پچھترویں جشن ِآزادی کے یادگار پروگرام اور ہماری بے راہ رویاں!
✍️ مفتی سید حسن ذیشان قادری قاسمی
(رکن شوریٰ مرکز تحفظ اسلام ہند)
کل الحمد للہ بہت زور وشور کے ساتھ پورے ملک میں 75واں جشن ِآزادی منایاگیا اور مسلمانوں نے بھی اس میں بھرپورحصہ لیا اور یہ یقیناً موقع ِفرح وسرور ہے، مگر مختلف گروپوں میں آزادی کے پچھترویں جشن کے مختلف خوشنما مناظر دیکھ کر جہاں بہت خوشی اور مسرت ہوئی وہیں بہت افسوس ودکھ بھی ہوا کہ ہم کسی بھی معاملے میں بہت افراط وتفریط اور بےراہ روی کاشکار ہوجاتے ہیں، نہ حدودِ شریعت کا پاس ولحاظ رکھ پاتے ہیں نہ اکابر ہی کو نمونہ واسوہ بناکر کسی کام کو انجام دیتے ہیں، مدارس ِاسلامیہ شریعت کے ترجمان ہیں وہاں خلاف ِشریعت کسی بھی عمل کاہونا منفی طور پر پہلے توخود طلبہء مدارس پر اثرانداز ہوتاہے کہ طلبہ اپنے اساتذہ کی غلط تقلید کریں گے، پھر ملت ِاسلامیہ پر اسکے بہت منفی ومسموم اثرات پڑیں گے ملت ہمارے عمل سے متاثر ہوکر اسے اپنے عمل کیلئے دلیل بنالےگی یوں ہمارے کندھوں پر دوگنابوجھ پڑجاتاہے-
اس تمہید کے بعد عرض ہے کہ گزشتہ کل کئی ایک مدارس میں دیکھنے میں آیا کہ جشن ِآزادی کے موقع پرچند معروف شہیدان ِ وطن کی تصویریں سامنے رکھی ہوئی ہیں اور ان پر پھول چڑھائے گئے ہیں بعض مقامات پر "بولو بھارت ماتا" کی جئے کانعرہ لگایاگیا اور طلبہ نے اسکا جواب دیا کہیں "وندے ماترم "تک کہاگیا، کہیں کہیں باجے تاشے کی آوازیں بھی سنائی دیں، یہ بات نہایت افسوسناک اور آئندہ مسلم نسل کیلئے بہت خطرناک ثابت ہوسکتی ہے، اعمالِ ِشرکیہ پر استخفاف ایمان وعمل کو کمزور کردیتا ہے، انتہائی مجبوری اور حالت ِاضطرار ہوتو بات دوسری ہے مگر اختیاری طور بہت ہی افسوس اور دکھ کی بات ہے -
یہی قومی یکجہتی کے نام پر بھی ہورہاہے، حالانکہ ہمارے اکابرِ ِ جمعیت اور اکابرِ ِدارالعلوم نے حدود ِشریعت میں رہتے ہوئےبرادران ِوطن کے ساتھ اظہار ِیکجہتی اور مواسات وموالات کی تعلیم وترغیب دی تھی، مگر ہم ہیں کہ شرکیہ مجالس سے بھی گریز نہیں کرتے! جسکے نتیجے میں نادان ناقِدین اکابر کو ھدف ِملامت بنادیتے ہیں اور انکی صحیح فکر کو قصور وار ٹہراتے ہیں-
بےجاجذباتیت عجیب گل کھلاتی ہے کسی چیز کی تردید کرنے پر آجاتے ہیں تو بلاکسی کم وکاست بغیر کسی ہوش وحواس کہ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اور کسی چیز کو اپنانے میں آتے ہیں تو حدودِ شریعت کوبھی خیر باد کہہ جاتے ہیں، غیر محسوس طریقے پر یا جان بوجھ کر نامناسب وقبیح اور ممنوع عمل کاشکار ہوجاتے ہیں، "وکان امرہ فرطا" یہ علمی وفکری پختگی اور دینی حمیت کے فقدان وکمی اور اکابر سے عدم ِوابستگی کا نتیجہ ہے، ہمیں اپنے اسلاف واکابر کی راہِ صحیح سے کبھی بھی نہیں ہٹنا چاہئے بالخصوص حدود ِشریعت کوکبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے -
جشن ِآزادی کے پروگرام کیلئے اہلِ مدارس ام المدارس "دارالعلوم دیوبند" اور اس سے وابستہ مرکزی اداروں کو ہی کو آئیڈیل بنالیتے! تو انھیں پروگرام کاایک صحیح رخ مل جاتا، کتنی سادگی اور مکمل جذبۂ محبت کے ساتھ بغیر کسی شرکیہ عمل کے جشن ِآزادی کا پروگررام کیاگیا اور والہانہ انداز میں ہوا، صرف چند بڑے اکابرشہ نشین پر جلوہ افروز ہیں اور بہترین قربانیوں کا اور تاریخ ِآزادی کا تذکرہ ہوا، جذبات تازہ ہوئے، حوصلہ بڑھا، "اولئک الذین ھداھم اللہ فبھداھم اقتدہ" خدا کرے ہمیں بھی استوارئی فکر اور اعتدال ِعمل کی توفیق نصیب ہو، آمین-
یہ چند طالب علمانہ جذبات کسی مخصوص ادارے کو ھدف ِتنقید بنانے کیلئے ہرگز نہیں، عمومی طور پر طالب علمانہ جذبات کا اظہار ہے میری کسی بات کو احباب منفی رخ پر نہ لے جائیں، شریعتِ مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ بہت بلند وبالا ہے، اس سے ہٹ کر کوئی کام عند اللہ مقبول نہیں ہوتا بےجا مرعوبیت دینی مزاج کا خاتمہ کردیتی ہے، ہر خارجی نعرے کی مکمل تقلید کوئی ضروری نہیں، ولاترکنوا الی الذین ظلموا فتمسکم النار ومالکم من دون اللہ اولیاء ثم لاتنصرون خدائے وہاب ہم سب کو راہ ِصحیح کی توفیق اور اس پر ثبات قدمی عطافرمائے، آمین-
(مضمون نگار مرکز تحفظ اسلام ہند کے رکن شوریٰ ہیں)
#Mazmoon #Azadi #IndependenceDay #IndiaAt75
No comments:
Post a Comment