Friday, December 31, 2021

نیا سال منانے والوں کے نام ایک پیغام!

 

نیا سال منانے والوں کے نام ایک پیغام!




از: عبدالرّحمٰن الخبیرقاسمی بستوی

(رکن شوریٰ مرکز تحفظ اسلام ہند و ترجمان تنظیم ابنائے ثاقب)

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ


    فنا نہ کر اپنی زندگی کو راہِ جنوں میں ائے نوجوان

    کب کرے گا عبادت جب گناہ کرنے کی طاقت نہیں ہوگی


۳۱/دسمبر کی رات ایک ایسی رات ہے جو کسی ویلنٹائن ڈے سے کم نہیں، اس رات میں شاید ہی کوئی ایسا گناہ بچتا ہو، جو اس رات میں نہ ہوتا ہو، بلکہ کچھ لوگ گناہوں کی شروعات آج ہی سے مبارک رات سمجھ کر کرتے ہیں، اس رات میں کچھ لوگ پہلی بار شراب کو منھ سے لگاتے ہیں، جسم فروشی و زنا کے دربار سجا کر بےحیائی، آوارگی و فحاشی کو فروغ دیتے ہیں، بھولی بھالی لڑکیوں کو Happy New Year بتاکر ان کی عزتوں کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں، پٹاخہ،


سنیما بینی، جوّا بازی، ناچ گانے کا بازار گرم رہتا ہے، یہ وہ رات ہے جس میں ہر وہ برے کام کئے جاتے ہیں جسے اسلام نے حرام قرار دیا کے Happy new year کےنام پر بڑی بڑی پارٹیاں اور جگہ جگہ پروگرام منعقد کر کے فضول خرچی کی جاتی ہے، حلانکہ یہی مال یہی پیسہ لوگوں کی فلاح و بہبودی کے لئے کر سکتے ہیں، انسانی حقوق کے ٹھیکیدار بننے والی دنیا کی تنظیمیں بھی اس موقع پر چشم پوشی سےکام لیتی ہے، مگر ظاہر ہے کہ وہ اس وقت ہمارے مخاطب نہیں ہیں، لیکن ہم مسلمانوں کو اس موقع پر کیا کرنا چاہیے، ایسے مواقع کے لئے قرآن کریم میں سورہ "الفرقان" میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے اللہ کے بندے وہ ہیں جو ناحق کاموں میں شامل نہیں ہوتے، یعنی جہاں ناحق و ناجائز کام ہو رہےہوں اللہ تعالیٰ کے نیک بندے اس میں شامل نہیں ہوتے، اور جب کسی لغو چیز کے پاس سے گزرتے ہیں تو وقار کے ساتھ گزر جاتے ہیں یعنی لغو بےہودہ کاموں میں شریک نہیں ہوتے، بلکہ برا کام کو برا سمجھتے ہوئے وقار کے ساتھ وہاں سے گزر جاتے ہیں.

چنانچہ امت مسلمہ کا اتفاق ہےکہ یہ سارا عمل صرف اور صرف غیروں کا طریقہ ہے، ایسی جگہوں پرخود بھی اور دوست واحباب رشتہ داروں کو بھی حتی الامکان جانے سے منع فرمائیں، ایسی تقریب کا انعقاد نہ کریں اور نہ ہی ایسی تقریبات میں جائیں، بلکہ جو لوگ ایسی تقریب کا انعقاد کرتے ہیں ان سے میری عاجزانہ درخواست ہے کہ یہی پیسہ، یہی مال غریب، مسکین، بیواؤں، و نادر طلبۃ پر خرچ کرنے کی کوشش کریں، ابھی سردی کا موسم ہے ٹھنڈی سے بچنے کے لئے سوئٹر، کمبل، رومال وغیرہ تقسیم کریں، حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ "مسکین اور بیوہ عورت کی مدد کرنے والا اللہ تعالیٰ کےراستےمیں جہاد کرنے والے کی طرح ہے (بخاری،مسلم)" اسی طرح ایک دوسری حدیث میں ہے کہ "جو شخص کسی مسلمان کو ضرورت کے وقت کپڑا پہنائےگا، اللہ تعالیٰ اس کوجنت کےسبز لباس پہنائے گا، اور جو شخص کسی مسلمان کو بھوک کی حالت میں کچھ کھلائے گا،اللہ تعالیٰ اس کو جنت کا پھل کھلائے گا، جو شخص کسی مسلمان کو پیاس کی حالت میں پانی پلائے گا، اللہ تعالیٰ اس کو جنت کی ایسی شراب پلائے گا،جس پر مہر لگی ہوئی ہوگی (ابوداؤد، وترمذی)

Wednesday, December 29, 2021

مجلس احرار اسلام ہند“؛ ہمت وجرأت کے 92؍ سال! (29؍ دسمبر یوم تاسیس)

 

”مجلس احرار اسلام ہند“؛ ہمت وجرأت کے 92؍ سال!

