ارتداد کے طوفان کو روکنے کیلئے امت مسلمہ کے ہر ایک فرد کو آگے آنا ہوگا!
مرکز تحفظ اسلام ہند کے اصلاح معاشرہ کانفرنس سے مولانا عمرین محفوظ رحمانی، مولانا محمود دریابادی اور مولانا یحییٰ نعمانی کا خطاب!
بنگلور 12؍ اگست (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد آن لائن سہ روزہ اصلاح معاشرہ کانفرنس بعنوان ”مسلم لڑکیاں ارتداد کے دہانوں پر: اسباب اور حل“ کی دوسری نشست سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سکریٹری اور مرکز کے تحفظ اسلام ہند کے سرپرست حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب نے فرمایا کہ کائنات کی سب سے بڑی سچائی دین و اسلام ہے اور کائنات کے سارے انسانوں کی کامیابی صرف اور صرف اسلام میں ہے۔ دین و اسلام ایک عظیم نعمت ہے اور جو یہ نعمت چھوڑ کر دوسرے مذہب کو اپنائے گا اسے دونوں جہاں میں سزا بھگتنی پڑے گی۔ کیونکہ یہی وہ نعمت ہے جو دنیا میں عزت اور آخرت میں نجات کا ذریعہ ہے۔ مولانا رحمانی نے فرمایا کہ افسوس کا مقام ہیکہ آج ہمیں اس نعمت کی قدر اور عظمت کا احساس نہیں ہے اور کتنے ہماری بہنیں اور بھائی ہیں جو ارتداد کا شکار ہورہے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ فکری، عملی اور ذہنی ارتداد کی لہروں نے امت کو اپنے لپیٹ میں لے لیا ہے لیکن ہمیں مایوس ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ اس وقت مسلم لڑکیوں کی غیر مسلم لڑکوں سے شادی کے معاملات اپنے عروج پر ہیں۔ اور یہ ارتداد کے واقعات کوئی اتفاقی واقعات نہیں ہے بلکہ ایک منظم منصوبہ بندی اور پوری تیاری و سازش کے ساتھ مسلمان لڑکیوں کو ارتداد کا شکار بنایا جارہا ہے۔ جسکے پیچھے کئی فرقہ پرست تنظیمیں کام کررہی ہیں، غیر مسلم لڑکوں کو مسلمان لڑکیوں کو رجھانے، قریب کرنے اور پھر ان کا جنسی استحصال کرنے کے لیے گراں قیمت تحفے دئے جاتے ہیں، مثلاً مہنگے موبائیل، لیپ ٹاپ، گاڑیاں وغیرہ دی جارہی ہے۔ اور باضابطہ ان کی فنڈنگ کی جا رہی ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ لو جہاد نام کی کوئی چیز اس ملک میں نہیں ہے، البتہ یہ شوشہ صرف اس لیے چھوڑا گیا تھا کہ ہندو نوجوانوں میں انتقامی جذبہ ابھارا جائے اور خود مسلمانوں کو لوجہادمیں الجھا کر اندرون خانہ مسلمان لڑکیوں کو تباہ و برباد کرنے کا کھیل کھیلا جائے۔ مولانا نے فرمایا کہ ارتداد کی دوسری وجہ یہ ہیکہ لڑکے لڑکیوں کا اختلاط ہورہا ہے، مخلوط تعلیم کی وجہ بے حیائی اور بے پردگی عام ہورہی، بے جا رسومات کی وجہ سے شادی بیاہ مہنگے ہورہے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ ارتداد کے اس طوفان کو روکنے کیلئے امت مسلمہ کے ہر ایک فرد بالخصوص علماء و دانشوران اور مذہبی و ملی تنظیموں کو میدان میں آنا ہوگا اور مسلسل محنت کرنی ہوگی۔ مولانا نے فرمایا کہ ارتداد کو روکنے کیلئے ہمیں اپنے اندر دینی غیرت و حمیت پیدا کرنی چاہیے، مسجد کے منبر و محراب سے اس موضوع پر صاف صاف گفتگو کرنی چاہیے، مستورات کے اجتماعات منعقد کرنی چاہیے، اسکول اور کالجز میں پڑھنے والے بچوں سے بات کرنی چاہیے انہیں بتانا چاہئے کہ دونوں جہاں کی کامیابی صرف دین و اسلام میں ہے، اسی کے ساتھ مکاتب کے نظام کو مضبوط اور مستحکم کرنا چاہئے، اپنے نونہالوں کے دلوں پر عقیدہ توحید و رسالت کو نقش کرنا چاہیے، ساتھ ہی ہمیں سماجی بیداری پیدا کرنی چاہیے اور سوشل میڈیا کے ذریعے بھی بیداری پیدا کرنی چاہیے- مولانا نے فرمایا کہ والدین کو خاص طور پر اپنے بچوں پر نگرانی کرنی چاہیے اور انکی ہر طرح سے ترتیب کرنی چاہیے۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن حضرت مولانا محمود احمد خان دریابادی صاحب نے فرمایا کہ ارتداد کا مسئلہ بڑا سنگین مسئلہ ہے۔یہ مسئلہ فقط ملکی نہیں بلکہ عالمی مسئلہ ہے، جس سے دیگر مذاہب والے بھی شکار ہیں۔ اور یہ صرف لڑکیوں کا مسئلہ نہیں بلکہ لڑکوں کا بھی مسئلہ ہے۔ ہمارے ملک میں اس مسئلے میں اب ایک سازش اور سیاست داخل ہوچکی ہے۔ اور باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ مسلم لڑکے اور لڑکیوں کو ارتداد کا شکار بنایا جارہا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ آج مسلمان نوجوان لڑکے لڑکیوں کی ایک تعداد اعلانیہ طور پر ارتداد کا شکار ہورہی ہے لیکن اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ آج مسلمانوں کے عصری اسکولوں وکالجز میں زیر تعلیم نوجوان طبقہ حتیٰ کہ دیندار گھرانوں کے لڑکے لڑکیوں کی اکثریت فکری ارتداد میں مبتلا ہیں وہ بظاہر تو مسلمان ہیں مگر غیر شعوری طور پر انکے دلوں سے ایمان نکل رہا ہے۔ اور اپنے دین و مذہب کے سلسلے میں وہ مشکوک ہورہے ہیں۔ لہٰذا ہمیں سب سے پہلے اس فکری ارتداد کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ مولانا دریابادی نے فرمایا کہ مسلم لڑکیوں میں بڑھتا ارتداد کی وجہ بے دینی، مخلوط تعلیم، بے پردگی اور شادی بیاہ میں بے جا رسوم و رواج ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے بچوں کو عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی دینی چاہیے اور شادی بیاہ کو آسان بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن حضرت مولانا یحییٰ نعمانی صاحب نے فرمایا کہ ارتداد کی لہر اپنے عروج پر ہے لیکن جس قدر ہم لوگ کو اس مسئلے کے سلسلے میں غفلت کا شکار ہیں وہ قابل افسوس ہے۔ ماضی میں جب کبھی ارتداد کا کوئی ایک واقعہ بھی پیش آجاتا تو پوری امت بے چین ہوجاتی تھی لیکن آج ہزاروں مسلم لڑکے اور لڑکیاں مرتد ہورہے ہیں اور ہمارے سر پر جوں تک نہیں رینگتی۔ مولانا نے فرمایا کہ جس دین و مذہب کو ہمیں دوسروں تک پہنچانے تھا آج اسی دین و مذہب کے ماننے والے دوسرے مذاہب کو اپنا رہے ہیں۔ مولانا نعمانی نے فرمایا کہ ارتداد کی بنیادی وجہ بے دینی، جہالت، مخلوط تعلیم نظام اور مختلف شعبوں اور اداروں میں اجنبی مرد و عورت کا اختلاط ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ ایسی جگہوں پر شرم و حیا اور پردہ کا کوئی نام و نشان نہیں ہوتا۔ اور ایسے لوگوں میں دین کا شعور نہیں ہوتا۔مولانا نعمانی نے فرمایا کہ امت مسلمہ کے ہر ایک فرد کو چاہیے کہ وہ اپنی مصروفیت کے علاوہ کچھ وقت اور سرمایہ ایسے لوگوں میں دین کا شعور پیدا کرنے کیلئے خرچ کریں اور امت کے نوجوانوں میں دینی اور ملی حمیت اور فکر پیدا کریں اور انہیں شرک اور کفر کی سنگینی سے واقف کروائیں جو وقت کی بہت اہم ترین ضروری ہے۔ مولانا یحییٰ نعمانی نے فرمایا کہ ضرورت ہے کہ ہم بیدار ہوں اور اس امت کے بھٹکتے لوگوں کی کچھ رہنمائی کرسکیں اور انھیں کفرو شرک سے بچاکر ایمان ودین کی محبت سے سرشار کردیں۔
قابل ذکر ہیکہ یہ اصلاح معاشرہ کانفرنس مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر محمدفرقان کی نگرانی اور مرکز کے رکن شوریٰ قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی بستوی کی نظامت میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا آغاز مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان کی تلاوت اور قاری پرویز مشرف قاسمی کی نعتیہ کلام سے ہوا، جبکہ مرکز کے رکن شوریٰ مولانا محمد طاہر قاسمی بطور خاص شریک تھے۔ کانفرنس سے خطاب کرنے والے تمام اکابر علماء کرام نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا اور اس کانفرنس کو وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیا۔ اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے تمام مقررین و سامعین اور مہمانان خصوصی کا شکریہ ادا کیا اور صدر اجلاس حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب کی دعا سے یہ کانفرنس اختتام پذیر ہوا۔
No comments:
Post a Comment