وقف ترمیمی قانون 2025 کے خلاف خواتین کے احتجاجی مظاہرے : چند گزارشات!
✍️ بندہ محمّد فرقان عفی عنہ
(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)
وقف ترمیمی قانون 2025 بلاشبہ ایک حساس، شرعی، اور آئینی مسئلہ ہے، جس پر ملتِ اسلامیہ ہند کا احتجاج ایک فطری اور ضروری رد عمل ہے۔ اس قانون کے ذریعے نہ صرف وقف کی شرعی بنیادوں کو چیلنج کرنے کی کوشش کی جارہی ہے بلکہ اسے ہڑپنے اور خاص طور پر اقلیتوں کے مذہبی حقوق کو مجروح کیا جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں قوم کا بیدار ہونا، آواز بلند کرنا، اور آئینی دائرے میں جدوجہد کرنا قابل تحسین ہے۔
تاہم، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس جائز تحریک کی آڑ میں بعض مقامات پر ایسے مناظر دیکھنے میں آئے ہیں جن کا شریعتِ مطہرہ اور اسلامی غیرت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ خاص طور پر خواتین کی جانب سے بے پردگی، مخلوط اجتماعات، اور ایسے نعروں کا استعمال جو اسلامی آداب اور تہذیب سے متصادم ہیں، یہ سب ایک سنگین فکری اور عملی انحراف کی علامت ہے۔
اسلام نے عورت کو عظمت، حیاء، اور وقار کا پیکر بنایا ہے۔ اسلام کا دیا ہوا پردہ محض ایک ظاہری لباس نہیں، بلکہ یہ اُس روحانی تحفظ، عفت اور وقار کا ضامن ہے جس سے ایک معاشرہ پاکیزگی، برکت، اور امن کا گہوارہ بنتا ہے۔ وقف کی حفاظت کی بات ہو اور وقف کی اصل روح یعنی دینی اقدار کو ہی پامال کیا جائے، تو یہ خود اپنے مقصد سے انحراف ہے۔
تحریکیں اگر کردار سازی سے خالی ہوں، اور صرف جذباتی نعروں اور وقتی شورش پر مبنی ہوں، تو وہ دیرپا اثر نہیں چھوڑتیں۔ خاص طور پر جب خواتین اسلام کے وقار کو نمایاں کرنے کے بجائے میڈیا کی توجہ کا ذریعہ بن جائیں، تو نقصان دوگنا ہوتا ہے: نہ صرف تحریک کی سنجیدگی مشکوک بن جاتی ہے بلکہ اسلام مخالف عناصر کو ملت پر تنقید کا موقع بھی مل جاتا ہے۔
لہٰذا ضروری بلکہ لازم ہے کہ :
1) تحریک اور احتجاج کے تمام شرکاء خاص طور پر خواتین مکمل طور پر شرعی آداب، پردے اور اسلامی اخلاق کا پاس و لحاظ رکھیں، تاکہ ہماری جدوجہد دینِ اسلام کی اقدار کا آئینہ دار ہو۔
2) پروگرام کے منتظمین پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس امر کو یقینی بنائیں کہ خواتین کا احتجاج اسلام کے اعلیٰ اخلاقی اقدار جیسا کہ حیا، وقار اور کردار کا عملی مظہر ہو، تاکہ دنیا کے سامنے دینِ اسلام کی حقیقی اور مثبت تصویر پیش کی جا سکے۔
3) نوجوان نسل کو یہ سمجھایا جائے کہ شریعت اور دستور کی حفاظت کے لیے جدوجہد، خود شریعت کی پابندی کے بغیر ممکن نہیں۔
وقف کی حفاظت ہمارے دین اور تہذیبی ورثے کا ایک اہم تقاضا ہے، اور اس کے لیے بھرپور جدوجہد وقت کی ضرورت بن چکی ہے۔ تاہم یہ بات ہر کارکن، ہر رہنما اور ہر فرد کے ذہن میں واضح ہونی چاہیے کہ یہ جدوجہد اسی وقت بااثر اور بابرکت ہو سکتی ہے جب وہ مکمل طور پر دینِ اسلام کی تعلیمات، شریعت کی حدود، اور اخلاقی آداب کے دائرے میں رہ کر کی جائے۔ کیونکہ شریعت سے ہٹ کر کی جانے والی کوئی بھی کوشش، کتنی ہی پرجوش کیوں نہ ہو، آخرکار اپنی روح کھو بیٹھتی ہے۔ وقف بچانے کا راستہ، شریعت اپنانے سے ہو کر گزرتا ہے۔ اور ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارا اصل ہتھیار ہماری اخلاقی برتری، ہماری دینی وابستگی، اور ہماری تہذیبی شناخت ہے۔ اگر ہم خود ہی اپنی بنیادوں کو کھوکھلا کریں گے، تو کوئی تحریک کامیاب نہیں ہو سکتی۔
No comments:
Post a Comment