(29؍ دسمبر یوم تاسیس)



✍️ بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(صدر مجلس احرار اسلام بنگلور و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


تحریک آزادیٔ ہند میں جن انقلابی جماعتوں نے اپنے مذہب و قوم اور وطن کے لیے انگریز سامراج کا مقابلہ کیا اور جدوجہد آزادی میں لازوال و بے مثال ایثار و قربانی اور ایمان و عزیمت کی داستانیں رقم کیں ان میں مجلس احرار اسلام ہند سر فہرست ہے۔جس کی جرأت، استقامت، بہادری اور بے باکی کی داستانیں تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ آج سے تقریباً 92؍ سال قبل جب سن 1929ء میں دریائے راوی لاہور کے کنارے کانگریس کے اجلاس کے اختتام پر نہرو رپورٹ دریا میں بہا دی گئی اور انگریز مسلمانوں کے دلوں اور ذہنوں سے جذبۂ جہاد کی آخری چنگاری اور رمق ختم کرنے کے لیے ایک جھوٹے نبی مرزا غلام قادیانی کو جنم دے چکا تھا اور کشمیر میں ڈوگری حکومت کے مسلمانوں کے ساتھ مظالم کے درمیان انگریز کے خودکاشتہ پودے مرزا غلام قادیانی کے بیٹے مرزا بشیر الدین محمود کی طرف سے کشمیر کو مرزائیت میں رنگنے کی سازش رچی جانے لگی تو مسلمانوں کے سامنے ملک کی آزادی کے ساتھ ساتھ اپنے عقیدوں بالخصوص عقیدۂ ختم نبوت کی حفاظت ایک بڑا چیلنج بن کر ابھرا اور ملک کے اکابرین بھی ایک ایسی جماعت کے خواہشمند تھے جو تحریک آزادیٔ ہند کے ساتھ ساتھ تحریک ختم نبوت کی بھی نمائندگی کرے۔ بالآخر 29؍ دسمبر 1929ء کو دریائے راوی کے کنارے اسلامیہ کالج لاہور کے حبیب ہال میں تحریک آزادی کے حریت پسندوں کا ایک اجلاس منعقد ہوا۔ جس میں رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ، سید الاحرار امیر شریعت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ، مفکر احرار چودھری افضل حقؒ، مولانا سید محمد غزنویؒ، مولانا مظہر علی مظہرؒ، شیخ حسام الدینؒ، ماسٹر تاج الدین انصاریؒ جیسے سربکف وجان باز مجاہدوں نے امام الہند مولانا ابو الکلام آزادؒ کے تجویز کردہ نام کے مطابق ”مجلس احرار اسلام ہند“ کے نام سے اس انقلابی جماعت کی بنیاد رکھی۔ اجلاس کے اختتام پر بطل حریت رئیس الاحرار حضرت مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ کو مجلس احرار اسلام ہند کا صدر منتخب کیا گیا۔


مجلس احرار اسلام ہند کا قیام اس دور کے مشہور بزرگ شیخ المشائخ حضرت مولانا عبد القادر رائے پوریؒ اور امام المحدثین حضرت مولانا سیدانور شاہ کشمیری ؒکے عین خواہشات کے مطابق تھا۔ ان بزرگوں نے ہمیشہ احرار کی سرپرستی فرمائی۔ مجلس احرار کا قیام جہاں تحریک آزادی کے حریت پسندوں کیلئے ایک مضبوط جماعت کی شکل میں ہوا وہیں ملک میں اس جماعت نے اسلامی روایات کے مطابق میدان سیاست میں قدم رکھا۔ چونکہ مجلس احرار اسلام کے بنیادی مقاصد میں آزادی وطن اور تحفظ ختم نبوت ایسے عظیم اہداف شامل تھے۔ اس لیے کسی بھی مکتبہ فکر کے لیے احرار میں شمولیت کے لیے بے پناہ کشش پائی جاتی تھی۔ اس طرح مجلس احرار نے آزادی کی جدوجہد میں نہ صرف مذہبی شعور کو اجاگر کیا بلکہ مختلف مذہبی مکاتب فکر کے سرکردہ راہنماؤں کو یکجا کر کے مشترکہ قیادت فراہم کی۔ احرار کے قیام سے عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور فرنگی حکومت کے چہرے پر شکن پڑگئے۔


