Thursday, 31 July 2025

فریادِ اقصیٰ، آہِ فلسطین اور ضمیرِ امت کا امتحان!

 فریادِ اقصیٰ، آہِ فلسطین اور ضمیرِ امت کا امتحان!

✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

فلسطین وہ سرزمین ہے جہاں انبیاء علیہ السلام نے قدم رکھے، وہ مقدس خطہ جہاں اللہ کے محبوبوں کی صدائیں گونجتی تھیں، جہاں آسمانوں کی طرف معراج کا سفر شروع ہوا، جہاں بیت المقدس کے در و دیوار نے رسول اللہ ﷺ کی امامت دیکھی۔ وہی فلسطین آج خون میں نہایا ہوا ہے، وہی القدس آج صیہونی جارحیت کی بھینٹ چڑھا ہوا ہے، وہی اقصیٰ آج اُمت کے غفلت آلود سکوت پر نوحہ کناں ہے۔ یہ مسئلہ صرف کسی قوم یا قبیلے کا مسئلہ نہیں، یہ کسی جغرافیائی یا نسلی نزاع کا معاملہ نہیں، بلکہ یہ اُمت مسلمہ کی روحانی، دینی، اور ایمانی غیرت کا مسئلہ ہے۔ یہ وہ درد ہے جسے ہر مومن کو اپنے سینے میں محسوس کرنا چاہیے، یہ وہ زخم ہے جو چودہ سو سالہ تاریخِ اسلام کے قلب پر لگا ہے۔ یہ وہ صدا ہے جو ارضِ اقصیٰ سے اٹھتی ہے اور ہر باضمیر مسلمان کے دل کو چیر دیتی ہے۔


فلسطین کی اہمیت محض اس کی جغرافیائی حیثیت میں نہیں، بلکہ یہ وہ سرزمین ہے جسے قرآن نے مبارک کہا، جسے رسول اللہ ﷺ نے اپنے خوابوں کی وادی قرار دیا، جسے صحابہؓ نے اپنی جانوں سے سینچا، جس پر سیدنا فاروق اعظم ؓنے فتح کے بعد عدل کا جھنڈا گاڑا، اور جس کے باسیوں کو نبی کریم ﷺ نے اپنا بھائی قرار دیا۔ بیت المقدس وہ قبلہ اول ہے جس کی طرف رخ کرکے صحابہؓ نے برسوں نماز ادا کی، وہی مسجد ہے جہاں ایک ہی وقت میں تمام انبیاء نے اللہ کے آخری نبی کے پیچھے نماز پڑھی، وہی جگہ ہے جہاں سے حضوراکرم ﷺ نے آسمانوں کا سفر کیا، اور وہی جگہ ہے جو قیامت کے قریب دجال اور امام مہدیؑ کے درمیان آخری معرکہ کی گواہ بنے گی۔


فلسطین کی سرزمین پر آج جو ظلم ہو رہا ہے، وہ تاریخ کا سب سے بھیانک باب ہے۔ لاکھوں بچے یتیم ہو چکے، ہزاروں عورتیں بیوہ ہو گئیں، مساجد کھنڈر بنادی گئیں، قرآن کے اوراق جلا دیے گئے، اسپتالوں پر بم برسائے گئے، اسکولوں میں بارود بھرا گیا، حتیٰ کہ وہ نومولود جنہوں نے ابھی دنیا کی ہوا تک نہ چھوئی، انہیں بھی میزائلوں نے آغوشِ اجل میں پہنچا دیا۔ یہ ظلم محض انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں، یہ انسانیت کے چہرے پر طمانچہ ہے، یہ تہذیبِ مغرب کا اصل چہرہ ہے، یہ اقوام متحدہ، عالمی عدالت انصاف، اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی مکمل منافقت کا عکاس ہے۔ ایک طرف غزہ کی گلیوں میں بچوں کے ٹکڑے بکھرے ہیں، دوسری طرف امریکہ و اسرائیل ہتھیاروں کے سودے کررہے ہیں۔ ایک طرف فلسطینی مائیں اپنے معصوم بچوں کی لاشیں گود میں لیے بین کررہی ہیں، تو دوسری طرف یورپی اقوام اسرائیلی جارحیت کو ”دفاعی کارروائی“ قرار دے کر عالمی رائے عامہ کو گمراہ کررہی ہیں۔ اقصیٰ کے منبر پر اذان دینے والے شہید کردیے گئے، قرآن سنانے والوں کے سینے چھلنی کردیے گئے، اور پوری دنیا… بالخصوص 57 اسلامی ممالک… صرف مذمتی بیانات، علامتی اجلاس، اور خاموش دعاؤں تک محدود ہیں۔


