Thursday, April 7, 2022

مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام ”سلسلہ تفسیر قرآن“ کا آغاز مفسر قرآن مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی عام فہم انداز میں قرآن مجید کی تفسیر بیان فرمائیں گے!

 


مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام ”سلسلہ تفسیر قرآن“ کا آغاز

مفسر قرآن مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی عام فہم انداز میں قرآن مجید کی تفسیر بیان فرمائیں گے!



 بنگلور، 07؍ اپریل (پریس ریلیز): ماہ رمضان برکتوں والا مہینہ ہے اور اس ماہ کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن مقدس کا نزول اسی پاک مہینے میں ہوا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے رمضان المبارک کی ہی ایک بابرکت رات میں لوح محفوظ سے سماء دنیا پر قرآن کریم نازل فرمایا اور اس کے بعد حسب ضرورت تھوڑا تھوڑا حضور اکرم ؐپر نازل ہوتا رہا۔قرآن مجید کے سورۃ البقرہ میں ایک جگہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ”رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اُتارا گیا ہے جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور (جس میں) رہنمائی کرنے والی اور (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والی واضح نشانیاں ہیں۔“تو معلوم ہوا کہ رمضان سے قرآن مجید کا تعلق بہت گہرا ہے۔ لہٰذا ہمیں رمضان کے اوقات وساعات کی قدر کرتے ہوئے، روزہ کے ساتھ ساتھ تلاوت قرآن مجید میں مصروف رہنا چاہیے۔ مذکورہ خیالات کا اظہار مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان نے کیا۔ انہوں نے ایک حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ رمضان اور قرآن مجید ایک دوسرے سے اس طرح مربوط ہیں کہ یہ دونوں قیامت کے دن روزہ رکھنے والوں اور تلاوت کرنے والوں کے حق میں سفارش بھی کریں گے۔ محمد فرقان نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم، اصحاب رسول اور ہمارے اسلاف رمضان المبارک میں تلاوتِ قرآن کا شغل نسبتاً زیادہ رکھتے تھے۔ اور اس میں شک نہیں کہ کلام پاک کی تلاوت اللہ تعالیٰ کو بے حد محبوب ہے اور اسکا پڑھنا اور سننا دونوں کارِثواب ہے۔ اس کی ایک ایک آیت پر اجر و ثواب کا وعدہ ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کا فہم، اس میں غو رو تدبر اور اس پر عمل پیرا ہونا نہایت ضروری ہے۔ یہی وجہ ہیکہ ہمارے اکابر و اسلاف علماء دیوبند کا یہ معمول رہا ہیکہ وہ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں جہاں فضائل و مسائل رمضان بیان فرماتے تھے وہیں درس قرآن و حدیث بالخصوص تفسیر قرآن کا اہتمام کیا کرتے تھے تاکہ امت مسلمہ قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھ سکے۔ اسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے حسب معمول امسال بھی مرکز تحفظ اسلام ہند کی جانب سے رمضان المبارک کی بابرکت راتوں میں آن لائن ”سلسلہ تفسیر قرآن“ کا آغاز کیا گیا ہے۔ مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے اس پروگرام کی تفصیلات بتاتے ہوئے فرمایا کہ رمضان المبارک کی بابرکت راتوں میں روزانہ بعد نماز تراویح ٹھیک رات ساڑھے دس بجے سے ”سلسلہ تفسیر قرآن“ کی مجلس منعقد کی جاتی ہے، جس میں مرکز تحفظ اسلام ہند سرپرست اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سکریٹری شیخ طریقت، مفسر قرآن حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب مدظلہ عام فہم انداز میں قرآن مجید کی تفسیر بیان فرمائیں گے۔ جو مرکز تحفظ اسلام ہند کے آفیشیل یوٹیوب چینل اور فیس بک پیج پر براہ راست نشر کیا جائے گا۔ لہٰذا تمام اہلیان اسلام سے کثیر تعداد میں شرکت کی اپیل ہے۔


#Press_Release #News #Letter_Head #TafseerQuran #TafseerQuranSeries #RamzanSeries #UmrainRahmani #MTIH #TIMS

تراویح میں قرآن کریم سنانے والے حفاظ کےنام ایک پیغام!

