Thursday, September 30, 2021

دین سے دوری اورعقائد سے ناواقفیت فتنۂ ارتداد کی بنیادی وجہ ہے!

 


دین سے دوری اورعقائد سے ناواقفیت فتنۂ ارتداد کی بنیادی وجہ ہے!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے اصلاح معاشرہ کانفرنس سے مفتی افتخار احمد قاسمی اور مفتی اسعد قاسم سنبھلی کا خطاب!


بنگلور، 30؍ ستمبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد آن لائن سہ روزہ اصلاح معاشرہ کانفرنس بعنوان ”مسلم لڑکیاں ارتداد کے دہانوں پر: اسباب اور حل“ کی تیسری اور آخری نشست سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست اور جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر حضرت مولانا مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے لیکن ان تمام نعمتوں میں قرآن و حدیث کی روشنی میں سب سے بڑی نعمت ایمان کی نعمت ہے۔ اگر ایمان کی نعمت نہ ہو تو دنیا میں گرچہ ظاہری فائدہ ہو بھی جائے تو موت کے بعد کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور ہمیشہ ہمیش کیلئے جہنم کو اپنا ٹھکانہ بنانا ہوگا۔ لیکن اسکی دوسری جانب اگر ایمان کی نعمت ہو تو اگر کچھ گناہوں کی وجہ سے جہنم میں چلا بھی جائے تو ایمان کی دولت کی وجہ سے ایک نہ ایک دن وہ جنت کا حقدار ہوگا۔ مولانا نے فرمایا کہ یہی وجہ ہیکہ اصحاب رسول نے بڑی سی بڑی قربانیاں دیں لیکن اپنے ایمان کا کبھی سودا نہیں کیا۔ کیونکہ ایمان جان سے بھی زیادہ قیمتی چیز ہے۔ مولانا قاسمی نے فرمایا کہ ایمان پر موت کامیابی کی علامت ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ دور حاضر میں ہمارے معاشرے میں ایمان کی قدر و قیمت کم ہوتی جارہی ہے۔ والدین اور سرپرستان کی بے دین دیکھ کر نئی نسلوں میں بے دین پیدا ہورہی ہے اور وہ دین سے ایسے غافل ہورہے ہیں کہ ارتداد کا راستہ اپنا رہے ہیں۔مولانا نے فرمایا کہ ضرورت ہیکہ ایمان کی قدر و قیمت کو ہمیں معاشرہ کے ہر ایک فرد کو گھول کر پلا دینا چاہیے۔حالات کتنے بھی ناساز کیوں نہ ہو لیکن دور نبوی کے حالات سے زیادہ خراب نہیں ہیں، ان حالات کا کیسے مقابلہ کرنا ہے اسکی ہمیں دین و شریعت نے مکمل رہنمائی کی ہے۔ مولانا نے فرمایا دین سے دوری اور غفلت فتنۂ ارتداد کی بنیادی وجہ ہے۔ اور ہمارے گھروں کا اگر معائنہ کریں تو معلوم ہوتا ہیکہ ہماری نسلوں کو ایمان سے دور کرنے والی چیزیں مثلاً ٹی وی، انٹرنیٹ وغیرہ ہمارے اطراف زیادہ ہیں اور ایمان کی حفاظت کرنے والی چیزیں کم ہیں لہٰذا ہمیں اپنے بچوں کی دینی تعلیم کو مضبوط کرنے اور گھر کے ماحول کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ مولانا قاسمی نے دوٹوک فرمایا کہ ہمیں چاہیے کہ اپنی نسلوں کی ایسی تربیت کریں کہ انکے اندر ایمان پر مر مٹنا کا جذبہ پیدا ہوجائے تاکہ وہ کسی بھی حالت میں ایمان کا سودا نہ کریں۔ مولانا نے فرمایا کہ مخلوط تعلیمی نظام ارتداد کے اسباب کی سب سے اہم کڑی ہے۔ لہٰذا ہمیں اس سے خاص احتیاط کرنی کی فکر کرنی چاہیے۔ مفتی افتخار احمد قاسمی نے فرمایا کہ لوگوں کی ایمان کی فکر کرنا پہلے والدین اور پھر علماء کرام اور ملی تنظیموں کی ذمہ داری ہے لہٰذا اگر وہ اپنی اپنی مکمل ذمہ داری نبھائیں تو ان شاء اللہ ہر ایک کا ایمان محفوظ رہے گا۔ قابل مبارک باد ہیں مرکز تحفظ اسلام ہند کے اراکین کہ انہوں نے اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے یہ کانفرنس منعقد کی۔


کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جامعہ شاہ ولی اللہؒ، مرادآباد کے مہتمم حضرت مولانا مفتی اسعد قاسم سنبھلی صاحب نے فرمایا کہ ارتداد دنیا کی ایسی عظیم اور خطرناک قسم کی آفت ہے کہ دنیا میں اس سے بڑا حادثہ کوئی نہیں ہوسکتا۔ اگر آسمان پھٹ جائے، زمین دھس جائے تو بھی وہ حادثہ کم ہے لیکن ارتداد اس سے بڑا حادثہ ہے۔ مفتی صاحب نے فرمایا کہ رسول اللہؐ کی وفات کے بعد بعض قبائل اسلام سے پھر کر مرتد ہوگئے تھے، خلیفہ اول سید نا ابوبکر صدیق ؓ کو جب اس کی اطلاع ملی تو آپ ؓ نے ان کے خلاف جہاد کیا اور ارتداد کے ذریعہ دشمنان اسلام کے جو کچھ منصوبے تھے ان سب پر پانی پھر دیا، اور وہ اپنی موت آپ مرگئے اور اسلام کے خلاف ساری سازشیں ناکام ہوگئیں۔مولانا سنبھلی نے فرمایا کہ ارتداد کی سب سے پہلی وجہ یہ ہیکہ ظالم حکمران کا ہم پر مسلط ہونا اور اپنی طاقت کا ناجائز فائدہ اٹھا کر مسلمانوں کو مرتد کرنے کی کوشش کرنا۔اسکی دوسری وجہ مخلوط تعلیمی نظام ہے اور دور حاضر میں نئی تعلیمی پالیسی جو نافذ ہوئی ہے دشمنان اسلام نے ایسی سازش رچی ہیکہ اس نئی تعلیمی پالیسی کے چلتے بچے اپنی پڑھائی مکمل کرنے تک خود بہ خود مرتد ہوجائیں گے۔ مولانا نے فرمایا کہ ارتداد کی تیسری وجہ حد سے زیادہ اتحاد بھی ہے، اس ملک میں بین المذاہب  اتحاد کی یقیناً ضرورت ہے لیکن وہ بھی شریعت کے حدود میں ہو ورنہ ایک بڑی تعداد اتحاد کے چلتے غیروں کے کفر و شرک کی تقارب میں بھی حصہ لینے لگتی ہے اور بعد میں مرتد ہوجاتی ہے۔چوتھی وجہ یہ مسلمانوں کی معاشی تنگی ہے۔ کیونکہ اغیار مسلمانوں کی غربت وجہالت سے فائدہ اٹھا کر ان کی مدد کو پہونچتے ہیں اور پھر اس مدد کے نام پر ان کے دین وایمان پر ڈاکہ ڈالتے ہیں۔ مولانا سنبھلی نے فرمایا کہ ہمیں ان تمام اسباب پر غور کرنا چاہیے اور اس اعتبار سے اسکا حل تلاش کرنا چاہیے۔ مولانا نے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ سے اپیل کرتے ہوئے فرمایا کہ بورڈ ارتداد کے سلسلے میں ایک الگ شعبہ ملکی سطح پر بنائے اور ہر صوبوں، اضلاع اور گاؤں میں اسکی ذیلی کمیٹیاں ہو جو اپنے علاقوں کا معائنہ کرے اور کوئی واقعہ درپیش ہوتو وہاں فوری طور پر پہنچ کر مناسب اقدامات کرے۔ اسی کے ساتھ مکاتب کے نظام کو مضبوط کیا جائے اور ہر گاؤں گاؤں میں عقائد کی تعلیم بالخصوص عقیدۂ توحید و رسالت پر زور دیا جائے اور مسلمانوں اور ان کے بچوں کے دلوں میں کفر و شرک کی نفرت بٹھا دی جائے۔مفتی اسعد صاحب نے فرمایا کہ چونکہ مرد حضرات کو علماء کرام کے مواعظ حسنہ سے استفادہ کا زیادہ موقع ملتا ہے لیکن مستورات کو کم ملتا ہے، جس وجہ سے ارتداد کا فتنہ عورتوں میں زیادہ پایا جارہا ہے لہٰذا ہمیں خواتین کے ہفتہ واری اور ماہانہ اجتماع منعقد کرنے کا نظام بنانا چاہئے اور مساجد والوں کو چاہیے کہ وہ جمعہ بیان کو مسجد تک محدود نہ کریں بلکہ اپنے محلہ کے ہر ایک گھر میں جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے پہنچانے کی کوشش کریں۔ مولانا نے فرمایا کہ باطل ایک سیلاب کی طرح آتا ہے لہٰذا ہم اگر تھوڑی سی کوشش کریں تو اللہ کی مدد و نصرت شامل حال ہوگی اور یہ باطل پر حق غالب آئے گا۔