کیا یہ امت محمد ﷺ کی غیرت کا مظہر ہے؟ کیا یہ اُمت جو ایک جسم کی مانند کہلائی، وہ اپنے ہی جسم کے ایک عضو کے زخم پر خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے؟ کیا یہ وہی امت ہے جس کے لیے نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ اگر تم نے ایک مظلوم مسلمان کی مدد نہ کی، تو اللہ تمہیں بھی بے یار و مددگار چھوڑ دے گا؟۔فلسطین آج صرف فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں، یہ پوری اُمت کا مسئلہ ہے، یہ ہماری ایمانی بقا، دینی غیرت، اور نبوی نسبت کا امتحان ہے۔ اگر آج ہم اقصیٰ کے حق میں نہ اٹھے، اگر آج ہم نے فلسطینیوں کی صداؤں پر لبیک نہ کہا، اگر آج ہم نے اپنی زبان، قلم، دل، اور وجود کو اس میں شریک نہ کیا، تو کل جب ہم رسول اللہ ﷺ کے سامنے کھڑے ہوں گے، تب ہم کس منہ سے کہیں گے کہ ہم آپ کی امت ہیں؟


ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ فلسطین کا دفاع محض عسکری یا سیاسی مسئلہ نہیں، یہ ایمان کا تقاضا ہے۔ جس طرح ہم اپنے گھر کی دیوار کے ایک پتھر کو بھی غیروں کے قبضے میں نہیں جانے دیتے، اسی طرح بیت المقدس… جو ہمارا قبلہ اول ہے… وہ صرف فلسطینیوں کی ذمہ داری نہیں، بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی مشترکہ وراثت ہے، اور اس کا تحفظ ہم سب کا فریضہ ہے۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی صفوں کو درست کریں، اپنی ترجیحات کو بدلیں، اپنے دلوں میں فلسطین کے لیے درد پیدا کریں، اور ہر محاذ پر؛ چاہے وہ میڈیا ہو، معیشت ہو، سیاست ہو یا سفارت؛ فلسطین کے لیے ایک سیسہ پلائی دیوار بن جائیں۔ ہمیں اسرائیلی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کرنا چاہیے، ان کمپنیوں کا محاسبہ کرنا چاہیے جو صیہونی جرائم میں شریک ہیں، ہمیں اپنی حکومتوں پر دباؤ بنانا چاہیے کہ وہ محض مذمتی بیانات پر اکتفا نہ کریں بلکہ عملی اقدامات کریں۔ہماری مساجد، ہمارے مدارس، ہمارے اسکول، ہمارے میڈیا، ہماری تحریریں، ہماری تقریریں، ہر ہر چیز کو فلسطین کا ترجمان بننا چاہیے۔ ہمیں امت کو بیدار کرنا ہوگا، دلوں میں ایمان کی حرارت جگانی ہوگی، نوجوانوں میں بیداری کی روح پھونکنی ہوگی، اور ظالموں کو یہ باور کرانا ہوگا کہ امتِ محمدیہ مر نہیں گئی، بلکہ وہ لمحہ قریب ہے جب یہ امت اپنا کھویا ہوا وقار واپس لے گی۔


یاد رکھیے! اقصیٰ کا مسئلہ صرف فلسطینی ماں کے بیٹے کا مسئلہ نہیں، یہ آپ کے بیٹے کا مسئلہ بھی ہے، یہ آپ کی بیٹی کے حجاب کا مسئلہ بھی ہے، یہ آپ کے ایمان کا مسئلہ بھی ہے۔ اگر آج ہم نے فلسطین کو تنہا چھوڑ دیا، تو کل ہماری گلیوں میں بھی یہی ظلم دہرایا جائے گا۔آج مسجد اقصیٰ پکار رہا ہے، غزہ چیخ رہا ہے، اور مظلوم بچوں کے لاشے ہم سے سوال کر رہے ہیں کہ کہاں ہے وہ امت جس کے نبی ﷺ نے فرمایا تھا: ”مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں“؟ کہاں ہے وہ غیرت جو بدر و اُحد کے میدانوں میں گونجی تھی؟ کہاں ہیں وہ آنسو جو مظلوموں کے لیے بہا کرتے تھے؟ کہاں گیا وہ جذبہ جو کربلا میں یزید کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن گیا تھا؟ اے امت مسلمہ! اُٹھ جا، ابھی وقت ہے، اب بھی جاگ جائے تو اقصیٰ بچ سکتا ہے، اگر تُو نے صدائے حق بلند کی تو ظلم کے ایوان لرز سکتے ہیں، اگر تُو نے فلسطینی بچوں کی چیخوں کو اپنی صدا بنا لیا تو پھر اقصیٰ کے منبر سے اذان کی گونج سنائی دے سکتی ہے، ورنہ یاد رکھ، تاریخ خاموش نہیں رہتی، کل یہی فلسطین تمہیں یاد کرے گا اور کہے گا: ”تم ہمارے اپنے تھے، مگر تم نے ہمیں یتیموں کی طرح تنہا چھوڑ دیا!“۔ اگر تیرے ہاتھ میں قلم ہے تو اسے فلسطین کا سفیر بنا، اگر تیری زبان میں اثر ہے تو اس سے فلسطین کی آہ کو دنیا تک پہنچا، اگر تیرے پاس دولت ہے تو اسے مظلوموں کی مدد میں خرچ کر، اگر تیرے پاس اثر و رسوخ ہے تو اسے اسرائیلی بائیکاٹ کے لیے استعمال کر، اور اگر تیرے پاس صرف دعا ہے تو اسے آنسوؤں اور سچائی سے بھر دے تاکہ وہ عرشِ الٰہی تک جا پہنچے؛ ورنہ جب قیامت کے دن ایمان کا سوال ہوگا، تو فلسطین کی چیخ تیرے جواب کے بیچ گونجے گی، اور بیت المقدس کی دیواریں گواہی دیں گی: ”یہ وہ لوگ تھے… جو امت کے زخموں پر پھول چڑھاتے رہے!“

