Monday, June 3, 2024

جانشین امام اہل سنت حضرت مولانا عبد العلیم فاروقیؒ کے انتقال پر مرکز تحفظ اسلام ہند کی تعزیت!

 جانشین امام اہل سنت حضرت مولانا عبد العلیم فاروقیؒ کے انتقال پر مرکز تحفظ اسلام ہند کی تعزیت!

جانشین امام اہل سنت حضرت مولانا عبد العلیم فاروقیؒ کی وفات ملت اسلامیہ کیلئے عظیم خسارہ اور ایک عہد کا خاتمہ ہے: محمد فرقان







بنگلور،22؍ مئی (پریس ریلیز): عالم اسلام کی مایہ ناز شخصیت، مسلمانانِ ہند کی قدآور اور عظیم رہنما، اکابرین دیوبند کے عملی ورثہ کے امین، مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست، مجلس تحفظ ناموس صحابہؓ الہند کے قومی صدر، جمعیۃ علماء ہند کے سابق ناظم عمومی اور موجودہ نائب صدر، ام المدارس دارالعلوم دیوبند و دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کی مجلس شوریٰ کے رکن رکین، دارالمبلغین لکھنؤ کے روح رواں، صوبۂ اترپردیش کے امیر شریعت، تحریک تحفظ ناموس صحابہؓ کے جانباز سپاہی، تحریک مدح صحابہؓ کے سپہ سالار، ہزاروں تحریکوں، تنظیموں اور اداروں کے سرپرست، ہمارے مشفق و مربی، نامور عالم دین، مفسر قرآن، شارح حدیث، مناظر اسلام، خطیب بے باک، جانشین امام اہل سنت حضرت اقدس مولانا عبد العلیم فاروقی صاحب رحمۃ اللہ علیہ گزشتہ دنوں اس دارفانی سے دارالبقاء کی طرف کوچ کرگئے۔ انکے انتقال کی خبر پھیلتے ہی عالم اسلام بالخصوص مسلمانان ہند پر غم و افسوس کا بادل چھا گیا۔ ہنگامی طور پر مرکز تحفظ اسلام ہند نے ایصال وثواب کیلئے ایک دعائیہ و تعزیتی نشست منعقد کی۔ اسکے بعد حضرت والا کے اہل خانہ و جملہ متعلقین کے نام جاری ایک تعزیتی مکتوب میں مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان نے فرمایا کہ حضرت کے وصال کی خبر یقیناً ناقابل تحمل ہے، جو انکے کیلئے بالخصوص اور پوری ملت اسلامیہ کیلئے بالعموم سوہان روح ثابت ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ حضرت والا کے چلے جانے سے عموماً پوری ملت اسلامیہ بالخصوص جملہ اہل خانہ سمیت بندۂ ناچیز کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ کیونکہ جب سے ہم نے خدمت دین کیلئے چھوٹی موٹی جدوجہد کا آغاز کیا تو اس وقت سے حضرت والا سے ایک دیرینہ اور گہرا رشتہ و تعلق رہا اور ہر مسئلے میں حضرت والا کی رہنمائی حاصل رہی۔ وہ ہمارے قائد و سرپرست ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے مشفق و مربی بھی تھے۔ بلکہ حضرت والا بندۂ ناچیز کو ایک مشفق والد کی طرح چاہتے تھے اور ہمیشہ شفقت پیدری سے نوازتے تھے، یہی وجہ تھی کہ جب کبھی اپنے بیانات یا گفتگو میں ہماری طرف کوئی بات منسوب کرنی ہوتی یا ہم سے مخاطب ہوتے تو وہ ہمیں کبھی نام سے یاد نہیں کرتے بلکہ ہمیشہ ”بیٹا“ یا ”اپنے بچوں“ کہ کر ہی یاد فرمایا کرتے۔ قلم تو آپ اور جملہ متعلقین سے تعزیت کیلئے اٹھایا تھا لیکن آج بندہ غموں سے اتنا نڈھال ہیکہ خود کو تعزیت کا محتاج سمجھتا ہے۔ لیکن نوشۂ تقدیر کو کیا کرسکتے ہیں۔ مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے فرمایا کہ حضرت مولانا عبد العلیم فاروقی علیہ الرحمہ کی ذات گرامی، خدمات اور کارنامے کسی سے مخفی نہیں۔ حضرت ایک باصلاحیت اور بے باک و نڈر عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ ایک شریف النفس، خوش اخلاق، متواضع، منکسر المزاج، حلیم و بردبار اور متقی و پرہیزگار شخص بھی تھے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اکابر کی محبوبیت اور عوام الناس کی مقبولیت انہیں عطا کی تھی، احقاق حق اور ابطال باطل ان کی زندگی کا نصب العین تھا، انہوں نے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ناموس کی حفاظت کو اپنا شیوہ بنا رکھا تھا، اہل بیت اطہار اور حرمت صحابہؓ کا دفاع ان کی زندگی کا مشن تھا، پچاس سال سے زائد عرصہ تک وہ فرقۂ باطلہ کے لیے شمشیر برہنہ بنے رہے، ان کی پوری زندگی اہل سنت والجماعت کے عقائد ونظریات کی خدمت کیلئے وقف تھی۔ انکا شمار ان بزرگ ترین ہستیوں میں ہوتا ہے جنکے دینی، علمی و سماجی خدمات سے تاریخ کے بے شمار باب روشن ہیں۔ وہ انتہائی ذہین انسان تھے اور انھیں کئی اہم فنون میں درک حاصل تھا۔ خاص طور پر صحابہ کرامؓ کے فضائل و مناقب اور انکی عظمت کو قرآن و حدیث کی روشنی میں بیان کرنے میں انہیں خاص ملکہ حاصل تھا۔ انکی شخصیت ہمہ جہت تھی۔ انکی پوری زندگی دین و اسلام بالخصوص ناموس صحابہؓ کی حفاظت کی خدمت سے عبارت تھی اور وہ اس عہد کے ممتاز دینی و ملی قائد تھے۔ انکی ذات عالیہ پوری ملت اسلامیہ بالخصوص مسلمانانِ ہند کیلئے قدرت کا عظیم عطیہ تھی۔ وہ دین و شریعت، علم و دیانت اور فکر و بصیرت کے گہرے امتزاج سے حالات کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتے تھے اور ہر محاذ پر ملت اسلامیہ ہندیہ کی رہنمائی فرمایا کرتے تھے۔ استقلال، استقامت، عزم بالجزم، اعتدال و توازن اور ملت کے مسائل کیلئے شب و روز متفکر اور سرگرداں رہنا حضرت سرپرست محترم مولانا فاروقی علیہ الرحمہ کی خاص صفت تھی۔ انکی بے باکی اور حق گوئی ہر خاص و عام میں مشہور تھی، انہوں نے اپنی پوری زندگی جرأت اظہار اور داعیانہ کردار کے ساتھ گذاری۔ وہ ایثار و قربانی اور صبر و استقامت کے پیکر مجسم تھے۔ وہ اپنے کام اور مشن میں سو فیصد مخلص رہے۔ حضرات صحابہ کرامؓ کی عظمت کے سلسلہ میں انہیں کوئی مصالحت قبول نہ تھا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شان عالی میں معمولی گستاخی تک برداشت نہیں کرتے تھے۔انکی ایک آواز پر جہاں ملت اسلامیہ کا ایک بڑا طبقہ لبیک کہتا تھا وہیں دشمن پر انکا رعب اس طرح تھا کہ دشمن ڈر بھاگتا ہے۔ وہ گستاخ صحابہ اور فرقہ پرست طاقتوں کے سامنے شیشہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے رہتے۔ لیکن آج وہ روشن چراغ بجھ گیا، جس کی روشنی سے لوگ اہل سنت والجماعت کے عقائد سے متعارف ہوتے تھے۔ وہ زبان بند ہوگئی، جس کی آواز سے باطل کے ایوانوں میں زلزلے برپا ہوجایا کرتا تھا۔ وہ صحابہؓ کا سپاہی چل بسا، جو دفاع صحابہؓ کیلئے شمشیر بے نیام تھا، جس کی ذات تحریک مدح صحابہؓ کا مرکز تھی۔محمد فرقان نے فرمایا کہ حضرت فاروقی علیہ الرحمہ نے اپنے خاندان کی روشن روایات اور مشن کو بہت خوبصورتی کے ساتھ آگے بڑھایا اور ہر محاذ پر مسلمانانِ ہند کی مثالی قیادت فرمائی۔ انہوں نے پورے ملک میں تحفظ ناموس صحابہؓ و مدح صحابہؓ کی تحریک چلائی۔ اہل تشنیع اور اصحاب رسولؓ کے دشمنوں کے خلاف مورچہ سنبھالا اور اس میدان میں اپنی پوری توانائی صرف کردی، انہوں نے اس کو اپنی زندگی کا مشن بنا لیا اور جب تک جسم میں جان تھی، اس مشن کو آگے بڑھاتے رہے۔ نیز ہندوستان کی سب سے بڑی اور قدیم تنظیم ”جمعیۃ علماء ہند“ کے وہ عظیم و مشہور قائد بھی تھے، ایک عرصہ تک وہ اس کے ناظم عمومی رہے، پھر نائب صدر کی حیثیت سے تاحیات جمعیۃ کے پلیٹ فارم سے ملک وملت کی بڑی نمایاں خدمات انجام دیں۔ علاوہ ازیں متعدد اداروں و تنظیموں کے ذریعے حضرت نے تحفظ ناموس صحابہؓ، دفاع صحابہؓ اور مدح صحابہؓ کی جو تحریکیں چلائی وہ ناقابل فراموش ہیں۔ وہ اپنے جد امجد امام اہل سنت حضرت مولانا عبد الشکور فاروقیؒ کے سچے وارث، حقیقی جانشین و امین اور تحریک تحفظ ناموس صحابہؓ کے سپہ سالار و مجاہد تھے۔ یقیناً جہاں کہیں صحابہؓ کی عظمت اور دفاع صحابہؓ کا تذکرہ ہوگا، حضرت مولانا عبد العلیم فاروقیؒ کی خدمات کو ضرور یاد کیا جائے گا۔ مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے فرمایا کہ جانشین امام اہل سنت حضرت مولانا عبد العلیم فاروقی صاحب رحمۃ اللہ علیہ گرچہ بظاہر شخص واحد تھے، مگر درحقیقت وہ ایک انجمن تھے۔ انکے انتقال سے فرد واحد کا خاتمہ نہیں، بلکہ ایک عہد کا خاتمہ ہوا ہے۔ اس افسوسناک حادثے سے آج جہاں ہم سب اپنے سرپرست و قائد سے محروم ہوگئے وہیں مرکز تحفظ اسلام ہند بھی اپنے محبوب سرپرست سے محروم ہوگئی۔ انہوں نے بتایا کہ جب سن 2018ء میں انہوں نے جب ”مرکز تحفظ اسلام ہند“ کی بنیاد رکھی تو حضرت والا کی دعائیں شامل حال رہیں اور انکے قیمتی مشوروں سے کام آگے بڑھتا رہا، پھر جب مرکز تحفظ اسلام ہند نے سن 2020ء میں ناموس صحابہؓ کی حفاظت اور اصحاب رسول کے دشمن و گستاخوں کی سازشوں کو ختم کرنے اور انکے ناپاک عزائم کو خاک میں ملانے کیلئے عظمت صحابہؓ کی تحریک چلائی تو سرپرست محترم حضرت مولانا عبد العلیم فاروقی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے نہ صرف اس تحریک کی قیادت فرمائی بلکہ اس تحریک کے زیر اہتمام منعقد چالیس روزہ عظیم الشان عظمت صحابہؓ کانفرنس کی افتتاحی نشست کی صدارت فرماتے ہوئے اس تحریک کو کامیاب بنا دیا۔ اور یہی وہ تحریک تھی جس کے بعد سے مرکز تحفظ اسلام ہند کو پورے ملک میں مقبولیت حاصل ہوئی۔ پھر سن 2021ء میں حضرت والا سے جب دستوری اعتبار سے باضابطہ تحریری طور پر مرکز تحفظ اسلام ہند کی سرپرستی کی گزارش کی گئی تو انہوں نے نہ صرف اسے قبول فرمایا بلکہ اپنی منظوری کی تحریر بھی ارسال فرمائی، جو آج مرکز میں انکی یادگار کے طور پر محفوظ ہے۔ محمد فرقان نے بتایا کہ حضرت والا تاحیات مرکز تحفظ اسلام ہند کی سرپرستی فرماتے رہے، بلکہ مختلف پروگراموں اور کانفرنسوں کی حضرت والا نے باقاعدہ سرپرستی و صدارت بھی فرمائی اور مرکز کا شاید ہی کوئی پروگرام ہوگا جس میں حضرت والا کا مشورہ شامل نہ ہو۔ وہ مرکز تحفظ اسلام ہند کے نونہالوں کی جدوجہد اور پروگرامات کو بڑی اہمیت کا حامل قرار دیتے تھے اور اسے جاری رکھنے کی تلقین بھی فرمایا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ دسمبر 2023ء کو حضرت والا کی بنگلور آمد پر انکی خدمت میں انہیں اپنے رفقاء کے ہمراہ حاضری اور شرف ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی۔ گرچہ حضرت والا سے بنفس نفیس یہ ہماری پہلی ملاقات تھی لیکن انکی بے انتہا محبت اور بے تکلف گفتگو سے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ جیسے یہ پہلی ملاقات نہ ہو اور ہم میں عمر کا کوئی فرق نہ ہو، حضرت والا سے متعلق جیسا سنا تھا حضرت کو ویسا ہی پایا، منور چہرہ، شخصیت پر علمی جلالت شان، طبیعت میں سادگی اورعاجزی، ملاقات کرکے دل باغ باغ ہوگیا۔ اس ملاقات کے احساسات اور اس طویل نشستوں کی نصیحتوں اور مشوروں کو اگر قلم بند کیا جائے تو شاید ایک علیحدہ کتاب تیار ہوجائے گی۔ بس ان نشستوں کا اثر یہ ہوا کہ ہمارے اندر اپنے عقائد کو سمجھنے میں اور دلچسپی پیدا ہوئی، ساتھیوں کے دلوں میں صحابہؓ کے تئیں عقیدت و احترام میں اضافہ ہوا اور صحابہؓ کی ناموس کی حفاظت کیلئے کام کرنے کا جذبہ پہلے سے زیادہ بڑھا اور مرکز تحفظ اسلام ہند کی کارکردگی پر حضرت والا کے اطمینان سے مزید جدوجہد اور کام کرنے کا بہت حوصلہ ملا۔ اسکے بعد فروری 2024ء میں جب مرکز تحفظ اسلام ہند کا دو روزہ ”سالانہ مشاورتی اجلاس“ منعقد ہوا تو حضرت والا نے اپنی علالت کے باوجود اسکی افتتاحی نشست کی صدارت قبول فرمائی اور اپنے قیمتی نصیحتوں سے نوازا۔ لیکن افسوس کہ آج مرکز تحفظ اسلام ہند اپنے ایک ایسے عظیم رہبر اور سرپرست سے محروم ہوگئی جن کی دعائیں اور مشورے ہمیشہ اس کے ساتھ شامل حال رہیں اور ہر محاذ پر وہ اسکے معاون و مددگار رہے۔ حضرت علیہ الرحمہ کے انتقال سے مرکز تحفظ اسلام ہند کو بھی ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے اور انکے چلے جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے اسکا پر ہونا مشکل نظر آتا ہے۔ بس اللہ تعالیٰ انکا نعم البدل عطاء فرمائے، آمین۔ محمد فرقان نے فرمایا کہ انتقال سے کچھ عرصہ قبل حضرت والا نے از خود ان کو فون کے ذریعہ یاد فرمایا تھا، دوران گفتگو جب انہوں نے ایک پروگرام کی دعوت دی تو حضرت نے اپنی علالت کا عذر پیش فرمایا۔ لیکن کسے معلوم تھا کہ حضرت والا سے انکی یہ آخری بات ہورہی ہے اور چند دنوں بعد وہ ہمیں داغ مفارقت دیکر اس جہاں فانی سے کوچ کر جائیں گے۔ محمد فرقان نے کہا کہ آج ہم سب بلکہ پوری ملت اسلامیہ غم میں ڈوبی ہوئی ہے۔ لیکن موت برحق ہے، ہر ایک کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ حضرت کی جدائی سے ہم سب صدمے میں برابر کے شریک ہیں۔ یہ بڑی آزمائش کی گھڑی ہے لیکن ہمیں صبر کا دامن تھام کر اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر راضی ہونا ہوگا۔ حضرت کا اس طرح سے اچانک پردہ فرما جانے سے یقیناً ملت اسلامیہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے، بلکہ تحریک تحفظ ناموس صحابہؓ کے میدان میں ایک بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے۔ انکا انتقال ایک عظیم خسارہ ہے بلکہ ایک عہد کا خاتمہ ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ اس رنج و ملال کے موقع پر ہر ایک تعزیت کا مستحق ہے۔ لہٰذا وہ خصوصاً حضرت علیہ الرحمہ کے فرزند حضرت مولانا عبد الباری فاروقی صاحب مدظلہ، نبیرہ مولانا ابو الحسن علی فاروقی، حضرت کے چھوٹے بھائی حضرت مولانا عبد العظیم فاروقی صاحب مدظلہ، و دیگر فرزندان و اہل خانہ سمیت جملہ پسماندگان کے، اور حضرت والا کے تمام محبین، متعلقین، مریدین و تلامذہ کے اور عموماً پوری ملت اسلامیہ کے غم و افسوس میں برابر شریک ہیں اور اس عظیم سانحہ پر اپنی طرف سے اور مرکز تحفظ اسلام ہند کی طرف سے تعزیت مسنون پیش کرتے ہیں۔ اور دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ حضرت والا کی مغفرت فرماتے ہوئے انکی خدمات کو شرف قبولیت بخشے اور انکے نہ رہنے سے جو کمی ہوئی ہے اسکی تلافی فرمائے، انکا نعم البدل عطاء فرمائے۔ نیز مرحوم کو جوار رحمت اور اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ہم سب کو انکے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین


#Press_Release #News #AbdulAleemFarooqi #Farooqi #MTIH #TIMS

No comments:

Post a Comment