی کوشش کریں۔ مولانا قاسمی نے فرمایا کہ رمضان المبارک امت مسلمہ کے لئے نیکیوں کی فصل بہار ہے۔ اس ماہ مبارک میں ایک نیکی کا ثواب ستر گنا زیادہ ملتا ہے۔ لہٰذا ہمیں انتہائی ذوق و شوق اور اہتمام کے ساتھ رمضان المبارک کا استقبال کرنا چاہیے۔ پورے ماہ کے روزے نہایت ذوق و شوق اور اہتمام کے ساتھ رکھیں۔ نیز اس ماہ رمضان میں عبادات اور اعمال صالحہ کا خصوصی اہتمام کریں۔ فرائض کے علاوہ نوافل بھی کثرت سے ادا کریں۔ کیونکہ اس مہینے میں نفلی عبادات عام مہینوں کے فرض عبادت کے برابر ہوتی ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ اس مقدس مہینے میں قرآن مجید کی تلاوت کثرت سے کریں کیونکہ یہ مبارک مہینہ قرآن مجید سے خصوصی تعلق اور نسبت رکھتا ہے۔ نیز اس ماہ مبارک میں جتنا ہوسکے صدقہ اور خیرات کریں۔ غریبوں، بیواؤں، یتیموں اور بے کسوں کی خبر گیری کریں۔ ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کریں۔ اسکے علاوہ تراویح کی نماز خشوع و خضوع اور ذوق و شوق کے ساتھ پڑھیں اور پورا قرآن مجید پڑھنے اور سننے کا اہتمام کریں تاکہ اللہ تعالیٰ کی قربت اور اس کی رضا حاصل ہو۔ مولانا قاسمی نے فرمایا کہ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف کریں اور اس کی طاق راتوں میں شب قدر کو پانے کی کوشش کریں اور ان طاق راتوں میں زیادہ سے زیادہ عبادت کریں۔ تلاوت و تسبیح، توبہ و استغفار اور دعا کا اہتمام کریں۔ کیونکہ شب قدر کی ایک رات ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ رمضان المبارک کے ماہ مقدس میں زیادہ سے زیادہ نیکی کمانے پر کمربستہ ہو جائیں اور کوئی ایسا کام ہرگز نہ کریں جس سے رمضان کا تقدس مجروح ہو۔ اللہ تعالیٰ پوری امت مسلمہ کو رمضان المبارک کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ قابل ذکر ہیکہ اس موقع پر حضرت مولانا مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب مدظلہ نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا اور مفتی صاحب کی دعا سے استقبال رمضان کا یہ پروگرام اختتام پذیر ہوا۔


#Press_Release #News #Ramzan #IstaqbaleRamzan #Ramadhan

Saturday, 31 December 2022

پندرہ روزہ فتنۂ گوہر شاہیت مہم

 "پندرہ روزہ فتنۂ گوہر شاہیت مہم"

"15 Roza Radde Fitna-e-Gohar Shahiyat"


👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻


Download book 👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻

Thursday, 15 December 2022

مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام ”05؍ روزہ آن لائن ورکشاپ بعنوان فتنۂ گوہر شاہیت“ کا انعقاد

 مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام ”05؍ روزہ آن لائن ورکشاپ بعنوان فتنۂ گوہر شاہیت“ کا انعقاد







برادرانِ اسلام سے مفتی افتخار احمد قاسمی اور مولانا مقصود عمران رشادی نے کی شرکت کی اپیل!


بنگلور، 15؍ دسمبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام 20؍ دسمبر 2022ء بروز منگل سے 24؍ دسمبر 2022ء بروز سنیچر تک منعقد ہونے والی ”05؍ روزہ آن لائن ورکشاپ بعنوان فتنۂ گوہر شاہیت“ میں برادرانِ اسلام سے شرکت کی اپیل کرتے ہوئے مرکز کے سرپرست و جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر حضرت مولانا مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب اور جامع مسجد سٹی بنگلور کے امام و خطیب حضرت مولانا محمد مقصود عمران رشادی صاحب نے مشترکہ طور پر فرمایا کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں، آپؐ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ یہ اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ قرب قیامت بے شمار فتنے رونما ہوں گے، اور آج کل کے حالات کو دیکھ کر یہ محسوس ہوتا ہیکہ وہ زمانہ شروع ہوچکا ہے، آج اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلامی عقائد اور اسلامی اعمال کے خلاف فتنوں کی ایک شورش برپا ہے۔ فتنوں کی اس بھرمار میں سب سے خطرناک ایمان سوز فتنے ہیں؛ کیونکہ کسی بھی مسلمان کے لیے سب سے قیمتی چیز ایمان ہے، جب متاعِ ایمان ہی لٹ جائے تو دنیا و آخرت کی سب خیریں گویا چھن گئیں۔ انہوں ایمان سوز فتنوں میں جھوٹے مدعیان نبوت، دعویداران مہدویت اور منکرین ختم نبوت کا فتنہ ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ جن لوگوں نے اپنے مذموم مقاصد کے حصول اور امت مسلمہ کو گمراہ کرنے کے لیے نبوت، مسیحیت اور مہدویت ہونے کے جھوٹے دعوے کیے ان کی خاصی تعداد ہے۔ انھیں جھوٹے دعویداروں میں ایک نام ریاض احمد گوہر شاہی کا بھی ہے۔ جو مہدی، عیسیٰ، نبوت اور خدائی کا جھوٹا دعودیدار ہے، جسکا فتنہ اس وقت ہمارے ملک میں بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے اور لوگ اس سے ناواقف ہونے کی وجہ سے مرتد ہوکر ایمان کا دامن چھوڑ رہے ہیں۔ خاص کر سوشل میڈیا کے ذریعے فتنۂ گوہر شاہی اپنی زہرناکی پھیلا رہا ہے، اور بہت سارے اہل علم اور دانشور حضرات بھی اس فتنے کی خطرناکی اور سنگینی سے ناواقف ہیں۔ ایسے حالات میں فتنوں بالخصوص جھوٹے مدعیان نبوت، دعویداران مہدویت اور منکرین ختم نبوت کے فتنوں سے بالخصوص فتنۂ گوہر شاہیت سے آگاہی حاصل کرنا اور امت کو اُن سے خبردار کرنا ہمارے ایمانی تقاضوں اور دینی فرائض میں سے ہے۔ اسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے مرکز تحفظ اسلام ہند اکابر علماء کرام کی زیر سرپرستی 20؍ دسمبر 2022ء بروز منگل سے 24؍ دسمبر 2022ء بروز سنیچر تک ”05؍ روزہ آن لائن ورکشاپ بعنوان فتنۂ گوہر شاہیت“ منعقد کرنے جارہی ہے۔ یہ کلاسس آن لائن زوم پر روزانہ رات 9؍ بجے سے 10؍ بجے تک منعقد ہونگے۔ جس میں مجاہد ختم نبوت حضرت مولانا محمد ارشد علی قاسمی صاحب (سکریٹری مجلس تحفظ ختم نبوت ٹرسٹ تلنگانہ و آندھراپردیش) کا درس ہوگا۔ اس ورکشاپ میں فتنۂ گوہر شاہیت کا تعارف، حالات، خاندانی پس منظر، اسکے جھوٹے دعوے و کفریہ عقائد اور گمراہ کن نظریات اور صراط مستقیم، انکا شرعی حکم اور اسکے رد و تعاقب کا طریقہ کار وغیرہ پر تفصیلی روشنی ڈالی جائے گی۔ حضرت مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب اور حضرت مولانا محمد مقصود عمران رشادی صاحب نے برادران اسلام سے اپیل کی کہ وہ اس اہم ورکشاپ میں شریک ہوکر اس فتنہ سے واقفیت حاصل کریں اور اپنے اہل و عیال دوست واحباب اور اطراف و اکناف کے لوگوں کے ایمان کی حفاظت کریں، رجسٹریشن کیلئے ان نمبرات 

8495087865

8884113219

8553438301

9666009943

پر رابطہ قائم کریں، رجسٹریشن کیلئے ایک معمولی سی رقم ایک سو روپے کی فیس بھی مقرر کی گئی ہے تاکہ لوگوں پابندی سے ورکشاپ میں شرکت کریں، ورکشاب کے اختتام پر ایک عمومی عظیم الشان اجلاس عام بھی منعقد کیا جائے گا اور تمام شرکاء کو اعزازی سند سے بھی نوازا جائے گا۔


#Press_Release #News #khatmenabuwat #ProphetMuhammad #FinalityOfProphethood #LastMessenger #GoharShahi #FitnaGoharShahiyat #MTIH #TIMS


Saturday, 10 December 2022

مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام ”پانچ روزہ آن لائن تربیتی ورکشاپ بعنوان فتنۂ گوہر شاہیت“، برادران اسلام سے شرکت کی اپیل!