اٹھ باندھ کمر مرد مجاہد کا جگر لے

مومن ہے تو پھر مسجد اقصیٰ کی خبر لے


فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

31 جولائی 2025ء بروز جمعرات


8495087865

mdfurqan7865@gmail.com


#Palestine | #Gaza | #Israel | #PahalgamTerroristAttack | #FREEPalestine | #PaighameFurqan | #MTIH | #TIMS


Monday, 28 July 2025

مرکز تحفظ اسلام ہند کی پوری ملت اسلامیہ سے مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھنے کی اپیل!

 مرکز تحفظ اسلام ہند کی پوری ملت اسلامیہ سے مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھنے کی اپیل!


فلسطین اور غزہ پر اسرائیلی ظلم کے خلاف عالمی دباؤ اور امت مسلمہ کی بیداری وقت کا اہم تقاضا: محمد فرقان


بنگلور، 28؍ جولائی (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند موجودہ فلسطینی بحران، بالخصوص غزہ میں اسرائیلی جارحیت، خونریزی، انسانی حقوق کی پامالی، بچوں، عورتوں اور معصوم شہریوں کے قتل عام اور انسانیت سوز مظالم پر شدید رنج، غم اور اضطراب کا اظہار کرتا ہے۔ مرکز تحفظ اسلام ہند کے اراکین کی ایک اہم مشاورتی اجلاس میں مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے مسئلہ فلسطین پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نہتے فلسطینی عوام پر جاری اسرائیلی بمباری، محاصرہ، غذائی و طبی ناکہ بندی، اسپتالوں اور پناہ گاہوں پر حملے صرف ایک علاقائی مسئلہ نہیں بلکہ پوری انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑ دینے والا سانحہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ امر نہایت افسوسناک ہے کہ جب پوری دنیا کی آنکھوں کے سامنے ظلم ہو رہا ہے، تب 57؍ اسلامی ممالک کی خاموشی اور عالمی اداروں کی مجرمانہ بے حسی اس ظلم کی خاموش معاون بنتی جا رہی ہے۔ محمد فرقان نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین کو امت مسلمہ کے دلوں میں زندہ رکھا جائے۔ یہ محض وقتی جذباتی ردعمل کا نہیں، بلکہ ایک طویل المدت، مربوط، مسلسل، منظم اور مؤثر جدوجہد کا تقاضا ہے تاکہ یہ مسئلہ عالمی منظرنامے سے اوجھل نہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ مساجد، مدارس، جامعات، دینی اداروں، جلسے جلوس اور عوامی پلیٹ فارمز پر فلسطین سے متعلق بیداری مہمات کا آغاز کیا جانا چاہیے، جمعہ کے خطبات میں مظلوم فلسطینیوں کی تکالیف کو امت کے سامنے رکھا جائے، اور خاص طور پر سوشل میڈیا پر ایک عالمی کیمپین چلائی جائے جو عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ دے۔ اسی کے ساتھ رجوع الی اللہ، آیت کریمہ کا ورد اور دعائیہ مجلسوں کا اہتمام بھی کیا جانا چاہیے تاکہ روحانی سطح پر بھی نصرتِ الٰہی کی امید بندھی رہے۔

محمد فرقان نے کہا کہ مرکز تحفظ اسلام ہند اسلامی ممالک سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ مشترکہ مؤقف اختیار کریں اور اقوام متحدہ، او آئی سی اور دیگر بین الاقوامی اداروں پر مؤثر دباؤ ڈالیں تاکہ سفارتی، سیاسی، اقتصادی اور قانونی سطح پر اسرائیل کو روکا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ بیت المقدس صرف فلسطینیوں کا نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کا مرکز و محور ہے۔ قبلہ اول کے تحفظ، اس کی آزادی اور اس پر جاری حملوں کی مذمت ہر مسلمان کی دینی و ایمانی ذمہ داری ہے۔ اس کے فضائل، تاریخی حیثیت اور مرکزیت کو امت میں عام کیا جانا چاہیے تاکہ نوجوان نسل اپنے قبلہ اول سے جڑ سکے۔

انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ فلسطین کے مظلوموں کی حمایت صرف جذباتی نعرہ نہ بنے بلکہ امت اس مسئلہ کو دل سے اپنائے۔ علمی، فکری، تنظیمی اور عملی سطح پر اس کے لیے اقدامات کیے جائیں، دیگر دینی و ملی تنظیموں سے اشتراک عمل کیا جائے، مشترکہ موقف سامنے لایا جائے، عالمی میڈیا میں اسرائیل کے ظلم کو بے نقاب کیا جائے، سوشل میڈیا کو آوازِ مظلوم بنانے کا ذریعہ بنایا جائے، اور ہر ہر پلیٹ فارم سے اس مظلوم ملت کے ساتھ کھڑے ہونے کا عملی مظاہرہ کیا جائے۔

