حضرت ابوہریرہ ؓ نے اظہار حق کیلئے کسی کی پرواہ نہیں کی،کسی صحابی پر بھی تنقید کرنا جائز نہیں!
مرکز تحفظ اسلام ہند کی آن لائن عظمت صحابہؓ کانفرنس سے مفتی محمد زید مظاہری ندوی کا خطاب!
بنگلور، 13/ اکتوبر (ایم ٹی آئی ہچ): مرکز تحفظ اسلام ہند کی آن لائن عظمت صحابہؓ کانفرنس کی چھبیسویں نشست سے خطاب کرتے ہوئے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے استاذ حدیث حضرت مولانا مفتی محمد زید مظاہری ندوی مدظلہ نے فرمایا کہ حضرت ابوہریرہؓ کے متعلق صحابہ کرام ؓمیں یہ بات طئے شدہ تھی جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے ایک مرتبہ حضرت ابوہریرہؓ سے فرمایا: ”ائے ابوہریرہ! آپ تو ہم لوگوں میں سب سے زیادہ رسول اللہؐ کے ساتھ رہنے والے اور سب سے زیادہ رسول اللہؐ کی حدیثوں کو یاد رکھنے والے ہیں۔“ مولانا نے فرمایا کہ حضرت ابو ہریرہؓ اور دیگر صحابہ کرامؓ کی زندگیوں کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہؐ کی تربیت کے نتیجے میں وہ پورے طور پر لایخافون لومتہ لائم کا مصداق بن چکے تھے، اظہارِ حق کے سلسلے میں انکو کوئی طاقت، حکومت یا بڑی سے بڑی شخصیت بھی مانع نہ بنتی تھی، وہ حق کو ظاہر کرکے رہتے تھے، وہ لوگوں کو کتنا ہی کڑوا معلوم ہو، وہ اپنے وقت کے امراء اور حکام کے سامنے بھی حق گوئی اور امر با المعروف و نہی عن المنکر سے باز نہ آتے تھے۔ چنانچہ اس سلسلے میں حضرت ابوہریرہ ؓاور دیگر صحابہ کرامؓ کے مختلف واقعات کتب حدیث میں موجود ہیں، جن سے امراء اور حکام وقت کے سامنے انکی حق گوئی کا پتہ چلتا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ حدیث کی کتابوں میں ایسے بہت سارے واقعات ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو ہریرہؓ اور دیگر صحابہ کرامؓ کبھی بھی نہ مداہنت کا شکار ہوئے اور نہ ہی کسی موقع پر کسی ملامت اور بدنامی یا کسی امیر و حاکم کے خوف سے کتمان علم اور کتمان حدیث کے گناہ میں مبتلا ہوئے ہوں۔ اگر کسی موقع پر انہوں نے کچھ حدیثوں کو بیان نہیں کیا تو وہ بھی رسول اللہؐ ہی کے ارشادات اور خصوصی ہدایات سے انہوں نے یہ سمجھا کہ اس مضمون کی حدیثوں کا بیان کرنا فتنے کا موجب ہوگا اس لیے رسول اللہؐ کی ہدایات کے مطابق ان حدیثوں کو انہوں نے بیان نہیں کیا، احادیث مبارکہ سے اسکی دلیلیں ملتی ہیں اور مولانا نے بہت ساری دلیلیں اور مثالیں پیش کیں۔ مولانا زید مظاہری نے فرمایا کہ یہاں ایک اعتراض ہوتا ہے کہ اگر ان حدیثوں کو بیان کرنا فتنے کا موجب ہے تو رسول اللہؐ نے ان حدیثوں کو کیوں بیان کیا؟ تو اسکا جواب یہ ہے کہ اللہ کے نبیؐ کو وہ مخصوص حدیثیں بیان کرکے اپنی دعوت و تبلیغ کی ذمہ داری کو پورا کرنا تھا تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ آپ ؐنے اللہ کے پیغامات کو نہیں پہنچایا، اور اللہ کے نبیؐ نے اگر چند مخصوص صحابہ کرامؓ کو یہ حدیثیں بیان کی تو اس میں بہت ساری حکمتیں اور مصلحتیں پوشیدہ تھیں اور اس میں ان صحابہؓ کے صبر و ضبط کا امتحان بھی لینا مقصود تھا، کہ ایسی حدیثوں کو اپنی ذات تک محدود رکھیں، اور الحمد للہ حضرات صحابہ اس میں پورا کھرے کے کھرے اترے۔ مولانا نے فرمایا کہ ایسی حدیثوں کی تحقیق اور ٹوہ میں بھی نہیں پڑھنا چاہیے، جنکو مخفی رکھا گیا ہے۔ الغرض ان ساری باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوہریرہؓ اور دیگر حضرات صحابہ کرام ؓنے ان حدیثوں کو ضرور بیان کیا جس میں امت کے لیے خیر تھا، اور جن حدیثوں کو بیان نہیں کیا انکو بیان نہ کرنا ہی مناسب تھا، لہٰذا اس پہلو سے کسی صحابی پر بھی تنقید کرنا جائز نہیں۔ قابل ذکر ہیکہ مفتی محمد زید مظاہری ندوی نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو بہت سراہا اور اراکین مرکز کے لیے بہت ساری دعاؤں سے نوازا۔
No comments:
Post a Comment