 ملک میں فتنہ گوہر شاہیت عروج پر، اس فتنہ سے واقفیت وقت کی اہم ترین ضرورت ہے!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام ”پانچ روزہ آن لائن تربیتی ورکشاپ بعنوان فتنۂ گوہر شاہیت“، برادران اسلام سے شرکت کی اپیل! 





بنگلور، 10؍ دسمبر (پریس ریلیز): یہ دور فتنوں کا دور ہے، اور آج جگہ جگہ فتنوں کی کثرت ہورہی ہے اور نئے نئے ایمان سوز ارتدادی فتنے جنم لے رہے ہیں، کچھ فتنے تو وہ ہیں جس سے ہماری دنیا خراب ہوتی ہے اور کچھ فتنے وہ ہیں جن سے ہمارا ایمان اورآخرت خراب ہوجاتی ہے۔ انھیں فتنوں میں سے ایک فتنہ ”فتنہ گوہر شاہی“ یعنی ”ریاض احمد گوہر شاہی کا فتنہ“ بھی ہے، جو مہدی، عیسیٰ، نبوت اور خدائی کا جھوٹا دعودیدار ہے، جو اس وقت ہمارے ملک میں بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے اور لوگ اس سے ناواقف ہونے کی وجہ سے مرتد ہوکر ایمان کا دامن چھوڑ رہے ہیں۔ خاص کر سوشل میڈیا کے ذریعے فتنہ گوہر شاہی اپنی زہرناکی پھیلا رہا ہے، اور بہت سارے اہل علم اور دانشور حضرات بھی اس فتنے کی خطرناکی اور سنگینی سے ناواقف ہیں۔ ایسے حالات میں فتنوں بالخصوص جھوٹے مدعیان نبوت، دعویداران مہدویت اور منکرین ختم نبوت کے فتنوں سے بالخصوص فتنۂ گوہر شاہیت سے آگاہی حاصل کرنا اور امت کو اُن سے خبردار کرنا ہمارے ایمانی تقاضوں اور دینی فرائض میں سے ہے۔ اسی کے پیش نظر مرکز تحفظ اسلام ہند اپنے سرپرستاں جانشین امام اہل سنت حضرت مولانا عبد العلیم فاروقی صاحب مدظلہ، خادم القرآن حضرت مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب مدظلہ اور شیخ طریقت حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب مدظلہ کی زیر سرپرستی 20؍ دسمبر 2022ء بروز منگل سے 24؍ دسمبر 2022ء بروز سنیچر تک ”05؍ روزہ آن لائن ورکشاپ بعنوان فتنۂ گوہر شاہیت“ منعقد کرنے جارہی ہے۔ یہ کلاسس آن لائن زوم پر روزانہ رات 9؍ بجے سے 10؍ بجے تک منعقد ہونگے۔ جس میں ملک کی ممتاز شخصیت، مجاہد ختم نبوت حضرت مولانا محمد ارشد علی قاسمی صاحب دامت برکاتہم (سکریٹری مجلس تحفظ ختم نبوت ٹرسٹ تلنگانہ و آندھراپردیش) کا درس ہوگا۔ اس ورکشاپ میں فتنۂ گوہر شاہیت کا تعارف، حالات، خاندانی پس منظر، اسکے جھوٹے دعوے و کفریہ عقائد اور گمراہ کن نظریات اور صراط مستقیم، انکا شرعی حکم اور اسکے رد و تعاقب کا طریقہ کار وغیرہ پر تفصیلی روشنی ڈالی جائے گی، لہٰذا آپ تمام حضرات سے درخواست ہیکہ اس اہم ورکشاپ میں شریک ہوکر اس فتنہ سے واقفیت حاصل کریں اور اپنے اہل و عیال دوست واحباب اور اطراف و اکناف کے لوگوں کے ایمان کی حفاظت کریں، رجسٹریشن کیلئے ان نمبرات

8495087865

8884113219

8553438301

9666009943

 پر رابطہ قائم کریں، رجسٹریشن کی فیس ایک سو روپے ہے، ورکشاب کے اختتام پر ایک عمومی عظیم الشان اجلاس عام بھی منعقد کیا جائے گا اور تمام شرکاء کو اعزازی سند سے بھی نوازا جائے گا۔




#Press_Release #News #khatmenabuwat #ProphetMuhammad #FinalityOfProphethood #LastMessenger #MTIH #TIMS

Friday, 9 December 2022

5 روزہ آن لائن ورکشاپ بعنوان فتنۂ گوہر شاہیت

 🔴5 روزہ آن لائن ورکشاپ بعنوان فتنۂ گوہر شاہیت🔴



🎯 جیسا کہ آپ حضرات کو معلوم ہے کہ آج کل فتنۂ گوہر شاہی سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی زہرناکی پھیلا رہا ہے، جس سے ناواقفیت کی وجہ سے لوگ متاثر ہورہے ہیں اور بہت سارے اہل علم اور دانشور حضرات بھی اس فتنے کی خطرناکی اور سنگینی سے ناواقف ہیں۔ اس لئے مرکز تحفظ اسلام ہند نے اکابر علماء کرام کی سرپرستی میں  ”فتنۂ گوہر شاہیت“ سے متعلق واقفیت اور بیداری کے لئے زوم ایپ پر ایک اہم ”پانچ روزہ آن لائن ورکشاپ“ رکھا ہے، اس میں بالخصوص علماء، ائمہ معلمین دانشور اور پڑھے لکھے لوگ استفادہ کرسکتے ہیں۔ پروگرام کی تفصلات ارسال کردہ اشتہار میں موجود ہیں۔ پرزور گزارش ہے کہ اس اہم ورکشاپ میں خود بھی شرکت فرمائیں اور اپنے دوست واحباب کو بھی ضرور شامل فرمائیں۔


*رجسٹریشن کیلئے رابطہ فرمائیں👇🏻*

*+918495087865*

*+918884113219*

*+9185534 38301*

*+91 96660 09943*


*منجانب : مرکز تحفظ اسلام ہند*

5 Roza Online Workshop Ba-Unwaan Fitna e Gohar Shahiyat

 🔴5 Roza Online Workshop Ba-Unwaan Fitna e Gohar Shahiyat🔴



🎯 Jaisa Ke Aap Hazraat Ko Maloom Hai Ke Aaj Kal Fitna e Gohar Shahi Social Media Ke Zariye Apni Zeher Naaki Phaila Raha Hai, Jis Se Nawaqifiyat Ki Wajah Se Loog Mutasir Horahe Hain aur Bahoot Sare Ahle Ilm Aur Danishwar Hazraat Bhi Is Fitne Ki Khatarnaki Aur Sangini Se Nawaqif Hain. Is Liye Markaz Tahaffuz-e-Islam Hind Ne Akabir Ulama Ikraam Ki Sarparasti Main "Fitna e Gohar Shahiyat" Se Mutalliq Waqifiyat Aur Bedaari Ke Liye Zoom Per Ek Ahem "5 Roza Online Workshop" Rakkha Hai, Is Main Bil-Khusoos Ulama, Ayimma, Muallimeen, Danishwar, Intellectuals, Student's Aur Padhe Likhe Loog Istifada Karsakte Hain. Program Ki Tafsilaat Bheje Gaye Poster Main Maujood Hain. Pur-zoor Guzarish Hai Ke Is Ahem Workshop Main Khud Bhi Shirkat Farmayain Aur Apne Dost O Ehbab Ko Bhi Zaroor Shamil Farmayain.