آخر میں مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی جانب سے امت مسلمہ سے دردمندانہ اپیل کی کہ فلسطینی عوام کی حمایت کو اپنی ذمہ داری سمجھا جائے، اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کو ایمان کا تقاضا جانا جائے، مظلوموں کی عملی امداد اور پشتیبانی کو اپنا فریضہ بنایا جائے، اور صرف دعاؤں پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ دعاؤں کے ساتھ ساتھ ظلم کو روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ مرکز تحفظ اسلام ہند ان شاء اللہ مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھنے، فلسطینی مظلومین کی حمایت اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے ہر ممکن پیش رفت کرتا رہے گا۔

قابل ذکر ہے کہ اس مشاورتی اجلاس میں مرکز کے سابقہ اور حالیہ کاموں کا جامع جائزہ لیا گیا، بالخصوص تحریک تحفظ ختم نبوت ؐ، تحریک دفاعِ صحابہؓ، وقف بچاؤ دستور بچاؤ تحریک، اور ارتداد ی و الحادی فتنوں خصوصاً ایکس کے فتنے کے سلسلے میں جاری مساعی پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ اسی کے ساتھ مرکز تحفظ اسلام ہند کے سالانہ مشاورتی اجلاس کے انعقاد کے حوالے سے اہم فیصلے بھی کیے گئے، جنہیں عملی جامہ پہنانے میں کے لیے تمام اراکین مرکز نے پختہ عزم و اتحاد کا اظہار کیا۔ اس موقع پر مرکز تحفظ اسلام ہند کے عہدیداران بالخصوص آرگنائزر حافظ محمد حیات خان، خازن قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی، اراکین تاسیسی مولانا محمد نظام الدین مظاہری، عمیر الدین، اراکین شوریٰ مولانا اسرار احمد قاسمی، مولانا سید ایوب قاسمی، مولانا محمود الرحمن قاسمی، حافظ سمیع اللہ، قاری محمد عمران، انعامدار خضر علی، دیگر اراکین مفتی مختار احمد قاسمی، مولانا اسعد بستوی، سید توصیف، شبیر احمد، شبلی محمد اجمعین، شیخ عدنان احمد، حفظ اللہ، محمد فرحان خان، محمد کیف، تبریز عالم، مولانا بلال احمد اور مختلف شعبہ جات کے کنوینرز اور دیگر ذمہ داران کی ایک بڑی تعداد اجلاس میں شریک رہی۔ اجلاس کا آغاز مولانا اسرار احمد قاسمی کی تلاوت سے ہوا،مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے اجلاس کی صدارت فرمائی اور دعا ئیہ کلمات پرمرکز تحفظ اسلام ہند کا یہ اہم آن لائن مشاورتی اجلاس اختتام پذیر ہوا۔


#Palestine | #Gaza | #Alquds | #Israel | #PressRelease | #MTIH | #TIMS

اسلامی نکاح پر اعتراضات کا علمی و عقلی تجزیہ!

 اسلامی نکاح پر اعتراضات کا علمی و عقلی تجزیہ! 

✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

اسلامی تعلیمات کی روشنی میں نکاح محض ایک سماجی معاہدہ نہیں بلکہ ایک مقدس بندھن، عبادت، فطرت کی تکمیل اور روحانی پاکیزگی کا ذریعہ ہے۔ یہ محض دو افراد کا ملاپ نہیں، بلکہ دو خاندانوں، دو نسلوں، اور دو دلوں کا باوقار، باہمی فہم و تعاون پر مبنی تعلق ہے۔ لیکن جدید دور میں جب عقل کو مذہب سے کاٹ دیا گیا، اور خواہشات کو آزادی کا لباس پہنا دیا گیا، تو بہت سے لوگ خصوصاً وہ جو الحاد یا مذہب بیزاری کی طرف مائل ہو گئے، اسلامی نکاح کے اصولوں پر اعتراضات کرنے لگے۔ ان میں بعض ایکس مسلم کہلائے جانے والے بھی ہیں، جو یا تو جذباتی یا فکری الجھن کا شکار ہوئے، یا مغربی پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر دین اسلام پر سوالات اٹھانے لگے۔ ان اعتراضات کا مقصد بظاہر بعض اوقات حق کی تلاش ہوتا ہے، تو بعض اوقات صرف مخالفت برائے مخالفت۔ لیکن اسلام سچائی کا دین ہے۔ یہ نہ اندھی تقلید سکھاتا ہے، نہ اندھا انکار۔ یہ دلیل، فطرت اور وحی کا حسین امتزاج ہے۔ اس لیے ہم ان اعتراضات کو سنجیدگی سے لیتے ہیں، اور ان کے جوابات بھی اسی سنجیدگی، محبت اور دلائل کے ساتھ دیتے ہیں۔