مجلس احرار اسلام ہند نے اپنے قیام کے فوراً بعد کشمیر کو مرزائی اسٹیٹ بنانے کی قادیانی خلیفہ مرزا بشیر الدین کی سازش کو ناکام بنانے کیلئے سن 1931ء میں پہلی ملک گیر تحریک کشمیری مسلمانوں کے حق میں چلائی۔ جو تحریک خلافت کے بعد سب سے بڑی تحریک ثابت ہوئی۔ جس میں پچاس ہزار احرار کارکن گرفتار ہوئے۔ مجلس احرار اسلام نے اس گہری سازش کو ناکام بناتے ہوئے تحریک کشمیر میں قائدانہ کردار ادا کیا اور جنت نظیر وادی کے مسلمانوں کو ڈوگرہ راج کے مظالم سے نجات دلائی اور وہاں قادیانی سازش کے خطرناک نتائج سے بچایا۔ تحریک کشمیر کے بعد احرار کی مقبولیت آسمانوں کو چھونے لگی اور ملک کے مختلف حصوں میں احرار کی شاخیں قائم ہوئیں۔تحریک تحفظ ختم نبوت کے سلسلے میں سب سے بڑا اور مشکل مرحلہ جھوٹی نبوت کے گڑھ قادیان کو فتح کرنا تھا۔ اسی کے پیش نظر مجلس احرار اسلام ہند کے قائدین رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی ؒاور امیر شریعت مولاناسید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے اپنے احرار کے جانثار قافلے کے ساتھ سن 1934ء میں قادیان کا دورہ کرتے ہوئے وہاں سہ روزہ کانفرنس منعقد کیا اور اسی درمیان قادیان میں مجلس احرار اسلام کا دفتر قائم ہوا، جس پر احرار کا پرچم لہرا دیا گیا۔ جسے دیکھ کر جھوٹی نبوت کے پیروکار مرزائیوں کے یہاں زلزلہ برپا ہوگیا۔ اسی کو شاعر نے کہا:

ڈر کے سوتے ہی نہیں رات کو مرزا مرتد

آنکھ لگتی ہے تو احرار نظر آتے ہیں


مجلس احرار اسلام ہند کے قائدین بے غرضی اور بے لوثی میں اپنی مثال آپ تھے۔ انہیں مفکر احرار چوہدری افضل حقؒ کا دماغ، رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ کا جوش عمل اور امیر شریعت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی ساحرانہ خطابت میسر تھی۔ اس لیے دیکھتے ہی دیکھتے پورے ہندوستان میں احرار کا طوطی بولنے لگا۔ مجلس احرار اسلام نے انگریزی استعمار کے شدید مظالم کے مقابلے میں دل برداشتہ اور مایوس ہونے کے بجائے عزم کامل اور پوری جرأت و شجاعت کے ساتھ حریتِ اسلامی اور آزادیِ وطن کا علم بلند کیا۔ احرار کا قافلۂ ولی اللّٰہی اپنی مکمل دینی شناخت اور پہچان کے ساتھ تحریک آزادی میں کامیابی، مسلمانوں کے عقیدہ و ایمان کی حفاظت اور خدمت انسانیت کے جذبوں کو پروان چڑھانے کی جدوجہد میں اپنی قربانیوں کا رنگ بھرتا چلا گیا۔ تحریک آزادیٔ ہند کے ساتھ ساتھ مجلس احرار نے تحریک کشمیر، تحریک تحفظ ختم نبوت، تحریک بحالیِ مسجد شہید گنج، تحریک مسجد منزل گاہ سکھر، تحریک امداد و تعاون زلزلہ زدگان کوئٹہ ومتاثرین قحط بنگال جیسی درجنوں تحریکوں کی قیادت کی اور مسلمانوں کی رہنمائی کا حق ادا کر دیا۔ ہندوستان کے جید علماء و مشائخ کی دعائیں اور سرپرستی احرار کو شاملِ حال رہی۔


تحریک آزادی کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور سن 1947ء میں ملک آزاد ہوا لیکن افسوس کہ آزادی کے ساتھ ساتھ ملک تقسیم بھی ہوگیا۔ مجلس احرار اسلام نے روز اول سے تقسیم ہند اور قیام پاکستان کی مخالفت کی۔ الغرض ملک کی آزادی کے ساتھ ہی ملک تقسیم ہوا اور پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ پاکستان کے قیام کے اعلان کے ساتھ ہی ملک بھر میں فسادات کی ابتداء ہوگئی، ہر طرف قتل و غارت، لوٹ مار کا بازار گرم تھا، پاکستان سے بڑی تعداد میں سکھ اور ہندوستان سے بڑی تعداد میں مسلمان ہجرت کررہے تھے۔ کچھ عرصے بعد ہجرت کا یہ سلسلہ ختم ہوا۔ امیر شریعت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ سمیت احراریوں کی ایک تعداد بھی پاکستان ہجرت کرگئی لیکن چند ہی دنوں بعد رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ اپنے اہل خانہ سمیت ہندوستان دوبارہ واپس تشریف لے آئے۔ 1947ء کے بعد پاکستان میں امیر شریعت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے احرار کی سرگرمیاں جاری رکھیں اور ہندوستان میں رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ نے عزم احرار کو زندہ رکھا۔ البتہ دونوں مقامات میں فرق یہ تھا کہ امیر شریعت ؒکے ہمراہ بے شمار احراری موجود تھے اور رئیس الاحرارؒ نے دیار کفر میں اس کا پرچم بلند رکھا تھا۔