Registration Ke Contact Karain👇🏻

*+918495087865*

*+918884113219*

*+9185534 38301*

*+91 96660 09943*


*From: Markaz Tahaffuz-e-Islam Hind*

Friday, 2 December 2022

مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”تحفظ ختم نبوتؐ کانفرنس“ سے امیر الاحرار مولانا عثمان لدھیانوی کا خطاب!

 عقیدۂ ختم نبوت کا تحفظ ہر مسلمان کا اولین ایمانی فریضہ ہے اور قادیانیت انگریز کا خود کاشتہ پودا ہے! 

مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”تحفظ ختم نبوتؐ کانفرنس“ سے امیر الاحرار مولانا عثمان لدھیانوی کا خطاب!





بنگلور، 02؍ ڈسمبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد پندرہ روزہ عظیم الشان آن لائن ”تحفظ ختم نبوتؐ کانفرنس“ کی چودھویں نشست سے خطاب کرتے ہوئے مرکز تحفظ اسلام ہند کے سابق سرپرست اعلیٰ قائد الاحرار حضرت مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانویؒ کے جانشین اور مجلس احرار اسلام ہند کے قومی صدر و پنجاب کے شاہی امام حضرت مولانا محمد عثمان رحمانی لدھیانوی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ عقیدۂ ختم نبوت اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے، جس طرح اللہ کی توحید یعنی وحدانیت پر ایمان لانا ضروری ہے اسی طرح حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر ایمان لانا ضروری ہے کیونکہ آپ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی و رسول ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جتنے انبیاء علیہم السلام دنیا میں آئے ان کی نبوت علاقہ، قوم اور وقت کے لحاظ سے محدود تھی۔ لیکن آپؐ صرف اپنے ملک، اپنے زمانے اور اپنی قوم کے لیے ہی نہیں بلکہ آپؐ قیامت تک پوری نوع انسانی کے لیے نبی مبعوث فرمائے گئے، کیونکہ آپؐ پر نبوت کا دروازہ ہمیشہ ہمیش کیلئے بند کردیا گیا، اب آپؐ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، اب قیامت تک آپؐ ہی کی شریعت مطہرہ کا سکہ چلے گا۔ مولانا لدھیانوی نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے معاشرہ بت پرستی، قتل و غارت، قبائلی رقابتوں، کمزوروں پر ظلم، فحاشی، بدکاری، بچیوں کو زندہ دفن کرنے، غلاموں اور عورتوں کو حقوق نہ دینے، خیانت جیسی اخلاقی، سماجی اور معاشی برائیوں کی غلاظت میں لتھڑا ہوا تھا۔ ایسے میں اللہ کے پیارے نبی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دین حنیف کے داعی اور مبلغ بن کر مبعوث ہوئے۔ آپؐ نے بندوں کو توحید کی دعوت دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف بلایا، ان کی تخلیق کا حقیقی مقصد یاد دلایا، برائیوں کو چھوڑ کر حسن اخلاق کا پیکر بننے کا درس دیا، معاشرے میں امن و سکون قائم کرنے کا طریقہ ئکار دیا، مساوات کا حقیقی تصور دیا، معاشرے کے پسے ہوئے طبقوں بالخصوص غلاموں اور عورتوں کو جینے کا حق دلایا، رب العالمین کی نافرمانی کرنے والے غافلوں کو جہنم کی طرف جانے سے روک کر راہِ جنت پر چلایا۔ مولانا نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے جیسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا اعلان کیا تو جو لوگ آپؐ کی سچائی، امانت داری، وعدے کی پاسداری، خوش اخلاقی و دیگر اوصاف کا کل تک اعتراف کیا کرتے تھے آج اعلان نبوت کے بعد آپؐ کے دشمن بن گئے کیونکہ انہیں اپنے ظلم و ستم، جھوٹ و فریب اور دھوکہ بازی اور دیگر برائیوں اور کفریہ عقائد کی دکانیں بند ہوتی نظر آرہی تھیں۔ مولانا نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مقصد رسالت کی تکمیل سے روکنے کے لئے جسمانی، مالی، سماجی اور نفسیاتی قسم کی رکاوٹیں کھڑی کرنا شروع کر دیں، لیکن وہ کبھی کامیاب نہ ہوسکے۔ یہی وجہ ہیکہ جب دشمنانِ اسلام نے اپنی ہر سازشیں اور حربے ناکام ہوتے دیکھا تو اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمانوں کا مقابلہ کرنا اور انکا خاتمہ کرنا ناممکن ہے کیونکہ مسلمان اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو محبت وعقیدت رکھتے ہیں، اس نے ہی انہیں ایک امت واحدہ بنا رکھا ہے۔ لہٰذا مسلمان جسکی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں اور جس کو اپنا مرکز سمجھتے انہیں کی شخصیت کو اگر مشکوک بنایا دیا جائے تو ہم کچھ حد تک اپنی سازشوں میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اس کیلئے انہوں نے مسلمانوں کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق کو ختم کرنے یا کمزور کرنے کے لیے نیز آپؐ کی نبوت و رسالت اور ختم نبوت کو مشکوک بنانے کیلئے آپؐ پر لایعنی اعتراضات اور الزامات کی بوچھاڑ کرنے لگے اور ایسے لوگوں کو تیار کیا جنہوں نے اپنی جھوٹی نبوت کا دعویٰ کرتے ہوئے تاج ختم نبوت پر ڈاکہ ڈالنے کی کوششیں کی اور کررہے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ اتنی سازشوں کے باوجود تاریخ شاہد ہیکہ دشمنانِ اسلام بالخصوص جھوٹے مدعیان نبوت و منکرین ختم نبوت نہ کبھی اپنے مکر و فریب اور جال سازی و دھوکہ بازی میں کامیاب ہوئے اور نہ کبھی مسلمانوں نے انہیں تسلیم کیا بلکہ ہمیشہ ختم نبوت کے محافظوں نے ان ملعون و کذابوں کو انکے انجام تک پہنچایا۔ شاہی امام مولانا لدھیانوی نے فرمایا اس صدی میں مرزا غلام احمد قادیانی کے دعویٰ نبوت کے پیچھے بھی وہی مقصد تھا۔ انہوں نے تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ مرزا قادیانی انگریز کا خود کاشتہ پودا تھا۔ لیکن اس کو پروان چڑھانے میں انگریزوں کا سب سے بڑا مقصد مسلمانوں کے اندر سے روحِ محمد ﷺ نکالنا اور ان میں شعلہ جوالہ کی طرح گرم جذبۂ جہاد کو سرد کرنا تھا۔ کیونکہ برصغیر پر انگریزوں کے مکمل تسلط کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قومِ رسول ؐکے اس جذبۂ جہاد نے کھڑی کی تھی۔ لہٰذا انگریز کو ایسے مکار مگر اپنے ساتھ وفادار شخص کی ضرورت تھی جو نبوت کا جھوٹا دعویٰ کر کے مسلمانوں کو انگریز حکومت کی اطاعت کا درس دے اور جہاد کو حرام کہے اور یہ سب کچھ اللہ کا حکم بتا کر مسلمانوں میں پھیلائے۔ اس منصوبہ کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے اور اس کے تمام پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد انگریزوں نے مرزا غلام احمد قادیانی کو جھوٹا نبی بنا کر پیش کیا تھا۔ جس نے برطانوی حکومت کے استحکام اور عملداری کے تحفظات میں الہامات کا ڈھونگ رچایا، اسکے نزدیک تاج برطانیہ کے مراسلات، وحی کا درجہ رکھتی تھیں اور وہ ملکہ معظمہ کے لیے رطب اللسان تھا، برطانوی حکومت کی قصیدہ گوئی اور مدح سرائی مرزا قادیانی کی نبوت کا دیباچہ تھی۔ مولانا نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کا مسیلمہ کذاب سے لیکر اس دور کے مزار قادیانی اور دیگر جھوٹے مدعیان نبوت و منکرین ختم نبوت کی سرکوبی اور ختم نبوت کی حفاظت کے لیے امت مسلمہ نے لازوال قربانیوں کی ایسی داستان رقم کی ہے جو تاریخ حق کے انمول باب کے طور پر دیکھی جاتی ہے۔ امیر الاحرار نے فرمایا کہ عقیدۂ ختم نبوت امت مسلمہ کا اجتماعی عقیدہ ہے جس پر شروع سے لے کر آج تک کسی کا اختلاف نہیں اور یہ کوئی متنازعہ یا اختلافی مسئلہ بھی نہیں بلکہ عقیدہ ختم نبوت جان ایمان ہے، جو برحق ہے۔ مولانا لدھیانوی نے دوٹوک فرمایا کہ اسلام کی چودہ سو سال کی تاریخ گواہ ہے تمام فتنوں سے مباحثہ، مجادلہ، مناظرہ و مباہلہ وغیرہ ہوئے۔ لیکن جھوٹے نبیوں سے تو گفتگو اور دلائل مانگنے کی بھی شریعت نے اجازت نہیں دی۔ چنانچہ امت کی ساڑھے چودہ سو سال کی تاریخ گواہ ہے کہ جب کبھی کسی اسلامی حکومت میں کسی شخص نے جھوٹی نبوت کا دعویٰ کیا تو امت نے اس سے دلائل و معجزات مانگنے کی بجائے اس کے وجود سے ہی اللہ تعالیٰ کی دھرتی کو پاک کردیا۔ ہمارے اسلاف بھی مناظرہ کے قائل نہیں تھے اور ہم بھی اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مناظرے کے قائل نہیں اور نہ ہی ہماری جماعت مجلس احرار اسلام ہند مناظرہ کے قائل ہے۔ احرار کا دو ٹوک موقف ہیکہ گمراہ لوگوں سے مناظرہ نہیں کیا جاتا۔ اور مناظرہ اختلافی مسائل پر کیا جاتا ہے اور عقیدہ ختم نبوت کوئی اختلافی مسئلہ نہیں ہے۔اور جھوٹے مدعی نبوت اور پیروکاروں کا وہی علاج ہے جو صدیق اکبرؓ نے اپنے عہد زرین میں مسیلمہ کذاب کا یمامہ کے میدان میں کیا تھا۔ مولانا نے فرمایا کہ رسول اللہﷺ خاتم النبیین تھے، خاتم النبیین ہیں اور خاتم النبیین رہیں گے، آپؐ کے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا، اس بات میں کوئی دورائے نہیں ہے، اور دنیا کی کوئی طاقت اس فیصلہ کو تبدیل نہیں کرسکتی۔ مولانا نے فرمایا کہ عقیدۂ ختم نبوت ہر امتی کو جان سے بھی پیارا ہے۔ یہ اسلام کا ایسا لازم رکن ہے جسکے بغیر مسلمان کا ایمان کبھی مکمل نہیں ہو سکتا، یہ ایک ایسا نکتہ ہے جس پر تمام مسالک اور فرقے متفق ہیں کہ سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آخری نبی ہیں اور آپ ؐ کوآخری نبی نہ ماننے والا یقینی طور پر دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ لہٰذا عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کا کام کرنا ہر مسلمان کا اولین ایمانی فریضہ ہے۔ مولانا لدھیانوی نے فرمایا کہ ضرورت اس بات کی ہیکہ ہم فتنۂ قادیانیت کے دجل و فریب اور ان کے کفریہ عقائد و نظریات کو بے نقاب کرنے، امت مسلمہ بالخصوص نسلِ نو کی ایمان کی حفاظت کیلئے اور عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کیلئے متحد ہوکر عملی اقدامات کریں۔ قابل ذکر ہیکہ اس موقع امیر الاحرار حضرت مولانا محمد عثمان رحمانی لدھیانوی صاحب نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے فرمایا کہ خوب دعاؤں  سے نوازا۔


