انسانی زندگی میں عقائد کی اہمیت!
از قلم : حضرت مولانا مفتی محمد مسعود عزیزی ندوی مدظلہ
عقیدہ کی مثال:
محترم دینی بھائیو! آج کی اس مجلس میں ہمیں عقیدہ سے متعلق گفتگو کرنی ہے، اللہ تعالی عقیدہ کو سمجھنے پھر صحیح عقیدہ اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
میرے عزیزو! انسانی زندگی میں عقیدہ کی جو اہمیت ہے ، اس کی مثال اس طرح ہے جس طرح کسی بھی عمارت میں بنیاد کی ، یعنی اگر بنیاد صحیح ، درست اور مضبوط ہوگی تو اس پر تعمیر ہونے والی ہر عمارت مضبوط اور دیر پا ہوگی، اوراگر بنیاد میں کسی قسم کی کمی ہوگی یا بنیاد صحیح مٹیریل (Material)صحیح مال لگا کر اور اچھے اندازپر نہیں رکھی جائے گی، تو اس پر تعمیر ہونے والی ہر عمارت بے کار، بے سود ، بے فائدہ او رکمزور ہو گی اوراس کے بھیانک نتائج جلد آشکارا ہوجائیں گے ۔
دوستو! بالکل اسی طرح اپنی ز ندگی کی بنیاد کو سمجھو! اگر ہماری زندگی کی بنیاد صحیح عقائد اور صحیح اصول پر قائم ہوگی تو ہماری زندگی میں ہونے والا ہر عمل چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا، نتیجہ کے اعتبار سے بڑا سود مند، فائدہ مند، باثمر، مضبوط اور اللہ تعالی کے یہاں مقبول او رمبرور ہوگا ، اس لئے آج آپ اس نکتے کو سمجھ لوکہ یہ کیسی بیش بہا اور قیمتی چیز ہے ۔
عقیدہ کسے کہتے ہیں؟
میرے بھائیو! عقیدہ کہتے ہیں کسی بات کا یقین دل میں جمانا اور اس کو خدا کا حکم سمجھنا اور پھر اس کے مطابق عمل کرنا ، اسی لیے فاران کی چوٹی پر نبی برحق حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکے کے لوگوں کو اکٹھا کرکے جو پہلی آواز لگائی تھی وہ تھی:’’قُوْلُوْا لاَاِلَہَ اِلاَّاللّٰہُ تُفْلِحُوْا‘‘(۱) کہ اے لوگو! اللہ کو ایک مانو، کامیابی تمہارے قدم چومے گی ، اس میں سب سے پہلے اسی عقیدہ کی دعوت دی گئی ہے ، جس پر انسان کی زندگی کی عمارت تعمیر ہوسکتی ہے ۔
عقیدہ کا اجمال:
دوستو! عقیدہ کا اجمال یہ ہے :’’ آمَنْتُ بِاللّٰہِ کَمَا ہُوَ بِاَسْمَآئِہٖ وَصِفَاتِہٖ وَقَبِلْتُ جَمِیْعَ اَحْکَامِہٖ، اِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وَتَصْدِیْقٌ بِالْقَلْبِ‘‘ کہ ایمان لایا میں اللہ پر ، جیسا کہ وہ اپنے ناموں اوراپنی صفات کے متصف ساتھ ہے ،اور میں نے اس کے تمام احکام کو قبول کیا، اوراس بات کا میں زبان سے اقرار کرتاہوں اور دل سے تصدیق کرتاہوں ۔
عقیدہ کی تفصیل:
تفصیلی طورپر اس کو اس طرح سمجھا جاسکتاہے :’’آمَنْتُ بِاللّٰہِ وَمَلاَئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وُرُسُلِہٖ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَالْقَدْرِ خَیْرِہٖ وَشَرِّہِ مِنَ اللّٰہِ تَعَالَی وَالْبَعَثِ بَعْدَالْمَوْتِ‘‘ یعنی ایمان لایا میں اللہ پر ، او راس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اوراس کے رسولوں پر اور آخرت کے دن پر اور ہر اچھی بری تقدیر پر کہ یہ سب کچھ اللہ تعالی کی طرف سے ہے اور مرنے کے بعد جی اٹھنے پر ۔
تین بنیادی عقائد:
اسلام کے تین بنیادی عقائد ہیں :
(۱) توحید کا عقیدہ
(۲) رسالت کا عقیدہ
(۳) آخرت کا عقیدہ
پہلا عقید ہ توحید کاہے کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے ، جس نے اس کا ئنات کو پیدا کیا ، اس کی ذات وصفات میں کوئی شریک نہیں ، وہ وحدہ لاشریک ہے ، اکیلا ہے ۔
دوسرا عقیدہ رسالت کا ہے کہ حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری رسول اور خاتم النبیین ہیں اور آپ سے پہلے تمام انبیاء اور رسول برحق ہیں ۔
