”ختم نبوت اور حجیت حدیث آپس میں لازم و ملزوم ہیں، منکرین ختم نبوت اور منکرین حدیث کے فتنوں سے امت مسلمہ ہوشیار رہیں!“
مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”تحفظ ختم نبوتؐ کانفرنس“ سے مولانا سید بلال حسنی ندوی کا خطاب!
بنگلور، 22؍ نومبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد پندرہ روزہ عظیم الشان آن لائن ”تحفظ ختم نبوتؐ کانفرنس“ کی گیارہویں نشست سے خطاب کرتے ہوئے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے ناظر عام حضرت مولانا سید بلال حسنی ندوی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی رہنمائی کے لئے ہر دور میں انبیائے کرام ؑ کو مبعوث فرمایا اور انہیں ایسی شریعت عطا کی جس پر عمل کرنے والا جنت کا مستحق سمجھا جاتا تھا۔ ان کے زمانے کے اعتبار سے وہ شریعت کامل اور نجات دہندہ تھی لیکن ان کی شریعتیں مخصوص زمان و مکان کے لئے تھیں۔ ایک امت کو جو نظام زندگی دیا جاتا وہ اس وقت تک قابل عمل ہوتا جب تک کہ دوسرے نبی نہ آجائیں۔ دوسرے نبی اور پیغمبر کے آنے کے بعد ماضی کے بہت سے احکام منسوخ ہوجاتے اور پھر نئی شریعت پر عمل کرنا واجب ہوتا۔ اسی طرح ان کی شریعت خاص قوم اور محدود خطے کے لئے ہوتی تھی۔ بسا اوقات مختلف علاقوں میں تبلیغ وہدایت کے لئے الگ الگ انبیاء بھیجے جاتے اور بیک وقت کئی نبی اس روئے زمین پر تشریف فرما ہوتے جو اپنی اپنی قوم کی رہنمائی و رہبری کا فریضہ انجام دیتے تھے۔ یہ سلسلہ حضرت عیسٰی ؑ تک چلتا رہا لیکن جب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف لائے تو آپ کو آخری نبی کی حیثیت سے مبعوث کیا گیا۔ آپ کی امت آخری امت اور آپ پر نازل کی جانے والی کتاب آخری کتاب قرار دی گئی، اسی طرح آپکی شریعت کو بھی آخری شریعت کی حیثیت سے پیش کیا گیا۔ اس کے بعد جس طرح اب قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا، اسی طرح سے اب قیامت تک کوئی نئی کتاب یا کوئی شریعت نہیں آئے گی بلکہ رہتی دنیا تک سارے اقوام کے لئے اسی قرآن و حدیث اور شریعت مطہرہ پر عمل کرنا لازم ہوگا، یہی راہ نجات اور اسی میں اللہ تعالیٰ کی رضا مضمر ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ دین ہر اعتبار سے کامل اور مکمل ہوچکا۔ ایک انسان کی ہدایت کے لئے جن احکام کی ضرورت تھی وہ دے دیئے گئے۔ دنیا خواہ کتنی ہی ترقی پذیر ہوجائے اورٹیکنالوجی جس بلندی پر بھی پہنچ جائے ہمیشہ کے لئے یہ شریعت آچکی۔ یہ آفاقی بھی ہے اور ابدی بھی۔ اب نہ تو اس کا کوئی حکم منسوخ ہوگا اور نہ اس کے رہتے ہوئے کسی دوسرے قانون کی ضرورت ہوگی۔ ہر طرح کی ترمیم و تنسیخ سے بالا تر اسلامی شریعت نازل کردی گئی جو اس امت کا اعزاز اور لائقِ فخر ہے۔ مولانا ندوی نے فرمایا کہ قرآن و حدیث شریعت اسلامی کی بنیاد اور اولین حجت ہے اور ان دونوں چیزوں کی حفاظت کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے کیا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ افسوس کہ جس طرح متعدد جھوٹے اور کذابوں نے ختم نبوت کا انکار کی اسی طرح متعدد کذابوں نے احادیث مبارکہ کا بھی انکار کیا۔ جبکہ حضور اکرمﷺ کی حدیث کو قرآن مجید کے بعد اسلامی قانون کا دوسرا اہم ترین ماخذ مانا جاتا ہے لیکن ہر دور میں اسے عناصر امت مسلمہ میں موجود رہے ہیں جنہوں نے نبی اکرمؐ کی حدیث کو ماننے کی بجائے اپنی عقل اور تاویلات سے احادیث رسول کا انکار کیا ہے اور کررہے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ منکرین حدیث ظاہراً حدیث رسول کے منکر ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ قرآن مجید اور مذہب اسلام کے بھی مخالف ہی؛ کیوں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر آج تک مذہب اسلام کا مدار دو ہی چیزیں رہی ہیں۔ ایک کتاب اللہ یعنی قرآن مجید اور دوسرا سنت رسول اللہ یعنی حدیث، خلفائے راشدین، صحابۂ کرام فقہائے عظام؛ بلکہ تمام عالم کے علماء حدیث رسول کو حجت مانتے آئے ہیں، مگر اس فرقے یعنی منکرین حدیث جو اپنے آپ کو اہل قرآن کہتے ہیں، انکا خیال اور عقیدہ یہ ہے کہ حدیث رسول حجت نہیں۔ در اصل اس فرقے کا مقصد صرف انکار حدیث تک محدود نہیں بلکہ یہ لوگ اسلام کے سارے نظام کو مخدوش کرکے ہر امر ونہی سے آزاد رہنا چاہتے ہیں، کیوں کہ قرآن مجید میں ہرچیز کا بیان اجمالاً ہے جس کی تشریح وتفصیل حدیث میں ہے، یہ فرقہ ان سب تفصیلات اور پورے نظام کو یکسر بدلنا چاہتا ہے، نیز قرآن کریم میں بھی من مانی تفسیر کرکے حقیقی مطالب اور مرادِ الٰہی کو ختم کردینا چاہتا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ ختم نبوت اور حجیت حدیث آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ کیونکہ قرآن مجید کے بعد کوئی کتاب نہیں اس لیے وہ قیامت تک محفوظ ہے، اسی طرح حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں اس لیے آنحضرتؐ کے ارشادات بھی قیامت تک کے لیے محفوظ اور حجت ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ اسلام کو اللہ کا آخری دین اور قیامت تک محفوظ رہنے کو ماننے کا نتیجہ یقینی، حتمی اور بدیہی طور پر یہ ہے کہ دین اسی شکل میں محفوظ رہ سکتا ہے جب قرآن بھی محفوظ ہو اور حدیث بھی محفوظ ہو۔ اگر حدیث محفوظ نہیں تو اللہ کا آخری دین محفوظ نہیں ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ اللہ نے اپنا آخری دین اپنے آخری رسول حضرت محمدرسول اللہ ؐ کے ذریعہ انسانیت تک بھیجا، لہٰذا ان کے ارشادات یعنی حدیث نبویؐ پر ایمان اور ان پر عملدر آمد ہی ہمارے لیے نجات کا واحد راستہ ہے۔ مولانا ندوی نے فرمایا کہ مذہبی لحاظ سے سطحِ ارض پر اگرچہ بے شمار فتنے رونما ہو چکے ہیں، اب بھی موجود ہیں اور تا قیامت باقی رہیں گے لیکن فتنہ انکار ختم نبوت کے بعد فتنہ انکارِ حدیث اپنی نوعیت کا واحد فتنہ ہے۔ باقی فتنوں سے تو شجرِ اسلام کے برگ و بار کو ہی نقصان پہنچتا ہے لیکن اس فتنہ سے شجرِ اسلام کی جڑیں کھوکھلی ہو جاتی ہیں اور اسلام کا کوئی بدیہی سے بدیہی مسئلہ بھی ثابت نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے پر، قرآن مجید کے آخری کتاب ہونے پر، شریعت محمدیہؐ کا آخری شریعت ہونے پر ایمان لانا ضروری ہے اسی طرح سے احادیث رسولؐ پر بھی ایمان لانا ضروری ہے۔ کیونکہ قرآن کو ماننا اور احادیث کا انکار کرنا کفر ہے اور جو شخص حدیث کا منکر ہے وہ درحقیقت قرآن کا بھی منکر ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ ایسے فتنوں سے امت مسلمہ کو باخبر کرنا اور اپنے دین و ایمان کی حفاظت کرنا وقت کا اہم تقاضہ ہے۔قابل ذکر ہیکہ اس موقع پر حضرت مولانا سید بلال حسنی ندوی صاحب نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔
#Press_Release #News #khatmenabuwat #ProphetMuhammad #FinalityOfProphethood #LastMessenger #MTIH #TIMS
No comments:
Post a Comment