Friday, July 11, 2025

صحابہؓ کی ناموس پر حملہ: سوشل میڈیا کا فتنہ اور ہماری ذمہ داریاں!

 صحابہؓ کی ناموس پر حملہ: سوشل میڈیا کا فتنہ اور ہماری ذمہ داریاں! 

✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


امت مسلمہ کا سب سے روشن اور عظیم باب، پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے وہ جان نثار رفقاء ہیں جنہیں ہم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کہتے ہیں۔ یہی وہ عظیم شخصیات ہیں جن کے ذریعے اللہ کا دین ہم تک پہنچا، جنہوں نے قرآن کی حفاظت کی، سنت کو زندہ رکھا، شریعت کو عملی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کیا، اور جن کے ایمان، تقویٰ، قربانی اور وفاداری کی گواہی خود قرآن نے دی۔ ’’رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ‘‘ (سورۃ التوبہ، 100)، ’’أُو۟لَـٰٓئِكَ كَتَبَ فِى قُلُوبِهِمُ ٱلْإِيمَانَ‘‘ (سورۃ المجادلہ، 22)، ’’وَكُلًّا وَعَدَ ٱللَّهُ ٱلْحُسْنَىٰ‘‘ (سورۃ النساء، 95)، جیسی آیاتِ کریمہ اس بات کی شاہد ہیں کہ صحابہ کرامؓ کی عظمت اللہ کے یہاں مسلم اور ثابت شدہ ہے۔ مگر افسوس کہ آج اسی برگزیدہ جماعت کی شان میں گستاخی ایک فیشن، بحث اور آزادیٔ اظہارِ رائے کے نام پر ایک کھلا فتنہ بن چکی ہے، اور اس فتنے کا سب سے مؤثر میدان سوشل میڈیا بن چکا ہے۔


سوشل میڈیا پر ایک مخصوص منظم طبقہ شعوری طور پر صحابہ کرامؓ کے مقام کو مشکوک بنانے، ان پر بے بنیاد الزامات لگانے، ان کی نیتوں پر حملہ کرنے اور فرقہ واریت کو ہوا دینے کی ناپاک کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ خاص طور پر مشاجراتِ صحابہ، یعنی ان کے باہمی اجتہادی اختلافات کو لیکر جو فتنہ کھڑا کیا جا رہا ہے، وہ انتہائی خطرناک ہے۔ یہ فتنہ اس لیے بھی حساس ہے کہ صحابہ کرامؓ کے یہ اختلافات اجتہادی نوعیت کے تھے، اور اہل السنۃ والجماعۃ کا اس پر متفقہ مؤقف ہے کہ ان اختلافات میں دونوں طرف اجتہاد تھا، جس میں مجتہد اگر درست نتیجہ پر پہنچے تو دوہرا اجر، اور اگر اجتہاد میں خطا ہو تب بھی ایک اجر ملتا ہے۔ مگر سوشل میڈیا پر بعض فتنہ پرور گروہ ان اختلافات کو جھگڑے، سازش، دنیا پرستی، اور ذاتی دشمنی کا رنگ دے کر صحابہ کرامؓ کے پاک دامن کو داغدار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔


دراصل صحابہ کرامؓ کے خلاف زبان درازی اس لیے کی جا رہی ہے کیونکہ دینِ اسلام انہی کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے۔ قرآن کی آیات، سنت کی پیروی، شریعت کے احکام، سیرتِ نبوی ﷺ کے واقعات، سب کے سب انہی صحابہ کرامؓ کی روایت و تبلیغ سے ہم تک آئے ہیں۔ اگر صحابہؓ کی شخصیات کو مشکوک بنا دیا جائے، ان کی عدالت، امانت، دیانت اور نیتوں پر حملہ کیا جائے، تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ پورا دین مشکوک بن جائے گا۔ کیونکہ جب دین ہم تک پہنچانے والے ناقابلِ اعتماد ہوں گے تو دین بھی ناقابلِ قبول بنے گا۔ اسی شیطانی مقصد کے تحت دشمنانِ دین صحابہ کرامؓ کی عظمت پر وار کر رہے ہیں تاکہ لوگوں کو دین سے دور کیا جائے اور امت کو فکری طور پر تباہ کیا جائے۔


بدقسمتی سے اس فتنے کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ اہلِ بیتؓ کے نام پر دیگر صحابہؓ کو نشانہ بنایا جاتا ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے اہل بیتؓ کے نام پر خلفاء ثلاثہ، حضرت امیر معاویہؓ اور دیگر جلیل القدر صحابہؓ کی شان میں زبان درازی کی، وہ درحقیقت اہل بیتؓ کے بھی دشمن ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ اہل بیتؓ خود ان صحابہ کے احترام اور محبت کے قائل تھے۔ حضرت حسنؓ نے خلافت حضرت معاویہؓ کے سپرد کی، حضرت علیؓ نے حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کی امامت میں نماز پڑھی، اور حضرت فاطمہؓ ان کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آتی تھیں۔ حضرت علیؓ کے صاحبزادے محمد بن حنفیہؒ کا قول ہے: ’’کیا تم لوگ رسول اللہ ﷺ کے بعد سب سے بہتر شخص کو گالیاں دیتے ہو؟‘‘ اور وہ یہ بات حضرت ابوبکرؓ کے بارے میں کہہ رہے تھے۔ لہٰذا اہل بیتؓ کے نام پر دیگر صحابہؓ کی تنقیص ایک باطل فکری دھوکہ ہے جس سے خود اہل بیتؓ بری ہیں۔