 تراویح میں قرآن کریم سنانے والے حفاظ کےنام ایک پیغام!



✍️عبد الرحمن الخبيرقاسمی بستوی

(رکن شوریٰ مرکز تحفظ اسلام ہند) 

9666009943



 الحمداللہ رمضام کا مہینہ شروع ہوگیا ہے ملک بھر میں سینکڑوں جگہ حفاظ کرام قرآن کریم کو تراویح میں سنارہے ہیں اور ملک بھر میں سینکڑوں ایسے مقامات ہوں گے جہاں اگلے چند دنوں میں شتابدی ٹرین اور جنگی جہاز سے بھی تیز پڑھنے والے تراویح میں قرآن پورا کرلیں گے۔ چند راتوں میں قرآن پورا کرنے والوں کی خوشی کی شدت کا اندازہ پڑھنے اور سننے والوں کے انداز بیان سے لگایا جاسکتا ہے، وہ فخر سے کہتے پھرتے ہیں کہ ہم نے تو اتنے دن میں قرآن سن لیا ہے، اب اس کے بعد نہ انہیں تراویح کی فکر اور نہ قرآن کی، ان میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جنہیں فی الواقع کوئی عذر درپیش ہے اور انہیں جلد قرآن سن کر سفر پر جانا ہے، لیکن زیادہ تر ایسے ہوتے ہیں کہ جنہیں نہ کوئی عذر ہے اور نہ ہی کوئی سفر در پیش ہے، اس موقع پر مجھے اللہ کے رسول ﷺ کا ایک فرمان مبارک یاد آتا ہے، اس کا مفہوم یہ ہے "بہت سے قرآن کے پڑھنے والے ایسے ہیں کہ جن پر خود قرآن لعنت کرتا ہے" قرآن کے پڑھنے والے یہ کون لوگ ہیں جن پر خود قرآن لعنت کرتا ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو قرآن کو اس طرح نہیں پڑھتے جس طرح اس کا حق ہے، جو سال بھر قرآن کو کھول کر نہیں دیکھتے اور رمضان میں ان سے زیادہ تیز پڑھنے والا کوئی نہیں ہوتا، جنہیں نا تجوید و قواعد کی خبر ہے اور نا ہی مخارج وتلفظ کی، جنہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ تلفظ بگڑنے سے ترجمہ بھی بدل جاتا ہے اور اس طرح وہ بجائے ثواب کے گناہ کے مستحق ہو رہے ہیں، انہیں لوگوں پر قرآن لعنت کرتا ہے، اور جس پر قرآن لعنت کرے اس کی بدبختی میں کیا شک باقی رہ جاتا ہے، قرآن کی لعنت دراصل اللہ کی لعنت ہے کیونکہ قرآن براہ راست اللہ کا کلام ہے، حضرت امام مالک کا ایک واقعہ منقول ہے کسی نے ان سے شکایت کی کہ آپ کا فلاں شاگرد عشاء کے بعد نوافل میں کھڑا ہوتا ہے اور فجر سے پہلے تک ایک قرآن پورا کرلیتا ہے، امام مالک اس شاگرد کے پاس گئے اور پوچھا کہ کیا تم ایسا کرتے ہو؟ اس نے کہا کہ ہاں امام میں ایسا کرتا ہوں، امام مالک نے کہا کہ آج جب تم قرآن پڑھنے کھڑے ہوتو یہ تصور کرکے پڑھنا کہ تم مجھے سنا رہے ہو، اگلی صبح امام مالک نے اس سے پوچھا کہ کہو کیا رہا؟ اس نے کہا کہ امام آج تو میں صرف دس پارے ہی پڑھ سکا، امام نے کہا کہ آج جب کھڑے ہوتو یہ تصور کرکے قرآن پڑھنا کہ تم اللہ کے رسول ﷺ کو سنارہے ہو، اگلی صبح امام مالک نے اس سے پوچھا کہ کہو کیا رہا؟اس نے کہا کہ امام آج تو میں صرف ایک پارہ ہی پڑھ سکا، امام نے کہا کہ آج جب کھڑے ہوتو یہ تصور کرکے قرآن پڑھنا کہ تم اللہ کو سنارہے ہو، اگلی صبح امام مالک نے اس سے پوچھا کہ کہو کیا رہا؟ اس نے کہا کہ امام آج تو میں سورہ فاتحہ بھی پوری نہ پڑھ سکا۔

