Showing posts with label Payam-e-Furqan. Show all posts
Showing posts with label Payam-e-Furqan. Show all posts

Thursday, 13 January 2022

پیام فرقان - 15

 { پیام فرقان - 15 }



🎯باطل سے دبنے والے، اے آسماں نہیں ہم! 


✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


اس حقیقت سے انکار نہیں کہ بھارت میں مسلم دشمن قوتوں کے پاس حکومت واقتدار ہے، ان کے پاس مسلح افواج، پولیس، سیکورٹی فورسز سبھی کچھ ہیں۔ اسکے علاوہ دنیا کی اسلام مسلمان دشمن طاقتیں بھی انہیں کی طرفدار ہیں۔ آج اسلام مسلمان دشمن اقتدار پر اس طرح قابض ہیں کہ ان کے لیے مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنا آسان ہو گیا ہے۔ یہی وجہ ہیکہ بھارت کی اس سرزمین پر مسلمان فرقہ وارانہ عناصر کی طرف سے کئے جانے والے حملوں اور حکومت کی جانب سے ان کے ساتھ ناانصافی اور جانبدارنہ رویہ سے خوفزدہ اور پریشان نظر آتے ہیں۔ ملک میں موجودہ صورتحال یہ ہے کہ فرقہ وارانہ عناصر مسلمانوں کے خلاف بشمول نسل کشی کے کسی بھی قسم کے مظالم ڈھانے کے لیے آزاد ہیں۔ بھارت میں ہوئے کسی بھی فرقہ وارانہ حملوں کے خلاف آج تک کوئی مناسب کارروائی نہیں کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ معصوم اور بے قصور مسلمانوں کو جھوٹے الزام میں گرفتار کرکے انہیں جیلوں میں کئی سال سے مقید کرکے رکھا گیا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ہمیں یقین ہیکہ یہ فرقہ پرست دہشت گرد عناصر ہندوستان کی اس سرزمین پر وہی کہانی دہرانا چاہتے ہیں جو اندلس، سسلی، بوسنیا، سنٹرل افریقہ، فلسطین اور میانمار میں اسلام دشمنوں کے ذریعہ دہرائی گئیں تھی۔ لیکن یہ چیزیں زندہ قوموں کو مایوس کرنے کی بجائے مزید حوصلہ دیتی ہیں اور متحرک رکھتی ہیں۔ کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ جب جب اللہ کے دین پر آنچ آئی ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے دین کی حفاظت کے لیے یا تو غیبی مدد بھیجی ہے یا ایسے دین پرور بندوں کا انتخاب کیا ہے کہ جنہوں نے دشمنوں کے ہر وار کا مقابلہ کیا اور ہر بات کا منھ توڑ جواب دیا۔ لہٰذا دشمنانِ اسلام اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے سے وہ اپنی سازشوں میں کامیاب ہوجائیں گے، یا چند مسلمانوں اور مسجدوں کو شہید کردینے سے مسلمانوں کو ڈر و خوف میں مبتلا کردینگے۔ بلکہ انہیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ مسلمانوں کی تاریخ یہ ہیکہ مسلمان خون کے بحر قلزم سے گزر کر بھی عزیمت و جرأت کی نئی داستان لکھا کرتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے کیا خوب کہا:

باطل سے دبنے والے، اے آسماں نہیں ہم

سو بار کر چکا ہے، تو امتحاں ہمارا

تیغوں کے سایے میں ہم، پل کر جواں ہوئے ہیں

خنجر ہلال کا ہے، قومی نشاں ہمارا


فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

13؍ جنوری 2022ء بروز جمعرات

صدیق نگر میسور بعد نماز فجر


+918495087865

mdfurqan7865@gmail.com



#PayameFurqan #پیام_فرقان

#ShortArticle #MTIH #TIMS #Islam #Muslim

Friday, 15 October 2021

پیام فرقان - 15

 { پیام فرقان - 15 }



🎯حضورﷺ پوری نسلِ انسانی کے لیے نمونۂ کاملہ ہیں!


✍️بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


قرآن و حدیث اور ان کی تشریحات و توضیحات کا تمام ذخیرہ چھان لیں ہمیں از اوّل تا آخر ایک ہستی، ایک ذات اور ایک شخصیت دکھائی دیتی ہے، جو اس پوری بزم کون و مکاں میں محبوبیت عظمیٰ کے مقام پر فائز ہے اور وہ ہے ہمارے آقائے نامدار حضرت محمد رسول اللہﷺ کی ذاتِ اقدس۔ آپﷺ کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے نسلِ انسانی کے لیے نمونۂ کاملہ اور اسوۂ حسنہ بنایا ہے۔ چنانچہ اللہ نے قرآن مجید کے سورۃ الاحزاب میں اعلان کر دیا ”لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللَّہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ“ کہ ”اے مسلمانو! تمہارے لیے اللہ کے رسولﷺ کی زندگی بہترین عملی نمونہ ہے۔“ آپ ؐ کے طریقہ کو فطری طریقہ قرار دیا ہے۔ محسن انسانیتؐ کی معمولات زندگی ہی قیامت تک کے لیے شعار و معیار ہیں۔ پوری انسانیت کیلئے صبح قیامت تک نبی کریمؐ کی سنت و شریعت ہی مشعلِ راہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیرت النبیؐ کا ہر گوشہ تابناک اور ہر پہلو روشن ہے۔ یومِ ولادت سے لے کر روزِ رحلت تک کے ہر ہر لمحہ کو قدرت نے لوگوں سے سند کے ساتھ محفوظ کرادیا ہے۔ جسکی جامعیت و اکملیت ہر قسم کے شک و شبہ سے محفوظ ہے۔ دنیائے انسانیت میں کسی بھی عظیم المرتبت ہستی کے حالات زندگی، معمولات زندگی، انداز و اطوار، مزاج و رجحان، حرکات و سکنات، نشست و برخاست اور عادات وخیالات اتنے کامل ومدلل طریقہ پر نہیں ہیں،جس طرح کہ ایک ایک جزئیہ سیرت النبیﷺ کا تحریری شکل میں دنیا کے سامنے ہے۔ یہاں تک کہ آپؐ سے متعلق افراد اور آپؐ سے متعلق اشیاء کی تفصیلات بھی سند کے ساتھ سیرت و تاریخ میں ہر خاص و عام کو مل جائیں گی۔ یہ قدرت کا عجیب ہی کرشمہ ہے تاکہ قیامت تک آنے والی نسل قدم قدم پر آقائے دوعالم صلعم کی معلومات زندگی سے استفادہ حاصل کرتے ہوئے اپنے آپ کو اسوۂ حسنہ کے رنگ میں رنگ لیں۔ اس لیے کہ اس دنیائے فانی میں ایک پسندیدہ کامل زندگی گذارنے کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسلام کو نظامِ حیات اور رسول اللہﷺ کو نمونۂ حیات بنایا ہے۔ وہی طریقہ اسلامی طریقہ ہوگا جو رسول اللہؐ سے قولاً، فعلاً منقول ہے۔ آپؐ کا طریقہ سنت کہلاتا ہے اور آپؐ نے فرمایا ہے ”فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِی فَلَیْسَ مِنِّی“ کہ جس نے میرے طریقے سے اعراض کیا وہ مجھ میں سے نہیں ہے (بخاری و مسلم)۔ اور یہی طریقۂ سنت ہمیں جنت میں لے جائے گا اور اللہ سے ملائے گا۔

نقش قدم نبی ؐکے ہیں جنت کے راستے

اللہ سے ملاتے ہیں سنت کے راستے


فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

14؍ اکتوبر 2021ء شب جمعہ

منہاج نگر، بنگلور بعد نماز عشاء

+918495087865

mdfurqan7865@gmail.com


#PayameFurqan #پیام_فرقان

#ShortArticle #MTIH #TIMS #SeeratunNabi #ProphetMuhammad

Thursday, 7 October 2021

پیام فرقان - 14

 { پیام فرقان - 14 }



🎯حالات سے گھبرانے کی ضرورت نہیں!


✍️بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


تاریخ عروج وزوال شاہد ہے کہ قوموں کی زندگیوں میں ایسے سخت حالات آتے ہیں، جہاں انھیں اپنا وجود بھی خطرے میں نظر آنے لگتا ہے۔ بالخصوص مسلمان، جو روئے زمین پر خالق کائنات کی مرضیات کے نمائندے اور اس کے احکام تشریعیہ کے پابند ہیں، جب وہ اپنی منصبی ذمہ داریوں کو ادا نہیں کرتے اور بے اعتدالیوں کے شکار ہوکر جادئہ حق سے ہٹنے لگتے ہیں تو ان کے ارد گرد حالات کا گھیرا تنگ کردیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی بے راہ روی کو چھوڑ کر مرضیِ حق کے تابیع ہوجائیں۔ لہٰذا مسلمانوں کو حالات سے گھبرانے یا مایوس ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، بس اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی طرف توجہ دیں کیونکہ اسلامی تاریخ میں موجودہ حالات سے بھی بد ترین حالات کا مسلمانوں کو سامنا کرنا پڑا ہے اور دشمنان اسلام، دین اسلام یا مسلمانوں کو دنیا سے ختم کرنے کی اپنی سازشوں اور بھر پور کوششوں میں ناکام ہوئے ہیں، دشمنوں کو ناکام کرنے کے لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم صبر کے ساتھ ثابت قدم رہیں، اللہ کی طرف رجوع کریں، نمازوں کے ذریعہ اللہ سے مدد طلب کریں، اپنی ذمہ داریوں کو ادا کریں اور اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں۔ ان شاء اللہ کامیابی آپکے قدم چومے گی۔


فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

07؍ اکتوبر 2021ء بروز چہارشنبہ

منہاج نگر، بنگلور بعد نماز عصر 

+918495087865

mdfurqan7865@gmail.com


#PayameFurqan #پیام_فرقان

#ShortArticle #MTIH #TIMS #Islam #Muslim

Wednesday, 6 October 2021

پیام فرقان - 13

 { پیام فرقان - 13 }



🎯اتحادِ امت وقت کی اہم ضرورت!


✍️بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


اس وقت مسلمان پوری دنیا بالخصوص وطن عزیز ملک بھارت میں جن حالات سے گزر رہے ہیں وہ قابل تشویشناک ہے۔ دشمن طاقتیں جانتی ہیں کہ مسلمانوں کی کامیابی کا راز ان کے اتحاد و اتفاق اور ان کی اجتماعیت میں پوشیدہ ہے اس لئے وہ پوری قوت اس پر صرف کر رہی ہیں کہ یہ قوم متحد نہ ہوسکے افسوس کہ ہم میں سے بہت سے لوگ دشمنوں کو کامیاب ہونے کا موقع دے رہے ہیں اور مسلمانون میں اختلاف و انتشار کا سبب بن رہے ہیں۔ ہمیں اس بات کو ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ ہماری کامیابی کے لئے سب سے اہم اور بنیادی چیز ایمان و یقین اور عزم و حوصلہ کی مضبوطی کے بعد اتحاد و اتفاق اور اجتماعیت ہے، اس کے بغیر ہم اس ملک میں کبھی حوصلہ اور عزت و وقار کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتے اور نہ ہی اپنی حیثیت عرفی قائم رکھ سکتے ہیں۔ لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ یہ آپسی انتشار و افتراق اور تقسیم و تفریق اس قوم میں ہے جس کا نقطۂ اتحاد لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہﷺ ہے، جس کا مرکزِ اتحاد کعبۃ اللہ ہے۔ آج مسلمانوں کے سارے مسائل کا حل ان کی اجتماعیت اور اتحاد میں چھپی ہے۔ موجودہ حالات میں خواہ وہ کسی بھی ملک کے ہوں، ہماری اجتماعیت وقت کا سب سے بڑا تقاضا ہے، اس سلسلے میں یہ امید یا مطالبہ تو زیادہ ہی سادگی کے مرادف ہوگا کہ ہم اپنے تمام تر اختلافات بھلاکر ایک ہوجائیں اور اپنی اپنی صفوں میں اتحاد کو قائم کریں۔ خدا کی قسم اگر ہم سب مسلمان متحد ہو جائیں تو کسی بھیڑئیے کی مجال نہیں ہے کہ وہ ہماری طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ سکے۔ 

علامہ اقبال رحمہ اللہ نے کیا خوب کہا:

منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک

ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک

حرم پاک بھی ایک اللہ بھی قرآن بھی ایک

کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک


فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

06؍ اکتوبر 2021ء بروز چہارشنبہ

منہاج نگر، بنگلور رات 9 بجے

+918495087865

mdfurqan7865@gmail.com


#PayameFurqan #پیام_فرقان

#ShortArticle #MTIH #TIMS #Itihad #Islam #Muslim

Thursday, 2 September 2021

پیام فرقان - 12



🎯سوشل میڈیا اصلاح امت کا بہترین ہتھیار ہے!


