Tuesday, December 3, 2024

انتیسواں اجلا س عام آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا گیارہ نکاتی اعلامیہ!

 انتیسواں اجلا س عام آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا گیارہ نکاتی اعلامیہ!



✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


 آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ملت اسلامیہ ہندیہ کے سبھی مسالک و مکاتب فکر اور تمام طبقات کا باوقار متحدہ و مشترکہ پلیٹ فارم ہے، جو ملک میں تحفظ شریعت اسلامی و شعائر اسلامی کے لئے پچھلے پچاس سالوں سے مسلسل، مستعدی اور کامیابی کے ساتھ جدوجہد میں مصروف ہے۔ بورڈ شرعی معاملات میں مسلمانوں کے مفادات کی نمائندگی بھی کرتا ہے، ملک میں قوانین شریعت اسلامی و شعائر اسلامی کی حفاظت کی ذمہ داری بھی نبھاتا ہے اور مسلمانوں میں شریعت اسلامی کی پابندی کے سلسلہ میں تحریک بھی چلاتا ہے۔ بورڈ شرعی نقطہئ نظر سے حالات اور مسائل کا گہرائی سے جائزہ لینے اور لائحہ عمل تیار کرنے کے لئے ملک کے مختلف مقامات پر اپنا سالانہ اجلاس عام منعقد کرتا ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا انتیسواں اجلاس 23، 24 نومبر 2024ء ریاست کرناٹک کا معروف دینی درسگاہ دارالعلوم سبیل الرشاد بنگلور میں منعقد ہوا۔ اس موقع پر بورڈ نے ایک عظیم الشان اجلاس عام بعنوان تحفظ شریعت و تحفظ اوقاف بتاریخ 24 نومبر 2024ء بروز اتوار عید گاہ قدوس صاحب، ملرس روڈ، بنگلور میں بعد نماز عصر تا عشاء منعقد کیا۔ اس باوقار اجلاس عام کی سرپرستی امیر شریعت کرناٹک حضرت مولانا صغیر احمد خان صاحب رشادی مدظلہ نے فرمائی، جبکہ فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب مدظلہ صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اجلاس کی صدارت فرمائی، بنگلور اور ریاست کرناٹک کے چپے چپے سے لاکھوں کی تعداد میں مسلمانوں نے اس اجلاس میں حصہ لے کر تحفظ شریعت اور تحفظ اوقاف سے متعلق اکابرین امت کے پیغام کو بغور سنا۔ اس اہم اجلاس میں بورڈ کے عہدیداراں، ملت کی ممتاز شخصیات اور مختلف مسالک و مکاتب فکر کے ذمہ داران اور سربراھان کا خطاب ہوا، مختلف اکابرین امت نے تحفظ شریعت و اوقاف کے عنوان پر تفصیل سے روشنی ڈالی، اجلاس میں مسلم پرسنل لا میں مداخلت پر ایک طرف جہاں حکومت کو للکارا گیا وہیں دوسری طرف ملت کو حوصلہ بخش پیغام بھی دیا گا، اجلاس کے اختتام سے قبل آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری حضرت مولانا محمد فضل الرحیم مجددی صاحب مدظلہ نے گیارہ نکاتی اعلامیہ پیش کیا۔ جس کی تائید شرکاء اجلاس نے ہاتھ اٹھا کر کی۔ وہ گیارہ نکاتی اعلامیہ مندرجہ ذیل ہے۔


آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ انتیسواں اجلاس عام 23 ،24 نومبر 2024ء بنگلور تمام مسلمان بھائیوں اور بہنوں سے اپیل کرتا ہے کہ:

 (1) ملک کے موجودہ حالات میں سب سے زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ مسلمان اپنے اندر دین پر ثابت قدمی کا جذبہ پیدا کریں اور طے کر لیں کہ ان کو جیسی بھی آزمائش سے گزرنا پڑے، معیشت اور کاروبار کا خطرہ ہو، جان کے لالے پڑ جائیں، نوجوانوں کو بے قصور جیل میں بھیج دیا جائے؛ لیکن ہر قیمت پر اپنے اور اپنی نسلوں کے ایمان کا تحفظ کریں گے، اس وقت فرقہ پرست طاقتیں کئی جہتوں سے مسلمانوں کو ان کے دین سے منحرف کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں، آئینی طور پر ملک کے سیکولر ہونے کے باوجود نصاب تعلیم میں مشرکانہ تصورات کو داخل کیا جا رہا ہے، کلچرل پروگراموں کے نام پر دیویوں، دیوتاؤں کا تقدس ذہن میں بٹھایا جا رہا ہے، ملک کی شاندار اور قابل فخر تاریخ،جس کا تعلق مسلم دور سے ہے، کو نصاب سے باہر کر دیا گیا ہے، شہروں، سڑکوں اور اداروں کے ان ناموں کو بدلا جا رہا ہے، جن سے مسلمانوں کی نسبت کا اظہار ہوتا ہے، ایک طرف مسلمان لڑکوں کے غیر مسلم لڑکیوں سے نکاح کو تو لوجہاد قرار دیا جا رہا ہے اور دوسری طرف مسلمان لڑکیوں سے غیر مسلم لڑکوں کے تعلق کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے اور علی الاعلان اس کی ترغیب دی جا رہی ہے، مسلمانوں کو گھس پیٹھیا کہہ کر برادران وطن کی نظر میں ان کی عزت ووقار کو مجروح کیا جا رہا ہے، ان سب کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان اپنے دین، اپنی شریعت، اپنے مذہب، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ کے بارے میں احساس کمتری میں مبتلا ہو جائیں اور جب کوئی قوم ا حساس کمتری میں مبتلا ہو جائے تو اس کو اپنے فکر وعقیدہ سے منحرف کر دینا اور اکثریتی سوچ میں جذب کر لینا آسان ہو جاتا ہے؛ اس لئے یہ بات بہت ضروری ہے کہ مسلمان اپنے اندر جذبہئ استقامت پیدا کریں، انبیاء کرام، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کے عزیمت کو یاد رکھیں اور نئی نسل تک بھی یہ پیغام پہنچائیں، اس کے بغیر ہم اس ملک میں اپنے آپ کو مذہبی اور تہذیبی انضمام کی سازش سے بچا نہیں سکیں گے۔


 (2) ہمارے لئے یہ بات ایک شرعی فریضہ کے درجہ میں آگئی ہے کہ ہم ہر مسلم آبادی میں بنیادی دینی تعلیم کے مکتب قائم کریں، جو لڑکوں کے لئے بھی ہوں اور لڑکیوں کے لئے بھی، جو چھوٹے بچوں کے لئے بھی ہوں اور ان میں تعلیم بالغاں کا بھی نظم ہو، ہر مسلمان بچہ چاہے آگے جو بھی تعلیم حاصل کرے، اس مرحلہ سے گزر کر آگے بڑھے؛ تاکہ وہ IAS, IPS,بنے، ڈاکٹر، انجینئریا عصری درسگاہوں کا کامیاب استاذ بنے، کسی فن میں مہارت حاصل کرے؛ لیکن وہ اس کے ساتھ ساتھ ایک سچا اور پکا مسلمان بھی ہو اور یہ بھی ضروری ہے کہ مکاتب کے تعلیمی نظام میں قرآن مجید، ضروری مسائل، اذکارو اوراد کے ساتھ ساتھ ان کو اچھی طرح اسلامی عقائد یعنی توحید، رسالت، ختم نبوت، عظمت صحابہ، محبت اہل بیت، قرآن مجید کی حقانیت، حدیث نبوی کی اہمیت، شرک، الحاد، دہریت وغیرہ کا رد اور روز مرہ کے شرعی احکام کی حکمتوں اور مصلحتوں سے روشناس کرایا جائے، بچوں کا ذہن ایک سادہ تختی اور خالی کاغذ کی طرح ہوتا ہے اور اِس وقت اس پر جو لکھ دیا جائے، وہ زندگی کی آخری سانس تک کے لئے نقش ہو جاتا ہے اور یہ صرف دینی بقاء کے لئے ہی ہماری ضرورت نہیں ہے؛ بلکہ ہم پر ہماری نسلوں کا حق ہے؛ ورنہ ہم عند اللہ خدانخواستہ مجرم سمجھے جائیں گے اور جواب دہ ہوں گے۔