قرآن کا حق کیا ہے؟ ادنی درجہ میں قرآن کا حق یہ ہے کہ اسے ٹھہر ٹھہر کر، صاف صاف، اطمینان و آرام، خشوع وخضوع اور تجوید و قواعد کے ساتھ پڑھا جائے، کیا ہم قرآن کا ادنی حق بھی پورا کر رہے ہیں؟ جن حفاظ کو ایک شب میں کم سے کم پانچ پارے پڑھنے ہوں، اور وہ بھی تراویح کی آٹھ یا بیس رکعات میں پڑھنے ہوں تو اندازہ لگائیے کہ اس کیلئے کتنا وقت درکار ہوگا، اگر درمیانے درجے کے خشوع کے ساتھ تراویح پڑھی جائے تو کم سے کم 60 منٹ تو محض بیس رکعات کیلئے درکار ہیں، پانچ پارے درمیانی رفتار سے پڑھے جائیں تواس کیلئے 100منٹ مطلوب ہیں، یعنی کم و بیش تین گھنٹے ، اب ہو یہ رہا ہے کہ 9 بجے عشاء کی نماز کیلئے کھڑے ہوتے ہیں اور پونے گیارہ بجے تک باہر نظر آتے ہیں اب اندازہ کیجئے کہ پڑھنے والے نے کیا پڑھا ہوگا اور سننے والوں نے کیا سنا ہوگا۔

قرآن جیسا کہ معلوم ہے کہ براہ راست خالق کائنات کا اپنا کلام ہے جو اس کے آخری رسول، تاجدار مدینہ حضور اکرم ﷺ پر بتدریج نازل ہوا، وہ براہ راست نبی آخر الزماں کو اللہ کا خطاب ہے، اللہ سے زیادہ بلیغ وفصیح کون ہوسکتا ہے؟ اور روئے زمین پر اس کی انسانی مخلوق میں سب سے زیادہ بلیغ وفصیح نبی آخرالزماں ﷺکے سوا اور کون ہوسکتا ہے؟ گویا قرآن 2 بلغاء و فصحاء کے درمیان ہونے والی مراسلت اور خطابت ہے، ایک بلیغ قادر مطلق کا کلام دوسرے بلیغ نبی پر نازل ہورہا ہے، قرآن کو بتدریج اور حسب ضرورت لانے والے اللہ کے سب سے مقرب فرشتے جبریل ہیں۔ ذرا غور کیجئے کہ کیا اللہ نے اسی طرح اپنا کلام جبریل کی زبانی اپنے نبی پر بھیجا جس طرح آج ہم پڑھتے اور سنتے ہیں؟اگر خدا نے اپنے کلام کے ساتھ یہ تیزی اختیار نہیں کی تو ہم کون ہیں اس کے کلام کے ساتھ یہ تیزی اختیار کرنے والے، اب آئیے دیکھتے ہیں کہ خود اللہ کے رسول ﷺ نے قرآن کو کس انداز سے پڑھا، اس کی اطلاع خود قرآن ہی دے رہا ہے۔جبریل علیہ السلام جب قرآن پاک لے کر نازل ہوتے اور آپ کو پڑھاتے تو آپ اسے محفوظ کرنے کی خاطرجلدی جلدی پڑھتے۔لیکن اس پر اللہ کا حکم نازل ہوا۔ سورہ قیامه میں ارشاد ہے "لا تحرک به لسانک لتعجل به، ان علینا جمعه وقرآنه، فاذا قرأناہ فاتبع قرآنه، ثم ان علینابیانه"