✍️بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے انبیاء کو معبوث فرمایا اور اپنا پیغام انسانوں تک پہنچانے کی ذمہ داری سونپی تھی۔ انبیاء علیہم السلام نے اس ذمہ داری کو ادا کیا اور اس کی ادائیگی کے لیے وہ تمام وسائل اختیار کیے جو اس زمانے میں موجود تھے۔ آج ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے۔ عصر حاضر میں سوشل میڈیا کی اہمیت سے کوئی شخص بھی انکار نہیں کرسکتا۔ دنیا بھر میں سماجی، سیاسی اور معاشی تبدیلیوں کے تناظر میں سوشل میڈیا کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعہ بات سیکنڈوں میں بڑی تعداد اور بہت دور تک پہنچ جاتی ہے۔ زندگی کے ہر شعبہ پر سوشل میڈیا کے اثرات کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا افراد اور اداروں کو ایک دوسرے سے مربوط ہونے، خیالات کا تبادلہ کرنے، اپنے پیغامات کی ترسیل اور انٹرنیٹ پر موجود دیگر بہت سی چیزوں کو ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ آج ذرائع ابلاغ میں سوشل میڈیا کا استعمال سب سے زیادہ ہے۔ لیکن سوشل میڈیا کا استعمال بے حیائی و بد اخلاقی کو پھیلانے، ناچ گانوں، گندی فلموں کے ذریعہ نئی نسل کو با مقصد زندگی سے غافل کرنے، مغربی تہذیب کو فروغ دینے، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے، اسلامی تعلیمات کا مذاق اڑانے کیلئے کیا جارہا ہے۔ ایسے حالات میں امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس میدان میں آگے آئیں اور میڈیا کو اسلام کے صاف شفاف پیغام کو پہنچانے کا ذریعہ بنائیں۔ نئی نسل کو درست رخ دینے کے لیے اس کا استعمال کیا جائے۔ سوشل میڈیا کے مختلف شعبوں کے ذریعے امت کی اصلاح کی کوششیں کریں کیونکہ عصر حاضر میں سوشل میڈیا اصلاح امت کا بہترین ہتھیار ہے!


فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

02؍ ستمبر 2021ء بروز جمعرات

برہما پور، اڑیسہ صبح 9 بجے


+918495087865

mdfurqan7865@gmail.com


#PayameFurqan #پیام_فرقان

#ShortArticle #MTIH #TIMS #SocialMedia #Islam #Muslim

Wednesday, 1 September 2021

پیام فرقان - 11



🎯دارالعلوم دیوبند زندہ تھا، زندہ ہے اور قیامت تک زندہ رہے گا، ان شاء اللہ!


✍️بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


ہندوستان کی آزادی میں دارالعلوم دیوبند نے ایک اہم اور مؤثر کردار ادا کیا ہے۔ سیکڑوں فارغین دیوبند نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ آزادی کی جد وجہد میں لگا دیا۔ دارالعلوم دیوبند کے بانیین، فارغین اور شاگردان شیخ الہند کی ایک طویل فہرست ہے جو ہندوستان کو انگریزوں کے چنگل سے نکالنے کے لیے آزادی کی جدو جہد میں لگے رہے، طرح طرح کی مصیبتیں اٹھائیں، جلاوطنی کی زندگی بسر کی، مگر ظالم و جابر انگریز کی غلامی اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کو پسند نہیں کیا۔ ایسے ایسے مجاہدین نے دارالعلوم دیوبند کی کوکھ سے جنم لیا جنھوں نے حریت ہند کے لیے اپنی رگ جاں کے آخری قطرہ تک کو نچوڑ دیا؛ لیکن ان کے پائے ثبات میں کبھی لغزش تک نہ آئی۔ ان محبین وطن نے وطن دوستی کا ثبوت دیا، ملک کی آزادی کے لیے اپنی جد و جہد شروع کی اور انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے کیلئے ہر طرح کے مصائب برداشت کئے، ہمیشہ برطانوی سامراج کے نشانے پر رہے لیکن اس ملک کو آزادی کی سانس دلا کر ہی دم لیا۔ مگر آج افسوس اس بات پر ہے جس دارالعلوم دیوبند نے ہندوستان کی آزادی و تعمیر میں اپنے جیالوں کا خون پانی کی طرح بہایا، جس کے جیالے جیل کی سلاخوں کے پیچھے رات و دن گزارے اور جس کے سپوتوں نے مادر وطن کو آزاد کراکر ہی دم لیا، آج اس کی قربانیوں کو فراموش کرکے اس کے فرزندوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔ اس دارالعلوم دیوبند پر پابندی لگانے اور اسے بند کروانے کی بات کی جارہی ہے۔ لیکن ان لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ دارالعلوم دیوبند کو بند کروانے کیلئے برطانوی سامراج سے لیکر آج تک ہزاروں نے کوشش کی اور کوشش کرتے کرتے مر گئے لیکن اسکے برعکس دارالعلوم دیوبند آج بھی زندہ ہے اور ان شاء اللہ قیامت تک زندہ رہے گا۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا:

دیوبند کا تاریخ کے اندر ہر کردار نرالا ہے

رب کی قسم اسلاف کا میرے ہر شہکار نرالا ہے

اس لشکر کے جانبازوں سے ہر باطل گھبرایا ہے

ظلم و ستم کے دور کے اندر حق کا دیپ جلایا ہے

دیوبند نے اسلام کا پرچم دنیا پر لہرایا ہے



فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

یکم؍ ستمبر 2021ء بروز بدھ

نلور، آندھراپردیش بعد نماز مغرب


+918495087865

mdfurqan7865@gmail.com


#PayameFurqan #پیام_فرقان

#ShortArticle #MTIH #TIMS #Deoband #DarulUloom #DarulUloomDeoband

Tuesday, 31 August 2021

پیام فرقان - 10



🎯ائمہ مساجد کی عظمت اور جاہل ذمہ دارانِ مساجد!


✍️بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


اسلام میں امامت کا درجہ اور منصب بہت اہم باعزت وعظمت والا ہے۔ لیکن افسوس کا مقام ہیکہ آج کل اگر مساجد کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہیکہ اکثر مساجد میں ائمہ کرام کی ناقدری ایک عام وبا کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ بالخصوص ذمہ داران مساجد کے پاس تو امام و مؤذن کی کوئی قدر ہی نظر نہیں آتی، یہاں تک کہ بعض دفعہ امام و مؤذن پر ارکان کمیٹی کا ظلم و ستم ناقابل بیان ہوتا ہے۔ ہر دوسری مسجد میں مظلوم امام پر ظالم کمیٹیوں کا ظلم عروج پر ہے۔ اسکی ایک بنیادی وجہ یہ ہیکہ مسجد کی کمیٹی کا انتخاب شریعت کے اصولوں پر نہیں ہوتا۔ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند کے مفتیان کرام فرماتے ہیں کہ ”مسجد کمیٹی کے لیے ایسے افراد کا انتخاب ہونا چاہیے جو دیانت دار اور دین دار ہوں، فسق وفجور کی چیزوں مثلاً ترکِ نماز، فلم بینی اور ڈاڑھی منڈوانے سے بچتے ہوں نیز ان کے اندر انتظامی امور کو سمجھنے اور انہیں انجام دینے کی صلاحیت بھی ہو، انتخاب مذکورہ بالا اوصاف کے حامل لوگوں کا ہی ہونا چاہیے، خائن، فسق وفجور میں مبتلا بے نمازی یا ریش تراشیدہ کو امور مسجد کے ذمے داری سونپنا جائز نہیں ہے“ ( فتاویٰ دارالعلوم : 154220)۔ معلوم ہوا کہ مسجد کمیٹی کے انتخاب کے بھی کچھ اصول ہیں لیکن آج کل مسجد کمیٹی کا انتخاب شریعت کے ان اصولوں کے برخلاف ہوتا ہے اور مساجد کے ذمہ داران میں اکثر لوگ فسق و فجور میں مبتلا، بے نمازی، فلم بینی اور ڈاڑھی منڈھے ہی شامل رہتے ہیں۔ اب جسے شریعت کی شین اور مسجد کی میم کا بھی علم نہ ہو وہ امام و مؤذن کی قدر کیا جانے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ایک طرف ہم ایک شخص کو اپنا امام یعنی سردار بھی تسلیم کررہے ہیں تو وہیں دوسری طرف اس کی ناقدری بھی کررہے ہیں، جو شرعاً و اخلاقاً کسی بھی طرح درست نہیں ہے اور سراسر غلط اور عذاب کا باعث ہے۔  حضرت مفتی عبد الرحیم صاحب لاجپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ”فی زمانہ یہ ذمہ داری متولیانِ مسجد اور محلہ و بستی کے بااثر لوگوں کی ہے، ان کو اس اہم مسئلہ پر توجہ دینا بہت ضروری ہے، ائمہ مساجد کے ساتھ اعزاز و احترام کا معاملہ کریں، ان کو اپنا مذہبی پیشوا اور سردار سمجھیں، ان کو دیگر ملازمین اور نوکروں کی طرح سمجھنا منصبِ امامت کی سخت توہین ہے، یہ بہت ہی اہم دینی منصب ہے، پیشہ ور ملازمتوں کی طرح کوئی ملازمت نہیں ہے، جانبین سے اس عظیم منصب کے احترام، وقار، عزت، عظمت کی حفاظت ضروری ہے ۔“ (فتاویٰ رحیمیہ ۹/ ۲۹۳جدید)۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ مسجد کمیٹی کے انتخاب میں شریعت کے اصولوں کی پابندی کریں اور مساجد پر سے احمقوں اور جاہلوں کی اجارہ داری ختم کرانے کی کوشش کریں۔ کیونکہ امام و مؤذن کا عزت و احترام کرنا ہر ایک مسلمان بالخصوص ذمہ داران مساجد پر لازم ہے۔



فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

30؍ اگست 2021ء بروز پیر

+918495087865

mdfurqan7865@gmail.com


#PayameFurqan #پیام_فرقان

#ShortArticle #MTIH #TIMS #Islam #Imam #Mauzin

Sunday, 29 August 2021

پیام فرقان - 09



🎯غلبہ اسلام پوری دنیا پر آکر رہیگا!


✍️بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


امریکہ دنیا میں اپنی اقدار نافذ کرنا چاہتا ہے اور اسلام امریکہ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ یہی وجہ ہیکہ پوری دنیا میں مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دیا جارہا ہے جبکہ ہر جگہ مسلمان خود ظلم اور دہشت گردی کے شکار ہیں۔ دنیا بھر میں مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے اور اُنہیں ہی دہشت گرد قرار دیا جارہا ہے کیونکہ مغرب کو خطرہ دہشت گردی سے نہیں بلکہ اسلام، اس کی دعوت اور اس کے حسن سے ہے۔ امریکہ اسلام کے حسن کے دنیا پر آشکارا ہوجانے کے ڈر سے اس کے خلاف شور مچا رہا ہے۔ کفر کی تمام طاقتیں مسلمانوں پر حملہ آور ہیں اور عالم اسلام کے خلاف فوجی، سیاسی، اقتصادی اورثقافتی جنگ جاری ہے اور اسلام کی اقدار اور تہذیب تباہ کردینا چاہتے ہیں۔ لیکن انہیں نہیں معلوم کہ وہ دن دور نہیں جب پوری دُنیا میں ایک بار پھر اسلام کا پرچم لہرائے گا اور دین اسلام غالب آکر رہے گا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے سورہ توبہ میں واضح الفاظ میں فرما دیا کہ يُرِيدُونَ أَن يُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَن يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ کہ وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنے مونہوں سے بجھا دیں، اور اللہ اپنی روشنی کو پورا کیے بغیر نہیں رہے گا اور اگرچہ کافر ناپسند ہی کریں۔ اور آگے فرمایا هُوَ الَّـذِىٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَـهٝ بِالْـهُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٝ عَلَى الـدِّيْنِ كُلِّـهٖ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُـوْنَ کہ اس (اللہ) اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا ہے تاکہ اسے سب دینوں پر غالب کرے اور اگرچہ مشرک ناپسند کریں۔ تو معلوم ہوا کہ دین اسلام دنیا میں غالب ہونے کے لئے آیا ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت یعنی قرآن پاک اور دین حق یعنی اسلام دے کر بھیجا ہے تاکہ اس دین کو تمام ادیان پر غالب کردے۔

اس دنیا کے آفاق پر، رحمت کا بادل چھائے گا

اور پاک سے پاکیزہ تر، پورا عالم ہوجائے گا

پھر کفر کا ،الحاد کا، سکہ نہ چلنے پائے گا

پیغمبرِ اسلام کا، پرچم یہاں لہرائے گا

اسلام غالب آئے گا، اسلام غالب آئے گا



فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

28؍ اگست 2021ء بروز سنیچر

+918495087865

mdfurqan7865@gmail.com


#PayameFurqan #پیام_فرقان

#ShortArticle #MTIH #TIMS #Islam #Muslim

Saturday, 28 August 2021

پیام فرقان - 08




🎯دشمنانِ عمر ؓ کا منھ بند کرنے کیلئے یہ ایک اعزاز خداوندی ہی کافی ہے!


✍️بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


امیر المومنین، خلیفۃ المسلمین حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے یکم محرم الحرام سن 24 ھ کو جام شہادت نوش فرمائی۔ اور روضۂ نبوی میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پہلو میں مدفون ہوئے۔ یہ مشیت خداوندی ہی ہے کہ اسلامی سال کی ابتداء ہی شہادت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ہوتی ہے اور پھر مرقد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سرہانے تا قیامت استراحت کیلئے دو گز جگہ بھی عطا ہوگئی۔ قیامت تک جو بھی مسلمان روضۂ اقدس میں سلامی کیلئے حاضر خدمت ہوگا وہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ پر سلام بھیجے بغیر آگے نہ بڑھ سکے گا۔ دشمنان صحابہ بالخصوص دشمنانِ عمر ؓ کا منہ بند کرنے کیلئے یہ ایک اعزاز خداوندی ہی کافی ہے۔


فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

28؍ اگست 2021ء بروز سنیچر

+918495087865

mdfurqan7865@gmail.com


#PayameFurqan #پیام_فرقان

#ShortArticle #MTIH #TIMS #UmarFarooq

Wednesday, 25 August 2021

پیام فرقان 07




🎯شہداء کربلا کا پیغام!