اہل السنۃ والجماعۃ بالخصوص اکابر علمائے دیوبند کا اس مسئلہ پر مؤقف نہایت واضح، مدلل اور اعتدال پر مبنی ہے۔ ان حضرات نے نہ صرف صحابہ کرامؓ کی عظمت پر بے شمار کتب تحریر کیں، بلکہ گستاخانِ صحابہ کے فتنوں کا علمی و عوامی سطح پر ہمیشہ دفاع کیا۔ حضرت علامہ سید انور شاہ کشمیریؒ، شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ، حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ، حضرت مفتی محمد شفیع عثمانیؒ، جیسے علمائے ربانیین نے اس باب میں علمی قلعے تعمیر کیے ہیں۔ دیوبند کا مؤقف یہ ہے کہ مشاجراتِ صحابہ کے بارے میں خاموشی اختیار کی جائے، ان کے اعمال کی نیتوں پر حملہ نہ کیا جائے، اور صحابہ کرامؓ کے باہمی اجتہادی معاملات میں عدل و انصاف کے ساتھ زبان کو روکا جائے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے فرمایا: ’’ان مشاجرات میں ہمیں خاموشی اختیار کرنا ہی سلامتی کا راستہ ہے۔‘‘ (کتاب : ازالة الخفاء عن خلافة الخلفاء)


اس کے برعکس آج سوشل میڈیا پر گمنام اکاؤنٹس، یوٹیوب چینلز، نام نہاد خطیب اور شہرت کے بچاری پوری دیدہ دلیری سے حضرت امیر معاویہؓ، حضرت عمرو بن العاصؓ، حضرت مغیرہؓ جیسے جلیل القدر صحابہؓ کی شان میں کھلے الفاظ میں گستاخی کرنے تک کی جسارت کرتے ہیں۔ یہ وہی زبان ہے جو قدیم رافضیوں کی تھی، جسے آج کے فتنہ پرور دہراتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو شخص ایک بھی صحابی کو گالی دیتا ہے، یا اس کی نیت پر حملہ کرتا ہے، وہ صرف اسی صحابی کا گستاخ نہیں بلکہ درحقیقت رسول اللہ ﷺ کی صحبت کا انکار کر رہا ہوتا ہے۔ کیونکہ صحابہ کرامؓ کے ساتھ گستاخی دراصل نبی اکرم ﷺ کے انتخاب پر اعتراض ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’میرے صحابہؓ کے بارے میں اللہ سے ڈرو، میرے بعد ان کو نشانہ نہ بناؤ۔‘‘ (ترمذی)


اس لیے علماءِ کرام کا اس پر اتفاق ہے کہ جو شخص صحابہ کرامؓ کی تنقیص، طعن یا سبّ و شتم کرتا ہے، وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔ علامہ ابن تیمیہؒ، امام مالکؒ، امام احمد بن حنبلؒ اور دیگر ائمہ کرام اس پر متفق ہیں کہ صحابہؓ کی گستاخی، نبی اکرم ﷺ کی گستاخی کے مترادف ہے، اور وہ شخص مسلمان نہیں رہتا۔ علماء دیوبند فرماتے ہیں کہ: ’’جس نے ایک صحابیؓ کو برا کہا، اس نے گویا ان سب کو برا کہا جن کے ذریعے دین ہم تک پہنچا، اور گویا وہ دین کی پوری بنیاد کو منہدم کر رہا ہے۔‘‘


اب سوال یہ ہے کہ ہم امت کے ہر فرد کی حیثیت سے کیا کر رہے ہیں؟ کیا ہم ان گستاخیوں پر خاموش رہ کر خود بھی اس جرم میں شریک نہیں ہو رہے؟ کیا سوشل میڈیا پر ان گستاخانہ ویڈیوز کو دیکھ کر، شیئر کر کے، یا لائک کر کے ہم صحابہ کرامؓ کی توہین میں حصہ نہیں ڈال رہے؟ یہ وقت ہے کہ ہم امت کو بیدار کریں، خاص طور پر نوجوان نسل کو اس فتنے سے بچائیں، ان کی ذہن سازی کریں، اور علمی، قانونی، اور فکری محاذ پر بھرپور دفاع کریں۔ ہمارے ادارے، تنظیمیں، مدارس، مساجد، سب کو اس مقصد کے لیے منظم ہونا ہوگا۔ ہمیں صحابہ کرامؓ کے فضائل، ان کی قربانیوں، اور ان کے دینی خدمات کو مسلسل اجاگر کرنا ہوگا، تاکہ امت کے دل میں ان کی محبت، عزت، اور عقیدت راسخ ہو۔


مرکز تحفظ اسلام ہند جیسے ادارے اسی بیداری کی عملی مثال بن کر میدان میں اترے ہیں۔ عظمتِ صحابہ کانفرنس جیسے پروگرام اس بات کی علامت ہیں کہ امت اب بیدار ہو رہی ہے۔ مگر یہ بیداری اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی جب تک ہم ہر پلیٹ فارم پر، ہر سطح پر، اور ہر طریقہ سے صحابہ کرامؓ کا دفاع نہ کریں، اور ان کے خلاف اٹھنے والی ہر زبان کو علم، دلیل، محبت اور غیرتِ ایمانی سے خاموش نہ کر دیں۔