مجلس احرار اسلام ہند نے دینی معاملات پر یکسوئی کے ساتھ توجہ مرکوز رکھی۔ تقسیم ہند کے بعد جب پنجاب و اطراف کے علاقوں میں دین اسلام کا نام لینے والا کوئی بھی نہ رہا اس وقت بھی رئیس الاحرار نے ہمت نہ ہاری بلکہ پنجاب میں مساجد آباد کاری کا کام شروع کروایا اور الحمدللہ انکی قربانیوں کے صدقے آج مشرقی پنجاب میں ایک مرتبہ پھر سے اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہورہی ہیں۔ اسی کے ساتھ سیاسی میدان میں نہ ہونے کے باوجود قومی امور اور عوامی مسائل پر مجلس احرار کی توانا آواز سنائی دیتی رہی۔ ستمبر 1956ء میں رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ کا اچانک وصال ہوگیا، اناللہ وانا الیہ راجعون۔ رئیس الاحرار کے تمام صاحبزادے پنجاب میں اسلام کی اشاعت نو میں متحرک تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپ کے فرزند مفتیٔ اعظم مفتی محمد احمد لدھیانویؒ نے عزم احرار کو آگے بڑھایا اور اس ضمن میں پندرہ روزہ اخبار ”الحبیب“ بھی جاری کیا جو کہ احرار کی ترجمانی کررہا تھا۔ رئیس الاحرار کی رحلت کے بعد پنجاب میں مساجد اور مسلمانوں کو آباد کرنے، تحریک ختم نبوت، مدرسہ حبیبیہ کا قیام جیسے مختلف تحریکوں کے ذریعہ اپنی نمایاں خدمات انجام دیتے ہوئے 27؍ مئی 1988ء میں اس مرد مجاہد نے بھی داعی اجل کو لبیک کہ دیا، اناللہ وانا الیہ راجعون۔ مفتیٔ اعظم کے انتقال کے صرف ایک سال بعد لدھیانہ جامع مسجد میں احرار قائدین کی میٹنگ ہوئی، جس میں مجلس احرار اسلام ہند کو ایک بار پھر ملک بھر میں سرگرم کرنے کیلئے اور مسلمانوں کو جذبۂ احرار سے آشناء کروانے کیلئے طویل مجلس کے بعد اتفاق رائے سے قائد الاحرار حضرت مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانویؒ کو جماعت احرار کا صدر منتخب کیا گیا۔

جس کے ایثار سے ملت کی دوبالا ہوئی شان

اس جماعت کے ہیں سردار حبیب الرحمن


مجلس احرار اسلام ہند کا صدر بننے کے بعد قائد الاحرار مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانویؒ نے تمام تر ذمہ داریاں بخوبی ادا کرنی شروع کردیں۔ اولاً تحریک تحفظ ختم نبوت، ثانیاً پنجاب میں مساجد کی آبادکاری اور دینی تعلیم کا فروغ، ثالثاً جماعت احرار کی تنظیم کے کام کو سرفہرت رکھا۔ آپ نے چند سالوں میں ہی نہ صرف جماعت احرار کو منظم کیا بلکہ احراریوں کو ایک بار پھر سے قادیانیوں اور فرقہ پرست طاقتوں کے سامنے شیشہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح قائم کردیا۔ آپ نے پورے ملک کا طوفانی دورہ کرتے ہوئے انگریز کے خودکاشہ پودے قادیانیوں کو اس طرح بے نقاب کیا کہ قادیانی کی راتوں کی نیند حرام ہوگئی۔ یہی وجہ تھی کہ سن 2001ء میں قادیانیوں نے آپکے فرزند ارجمند اور مجلس احرار اسلام ہند کے موجودہ قومی صدر مولانا محمد عثمان رحمانی لدھیانوی سمیت دیگر احراریوں کے خلاف قتل کا ایک جھوٹا مقدمہ درج کرواتے ہوئے گرفتار کرواکر جیل بھیج دیا گیا۔ اس گرفتاری کے بعد قادیانی خوش تھے کہ وہ کامیاب ہوگئے لیکن انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ احراری جہاں جائیں وہاں اللہ کے فضل سے انفرادی انداز میں دین کا کام کرتے ہی رہتے ہیں۔ لدھیانہ جیل میں احراریوں نے عشق رسول اور جرأت و بے باکی کی بے شمار مثالیں قائم کی۔ مجلس احرار اسلام ہند کے تعاون اور قائد الاحرار مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانویؒ کی سرپرستی میں اسیران ختم نبوت نے لدھیانہ سنٹرل جیل میں فقط پانچ ماہ کے مختصر عرصے میں برصغیر کے جیلوں میں اول ”مسجد ختم نبوت“ تعمیر کردی، جسکا افتتاح سن 2005ء میں قائد الاحرار نے کیا۔ اسی طرح مرتد قادیانی پر علمائے لدھیانہ کے سرخیل مولانا شاہ محمد لدھیانویؒ، مولانا شاہ عبداللہ لدھیانویؒ اور مولانا شاہ عبد العزیز لدھیانویؒ کی جانب سے جاری کئے گئے اول فتویٰ تکفیر کے ساتھ جو تحریک تحفظ ختم نبوت شروع ہوئی تھی اسکے سو سال مکمل ہونے پر مجلس احرار اسلام ہند نے 10؍ اپریل 2011ء کو قائد الاحرار مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانویؒ کی صدارت میں لدھیانہ کی سرزمین پر تاریخی صد سالہ جلسہ منعقد کیا، جس میں تقریباً 10؍ لاکھ سے زائد فرزند توحید نے شرکت کی اور قادیانیوں کا تعاقب اور تاج ختم نبوت کی حفاظت کا عزم کیا۔ جسے دیکھ کر قادیانی بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئے اور ملک کی حکومت اور اسکے اہلکاروں کے یہاں احرار کی شکایتیں کرنے لگے لیکن انہیں شاید معلوم نہیں کہ ایسی شکایتوں سے احرار نہ کبھی ماضی میں گھبرایا تھا اور نہ آج اور کل گھبرائے گا کیونکہ احرار تاج ختم نبوت کی حفاظت کے خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا جانتا ہے تو شکایت اور مقدمہ کیا چیز ہے!