✍️بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


نواسۂ رسول، جگر گوشۂ بتول حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے جس پامردی اور صبر سے کربلا کے میدان میں مصائب و مشکلات کو برداشت کیا وہ حریت، جرأت اور صبر و استقلال کی لازوال داستان ہے۔ باطل کی قوتوں کے سامنے سرنگوں نہ ہو کر آپ نے حق و انصاف کے اصولوں کی بالادستی، حریت فکر اور خدا کی حاکمیت کا پرچم بلند کرکے اسلامی روایات کی لاج رکھ لی۔ اور انھیں ریگزارِ عجم میں دفن ہونے سے بچا لیا۔ حضرت حسینؓ کا یہ ایثار اور قربانی تاریخ اسلام کا ایک ایسا درخشندہ باب ہے، جو رہروان منزل شوق و محبت اور حریت پسندوں کیلئے ایک اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔ نواسۂ رسول حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب، سیرت و کردار اور کارناموں سے تاریخ اسلام کے ہزاروں صفحات روشن ہیں۔ سانحہ کربلا سے ایک اہم پیغام یہ بھی ملتا ہیکہ ”حق کیلئے سر کٹ تو سکتا ہے لیکن باطل کے سامنے سر جکھ نہیں سکتا۔“

مولانا محمد علی جوہر ؒ نے کیا خوب کہا:

قتل حسین اصل میں مرگِ یزید تھا

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد


فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

25؍ اگست 2021ء بروز چہارشنبہ

+918495087865

mdfurqan7865@gmail.com


#PayameFurqan #پیام_فرقان

#ShortArticle #Karbala #Husain #MTIH #TIMS

Thursday, 1 July 2021

مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحبؒ ایک عہد ساز شخصیت!



 مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحبؒ ایک عہد ساز شخصیت!


✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


 قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ قرب قیامت میں علماء حق کی پے درپے وفات ہو گی۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ”بے شک اللہ تعالیٰ اس طرح علم نہ اٹھائے گا کہ اسے بندوں سے کھینچ لے، بلکہ علماء کو اٹھا کر اسے اٹھائے گا، یہاں تک کہ جب (زمین پر) کسی عالم کو باقی نہ چھوڑے گا تو لوگ جاہلوں کو پیشوا بنالیں گے، جن سے مسائل پوچھے جائیں گے تو وہ جاہل بغیر علم کے فتویٰ دیں گے تو خود گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے“، (بخاری)۔ اسی لئے علماء کی وفات کو پورے عالَم کی وفات سے تعبیر کیا گیا ہے۔ قحط الرجال کے اس دور میں علماء اور اہل علم کا یکے بعد دیگرے اٹھ جانا کسی سانحہ سے کم نہیں ہے۔ آسمان علم و معرفت کے ستاروں میں سے ایک تارہ اور ٹوٹ گیا۔ اخلاص و تقویٰ کے روشن چراغوں میں سے ایک دیا اور بجھ گیا۔ گزرے وقتوں کے باخدا بزرگوں اور پچھلے زمانوں کے ربانی علماء کی ایک جیتی جاگتی نشانی، عالم اسلام کی نامور شخصیت، خادم کتاب و سنت، ترجمان حق و صداقت، یادگار اسلاف، میر کارواں، شیخ طریقت، رہبر شریعت، امارت شرعیہ بہار،اڑیسہ و جھارکھنڈ کے امیر شریعت، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری، خانقاہ رحمانی مونگیر کے سجادہ نشین، رحمانی تھرٹی اور رحمانی فاؤنڈیشن کے بانی،دارالعلوم ندوۃ العلماء کے رکن، جامعہ رحمانی مونگیر اور درجنوں اداروں کے سرپرست، مفکر اسلام حضرت اقدس مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ مورخہ 20؍ شعبان 1442ھ مطابق 03؍ اپریل2021ء بروز سنیچر دوپہر ڈھائی بجے پٹنہ کے پارس ہاسپٹل میں مختصر علالت کے بعد راہ ملک بقاء ہوگئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون، ان اللہ ما اخذ ولہ مااعطی وکل شء عندہ بأجل مسمی۔

جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں 

کہیں سے آب بقائے دوام لاساقی


 حضرت علیہ الرحمہ کے انتقال کے دوسرے دن صبح 11؍ بجے مونگیر میں حضرت کے خلیفہ ئاجل حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب مدظلہ نے لاکھوں افراد کی موجودگی میں انکی نماز جنازہ پڑھائی اور خانقاہ رحمانی میں انکے والد حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانی صاحبؒ کے پہلو میں سپرد خاک کردیا گیا۔ حضرت امیر شریعتؒ کا انتقال ایک عظیم خسارہ ہے بلکہ ایک عہد کا خاتمہ ہے جو امت مسلمہ کیلئے ناقابل تلافی نقصان ہے۔ لیکن خالق کائنات اللہ رب العزت نے ہر جاندار کے لئے موت کا وقت اور جگہ متعین کردی ہے اور موت ایسی شی ہے کہ دنیا کا کوئی بھی شخص اس سے محفوظ نہیں۔ کیونکہ موت ایک ایسی حقیقت ہے جسے قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں، یہ ایک ایسی کیفیت ہے جس سے کسی کو بھی مفر نہیں، جب پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو موت نے اپنے آغوش میں لے لیا اور قرآن نے بھی کہہ دیا: ”کُلُّ نَفسٍ ذَآءِقَۃُ المَوتِ“ (سورہ آل عمران:185) کہ ”ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے“، تو ہما شما کی کیا بات ہے۔ چناں چہ سب کے سب انبیاء ورسل، صحابہ وتابعین اوراولیاء وصلحا کو اس جہان سے کوچ کرنا پڑا۔ ہم سب کو بھی ایک دن جانا ہوگا۔ حضرت امیر شریعت نوراللہ مرقدہ بھی اپنے مقررہ وقت پر، پاک پروردگار کے حکم کا اتباع کرتے ہوئے ہزاروں شاگردوں، مریدوں اور متعلقین کو الوداع کہتے ہوئے اس جہاں سے کوچ کرگئے۔ اللہ تعالی حضرت والا کو جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے، آمین!

جان کر من جملہ خاصان میخانہ تجھے

مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ تجھے


 امیر شریعت حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحبؒ کی ولادت بہار کے مشہور علمی اور روحانی خانوادہئ رحمانی میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے بانی، امیر شریعت حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانی نوراللہ مرقدہ کے گھر 05؍ جون 1943ء کو ہوئی۔ آپ کے دادا قطب الزماں حضرت مولانا محمد علی مونگیری صاحب رحمۃ اللہ علیہ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے بانیوں میں سے تھے۔ آپکی تعلیم اور تربیت ابتداء میں خانقاہ رحمانی کے احاطہ میں چل رہے پرائمری اسکول میں ہوئی، مولانا حبیب الرحمن صاحب اور ماسٹر فضل الرحمن صاحب کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے نامور والد گرامی کے سامنے بھی زانوئے تلمذ تہ کیا، اور جامعہ رحمانی مونگیر میں مشکوۃ شریف تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1961ء میں دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ اور 1964ء میں ام المدارس دارالعلوم دیوبند سے علوم متداولہ کی تکمیل کی اور ان دونوں اداروں سے کسب فیض اور خاندانی تعلیم وتربیت کی وجہ سے زبان ہوش مند اور فکر ارجمند سے مالا مال ہوئے۔ اس کے بعد سن 1970ء میں تلکا مانجھی یونیورسٹی بھاگلپور آپنے سے ایم اے کیا۔ آپکے خاندان کا یہ امتیاز رہا ہے کہ علم و معرفت، تصوف و سلوک، شریعت و طریقت، تصنیف و تالیف، تقریر و خطابت، قیادت و رہبری کے وہ اوصاف جو دوسری جگہوں پر الگ الگ پائے جاتے ہیں اس خانوادہئ رحمانی میں ایک ساتھ جمع نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کی آپکی شخصیت بھی اپنے آباء و اجداد کی طرح ہمہ جہت تھی، ان کی پوری زندگی ملت کی خدمت سے عبارت تھی، وہ ایک مؤقر عالم دین، شیخ طریقت، امیر شریعت اور مفکر اسلام اور تحریکی مزاج کے آدمی تھے۔ انہوں نے خانقاہ رحمانی مونگیر، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، امارت شرعیہ، اصلاح معاشرہ، جامعہ رحمانی مونگیر، درجنوں مدارس کی سرپرستی اور رحمانی تھرٹی کے ذریعہ مختلف شعبوں میں ملت اسلامیہ کی بے پناہ خدمات انجام دیں۔


 مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب رحمہ اللہ نے اپنی فراغت کے بعد سن 1967ء میں امارت شرعیہ کے ترجمان ہفت روزہ نقیب، پھلواری شریف، پٹنہ کی ادارت کے ساتھ ساتھ جامعہ رحمانی مونگیر میں تدریس اور فتوی نویسی کا کام بھی شروع کیا، اور 1969ء میں جامعہ رحمانی کی نظامت کے عہدہ پر فائز ہوئے۔پھر 1974ء میں ویدھان پریشد کے رکن منتخب ہوئے، اسی سال جامعہ رحمانی کے ترجمان صحیفہ کی ادارت سنبھالی۔ سن 1974ء سے 1996ء تک بہار قانون ساز کونسل کے رکن کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ اسی درمیان 1985ء بہار ودہان پریشد کے ڈپٹی چیرمین بھی منتخب ہوئے۔ وہ اپنے والد ماجد حضرت مولانا منت اللہ رحمانی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات 1991ء کے بعد سے خانقاہ رحمانی مونگیر کے سجادہ نشین اور جامعہ رحمانی مونگیر کے سرپرست رہے۔ سن 1991ء تا 2015ء ملت اسلامیہ ہندیہ کے تمام مسالک کا متحدہ، متفقہ اور مشترکہ پیلٹ فارم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سکریٹری رہے۔ اور 07؍ جون 2015ء کو بورڈ کے کارگزار جنرل سکریٹری نامزد ہوئے۔ بعدازاں 16؍ اپریل 2016ء کو دارالعلوم ندوۃ العلماء میں منعقد مجلس عاملہ کے اجلاس میں باتفاق رائے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری منتخب ہوئے۔ اسی طرح 03؍ اپریل 2005ء میں امارت شرعیہ بہار، اڑیسہ و جھارکھنڈ کے نائب امیر شریعت منتخب ہوئے۔اور 29؍ نومبر 2015ء کو دارالعلوم رحمانی، زیرو مائل، ارریہ، بہار میں مجلس ارباب حل و عقد نے آپکو مستقل طور پر امیر شریعت سابع بہار،اڑیسہ و جھارکھنڈ منتخب کیا۔ سن 2010ء میں آپ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کورٹ کے ممبر منتخب ہوئے۔ ساتھ ہی آپ تاحیات دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے انتظامی رکن، مولانا آزاد فاؤنڈیشن کے وائس چیرمین اور آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے نائب صدر رہے۔