قابل ذکر ہیکہ یہ اصلاح معاشرہ کانفرنس مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر محمدفرقان کی نگرانی اور مرکز کے رکن شوریٰ قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی بستوی کی نظامت میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا آغاز مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان کی تلاوت اور مفتی محمد مصعب قاسمی کی نعتیہ کلام سے ہوا، جبکہ مرکز کے رکن شوریٰ مولانا محمد طاہر قاسمی بطور خاص شریک تھے۔ کانفرنس سے خطاب کرنے والے دنوں اکابر علماء کرام نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا اور اس کانفرنس کو وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیا۔ اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے تمام مقررین و سامعین اور مہمانان خصوصی کا شکریہ ادا کیا اور صدر اجلاس حضرت مولانا مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب کی دعا سے یہ سہ روزہ اصلاح معاشرہ کانفرنس اختتام پذیر ہوا۔

Monday, September 20, 2021

لدھیانہ میں مجلس احرار اسلام ہند کے زیر اہتمام تعزیتی اجلاس کا انعقاد، پنجاب اور ملک کی دیگر ریاستوں سے ہزاروں علماء کرام شامل ہوئے!

 




لدھیانہ میں مجلس احرار اسلام ہند کے زیر اہتمام تعزیتی اجلاس کا انعقاد، پنجاب اور ملک کی دیگر ریاستوں سے ہزاروں علماء کرام شامل ہوئے!

شیر اسلام شاہی امام پنجاب مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانویؒ پنجاب ہی نہیں ملک بھر کے مظلوموں کی آواز تھے: مولانا سجاد نعمانی کا بیان