لہٰذا، اب وقت آ چکا ہے کہ ہم صرف محبتِ صحابہ کو دل میں رکھنے پر اکتفا نہ کریں، بلکہ ان کی ناموس کے تحفظ کے لیے کھل کر سامنے آئیں۔ یاد رکھیں! صحابہؓ کی عظمت پر حملہ درحقیقت اسلام پر حملہ ہے، اور جو شخص اس حملے پر خاموش ہے وہ خود بھی ایمان کے خطرے میں ہے۔ آج ہر مسلمان، ہر نوجوان، ہر عالم، ہر خطیب، اور ہر ادارے پر یہ شرعی، اخلاقی اور تاریخی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ناموسِ صحابہؓ کے تحفظ کے لیے سینہ سپر ہو، اور امت کو اس فتنے کے خلاف یکجا کرے۔ یہی ہماری دینی غیرت کا تقاضا ہے، اور یہی ہماری نسلوں کے ایمان کی حفاظت کا واحد راستہ ہے۔ اگر ہم نے آج دفاعِ صحابہؓ کے فریضے کو پسِ پشت ڈال دیا، تو آنے والی نسلوں کے ایمان پر اس کا سنگین اثر پڑے گا۔ وہ ہمیں معاف نہیں کریں گی، اور قیامت کے دن اللہ کے دربار میں ہمیں ان کی گمراہی اور اپنے سکوت کا جواب دینا ہوگا۔


اب نہیں وقت کہ خاموش تماشائی بنیں

ناموسِ صحابہؓ پر جو حملہ ہو، صف آرائی کریں


فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

11؍ جولائی 2025، بروز جمعہ


#Sahaba | #AzmateSahaba | #NamooseSahaba | #MTIH | #TIMS

Tuesday, July 8, 2025

”ادے پور فائلز“: فلم کے پردے پر اسلاموفوبیا کا زہر!

 ”ادے پور فائلز“: فلم کے پردے پر اسلاموفوبیا کا زہر!

✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


ہندوستان میں حالیہ برسوں میں جس تیزی سے مذہبی منافرت، فرقہ واریت، اور اقلیتوں کے خلاف زہریلے بیانیے کو فروغ ملا ہے، وہ کسی بھی مہذب، جمہوری اور کثیر الثقافتی سماج کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ آزادی کے بعد کا ہندوستان، جسے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت، ایک تکثیری معاشرہ اور رواداری کا علمبردار ملک سمجھا جاتا تھا، آج ایک خطرناک دوراہے پر کھڑا ہے۔ اقلیتوں، خصوصاً مسلمانوں کے خلاف نفرت کی جو منظم مہم گزشتہ دہائی میں زور پکڑ چکی ہے، وہ اب محض زبانی، سیاسی جلسوں، سوشل میڈیا یا اشتعال انگیز بیانات تک محدود نہیں رہا بلکہ فلمی اسکرینوں، ڈاکیومنٹریز، ویب سیریز اور نیوز رومز میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ منتقل کیا جا چکا ہے اور اسے ایک ہتھیار کی طرح استعمال کیا جا رہا ہے۔ حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم ”ادے پور فائلز“ اسی سلسلے کی ایک خطرناک کڑی ہے، جس کا مقصد امن و امان، سماجی ہم آہنگی اور قومی یکجہتی کو نیست و نابود کرنا ہے۔


”ادے پور فائلز“ کا ظاہری پس منظر 2022ء کے کنہیا لال کے قتل سے جوڑا گیا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس فلم کا اصل مقصد ایک فرد یا کسی واقعہ کو موضوع بنانا نہیں بلکہ اسلام اور مسلمانوں کو اجتماعی طور پر نشانہ بنانا ہے، بلکہ مسلمانوں کے خلاف ایک نفرت انگیز سیاسی پروپیگنڈا کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ فلم کا ٹریلر ہی انتہائی اشتعال انگیز، گستاخانہ اور یک طرفہ ہے، جس میں نبی کریم ﷺ اور آپ کی ازواجِ مطہراتؓ کے بارے میں توہین آمیز جملے شامل کیے گئے ہیں۔ یہ صرف مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کی کوشش نہیں بلکہ ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینے اور آئینی ڈھانچے پر بھی کھلا وار ہے۔

یہ فلم نہ صرف اسلامی شعائر کی توہین ہے بلکہ ملک کے آئین کی کھلی خلاف ورزی بھی ہے۔ بھارتی آئین کا آرٹیکل 14: سب کو برابری کی ضمانت دیتا ہے، آرٹیکل 15: مذہب، نسل یا ذات کی بنیاد پر امتیاز کو ممنوع قرار دیتا ہے، آرٹیکل 19: ہر شہری کو اظہارِ رائے کی آزادی دیتا ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اس آزادی سے کسی کی عزت و ناموس، قومی سالمیت یا مذہبی جذبات مجروح نہ ہوں، تاکہ ملک کی سالمیت، امنِ عامہ، اور دوسرے افراد کی عزت محفوظ رہے، جبکہ آرٹیکل 21: ہر شخص کو وقار کے ساتھ جینے کا حق فراہم کرتا ہے۔ ”ادے پور فائلز“ جیسی فلمیں ان تمام دفعات کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔ یہ آزادیِ اظہار کے نام پر ایک خاص مذہبی طبقے کی عزت، جذبات اور شناخت پر کھلا حملہ کرتی ہیں۔ یہ نہ صرف ایک مخصوص مذہبی طبقے کی عزت اور وقار کو مجروح کرتی ہیں بلکہ پورے ملک کے اندرونی امن کو خطرے میں ڈالتی ہیں۔