پہلا اعتراض جو اکثر کیا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ اسلام میں مرد کو عورت پر فوقیت دی گئی ہے، اور نکاح میں بھی مرد حاکم اور عورت محکوم ہے۔ حالانکہ یہ دعویٰ حقیقت سے کوسوں دور ہے۔ قرآن کہتا ہے: "وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ"* یعنی "عورتوں کے ساتھ حسن سلوک سے رہو۔" (النساء: 19)۔ اس ایک جملے میں اسلام کے خاندانی نظام کی بنیاد پوشیدہ ہے؛ حسن سلوک، محبت، مہربانی اور انصاف۔ اسلام نے مرد کو قوام ضرور بنایا، لیکن اس لیے نہیں کہ وہ عورت پر ظلم کرے، بلکہ اس لیے کہ وہ اس کی حفاظت، کفالت اور رہنمائی کرے۔ قوامیت، حاکمیت نہیں بلکہ خدمت کی ذمہ داری ہے، جیسا کہ ایک ملاح اپنے جہاز کو سنبھالتا ہے، نہ کہ اسے تباہ کرتا ہے۔


پھر سوال کیا جاتا ہے کہ اسلام میں مرد کو چار شادیاں کیوں جائز ہیں جبکہ عورت کو نہیں؟ اور یہ باور کرایا جاتا ہے کہ یہ غیر مساوات ہے، مگر درحقیقت یہ ایک فطری، سماجی اور نفسیاتی حکمت پر مبنی اصول ہے۔ مرد اور عورت کی حیاتیاتی ساخت (Biological Structure)، تولیدی صلاحیت (Fertility)، جذباتی مزاج (Emotional temperament)، اور سماجی کردار (Social Role) یکساں نہیں۔ ایک عورت صرف ایک وقت میں ایک ہی مرد سے حاملہ ہو سکتی ہے، اور بچہ پیدا ہونے کے بعد کئی ماہ و سال تک ماں کی شدید توجہ اور پرورش کا محتاج ہوتا ہے۔ اس دوران ماں کا تعلق اور ذمہ داری ایک شوہر اور بچے تک محدود ہوتی ہے۔ برخلاف اس کے، مرد کی تولیدی صلاحیت مسلسل جاری رہتی ہے، اور وہ بیک وقت کئی بیویوں اور بچوں کی کفالت کر سکتا ہے بشرطیکہ وہ عدل کرے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے چار شادیوں کی اجازت مشروط کی: "فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً" (النساء: 3) یعنی "اگر عدل نہ کر سکو تو ایک ہی پر اکتفا کرو۔" یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ معاشرے میں بیواؤں، مطلقہ خواتین، یا غیر شادی شدہ خواتین کی تعداد بعض اوقات مردوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے، خاص کر جنگوں، قدرتی آفات یا سماجی عوامل کے بعد۔ اس وقت تعددِ ازوجات ان خواتین کے لیے ایک باعزت زندگی کی ضمانت بن جاتا ہے۔ جس معاشرے نے اس کو رد کیا، وہاں یا تو خواتین "live-in relationships" کا شکار ہوئیں، یا بازاروں کی زینت بن گئیں۔


ایک اور اعتراض اکثر سننے کو ملتا ہے کہ اسلامی نکاح میں عورت کی مرضی کو ثانوی حیثیت دی گئی ہے، اور ولی کا کردار زبردستی مسلط کیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ ایک بنیادی غلط فہمی ہے۔ اسلام عورت کی مرضی کے بغیر نکاح کو باطل قرار دیتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "بیوہ عورت کی شادی بغیر اس کی اجازت کے نہ کی جائے، اور کنواری سے اجازت لی جائے، اور اس کی خاموشی (انکار نہ کرے) اس کی اجازت ہے۔" (صحیح مسلم)۔ ولی کا کردار عورت کی حفاظت کے لیے ہے، نہ کہ اس کی آزادی کو سلب کرنے کے لیے۔ ولی اس وقت تک مداخلت کرتا ہے جب لڑکی کوئی غیر معقول فیصلہ کرے، یا جذبات میں آکر اپنے یا خاندان کے لیے نقصان دہ قدم اٹھائے۔ عقلی اعتبار سے بھی دیکھیں تو شادی جیسا اہم فیصلہ جس کا اثر پوری زندگی، نسل اور معاشرت پر پڑتا ہے، محض ایک فرد کا ذاتی فیصلہ نہیں ہو سکتا، خاص کر جب وہ فرد تجربے یا فہم سے عاری ہو۔ ایک بالغ، باشعور لڑکی جسے زندگی کا تجربہ ہے، اگر وہ خود فیصلہ کرے تو شریعت اس پر سختی نہیں کرتی، بلکہ اس کے ولی کو اس کی رائے کا احترام لازم ہے۔


کچھ لوگ اسلامی مہر پر بھی اعتراض کرتے ہیں، کہ یہ گویا عورت کی قیمت ہے۔ لیکن دراصل مہر عورت کا "حق" ہے، قیمت نہیں۔ قیمت وہ ہوتی ہے جو مالک کو ملتی ہے، جبکہ مہر عورت خود وصول کرتی ہے، یہ اس کے احترام، تحفظ، اور اس رشتے کی سنجیدگی کا نشان ہے۔ قرآن نے فرمایا: "وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً" یعنی "عورتوں کو ان کا مہر خوش دلی سے ادا کرو۔" (سورۃ النساء: 4)۔ حیرت کی بات ہے کہ جو لوگ تحفے تحائف، ڈیٹ، رِنگ، اور سفر پر لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں، وہ نکاح کے وقت مہر پر سوال اٹھاتے ہیں، حالانکہ مہر عورت کی مالی آزادی اور خودمختاری کی علامت ہے۔