ترجمہ: اے نبی آپ قرآن کوجلدی(یاد کرنے کی خاطر)اپنی زبان کو حرکت نہ دیں، اس کا جمع کرنا اور (آپ کی زبان سے) پڑھنا ہمارے ذمہ ہے، ہم جب اسے پڑھ لیں تو آپ اس کے پڑھنے کی پیروی کریں، پھر اس کا واضح کردینا ہمارے ذمہ ہے، اسی طرح قرآن میں دوسری جگہ ارشاد ہے "ولا تعجل بالقرآن من قبل ان یقضی الیك وحیه" یعنی آپ قرآن پڑھنے میں جلدی مت کیجئے اس سے پہلے کہ وہ آپ پر(پوری طرح) نازل کردیا جائے، سورہ مزمل میں اس کو اور واضح کردیا گیاجب قرآن کو پڑھنے کا صحیح طریقہ بتایا گیا "ورتل القرآن ترتیلا" اور اے اللہ کے رسول قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر (صاف)پڑھاکیجئے۔

سوال یہ ہے کہ اللہ کے رسول کو قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر اور صاف صاف پڑھنے کا حکم کیوں دیا جارہا ہے؟ کیا عربی زبان کے معاملہ میں تاجدار مدینہ سے زیادہ کوئی فصیح انسان ہوگا؟مگر اس کے باوجود آپ کو ترتیل کے ساتھ قرآن پڑھنے کا عمومی حکم دیا جارہا ہے۔ترتیل کے معنی ہیں ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا۔ صاف صاف پڑھنا۔یعنی ایسا پڑھنا کہ جو نہ صرف خود پڑھنے والے کی بلکہ سننے والے کی سمجھ میں بھی آئے۔ایسا پڑھنا کہ جو خود صاحب کلام کو پسند ہو۔معلوم ہوا کہ غیر ترتیل کے ساتھ جو پڑھا جائے گا وہ خدا کو پسند نہیں ہوگا۔اور جب خدا اس کو ناپسند کرکے واپس ہمارے منہ پر ماردے گا تو پھر ایسے پڑھنے کا فائدہ اور ایسے پڑھنے کی ضرورت کیا ہے۔قرآن کے ایک لفظ پر دس نیکیوں کا وعدہ ہے۔پڑھنے والے کو جس طرح ہر لفظ پر دس نیکیوں کا اجر ملتا ہے اسی طرح سننے والے کو بھی ملتا ہے۔لہذا جب پڑھنے والا غلط پڑھے گا اور قرآن اس پر لعنت کرے گا تو کیا سننے والے اس لعنت سے محفوظ رہیں گے؟

سورہ فرقان میں ایک جگہ ذکر ہے "وقال الرسول یا رب ان قومی اتخذوا ھذا القرآن مھجوراً" اور رسول (ﷺ) کہیں گے کہ اے میرے پروردگار بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا، مفسرین نے اس چھوڑنے میں غور وفکر نہ کرنے کو بھی شامل کیا ہے۔اور جب ہم قرآن کو ٹھہر کر‘صاف صاف‘سمجھ کر پڑھتے ہی نہیں تو کیا غور وفکر کریں گے۔لہذا ہم اللہ کے رسول کی اس شکایت کے شکار ہوجائیں گے۔اسی سورت میں اللہ نے ایک جگہ ارشاد فرمایا : ورتلناہ ترتیلا۔یعنی ہم نے اس قرآن کو (آپ کے سامنے)ٹھہر ٹھہر کر ہی پڑھ کر سنایا ہے۔معلوم ہوا کہ اللہ کو یہی مطلوب ہے کہ اس کا قرآن ہر حال میں ٹھہر ٹھہر کر اور سمجھ کر پڑھاجائے۔قرآن میں اس مفہوم کی آیات متعدد مقامات پر آئی ہیں‘افلا یتدبرون القرآن۔کیا وہ قرآن میں غور وفکر نہیں کرتے؟اسی طرح ایک جگہ ایمان والوں کا حال بیان کیا گیا ہے۔واذا تلیت علیہم آیاتہ زادتہم ایماناًوعلی ربہم یتوکلون۔اور جب اللہ کی آیتیں ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ آیتیں ان کے ایمان کو اور زیادہ کردیتی ہیں اور وہ لوگ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں۔ایک جگہ حکم دیا گیا ہے۔واذا قرئی القرآن فاستمعو ا لہ وانصتوالعلکم ترحمون۔اور جب قرآن پڑھاجائے تو اس کو (غورسے)سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔اب ذرا بتائیے کہ آج کل تراویح میں قرآن پاک کو جس طرح پڑھنے کا رواج ہوگیا ہے کیا اس صورت میں کچھ سمجھ میں آئے گا؟خود ان کی بھی سمجھ میں نہیں آئے گا جو عربی زبان سے واقفیت رکھتے ہیں۔

