Friday, December 2, 2022

مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”تحفظ ختم نبوتؐ کانفرنس“ سے امیر الاحرار مولانا عثمان لدھیانوی کا خطاب!

 عقیدۂ ختم نبوت کا تحفظ ہر مسلمان کا اولین ایمانی فریضہ ہے اور قادیانیت انگریز کا خود کاشتہ پودا ہے! 

مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”تحفظ ختم نبوتؐ کانفرنس“ سے امیر الاحرار مولانا عثمان لدھیانوی کا خطاب!





بنگلور، 02؍ ڈسمبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد پندرہ روزہ عظیم الشان آن لائن ”تحفظ ختم نبوتؐ کانفرنس“ کی چودھویں نشست سے خطاب کرتے ہوئے مرکز تحفظ اسلام ہند کے سابق سرپرست اعلیٰ قائد الاحرار حضرت مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانویؒ کے جانشین اور مجلس احرار اسلام ہند کے قومی صدر و پنجاب کے شاہی امام حضرت مولانا محمد عثمان رحمانی لدھیانوی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ عقیدۂ ختم نبوت اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے، جس طرح اللہ کی توحید یعنی وحدانیت پر ایمان لانا ضروری ہے اسی طرح حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر ایمان لانا ضروری ہے کیونکہ آپ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی و رسول ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جتنے انبیاء علیہم السلام دنیا میں آئے ان کی نبوت علاقہ، قوم اور وقت کے لحاظ سے محدود تھی۔ لیکن آپؐ صرف اپنے ملک، اپنے زمانے اور اپنی قوم کے لیے ہی نہیں بلکہ آپؐ قیامت تک پوری نوع انسانی کے لیے نبی مبعوث فرمائے گئے، کیونکہ آپؐ پر نبوت کا دروازہ ہمیشہ ہمیش کیلئے بند کردیا گیا، اب آپؐ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، اب قیامت تک آپؐ ہی کی شریعت مطہرہ کا سکہ چلے گا۔ مولانا لدھیانوی نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے معاشرہ بت پرستی، قتل و غارت، قبائلی رقابتوں، کمزوروں پر ظلم، فحاشی، بدکاری، بچیوں کو زندہ دفن کرنے، غلاموں اور عورتوں کو حقوق نہ دینے، خیانت جیسی اخلاقی، سماجی اور معاشی برائیوں کی غلاظت میں لتھڑا ہوا تھا۔ ایسے میں اللہ کے پیارے نبی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دین حنیف کے داعی اور مبلغ بن کر مبعوث ہوئے۔ آپؐ نے بندوں کو توحید کی دعوت دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف بلایا، ان کی تخلیق کا حقیقی مقصد یاد دلایا، برائیوں کو چھوڑ کر حسن اخلاق کا پیکر بننے کا درس دیا، معاشرے میں امن و سکون قائم کرنے کا طریقہ ئکار دیا، مساوات کا حقیقی تصور دیا، معاشرے کے پسے ہوئے طبقوں بالخصوص غلاموں اور عورتوں کو جینے کا حق دلایا، رب العالمین کی نافرمانی کرنے والے غافلوں کو جہنم کی طرف جانے سے روک کر راہِ جنت پر چلایا۔ مولانا نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے جیسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا اعلان کیا تو جو لوگ آپؐ کی سچائی، امانت داری، وعدے کی پاسداری، خوش اخلاقی و دیگر اوصاف کا کل تک اعتراف کیا کرتے تھے آج اعلان نبوت کے بعد آپؐ کے دشمن بن گئے کیونکہ انہیں اپنے ظلم و ستم، جھوٹ و فریب اور دھوکہ بازی اور دیگر برائیوں اور کفریہ عقائد کی دکانیں بند ہوتی نظر آرہی تھیں۔ مولانا نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مقصد رسالت کی تکمیل سے روکنے کے لئے جسمانی، مالی، سماجی اور نفسیاتی قسم کی رکاوٹیں کھڑی کرنا شروع کر دیں، لیکن وہ کبھی کامیاب نہ ہوسکے۔ یہی وجہ ہیکہ جب دشمنانِ اسلام نے اپنی ہر سازشیں اور حربے ناکام ہوتے دیکھا تو اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمانوں کا مقابلہ کرنا اور انکا خاتمہ کرنا ناممکن ہے کیونکہ مسلمان اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو محبت وعقیدت رکھتے ہیں، اس نے ہی انہیں ایک امت واحدہ بنا رکھا ہے۔ لہٰذا مسلمان جسکی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں اور جس کو اپنا مرکز سمجھتے انہیں کی شخصیت کو اگر مشکوک بنایا دیا جائے تو ہم کچھ حد تک اپنی سازشوں میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اس کیلئے انہوں نے مسلمانوں کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق کو ختم کرنے یا کمزور کرنے کے لیے نیز آپؐ کی نبوت و رسالت اور ختم نبوت کو مشکوک بنانے کیلئے آپؐ پر لایعنی اعتراضات اور الزامات کی بوچھاڑ کرنے لگے اور ایسے لوگوں کو تیار کیا جنہوں نے اپنی جھوٹی نبوت کا دعویٰ کرتے ہوئے تاج ختم نبوت پر ڈاکہ ڈالنے کی کوششیں کی اور کررہے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ اتنی سازشوں کے باوجود تاریخ شاہد ہیکہ دشمنانِ اسلام بالخصوص جھوٹے مدعیان نبوت و منکرین ختم نبوت نہ کبھی اپنے مکر و فریب اور جال سازی و دھوکہ بازی میں کامیاب ہوئے اور نہ کبھی مسلمانوں نے انہیں تسلیم کیا بلکہ ہمیشہ ختم نبوت کے محافظوں نے ان ملعون و کذابوں کو انکے انجام تک پہنچایا۔ شاہی امام مولانا لدھیانوی نے فرمایا اس صدی میں مرزا غلام احمد قادیانی کے دعویٰ نبوت کے پیچھے بھی وہی مقصد تھا۔ انہوں نے تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ مرزا قادیانی انگریز کا خود کاشتہ پودا تھا۔ لیکن اس کو پروان چڑھانے میں انگریزوں کا سب سے بڑا مقصد مسلمانوں کے اندر سے روحِ محمد ﷺ نکالنا اور ان میں شعلہ جوالہ کی طرح گرم جذبۂ جہاد کو سرد کرنا تھا۔ کیونکہ برصغیر پر انگریزوں کے مکمل تسلط کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قومِ رسول ؐکے اس جذبۂ جہاد نے کھڑی کی تھی۔ لہٰذا انگریز کو ایسے مکار مگر اپنے ساتھ وفادار شخص کی ضرورت تھی جو نبوت کا جھوٹا دعویٰ کر کے مسلمانوں کو انگریز حکومت کی اطاعت کا درس دے اور جہاد کو حرام کہے اور یہ سب کچھ اللہ کا حکم بتا کر مسلمانوں میں پھیلائے۔ اس منصوبہ کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے اور اس کے تمام پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد انگریزوں نے مرزا غلام احمد قادیانی کو جھوٹا نبی بنا کر پیش کیا تھا۔ جس نے برطانوی حکومت کے استحکام اور عملداری کے تحفظات میں الہامات کا ڈھونگ رچایا، اسکے نزدیک تاج برطانیہ کے مراسلات، وحی کا درجہ رکھتی تھیں اور وہ ملکہ معظمہ کے لیے رطب اللسان تھا، برطانوی حکومت کی قصیدہ گوئی اور مدح سرائی مرزا قادیانی کی نبوت کا دیباچہ تھی۔ مولانا نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کا مسیلمہ کذاب سے لیکر اس دور کے مزار قادیانی اور دیگر جھوٹے مدعیان نبوت و منکرین ختم نبوت کی سرکوبی اور ختم نبوت کی حفاظت کے لیے امت مسلمہ نے لازوال قربانیوں کی ایسی داستان رقم کی ہے جو تاریخ حق کے انمول باب کے طور پر دیکھی جاتی ہے۔ امیر الاحرار نے فرمایا کہ عقیدۂ ختم نبوت امت مسلمہ کا اجتماعی عقیدہ ہے جس پر شروع سے لے کر آج تک کسی کا اختلاف نہیں اور یہ کوئی متنازعہ یا اختلافی مسئلہ بھی نہیں بلکہ عقیدہ ختم نبوت جان ایمان ہے، جو برحق ہے۔ مولانا لدھیانوی نے دوٹوک فرمایا کہ اسلام کی چودہ سو سال کی تاریخ گواہ ہے تمام فتنوں سے مباحثہ، مجادلہ، مناظرہ و مباہلہ وغیرہ ہوئے۔ لیکن جھوٹے نبیوں سے تو گفتگو اور دلائل مانگنے کی بھی شریعت نے اجازت نہیں دی۔ چنانچہ امت کی ساڑھے چودہ سو سال کی تاریخ گواہ ہے کہ جب کبھی کسی اسلامی حکومت میں کسی شخص نے جھوٹی نبوت کا دعویٰ کیا تو امت نے اس سے دلائل و معجزات مانگنے کی بجائے اس کے وجود سے ہی اللہ تعالیٰ کی دھرتی کو پاک کردیا۔ ہمارے اسلاف بھی مناظرہ کے قائل نہیں تھے اور ہم بھی اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مناظرے کے قائل نہیں اور نہ ہی ہماری جماعت مجلس احرار اسلام ہند مناظرہ کے قائل ہے۔ احرار کا دو ٹوک موقف ہیکہ گمراہ لوگوں سے مناظرہ نہیں کیا جاتا۔ اور مناظرہ اختلافی مسائل پر کیا جاتا ہے اور عقیدہ ختم نبوت کوئی اختلافی مسئلہ نہیں ہے۔اور جھوٹے مدعی نبوت اور پیروکاروں کا وہی علاج ہے جو صدیق اکبرؓ نے اپنے عہد زرین میں مسیلمہ کذاب کا یمامہ کے میدان میں کیا تھا۔ مولانا نے فرمایا کہ رسول اللہﷺ خاتم النبیین تھے، خاتم النبیین ہیں اور خاتم النبیین رہیں گے، آپؐ کے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا، اس بات میں کوئی دورائے نہیں ہے، اور دنیا کی کوئی طاقت اس فیصلہ کو تبدیل نہیں کرسکتی۔ مولانا نے فرمایا کہ عقیدۂ ختم نبوت ہر امتی کو جان سے بھی پیارا ہے۔ یہ اسلام کا ایسا لازم رکن ہے جسکے بغیر مسلمان کا ایمان کبھی مکمل نہیں ہو سکتا، یہ ایک ایسا نکتہ ہے جس پر تمام مسالک اور فرقے متفق ہیں کہ سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آخری نبی ہیں اور آپ ؐ کوآخری نبی نہ ماننے والا یقینی طور پر دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ لہٰذا عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کا کام کرنا ہر مسلمان کا اولین ایمانی فریضہ ہے۔ مولانا لدھیانوی نے فرمایا کہ ضرورت اس بات کی ہیکہ ہم فتنۂ قادیانیت کے دجل و فریب اور ان کے کفریہ عقائد و نظریات کو بے نقاب کرنے، امت مسلمہ بالخصوص نسلِ نو کی ایمان کی حفاظت کیلئے اور عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کیلئے متحد ہوکر عملی اقدامات کریں۔ قابل ذکر ہیکہ اس موقع امیر الاحرار حضرت مولانا محمد عثمان رحمانی لدھیانوی صاحب نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے فرمایا کہ خوب دعاؤں  سے نوازا۔


#Press_Release #News #khatmenabuwat #ProphetMuhammad #FinalityOfProphethood #LastMessenger #MTIH #TIMS 

No comments:

Post a Comment