تیسرا عقیدہ آخرت کا ہے کہ اس زندگی کے بعد ایک اور بھی زندگی ہے جس کو آخرت کہاجاتاہے، جو کچھ انسان اس دنیا میں کرے گا، اسے اللہ تعالی کے سامنے کھڑا ہو کر جواب دینا پڑے گا،اوریہ عقیدہ سب انبیاء کرام کا رہا، اس لیے کہ دین کا تصور اس کے بغیر ادھورا ہوتاہے ۔
باقی دوسرے عقائد:
باقی دوسرے عقائد بھی ہیں ،جیسے اللہ کے فرشتوں پرایمان لانا ، اللہ کی کتابوں پر ایمان لانا ، اچھی بری تقدیر پر ایمان لانا اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر ایمان لانا ۔
اللہ کے فرشتوں پر ایمان لانا:
اس بات کا بھی یقین رکھنا کہ اللہ کی کی ایک مخلوق فرشتے بھی ہیں ، اللہ نے فرشتوں کونور سے پیدا کیااوراللہ تعالی نے فرشتوں کوجس کام میں لگادیا ہے ، اسی کام میں وہ لگے ہوئے ہیں ، فرشتوں کی تعداد اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا، لیکن فرشتوں میں چاربڑے فرشتے یہ ہیں :
(۱)جبرائیل : انبیاء کرام علیہم السلام پر کتابیں اور اللہ کے احکام لاتے ہیں ۔
(۲)میکائیل : بارش کا انتظام اور روزی پہنچانے کاکام کرتے ہیں ۔
(۳)اسرافیل: قیامت کے دن صور پھونکیں گے ، جس سے ساری کائنات فنا ہوجائے گی۔
(۴)عزرائیل: جان نکالنے کے لئے مقر رہیں ۔
اللہ کی کتابوں پر ایمان لانا:
اللہ تعالی نے انبیائے سابقین پر بھی اپنی کتابیں بھیجیں ہیں ، جن پر ایمان لانا او ران کو اللہ کی برحق کتابیں ماننا ضروری ہے ، اللہ تعالی کی چار مشہور کتابیں یہ ہیں :
(۱) توریت : حضرت موسی علیہ السلام پر نازل ہوئی ۔
(۲)زبور: حضرت داؤد علیہ السلام پر نازل ہوئی ۔
(۳)انجیل : حضرت عیسی علیہ السلام پرنازل ہوئی ۔
(۴) قرآن : حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ۔
اچھی بری تقدیر پر ایمان لانا:
اس بات کا بھی عقیدہ رکھنا ضروری ہے کہ ہر اچھی بری چیز اللہ کی طرف ہے ، جو کچھ انسان زندگی میں کرتاہے ، یا پاتاہے ، وہ سب اس کی تقدیر میں لکھا ہوا ہے ،مثلاً: روزی کہاں سے آئیگی ، شادی کہاں ہوگی ، کتنے بچے ہوں گے ، موت کہاں ہوگی ، غرضیکہ ساری چیزیں اس کی تقدیر میں لکھی ہوئی ہوتی ہیں ، ہراچھی بری بات جو بھی اس کوزندگی میں پیش آئے گی، سب اس کی تقدیر میں لکھی ہوئی ہے ۔
مرنے کے بعد جی اٹھنے پر ایمان لانا:
مرنے کے بعد ایک دن ایسا آئے گا کہ ساری دنیا کے لوگ پھر سے زندہ ہوجائیں گے ، اس کی شکل یہ ہوگی کہ حضرت اسرافیل علیہ السلام صورپھونکیں گے ، مردے زندہ ہوکرکھڑے ہوجائیں گے ، پھرسب کا حساب وکتاب ہوگا، اس بات پر یقین رکھنا بھی ضروری ہے، چونکہ اس دن اچھے برے اعمال تولیں جائیں گے ، ان کا حساب ہوگا، جہاں نیکو کاروں کو ان کا نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں دیا جائے گااور وہ جنت میں جائیں گے، جبکہ بدکاروں کو ان کانامہ اعمال بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا اور وہ جہنم میں جائیں گے ۔
اللہ ہی ہر چیز کا خالق ومالک ہے:
عزیزو! غور سے سن لو کہ آج سے تم اپنے اس عقیدے کو پختہ اور مضبوط کرو گے کہ آسمان وزمین اور ان کے درمیان میں تمام چیزوں کا پیدا کرنیوالا اللہ ہے ، اور زمین وآسمان کا نظام بھی اللہ کے حکم سے چلتاہے : ’’ اَلَّذِیْ خَلَقَنِیْ فَہُوَ یَہْدِیْنِ وَالَّذِیْ ہُوَ یُطْعِمُنِیْ وَیَسْقِیْنِ وَاِذَا مَرِضْتُ فَہَوَ یَشْفِیْنِ وَالَّذِیْ یَمِیْتُنِیْ ثُمَّ یُحْیِیْنِ‘‘(۱) اللہ ہی پیدا کرتاہے ، اللہ ہی مارتاہے ، اور اللہ ہی دوبارہ زندہ کرے گا، اللہ ہی ہدایت دیتاہے ، اللہ ہی بیماری دیتاہے ، اللہ ہی شفا دیتاہے اللہ ہی کھلاتاہے ، اللہ ہی پلاتاہے ، اللہ ہی اولاد دیتاہے ، کسی میں کوئی طاقت نہیں کہ وہ کسی جان کو پیدا کردے اور کسی کی ہمت نہیں کہ وہ کسی کو ماردے ، مگر جب اللہ کا حکم آجائے تو کوئی بھی سبب بن سکتاہے ، اللہ ہی نفع پہنچاتاہے ، اللہ ہی نقصان پہنچاتاہے، اللہ کے علاوہ پور ی دنیا مل کر تم کو نقصان پہنچانا چاہے یا نفع پہنچانا چاہے تو کوئی نہیں ہے اللہ کے سواجو نفع یا نقصان پہنچائے ۔
اللہ کے حکم کے بغیر پتہ بھی نہیں ہل سکتا:
میرے بھائیو! اس بات کی گرہ باندھ لو کہ اللہ کے حکم کے بغیر ایک پتہ بھی نہیں ہل سکتا، اللہ کے حکم کے بنا ایک ذرہ بھی نہیں اڑسکتا، اللہ کے علاوہ کسی میں پیدا کرنے کی طاقت نہیں ، اللہ کے علاوہ کسی میں موت دینے کی طاقت نہیں ، اللہ کے علاوہ کسی میں شفا ء دینے کی طاقت نہیں ، اللہ کے علاوہ کسی میں نفع نقصان پہنچانے کی طاقت نہیں ، اللہ کے علاوہ کسی میں اولاد دینے کی طاقت نہیں ، کوئی دوا اس وقت تک فائدہ نہیں پہنچاسکتی جب تک کہ اللہ کا حکم نہ ہو ، کوئی انجکش اس کے حکم کے بغیر آرام نہیں پہنچاسکتا، جادو ، سحر ، ٹونا اور ٹوٹکا انسانی زندگی میں تصرف نہیں کرسکتا’’اِلاَّبِاِذْنِ اللّٰہِ‘‘ مگر اللہ کے حکم سے ۔
ہر چیز پر اللہ کی حکمرانی ہے:
دوستو! تم ہوا میں اڑو، سمندرمیں تیرو ، دنیا کا چکر لگاؤ، چاندپر پہنچو ، ستاروں پر کمندیں ڈالو، مگر یا درکھو’’اَلاَ لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ‘‘(۱) اللہ ہی کے حکم سے سب کچھ ہے ، اسی کے قبضہ میں سب کچھ ہے ، اسی کے تصرف میں سب کچھ ہے ، اللہ سے مانگو، اللہ دے گا، اولاد اللہ دے گا، شفاء اللہ دے گا، روزی اللہ دے گا، راحت اللہ دے گا، یاد رکھنا آج کے بعد غیر اللہ کے سامنے سجدہ نہ کرنا،سرنہ جھکانا، اللہ کو چھوڑ کر کسی فقیر، پیر ، ولی، غوث ، ابدال اور صاحب قبر یا پجاری سے نہ مانگنا، کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا، اللہ کے علاوہ کسی کو صاحب تصرف نہ سمجھنا’’اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّ لِلّٰہِ‘‘(۲)ہر چیز پر اللہ کی حکمرانی ہے ۔
عقیدہ کی پختگی ضروری ہے:
دینی بھائیو! اگر آج تم نے تمام شرکیہ باتوں سے توبہ کرلی اوریہ عقیدہ ذہن میں بٹھالیا کہ سب کچھ اللہ کے حکم سے ہے ، اللہ نے ہی اس کائنات کو اور دنیا کے نظام کو بنایا اور وہی اس کو چلاتاہے، اور حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری پیغمبر ہیں ، اب قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا، اور آپ کی شریعت پر چلے بغیر نجات نہیں ہوگی ، ان باتوں کو ذہن میں رکھ کر اگر تم نے اللہ کے احکامات کو مانا، اس کے رسول کی سچی پیروی کی اور شریعت پر مکمل عمل کیا تو خدا کی قسم کھا کر کہتاہوں کہ تمہاری جنت پکی ہے ۔
اللہ تعالی ہم تمام کو اپنے عقائد درست کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور شریعت کے احکامات پر عمل کرنے کی ہمت وتوفیق عطا فرمائے ۔
(ماخوذ کتاب : عقائد اور ارکان اسلام، تالیف : مولانا قاری مفتی محمد مسعود عزیزی ندوی خلیفۂ مجاز حضرت مولانا ظریف احمدصاحب قاسمی ندوی مدنی مدظلہ خلیفہ مجازمفکر اسلام حضرت مولانا سیدابو الحسن علی حسنی ندوی نوراللہ مرقدہ)
پیشکش : سلسلہ عقائد اسلام، شعبہ تحفظ اسلام میڈیا سروس، مرکز تحفظ اسلام ہند
No comments:
Post a Comment