مجلس احرار اسلام ہند کے پلیٹ فارم سے قائد الاحرار حضرت مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانویؒ نے جو مثالی خدمات انجام دیں وہ تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ملک کے طول و عرض میں قائد الاحرار مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانویؒ کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ ملت اسلامیہ ہندیہ کا ایک بڑا طبقہ جہاں آپکی آواز پر لبیک کہتا وہیں دشمن پر آپکا رعب اس طرح طاری تھا کہ دشمن ڈر بھاگتا۔ آپ قادیانیوں اور فرقہ پرست طاقتوں کے سامنے شیشہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے رہتے۔ آپ نے اپنے خاندان کی روشن روایات اور مشن کو بہت خوبصورتی کے ساتھ آگے بڑھایا اور ہر محاذ پر مسلمانانِ ہند کی مثالی قیادت فرمائی۔ مجلس احرار اسلام ہند کا از سر نو احیا، قادیانیوں اور دیگر شرپسندوں کی جانب سے کئی ایک حملوں کے باوجود تحریک تحفظ ختم نبوت سے مضبوط وابستگی، باطل طاقتوں اور حکومت وقت کے آگے احقاق حق و ابطال باطل کے فریضے کی انجام دہی، پنجاب میں مساجد کی بازیابی اور آبادکاری اور دینی تعلیم کا فروغ جیسے کئی ایک لائق رشک انکے حیات کے پہلو ہیں۔ بالخصوص مجلس احرار اسلام ہند کے پلیٹ فارم سے حضرت نے تحفظ ختم نبوت کی جو تحریک چلائی وہ ناقابل فراموش ہے۔ وہ علماء لدھیانہ کے سچے وارث و امین اور تحریک تحفظ ختم نبوت کے سپہ سالار اور مجاہد ثابت ہوئے۔ لیکن افسوس کہ عالم اسلام کی یہ مایہ ناز شخصیت اور مسلمانانِ ہند کی قدآور اور عظیم رہنما اور تحریک تحفظ ختم نبوت کے سپہ سالار، مجاہد ختم نبوت، شیر اسلام، قائد الاحرار حضرت اقدس مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی مورخۂ 02؍ صفر المکرم 1443ھ مطابق 10؍ ستمبر 2021ء شبِ جمعہ کو اس دارفانی سے دارالبقاء کی طرف کوچ کرگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون 


 قائد الاحرار حضرت مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانویؒ کا انتقال ملت اسلامیہ بالخصوص جماعت احرار کیلئے ایک عظیم خسارہ تھا لیکن نوشہ تقدیر کو کیا کرسکتے ہیں۔ حضرت علیہ الرحمہ کے وصال کے بعد جماعت احرار کی سرگرمیوں کو بدستور جاری رکھنے کیلئے 08؍ اکتوبر 2021ء بروز جمعہ کو احرار کے صدر دفتر جامع مسجد لدھیانہ میں مجلس عاملہ کا ایک اجلاس منعقد ہوا، جس میں اتفاق رائے سے مجلس احرار اسلام ہند کے قدیم و فعال کارکن اور مرحوم صدر احرار کے رفیق شاعر احرار جناب غلام حسن قیصر صاحب کو مجلس احرار اسلام ہند کا کارگزار صدر مقرر کردیا گیا۔ جو گزشتہ پچاس سال سے مجلس احرار اسلام ہند سے وابستہ تھے۔ انکی صدارت میں احرار کا قافلہ بدستور جاری رہا۔ اور بالآخر 28؍ ڈسمبر 2021ء بروز منگل کو دوبارہ کارگزار صدر کی صدارت میں مجلس احرار اسلام ہند کے اراکین عاملہ کا ایک اجلاس صدر دفتر میں منعقد ہوا اور ملک کے تمام احرار کے ذمہ داران اور کارکنان کی تجویز کو پیش نظر رکھتے ہوئے اتفاق رائے سے جانشین قائد الاحرار، مجاہد ختم نبوت، شاہی امام پنجاب، قائد نوجوان حضرت مولانا محمد عثمان رحمانی لدھیانوی صاحب دامت برکاتہم کو مجلس احرار اسلام ہند کا قومی صدر منتخب کرلیا گیا ہے۔ 