#Press_Release #News #khatmenabuwat #ProphetMuhammad #FinalityOfProphethood #LastMessenger #MTIH #TIMS 

منکرین ختم نبوت سوشل میڈیا پر مسلمانوں کا ایمان خراب کررہے ہیں، تحفظ ختم نبوت کیلئے سوشل میڈیا کا مثبت استعمال وقت کا تقاضا ہے!

 منکرین ختم نبوت سوشل میڈیا پر مسلمانوں کا ایمان خراب کررہے ہیں، تحفظ ختم نبوت کیلئے سوشل میڈیا کا مثبت استعمال وقت کا تقاضا ہے!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”تحفظ ختم نبوتؐ کانفرنس“ سے مفتی افتخار احمد قاسمی کا خطاب!



بنگلور، یکم ڈسمبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد پندرہ روزہ عظیم الشان آن لائن ”تحفظ ختم نبوتؐ کانفرنس“ کی تیرہویں نشست سے خطاب کرتے ہوئے مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست اور جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر خادم القرآن حضرت مولانا مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ دنیا میں جتنے انبیاء علیہم السلام مبعوث ہوئے ان پر ایمان لانے کیلئے ضروری تھا کہ انکی نبوت کا اقرار کیا جائے لیکن حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کیلئے یہ ضروری اور لازم ہیکہ صرف آپؐ کو نبی نہیں بلکہ آخری نبی ماننا جائے، یہ ایمان کی بنیاد ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ ایمان کی تکمیل کے لیے جس طرح اللہ تعالیٰ کو معبود ماننے کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اُس کے علاوہ کسی کو حقیقی معبود نہ مانے، اسی طرح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی و رسول ماننے کے ساتھ ساتھ یہ ماننا بھی ضروری ہے کہ آپؐ اللہ کے آخری رسول و نبی ہیں۔ آپؐ کے آخری نبی ہونے کا بیان قرآن و احادیث میں بہت کثرت اور و وضاحت سے آیا ہے، جس میں کسی قسم کی نہ تاویل کی گنجائش ہے اور نہ انکار کی۔ اس مسئلے میں ہر دور کے مسلمانوں کا اجماع رہا ہے بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا جس مسئلے پر سب سے پہلے اجماع ہوا وہ بھی یہی ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ افسوس کہ اس بنیادی عقیدہ سے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنے کا سلسلہ دور نبوی سے چلا آرہا ہے اور تاقیامت چلتا رہے گا۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے، ہر ایک یہی کہے گا کہ میں نبی ہوں حالاں کہ میں خاتم النبیین ہوں میرے بعد کوئی کسی قسم کا نبی نہیں۔“ مولانا نے فرمایا کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام قرب قیامت ضرور تشریف لائیں گے لیکن وہ بطور حاکم عادل تشریف لائیں گے اور حضورﷺ کی ہی شریعت پر عمل پیرا ہونگے۔ مولانا نے فرمایا کہ بعض لوگ سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کیلئے نبوت کی تقسیم بیان کرتے ہیں اور طرح طرح کی تاویلات پیش کرتے ہیں، جبکہ یہ ساری تاویلات باطلہ ہیں، کیونکہ اسلام میں نبوت و رسالت کی کسی قسم کی تقسیم نہیں ہے مثلاً ظلی نبی، بروزی نبی، تشریعی نبی یا غیر تشریعی نبی کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی آخری نبی و آخری رسول ہیں۔ آپؐ پر نبوت و رسالت کا دروازہ ہمیشہ ہمیش کیلئے بند کردیا گیا ہے، آپؐ کے بعد کوئی نیا نبی قطعاً نہیں آسکتا۔ یہی امت مسلمہ کا اجماعی عقیدہ ہے۔ مفتی صاحب نے فرمایا کہ آپؐ کے بعد آنے والے متعدد کذابوں میں سے ایک جھوٹا اور کذاب مرزا غلام احمد قادیانی ہے، جو اس صدی کا سب سے بڑا فتنہ ”قادیانیت کے فتنے“ کا بانی ہے، جس نے نبوت کا دعویٰ کیا اور شریعت کی روشنی میں کذاب، مردود اور دائرہ اسلام سے خارج ٹھہرا۔ لیکن افسوس کے اس کے مکر و فریب اور جال کا بہت سارے لوگ شکار ہوگئے اور گمراہ ہوتے چلے گئے۔ مولانا نے فرمایا کہ آج کل جھوٹے مدعیان نبوت و منکرین ختم نبوت کے فتنے جدید ذرائع ابلاغ سوشل میڈیا کے ذریعے سے بڑی تیزی سے پھیل رہے ہیں، سوشل میڈیا پر ہزاروں کی تعداد میں ویب سائٹ، کتابیں، رسائل، تقاریر، ویڈیو، آڈیوز، پمفلٹ وغیرہ جو ظاہراً اسلامی معلوم ہوتے ہیں درحقیقت وہ ساری چیزیں ان گمراہ کن نظریات کے حامل لوگوں کی جانب سے اپلوڈ ہوئے رہتے ہیں، جو بہت باریک بنی سے ان مواد کے ذریعے اپنے گمراہ کن نظریات کو فروغ دیتے ہیں اور افسوس کے ہمارے مسلمان بالخصوص نوجوان نسل اسی سوشل میڈیا سے دین سیکھتی ہے اور سمجھنے کی کوشش کرتی ہے، جس سے نہ صرف انکے عقائد خراب ہورہے ہیں بلکہ وہ گمراہی کا شکار ہوکر بعض دفعہ انجانے میں دائرہ اسلام سے خارج ہوتے جارہے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ اسلام کے مختلف مسائل بالخصوص اسلامی عقائد پر معلومات حاصل کرنے کیلئے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے مقامی علماء سے رجوع کریں اور دین  کو سوشل میڈیا کے بجائے علماء سے سیکھیں۔ مولانا نے فرمایا کہ اسی کے ساتھ ہمیں جدید ذرائع ابلاغ کے ذریعے ختم نبوت اور ناموس رسالت کے پیغام کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ قادیانی اور دیگر منکرین ختم نبوت سوشل میڈیا پر مسلمانوں کا ایمان خراب کررہے ہیں۔ اس محاذ پر کام کرنے کی اشد ضرورت اور مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت کرنا انتہائی اہم ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ جہاں ابلاغ کے ذرائع وقت کی ضرورت کے مطابق استعمال ضروری ہے وہاں عالمی سطح پر جس طرح میڈیا وار جاری ہے اور اسلام، حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس و حرمت، ختم نبوت اور اسلامی تعلیمات و روایات جس طرح بین الاقوامی پروپیگنڈے اور کردار کشی کے ہتھیاروں کی زد میں ہیں، اس حوالہ سے ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ سوشل میڈیا کو نظر انداز کرنے کے بجائے اس میں پوری قوت کے ساتھ شریک ہوں اور اس محاذ پر اسلام کے مختلف شعبوں بالخصوص عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کیلئے بھی کام کیا جائے اور یہ محاذ بھی خالی نہ چھوڑا جائے۔ مولانا قاسمی نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قرب قیامت فتنے بارش کے قطروں کی طرح پے در پے ظاہر ہونگے۔ انہوں نے فرمایا کہ آج کے حالات کو دیکھ کر یہی محسوس ہوتا ہیکہ فتنوں کا دور شروع ہوچکا ہے، مولانا نے فرمایا کہ ایک فتنے تو وہ ہیں جس سے دنیا خراب ہوتی ہے اور ایک فتنے وہ ہیں جس سے آخرت خراب ہوتی ہے، یعنی ان فتنوں کی وجہ سے ہمارا ایمان خراب ہوتا ہے۔ اور جھوٹے مدعیان نبوت و منکرین ختم نبوت کا فتنہ وہی ہے جس سے ہمارا ایمان اور آخرت خراب ہورہا ہے۔ مولانا قاسمی نے فرمایا کہ شیطان اور اسکی ذریت نے آدم علیہ السلام کی اولادوں کو گمراہ کرنے اور جہنم میں لے جانے کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے اور وہ اسی کام میں لگے ہوئے ہیں لیکن افسوس کہ ہم اپنی ذمہ داری سے غافل ہیں، ہماری ذمہ داری تھی کہ ہم اپنی اور اپنے اہل و عیال اور اطراف و اکناف کے لوگوں کے ایمان کی حفاظت کرتے لیکن افسوس کہ نہ ہم اپنی اورنہ ہی دوسروں کے ایمان کی حفاظت کرپارہے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ آج ضرورت ہیکہ ہم ختم نبوت کے پیغام کو گھر گھر تک پہنچائیں تاکہ مسلمان کا ہر ایک بچہ ختم نبوت کے عقیدہ سے واقف ہوجائے، اور جہاں کہیں بھی جھوٹے مدعیان نبوت و منکرین ختم نبوت یا مسیحیت و مہدویت کے جھوٹے دعویدار پیدا ہوں وہاں مسلمان فوراً حرکت میں آجائیں اور پوری طاقت کے ساتھ اسکا رد و تعاقب کریں۔ اس کیلئے ضروری ہیکہ ہم علماء و الصلحاء اور مساجد و مدارس سے اپنا رشتہ مضبوط رکیں، دینی پروگرامات، جلسے و جلوس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، گھروں میں عقائد کی کتابوں کی تعلیم کریں، ختم نبوت کے عقیدہ کو خود سمجھیں اور دوسروں کو بھی سمجھائیں کیونکہ ہماری کامیابی و کامرانی اسی میں ہیکہ ہمارا خاتمہ حالات ایمان میں ہو کیونکہ ایمان ہی آخرت میں کامیابی کا ذریعہ ہے اور عقیدہئ ختم نبوت جان ایمان ہے۔ قابل ذکر ہیکہ یہ پندرہ روزہ ”تحفظ ختم نبوتؐ کانفرنس“ کی بارہویں نشست مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور مرکز کے رکن شوریٰ قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی کی نظامت میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا آغاز مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان کی تلاوت اور مرکز کے رکن شوریٰ حافظ محمد عمران کی نعتیہ کلام سے ہوا۔ جبکہ کانفرنس میں مرکز کے رکن محمد عمران خان خصوصی طور پر شریک تھے۔ اس موقع پر سرپرست مرکز حضرت مولانا مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔ اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے حضرت والا اور تمام سامعین کا شکریہ ادا کیا اور صدر اجلاس حضرت مولانا مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب کی دعا سے کانفرنس کی یہ نشست اختتام پذیر ہوئی۔


#Press_Release #News #khatmenabuwat #ProphetMuhammad #FinalityOfProphethood #LastMessenger #MTIH #TIMS

Tuesday, 29 November 2022

عقیدۂ ختم نبوت کی حفاظت کیلئے مسلمان ہمہ وقت تیار رہیں

 ”عقیدۂ ختم نبوت کی حفاظت کیلئے مسلمان ہمہ وقت تیار رہیں!“



مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”تحفظ ختم نبوتؐ کانفرنس“ سے مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی کا خطاب!