اس روئے زمین پر کوئی حافظ ایسا نہیں ہوگا جس نے قرآن پاک کے نسخے کے آخر میں قرآن کے رموز و نکات اور اصول لکھے ہوئے نہ دیکھے ہوں۔اس کی ابتدا یہاں سے ہوتی ہے:ہر زبان کے اہل زبان جب گفتگو کرتے ہیں تو کہیں ٹھہر جاتے ہیں اور کہیں نہیں ٹھہرتے۔کہیں کم ٹھہرتے ہیں اور کہیں زیادہ۔ یہی حال قرآن کا بھی ہے۔اس ٹھہرنے کم ٹھہرنے، زیادہ ٹھہرنے اور نہ ٹھہرنے کا بات کو صحیح سمجھنے میں بڑا دخل ہے، قرآن کی آیات کے اواخر میں بہت سی علامتیں بنی ہوتی ہیں۔جن کی رو سے کہیں ٹھہرنا حرام ہوتا ہے اور کہیں ٹھہرنا واجب ہوتا ہے۔کہیں ایک جملہ کو دوسرے سے ملاکر پڑھنا حرام ہوتا ہے اور کہیں ملاکر پڑھنا واجب ہوتا ہے۔حفظ کرانے کے دوران ہر طالب علم کو اس کا استاذ لازمی طورپر یہ بات بتاتا ہے۔جہری نمازوں میں امام اس کا خیال بھی رکھتے ہیں۔لیکن کیا تراویح کے دوران ان امور کا خیال رکھا جاتا ہے؟جواب نفی میں ہے۔ایسے میں اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ہمارے یہ قرآن سنانے والے حافظ ریل اور حافظ ہوائی جہاز کس طرح کا قرآن سنا رہے ہیں اوراس سے ہمیں کیا حاصل ہورہا ہے۔پھر بھی ہمیں شکایت ہے کہ ظالموں کے مقابلہ میں ہمارے دفاع کے لئے اللہ کی نصرت نہیں آتی۔


*(مضمون نگار: مرکز تحفظ اسلام ہند کے رکن شوریٰ اور مجلس احرار اسلام ہند کرناٹک و تنظیم ابنائے ثاقب کےترجمان ہیں)*

Saturday, April 2, 2022

رمضان المبارک کے قیمتی اوقات عبادت و ریاضت میں گزاریں! مرکز تحفظ اسلام ہند کے جلسۂ استقبال رمضان سے مفتی افتخار احمد قاسمی کا خطاب!

 رمضان المبارک کے قیمتی اوقات عبادت و ریاضت میں گزاریں!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے جلسۂ استقبال رمضان سے مفتی افتخار احمد قاسمی کا خطاب!