اسی طرح بعض افراد کو یہ اعتراض ہوتا ہے کہ طلاق کا اختیار مرد کو ہے، عورت کو نہیں۔ حالانکہ اسلام میں عورت کو بھی مکمل حق دیا گیا ہے؛ خلع، عدالتی فسخ اور اس کے کئی طریقے موجود ہیں۔ مرد کو طلاق کا حق فوری طور پر اس لیے دیا گیا کہ وہ مالی و قانونی ذمہ دار ہے، اور اسے خاندان کے استحکام کو ذہن میں رکھنا ہوتا ہے۔ عورت کے لیے بھی شرعی عدالت کا دروازہ کھلا ہے، تاکہ وہ بغیر عدل و فکر کے محض جذبات میں آکر نکاح نہ توڑے۔ اسلام کی نظر میں طلاق اگرچہ ایک ناگوار اور ناپسندیدہ عمل ہے، لیکن اگر صلح و صفائی کے تمام طریقے ناکام ہو جائیں اور زوجین کے درمیان اعتماد ختم ہو جائے، تو نکاح کو زبردستی برقرار رکھنا ظلم بن جاتا ہے۔ ایسی صورت میں زندگی تنگی، نفرت اور گناہوں کا باعث بن سکتی ہے۔ اسلام میں طلاق ناپسندیدہ ضرور ہے، لیکن مجبوری کی حالت میں اسے جائز قرار دیا گیا ہے تاکہ میاں بیوی سکون کے ساتھ اپنی راہ جدا کر سکیں۔ ایسے حالات میں طلاق ایک رحمت پر مبنی شریعت کا حل ہے، جس سے دونوں کو نئی زندگی شروع کرنے کا موقع ملتا ہے۔


بعض لوگ نکاح میں عمر کی کوئی حد نہ ہونے پر اعتراض کرتے ہیں، اور اسلام پر الزام لگاتے ہیں کہ اس نے بچپن میں شادی کی اجازت دے کر بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی کی ہے، حالانکہ یہ اعتراض دراصل اسلامی نکاح کے صحیح مفہوم سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔ اسلام میں نکاح کو صرف ایک ابتدائی معاہدہ (Contract) تصور کیا گیا ہے، نہ کہ فوراً ازدواجی زندگی کا آغاز۔ اگر کسی کم عمر بچے یا بچی کا نکاح کر بھی دیا جائے تو اس کے عملی تقاضے، جیسے جسمانی تعلق، صرف اس وقت جائز اور نافذ ہوتے ہیں جب وہ بلوغت کو پہنچ کر ذہنی طور پر سمجھدار ہو جائے اور ازدواجی زندگی کی ذمہ داریاں اٹھانے کے قابل ہو۔ یہ اصول دراصل بچوں کے تحفظ اور ان کی فلاح کا ضامن ہے، کیونکہ اسلام کسی پر ایسی ذمہ داری نہیں ڈالتا جو وہ سمجھ اور جسمانی طور پر اٹھانے کے لائق نہ ہو۔ اس طرح اسلامی تعلیمات بچوں کے حقوق کی حفاظت اور ان کی جسمانی و ذہنی صحت کے احترام پر مبنی ہیں، نہ کہ ان کی خلاف ورزی پر۔ دوسری طرف، دنیا بھر کے سیکولر قوانین میں بھی "کم عمری کی شادی" کی تعریف متغیر ہے۔ امریکہ کی کئی ریاستوں میں آج بھی 14–16 سال کی عمر میں والدین کی رضامندی یا عدالتی اجازت کے ساتھ شادی ممکن ہے۔ سچ یہ ہے کہ مسئلہ عمر کا نہیں بلکہ شعور، رضامندی، اور فطرت کی تکمیل کا ہے۔ اسلامی قانون نے انہی اصولوں کو بنیاد بنایا۔ اگر کوئی بالغ، سمجھدار لڑکی خود یا والدین کی رضامندی سے نکاح کرے تو اس پر اعتراض صرف اس لیے کرنا کہ وہ "کم عمر" ہے، ایک تہذیبی تعصب ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کے دور میں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ہزاروں کم سن لڑکے اور لڑکیاں "Boyfriend" اور "Girlfriend" کے نام پر بے حیائی میں مبتلا ہیں، ناجائز تعلقات عام ہیں، اور معاشرہ خاموش تماشائی بنا ہوا ہے، کسی کو اس پر اعتراض نہیں ہوتا۔ لیکن جب اسلام ایک پاکیزہ، ذمہ دار اور باقاعدہ نکاح جیسے مقدس رشتے کے ذریعے زندگی کو نظم و اخلاق کا پابند بناتا ہے، تو اسی پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نکاح انسان کی فطری ضرورت کو عزت، تحفظ، اور شریعت کے دائرے میں پورا کرنے کا ذریعہ ہے، جب کہ آزاد تعلقات معاشرتی بگاڑ، ذہنی تناؤ اور اخلاقی زوال کا سبب بنتے ہیں۔ اسلام کی تعلیمات زندگی کو باحیا اور متوازن رکھنے کے لیے ہیں، نہ کہ کسی کی آزادی کو سلب کرنے کے لیے۔