یہ پہلا موقع نہیں ہے جب فلمی اسکرین کو اسلاموفوبیا کے پرچار کے لیے استعمال کیا گیا ہو۔ اس سے پہلے ”دی کشمیر فائلز“ (The Kashmir Files) اور ”دی کیرالہ اسٹوری“ (The Kerala Story) جیسی فلموں نے بھی نفرت کے بیج بوئے۔ ”کشمیر فائلز“ نے ایک مخصوص تاریخی واقعے کو بنیاد بنا کر پورے مسلم طبقے کو بدنام کیا اور ایسا ماحول پیدا کیا کہ ملک کے کئی حصوں میں مسلمانوں کے خلاف تشدد، گالیاں اور بائیکاٹ کی مہم چلی، جو آج بھی کئی علاقوں میں محسوس کی جا سکتی ہے۔ یہ فلم حکومتی سطح پر اتنی سراہا گئی کہ خود ملک کے وزیر اعظم نے اس کی تعریف کی اور بی جے پی کی متعدد ریاستی حکومتوں نے اسے ٹیکس فری قرار دیا۔ جب ریاستی طاقتیں ایک مخصوص مذہبی طبقے کے خلاف بیانیے کو فروغ دیں تو یہ محض فلمی سرگرمی نہیں بلکہ ایک منظم سیاسی مہم ہوتی ہے۔ اسی طرح ”دی کیرالہ اسٹوری“ نے مسلمان لڑکوں کو ’لَو جہاد‘ کے ذریعہ ہندو لڑکیوں کو دہشت گرد بنانے والا گروہ بنا کر پیش کیا۔ بعد میں عدالت نے فلم میں دیے گئے اعداد و شمار کو غلط اور من گھڑت قرار دیا، لیکن فلم اپنا کام کر چکی تھی، یعنی مسلم نوجوانوں کے خلاف نفرت پیدا کرنا اور ہندو لڑکیوں کو ان سے خوفزدہ کرنا۔ اس فلم کو بھی، باوجود سپریم کورٹ کے فیصلے کے، سرکاری سطح پر تحفظ حاصل رہا، جس نے نفرت کو اور زیادہ تقویت بخشی۔ یہ فلمیں ایک خاص نظریے کے تحت بنائی جاتی ہیں تاکہ لوگوں کی نظر میں ہر مسلمان مشکوک، ہر مدرسہ دہشت گردی کا اڈہ، ہر پردہ دار عورت پسماندہ، ہر داڑھی والا شدت پسند دکھائی دے۔ یہ بیانیہ نہ صرف جھوٹا اور تعصبانہ ہے بلکہ ایک پوری قوم کے وجود کے خلاف نفسیاتی جنگ ہے۔


اسی زہریلے رجحان کا تسلسل ہے کہ ”ادے پور فائلز“ نامی اس فلم میں نوپور شرما جیسے گستاخ اور فرقہ پرست عناصر کا وہ بیان بھی شامل کیا گیا ہے، جو اس نے ٹی وی چینل پر بیٹھ کر کھلے عام نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی کی تھی۔ اس گستاخی پر دنیا بھر میں شدید ردِ عمل ہوا، درجنوں ممالک نے بھارتی سفیروں کو طلب کر کے حکومت سے احتجاج کیا، لیکن افسوس کہ آج تک اس کے خلاف کوئی مؤثر قانونی کارروائی نہ ہوئی۔ جبکہ یہی ملک گستاخی یا حساس امور پر دوسرے مذاہب کے خلاف کسی بیان پر فوری کارروائی کرتا ہے۔ یہ دوہرا معیار ملک کی عدالتی و آئینی غیرجانبداری پر سوالیہ نشان ہے۔ افسوس کہ عالمی سطح پر رسوائی کا باعث بننے والا گستاخانہ بیان اس فلم کا حصہ بنا دیا گیا ہے، جس سے اس کے خطرناک عزائم بے نقاب ہوتے ہیں۔


”ادے پور فائلز“ نہ صرف اس دوہرے معیار کا مظہر ہے بلکہ اس فلم کا انداز یہ تاثر دیتا ہے کہ ہندوستانی مسلمان صرف ایک قوم ہی نہیں بلکہ ایک مسلسل خطرہ ہیں، جنہیں بدنام، دیوار سے لگانا اور بے وقار کرنا ضروری ہے۔ فلم کے ٹریلر میں جس طرح مسلمانوں کے کردار کو پیش کیا گیا ہے اور نبی کریم ﷺ اور ازواجِ مطہراتؓ کے سلسلے میں گستاخ آمیز تبصرے شامل کیے گئے ہیں، وہ ظاہر کرتا ہے کہ اس فلم کا مقصد کوئی تحقیق، انصاف یا مکالمہ نہیں بلکہ کھلی دشمنی اور اشتعال انگیزی ہے۔


ان تمام فلموں کی ایک بات مشترک ہے کہ انہیں حکومت یا اس سے منسلک اداروں کی بالواسطہ یا بلاواسطہ سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔ سینسر بورڈ، جسے دستور کے مطابق ہر فلم کا جائزہ لینا چاہیے، وہ یا تو خاموش تماشائی بنا بیٹھا ہے یا اس نفرت کے پروپیگنڈے کو خاموشی سے سہولت فراہم کر رہا ہے۔ عدالتیں، جن کا فریضہ آئین کا تحفظ ہے، وہ بھی بعض اوقات تاخیر یا سکوت کی شکار نظر آتی ہیں۔


یہ تمام فلمیں صرف مسلمانوں کو نشانہ نہیں بناتیں، بلکہ ہندوستانی معاشرے کی روح یعنی گنگا-جمنی تہذیب، ہم آہنگی، کثرت میں وحدت کو مجروح کرتی ہیں۔ جب ایک مذہب یا فرقے کو مسلسل شک، نفرت اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو وہ محض اقلیت نہیں بلکہ پورا سماج متاثر ہوتا ہے۔ کیونکہ ایک ملک میں جب نفرت، پروپیگنڈا، اور تعصب کو قانونی اور فلمی جواز دے دیا جائے، تو وہ معاشرہ جلد یا بدیر اپنی جڑوں سے کٹ جاتا ہے۔ ہٹلر نے بھی ابتدا پروپیگنڈا فلموں اور جھوٹے بیانیے سے کی تھی، اور نتیجہ نسل کشی پر منتج ہوا۔ اگر ہندوستانی سماج نے وقت پر بیداری نہ دکھائی، تو ہم بھی ایک ایسی دلدل میں دھنس سکتے ہیں جہاں سے نکلنا ممکن نہ ہوگا۔