الحمداللہ! آج 29؍ ڈسمبر 2021ء کو مجلس احرار اسلام ہند عزم، ہمت، جرأت اور استقامت کے 92؍ سال مکمل کرچکی ہے اور ملک کے مختلف حصوں میں اپنا یوم تاسیس منا رہی ہے۔ یہ حقیقت ہیکہ علماء لدھیانہ نے بقائے احرار کے لیے اپنی صلاحیتیں وقف کر دیں۔ پرچم احرار بلند رکھا اور اپنے عظیم نصب العین کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہے۔ جس کے نتیجے میں قافلۂ احرار جو کل تک قائد الاحرار حضرت مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں رواں دواں تھا، آج انکے جانشین حضرت مولانا محمد عثمان رحمانی لدھیانوی صاحب مدظلہ کی قیادت میں جاری ہے اور ان شاء اللہ انکی مدبرانہ صلاحیتوں سے مزید حلقۂ احرار وسیع ہوگا۔ کیونکہ نو منتخب صدر احرار حضرت مولانا عثمان لدھیانوی صاحب نے بچپن سے ہی اپنے اجداد کی روایات پر عمل کرنا شروع کردیا تھا اور زمانہ طالب علمی سے ہی منکر ختم نبوت فتنہ قادیانیت کے خلاف محاذ کھول رکھا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ قادیانیوں کے جھوٹے مقدمے کی وجہ سے انہیں اپنی زندگی کے پانچ سال زنداں میں گزارنے پڑے، لیکن پرچم احرار کو کبھی گرنے نہیں دیا بلکہ ہمیشہ بلند رکھا۔ رہائی کے چند سال بعد ہی انکی خدمات کو مد نظر رکھتے ہوئے اتفاق رائے سے سن 2008ء میں وہ مجلس احرار اسلام ہند کے قومی جنرل سکریٹری منتخب ہوئے تھے- جس کے بعد سے آج تک اس عہدے پر فائز رہے اور حضرت قائد الاحرار علیہ الرحمہ کی سرپرستی و نگرانی اور اپنی صلاحیتوں و محنتوں سے ملک کے مختلف حصوں میں پرچم احرار کو بلند کیا اور شاخیں قائم کیں۔ اور آج جب وہ احرار مسند صدارت پر فائز ہیں تو ان شاء اللہ حلقۂ احرار مزید وسیع ہوگا۔ کیونکہ آج بھی احرار میں وہی جذبۂ حریت، بے خوف، حق گوئی کی صفات موجود ہے جس کی بنیاد رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ اور امیر شریعت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے رکھی تھی اور جسے قائد الاحرار حضرت مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانویؒ اپنے خون جگر سے سینچا تھا۔ آج بھی احرار کا شمار ان جماعتوں میں ہوتا ہے جو فتنۂ قادیانیت کے خلاف صف اول میں ملت اسلامیہ کی رہنمائی کررہے ہیں اور مظلوموں کے حق میں ظالم حکومتوں کے آنکھوں میں آنکھ ڈال کر بات کررہی ہے۔ الغرض ہم دعا کرتے ہیں کہ دین و اسلام اور تحریک ختم نبوت کیلئے اپنی ساری زندگی وقف کرنے والے اس مرد مجاہد، ملت اسلامیہ کے عظیم جرنیل، شیر اسلام، قائد الاحرار مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانوی صاحب رحمہ اللہ کے جانشین اسیر ختم نبوت، قائد نوجوان حضرت مولانا محمد عثمان رحمانی لدھیانوی صاحب دامت برکاتہم کی قیادت میں مجلس احرار اسلام ہند اپنی پیش قدمی جاری رکھی، آمین یارب العالمین۔