 بنگلور، 29؍ نومبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد پندرہ روزہ عظیم الشان آن لائن ”تحفظ ختم نبوتؐ کانفرنس“ کی بارہویں نشست سے خطاب کرتے ہوئے مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سکریٹری حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب مدظلہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دنیا میں آخری نبی و رسول بنا کر مبعوث فرمایا، آپؐ تمام انبیاء کرام اور جمیع مخلوقات سے افضل ہیں۔ آپﷺ نہ صرف نبی و رسول ہیں بلکہ خاتم النبیین اور خاتم المرسلین ہیں اور یہ شرف فقط آپؐ کو ہی حاصل ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”میں خاتم النبیین ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔“ مولانا نے فرمایا کہ تاج ختم نبوت حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت ہی انوکھی اور یکتا شان ہے، جو اور کسی بھی نبی و رسول کو عطا نہ ہوئی، آپؐ کو انبیائے کرام علیہ السلام پر جن چیزوں سے فضیلت دی گئی، ان میں سے ایک آپؐ کا ”خاتم النبیین“ ہونا ہے۔ مولانا رحمانی نے فرمایا کہ ’خاتم النبیین‘ رسول اللہﷺ کا بہت ہی عظیم اور خاص وصف و لقب و منصب ہے۔ اس کے معنیٰ و مفہوم بالکل واضح و ظاہر ہیں کہ سب نبیوں سے آخری، نبیوں کا سلسلہ ختم کرنے والے، سب سے آخری نبی، سلسلۂ نبوت پر مہر لگا کر بند کردینے والے۔ یہی معنیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام احادیث مبارکہ سے ثابت ہے۔ لہٰذا جھوٹ مدعیان نبوت و منکرین ختم نبوت مثلاً قادیانیت، شکیلیت، گوہر شاہیت، احمد عیسیٰ وغیرہ جو ”خاتم النبیین“ کے معنیٰ میں طرح طرح کی بے بنیاد، جھوٹی اور دھوکا پر مبنی تاویلات فاسدہ کرتے ہیں درحقیقت وہ قرآن و احادیث اور اجماع صحابہ و اجماع امت کے خلاف ہیں اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ آخری میں تشریف لائے اور ختم نبوت کا تاج انہیں پہنایا گیا، اب انکے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور کوئی شریعت بھی نہیں آئے گی کیونکہ دین اب مکمل ہوچکا ہے۔ سرپرست مرکز نے احادیث کی روشنی میں فرمایا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت و رسالت کا سلسلہ مکمل، اس آخری امت پر امت کا سلسلہ مکمل اور آسمانی صحائف کے نزول کا سلسلہ بھی مکمل ہو گیا ہے۔ لہٰذا صدیوں سے دین اسلام مکمل اور محفوظ ہے۔ اس میں کوئی ردوبدل کی گنجائش نہیں، نہ ہی اس دین میں کوئی کمی کی جاسکتی ہے اور نہ ہی اس میں کسی قسم کی اضافہ کی گنجائش ہے۔ قیامت تک ہر زمان و مکان کیلئے یہ دین یوں ہی رہے گا جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولﷺ کے ذریعے اسے تکمیل کو پہنچایا اور محفوظ حالت میں رکھا ہوا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ اس دین کی تکمیل خاتم الانبیاء ﷺ پر ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے آخری ہدایت کو اسلام سے تعبیر فرما کر اس کا بھی اعلان کردیا کہ اب قیامت تک اس دین اسلام کے سوا کوئی اور دین اللہ کے ہاں قابل قبول نہیں، اور یہ کہ انسانی نجات کے لیے صرف یہی ایک راستہ متعین ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ اسلام دین کامل اور جامع دین ہے۔ دین اسلام نے زندگی گزارنے کے جتنے گوشے ممکن ہوسکتے تھے، ان سب کے لئے کچھ اصول، کچھ قوانین، اور کچھ ضابطے بیان کرکے انسان کو دوسرے طور طریقوں سے بے نیاز کردیا۔ مولانا نے فرمایا کہ قرآن میں اصول دین کو پوری وضاحت سے بیان کیا گیا ہے کہ تمہارے لئے اللہ کے رسولﷺ کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔ لہٰذا زندگی کے نشیب و فراز میں اور زندگی کے ہر ہر موڑ پر آنحضرتﷺ کی ذات اقدس ایک مسلمان کیلئے کامل نمونہ ہے۔ مولانا رحمانی نے فرمایا کہ قرآن و حدیث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انسانیت کی ہدایت و راہنمائی کے لیے حضرت آدم علیہ السلام سے جو سلسلۂ رشد شروع ہوا تھا، وہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل ہوا، آپؐ کے بعد نبوت و رسالت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔ آپؐ اللہ کے آخری نبی ہیں، خاتم الانبیاء اور سیّد المرسلین ہیں۔ نبوت و رسالت کی آخری اینٹ اور آخری کڑی ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ آپﷺ پر دین کی تکمیل کردی گئی۔ آپؐ کی عطا کردہ شریعت رشد و ہدایت کا ابدی سرچشمہ ہے۔ اسلام دین کامل اور ابدی ضابطہئ حیات ہے، اس کی اتباع ہی دین و دنیا میں کامیابی کی ضمانت اور آخرت میں نجات کی کلید ہے۔ مولانا فرمایا کہ رشد و ہدایت کا سلسلہ اور ایمان سے وابستگی درحقیقت عقیدہ ختم نبوت پر ایمان سے وابستہ ہے۔ اس پر ایمان بندگی کا لازمی اور ناگزیر تقاضا ہے، جس کے بغیر دین و ایمان کا تصور بھی محال ہے۔ مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی نے فرمایا کہ ختم نبوت امت مسلمہ کا وہ اجماعی عقیدہ ہے جس کی حفاظت کیلئے آج تک امت مسلمہ نے لازوال قربانیوں پیش کی ہیں کیونکہ ختم نبوت کے سلسلے میں ذرہ برابر بھی شک و شبہ انسان کو اسلام سے خارج کردیتا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ اس وقت ختم نبوت کے خلاف جو سازشیں ہورہی ہیں اور جھوٹے مدعیان نبوت و منکرین ختم نبوت کے فتنوں نے جس طرح سے امت کو گھیرا ہوا ہے، ایسے وقت میں ان باطل پرستوں کے جھوٹ کا پردہ فاش کرنے اور سادہ لوح مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت کیلئے ہمیں آگے آنا چاہیے۔ اور ہماری یہ ذمہ داری ہیکہ ہم عقیدۂ ختم نبوت کی حفاظت کیلئے پوری طاقت اور وسائل کے ساتھ ہمہ وقت تیار رہیں، ورنہ کل قیامت کے دن ہم کس منھ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حاضر ہونگے؟ مولانا رحمانی نے فرمایا کہ جھوٹے مدعیان نبوت و منکرین ختم نبوت کے پیچھے دنیا کی باطل طاقتوں یار و مددگار ہیں لیکن یاد رکھیں کہ جو بھی ختم نبوت کی حفاظت کیلئے کام کرے گا اللہ تعالیٰ اسکا یار و مددگار ہوگا۔ انہوں نے فرمایا کہ اس وقت جدید ذرائع ابلاغ بالخصوص سوشل میڈیا کے ذریعے یہ فتنے کافی پھیل رہے ہیں، لہٰذا ہمیں بھی جدید ذرائع ابلاغ سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے ان فتنوں کا سدباب اور رد کرنا چاہئے۔ جگہ جگہ ختم نبوت کے پروگرامات اور ورکشاپ منعقد کئے جانے چاہئے، نوجوانوں کے درمیان ختم نبوت کے موضوع پر تحریری و تقریری مقابلہ کروانے چاہیے، اپنے اردگرد منکرین ختم نبوت کے فتنوں سے باخبر رہنا چاہیے اور امت مسلمہ کے ایمان کی حفاظت کیلئے ہر ایک کو فکر مند ہونا چاہیے۔ مولانا رحمانی نے فرمایا کہ ایسے حالات میں مرکز تحفظ اسلام ہند ذمہ داران نے عامۃ المسلمین کو عقیدۂ ختم نبوت سے واقف کروانے اور اسکی حفاظت کرنے کے سلسلے میں یہ ”پندرہ روزہ عظیم الشان تحفظ ختم نبوتؐ کانفرنس“ منعقد کرکے بڑی خدمت انجام دی ہے، اللہ تعالیٰ انکی کوششوں کو قبول فرمائے۔ قابل ذکر ہیکہ یہ پندرہ روزہ ”تحفظ ختم نبوتؐ کانفرنس“ کی بارہویں نشست مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور مرکز کے رکن شوریٰ مولانا محمد طاہر قاسمی کی نظامت میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا آغاز مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان کی تلاوت اور مرکز کے رکن شوریٰ حافظ محمد عمران کی نعتیہ کلام سے ہوا۔ جبکہ کانفرنس میں مرکز کے اراکین مولانا محمد نظام الدین مظاہری، حافظ محمد نور اللہ، حافظ محمد شعیب اللہ، عمیر الدین وغیرہ خصوصی طور پر شریک تھے۔ اس موقع پر سرپرست مرکز حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔ اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے حضرت والا اور تمام سامعین کا شکریہ ادا کیا اور صدر اجلاس کی دعا سے کانفرنس کی یہ نشست اختتام پذیر ہوئی۔