  لدھیانہ 20 ستمبر (پریس ریلیز): بر صغیر کے شعلہ بیان اور بے خوف عالم دین مجلس احرار اسلام ہند کے امیر و شاہی امام پنجاب مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانویؒ کے وصال کے بعد آج یہاں تاریخی جامع مسجد لدھیانہ کے سامنے مجلس احرار اسلام ہندکی جانب سے تعزیتی اجلاس کا انعقاد کیا گیا۔اجلاس کی صدارت حضرت مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی صاحب نے فرمائی، جبکہ بوڑیا یمنانگر سے پیر جی حافظ حسین احمد صاحب قادری خصوصی طور پر موجود تھے۔ تعزیتی اجلاس میں پنجاب کی تمام مساجد کے امام صاحبان اور ذمہ داران موجود تھے نیز دیگر ریاستوں سے بڑی تعداد میں علماء کرام شامل ہوئے۔ نظامت کے فرائض مولانا محمد طیب صاحب طاہرپور رائے پور اور شری سوشیل کمار پراشر نے ادا کئے۔ اجلاس کی ابتداء قاری محمد محترم کی جانب سے قرآن پاک کی تلاوت سے کی گئی جس کے بعد شان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں قاری محمد مستقیم کریمی نے نعتیہ کلام پیش کیا۔ اس تعزیتی اجلاس میں تمام مذاہب اور سیاسی و سماجی جامعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد موجود تھے جن میں گردوارہ دکھ نورن صاحب کے پردھان پرتپال سنگھ، چیئرمین عتیق الرحمن لدھیانوی،کیبنٹ منسٹر بھارت بھوشن آشو وزیر اعلیٰ پنجاب کیپٹن امریندر سنگھ کی جانب سے تعزیتی پیغام لیکر آئے۔ نیز پنجاب وددھان سبھا میں عام آدمی پارٹی کے اپوزیشن لیڈرہرپال سنگھ چیمااکالی دل باد کے سینئر لیڈر سابق کیبنٹ منسٹر ہیرا سنگھ گابڑیا، چرچ نارتھ انڈیاسے اگسٹن داس،شری گیان استھل مندر کے پردھان جگدیش بجاج، تخت شری کیس گڑھ صاحب کے سابق جتھیدار گیانی کیول سنگھ، چیئرمین امرجیت سنگھ ٹکہ، اطہر لدھیانوی سابق سکریٹری حج کمیٹی دہلی، بالمیکی سمودائے سے نند کشور، مفتی صدام حسین لدھیانوی، قاری الطاف الرحمن لدھیانوی، مجاہد طارق لدھیانوی سمیت متعدد معززین شامل تھے۔اس موقعہ پر خطاب کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڑ کے رکن و ملک کے ممتاز عالم دین حضرت مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی نے کہا کہ مجلس احرار کے امیر و شاہی امام مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانویؒ صرف پنجاب ہی نہیں بلکہ ملک بھر کے مظلوموں کی آواز تھے،یہ شیر ہمیشہ اس وقت گرجتا تھا جب ظلم کے سامنے مظلوم کے حق میں آواز اٹھانے والے خاموش نظر آتے تھے۔ مولانا سجاد نعمانی نے کہا کہ آج مولانا حبیب الرحمن ثانیؒ ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں لیکن انکی جرأت اور استقامت و حق گوئی مجلس احرار اسلام ہند اور انکے جانشین مولانا محمد عثمان رحمانی لدھیانوی کی شکل میں موجود ہے اور ہم دعا کرتے ہیں کہ یہ احباب احرار کی عظیم روایات کو ہر دور میں اندہ رکھیں گے۔ تعزیتی اجلاس کو خطاب کرتے ہوئے پیر جی حافظ حسین احمدصاحب بوڑیا نے کہا کہ مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانویؒ نے اپنے دادا رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی اول مرحوم کے ہم نام ہونے کا حق ادا کردیا۔ آپ میں وہی جرأت اور بیباکی تھی جو علمائے لدھیانہ کی شان ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس عظیم خاندان نے ہر دور میں ملک و قوم کی خدمت کی ہے اور تحریک تحفظ ختم نبوتؐ کے لئے شیر اسلام مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانوی کی خدمات آب زر سے لکھی جانے والی ہیں کہ آپ کا نام سن کر منکرین پر آج بھی لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ پیر جی نے کہا کہ پنجاب و ہریانہ سمیت ملک بھر کے مسلمان آپکے جانشین مولانا محمد عثمان حمانی لدھیانوی کے ساتھ ہیں۔پنجاب کے اپوزیشن لیڈر ہرپال سنگھ چیمہ نے کہا کہ تمام مذاہب کے لوگ مرحوم شاہی امام صاحب سے اس لئے محبت کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے کبھی کسی سے کوئی بھید بھاو نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب کی عوام مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانوی کو ہمیشہ احترام اور فخر کے ساتھ یاد کرتی رہیگی۔اکالی دل کے نمائدے و سابق جتھیدار ہیرا سنگھ گابڑیا نے کہا کہ مرحوم شاہی امام پنجاب مولانا حبیب الرحمن مذہبی ہونے کے ساتھ ساتھ سماجی خدمات میں بھی پیش پیش تھے، لاک ڈاؤن میں جو مثالی خدمات شاہی امام صاحبؒ کی قیادت میں جامع مسجد سے کی گئیں اس کی نظیر نہیں ملتی،اس موقعہ پر آپکے بچپن کے دوست اور مشہور اکالی لیڈر سردار پرتپال سنگھ نے کہا کہ شاہی امام پنجاب مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی حقیقت میں شیر تھے، آپ نے ہمیشہ دہشت گردی کی مخالفت کی اگر کھی پاکستان کی طرف سے کوئی بات ہوئی تو سیدھا اسکے خلاف بیان دیا اور جب کبھی ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف کوئی بڑے سے بڑا فرقعہ پرست بولا تو اسکے بھی دانت کھٹے کر دئے، انہوں نے کہا کہ ڈرنا اور خاموش ہو جانا پنجاب کے شاہی امام مرحوم مولانا کو آتا ہی نہیں تھا انہوں کہ ہم سب اپنے بھتیجے نئے شاہی امام پنجاب مولانا محمد عثمان رحمانی لدھیانوی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اجلاس کے اختتام پر خطاب کرتے ہوئے جانشین امیر احرار شاہی امام پنجاب مولانا محمد عثمان رحمانی لدھیانوی نے اپنے مختصر اور ولالہ انگیز خطاب میں کہا کہ ہم سب انشاء اللہ خون کے آخری قطرہ تک تحریک تحفظ ختم نبوتؐ جاری رکھیں گے انہوں نے کہا کہ تمام دوست اور دشمن یقین رکھیں کے وہ مجھے اپنے ساتھ اور سامنے ہر حالت میں قائم و دائم پائیں گے ہم اللہ کی طاقت کے ساتھ پرچم حق کو بلند کرتے رہیں گے۔ اجلاس کے اختتام پر مجلس احرار اسلام ہند کے سرپرست اورمعروف عالم دین پیر جی حافظ حسین احمد صاحب قادری بوڑیانے دعاء کروائی۔ قابل ذکر ہے کہ اجلاس میں متعدد علماء کرام نے خطاب کیا اور تمام وقت مجمع سے اللہ اکبر و ختم نبوتؐ کی فلک شگاف صدائیں بلند ہوتی رہیں، بعد نما ظہر شروع ہوا یہ اجلاس نماز عصر کے وقت اختتام پزیر ہوا، اجلاس میں لدھیانہ پولیس اور پرشاسن کی طرف سے اعلیٰ انتظامات کئے گئے تھے۔