بنگلور، 02؍ اپریل (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد جلسۂ استقبال رمضان سے خطاب کرتے ہوئے مرکز کے سرپرست اور جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر حضرت مولانا مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ رمضان المبارک کی آمد آمد ہے، ہر طرف مومن کے اندر اس کے تئیں اظہار مسرت ہے۔ یہ وہ مبارک مہینہ ہے جس کا انتظار ایک مسلمان سال بھر کرتا ہے کیونکہ یہ مبارک مہینہ رحمت، مغفرت اور جہنم سے نجات کا پروانہ لیکر آتا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ رمضان المبارک ہر ایمان والے مومن بندے کیلئے اللہ تعالیٰ کی جانب سے عظیم تحفہ ہے۔ لہٰذا ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ اس ماہ مبارک کا اسی شان کے ساتھ استقبال کریں اور پورا مہینہ عبادت و ریاضت میں گزاریں۔ مولانا قاسمی نے فرمایا کہ رمضان المبارک سے پہلے رمضان کی تیاری کرنا ضروری ہے، تاکہ رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ کی رحمتوں، برکتوں اور مغفرتوں سے کما حقہ فائدہ اٹھایا جا سکے۔ مولانا نے فرمایا کہ رمضان المبارک بڑی عظمتوں اور برکتوں والا مہینہ ہے۔ اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ اس مہینے کے روزے کو اللہ تعالیٰ نے فرض قرار دیا ہے اور اس کی راتوں میں تراویح کو سنت قرار دیا ہے۔ روزہ سے مسلمانوں میں تقویٰ پیدا ہوتا ہے اور رمضان المبارک کی غرض و غایت تقویٰ کا حصول ہے۔ مرکز کے سرپرست مفتی افتخار احمد قاسمی نے فرمایا کہ رمضان المبارک ہی وہ عظیم مہینہ ہے، جس میں قرآن مجید نازل کیا گیا جو انسانوں کیلئے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔ مولانا قاسمی نے فرمایا کہ رمضان المبارک کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جسکا پہلا عشرہ رحمتوں والا، دوسرا عشرہ مغفرتوں والا اور تیسرا عشرہ جنہم سے نجات کا پروانہ والا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ حقیقت یہ ہے کہ پورا رمضان المبارک ہی نہایت قیمتی اثاثہ ہے لیکن اس کے آخری عشرے کی فضیلت چند در چند ہے۔ اس عشرے میں اعتکاف کی سنت ادا کی جاتی ہے۔ اعتکاف کے علاوہ اس عشرے میں ایک نہایت مہتم بالشان رات لیلۃ القدر کی ہے۔ اس رات کی فضیلت و عظمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو ایک ہزار مہینوں سے افضل قرار دیا ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ رمضان المبارک میں اپنے قیمتی اوقات کو زیادہ سے زیادہ عبادت و ریاضت میں صرف کریں۔ مولانا نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان کا بہترین استقبال کرنے، اس مہینے سے ہر طرح کا فائدہ اٹھانے کا موقع فراہم کرے اور رمضان میں بکثرت اعمال صالحہ انجام دینے کی توفیق دے اور ان اعمال کو آخرت میں نجات کا ذریعہ بنائے۔ قابل ذکر ہیکہ اس موقع پر مفتی افتخار احمد قاسمی نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا اور رمضان المبارک کے پروگرامات کی کامیابی کیلئے دعا فرمائی۔ واضح رہے کہ رمضان المبارک میں مرکز تحفظ اسلام ہند کی زیر اہتمام مختلف پروگرامات منعقد کئے جارہے ہیں۔مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے تفصیلات بتاتے ہوئے فرمایا کہ روزانہ بعد نماز تراویح ٹھیک رات 10:15 بجے سے سرپرست مرکز مفسر قرآن حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب مدظلہ آسان اور عام فہم انداز میں قرآن مجید کی تفسیر بیان فرمائیں گے، اور روزانہ بعد نماز ظہر ٹھیک دوپہر 2:15 بجے سلسلہ مسائل رمضان منعقد کیا جائے گا، اور ہر سنیچر فضائل رمضان و حالات حاضرہ کانفرنس منعقد ہوگی۔تمام برادران اسلام سے کثیر تعداد میں شرکت کی خاص اپیل ہے۔