”ادے پور فائلز“ جیسی فلمیں نہ صرف مسلمانوں کے خلاف نفرت کو بڑھا رہی ہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی بھارت کو اقلیتی دشمن، متعصب اور انتہا پسند ملک کے طور پر پیش کر رہی ہیں۔ اقوام متحدہ، OIC، یورپی یونین، اور انسانی حقوق کے عالمی ادارے کئی بار بھارت میں اقلیتوں کی حالتِ زار پر تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔ اگر ہم نے اس رجحان کو نہ روکا تو یہ صرف اقلیتوں کے لیے نہیں بلکہ ملک کی سالمیت اور بین الاقوامی ساکھ کے لیے بھی سنگین خطرہ بن جائے گا۔


یہ وقت خاموش رہنے کا نہیں۔ جمعیۃ علماء ہند نے بجا طور پر اس فلم کے خلاف کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے اور اس پر پابندی لگانے کی اپیل کی ہے۔ جمعیۃ علماء ہند اور اس کے صدر مولانا ارشد مدنی کا یہ قدم نہایت بروقت اور قابلِ ستائش ہے۔ انہوں نے صرف مسلمانوں کے مذہبی جذبات کا دفاع نہیں کیا بلکہ ہندوستان کے آئینی اصولوں، مذہبی ہم آہنگی، اور انسانی شرافت کا بھی تحفظ کیا ہے۔ لیکن یہ محض مسلمانوں کا مسئلہ نہیں بلکہ ہر اس شہری کا مسئلہ ہے جو اس ملک کے آئینی اقدار، ہم آہنگی، اور انسانی مساوات پر یقین رکھتا ہے۔ لہٰذا ہمیں بھی اس کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے۔ اور اس کے خلاف قانونی محاذ پر، الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا پر، سوشل میڈیا پر، جلسوں میں، تحریروں میں، اور بیداری کی مہمات کے ذریعہ مؤثر مہم چلانی ہوگی۔ کیونکہ سینسر بورڈ، عدلیہ، حکومت، اور عوام کو یہ احساس دلانا ضروری ہے کہ نفرت کا بیانیہ وقتی سیاست تو چمکا سکتا ہے، مگر قوموں کو تباہ کر دیتا ہے۔ آج اگر ادے پور فائلز پر روک نہ لگی، اگر اس کے جھوٹے بیانیے کا رد نہ کیا گیا، اگر اس کی وجہ سے پھیلنے والی نفرت کو چیلنج نہ کیا گیا، تو کل ہر گلی، ہر شہر اور ہر بستی میں فرقہ وارانہ تشدد کی آگ بھڑک سکتی ہے۔


اب وقت آ گیا ہے کہ صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ہر انصاف پسند، باشعور، اور آئین پسند شہری کھڑا ہو۔ کیونکہ آج اگر نبی کریم ﷺ کی ذات، اسلام اور مسلمانوں پر زبان دراز کی جا رہی ہے، تو کل کو کسی اور مذہب، قوم یا طبقہ کی باری بھی آ سکتی ہے۔ کیونکہ نفرت کی آگ صرف ایک دیوار نہیں جلاتی، پورا شہر جلا دیتی ہے۔ یہ ہمارے ملک کے تمام باشندگان کا مشترکہ امتحان ہے کہ کیا ہم ہندوستان کو امن، عدل، برابری، اور رواداری کا گہوارہ بنائیں گے، یا اسے نفرت، جھوٹ، اور سازشوں کا قبرستان بننے دیں گے؟ فیصلہ ہمیں کرنا ہے: قلم سے، زبان سے، قانون سے، اور اجتماعی شعور سے۔ اگر ہم نے آج خاموشی اختیار کی، تو ہماری آئندہ نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔


#UdaipurFiles #PaighameFurqan #Islamophobia #IslamobhopicFilm #Film #Bollywood #MTIH #TIMS


مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام ”عظمت صحابہ ؓکانفرنس“ کا انعقاد، برادران اسلام سے شرکت کی اپیل!

 اصحابِ رسول ﷺ کی عظمت پر حملے ناقابل برداشت، دفاع صحابہؓ وقت کی اہم ترین ضرورت!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام ”عظمت صحابہ ؓکانفرنس“ کا انعقاد، برادران اسلام سے شرکت کی اپیل!