حضرت امیر شریعت علیہ الرحمہ مختلف اداروں اور تحریکوں سے وابستہ ہوکر مسلمانوں کے حقوق کی لڑائی لڑتے رہے اور تعمیراتی اور ترقیاتی کاموں میں حصہ لیتے رہے۔اسی کے پیش نظر انہوں نے مختلف اداروں کا قیام بھی عمل میں لایا۔ انہوں نے سن 1996ء میں سماجی فلاح و بہود کیلئے رحمانی فاونڈیشن کی بنیاد رکھی، جس کی تعلیم اور تربیت کی سمت میں شاندار خدمات ہیں - سن 2008ء میں حضرت نے مسلمانوں کے معیاری تعلیمی ترقی کیلئے رحمانی 30 کو قائم کیا۔ یہ وہ پلیٹ فارم ہے جہاں عصری تعلیم کے متعدد شعبوں میں معیاری اعلی تعلیم و قومی مقابلاجاتی امتحانات کے لیے طلبہ کو تیار کیا جاتا ہے۔ اس ادارے نے آئی آئی ٹی، جے ای ای، نیٹ، چارٹرڈ اکاؤنٹ اور دیگر مشکل مقابلوں میں مسلم بچوں اور بچیوں کو کامیابی کی راہ دکھائی اور شاندار ریکارڈ قائم کیا۔ اسی کے ساتھ انہوں نے سن 2013ء میں مسلم طلبہ کو ڈاکٹرز بنانے کیلئے میڈیکل کی تیاری اور سن 2014ء میں وکیل اور جج بنانے کی تیاری کرانے کی شروعات کی۔ اسی طرح حضرت امیرشریعت نے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف تحریکات کو چلایا جس کے ذریعے پورے ملک میں اچھے اثرات مرتب ہوئے۔انہوں نے سن 2003ء میں مدارس کی حفاظت کی تحریک چلائی اور مونگیر میں تاریخ ساز ”ناموس مدارس اسلامی کنونشن“ منعقد کیا۔ امارت شرعیہ کے استحکام کے لئے متعدد اقدام کئے اور تینوں ریاستوں میں امارت کو مضبوط کیا۔ دارالقضاء کے کاموں کو وسعت بخشی، تعلیمی میدان میں بنیادی دینی تعلیم کے فروغ، عصری تعلیمی اداروں کے قیام عمل میں لایا۔ 15؍ اپریل 2018ء کو گاندھی میدان میں ”دیش بچاؤ، دین بچاؤ“ کے نام سے حضرت کی صدارت میں تاریخ ساز کانفرنس کا انعقاد عمل میں آیا۔ اسی کے ساتھ ”سی اے اے، اینڈ آر سی اور این پی آر“ کے خلاف بھی مہم چلائیں گئی۔ اپنے آخری دور میں حضرت نے ”اردو کی بقاء و تحفظ اور ترویج و اشاعت“ کے لئے پورے بہار، اڑیسہ و جھارکھنڈ میں تحریک چلائی۔امارت شرعیہ کے ساتھ ساتھ حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحبؒ نے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے پلیٹ فارم سے بھی نمایاں خدمات انجام دئے۔ انہوں نے رائٹ ٹو ایجوکیشن اور قانون وقف کی اصلاح نیز ڈائریکٹ ٹیکس کوڈ کو روکنے کیلئے بورڈ کے بینر تلے ”آئینی حقوق بچاؤ“ کے نام سے کامیاب ملک گیر تحریک چلائی۔ 2015ء میں شریعت اسلامی اور آئین ہند کے تحفظ اورحکومت کی جانب سے اس میں مداخلت اور ترمیم کی سازشوں کے خلاف”دین و دستور بچاؤ“ کے نام سے حضرت کی قیادت میں بورڈ نے ملک گیر تحریک چلائی۔ 2016ء میں ”یونیفارم سول کوڈ“ کے خلاف ملک کے مختلف حصوں میں پروگرامات منعقد کئے۔ 2017ء کے اواخر اور 2018ء کی ابتداء میں پورے ملک میں مرکزی حکومت کے مجوزہ ”طلاق ثلاثہ بل“ کے خلاف تحریکِ چلائی، جس کے تحت ملک کے مختلف شہروں میں تاریخ ساز احتجاجی پروگرامات اور ریلیاں منعقد ہوئے، بالخصوص امت کے بہادر ماؤں اور بہنوں نے شرعی دائرے میں رہ کر احتجاجی جلوس نکالے۔اسی دوران حضرت کے حکم پر ملک کے مختلف علاقوں میں ”تحفظ شریعت کمیٹی“ تشکیل پائی۔ اسی دوران مسلم پرسنل لا میں مداخلت کے خلاف ”دستخطی مہم“ بھی چلائی گئی اور تقریباً پانچ کڑوروں دستخطوں کو لاء کمیشن کے حوالے کیا گیا۔ جب 2018ء میں حکومت کی جانب سے مسلم پرسنل لا میں تبدیل کی بات ہونے لگی تو لاء کمیشن کے چیئرمین کی دعوت پر بورڈ کے وفد نے حضرت کا پیغام ان تک پہنچایا۔ جس میں اسلامی تعلیمات اور فقہ کی روشنی میں انکے اشکالات کا واضح جواب دیا گیا اور واضح طور پر کہا گیا کہ مسلم پرسنل لا میں کسی ترمیم، تنسیخ یا تبدیلی کی ضرورت نہیں۔ حضرت علیہ الرحمہ نے بورڈ کی”بابری مسجد کمیٹی“ کے ذریعے آخری مرحلے تک بابری مسجد کی پیروی کرنے والوں کی نگرانی فرمائی۔ اسی طرح پورے ملک میں اصلاح معاشرہ کی تحریک چلائی اور ملک کے مختلف ریاستوں اور اضلاع میں ”اصلاح معاشرہ کمیٹی“ تشکیل دئیے اور ساتھ ہی وحدت امت کیلئے ہمیشہ کوشاں رہے۔ مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب رحمہ اللہ نے اپنی پوری زندگی تحفظ شریعت، وحدت امت اور اصلاح معاشرہ کیلئے وقف کردی تھی۔

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا


 حضرت امیر شریعت علیہ الرحمہ کو اداروں اور تحریکوں کی قیادت اور تعلیم و تعلم کے ساتھ ساتھ تالیف و تصنیف میں بھی یکساں عبور حاصل تھا۔ آپ نے اپنے زور قلم سے مختلف کتابیں مرتب فرمائی۔جس میں ”تصوف اور حضرت شاہ ولی اللہؒ“، ”بیت عہد نبوی میں آپکی منزل یہ ہے!“، ”دینی مدارس میں مفت تعلیم کا مسئلہ!“، ”سماجی انصاف، عدلیہ اور عوام“، ”شہنشاہ کونین کے دربار میں!“، ”حضرت سجاد، مفکر اسلام“، ”کیا 1857 پہلی جنگ آزادی ہے؟“، ”مجموعہ رسائل رحمانی“ وغیرہ حضرت ؒ کے تصنیفی کمالات کا شاہکار ہے۔ انکی بے لوث خدمات پر انہیں مختلف اعزاز سے بھی نوازا گیا۔ انہیں بھارت جیوتی ایوارڈ، راجیو گاندھی ایکسلنس ایوارڈ، شکچھارتن ایوارڈ، سر سید ایوارڈ، امام رازی ایوارڈ، کولمبیا یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری قابل ذکر ہیں اور حضرت کے تدفین سے قبل حکومت بہار کی جانب سے سرکاری اعزازی سلامی بھی دی گئی۔


 شیخ طریقت حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحبؒ نے تصوف و سلوک کے میدان میں بھی عظیم مقام پایا تھا۔ آپ اپنے والد گرامی حضرت مولانا منت اللہ رحمانی صاحبؒ سے بیعت و مجاز تھے اور چاروں سلسلہ قادریہ، چشتیہ، نقشبندیہ اور سہروردیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ آپکے دست مبارک پر تقریباً ساڑھے آٹھ لاکھ سے زیادہ افراد نے توبہ و بیعت کیا تھا۔ جس میں آپ کے خلفاء کی تعداد نو ہے۔ جو ملک کے مختلف حصوں میں اصلاحی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس طرح حضرتؒ کو ہر میدان میں یکساں عبور حاصل تھا۔ 


 راقم السطور کو عالم اسلام کی جن عظیم المرتبت شخصیات کو قریب سے دیکھنے اور سننے کا حسین موقع ملا ان میں مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب رحمہ اللہ کی ذات گرامی بطور خاص شامل ہے۔ ماضی قریب کے سالوں میں جب بھی حضرت والا کا شہر گلستان بنگلور آمد مسعود ہوتا راقم بلا ناغہ انکی مجالس میں شریک رہتا۔ آپکی شخصیت تواضع و انکساری، خوش مزاجی و سادگی، تقویٰ و پرہیزگاری، شستہ و شگفتہ اخلاق کی حامل تھی۔ آپکی ذات عالیہ مسلمانان ہند کے لئے قدرت کا عظیم عطیہ تھی، جو انقلابی فکر اور صحیح سمت میں صحیح اور فوری اقدام کی جرأت رکھتے تھے۔ استقلال، استقامت، عزم بالجزم، اعتدال و توازن اور ملت کے مسائل کیلئے شب و روز متفکر اور رسرگرداں رہنا حضرت امیر شریعتؒ کی خاص صفت تھی۔ انکی بے باکی اور حق گوئی ہر خاص و عام میں مشہور تھی۔ عاجز کا جب بھی آبائی وطن جھارکھنڈ جانا ہوتا تو وہاں کی فضاء میں حضرت کی جرأت مندی، عزم و حوصلہ اور بے باکی نظر آتی، جس پر ہمارے گاؤں کے بزرگ اور رشتہ داروں کی زبان واضح ثبوت دے رہی ہوتی۔ یوں تو بنگلور میں حضرت کے مجالس میں شرکت کا موقع ملا لیکن بالمشافہ کبھی ملاقات نہیں ہو پایا لیکن دل میں ایک آرزو تھی کہ حضرت سے ایک دفعہ ضرور ملاقات کرنا ہے، لیکن اب یہ آرزو ایک حسین خواب ہی بن کر رہ گئی۔

آئے عشاق، گئے وعدہئ فردا لے کر

اب انھیں ڈھونڈ چراغ رج زیبا لے کر


 زندگی کے آخری لمحات میں حضرت امیر شریعتؒ جہاں امارت شرعیہ کے ”تحریک فروغ اردو“ کی قیادت فرما رہے تھے وہیں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ”آسان اور مسنون نکاح مہم“ کی سرپرستی فرما رہے تھے۔ اسی دوران اچانک طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے پٹنہ کے پارس ہاسپٹل بغرض علاج داخل کرایا گیا۔ جہاں علم و عرفان کے اس روشن ستارے نے 20؍ شعبان المعظم 1442ھ مطابق 03؍ اپریل 2021ء بروز سنیچر دوپہر ڈھائی بجے اپنی آخری سانس لیتے ہوئے اس دار فانی سے کوچ کر گئے،اناللہ وانا الیہ راجعون۔ آپکے انتقال کو دنیا بھر کے علماء و مشائخین نے عالم اسلام کیلئے ایک عظیم خسارہ قرار دیا۔ یہ ایک ایسا موقع تھا کہ ہر ایک غم و افسوس میں مبتلا تھا اور ہر کوئی تعزیت کا مستحق تھا۔ انکے انتقال سے آقائے دوعالم جناب محمد الرسول اللہﷺ کا یہ فرمان ”موت العالِم موت العالَم“ کہ ”ایک عالم دین کی موت پورے عالم کی موت ہے“ کا ہر کسی نے عملی مشاہدہ کیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ حضرت امیر شریعتؒ کی خدمات کو شرف قبولیت بخشتے ہوئے انکی مغفرت فرمائے اور اعلیٰ علیلین میں جگہ نصیب فرمائے، ہم تمام کو انکے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور امت مسلمہ کو انکا نعمل بدل عطاء فرمائے۔ آمین

عجب قیامت کا حادثہ ہے، آستیں نہیں ہے

زمین کی رونق چلی گئی ہے، اُفق پہ مہر مبیں نہیں ہے

تری جدائی سے مرنے والے، وہ کون ہے جو حزیں نہیں ہے

مگر تری مرگ ناگہاں کا اب تک یقیں نہیں ہے


فقط و السلام

بندہ محمد فرقان عفی عنہ*

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

١٩؍ ذو القعدہ ١٤٤٢ھ

مطابق یکم جولائی 2021ء بروز جمعرات


+91 8495087865

mdfurqan7865@gmail.com


_________

*ابن مولانا محمد ریاض الدین مظاہری

متعلم جامعہ ابو ہریرہ ؓ اکیڈمی

بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند

صدر مجلس احرار اسلام بنگلور

رکن عاملہ جمعیۃ علماء ساؤتھ بنگلور


#پیغام_فرقان

#PaighameFurqan #Article #Mazmoon #WaliRahmani #AIMPLB #Akabir #AmeerShariat #Rahmani

Sunday, 27 June 2021

عزت و ذلت کا مالک اللہ ہے!



 { پیام فرقان - 06 }


🎯عزت و ذلت کا مالک اللہ ہے!


✍️بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


یہ دنیا ایک دھوکے کا گھر ہے، جہاں قدم قدم پر حاسدین اور منافقین کا بسیرا ہے۔ یہ دنیا اتنی خود غرض ہیکہ اس دنیا میں کسی کی کامیابی کسی سے برداشت نہیں ہوتی۔ لیکن اللہ تعالیٰ تمام کائنات کا خالق و مالک ہے اور ہر شئے اسی کے قبضہ قدرت میں ہے۔ کوئی ذرہ بھی اذنِ الٰہی کے بغیر اپنی جگہ سے نہ ہل سکتا ہے اور نہ کوئی پتّہ گر سکتا ہے۔ جس طرح اس کائنات کا کوئی معمولی سا عمل بھی اللہ تعالیٰ کے علم اور مشیت کے بغیر انجام نہیں پاسکتا اسی طرح انسان کی عزت و ذلت بھی اسی کے قبضہ قدرت میں ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ: ” قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِى الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۤءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاۤءُۖ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۤءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۤءُ ۗ بِيَدِكَ الْخَيْرُۗ اِنَّكَ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيْرٌ “ کہ ”آپ کہہ دیجئے اے اللہ! اے تمام جہان کے مالک! تو جسے چاہے بادشاہی دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور تو جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت دے، تیرے ہی ہاتھ میں سب بھلائیاں ہیں، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے“ (سورہ آل عمران : 26)۔ معلوم ہوا کہ عزت اور ذلت دونوں ہی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ کوئی انسان کسی کو ‏نہ عزت دے سکتا ہے اور نہ ہی کسی کو ذلیل کر سکتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کسی کو عزت دینا چاہے تو پھر ساری دنیا مل کر بھی اسے ذلیل نہیں کر سکتی۔ جو کوئی بھی عزت چاہتا ہے اسے پتہ ہونا چاہئے کہ عزت صرف اور صرف اللہ کی ہے۔ اچھے اعمال انسان کی عزت اور درجات کی بلندی کا سبب بنتے ہیں اور برے اعمال انسان کی ذلت و پستی کا باعث ہوتے ہیں۔ اور یہ بات عیاں ہیکہ جو لوگ دوسروں کے لئے گڑھا کھودتے ہیں وہ خود اسی میں گرتے ہیں، ذلیل اور رسوا ہوتے ہیں۔ کوئی کتنا بھی زور لگائے جسے اللہ عروج پر پہنچنا چاہے تو پھر کسی میں بھی اتنی قدرت نہیں کہ اسے روک سکے۔ کیونکہ عزت و ذلت دینے والی صرف وہی ایک ذات ”اللہ“ ہے۔؂

خدا کے ہاتھ میں ہے میری عزت و ذلت

امیر شہر سے ڈرنا مجھے نہیں آتا


فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

27؍ جون 2021ء بروز اتوار 

+918495087865

mdfurqan7865@gmail.com


#PayameFurqan #پیام_فرقان

#ShortArticle #MTIH #TIMS

Tuesday, 11 May 2021

رمضان کے بقیہ ایام کی قدر کریں، قہر خداوندی سے بچنے کیلئے توبہ و استغفار کی کثرت کریں!