یہ طنطنہ یہ دبدبا ہے مسلمان کا

ہیبت سے کانپتا ہے بدن قادیان کا

احراریوں نے جو کیا انگریزیوں کے ساتھ

حشر اس سے بڑھ کے ہوگا مرتدوں کے ساتھ


فقط و السلام

بندہ محمد فرقان عفی عنہ*

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

٢٥؍ جمادی الاول ١٤٤٣ھ

مطابق 29؍ ڈسمبر 2021ء


+91 8495087865

mdfurqan7865@gmail.com

_________________

*ابن مولانا محمد ریاض الدین مظاہری

بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند

صدر مجلس احرار اسلام بنگلور

رکن عاملہ جمعیۃ علماء بنگلور

سوشل میڈیا انچارج جمعیۃ علماء کرناٹک


#پیغام_فرقان #یوم_احرار #احرار

#PaighameFurqan #Article #Mazmoon #AhrarDay #YaumeAhrar #MajlisAhrar

Friday, December 17, 2021

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن عاملہ منتخب ہونے پر امیر شریعت کرناٹک مولانا صغیر احمد رشادی کو مرکز تحفظ اسلام ہند نے پیش کی تہنیت!

 آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن عاملہ منتخب ہونے پر امیر شریعت کرناٹک مولانا صغیر احمد رشادی کو مرکز تحفظ اسلام ہند نے پیش کی تہنیت!












 بنگلور، 17؍ ڈسمبر (پریس ریلیز): پچھلے دنوں شہر کانپور میں ملت اسلامیہ ہندیہ کا متحدہ، متفقہ اور مشترکہ پلیٹ فارم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا ستائیسواں اجلاس منعقد ہوا، جس میں متفقہ طورپر ملک کے ممتاز عالم دین، جنوبی ہند کی قدیم دینی درسگاہ دارالعلوم سبیل الرشاد بنگلور کے مہتمم و شیخ الحدیث اور ریاست کرناٹک کے امیر شریعت حضرت مولانا صغیر احمد صاحب رشادی مدظلہ کو بورڈ کی مجلس عاملہ کا رکن منتخب کیا گیا۔ 20 اور 21؍ نومبر 2021ء کو کانپور میں منعقد بورڈ کا یہ ستائیسواں اجلاس صدر بورڈ حضرت مولاناسید محمد رابع حسنی صاحب ندوی مدظلہ کی زیر صدارت منعقد ہوا تھا۔ جس میں ملک کے مختلف اہم شخصیات کا انتخاب عمل میں آیا۔ اسی اجلاس میں جنوبی ہند بالخصوص ریاست کرناٹک کی نمائندگی کے طور حضرت امیر شریعت کرناٹک کوبطور رکن عاملہ منتخب کیا گیا۔ بورڈ میں حضرت امیر شریعت کے انتخاب سے عموماً پورے ملک بالخصوص جنوبی ہند اور ریاست کرناٹک میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ اس پرمسرت موقع پر مرکز تحفظ اسلام ہند کے اراکین نے ایک وفد کے ساتھ بورڈ کے نو منتخب رکن عاملہ حضرت امیر شریعت کرناٹک مولانا صغیر احمد رشادی صاحب سے خصوصی ملاقات کرتے ہوئے انہیں مبارکباد پیش کی اور اس حسن انتخاب پر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا شکریہ ادا کیا۔ وفد میں مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان، آرگنائزر حافظ محمد حیات خان، اراکین شوریٰ مولانا محمد طاہر قاسمی، قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی، مولانا سید ایوب مظہر قاسمی، اراکین شبیر احمد، عمیر الدین، سید توصیف وغیرہ خصوصی طور پر شامل تھے۔ اس موقع پر مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان نے فرمایا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے روز اول سے مسلم عائلی قوانین (مسلم پرسنل لا) کی حفاظت، شریعت اسلامی کے تحفظ، معاشرے کی اصلاح اور وحدت کلمہ کی بنیاد پر تمام مسالک اور مکاتب فکر کو متحد کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ ان مقاصد کے حصول کیلئے بورڈ نے ہمیشہ ملک کی ممتاز شخصیات کا انتخاب کیا ہے۔ اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے اس بار امیر شریعت کرناٹک مولانا صغیر احمد رشادی صاحب کا انتخاب بورڈ کے رکن عاملہ کے طور پر ہوا ہے۔ محمد فرقان نے فرمایا کہ اس حسن انتخاب سے جنوبی ہند بالخصوص ریاست کرناٹک میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ مزید مستحکم اور سرگرم عمل بنے گی کیونکہ نو منتخب رکن عاملہ امیر شریعت کرناٹک مولانا صغیر احمد رشادی صاحب اعلیٰ اخلاق و کردار کے مالک، علمی و فقہی وسعت و بصیرت، فقہ و قضاء، علم و عمل، تدین و تقویٰ کے باب میں امتیازی مقام کے حامل ہیں اور اپنی گوناگوں خوبیوں، صلاحیتوں، خدمات نیز اپنی دور اندیشی و دور بینی اور اتحاد امت کی کوششوں کی بنا پر ملت کے تمام حلقوں میں یکساں محبوب اور مقبول ہیں۔ لہٰذا ایسی شخصیت کا انتخاب ملت اسلامیہ ہندیہ کے لئے نہایت موزوں اور مفید تر ہے۔ قابل ذکر ہیکہ اس ملاقات میں حضرت امیر شریعت کرناٹک نے ریاست بھر میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈکومضبوط و مستحکم اور سرگرم عمل بنانے کی یقین دلائی۔

Monday, December 6, 2021

بابری مسجد محض عبادت گاہ نہیں بلکہ ہمارا وجود ہے، ہماری پہچان ہے، وطن ہمارے رشتے کا بندھن ہے!