بنگلور، 08؍ جولائی (پریس ریلیز): امت مسلمہ اس وقت ایک نازک ترین دور سے گزر رہی ہے، جہاں عقائد، شعائرِ اسلام اور مقدسات پر حملے تیز تر ہو رہے ہیں۔ خاص طور پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، جنہیں خود اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں ”رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ“ کے تاج سے نوازا، آج ان کی ذاتِ گرامی پر زبان درازی اور گستاخی کرنا ایک مخصوص فتنہ پرور طبقے کا معمول بنتا جا رہا ہے۔ اس فتنہ کا دائرہ سوشل میڈیا سے لیکر عوامی اجتماعات اور مخصوص منبروں تک پھیل چکا ہے۔ گستاخانِ صحابہؓ ایک منظم سازش کے تحت امت کے دلوں سے صحابہؓ کی محبت کو کمزور کرنے اور اسلامی تاریخ کے سب سے روشن باب کو داغ دار کرنے کی ناپاک کوششوں میں مصروف ہیں۔ یہ صورتِ حال ہر درد مند مسلمان کے لیے باعثِ تکلیف اور ایک بڑے فکری و ایمانی بحران کا پیش خیمہ ہے۔ مذکورہ خیالات کا اظہار مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے کیا۔ انہوں نے کہا کہ ان پرآشوب حالات میں امت کی بیداری، نوجوان نسل کی ذہن سازی، اور دین اسلام کے اولین مبلغین و محافظین یعنی صحابہ کرامؓ کے دفاع و تحفظ کے لیے شعوری اور منظم جدوجہد وقت کی سب سے اہم ضرورت بن چکی ہے۔ ان فتنوں کا سدباب اسی وقت ممکن ہے جب ہم علمی، فکری، روحانی اور سماجی محاذ پر یکجہتی کے ساتھ میدان میں اتریں، اور صحابہ کرامؓ کی عظمت و فضیلت کو نہ صرف اجاگر کریں بلکہ گستاخانِ صحابہ کو علمی، قانونی، دینی اور عوامی سطح پر مؤثر جواب دے کر ان کا ناپاک منہ بند کریں۔ اسی مقصد عظیم کے تحت مرکز تحفظ اسلام ہند کی جانب سے 09؍ جولائی 2025ء بروز بدھ سے ایک عظیم الشان پانچ روزہ آن لائن ”عظمت صحابہؓ کانفرنس“ کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ یہ کانفرنس ایک طرف امت کو صحابہ کرامؓ کی زندگیوں، ان کی قربانیوں، ان کے ایمان، عدل، تقویٰ اور دین پر استقامت سے روشناس کرائے گی اور دوسری طرف ان کے خلاف ہر قسم کی گستاخی، الزام تراشی اور تحریف کا مدلل و مسکت جواب پیش کرے گی۔ محمد فرقان نے کہا کہ مرکز تحفظ اسلام ہند ماضی میں بھی اس عنوان پر بڑے پیمانے پر آن لائن کانفرنسیں منعقد کر کے گستاخانِ صحابہ کو آئینہ دکھا چکا ہے، اور الحمدللہ ان علمی و عوامی کوششوں کے نتیجے میں کئی فتنہ پرور آوازیں خاموش ہوئیں اور کئی حلقوں میں بیداری کی لہر دوڑی۔ لہٰذا اپنی روایات کو باقی رکھتے ہوئے مرکز اس بار بھی میدان میں سرگرم عمل ہے، یہ عظمت صحابہ کانفرنس پانچ دن تک جاری رہے گی، جس میں ملک کے چوٹی کے جید علماء کرام، مفتیانِ عظام، خطباء و مبلغین خطاب فرمائیں گے اور صحابہ کرامؓ کے ایمان افروز تذکروں کے ساتھ ساتھ گستاخوں کے فتنے کے مقابلہ میں شریعت و سنت کی روشنی میں لائحہ عمل پیش کریں گے۔ اس کانفرنس کی تمام مجالس مرکز کے آفیشیل یوٹیوب چینل اور فیس بک پیج تحفظ اسلام میڈیا سروس پر روزانہ رات دس بجے سے براہ راست نشر کی جائیں گی تاکہ ملک بھر کے مسلمان بالخصوص نوجوان نسل اس سے استفادہ کر سکے۔ مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے اس عظیم الشان پروگرام میں برادران اسلام سے بھرپور شرکت کی پرزور اپیل کی ہے، اور فرمایا کہ اب وقت آ چکا ہے کہ ہم صرف دل میں محبت صحابہؓ رکھنے تک محدود نہ رہیں بلکہ ان کی عزت و عظمت کے تحفظ کے لیے کھل کر سامنے آئیں، ان کے خلاف ہر گستاخ زبان کو جواب دیں، اور آنے والی نسلوں کے ایمان کی حفاظت کے لیے متحد ہو کر کھڑے ہوں۔ یہ کانفرنس اسی دعوت کا عملی مظہر ہے۔ لہٰذا، آئیے! اس کارواں کا حصہ بنیے اور دشمنانِ صحابہ کے خلاف ایک مضبوط، باوقار، اور بیدار امت کا پیغام دنیا کو دیجیے۔


#Sahaba #AzmateSahaba #GustakheSahaba #PressRelease #MTIH #TIMS


Tuesday, July 1, 2025

وقف کے دفاع میں ”انسانی زنجیر“ : خاموش ہاتھوں کی گونجدار پکار!

 وقف کے دفاع میں ”انسانی زنجیر“ : خاموش ہاتھوں کی گونجدار پکار!

✍️ بندہ  محمد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


وقف ترمیمی قانون 2025 کے خلاف جو احتجاجی تحریک بنام ”وقف بچاؤ، دستور بچاؤ تحریک“ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی سرپرستی میں ملک بھر میں زور و شور سے جاری ہے، وہ درحقیقت وقف قانون میں صرف غیر آئینی ترمیمات کے خلاف آواز نہیں بلکہ ایک نظریاتی، دستوری اور تہذیبی بیداری کی تحریک ہے۔ وقف، اسلامی تشخص، ملی ورثہ اور اقلیتی تشخص کا محافظ ہے، اور اس پر وار دراصل ایک مخصوص طبقے؛ مسلمانوں کے وجود، اس کے دینی و تہذیبی نظام، اس کے تعلیمی اداروں، اس کے مساجد، مدارس، خانقاہوں، یتیم خانوں،مزاروں، قبرستانوں اور عوامی بھلائی کے منصوبوں پر حملہ ہے۔ چنانچہ اس حملے کا جواب صرف قانونی چارہ جوئی تک محدود نہیں رہ سکتا، بلکہ اس کے خلاف ہر سطح پر پرامن، باشعور اور منظم عوامی مزاحمت کی ضرورت ہے۔ اسی مزاحمت کے مختلف مراحل اور صورتیں ہیں جو اس وقت ”وقف بچاؤ دستور بچاؤ تحریک“ کے ذریعہ ملک کے مختلف علاقوں میں عمل میں لائی جارہی ہیں۔