 رمضان کے بقیہ ایام کی قدر کریں، قہر خداوندی سے بچنے کیلئے توبہ و استغفار کی کثرت کریں!

مرکز تحفظ اسلام ہند کےجلسۂ فضائل رمضان سے مولانا سید ازہر مدنی و دیگر علماء کا خطاب!


 بنگلور، 10؍ مئی (پریس ریلیز): رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ ہمارے اوپر سایہ فگن ہے۔ بس اس ماہ مبارک کے مکمل ہونے میں محض چند ایام باقی رہ گئے ہیں۔ اس موقع پر گزشتہ دنوں مرکز تحفظ اسلام ہند کی جانب سےنبیرۂ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید ازہر مدنی صاحب کی صدارت، مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور مرکز کے ناظم اعلیٰ مولانا محمد رضوان حسامی و کاشفی کی نظامت میں جلسۂ فضائل رمضان کی پانچوں نشست منعقد ہوئی۔ جس کا آغاز مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان کی تلاوت اور حافظ محمد عمران کے نعتیہ اشعار سے ہوا۔ اپنے صدارتی خطاب میں حضرت مولانا سید ازہر مدنی صاحب نے فرمایا کہ رمضان المبارک اللہ تعالیٰ کی رحمت و بخشش اور مغفرت کا مہینہ ہے، وہ لوگ خوش قسمت ہیں جنہوں نے اس مبارک و مقدس مہینے میں روزہ اور عبادت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کو راضی کیا۔ یہ وہ مبارک مہینہ ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب ستر گنا بڑھا دیتا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ جس طرح ہم سب رمضان المبارک میں احکامات الٰہی کی پیروی کرتے ہیں اور محرمات سے بچتے رہتے ہیں اور اپنا وقت عبادت و ریاضت میں گزاتے ہیں اسی طرح اگر رمضان کے بعد بھی پورا سال ہم سب اسی جذبے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرنے والے اور ہر نافرمانی سے بچنے والے بن جائیں۔ تب ہی اللہ تعالیٰ نے جس مقصد کیلئے یعنی متقی اور پرہیزگار بننے کیلئے ہم پر رمضان کے روزے فرض کئے ہیں وہ پورا ہوگا۔ اور اگر ایسا واقعتاً ہوجائے تو سمجھ لیں کہ ہمارے رمضان کی عبادتیں قبول ہوگئی ہیں۔ مولانا مدنی نے فرمایا کہ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے اللہ کے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی وہ پیشنگوئی یاد آتی ہیکہ حضور نے فرمایا کہ عنقریب لوگوں پر وہ زمانہ آئے گا، جب اسلام کا صرف نام رہ جائے گا، قرآن موجود ہوگا لیکن اسکی تعلیمات پر عمل کرنے والا نہیں ہوگا وہ صرف رسم و رواج ہی رہ جائے گا، عالی شان مسجدیں تو ہونگی مگر ہدایت سے خالی ہونگے۔ مولانا نے فرمایا کہ افسوس کا مقام ہیکہ واقعی حالات بد سے بد تر ہوتے جارہے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ اب اسلام کا تو صرف نام ہی نام رہ گیا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ یہی وجہ ہیکہ آج اللہ کا قہر اور عذاب ہم سب پر مسلط ہے، کرونا کی وجہ سے پوری دنیا پریشان ہے اور یہ ہمارے گناہوں اور بداعمالی کا ہی نتیجہ ہے۔ مولانا مدنی نے فرمایا کہ اگر اس پیشنگوئی سے بچنا چاہتے ہیں تو ضرورت ہیکہ ہم رجوع الی اللہ اور توبہ و استغفار کی کثرت سے اللہ تعالیٰ کو راضی کریں اور ہمیشہ قرآن و سنت کے مطابق زندگی گزارنے والے بن جائیں، یہی ہمارا اور مرکز تحفظ اسلام ہند کا پیغام ہے۔ مولانا ازہر مدنی نے اخیر میں فرمایا کہ ماہ رمضان اب چند دنوں کا مہمان ہے، وہ ہم سے رخصت ہو رہا ہے، پھر کسی کو یہ مبارک مہینہ اور اس کی بابرکت گھڑیاں نصیب ہوں یا نہ ہوں اس لئے آئیے ہم عہد کریں کہ ان بقیہ چند دنوں میں نیکیوں سے اپنی جھولیاں بھرلیں گے، دعا و مناجات سے اپنے رب کو منالیں گے اور توبہ و استغفار سے اپنے آپ کو جہنم کی دہکتی ہوئی آگ سے آزاد کرالیں گے۔ اس موقع پر صدقۂ فطرکی فضیلت و اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب رشیدی نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر رمضان المبارک کے مہینے میں مسلمانوں کو گناہوں، خطاؤں سے بچنے کی تاکید کی اور کئی حلال چیزوں کو بھی حرام کردیا جو رمضان سے پہلے یا روزوں سے پہلے حلال تھیں جیسے کھانا پینا وغیرہ۔ مولانا نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جائز چیزوں سے اس لیے روکا کہ جائز چیزوں سے رکنے کی وجہ سے ناجائز چیزوں سے رکنا آسان ہو جائے۔ مولانا رشیدی نے فرمایا کہ بہت سارے بندے اللہ و رسول کے احکامات کے مطابق رمضان کا مہینہ گزارتے ہیں جو قابل مبارک باد ہیں، اور بہت سارے بندے ایسے ہوتے ہیں جو اللہ و رسول کے احکامات کی مکمل پاسداری نہیں کر پاتے کچھ نا کچھ کوتاہیاں، خامیاں ضرور ہو جاتی ہیں نہ چاہتے ہوئے بھی بہت ساری غلطیاں ہو جاتی ہیں تو اُن کمیوں کوتاہیوں کو دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی زبانی ہمیں عید کی نماز سے پہلے صدقۂ فطرادا کرنے کا حکم دیا۔ مولانا نے مزید فرمایا کہ صدقہئ فطر کے خاص طور پر دو فائدے ہیں ایک فائدہ رمضان میں ہوئی کمیوں کوتاہیوں کو دور کرکے روزوں کو قبول کرنا اور دوسرا فائدہ یہ ہے کہ بہت سارے غریب غربت کی وجہ سے دیگر لوگوں کے ساتھ عید کی خوشیوں میں شریک نہیں ہو پاتے ویسے غرباء بھی صدقۂ فطر ملنے کی وجہ سے سب کے ساتھ خوشیوں میں شریک ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا تمام صاحب نصاب اور صاحب ثروت لوگوں کو صدقۂ فطر ادا کرنا چاہیے۔ اس موقع پر داعی اسلام مولانا سراج احمد ندوی صاحب نے فرمایا کہ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں ایک رات آتی ہے جسکو شب قدر کہا جاتا ہے جو ہزار مہینوں سے بھی افضل ہے، اللہ تعالیٰ نے اس رات کے بارے میں قرآن میں فرمایا کہ بلا شبہ ہم نے قرآن پاک کو لیلۃ القدر میں اتارا اور لیلۃ القدر کیا ہے تمہیں معلوم ہے؟ لیلۃ القدر ہزار مہینوں سے بھی افضل ہے۔یعنی کوئی بندہ ایک شب قدر میں عبادت کرلے تو ہزار مہینوں سے زیادہ عبادت کرنے کا ثواب ملے گا، اور حدیث پاک میں اللہ کے نبی نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص ایمان و احتساب کے ساتھ لیلۃ القدر میں اللہ کے سامنے کھڑا ہو، اللہ کی عبادت کرے تو اسکے اگلے پچھلے سب گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔ مولانا ندوی نے فرمایا کہ ہم میں سے کئی لوگ ساٹھ ستر سال عبادت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اگر کسی کو ایک رات بھی عبادت کے لیے نصیب ہوگئی تو علماء کے قول کے مطابق تراسی سال کی عبادت کا ثواب مل جائے گا۔ مولانا سراج نے فرمایا کہ جمہور علماء کے قول کے مطابق یہ رات آخری طاق راتوں میں آتی ہے اسے پانے کا سب سے بہترین طریقہ اعتکاف ہے آدمی دس دن کا اعتکاف کرے اور ہر رات عبادت کرے یا کم از کم طاق راتوں میں عبادت کرلے تو اللہ کی ذات سے امید ہے کہ شبِ قدر مل جائے گی۔ اور شب قدر کی کوئی مخصوص عبادت نہیں ہے جتنی عبادتیں ہیں سب کرلیں اور خصوصاً فرائض کا اہتمام کریں۔ قابل ذکر ہیکہ تمام علماء کرام نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔ اجلاس کے اختتام سے قبل مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے تمام مقررین و سامعین اور مہمانان خصوصی کا شکریہ ادا کیا۔ اس موقع پر مرکز کے اراکین احمد خطیب خان، مولانا ذیشان وصی ندوی، انعامدار خضر علی، محمد شبلی اور مولانا محمد بلال وغیرہ خصوصی طور پر شریک تھے۔ حضرت مولانا سید ازہر مدنی صاحب کی دعا سے یہ پروگرام اختتام پذیر ہوا!

Thursday, 22 April 2021

تقویٰ کے حصول کا سب سے موثر ذریعہ ”ماہ رمضان“ ہے!



 تقویٰ کے حصول کا سب سے موثر ذریعہ ”ماہ رمضان“ ہے!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے جلسۂ فضائل رمضان سے علماء کرام کا خطاب!