#Press_Release #News #khatmenabuwat #ProphetMuhammad #FinalityOfProphethood #LastMessenger #MTIH #TIMS #UmrainRahmani

Friday, 25 November 2022

عقیدۂ ختم نبوت کی حفاظت اور فتنۂ قادیانیت کا تعاقب امت مسلمہ کی بنیادی ذمہ داری ہے!

 عقیدۂ ختم نبوت کی حفاظت اور فتنۂ قادیانیت کا تعاقب امت مسلمہ کی بنیادی ذمہ داری ہے!



مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”تحفظ ختم نبوتؐ کانفرنس“ سے مفتی محمدشفیق احمد قاسمی کا خطاب!


بنگلور، 24؍ نومبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد پندرہ روزہ عظیم الشان آن لائن ”تحفظ ختم نبوتؐ کانفرنس“ کی دسویں نشست سے خطاب کرتے ہوئے دارالعلوم دیوبند کے رکن شوریٰ حضرت مولانا مفتی محمد شفیق احمد قاسمی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے نبوت کا سلسلہ خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم فرما دیا، اب آپؐ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ یہی عقیدۂ ختم نبوت ہے، جو اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے، اور اسکے منکر اسلام سے خارج اور اسکے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ منکرین ختم نبوت کا فتنہ آپ ؐکے دور ہی میں شروع ہوگیا تھا، جہاں آپ ؐنے اپنی ختم نبوت کا اعلان فرمایا، وہیں آپ ؐ نے قیامت تک نمودار ہونے والے ان کذابین کا بھی تذکرہ فرمایا تھا میرے بعد تیس جھوٹے کذاب پیدا ہونگے اور ہر ایک دعویٰ نبوت کرے گا لیکن میں آخری نبی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ مولانا نے فرمایا کہ انہی میں سے ایک فتنہ ”قادیانیت کا فتنہ“ ہے، جسکا بانی مرزا غلام احمد قادیانی ہے، جسکی جھوٹی نبوت کا فتنہ چودھویں صدی کا عظیم فتنہ ہے، جسے انگریز نے اپنے ناپاک اغراض و مقاصد کی خاطر جنم دیا۔ مولانا قاسمی نے فرمایا کہ ہمارے اکابر علماء کرام نے مرزا قادیانی کی زندگی سے ہی اس کا تعاقب شروع کردیا تھا جو ابتک جاری ہے اور ان شاء اللہ ہمیشہ جاری رہے گا، ان اکابرین نے اس فتنہ کے سدباب اور تدارک کے لیے تاریخ ساز خدمات انجام دئیے اور اس سلسلہ میں بالواسطہ وبلاواسطہ آگے آنے والوں کے لیے نمونہ عمل چھوڑا۔ مولانا نے فرمایا کہ بحیثیت مسلمان ہر ایک پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہر طریقہ سے اس فتنہ کا تعاقب کرے، اور اس فتنہ کے تعاقب، سدباب اور سرکوبی کے لئے ہر ممکنہ کوشش کرے۔ کیونکہ قادیانی اپنے منصوبوں پر عمل پیرا ہیں، جھوٹی نبوت کی تشہیر پورے زوروں سے جاری ہے اور مسلمان کو مختلف ہتھکنڈوں سے قادیانی بنایا جارہا ہے اور دوسری طرف امت مسلمہ کی ایک بڑی تعداد قادیانیوں کی ناپاک سازشوں سے بالکل ناواقف ہے۔ ایسے حالات میں ضروری ہیکہ ہم مرزا غلام احمد قادیانی کی حقیقت کو لوگوں کے سامنے لائیں۔


مفتی شفیق احمد قاسمی نے فتنۂ قادیانیت کی حقیقت کو تفصیل سے بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ مرزا کا نام غلام احمد والد کا نام غلام مرتضی، آبائی وطن قصبہ قادیان تحصیل بٹالہ ضلع گورداس پور پنجاب ہے، اسکی پیدائش 1839ء یا 1840ء میں ہوئی۔ مولانا نے فرمایا کہ اگر مرزا قادیانی کے صرف حسب و نصب پر ہی روشنی ڈالی جائے تو اسکے جھوٹ کا پردہ فاش ہوجائے گا، کیونکہ وہ اپنی اصل ونسل کے بارے میں متضاد بیانات دیتا رہا اور کسی ایک نسل یا خاندان پر اکتفا نہیں کیا۔ مولانا نے مرزا قادیانی کی تحریروں کی روشنی میں ارشاد فرمایا کہ مرزا قادیانی اس حد تک تضاد بیانی کا شکار تھا کہ کبھی وہ اپنے آپکو مغلوں کی شاخ برلاس کہتا تھا، تو کبھی فارسی الأصل ہونے کا دعویٰ کرتا اور جب طبیعت اس پر بھی اکتفا نہیں کرتی تو بیک جنبشِ قلم خود کو اسرائیلی اور فاطمی بھی قرار دینے لگا، پھر کبھی چینی تو کبھی مہدی بننے کے چکر میں بنی فاطمہ ہونے کا دعویٰ کرتا، حد تو یہ ہیکہ اس نے ہندو، سکھ اور آریوں کا پاشاہ ہونے کا بھی دعویٰ کیا۔


 مولانا قاسمی نے فرمایا کہ یہ بات مسلَّم ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے روحانی اور جسمانی قویٰ بالکل بے عیب اور عام لوگوں کے قویٰ سے مضبوط ممتاز اور برتر ہوتے ہیں ہاں انہیں بتقاضہ بشریت عارضی طور پر بعض بیماریاں مثلا ًبخار، سر درد وغیرہ لاحق ہوسکتیں ہیں لیکن ایسا نہ ہوگا کہ انبیاء کرام علیھم السلام ایسے موذی امراض میں مبتلا ہوں جو انہیں قبر تک پہنچا دیں اس کے برعکس مرزا قادیانی بیسیوں بیماریوں کا مجموعہ تھا اور ابتدائے عمر ہی سے مالیخولیا کا مریض تھا اور 1908ء میں ہیضہ میں مبتلا ہوکر نہایت عبرت ناک موت مرگیا۔ 