احتجاجی تحریک کی ان مختلف صورتوں میں ایک منفرد اور پراثر صورت ”انسانی زنجیر“ (Human Chain) کا طریقہ ہے، جس کے ذریعہ نہ صرف قوم میں بیداری پیدا ہوتی ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک پرامن اور باوقار پیغام جاتا ہے۔ انسانی زنجیر کے ذریعہ ایک خاموش لیکن زوردار احتجاج ریکارڈ ہوتا ہے، جو حکومت کو احساس دلاتا ہے کہ عوام اب بیدار ہوچکے ہیں اور وہ اپنے حقوق، اپنے مذہبی اداروں اور اپنے دستوری تشخص کے تحفظ کیلئے خاموش تماشائی بنے نہیں بیٹھیں گے۔ یہ طریقہئ احتجاج اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ اس میں عوام کی براہ راست شرکت ہوتی ہے،مرد، نوجوان، بچے، بزرگ، ہر طبقے کے افراد سڑک پر آکر خاموشی کے ساتھ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر ایک ایسی زنجیر بناتے ہیں جو ظاہری طور پر خاموش ہوتی ہے لیکن درحقیقت اپنے پیچھے ایک گونجدار پیغام رکھتی ہے۔


کرناٹک میں 04؍ جولائی کو نماز جمعہ کے بعد جو انسانی زنجیر بننے جارہی ہے وہ صرف ایک ریاستی احتجاج نہیں بلکہ قومی سطح پر بیداری کی علامت ہے۔ یہ زنجیر اس بات کی علامت ہے کہ ملک کے آئینی اصول، اقلیتوں کے حقوق، مذہبی آزادی اور وقف جیسی دینی و سماجی ادارے ملک کی روح ہیں اور ان پر کسی قسم کی چیرہ دستی برداشت نہیں کی جائے گی۔ انسانی زنجیر کا تصور نیا نہیں، بلکہ عالمی سطح پر بھی اسے ایک مؤثر احتجاجی ذریعہ مانا گیا ہے۔ جنوبی افریقہ کی نسلی امتیاز کے خلاف تحریک میں، اسرائیلی جارحیت کے خلاف اور فلسطین کی حمایت میں، ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف احتجاج میں اور بھارت میں مختلف مواقع اور تحریکات میں اس طریقے کو کامیابی کے ساتھ استعمال کیا گیا ہے۔ اس کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ یہ ایک پرامن، مہذب اور خود کو دستور کے دائرے میں رکھتے ہوئے آواز بلند کرنے کا ذریعہ ہے، جو کسی بھی جمہوری ملک کی روح کے مطابق ہے۔ انسانی زنجیر(ہیومن چین) کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ اس میں صرف نارے بازی یا جذباتیت نہیں بلکہ منظم تیاری، شعور، یکجہتی اور عوامی شمولیت کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ جب کوئی انسان اپنے دائیں اور بائیں موجود افراد کا ہاتھ تھامے ہوئے کھڑا ہوتا ہے، تو وہ درحقیقت یہ پیغام دے رہا ہوتا ہے کہ ہم سب ایک ہیں، ہم سب متحد ہیں، اور ہم سب اپنے وقار اور اداروں کے تحفظ کیلئے کھڑے ہیں۔ اس میں کوئی لسانی، مذہبی، یا سیاسی تفریق نہیں ہوتی، بلکہ یہ صرف اور صرف اپنے مشترکہ وقار اور دستور کے تحفظ کی ایک علامت بن جاتی ہے۔


پلے کارڈز اور بینرز انسانی زنجیر کے پیغام کو مزید مضبوط بناتے ہیں۔ جب ہاتھوں میں ایسے بینرز ہوں جن پر لکھا ہو ”وقف بچاؤ، دستور بچاؤ“، ”ہم وقف کے محافظ ہیں“، ”ہم آئین مخالفت وقف ترمیمی قانون 2025 کو مسترد کرتے ہیں“، ”ہم ایک ہیں“، تو یہ ہر راہگیر، ہر کیمرہ، اور ہر سوشل میڈیا صارف کے ذہن میں سوالات پیدا کرتا ہے، اور یہی سوالات بیداری کی بنیاد بنتے ہیں۔ میڈیا کیلئے ایسے مناظر نہایت پرکشش ہوتے ہیں، کیونکہ ایک بڑی تعداد میں پرامن طریقے سے کھڑے لوگ، یکساں پلے کارڈز، منظم ترتیب، اور جذباتی فضا، یہ سب ایک مؤثر بصری پیغام میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ ایسے احتجاج میڈیا کی توجہ بھی حاصل کرتے ہیں، اور اگر اس کے ساتھ سوشل میڈیا کی منظم مہم بھی ہو، جیسے کہ تصاویر، ویڈیوز، مختصر کلپ، ہیش ٹیگز وغیرہ، تو یہ پیغام گھنٹوں میں مقامی سے قومی، اور قومی سے عالمی سطح تک پہنچ جاتا ہے۔


سوشل میڈیا کا کردار آج کے دور میں احتجاج کو عالمی بنانے کا سب سے بڑا ذریعہ بن چکا ہے۔ جس طرح فلسطین کے مظالم پر عالمی شعور، سوشل میڈیا خاص طور پر X (Twitter) کے ذریعہ بیدار ہوا، اسی طرح اگر ہمارے نوجوان، ہمارے علماء، ہمارے کارکنان، ہمارے تعلیمی ادارے، طلبہ، اپنے اپنے مقامات پر انسانی زنجیر کے ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا پر ایک ہی ہیش ٹیگ کے تحت نشر کریں، تو یہ احتجاج صرف سڑکوں تک محدود نہ رہے گا، بلکہ ہندوستانی عوام، عدالتوں، ایوانوں، اور دنیا بھر میں انسانی حقوق کے اداروں تک اپنی آواز پہنچائے گا اور یہ مسئلہ صرف مقامی نہ رہ جائے گا بلکہ قومی اور بین الاقوامی مسئلہ بن جائے گا۔ یہی وہ طریقہ ہے جو آج کے دور میں کم وسائل کے باوجود مؤثر مزاحمت کی راہ ہموار کرتا ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ ہر سطح پر منظم تیاری ہو، تصاویر اور ویڈیوز اچھے معیار کی ہوں، ترسیل منظم ہو، اور پیغام مربوط ہو۔