 بنگلور، 22؍ اپریل (پریس ریلیز): رمضان المبارک کی بابرکت اور باسعادت ایام میں مرکز تحفظ اسلام ہند کی جانب سے شب و روز مسلسل پروگرامات کا انعقاد کیا جارہا ہے تاکہ امت مسلمہ علماء کرام کے خطبات سے مستفید ہوتے ہوئے رمضان المبارک کے قیمتی اوقات عبادت و ریاضت میں گزاریں۔ اسی کے پیش نظر گزشتہ دنوں مرکز تحفظ اسلام ہند نے مرکز کے ناظم حضرت مولانا محمد رضوان حسامی و کاشفی کی صدارت، مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور مرکز کے رکن شوریٰ قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی بستوی کی نظامت میں ایک عظیم الشان آن لائن”جلسہ فضائل رمضان“ منعقد کیا۔ جس سے مختلف علماء و مفتیان کرام نے خطاب فرمایا۔ اجلاس کا آغاز حافظ محمد عمران کی تلاوت سے ہوا، جس کے بعد محمد حسان نے شان رسالت میں گلہائے عقیدت پیش کیا۔اس موقع پر دارالعلوم محمودیہ گنٹور کے بانی و مہتمم اور جمعیۃ علماء و مجلس العلماء گنٹور آندھراپردیش کے صدر حضرت مولانا مفتی عبد الباسط صاحب قاسمی نے رمضان المبارک اور عشرہئ رحمت کی فضیلت کے عنوان پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ رمضان المبارک اللہ تعالیٰ کی جانب سے امت مسلمہ کے لیے عظیم نعمتوں میں سے ایک گراں قدر نعمت ہے۔ اس مہینے کی آمد سے پہلے رسول اللہؐ نے اپنے صحابہ کو بشارت دی تھی۔ مولانا نے فرمایا کہ رمضان المبارک کا پہلا عشرہ رحمتوں والا ہے اور اللہ کی رحمت ہی وہ بنیادی دولت ہے کہ جو کسی کو مل جائے تو اسے اور کیا چاہیے۔ اللہ نے اپنی رحمت کو امت محمدیہﷺ پر رمضان کے پہلے عشرے میں خاص کردیا، اب جو اللہ کی رحمت حاصل کرنا چاہتا ہے وہ اس میں خوب محنت کرے اور اللہ کے انعام کو حاصل کرے۔ مولانا نے فرمایا کہ ہمارے اکابرین علماء دیوبند کا یہ معمول رہا ہیکہ وہ رمضان المبارک میں دیگر عبادات کے ساتھ ساتھ ذکر اور استغفار کی کثرت کیا کرتے تھے، جس سے اللہ کی رحمت جوش میں آتی ہے اور بندوں کے گناہوں کو معاف کردیا جاتا ہے۔ مولانا قاسمی نے فرمایا کہ رحمت کا نزول جاری ہے اور ہم اس کے محتاج ہیں، لہٰذا ان قیمتی ساعتوں کو غنیمت جانتے ہوئے اسکی قدر کریں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کو سمیٹیں۔اس کے بعد جامع مسجد گوری پالیہ، بنگلور کے امام و خطیب حضرت مولانا حفظ الرحمن قاسمی بستوی صاحب نے رمضان المبارک کی فضیلت کے عنوان پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن و حدیث میں رمضان المبارک کے بے شمار فضائل بیان فرمائیں ہیں۔ اس میں روزہ کو فرض اور تراویح کو سنت قرار دیا ہے تاکہ بندہ اپنے گناہوں سے پاک ہوکر متقی و پرہیزگار بنے۔ مولانا نے فرمایا کہ رمضان المبارک قرب الٰہی اور ریہرسل کا مہینہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے روزہ کے بارے میں فرمایا کہ میں خود اسکا بدلہ ہوں۔ مولانا نے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ ہمیں مل جائے تو دنیا و آخرت کی کامیابی ہمارے قدم چومیں گی۔ لہٰذا ضرورت ہیکہ رمضان کو غنیمت جانتے ہوئے اسکے قیمتی اوقات عبادت و ریاضت کے ساتھ گزاریں۔ اس موقع پر نورانی مسجد، پادرائن پورہ، بنگلور کے امام و خطیب حضرت مولانا مفتی محمد اصغر علی قاسمی صاحب نے روزہ کی فضیلت کے عنوان پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ روزہ فرض عبادت ہے، جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے ”اے ایمان والو! تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے، جس طرح تم سے پہلی امّتوں پر فرض کیا گیا تھا، تاکہ تم متقّی اور پرہیزگار بن جاؤ۔“ یعنی روزے کا اصل مقصد متقّی اور پرہیزگار بننا ہے۔ مفتی صاحب نے فرمایا کہ روزہ کے چار آداب ہیں، پہلا زبان کی حفاظت، دوسرا آنکھوں کی حفاظت، تیسرا کانوں کی حفاظت، چوتھا دیگر اعضاء کی حفاظت کرنا۔ انہوں نے فرمایا کہ ہمیں چاہیے کہ روزہ رسمی طور پر نہیں بلکہ حقیقی طور پر رکھیں تبھی روزہ کامیاب ہوگا اسکے ثواب کے حق دار بنیں گے۔ قبل از جلسۂ فضائل رمضان سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے مرکز تحفظ اسلام ہند کے ناظم اعلیٰ حضرت مولانا محمد رضوان حسامی و کاشفی صاحب نے فرمایا کہ رمضان المبارک کی عظمت کیلئے فقط یہی بات کافی ہیکہ قرآن مجید سمیت تمام آسمانی کتابیں رمضان المبارک میں ہی نازل ہوئیں ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ رمضان کے آتے ہی جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں سے جکڑ کر قید کر دیا جاتا ہے تاکہ مومن شیطان کے وسوسوں سے دور ہوکر یکسوئی کے ساتھ پورا مہینہ اللہ تعالیٰ کے حکم مطابق عبادت و ریاضت میں گزاتے ہوئے متقی و پرہیزگار بنیں۔ قابل ذکر ہیکہ تمام علماء کرام نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا اور مرکز کی جانب سے جاری پروگرامات کو وقت کی اہم ترین ضرورت بتایا۔ اجلاس کے اختتام سے قبل مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے تمام مقررین و سامعین اور مہمانان خصوصی کا شکریہ ادا کیا اورآل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے آسان اور مسنون نکاح مہم میں حصہ لینے کی اپیل کی۔ اس موقع پر مرکز کے آرگنائزر حافظ محمدحیات خان، اراکین مرکز عمران خان، حارث شوکت علی پٹیل وغیرہ خصوصی طور پر شریک تھے۔ حضرت مفتی عبد الباسط قاسمی صاحب کی دعا سے یہ پروگرام اختتام پذیر ہوا!

Sunday, 14 February 2021

ویلنٹائن ڈے منانے والوں کےنام..... ایک پیغام!!!


 ویلنٹائن ڈے منانے والوں کےنام..... ایک پیغام!!! 


عبدالرحمن الخبیر قاسمی بستوی

ترجمان: تنظیم ابنائے ثاقب ورکن شوریٰ مرکز تحفظ اسلام ہند


 

14 فروی ویلنٹائن ڈے! یعنی بے حیائی کا عالمی دن ، یومِ فریب جس میں جانور بھی انسان کی بے حیا اور گھناؤنی حرکتوں کو دیکھ کر شرمندہ ہو جائے، زمین خدا سے پناہ مانگے، ویلنٹائن ڈے جس کو محبت کے نام پر انسانیت کو بے آبرو اور حیا کا جنازہ نکالنے کےلئے ان بے حیا لوگوں نے ایجاد کیا جن کے یہاں ماں، بہن بیٹی کی پہچان تک مشکل ہے، جن کے کتے توبیڈ پر سوتے ہیں پر والدین اولڈ ہاؤس میں پڑے ہوتے ہیں، لیکن افسوس کی انتہا تو تب ہوتی ہے کہ جب اس کو وہ قوم بھی منانے لگتی ہے جو اس رسول اللہ ﷺ کو مانتی ہے جس کی پاکیزہ تعلیم! الحیاءشعبۃ من الایمان! (حیا ایمان ہی کا ایک حصہ ہے) ہر دین کی ایک پہچان ہوا کرتی ہے اور اسلام کی پہچان حیا ہے، جس دین کی پہچان ہی حیا ہو اس دین میں بےحیائی کی کوئی بھی جگہ نہیں ہو سکتی۔ 


محترم قارئین! 

14 فروری یہ عیسائیوں کا تہوار ہے اس دن عیسائی سرخ لباس زیب تن کرتے ہیں، پھولوں کے نذرانے پیش کرتے ہیں، آپس میں تحفہ تحائف دیا اور لیا جاتا ہے، محبت کا اظہار والہانہ انداز میں کیا جاتا ہے، اس تہوار کو منانے کا اک خاص انداز یہ ہوتا ہے کہ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے بے پردگی اور بے حیائی کے ساتھ میل ملاپ، تحفے تحائف کا لین دین سے لے کر فحاشی و عریانی کا جتنا ہو سکے کھلے عام یا چوری چپکے ارتقاب کیا جاتا ہے، اس دن رقص، موسیقی، مے خوری، بدکاری کے ریکارڈ توڑے جاتے ہیں، اس طرح اسلامی تعلیمات کا سرِعام مذاق اڑایا جاتا ہے، اسلام ہمیں حیا اور پاکیزگی کا پیغام دیتا ہے. ارشاد باری تعالیٰ ہے :


(اےنبی) مسلمان مردوں سے کہہ دو اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لیے بہت پاکیزہ ہے. بےشک اللہ کو ان کے کاموں کی خبر ہے. اور مسلمان عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی پاکدامنی کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں. (سورہ نور)


ایک اور جگہ ارشاد ہوا:


اور بدکاری کے قریب نہ جاؤ بے شک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی برا راستہ ہے


نیز آج کی نوجوان نسل یاد رکھےاگر آج اس طرح خوشی خوشی گناہوں کی دلدل میں دھنسے گی تو کل اس کی اولاد بھی اس نحوست کا شکار ہو گی، یہ محبت کا مذاق ہے، محبت تو ایک پاکیزہ انسانی جذبہ ہے جو بندہ مومن کے دل میں اللہ اور اس کے رسول کیلئے پیدا ہوتا ہے، ایسی محبت نہیں جو ہوس پرستی میں رنگی ہو۔ 


پس اس گناہ اور بدکاری سے بچنے کے لئے دنیا بھر میں "یومِ حیا" منایا جاتا ہے، کیونکہ اسلام ہمیں حیا اور پاکیزگی کا حکم دیتا ہے، اور غیر مسلموں کے تہوار منانے سے منا کرتا ہے۔ 


نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا :


جو قوم جس قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انہی میں سے ہے


آخر میں میری نوجوان طبقے سے التجا ہے خدارا اس دن اپنے کردار کو داغدار کر کے پاش پاش ہونے سے بچا لیں، اپنے نامہ اعمال کو گناہوں کی سیاہی سے آلودہ نہ کریں اور اس دن یعنی 14 فروری کو "یوم حیا" اور " یوم حجاب" سمجھ کر حیا کو عام کریں، کسی کو پھول پیش کرنے کے بجائے اپنے گھر میں بہنوں کو حجاب پیش کریں، کیونکہ جو چیزیں عام ہوں اس کے توڑ کےلئے اس کا بدل تلاش کریں اور اسے خوب عام کریں تاکہ برائی بےحیائی بدکاری خود بخود ختم ہوجائے، کسی کےسر پر عزت و آبرو کی چادر ڈالیں، تاکہ معاشرہ حیا کی خوشبو سے مہکنے لگے، حیا کے زیور سے اپنے آپ کو آراستہ کریں ورنہ بےحیائی نسلوں کا سفرطئے کرکے گمراہی تک پہنچائے گی


اللہ رب العزت ہم سب کی عزتوں کی حفاظت فرمائے اور ہمیں شیطان کے شر سے محفوظ رکھے.....آمین

Tuesday, 9 February 2021

پیام فرقان - 05


 

{ پیام فرقان - 05 }


🎯آخر شاہی امام پنجاب ہی نشانہ پر کیوں؟


✍️بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


حدیث نبوی ہیکہ ظالم حکمرانوں کے خلاف آواز بلند کرنا سب سے بڑا جہاد ہے- اگر تاریخ اٹھا کر دیکھیں گے تو معلوم ہوگا کہ ہر دور میں علماء حق نے ظالم حکمرانوں کے خلاف آواز بلند کیا ہے- اسی طرح ہندوستان میں بھی علماء حق نے ماضی میں برطانوی حکومت کے خلاف آواز بلند کیا تھا اور حال میں فسطائی حکومت کے خلاف آواز بلند کررہے ہیں- اس دور میں جو علماء حق فسطائی حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے ہیں ان میں سرفہرست مجلس احرار اسلام ہند کے قومی صدر اور پنجاب کے شاہی امام حضرت مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانوی مدظلہ ہیں- جب کبھی ملک میں حکومت مظلوموں پر ظلم و ستم کرنا چاہتی قائد الاحرار شیشہ پلائے ہوئی دیوار کی طرح انکے آگے گھڑے رہتے ہیں- یہی وجہ ہیکہ انکی ایک آواز پر ملت اسلامیہ ہندیہ کا ایک بڑا طبقہ جہاں اٹھ کھڑا ہوتا ہے وہیں دشمن کی راتوں کی نیندیں حرام ہوجاتی ہیں- اسی لئے ہر آئے دن حکومت اپنے دلال گودی میڈیا کی جانب سے انکے خلاف سازشیں کرتی نظر آتی ہے- ہندوستان میں میڈیا کو جمہوریت کا چوتھا ستون مانا جاتا ہے- میڈیا کا کام تھا کہ وہ عوام تک حقائق پہنچاتے، صحیح معلومات فراہم کرتے اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے اور مظلوموں کا ساتھ دیتے- لیکن ہندوستانی گودی میڈیا برسر اقتدار حکومت اور حکمرانوں کی مدح سرائی اور ان کے ہر اقدام کو سراہتا ہے اور جو خبریں حکمرانوں کا پردہ فاش کرنے کا سبب بن سکتی ہیں انہیں وہ نشر نہیں کرتا، یہاں تک کے اگر کوئی مرد مجاہد ظالم حکمرانوں کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے اپنا احتجاج درج کروائے تو انکے خلاف سازش کرتے ہوئے ان پر افواہوں کا انبار لگا دیتی ہے- ابھی ملک بھر میں جاری کسانوں کے احتجاج کو بدنام کرنے اور بی جے پی حکومت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے گودی میڈیا اس حد تک جاچکا ہے کہ اپنے جائز مطالبات منوانے کے لیے دھرنے پر بیٹھے کسانوں کو نہ صرف پاکستان اور چین کے ساتھ جوڑ رہا ہے بلکہ دہشت گرد، خالصتانی اور اینٹی نیشنل ہونے کا بھی لیبل چسپاں کر رہا ہے- یہاں تک کہ کسانوں کی حمایت کرنے والوں کو بنا حقائق کے ایک سانس میں نکسلی، غدار اور غدار وطن بتاتا ہے۔ یہی حال گودی میڈیا کا روح رواں انڈیا ٹی وی کا ہے- اس نے پچھلے دنوں سازش کے تحت ایک پروگرام میں کسانوں کی حمایت میں مجلس احرار اسلام ہند کے صدر دفتر جامع مسجد لدھیانہ میں منعقد ایک میٹنگ کو غلط طریقے سے پیش کرتے ہوئے قائد الاحرار حضرت مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانوی مدظلہ کو بدنام کرنے کی کوشش کی کہ یہ ہمیشہ سے حکومت کے خلاف ہیں اور تصور دیا کہ ملک کی حکومت کے خلاف ہونا ملک کے خلاف ہونے کے مانند ہے- جبکہ ان جیسے گودی میڈیا والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ حب الوطنی کا مطلب ملک کے ساتھ ہونا ہے ملک کی حکومت کے ساتھ نہیں- ماضی میں بھی شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ہو رہے احتجاج کے موقع پر قائد الاحرار کے ایک بیان کو توڑ موڑ کر اسی انڈیا ٹی وی نے اسی طرح کا ایک پروگرام نشر کرتے ہوئے سازش کی تھی، جسکا تحریراً منھ توڑ جواب ہم نے اسی وقت دیا تھا جو ملک کے مختلف اخبارات میں بھی شائع ہوا- آج ایک بار پھر گودی میڈیا قائد الاحرار کی آواز کو دبانے اور انکے خلاف سازش کرنے کیلئے میدان میں اتر چکی ہے کیونکہ انہیں معلوم ہیکہ مولانا لدھیانوی جیسے بے باک جرأت مند قائدین کی آواز پر ملک کے باشندے بیدار ہوجایا کرتے ہیں اور برسر اقتدار ظالم حکومت کو انکی اوقات یاد دلا دیا کرتے- ان گودی میڈیا والوں کو معلوم ہونا چاہیے جس شیر دل انسان کو وہ ڈرانے اور دھمکانے کی کوشش کررہے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کے آباء و اجداد کے سامنے انگریز کی ظالم حکومت کانپ اٹھتی تھی اور جن کے آباؤ اجداد نے اس ملک کی آزادی کیلئے اپنا جان و مال سب کچھ قربان کردیا اور آج بھی اس ملک اور اسکے آئین کی حفاظت کی خاطر جدوجہد کررہے ہیں- گودی میڈیا کا مظلوم کسانوں کا ساتھ نہ دیکر مودی کی فسطائی حکومت کا ساتھ دینا اور کسانوں کی حمایت اور انکے حقوق کیلئے آواز بلند کرنے والے قائدین کے خلاف سازشیں اور غلط پروپیگنڈے کرنا اس بات کی واضح دلیل ہیکہ ہندوستانی گودی میڈیا سرکاری اور درباری بن گیا ہے- جمہوریت کا چوتھا ستون مانا جانے والا میڈیا آج خود جمہوریت کے لئے خطرہ بن گیا ہے۔ وہ عوام کے خلاف کھڑا ہے، باعزت شہریوں کے خلاف سازشیں کر رہا ہے- لیکن وہ کان کھول کر سن لے کہ وہ لاکھ کوششیں کرلیں لیکن انکی سازش کبھی کامیاب نہیں ہوگی، ہم فسطائی حکومت کے ہر ظلم و ستم اور کالے قوانین کے خلاف آواز اٹھاتے رہیں گے کیونکہ یہ ہمارا جمہوری حق ہونے کے ساتھ ساتھ ایک باعزت شہری ہونے کی دلیل ہے اور ہم قائد الاحرار مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانوی جیسے جرأت مند قائدین کی آواز پر لبیک کہتے رہیں گے اور عنقریب وہ دن آئے گا جب حکومت کو جھکنا پڑے گا یا مٹنا پڑے گا کیونکہ ظلم جب حد سے گزرتا ہے تو مٹ جاتا ہے!


فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

8 فروری 2021ء، بروز پیر

+918495087865

mdfurqan7865@gmail.com

Saturday, 6 February 2021

اسلام کے تین بنیادی عقائد!


اسلام کے تین بنیادی عقائد!

✍️بندہ محمّد فرقان عفی عنہ
(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

عقیدہ مضبوط بندھی ہوئی گرہ کو کہتے ہیں، دین کی وہ اصولی اور ضروری باتیں جن کا جاننا اور دل سے ان پر یقین رکھنا مسلمان کیلئے ضروری ہے۔اسلام میں عقیدہ کو اولیت حاصل ہے۔ صحیح عقیدے کے بعد ہی اعمال کی ابتداء ہوتی ہے۔ صحیح عقیدہ ہی وہ بنیاد ہے جس پر دین قائم ہوتا ہے، اور اس کی درستگی پر ہی اعمال کی صحت کا دارومدار ہے۔ حیات انسانی میں عقیدہ کی جو اہمیت ہے، اس کی مثال عمارت کی بنیاد کی ہے۔ اگر اسکی بنیاد صحیح اور مضبوط ہوگی تو عمارت بھی صحیح اور مضبوط ہوگی اور اگر بنیاد ہی کھوکھلی، کمزور اور غلط ہوگی تو عمارت بھی کمزور اور غلط ہوگی اور ایک نہ ایک دن اسکے بھیانک نتائج لاحق ہونگے۔ بس کسی کا عقیدہ درست ہو اور کثرت عبادت نہ بھی ہو تو ایک نہ ایک دن جنت ضرور ملے گی اور اگر عقیدہ ہی غلط اور باطل ہو تو اسکا ٹھکانہ ہمیشہ ہمیش کیلئے جہنم ہوگا۔ تو معلوم ہوا کہ عقیدہ ہر عمل کی قبولیت کی اولین شرط ہے، اگر عقیدہ درست ہوگا تو عمل قبول ہوگا اور اگر عقیدہ غلط ہوگا تو عمل قبول نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح عقیدہ اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

اسلام کے تین بنیادی عقائد:
اللہ تبارک و تعالیٰ نے دین اسلام کا دارومدار عقائد پر رکھا ہے اور اسلام کے تین بنیادی عقائد ہیں۔ ان تینوں عقیدوں پر ایمان لانا ضروری ہی نہیں بلکہ لازمی ہے۔ اگر کوئی شخص ان تین بنیادی عقائد میں سے کسی دو پر ایمان لاکر کسی ایک پر ایمان نہیں لاتا یا اس پر شک و شبہ کرتا ہے تو ایسا شخص گمراہ اور اسلام سے خارج ہے کیونکہ مسلمان ہونے کیلئے ان تینوں عقیدوں پر بلا کسی شک و شبہ کے ایمان لانا ضروری ہے۔ قرآن و حدیث میں اللہ تبارک تعالیٰ اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جن تین بنیادی عقیدوں کا کثرت کے ساتھ تذکرہ کیا ہے وہ یہ ہیں؛ پہلا عقیدۂ توحید، دوسرا عقیدۂ رسالت اور تیسرا عقیدۂ آخرت ہے۔ لہٰذا مسلمان ہونے کیلئے بنیادی طور پر ان تین عقائد پر ایمان لانا بہت ضروری ہے۔ بقیہ ان عقائد پر بھی ایمان لانا ضروری ہے جو ایمان مفصل میں بیان کی گئی ہیں۔

عقیدۂ توحید اور اسکی اہمیت:
اسلام کے بنیادی عقائد میں سب سے پہلا عقیدہ عقیدۂ توحید ہے۔ عقیدۂ توحید کا مطلب یہ ہیکہ انسان یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی ذات و صفات اور جُملہ اوصاف و کمالات میں یکتا و بے مثال ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، وہ وحدہ لاشریک ہے۔ ہر شئی کا مالک اور رب ہے۔ کوئی اس کا ہم پلہ یا ہم مرتبہ نہیں۔ صرف وہی با اختیار ہے۔ ساری عبادتوں کے لائق وہی پاکیزہ ذات ہے۔ اس کے علاوہ تمام معبود باطل ہیں۔ وہ ہر کمال والی صفت سے متصف ہے اور تمام عیوب ونقائص سے پاک ہے۔ حتیٰ کہ اس کی نہ اولاد ہے اور نہ ہی وہ کسی سے پیدا ہوا ہے۔ عقیدۂ توحید اسلام کی اساس اور بنیاد ہے۔ عقیدۂ توحید تمام عقائد کی جڑ اور اصل الاصول ہے اور اعمالِ صالحہ دین کی فرع ہیں۔ ہر مسلمان کو اس بات سے بخوبی آگاہ ہونا چاہیے کہ مومن اور مشرک کے درمیان حد فاصل کلمۂ توحید ”لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللہ“ ہے۔ شریعت اسلامیہ اسی کلمۂ توحید کی تشریح اور تفسیر ہے۔ عقیدۂ توحید کی اہمیت کا اندازہ فقط اس بات سے لگایا جاسکتا ہیکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جتنے بھی انبیاء کو مبعوث کیا سب کے سب انبیاء حتی کہ خاتم النبیین حضرت محمدﷺ کا بنیادی مقصد اور بنیادی دعوت عقیدۂ توحید ہی تھی۔ قرآن مجید کے سورۃ اعراف میں ہیکہ تمام انبیاء کرام اسی دعوت توحید کو لے کر آئے اور اپنی قوم سے یوں مخاطب ہوئے کہ: ’’يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللّـٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰـهٍ غَيْـرُهٝ ؕ‘‘  کہ ”اے میری قوم! اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔“ (سورۃ الاعراف، 59)۔  ایک حدیث میں ہیکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی سب سے پہلے مشرکین مکہ کو یہی دعوت توحید دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’یَا أیُّہَا النَّاسُ قُوْلُوْا لاَ الٰہَ الاّ اللّٰہُ تُفْلِحُوْا‘‘ کہ ”اے لوگو! لاالٰہ الا اللہ کہو کامیاب رہوگے۔“ (مسند احمد)۔ توحید کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے توحید یعنی اپنی عبادت کی خاطر اس پوری کائنات کو بنایا اور اسی توحید کی طرف بلانے کے لیے انبیاء ورسل مبعوث فرمائے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے عالم ارواح میں اپنے بندوں سے سب سے پہلے اسی توحید کا اقرار لیا کہ: ’’اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۖ ‘‘ کہ ”کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟“ تو بنی آدم نے جواب دیا: ’’قَالُوْا بَلٰىۚ شَهِدْنَاۚ‘‘ کہ ”کیوں نہیں آپ ہمارے رب ہیں۔“ (سورۃ الاعراف، 172)- عقیدۂ توحید کی تعلیم و تفہیم کے لیے حضرات انبیاء و خاتم النبیینﷺ، اصحاب رسول رضوان اللہ علیہم اجمعین، تابعین و تبع تابعین، ائمہ عظام و سلف صالحین، بزرگانِ دین و دیوبندی اکابرین نے بیشمار قربانیاں دیں ہیں کیونکہ عقیدۂ توحید صرف آخرت کی کامیابی اور کامرانیوں کی ہی ضمانت نہیں، بلکہ دنیا کی فلاح، سعادت و سیادت، غلبہ و حکمرانی اور استحکام معیشت کا علمبردار بھی ہے۔ امت مسلمہ کے عروج اور زوال کی یہی اساس ہے۔ لہٰذا عقیدہئ توحید پر ایمان دونوں جہاں کی کامیابی ہے اور اسکی حفاظت و دعوت امت مسلمہ پر فرض عین ہے!

عقیدۂ رسالت اور اسکی اہمیت:
عقیدۂ رسالت دین اسلام کا دوسرا بنیادی عقیدہ ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر دور میں اپنی مخلوق کی ہدایت اور رہنمائی کیلئے اپنے برگزیدہ بندوں نبیوں اور رسولوں کو ان کے درمیان بھیجا، جو اللہ تعالیٰ کا پیغام لیکر امت تک پہنچاتے تھے۔ یہ سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوکر امام الانبیاء، خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر ختم ہوا۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم الانبیاء حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات اقدس تک تمام انبیا و رسل کی نبوت اور رسالت کو برحق ماننے کو عقیدۂ رسالت کہتے ہیں۔ قرآن مجید کی متعدد آیات میں جہاں عقیدۂ توحید کا ذکر ہے وہیں عقیدۂ رسالت کا بھی واضح طور پر ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ النُّوْرِ الَّذِیْۤ اَنْزَلْنَاؕ‘‘ کہ ”پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس نور پر وہ جو اتارا ہم نے۔“ (سورۃتغابن، 8)۔ اللہ تعالیٰ کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ رسالت کی حکمت وجود باری تعالیٰ کی شہادت اور سفر حیات میں اس کے احکامات کی اطاعت ہے۔ رسول کی اطاعت ایک مستند ذریعہ ہے جس سے ہم کو اللہ کے احکام و فرامین پہنچتے ہیں۔ اللہ کے نبی پر ایمان اور اسکی اطاعت ہم پر فرض ہے اور اسکی شہادت کے بغیر ایمان نا مکمل ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہیکہ ”قُلْ یَآ اَیُّہَا النَّاسُ کہہ دو اے لوگو! اِنِّـىْ رَسُوْلُ اللّـٰهِ اِلَيْكُمْ جَـمِيْعَا ِۨ میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں، الَّـذِىْ لَـهٝ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ ۖ  جس کی حکومت آسمانوں اور زمین میں ہے، لَآ اِلٰـهَ اِلَّا هُوَ يُحْيِىْ وَيُمِيْتُ ۖ  اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں وہی زندہ کرتا اور مارتا ہے، فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول اُمّی نبی پر الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَکَلِمَاتِہٖ وَاتَّبِعُوْہُ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُوْنَ جو کہ اللہ پر اور اس کے سب کلاموں پر یقین رکھتا ہے اور اس کی پیروی کرو تاکہ تم راہ پاؤ۔“ (سورۃ الاعراف، 158)۔ لہٰذا ہمیں یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ عقیدۂ توحید اور عقیدۂ رسالت ایمان کا اہم حصہ ہیں، جسکی شہادت و اطاعت پر ہی ہماری نجات کا دارومدار ہے۔ بعض گمراہ لوگ تمام انبیاء و رسل پر تو ایمان لاتے ہیں لیکن خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ختم نبوت کا انکار کرتے ہیں لہٰذا یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہیکہ جب تک کوئی شخص تمام انبیاء و رسل پر ایمان نہ لائے اور ساتھ میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو خاتم الانبیاء نہ مانے وہ صاحب ایمان نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خاتم النبیین پر نبوت کا دروازہ ہمیشہ ہمیش کیلئے بند کردیا ہے۔ ترمذی شریف کی روایت ہیکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’اِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدْ انْقَطعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِيْ وَلَا نَبِيَ‘‘ کہ ”اب نبوت اور رسالت کا انقطاع عمل میں آچکا ہے لہٰذا میرے بعد نہ کوئی رسول آئے گا اور نہ کوئی نبی۔“ لہٰذا ایک مسلمان کو تمام انبیاء و رسل پر ایمان لانے کے  ساتھ ساتھ رسول اللہ کے آخری نبی ہونے کا اقرار کرنا لازمی ہے ورنہ اس کے بغیر آدمی اسلام سے خارج ہے۔

