حق کیلئے سر کٹ تو سکتا ہے لیکن باطل کے سامنے سر جھک نہیں سکتا، یہی شہادت حسینؓ کا پیغام ہے!
مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان”عظمت صحابہؓ کانفرنس“سے مفتی اسعد قاسم سنبھلی کا خطاب!
بنگلور، 08؍ اگست (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے ہفت روزہ عظیم الشان آن لائن ”عظمت صحابہؓ کانفرنس“ کی تیسری نشست سے خطاب کرتے ہوئے جامعہ شاہ ولی اللہؒ، مرادآباد کے مہتمم ممتاز عالم دین حضرت مولانا مفتی اسعد قاسم سنبھلی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ حضور اکرم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے، حضرت علی ؓ اور حضرت فاطمہ ؓ کے لخت جگر ہیں۔ یہ وہی شخصیت ہیں جنہوں نے حضورؐ کے سایہ عاطفت میں پرورش پائی اور آپ ؐ کی تربیت میں رہ کر حق گوئی و بیباکی کی خوبیوں سے متصف ہوئے۔ مولانا نے فرمایا کہ حضور اکرم ؐ کو حضرت حسن ؓ و حضرت حسینؓ سے بے پناہ محبت تھی۔ آپ ؐ فرماتے تھے کہ ”حسن ؓ و حسینؓ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں“۔ مولانا نے فرمایا کہ جس شخصیت کی تعریف حضورؐ نے بیان فرمائی ہو اور جس کو امت مسلمہ نے اپنا رہبر و رہنما مانا ہو وہ شخصیت کسی تعریف کی محتاج نہیں، حضرت حسینؓ تاریخ اسلام کی وہ قد آور شخصیت ہیں کہ صدیاں بیت جانے کے با وجود بھی ان کا کردار زندہ اور ان کی عظمت پائندہ ہے۔ مولانا سنبھلی نے فرمایا محرم الحرام کا مہینہ ہمیں نواسۂ رسول حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی اس عظیم قربانی کی یاد دلاتا ہے جو دین محمدی کی بقا کا باعث ہے، آپؓ نے کربلا کے میدان میں اپنے اصحاب و اقربا کے ساتھ جو عظیم الشان قربانی پیش کی تاریخ اسلام میں اسکی کوئی نظیر نہیں ملتی، آپؓ نے دین اسلام کی سربلندی اور اعلائے حق کے لئے اپنی اور اپنے اہل و عیال جان کی قربانی دی۔ مفتی صاحب نے شہدات حضرت حسینؓ پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا ک یزید نے اقتدار کی باگ ڈور سنبھالنے کے ساتھ ہی اسلامی خلافت کے دستور کی ساری دفعات تبدیل کرنا شروع کردیں۔ یہ وہ حالات تھے جب اسلامی نظامِ خلافت ملوکیت میں تبدیل ہو رہا تھا۔ اب حضرت حسینؓ کے سامنے دو ہی راستے تھے۔ ایک راستہ یہ تھا کہ اس ظلم و ناانصافی پر خاموش ہوجائیں اور اپنی جان، مال اور اولاد کو محفوظ رکھیں اور ایک راستہ یہ تھا کہ اپنے پاس جو کچھ بھی ہے اسے اسلامی نظامِ خلافت کو بچانے میں لگا دیں۔ نواسۂ رسولؐ کیلئے یہ بات تو ہر گز ممکن نہیں تھی کہ چپ سادھ لیں، لہٰذا انہوں نے دوسرا راستہ اختیار فرمایا اور اپنی اور اپنے اہل و عیال کی قربانی دے کر اس بات کو ثابت فرما دیا کہ حق کیلئے سر کٹانا قبول ہے لیکن باطل کے سامنے سر جھکانا قبول نہیں۔ مولانا نے فرمایا حضرت حسینؓ کا مقصد خلافت کو منہاج نبوت پر قائم کرنا تھا جبکہ یزید کا مقصد خلافت کو اپنی میراث اور خاندانی جائداد پر قائم کرنا تھا۔ مولانا نے فرمایا کہ اہل سنت و الجماعت علماء دیوبند کا یہ مؤقف ہے کہ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ حضرت حسینؓ کی شہادت یزید کے دور حکومت اور اسی کی فوج سے ہوئی اور یزید فاسق و فاجر بھی تھا، لیکن یزید کے مسئلہ پر سکوت اختیار کرنا چاہئے۔ اور رہی بات حق و باطل کی تو یہ روز روشن کی طرح عیاں ہیکہ حضرت حسینؓ حق پر تھے اور یزید باطل پر تھا۔ مولانا نے فرمایا کہ شہادت حسینؓ کا یہ پیغام ہیکہ حضرت حسینؓ جو اصرار نبوت کو سمجھتے تھے، جنہوں نے حضورؐ کی صحبت حاصل کی ہے، جو صحابیت کے منصب پر فائز تھے اور حضورؐ کے قلب اطہر کے انوار انکے قلب میں منتقل ہوئے ہیں، اس حضرت حسینؓ کا مقصد یہ تھا کہ خلافت جو عظیم الشان شعبہ ہے، اس خلافت کو ہر قیمت منہاج نبوت پر قائم کرنا ضروری ہے، چاہیے اس سلسلے میں اپنی جان چلی جائے اور انہوں نے اپنی جان بھی قربان کردی لیکن خلافت کو میراث اور خاندان جائداد ہونے سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا، یہی حضرت حسینؓ کا پیغام ہے۔مولانا نے فرمایا کہ نئی نسل کو حضرت حسینؓ کے اس پیغام کو یاد کرنا چاہیے اور اس کو دل میں بسا کر سمجھنا چاہیے کہ ہمیں حق کیلئے کیا کرنا چاہیے اور باطل کیلئے کیا کرنا چاہیے؟ مولانا نے فرمایا حضرت سیدنا حسینؓ کا جذبہ، ایثار و قربانی کو اللہ تعالیٰ امت میں دوبارہ پیدا فرمایا اور خلافت راشدہ قائم فرمائے۔ مولانا نے فرمایا کہ حضرت حسین ؓ کی شہادت اُمت کے لیے ایک نمونہ اور لائحہ عمل فراہم کرتی ہے۔ شہادت حسینؓ ہر دور کے یزیدیوں کی موت کا اعلان اور اسلام کی زندگی کا ثبوت ہے۔ قابل ذکر ہیکہ اس موقع پر حضرت مولانا مفتی اسعد قاسم سنبھلی صاحب نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا اور حضرت ہی کی دعا سے عظیم الشان ”عظمت صحابہؓ کانفرنس“ کی تیسری نشست اختتام پذیر ہوئی۔
#Press_Release #News #AzmateSahaba #Sahaba #MTIH #TIMS
No comments:
Post a Comment