انسانی زنجیر ایک ایسا طریقہ احتجاج ہے جو صرف حکومت کو چیلنج نہیں کرتا بلکہ اپنے اندر کی غفلت کو بھی جھنجھوڑتا ہے۔ جب ایک عام شخص، جسے شاید سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں، وہ سڑک پر آکر اپنے ہم مذہب بھائی کا ہاتھ پکڑتا ہے اور کھڑا ہوتا ہے، تو وہ یہ اعلان کرتا ہے کہ اب غفلت کافی ہوچکی، اب ہم جاگ چکے ہیں۔ یہ بیداری کا لمحہ صرف حکومت کو پریشان نہیں کرتا بلکہ پوری قوم کو ایک نئی روح بخشتا ہے۔ کرناٹک کی یہ انسانی زنجیر اس بیداری کی علامت ہے، اور اگر ہر ادارہ، ہر تنظیم، ہر شہر، ہر ضلع، ہر ریاست اس جذبے کو قبول کرے، تو یہ احتجاج ایک انقلاب میں بدل سکتا ہے۔


اس میں کوئی شک نہیں کہ انسانی زنجیر میں شرکت خاموش احتجاج ہے، لیکن یہ خاموشی گونجدار ہوتی ہے۔ یہ خاموشی ہر زندہ ضمیر کو آواز دیتی ہے، یہ خاموشی ہر دستور شکن طاقت کیلئے خطرہ بن جاتی ہے، اور یہ خاموشی ہر مظلوم کے دل میں امید کی کرن جگاتی ہے۔ اس میں کوئی اشتعال نہیں، کوئی جارحیت نہیں، کوئی قانون شکنی نہیں، صرف محبت، اتحاد، اور بیداری کا پیغام ہوتا ہے۔ اور یہی وہ اسلوب ہے جس سے بڑی سے بڑی حکومتیں بھی دباؤ محسوس کرتی ہیں اور اپنے فیصلوں پر نظر ثانی پر مجبور ہوتی ہیں۔

انسانی زنجیر کا سب سے بڑا پیغام یہی ہے کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں، ہم اپنے اداروں کی حفاظت کریں گے، ہم اپنے بزرگوں کی امانتوں کے وارث بن کر ابھریں گے، اور ہم اس ملک کے دستور، جمہوریت، اور اقلیتی تحفظات کے اصولوں کو اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھیں گے۔ کرناٹک کی سڑکوں پر بننے والی انسانی زنجیر اس وقت تاریخ رقم کرے گی، اگر ہم سب اسے صرف ایک احتجاج نہ سمجھیں، بلکہ اسے اپنے عزم، اپنی بصیرت، اور اپنی ذمہ داری کا اعلان بنائیں۔ یہ وقت صرف باتوں کا نہیں، عمل کا ہے۔ اور انسانی زنجیر ایک ایسا عمل ہے جو تاریخ کے صفحات پر ثبت ہوگا، اور آنے والی نسلیں اس دن کو یاد رکھیں گی کہ ہم نے خاموشی سے ایک ایسا زوردار پیغام دیا جو دیواروں، قانون ساز اداروں، اور اقتدار کے ایوانوں کو ہلا کر رکھ گیا۔


لہٰذا ہر شخص، ہر فرد، ہر باشعور شہری کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس انسانی زنجیر کا حصہ بنے۔ یہ صرف مظلوموں کی حمایت نہیں بلکہ اپنے وجود، اپنے تشخص، اور اپنے آئینی حقوق کے تحفظ کا اعلان ہے۔ ہمیں اپنے ہاتھوں کو جوڑنا ہے، لیکن صرف ہاتھ نہیں، اپنے دلوں کو بھی جوڑنا ہے، اپنی فکروں کو جوڑنا ہے، اپنے وسائل کو جوڑنا ہے، اور اپنے راستے کو جوڑنا ہے۔ جب ہم سب ایک ہاتھ سے ایک ہاتھ جوڑیں گے، تو وہ زنجیر صرف انسانوں کی نہیں ہوگی بلکہ ایک بیدار قوم کی علامت ہوگی، جو ہر سازش، ہر ناانصافی، اور ہر آئینی حملے کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جائے گی۔ یہ زنجیر ہمارے اتحاد، شعور اور دستور سے وفاداری کی گواہی دے گی۔ یہی وہ پرامن لیکن پراثر طریقہ ہوگا جس کے ذریعے وقف کی حفاظت کے لیے ایک پرزور آواز بلند ہوگی۔ یہ صرف احتجاج نہیں بلکہ ایک اعلان ہوگا کہ ہم اپنے دینی، ملی اور قانونی ورثے پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ انسانی زنجیر کے ذریعہ ہم وقف ترمیمی قانون 2025 کے خلاف ایک بڑی اور منظم مزاحمت کو جنم دیں گے، جو آنے والی نسلوں کو یہ پیغام دے گی کہ جب وقف پر وار کیا گیا، تو قوم خاموش نہ رہی بلکہ تاریخ کے ہر موڑ پر اس نے اپنے تشخص کا دفاع کیا۔


#SaveWaqfSaveConstitution | #WithdrawWaqfAmendments | #HumanChain | #WaqfAmendmentAct