 (3) کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہمارے اس ملک میں آئے دن حضور اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کی جارہی ہے، عزت وحرمت رسول پر کیچڑ اچھالا جارہا ہے، اور پے در پے اس طرح کی حرکتیں ہورہی ہیں، پھر یہ بات بھی تکلیف دینے والی ہے کہ شانِ رسالت میں گستاخی کرنے والے مجرم کھلے عام پھر رہے ہیں، ان پر قانونی کارروائی بھی نہیں ہورہی ہے، حضور اکرم ﷺ انسانیت کے حقیقی مسیحا ہیں اور سارے جہان والوں کے لیے باعث رحمت ہیں، ایسی پیاری، مقدس اور محبوب شخصیت کی شان میں گستاخی کرنا نہایت مجرمانہ عمل ہے، آج کا یہ اجلاس شانِ رسالت میں گستاخی کرنے والوں کی سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہے، اور حکومت ہند سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ حضور اکرم ﷺ سمیت ہر محترم ومقدس شخصیت کی اہانت کو روکنے کے لیے مضبوط اور مؤثر قانون بنائے اور اس کا نفاذ کرے۔


 (4)اس وقت مسلمان لڑکوں اور لڑکیوں کے غیر مسلم لڑکوں اور لڑکیوں سے شادی کے جو واقعات پیش آرہے ہیں، اگرچہ میڈیا ان کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے؛ تاکہ مسلمانوں کے حوصلے پست ہوں اور فرقہ پرستوں کے حوصلے بلند؛ لیکن بہر حال یہ واقعات نہایت افسوسناک ہیں،اس سلسلہ میں جہاں ایک طرف نکاح کو آسان بنانا اور اسراف وفضول خرچی سے بچنا اور بچانا ضروری ہے، وہیں ذہن سازی بھی ضروری ہے، نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کا ذہن بنایا جائے کہ دین کی اہمیت مال ودولت سے زیادہ ہے اور غیر مسلم سماج میں رشتہ کرنا آخرت کے لئے تو ہے ہی نقصان وخسران کا باعث؛ لیکن ایسا رشتہ کرنے والے لڑکے اور لڑکیاں دنیا میں بھی تنہا ہو جاتے ہیں، کوئی سماج انہیں قبول نہیں کرتا ہے، ان کی آئندہ نسلوں کو بھی یہی مصیبت جھیلنی پڑتی ہے اور اکثر اس کا انجام دنیا میں بھی بہت عبرتناک ہوتا ہے؛ اس لئے ہر قیمت پر اس سے بچنا ضروری ہے، مسلم سماج کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ دین کی اہمیت مال سے بھی زیادہ ہے اور تعلیم سے بھی زیادہ، اگر کسی لڑکی نے اعلیٰ تعلیم حاصل کر لی اور اس معیار کا رشتہ نہیں مل رہا ہے تو چاہے اس سے کم معیار کا رشتہ ہو؛ لیکن ہو مسلمان، تو اس رشتہ کو قبول کرنا چاہئے؛ کیوں کہ یہ بات ظاہر ہے کہ بدقسمتی سے مسلم سماج میں اعلیٰ تعلیم کا پرسینٹیج کم ہے، ان حالات میں اگر اس پر اصرار کیا جائے تو اس سے مسلمان لڑکیوں کے دوسرے سماج کی طرف جانے کا راستہ کھلے گا۔


 (5) عدالتوں کے ذریعہ قانون شریعت کی نادرست تشریح کے واقعات اسی لئے پیش آتے ہیں کہ مسلمان اپنے خاندانی جھگڑے لے کر عدالتوں میں پہنچتے ہیں، جہاں فیصلہ کرنے والے ناقص معلومات کی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہیں، نہ قانون شریعت پر ان کا یقین ہوتا ہے اور نہ وہ ان کی حکمتوں اور گہرائیوں سے واقف ہوتے ہیں، اس کا حل یہ ہے کہ مسلمان اپنے خاندانی نزاعات کو احکام شریعت سے واقف علماء، صاحب بصیرت ائمہ وخطباء اور اس مقصد کے لئے قائم کردہ اداروں میں لے جائیں، چاہے وہ دارالقضاء کے نام سے ہوں یا محکمۂ شرعیہ کے نام سے، اس طرح ہم بہتر طور پر اپنی شریعت کی حفاظت کر سکیں گے، عدالتوں اور حکومتوں کی مداخلت سے بچا سکیں گے، نیز کم خرچ اور کم مدت میں انصاف حاصل کر سکیں گے، جہاں انصاف کا ایسا نظام موجود نہ ہو، وہاں علماء، مشائخ اور مسلم سماج کی ذمہ دار شخصیتوں کا فریضہ ہے کہ وہ اس کو نافذ کریں، اگر وہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ سے اس کی درخواست کریں تو بورڈ ان شاء اللہ پوری ذمہ داری کے ساتھ اس ملی اور اجتماعی فریضہ کی ادائیگی میں ان کی مدد کرے گا۔


