مسجد اقصیٰ سے ہمارا ایمانی تعلق ہے، اہل فلسطین کیلئے دعاؤں اور قنوت نازلہ کا اہتمام کریں!
مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”تحفظ القد س کانفرنس“ سے مولانا محمد مقصود عمران رشادی کا خطاب!
بنگلور، 09؍ نومبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے تحریک تحفظ القدس کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان آن لائن ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی آٹھویں نشست سے خطاب کرتے ہوئے جامع مسجد سٹی بنگلور کے امام و خطیب حضرت مولانا ڈاکٹر محمد مقصود عمران رشادی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ سرزمین قدس، قبلۂ اول کی بنا پر تمام امت مسلمہ کا مشترکہ اثاثہ ہے۔ یہاں انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی کثرت بعثت کی بنا پر یہ ”سرزمین انبیاء“ بھی کہلاتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد ایک مدت تک بحکم الٰہی ”بیت المقدس“ کی جانب رخ کرکے نماز ادا کی ہے، اسی لیے یہ مسلمانوں کا قبلۂ اول کہلاتا ہے۔ معراج کی رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی مسجد اقصیٰ میں تمام انبیاء کرام علیہم السلام کو نماز پڑھائی اور ”امام الانبیاء“ کے شرف سے مفتخر ہوئے اور پھر یہیں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ سفر معراج شروع ہوا، جس نے انسانیت کو سرعرش مہمان نوازی کا اعزاز عطا کیا۔ مولانا نے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو مسجد حرام سے سیدھے آسمانوں کی طرف سفر ہو سکتا تھا، لیکن درمیان میں بیت المقدس کو لا کر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت کے ذریعہ یہ عظیم پیغام دیا کہ اسلام میں بیت المقدس اور مسجد اقصی کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ بیت المقدس کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ یہ مسلمانوں کا قبلۂ اول رہا ہے۔ اس بنا پر امت محمدیہ کا سرزمین فلسطین، مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کے ساتھ ایک ایمانی رشتہ قائم ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ یہودی قوم پچھلے ستر سالوں سے اہل فلسطین پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہی ہے، یوں تو اس قوم کے ہاتھ انبیاء کرام علیہم السلام جیسی مقدس جماعت کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اور آج یہ فلسطین پر قابض ہوکر، وہاں صدیوں سے آباد مسلمانوں کا قتل عام کرکے انھیں نقل مکانی پر مجبور کررہے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ اہل فلسطین یہود کے مظالم کا مقابلہ کرنے کے لیے مادی وسائل کی قلت کا شکار ہونے کے باوجود آج تک نبرد آزما ہیں، لیکن مسلم حکمران جو طاقت، دولت اور بے شمار وسائل سے مالا مال اور لیس ہیں، وہ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ تقریباً ایک مہینے سے غزہ کی پٹی پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں، گھروں سے لیکر تعلیم گاہوں تک، مسجد سے ہسپتال تک سب کچھ تباہ و برباد کردیئے گئے، بچے، بوڑھے، جوان، مرد و عورت یکساں ان مظالم سے دوچار ہوئے، فلسطینی شہداء ہزاروں کی تعداد سے متجاوز ہوگئی، لیکن عالمی اسلامی تنظیموں خصوصاً مسلم حکمرانوں کی بے حسی و بے بسی تماشائے عالم بنی ہوئی ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ فلسطین کے حالات کی وجہ سے ہر انصاف پسند،صاف دل اور زندہ ضمیر رکھنے والا شخص رنجیدہ ہے۔ غزہ کے لاکھوں بے قصور عوام پر قیامت ٹوٹ رہی ہے، ہر طرف انسانی نعشوں کا دل دہلانے والا منظر ہے، جس سے پوری دنیا بالخصوص پورا عالم اسلام بے چینی کا شکار ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ تاریخی حیثیت سے مسجد اقصیٰ ہی وہ ایک مسئلہ ہے جس سے ہمارے شرعی ثوابت، تاریخی حقوق اور ہمارے تہذیب و تمدن کے بڑے کارنامے متعلق ہیں، لہٰذا اسکی حفاظت پوری امت کی مشترکہ ذمہ داری ہے اور مسئلہ فلسطین پوری ملت اسلامیہ کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ ہم قبلہ اوّل مسجد اقصیٰ کی حفاظت کرنے والے فلسطین و غزہ کے مظلوم مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے انکی جرأت و عزیمت کو سلام پیش کرتے ہیں۔ مولانا رشادی نے فرمایا کہ اب مسلمانوں کی ذمہ داری ہیکہ وہ اہل فلسطین کی مدد کریں، ان کے حق میں دعائیں کریں، قنوت نازلہ کا اہتمام کریں، اپنی تقریر و تحریر میں ارضِ فلسطین کو موضوع سخن بنائیں اور اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں، یہ سب ہمارے دائرہ اختیار سے باہر نہیں ہے، اور باتوفیق مسلمان اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ان پر عمل پیرا ہونے کی کوشش بھی کررہے ہیں اور کرنا بھی چاہیے۔ مولانا نے تمام انسانیت دوست ممالک، حقوق انسانی کی محافظ تنظیمیں خاص طور پر اقوام متحدہ سے اپیل کی کہ وہ فوری کارروائی کرتے ہوئے فلسطین میں امن کو قائم فرمائیں اور انکی مدد فرمائیں۔ مولانا نے ہندوستان کی حکومت، وزیر اعظم اور کرناٹک کے وزیر اعلیٰ سے بھی درخواست کی کہ وہ عالمی سطح پر ملک کی جانب سے اپنے سابقہ موقف پر قائم رہتے ہوئے فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کریں، انکی مدد و معاونت کریں اور وہاں جنگ بندی کرنے اور امن کے قیام کی کوششوں کریں۔ قابل ذکر ہیکہ اس موقع پر حضرت مولانا محمد مقصود عمران رشادی صاحب مدظلہ نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔
#Press_Release #News #Alquds #Palestine #Gaza #Alqudsseries #MasjidAqsa #MasjidAlAqsa #BaitulMaqdis #AlqudsConference #MTIH #TIMS
No comments:
Post a Comment