مولانا نے مرزا قادیانی کے دعوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ مرزا قادیانی نے 1880ء میں اپنے ملہم من اللہ ہونے کا دعویٰ کیا، 1881ء میں خود کو بیت اللہ قرار دیا، 1882ء میں مجدد ہونے کا، 1891 ء میں مسیح موعود ہونے کا، 1898ء میں مہدی ہونے کا 1899 ء میں ظلی بروزی نبی ہونے کا اور 1901ء میں باقاعدہ نبوت کا دعویٰ کیا۔ مولانا نے فرمایا کہ تاریخ میں بہت سے جھوٹے مدعی نبوت گزرے ہیں لیکن ان میں سے بہت کم مدعی ایسے ہیں جن کے دعوؤں کی تعداد دو یا تین سے متجاور ہو ہاں البتہ مرزا قادیانی اس میدان میں بھی سب سے جدا ہے، مرزا قادیانی نے اس کثرت سے دعوے کیے ہیں کہ اُن کا شمار ایک عام آدمی کے لیے بالکل محال ہے اور پھر دعوے بھی اتنے مضحکہ خیز ثناقض اور متضاد ہیں کہ یہ معلوم کرنا مشکل ہے کہ مرزا قادیانی جاندار ہے یا بے جان، انسان ہے چھلاوہ، مرد ہے یا عورت، مسلمان ہے یا ہندو، مہدی ہے یا مسیح، ولی ہے یا نبی۔ اسکے دعوؤں کو سن کر ایک عام انسان بھی یہ فیصلہ کرسکتا ہیکہ یہ کتنا بڑا جھوٹا ہے۔ 


مولانا نے فرمایا کہ اس کے دعوؤں کی طرح اسکی ہر پیشنگوئیاں بھی جھوٹی ثابت ہوئیں۔ مولانا نے فرمایا کہ 1893ء میں عیسائی پادری عبداللہ آتھم سے مناظرہ میں شکست کھانے کے بعد مرزا قادیانی نے پیشنگوئی کی کہ 05؍ ستمبر 1894ء کو آتھم مر جائے گا لیکن دنیا گواہ ہے کہ وہ پادری اس دن کے بعد بھی عرصہ دراز تک صیح سلامت موجود رہا۔ اسی طرح مرزا قادیانی نے خدا کے نام سے محمدی بیگم کے اپنے نکاح میں آنے کی پیشگوئی بار بار کی اور اس کے پورا نہ ہونے پر اپنی سزا خود تجویز کی، جبکہ محمدی بیگم کی شادی مرزا سلطان محمد سے ہوگئی، اس پر مرزا قادیانی نے سلطان محمد کے بارے میں بھی پیشگوئی کی کہ وہ ڈھائی سال کے اندر اندر مر جائے گا، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ مرزا قادیانی کی 1908ء میں موت آ گئی اور مرزا سلطان محمد زندہ رہا، مرزا سلطان محمد کے محمدی بیگم سے پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں ہوئیں۔ جو مرزا قادیانی کے کذب کی چلتی پھتی تصویریں تھے۔ مرزا قادیانی اس کی موت کو تقدیر مبرم کہتا تھا مگر مرزا کی اپنی تقدیر بدل چکی تھی نہ محمدی بیگم مرزا کی زندگی میں بیوہ ہوئی اور نہ مرزا کے نکاح میں آئی۔ مولانا قاسمی نے فرمایا کہ اسی طرح حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ کے بارے میں ایک تحریر میں اس نے پیشنگوئی کی کہ مجھے آپ مردود، کذاب، دجال، مفسد کے نام سے منسوب کرتے ہیں، لہٰذا اگر میں ایسا ہی ہوں تو میں آپ کی زندگی میں ہی ہلاک ہو جاؤں گا اور اگر نہیں تو آپ طاعون، ہیضہ وغیرہ مہلک بیماریوں سے میری زندگی میں ہلاک ہونگے۔ مولانا نے فرمایا کہ تاریخ گواہ ہیکہ اس پیشگوئی کے تقریباً ایک سال بعد مرزا قادیانی کی موت نے ”آخری فیصلہ“ کر دیا کہ وہ خدا کی طرف سے نہیں تھا کیونکہ اس کی موت مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ کی زندگی میں بقول اس کے ”خدائی ہاتھوں کی سزا“ سے یعنی ہیضہ میں مبتلا ہوکر ہوئی۔ 


مولانا نے فرمایا کہ ویسے تو مرزا قادیانی نے بہت ساری پیشنگوئیاں کی تھی جن میں سے بطور نمونہ چند پیشگوئیاں آپ احباب کے سامنے پیش کی ہیں، جن کو سن کر ہر صاحب عقل انسان مرزا قادیانی کی حقیقت کو جان سکتا ہے۔ بالخصوص وہ لوگ جو مرزا قادیانی کو، مجدد، مہدی، مسیح اور نبی مانتے ہیں ان کے لیے یہ ایک کسوٹی کی حیثیت رکھتی ہیکہ وہ مرزا کے اقوال کو پڑھیں اور افعال کی طرف بھی دیکھیں کیا اتنا بڑا جھوٹا انسان جو شرابی بھی ہو او ر زنا بھی کرتا ہو۔ مجدد، مہدی، مسیح اور نبی بننا تو بہت دور کی بات ہے، کیا ایک اچھا انسان کہلوانے کے بھی قابل ہے؟ مولانا نے فرمایا کہ مرزائی مسلمانوں کے ذہنوں میں حضرت مہدی اور حضرت عیسٰی علیہ اسلام کے مسائل محض اس لیے ڈالتے ہیں کہ مسلمان عوام مرزا قادیانی کی اس قسم کی باتوں پر غور نہ کریں اور نہ ان کو زیر بحث لائیں اور مرزا قادیانی کے ان تھوک جھوٹوں پر پردہ پڑا رہے۔ جبکہ ایک سادہ لوح مسلمان کیلئے قادیانیت کو جاننے اور سمجھنے کے لیے اس سے بہتر کوئی راہ نہیں کہ مرزا قایانی کی حالات زندگی اور اسکی پیشگوئیوں پر غور کریں۔ مولانا نے فرمایا کہ امت مسلمہ کے ہر ایک فرد کی ذمہ داری ہیکہ اس فتنۂ قادیانیت کی حقیقت کو لوگوں تک پہنچانے کی فکر کریں، اسکی حالات زندگی اور جھوٹی پیشنگوئیوں سے لوگوں کو واقف کروائیں، اس فتنہ کے تعاقب اور رد نیز ختم نبوت کی حفاظت کیلئے ہمہ وقت تیار رہیں اور اپنی پوری طاقت کے ساتھ جتنا ہوسکے کام کریں۔ قابل مبارکباد ہیں مرکز تحفظ اسلام ہند کے ذمہ داران نے انہوں نے ”پندرہ روزہ عظیم الشان تحفظ ختم نبوتؐ کانفرنس“ منعقد کرکے ان کاموں کا بیڑا اٹھایا ہے، اللہ تعالیٰ انکی کوششوں اور کاوشوں کو قبول فرمائے۔ قابل ذکر ہیکہ اس موقع پردارالعلوم دیوبند کے رکن شوریٰ حضرت مولانا مفتی محمد شفیق احمد قاسمی صاحب نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔


#Press_Release #News #khatmenabuwat #ProphetMuhammad #FinalityOfProphethood #LastMessenger #MTIH #TIMS #Qadiyani