(6) اسلام کا تصور یہ ہے کہ مردو عورت انسانیت کے دو حصے ہیں، النساء شقائق الرجال (سنن ابی داؤد:1711) صلاحیتوں کے اعتبار سے بعض ذمہ داریوں میں فرق کیا گیا ہے؛ مگر بنیادی طور پر مردوں اور عورتوں کے حقوق اور ایک دوسرے کے تئیں ذمہ داریاں برابر ہیں: ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف (بقرہ:228) اللہ کا شکر ہے کہ قرآن وحدیث کی ان تعلیمات کی وجہ سے اب بھی مسلم سماج میں عورتوں پر ظلم وزیادتی کے واقعات بہ مقابلہ دوسرے سماج کے کم ہوتے ہیں؛ لیکن جو کچھ ہوتے ہیں، وہ بھی قابل مذمت ہیں، خاص کر بلا ضرورت طلاق اور عورتوں کو حق میراث سے محروم رکھنا اور ان کے حصہ پر قابض ہو جانا ایسی باتیں ہیں جو معاشرہ کو بہت نقصان پہنچا رہی ہیں اور شریعت اسلامی کی بدنامی کا سبب بن رہی ہیں؛ اس لئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ اس پر توجہ دے اور نصف انسانیت کے ساتھ انصاف بلکہ اس سے آگے بڑھ کر حُسن سلوک کا رویہ اختیار کرے۔


 (7) ہم ایک ایسے سماج میں رہتے ہیں، جہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے قیام پذیر ہیں، ایسے ملے جلے سماج کے لئے خصوصی طور پر مسلمانوں کو رواداری اور وسیع الاخلاقی کا رویہ اختیار کرنا چاہئے، آگے بڑھ کر تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ہم نبی ئ رحمت کی امت ہیں اور تمام عالم کے لئے امت ِدعوت ہونے کی حیثیت سے رحم وکرم، عفوودرگزر اور خوش اخلاقی ومروت ہمارا فریضہ ہے، آگ کو آگ سے نہیں بجھایا جا سکتا ہے، آگ کو پانی سے ہی بجھایا جا سکتا ہے؛ اس لئے ہماری ذمہ داری ہے کہ نفرت کی جو آگ سلگائی جا رہی ہے، ہم اس کو محبت کی شبنم سے بجھائیں اور حالات جیسے کچھ بھی ہوں اپنے داعیانہ کردار کو فراموش نہ کریں، ملک کے موجودہ حالات میں یہی ہمارے مسائل کا حل ہے، ظلم کا بادل جتنا بھی گہرا ہو، انصاف اور محبت کا سورج اسے چاک کر دیتا ہے۔


 (8) اس وقت اوقاف کا مسئلہ نہایت اہمیت اختیار کر گیا ہے، جس سے ہماری مسجدوں، عیدگاہوں، مدرسوں، قبرستانوں، امام باڑوں، مسافر خانوں، یتیم خانوں اور دوسرے مصارف کے لئے کئے جانے والے اوقاف کا تحفظ خطرہ میں پڑ چکا ہے، بورڈ اس کے لئے سیاسی سطح پر جدوجہد کر رہا ہے، اگر حکومت نے ہماری آواز کی اَن سنی کی، تو عوامی تحریک بھی چلائی جائے گی اور ضرورت پڑنے پر قانونی جدوجہد بھی ہوگی، ان سبھی کاموں میں آپ سبھوں کا تعاون ضروری ہے، اس کے بغیر اس مشکل مسئلہ کو حل کرنا ممکن نہیں ہوگا؛ لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ پیشگی تحفظ کے طور پر ہم ا وقاف کے دستاویزات اور ضروری کاغذات کو درست کریں، جہاں ضرورت ہو سرکاری دفاتر سے کاغذات حاصل کریں، جو زمینیں کھلی ہوئی حالت میں ہوں، ان کی احاطہ بندی کرائیں اور ہم خود اوقاف پر ناجائز قبضہ سے بچیں، یہ اجتماعی ظلم ہے اور اس کا گناہ بہت بڑھا ہوا ہے، افسوس کہ خود مسلمانوں کا مسجدوں کی اراضی، قبرستانوں وغیرہ پر ناجائز قبضہ موجود ہے، یہ نہ صرف شرعاََ سخت گناہ ہے اور پوری ملت کے ساتھ حق تلفی ہے؛ بلکہ حکومت کو اس کے ناپاک عزائم کو اس سے تقویت پہنچتی ہے۔