فوٹو کیپشن۔لدھیانہ میں شیر اسلام شاہی امام پنجاب مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانوی کے تعزیتی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے حضرت مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی، انکے ساتھ پیر جی حافظ حسین احمد صاحب، شاہی امام پنجاب مولانا محمد عثمان رحمانی لدھیانوی، سردار پرتپال سنگھ و دیگر معززین۔۔۔۔(آزاد)

Thursday, September 16, 2021

قائد الاحرار مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانویؒ کی وفات ملت اسلامیہ کیلئے عظیم خسارہ اور ایک عہد کا خاتمہ ہے!







قائد الاحرار مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانویؒ کی وفات ملت اسلامیہ کیلئے عظیم خسارہ اور ایک عہد کا خاتمہ ہے!

قائد الاحرار کے انتقال پر مرکز تحفظ اسلام ہند کی تعزیتی و دعائیہ نشست!

حضرت قائد الاحرار ہمارے لئے ایک مشفق باپ کی طرح تھے : محمد فرقان


بنگلور، 15؍ ستمبر (پریس ریلیز): عالم اسلام کی مایہ ناز شخصیت، مسلمانانِ ہند کی قدآور اور عظیم رہنما، مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست اعلیٰ، مجلس احرار اسلام ہند کے قومی صدر، پنجاب کے شاہی امام، تحریک تحفظ ختم نبوت کے سپہ سالار، ہزاروں تحریکوں، تنظیموں اور اداروں کے سرپرست، لاکھوں مریدین کے کامل شیخ طریقت، صاحب السیف، مجاہد ختم نبوت، شیر اسلام، قائد الاحرار حضرت اقدس مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ مورخہ 02؍ صفر المکرم 1443ھ مطابق 10؍ ستمبر 2021ء شبِ جمعہ اس دارفانی سے دارالبقاء کی طرف کوچ کرگئے۔ انکے انتقال کی خبر پھیلتے ہی عالم اسلام بالخصوص مسلمانانِ ہند پر غم و افسوس کا بادل چھا گیا۔ ہنگامی طور پر مرکز تحفظ اسلام ہند کے اراکین نے تدفین کی دوسری رات ایک آن لائن زوم پر دعائیہ نشست منعقد کی۔ جس میں مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست حضرت مولانا محمد ریاض الدین مظاہری، بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان، آرگنائزر حافظ محمد حیات خان، اراکین حافظ محمد عمران، حافظ نور اللہ، عمیر الدین، عمران خان، انعامدار خضر علی وغیرہ نے شرکت کی۔ اس موقع پر حضرت قائد الاحرار کے ایصال ثواب کیلئے مرکز کے اراکین نے ایک قرآن مجید کی تلاوت کی۔ مرکز کے سرپرست مولانا محمد ریاض الدین مظاہری نے حضرت کی مغفرت اور بلند درجات کیلئے دعا کروائی بعد ازاں جانشین قائد الاحرار حضرت مولانا محمد عثمان رحمانی لدھیانوی صاحب کے نام ایک تعزیتی مکتوب میں مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان نے فرمایا کہ حضرت کے وصال کی خبر یقیناً ناقابل تحمل ہے، جو بندہ کیلئے بالخصوص اور پوری ملت اسلامیہ کیلئے بالعموم سوہان روح ثابت ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ حضرت کے چلے جانے سے عموماً پوری ملت اسلامیہ بالخصوص بندۂ ناچیز کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ کیونکہ جب سے ہوش سنبھالا ہے حضرت سے گہرا تعلق رہا اور ہر مسئلے میں حضرت کی رہنمائی حاصل رہی۔ وہ ہمارے قائد و سرپرست ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے پیر و مرشد بھی تھے۔ بلکہ حضرت بندۂ ناچیز کو ایک مشفق والد کی طرح چاہتے تھے اور ہمیشہ شفقت پیدری سے نوازتے تھے، یہی وجہ تھی کہ وہ ناچیز کو کبھی نام سے یاد نہیں کرتے تھے بلکہ ہمیشہ بیٹا کہ کر ہی یاد فرمایا کرتے۔ محمد فرقان نے فرمایا کہ قلم تو جملہ پسماندگان و متعلقین سے تعزیت کیلئے اٹھایا تھا لیکن آج بندہ غموں سے اتنا نڈھال ہیکہ خود کو تعزیت کا محتاج سمجھتا ہے۔ لیکن نوشۂ تقدیر کو کیا کرسکتے ہیں۔ مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے فرمایا کہ حضرت علیہ الرحمہ کی ذات گرامی اور کارنامے کسی سے مخفی نہیں۔ حضرت ایک باصلاحیت اور بے باک و نڈر عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ ایک شریف النفس، خوش اخلاق، متواضع، حلیم و بردبار اور متقی و پرہیزگار شخص بھی تھے۔ انکا شمار ان بزرگ ترین ہستیوں میں ہوتا ہے جنکے دینی، علمی و سماجی خدمات سے تاریخ کے بے شمار باب روشن ہیں۔  انکی شخصیت ہمہ جہت تھی۔ انکی پوری زندگی دین و اسلام بالخصوص تاج ختم نبوت کی حفاظت کی خدمت سے عبارت تھی۔ انکی ذات عالیہ پوری ملت اسلامیہ بالخصوص مسلمانانِ ہند کیلئے قدرت کا عظیم عطیہ تھی۔ جو ہر محاذ پر ملت اسلامیہ ہندیہ کی رہنمائی فرمایا کرتے تھے۔ استقلال، استقامت، عزم بالجزم، اعتدال و توازن اور ملت کے مسائل کیلئے شب و روز متفکر اور رسرگرداں رہنا حضرت قائد الاحرار علیہ الرحمہ کی خاص صفت تھی۔ انکی بے باکی اور حق گوئی ہر خاص و عام میں مشہور تھی۔ وہ ایثار و قربانی اور صبر و استقامت کے پیکر مجسم تھے۔ جنہیں نہ تو کسی بڑے سے بڑے نفع کا لالچ اور نہ ہی کسی بڑے سے بڑے نقصان کا خوف اپنے موقف برحق سے ہٹا سکتا تھا۔ انکی ایک آواز پر جہاں ملت اسلامیہ کا ایک بڑا طبقہ لبیک کہتا تھا وہیں دشمن پر انکا رعب اس طرح تھا کہ دشمن ڈر بھاگتا ہے۔ وہ قادیانیوں اور فرقہ پرست طاقتوں کے سامنے شیشہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے رہتے۔ حضرت علیہ الرحمہ نے اپنے خاندان کی روشن روایات اور مشن کو بہت خوبصورتی کے ساتھ آگے بڑھایا اور ہر محاذ پر مسلمانانِ ہند کی مثالی قیادت فرمائی۔ مجلس احرار اسلام ہند کا از سر نو احیا، قادیانیوں اور دیگر شرپسندوں کی جانب سے کئی ایک حملوں کے باوجود تحریک تحفظ ختم نبوت سے مضبوط وابستگی، باطل طاقتوں اور حکومت وقت کے آگے احقاق حق و ابطال باطل کے فریضے کی انجام دہی، پنجاب میں مساجد کی بازیابی اور آبادکاری اور دینی تعلیم کا فروغ جیسے کئی ایک لائق رشک انکے حیات کے پہلو ہیں۔ بالخصوص مجلس احرار اسلام ہند کے پلیٹ فارم سے حضرت نے تحفظ ختم نبوت کی جو تحریک چلائی وہ ناقابل فراموش ہے۔ وہ یقیناً علماء لدھیانہ کے سچے وارث اور امین اور تحریک تحفظ ختم نبوت کے سپہ سالار اور مجاہد تھے۔ محمد فرقان نے کہا کہ آج جہاں ہم سب اپنے سرپرست و قائد سے محروم ہوگئے وہیں مرکز تحفظ اسلام ہند بھی اپنے سرپرست اعلیٰ سے محروم ہوگئی۔ انہوں نے کہا کہ جب مرکز تحفظ اسلام ہند کی بنیاد رکھی تو حضرت نے بڑے قیمتی مشوروں سے نوازا اور اسکی سرپرست بھی قبول فرمائی اور تاحیات اسکی سرپرستی فرماتے رہے، بلکہ مختلف پروگرامات اور کانفرنسوں کی حضرت نے باقاعدہ سرپرستی و صدارت فرمائی۔  انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی عجیب منشاء ہیکہ حضرت کے زندگی کا آخری خطاب بھی مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد تحفظ القدس کانفرنس کے افتتاحی نشست کی صدارتی خطاب کے طور پر ہوا۔ جس کے بعد انکے علم کے مطابق حضرت نے کسی کانفرنس یا اجلاس سے خطاب نہیں کیا ہے۔ حضرت علیہ الرحمہ کے انتقال سے مرکز تحفظ اسلام ہند کو بھی ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے۔ مرکز کے بانی محمد فرقان نے فرمایا کہ انتقال سے قبل جب حضرت بغرض علاج چنئی منتقل ہوئے تو وہ حضرت سے مسلسل رابطے میں رہے۔ انتقال سے بس چار پانچ دن قبل ہی حضرت سے انکی بات ہوئی تھی لیکن کسے معلوم تھا کہ وہ انکی آخری بات ہورہی ہے اور چند لمحے بعد وہ سب کو داغ مفارقت دیکر اس جہاں فانی سے کوچ کر جائیں گے۔ محمد فرقان نے فرمایا کہ آج ہم سب بلکہ پوری ملت اسلامیہ غم میں ڈوبی ہوئی ہے۔ لیکن موت برحق ہے، ہر ایک کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ حضرت کی جدائی سے ہم سب صدمے میں برابر کے شریک ہیں۔ یہ بڑی آزمائش کی گھڑی ہے لیکن ہمیں صبر کا دامن تھام کر اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر راضی ہونا ہوگا۔ حضرت کا اس طرح سے اچانک پردہ فرما جانے سے یقیناً ملت اسلامیہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے، بلکہ تحریک تحفظ ختم نبوت کے میدان میں ایک بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے۔ انکا انتقال ایک عظیم خسارہ ہے بلکہ ایک عہد کا خاتمہ ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ اس رنج و ملال کے موقع پر ہر ایک تعزیت کا مستحق ہے۔ لہٰذا وہ خصوصاً حضرت کے جانشین مولانا محمد عثمان رحمانی لدھیانوی کے، حضرت کے چھوٹے فرزند مجاہد طارق لدھیانوی، حضرت کی صاحبزادی، حضرت کی اہلیہ ماجدہ، حضرت کے دونوں بھائی عبید الرحمن لدھیانوی اور عتیق الرحمن لدھیانوی سمیت جملہ پسماندگان کے، اور حضرت کے تمام محبین، متعلقین، مریدین و تلامذہ اور تمام احراریوں کے اور عموماً پوری ملت اسلامیہ کے غم و افسوس میں برابر شریک ہیں اور اپنی جانب سے اور تمام اراکین مرکز تحفظ اسلام ہند کی جانب سے تعزیت مسنون پیش کرتے ہیں۔ اور دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ حضرت والا کی مغفرت فرماتے ہوئے انکی خدمات کو شرف قبولیت بخشے اور انکے نہ رہنے سے جو کمی ہوئی ہے اسکی تلافی فرمائے، اسکا نعم البدل عطاء فرمائے۔ نیز مرحوم کو جوار رحمت اور اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ہم سب کو انکے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