 بابری مسجد محض عبادت گاہ نہیں بلکہ ہمارا وجود ہے، ہماری پہچان ہے، وطن ہمارے رشتے کا بندھن ہے! 



✍️ مولانا سید ایوب مظہر قاسمی

(رکن شوریٰ مرکز تحفظ اسلام ہند)


 

میرے پیارو! ہمارا ملک ہندوستان ایک دو نہیں ہزاروں لاکھوں مسجدوں سے سجا ہے، جن میں ہم مسلمان صوم و صلوٰۃ اور تعلیم و تبلیغ جیسے فرائض انجام دے رہے ہیں- لیکن بابری مسجد محض ایک عبادت گاہ نہیں بلکہ وہ مسلمانوں کی شان ہے، پہچان ہے، ہند میں ہمارے وجود اور قدیم ہونے کا ثبوت ہے، بھارت سے ہمارے رشتے کا اعلان ہے- بابری مسجد ہماری روشن تاریخ ہے، کوئی بھی قوم اپنی تاریخ سے جدا ہوکر اپنا وجود ثابت نہیں کرسکتی- بابری مسجد کے بنا وجود ہماری پہچان ہند میں ادھوری ہے، آج کی ظالم حکومت اور اس کے کارندے برسوں سے مسلمانوں کی تاریخ مٹانے نسخ مسخ کرنے کی انتھک و منظم کوشش کررہے ہیں، شہر گلی کوچوں چوراہوں سڑک بازاروں سے مسلم نام بدلے حضرت ٹیپو سلطان شہید رحمۃ اللہ علیہ کی روشن تاریخ کو بدلنے کی ناپاک کوشش کی جگہ جگہ مسلمانوں اور ان کی جائیداد کو نقصان پہونچایا مسجدوں سے اذان اور سڑک بازار کے کناروں بلا خلل نماز پڑھنے پر پابندی اور ان جیسی ہزار ناپاک و گھناؤنی سازش کئے اور کررہے ہیں، اذان و مسجد شعائرِ اسلام میں سے ہیں جس کی حفاظت ہر مسلمان کیلئے اپنی جان سے بڑھ کر ہے، حکمت کے نام پر ان حادثوں کو بھولنا یا ان جان بننا بزدلی ہے جو ایمان کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتا- بابری مسجد کی شہادت تو ایک المناک و کربناک حادثہ تھا ہی پر 9 نومبر 2019 کو عدالتِ عظمیٰ سپریم کورٹ کا بابری مسجد کے تعلق سے لیا گیا غیر منصفانہ فیصلہ دوبارہ ظالمانہ شہادت اور مسلمانوں کی تاریخ پر حملہ کرنے جیسا ہے، ہمارے زخموں پر نمک چھڑکنے کے برابر ہے جس سے نہ درد کم ہوگا نہ غصہ، ہمارے جذبات اس انسانیت شرمسار فیصلے کے بعد پہلے سے زیادہ گرم ہیں- ہم ملک کی عدالت کا احترام کرتے ہیں ملک کے امن و سالمیت کا لحاظ کرتے ہیں پر ہمارا دکھ یا ہماری ایمانی حرارت قومی جذبہ ابھی سرد نہیں ہوا مسجدیں ہیں بہت پر انصاف چاہیے ہمیں سب یاد ہم بھولے کچھ نہیں ہم ہندوستانی مسلمان ہیں ہمارے قلب و جگر ایمان اور حب الوطنی سے لبریز ہیں اور بابری مسجد ہمارے ایمان کا حصہ حب الوطنی کی مثال اور تاریخ کا ثبوت ہے، جس کی یاد نسل در نسل چلے گی، ہم انتظار میں ہیں، ہوگا ضرور ہوگا ایک دن انصاف ہوگا انصاف ملے گا-

میرے عزیزو! اپنی نسل اصل تک اس کی تاریخ کو اجاگر کرو، اپنے جذبات کو گرماؤ، تاریخ وہ جڑ ہے جس کٹ کر کوئی قوم زیادہ دن جی نہیں سکتی وہ اپنا وجود اپنا سب کھوبیٹھے گی- دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ یوں ہمیں سزا نہ دے ہمیں انصاف دے ملک کے سازگار کرے شرپسندوں کو ہدایت دے-


سید ایوب مظہر شیموگہ

9686251595


جاری کردہ :مرکز تحفظ اسلام ہند