 (9) آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا یہ عظیم الشان اجلاس جس میں ملک بھر کے مسلمانوں کی نمائندہ شخصیتیں اور مذہبی وسماجی تنظیمیں شامل ہیں، حکومت کو متوجہ کرتاہے کہ حکومت ایک قوم اور ایک مذہب کی نمائندہ نہیں ہے؛ بلکہ ملک میں بسنے والے تمام شہریوں کی نمائندہ ہے اور کسی خاص مذہب، تہذیب اور کسی خاص سیاسی پارٹی کے منشور کے مطابق اُسے ملک چلانے کا حق نہیں ہے؛ بلکہ سیکولرزم اور آئین کی پاسداری کے ساتھ اس کو ہر کام انجام دینا ہے، ایسا رویہ اختیار کرنا ہے، جس سے ظاہر ہو کہ ملک میں بسنے والی تمام قومیں یکساں حقوق کی حامل ہیں؛ مگر افسوس کہ پچھلے چند سالوں سے اقلیتوں میں یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ انہیں دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، یہ دستور وآئین کے ساتھ زیادتی ہے اور اس سے ملک کا امن وامان خطرہ میں پڑ سکتا ہے؛ اسی لئے اسے چاہئے کہ وقتی سیاسی مفادات کے لئے ملک کے اتحاد اور سلامتی کو خطرہ میں نہ ڈالے۔


 (10) یہ اجلاس اس حقیقت کا اظہار کرنا ضروری سمجھتا ہے کہ اس ملک میں دینی مدارس کی ایک روشن تاریخ رہی ہے اور اس نے پُر امن،ذمہ دار اور محب وطن شہریوں کو پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، ایک ایسے وقت میں جب کہ تعلیمی ادارے مکمل طور پر بزنس اور تجارت کا ذریعہ بن گئے ہیں، یہ ایک ایسا تعلیمی نظام ہے، جو نئی نسل کو اخلاق اور انسانیت کی تعلیم دیتا ہے، اس نے جنگ آزادی میں بھی ملک کی حفاظت میں مؤثر کردار ادا کیا تھا اور اب بھی ملک کی تعمیر وترقی، تعلیم کی اشاعت اور سماجی واصلاح کے پہلو سے نہایت اہم رول ادا کر رہا ہے؛ اس لئے حکومت کو ان کے کاموں میں رخنہ پیدا کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے۔


 (11) ملک بھر کے مقتدر علماء اور مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کے نمائندوں کا یہ اجتماع فلسطین کے مظلوم مسلمانوں پر اسرائیل کی بربریت اور امریکہ و یورپ کی طرف سے اس کی تائید و تقویت نہایت ہی غیرانسانی اور افسوس ناک حرکت ہے، جس میں کھلے عام بین الاقوامی قوانین کا مذاق اڑایا گیا ہے اور ظالموں کو ظلم کے لئے کھلی چھوٹ دی گئی ہے، یہ اجلاس اس کی سخت مذمت کرتا ہے، مجاہدین فلسطین کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہے، عالمی طاقتوں سے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرتا ہے، عالم اسلام بالخصوص عرب ممالک کی اسرائیل کے جنگی جرم پر خاموشی اختیار کرنے کو جرم میں شرکت تصور کرتا ہے، یہ اجلاس حکومت ہند سے بھی مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ انسانی حقوق کا پاسدار رہا ہے اور بین الاقوامی قوانین کے مخالف رویہ کی مذمت کرتا ہے، بورڈ کا احساس ہے کہ مسلمانوں کو چاہئے وہ خطوط اور ای میل کے ذریعہ امریکہ اور یورپی یونین کے ملکوں کو اپنے جذبات پہنچائیں اور جیسے ہندوستان کی آزادی کے لئے اس ملک کے معماروں نے ایک زمانہ میں برطانوی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا تھا اسی طرح اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں، کیونکہ اگر ظالم کو ظلم سے روکنے کی طاقت نہ ہوتو جس حدتک اس کو نقصان پہنچایا جاسکتا ہے پہنچایا جائے۔


#AIMPLBBangaloreConference #AIMPLB #Waqf #MTIH #TIMS

No comments:

Post a Comment