Thursday, September 2, 2021

پیام فرقان - 12



🎯سوشل میڈیا اصلاح امت کا بہترین ہتھیار ہے!


✍️بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے انبیاء کو معبوث فرمایا اور اپنا پیغام انسانوں تک پہنچانے کی ذمہ داری سونپی تھی۔ انبیاء علیہم السلام نے اس ذمہ داری کو ادا کیا اور اس کی ادائیگی کے لیے وہ تمام وسائل اختیار کیے جو اس زمانے میں موجود تھے۔ آج ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے۔ عصر حاضر میں سوشل میڈیا کی اہمیت سے کوئی شخص بھی انکار نہیں کرسکتا۔ دنیا بھر میں سماجی، سیاسی اور معاشی تبدیلیوں کے تناظر میں سوشل میڈیا کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعہ بات سیکنڈوں میں بڑی تعداد اور بہت دور تک پہنچ جاتی ہے۔ زندگی کے ہر شعبہ پر سوشل میڈیا کے اثرات کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا افراد اور اداروں کو ایک دوسرے سے مربوط ہونے، خیالات کا تبادلہ کرنے، اپنے پیغامات کی ترسیل اور انٹرنیٹ پر موجود دیگر بہت سی چیزوں کو ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ آج ذرائع ابلاغ میں سوشل میڈیا کا استعمال سب سے زیادہ ہے۔ لیکن سوشل میڈیا کا استعمال بے حیائی و بد اخلاقی کو پھیلانے، ناچ گانوں، گندی فلموں کے ذریعہ نئی نسل کو با مقصد زندگی سے غافل کرنے، مغربی تہذیب کو فروغ دینے، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے، اسلامی تعلیمات کا مذاق اڑانے کیلئے کیا جارہا ہے۔ ایسے حالات میں امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس میدان میں آگے آئیں اور میڈیا کو اسلام کے صاف شفاف پیغام کو پہنچانے کا ذریعہ بنائیں۔ نئی نسل کو درست رخ دینے کے لیے اس کا استعمال کیا جائے۔ سوشل میڈیا کے مختلف شعبوں کے ذریعے امت کی اصلاح کی کوششیں کریں کیونکہ عصر حاضر میں سوشل میڈیا اصلاح امت کا بہترین ہتھیار ہے!


فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

02؍ ستمبر 2021ء بروز جمعرات

برہما پور، اڑیسہ صبح 9 بجے


+918495087865

mdfurqan7865@gmail.com


#PayameFurqan #پیام_فرقان

#ShortArticle #MTIH #TIMS #SocialMedia #Islam #Muslim

Wednesday, September 1, 2021

پیام فرقان - 11



🎯دارالعلوم دیوبند زندہ تھا، زندہ ہے اور قیامت تک زندہ رہے گا، ان شاء اللہ!


✍️بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


ہندوستان کی آزادی میں دارالعلوم دیوبند نے ایک اہم اور مؤثر کردار ادا کیا ہے۔ سیکڑوں فارغین دیوبند نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ آزادی کی جد وجہد میں لگا دیا۔ دارالعلوم دیوبند کے بانیین، فارغین اور شاگردان شیخ الہند کی ایک طویل فہرست ہے جو ہندوستان کو انگریزوں کے چنگل سے نکالنے کے لیے آزادی کی جدو جہد میں لگے رہے، طرح طرح کی مصیبتیں اٹھائیں، جلاوطنی کی زندگی بسر کی، مگر ظالم و جابر انگریز کی غلامی اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کو پسند نہیں کیا۔ ایسے ایسے مجاہدین نے دارالعلوم دیوبند کی کوکھ سے جنم لیا جنھوں نے حریت ہند کے لیے اپنی رگ جاں کے آخری قطرہ تک کو نچوڑ دیا؛ لیکن ان کے پائے ثبات میں کبھی لغزش تک نہ آئی۔ ان محبین وطن نے وطن دوستی کا ثبوت دیا، ملک کی آزادی کے لیے اپنی جد و جہد شروع کی اور انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے کیلئے ہر طرح کے مصائب برداشت کئے، ہمیشہ برطانوی سامراج کے نشانے پر رہے لیکن اس ملک کو آزادی کی سانس دلا کر ہی دم لیا۔ مگر آج افسوس اس بات پر ہے جس دارالعلوم دیوبند نے ہندوستان کی آزادی و تعمیر میں اپنے جیالوں کا خون پانی کی طرح بہایا، جس کے جیالے جیل کی سلاخوں کے پیچھے رات و دن گزارے اور جس کے سپوتوں نے مادر وطن کو آزاد کراکر ہی دم لیا، آج اس کی قربانیوں کو فراموش کرکے اس کے فرزندوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔ اس دارالعلوم دیوبند پر پابندی لگانے اور اسے بند کروانے کی بات کی جارہی ہے۔ لیکن ان لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ دارالعلوم دیوبند کو بند کروانے کیلئے برطانوی سامراج سے لیکر آج تک ہزاروں نے کوشش کی اور کوشش کرتے کرتے مر گئے لیکن اسکے برعکس دارالعلوم دیوبند آج بھی زندہ ہے اور ان شاء اللہ قیامت تک زندہ رہے گا۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا:

دیوبند کا تاریخ کے اندر ہر کردار نرالا ہے

رب کی قسم اسلاف کا میرے ہر شہکار نرالا ہے

اس لشکر کے جانبازوں سے ہر باطل گھبرایا ہے

ظلم و ستم کے دور کے اندر حق کا دیپ جلایا ہے

دیوبند نے اسلام کا پرچم دنیا پر لہرایا ہے



فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

یکم؍ ستمبر 2021ء بروز بدھ

نلور، آندھراپردیش بعد نماز مغرب


+918495087865

mdfurqan7865@gmail.com


#PayameFurqan #پیام_فرقان

#ShortArticle #MTIH #TIMS #Deoband #DarulUloom #DarulUloomDeoband