عقیدۂ آخرت اور اسکی اہمیت:
عقیدۂ آخرت عقیدۂ توحید و رسالت کے بعد اسلام کا تیسرا بنیادی اور اہم عقیدہ ہے۔ آخرت سے مراد یہ ہے کہ یہ دنیا ایک دن فنا ہوجائے گی اور مرنے کے بعد ایک دن ہرجاندار کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ اور ان کے اعمال کے مطابق ان کا فیصلہ کیا جائے گا، نیک لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے جنت میں اور گناہگاروں کو اپنے عدل سے جہنم میں داخل فرمائے گا، اس بات پر کسی شک و شبہ کے بغیر یقین رکھنے کو عقیدۂ آخرت کہتے ہیں۔ جس طرح دیگر عقائد کے منکرین ہوتے ہیں اسی طرح اس دنیائے فانی میں عقیدۂ آخرت کے منکرین بھی پائے جاتے ہیں، جبکہ انکی دلیلیں بیبنیاد اور سرار غلط ہیں۔ قرآن مجید کی بے شمار آیات اور آپﷺ سے بے شمار احادیث عقیدۂ آخرت کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہیکہ ’’قُلِ اللّـٰهُ يُحْيِيْكُمْ ثُـمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُـمَّ يَجْـمَعُكُمْ اِلٰى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا رَيْبَ فِيْهِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ‘‘ کہ ”کہہ دو اللہ ہی تمہیں زندہ کرتا ہے پھر تمہیں مارتا ہے پھر وہی تم سب کو قیامت میں جمع کرے گا جس میں کوئی شک نہیں لیکن اکثر آدمی نہیں جانتے۔“ (سورۃ الجاثیہ،26)۔ اس آیت مبارکہ سے واضح ہوگیا کہ عقیدۂ آخرت صحیح اور حق ہے، اسی لیے آخرت پر یقین کے بغیر ہمارا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا۔ عقیدۂ آخرت انسان کو اس تصور کے ساتھ زندگی گزارنے کی تعلیم دیتا ہے کہ کل قیامت کے دن ہمیں اللہ کے حضور تن تنہا حاضر ہونا ہوگا اور اپنے اعمال کا حساب و کتاب دینا ہوگا، وہاں کوئی رشتہ داری یا آل اولاد کام آنے والی نہیں، بس اپنے اعمال صالحہ کام آئیں گے- عقیدۂ آخرت کی وجہ سے جواب دہی کا احساس انسان کو نیکی و تقویٰ کی راہ پر گامزن کرتا ہے، اس کے افکار و نظریات کو ایمان کے رنگ میں رنگ دیتا ہے، اس کا ایمان اسے اخلاق حسنہ اور اعمال صالحہ کی بلندیوں پر پہونچا دیتا ہے۔ الغرض آخرت پر ایمان لانا نہ صرف ضروری ہے بلکہ لازم ہے، کیونکہ اسکے بغیر انسان اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔

بنیادی عقائد پر ایمان ضروری ہے:
دین اسلام کے ان تین بنیادی عقائد توحید، رسالت اور آخرت پر ایمان لانا نہ صرف ضروری ہے بلکہ لازمی ہے، اسکے بغیر اسلام کا کوئی تصور نہیں اور آدمی اس پر ایمان لائے بغیر اسلام سے خارج ہے۔ ان تین بنیادی عقائد کے ساتھ ساتھ ہمیں ان عقائد پر بھی ایمان لانا ضروری ہے جو ایمان مفصل میں درج ہیں۔ایمان مفصل میں سات اجزاء بیان کی گئی ہیں  ’’اٰمَنْتُ بِاﷲِ وَمَلَائِکَتِه وَ کُتُبِه وَ رُسُلِه وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْقَدْرِ خَيْرِه وَ شَرِّه مِنَ اﷲِ تَعَالٰی وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ‘‘ کہ ”ایمان لایا اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اور قیامت کے دن پر اور اس پر کہ اچھی بری تقدیر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے اور موت کے بعد اٹھائے جانے پر!“- (صحیح مسلم)۔

خلاصۂ کلام:
خلاصہ یہ ہے کہ اسلامی عقیدے کی تعلیم وتفہیم اور اس کی طرف دعوت دینا ہر دور کا اہم فریضہ ہے۔ کیونکہ اعمال کی قبولیت عقیدے کی صحت پر موقوف ہے۔ اور دنیا وآخرت کی خوش نصیبی اسے مضبوطی سے تھامنے پر منحصر ہے اور اس عقیدے کے جمال وکمال میں نقص یا خلل ڈالنے والے تمام قسم کے امور سے بچنے پر موقوف ہے۔ لیکن افسوس کہ عقائد کی جتنی اہمیت ہے اتنے ہی ہم عقائد کے معاملے میں غافل اور اسکی محنت سے دور ہیں۔ یہی وجہ ہیکہ آج جگہ جگہ فتنوں کی کثرت ہورہی ہے اور نئے نئے ارتدادی فتنے جنم لے رہے ہیں۔لہٰذا ہمیں عقائد اسلام پر اس طرح کی پختگی حاصل کرنی چاہیے کہ اس کے خلاف سوچنے یا عمل کرنے کی ہمارے اندر ہمت نہ ہو، اس کے خلاف سننا یا دیکھنا ہم سے برداشت نہ ہو، ہم اپنے عقائد پر اس طرح مضبوط ہوجائیں کہ پوری دنیا بھی اگر ہمارے پیچھے لگ جائے تب بھی ہم اپنے عقائد پر مضبوطی کے ساتھ جمے رہیں۔ کیونکہ عقائد اصل ہیں اور اعمال فرع ہیں اور صحیح عقائد ہی مدار نجات ہیں۔ لہٰذا ہمیں اپنے اور دوسروں کے عقیدوں کو درست کرنے کی فکر کرنی چاہیے تاکہ ہمیں دونوں جہاں کی خوشیاں اور کامیابیاں میسر ہو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارے دین و ایمان اور عقائد کی حفاظت فرمائے اور صحیح عقیدہ اپنانے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

فقط و السلام
بندہ محمد فرقان عفی عنہ*
(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)
٢٣؍ جمادی الثانی ١٤٤٢ھ
مطابق 06؍ فروری 2021ء

+91 8495087865
mdfurqan7865@gmail.com
_________________
*ابن مولانا محمد ریاض الدین مظاہری
متعلم جامعہ ابو ہریرہ ؓ اکیڈمی
بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند
صدر مجلس احرار اسلام بنگلور
رکن عاملہ جمعیۃ علماء ساؤتھ بنگلور

#پیغام_فرقان
#PaighameFurqan #Article #Mazmoon #AqaidIslam #IslamicBeliefs #AqaidSeries #AqaidArticles

Sunday, 31 January 2021

پیام فرقان - 04

 { پیام فرقان - 04 }



🎯اسلام کے تین بنیادی عقائد!


✍️بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


اللہ تبارک و تعالیٰ نے دین اسلام کا دارومدار عقائد پر رکھا ہے اور اسلام کے تین بنیادی عقائد ہیں- ان تینوں عقیدوں پر ایمان لانا ضروری ہی نہیں بلکہ لازمی ہے- اگر کوئی شخص ان تین بنیادی عقائد میں سے کسی دو پر ایمان لاکر کسی ایک پر ایمان نہیں لاتا یا اس پر شک و شبہ کرتا ہے تو ایسا شخص گمراہ اور اسلام سے خارج ہے کیونکہ مسلمان ہونے کیلئے ان تینوں عقیدوں پر بلا کسی شک و شبہ ایمان لانا ضروری ہے- قرآن و حدیث میں اللہ تبارک تعالیٰ اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جن تین بنیادی عقیدوں کا کثرت کے ساتھ تذکرہ کیا ہے وہ یہ ہیں (1) عقیدۂ توحید (2) عقیدۂ رسالت اور (3) عقیدۂ آخرت- لہٰذا مسلمان ہونے کیلئے بنیادی طور پر ان تین عقائد پر ایمان لانا ضروری ہے- بقیہ ان عقائد پر بھی ایمان لانا ضروری ہے جو ایمان مفصل میں بیان کی گئی ہیں- اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارے دین و ایمان اور عقائد کی حفاظت فرمائے اور ہمیں صحیح عقائد کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے، آمین-


فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

31 جنوری 2021ء بروز اتوار 

+918495087865

mdfurqan7865@gmail.com

Sunday, 17 January 2021

پیام فرقان - 03

 


{ پیام فرقان - 03 }

🎯عقیدہ ہر عمل کی قبولیت کی اولین شرط ہے!


✍️ بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


عقیدہ ہر عمل کی قبولیت کی اولین شرط ہے، اگر عقیدہ درست ہو گا تو عمل قبول ہوگا اور اگر عقیدہ غلط ہوگا تو عمل قبول نہیں ہوگا۔ اسلامی عقیدے کی تعلیم وتفہیم اور اس کی طرف دعوت دینا ہر دور کا اہم فریضہ ہے۔ کیونکہ اعمال کی قبولیت عقیدے کی صحت پر موقوف ہے۔ اور دنیا وآخرت کی خوش نصیبی اسے مضبوطی سے تھامنے پر منحصر ہے اور اس عقیدے کے جمال وکمال میں نقص یا خلل ڈالنے والے تمام قسم کے امور سے بچنے پر موقوف ہے۔ لہٰذا ہمیں اپنے اور دوسروں کے عقیدوں کو درست کرنے کی فکر کرنی چاہیے تاکہ ہمیں دونوں جہاں کی خوشیاں اور کامیابیاں میسر ہو!


فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

17 جنوری 2021ء بروز اتوار

+918495087865

mdfurqan7865@gmail.com


Sunday, 3 January 2021

پیام فرقان - 01

{ پیام فرقان - 01 }



🎯قلم کی اہمیت اور طاقت (آغاز تحریر)!


✍️بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


اللہ تبارک و تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے، جسکا ذکر قرآن مجید میں بار بار ملتا ہے۔ انہیں نعمتوں میں سے ”قلم“ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے۔ قلم کی اہمیت کسی سے مخفی نہیں ہے۔ اس نعمتِ خدا وندی کا تذکرہ قرآن مجید کی سب سے پہلی وحی میں بھی کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِی خَلَقَ، خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ، اقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ، الَّذِی عَلَّمَ بِالْقَلَمِ، عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ“ کہ ”اے پیغمبر! اپنے رب کا نام لے کر پڑھا کیجیے، جو سب کا پیدا کرنے والا ہے، جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا، آپ قرآن پڑھا کیجیے اور آپ کا رب بڑا کریم ہے، جس نے قلم سے تعلیم دی، انسان کو ان چیزوں کی تعلیم دی جن کو وہ نہیں جانتا تھا۔“ (سورۃ العلق)۔ قرآن مجید کے نزدیک قلم و کتابت کی اہمیت کا ثبوت اس سے زیادہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ قرآن مجید کی ایک سورۃ کو ”القلم“ کا نام دیا گیا ہے، اور اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے قلم کی قسم اور ان چیزوں کی بھی قسم ذکر فرمائی جنہیں قلم لکھتا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے: ”نٓ ۚ وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُوْنَ“ کہ ”قسم ہے قلم کی اور اس کی جو وہ لکھتے ہیں۔“ (سورۃ القلم)۔ قلم وہ عظیم شئ ہے جس کے ذریعہ علوم کو تحفظ و بقاء فراہم ہوتا ہے۔ دین کی حفاظت اور ملت کے دینی، سیاسی، معاشی، معاشرتی اور اجتماعی امور کو سرانجام دینے کیلئے فن کتابت کی اشد ضرورت ہوتی ہے اور قرآن مجید کی بےشمار آیات اس کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو فن کتابت کے زیور سے آراستہ کرنے کیلئے خصوصی اہتمام فرمایا۔ قلم کا استعمال مثبت ومنفی دونوں طرح ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم الشان نعمت کی قدردانی اسی میں ہیکہ اسے خیر و بھلائی، دین و شریعت کی نشر و اشاعت کے کاموں میں استعمال کیا جائے۔ دور حاضر میں اہل علم کی ذمہ داری ہیکہ وہ قلم کے استعمال اور فن تحریر کو امر بالمعروف او رنہی عن المنکر کے کاموں میں استعمال کریں۔ کیونکہ قلم تلوار سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے، جسکا کا استعمال وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے عاجز نے چند سال قبل ”پیغام فرقان“ کے نام سے طویل مضامین کا سلسلہ شروع کیا تھا، الحمدللہ ملک بھر کے مختلف اخبارات نے اس سلسلے کی قسطوں کو شائع کرتے ہوئے اسے زینت بخشی۔ اسی کے ساتھ اب ”پیام فرقان“ کے نام سے مضامین کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا جارہا ہے۔ پیام فرقان کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہوگی کہ یہ مختصر اور جامع ہوگا۔ امید ہیکہ آپ حضرات یہ منفرد سلسلے کو پسند فرمائیں گے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قلم کے صحیح استعمال کی توفیق عنایت عطا فرمائے اور فتنوں سے مامون و محفوظ فرمائے۔ آمین!


فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

یکم جنوری 2021ء بروز جمعہ

+918495087865

mdfurqan7865@gmail.com

ortArticle