ایک اور اعتراض یہ ہے کہ نکاح عورت کی آزادی کو محدود کرتا ہے، اسے گھر، شوہر اور بچوں کے دائرے میں قید کر دیتا ہے۔ اس اعتراض کا جواب بہت واضح ہے: جو شخص آزادی کو صرف جسمانی خواہش، بے لگام تعلقات، اور خاندانی ذمہ داری سے انکار کے طور پر سمجھتا ہے، وہ کبھی نکاح کی حکمت کو نہیں سمجھ سکتا۔ اسلام میں نکاح دونوں کے لیے سکون، اطمینان، محبت اور تعاون کا ذریعہ ہے: "وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً" (سورہ الروم: 21)۔ عورت نکاح میں قید نہیں ہوتی، بلکہ وہ تسلیم شدہ، محفوظ، محبت سے بھرپور تعلق میں شامل ہوتی ہے، جہاں اس کے حقوق اور اس کی عزت کی ضمانت دی جاتی ہے۔ اس کے برخلاف جو مغربی معاشرے نے “freedom” کے نام پر "Live-in relationships" اور casual تعلقات کو فروغ دیا، وہاں نہ صرف عورت بلکہ بچے بھی قانونی تحفظ سے محروم ہو گئے۔ سائنسی مطالعات (جیسے CDC USA، Pew Research) بتاتے ہیں کہ live-in تعلقات میں طلاق کی شرح، domestic violence، اور بچوں میں ذہنی پریشانی کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ نکاح ایک قانونی، روحانی اور سماجی معاہدہ ہے، جو نہ صرف جسموں کو، بلکہ دلوں اور خاندانوں کو جوڑتا ہے۔


کچھ لوگ کہتے ہیں کہ نکاح ایک “پرانی روایتی چیز” ہے، جو آج کے جدید، ترقی یافتہ معاشرے کے لیے موزوں نہیں۔ یہ اعتراض بھی دراصل “زمانہ پرستی” (chronological snobbery) کا شکار ہے؛ یعنی ہر نئی چیز اچھی اور ہر پرانی چیز دقیانوسی! لیکن تاریخ شاہد ہے کہ جن معاشروں نے نکاح کو کمزور کیا، وہاں خاندان ٹوٹ گئے، جنسی تعلقات بے اصول ہو گئے، بچے والدین کے بغیر یا سنگل والدین کے ساتھ محرومی میں پلنے لگے، اور خود عورت سب سے زیادہ استحصال کا شکار بنی، خواہ وہ جسم فروشی کی صنعت ہو، یا ورک پلیس پر ہراسانی، یا اکیلی ماں بننے کا درد۔ اس کے برخلاف اسلام نے عورت کو ماں، بیوی، بیٹی، بہن کے ہر روپ میں تحفظ دیا، اور نکاح کو اس تحفظ، عزت، محبت اور سکون کی ضمانت بنایا۔ اسلام نکاح کو شہوت کی تسکین کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک مقدس عبادت قرار دیتا ہے۔ وہ اسے نسلِ انسانی کی بقا، مرد و عورت کی روحانی و جذباتی تکمیل، اور ایک صالح معاشرے کی بنیاد کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اگر اسلام میں بعض حدود مقرر کی گئی ہیں، جیسے مہر، عدل، قوامیت، خلع، طلاق یا تعددِ ازوجات، تو یہ سب انسان کی فطرت، معاشرتی تقاضوں اور انسانی کمزوریوں کو سامنے رکھ کر دی گئی ہیں۔ ان حدود کا مقصد مرد کو برتری دینا نہیں، بلکہ دونوں کے لیے توازن، حفاظت، سکون اور باہمی تعاون فراہم کرنا ہے۔


یہاں ایک اور اہم بات واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ اعتراض کرنے والوں میں بعض sincere اور سوالات کے ذریعے سچ کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ ان کے لیے دعوتِ فکر کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہنا چاہیے۔ ہمیں سختی، طنز یا نفرت کے بجائے محبت، دلائل اور حکمت سے بات کرنی چاہیے، کیونکہ قرآن خود کہتا ہے: "ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ" (النحل: 125) یعنی "اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت سے بلاؤ۔" اگر کوئی شخص اسلام میں نکاح کے اصولوں کو "پسماندہ" یا "ظالمانہ" سمجھتا ہے تو اسے دعوت ہے کہ وہ صرف اعتراض نہ کرے، بلکہ قرآن، سنت، اور فطری عقل کے ساتھ اس نظام کو سمجھے، اس کی حکمت کو دیکھے، اس کے نتائج کو دوسروں نظاموں سے تقابل کرے۔ ان شاء اللہ، جس دل میں انصاف کی طلب ہوگی، وہ دل اس نظام کے حسن کے آگے جھک جائے گا۔ ہم سب کی یہ ذمہ داری ہے کہ ہم اسلام کے خاندانی نظام کو صرف زبانی نہ بیان کریں، بلکہ خود اپنی زندگیوں میں نکاح کو واقعی محبت، سکون، حسنِ سلوک، عدل، اور وفاداری کا نمونہ بنائیں۔ تب ہی ہم سچائی کے علمبردار بن کر دنیا کو دکھا سکیں گے کہ اسلام نہ صرف عبادت، عقیدہ اور روحانیت کا دین ہے، بلکہ انسانی تعلقات، ازدواجی زندگی، اور معاشرتی استحکام کا بھی کامل نظام ہے۔


فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

03؍ جولائی 2025ء بروز جمعرات


+91 8495087865

mdfurqan7865@gmail.com


#Nikah #Marriage #IslamicNikah #IslamicMarriage #PaighameFurqan #MTIH #TIMS

Saturday, 26 July 2025

اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ، غیرتِ ایمانی کا امتحان ہے!

 اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ : غیرتِ ایمانی کا امتحان ہے! 

✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند) 

یقیناً کچھ لمحے ایسے آتے ہیں جب انسانیت چیخ اُٹھتی ہے، جب ضمیر دہاڑتا ہے، جب دل کے اندر ایسی آگ بھڑکتی ہے کہ لفظ اس کا ساتھ دینے سے عاجز ہوجاتے ہیں۔ فلسطین کی سرزمین پر، غزہ کی گلیوں میں، بیت المقدس کے سائے میں، ایک سال سے بھی زائد عرصہ سے جو کچھ ہورہا ہے، وہ صرف قتل و غارت گری نہیں، وہ انسانیت کی توہین، بچوں کی آہیں، ماؤں کی سسکیاں، اور بے گھر لوگوں کی تڑپ ہے۔ وہ لاشیں نہیں جو زمین پر گری ہوئی ہیں، وہ جیتی جاگتی زندگیاں تھیں، خواب تھیں، خواہشیں تھیں، اور ہمارے جیسے انسان تھے جنہیں صہیونی درندوں نے بموں، میزائلوں اور گولیوں سے روند ڈالا۔ فلسطین میں مرنے والوں کی تعداد اب دو لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے، جن میں زیادہ تر معصوم بچے، کمزور خواتین اور نہتے بزرگ شامل ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں لاشیں اٹھتی ہیں، گھروں کے ملبے سے بچوں کی لاشیں نکالی جاتی ہیں، ماں کی گود سے اس کا لعل چھین لیا جاتا ہے، اور ایک نسل کو صفحہئ ہستی سے مٹانے کی منظم کوشش کی جارہی ہے۔


یہ کوئی وقتی جنگ نہیں، یہ دہائیوں پر محیط ظلم و ستم کا تسلسل ہے، جس کی منصوبہ بندی صہیونی دماغوں نے کی ہے اور جس کو انجام تک پہنچانے کیلئے امریکہ جیسے سامراجی طاقتوں نے اپنے اسلحے، پیسوں اور اقوام متحدہ جیسے اداروں کی بے حسی کے ساتھ تعاون دیا ہے۔ اسرائیل کی جارحیت اب صرف غزہ، رفح اور نابلس تک محدود نہیں رہی، بلکہ اس کا ہدف پورے عالم اسلام کو کمزور کرنا، مسلمانوں کی غیرت کو مار ڈالنا اور اسلامی شعور کو مٹا دینا ہے۔ جب امریکہ اسرائیل کے حق میں کھڑے ہوکر اسلحہ فراہم کرتا ہے، جب یورپی ممالک انسانی حقوق کا نعرہ لگاتے ہوئے فلسطینی بچوں کے قتل پر خاموش رہتے ہیں، جب اقوام متحدہ صرف قراردادیں منظور کرکے اپنی جان چھڑاتا ہے، تو ایسی دنیا میں مظلوموں کی آخری امید خود امت مسلمہ کے افراد ہوتے ہیں۔


ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم بے بس ہیں؟ کیا ہم کچھ نہیں کر سکتے؟ کیا ہمارے ہاتھوں میں کوئی طاقت نہیں؟ نہیں! ہم بے بس نہیں، ہمارے پاس ایک طاقت ہے، ایک ایسا ہتھیار جو دشمن کی بنیادیں ہلا سکتا ہے، اور وہ ہے ”بائیکاٹ“! ہاں، ان کمپنیوں کا مکمل بائیکاٹ جو اسرائیل کی پشت پناہی کرتی ہیں، جو صہیونی فوج کو مالی مدد فراہم کرتی ہیں، جو اپنے منافع سے فلسطینی بچوں کی قبریں کھودتی ہیں، اور جو ہمارے پیسوں سے ہمیں ہی مارنے کیلئے اسرائیلی اسلحہ ساز کمپنیوں کو سرمایہ فراہم کرتی ہیں۔ہم جو جب کسی سوپرمارکیٹ میں خریداری کرتے ہیں، جب کسی فاسٹ فوڈ چین میں کھانا کھاتے ہیں، جب کسی مشروب کو پیاس بجھانے کیلئے حلق سے نیچے اتارتے ہیں، ہم نہیں جانتے کہ ہم دراصل کن ہاتھوں کو پیسہ دے رہے ہیں۔ ہمیں یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہی کمپنیاں جیسے Coca-Cola, Pepsi, Nestlé, McDonald's, Starbucks, Domino's, KFC, Maggi اور Unilever وغیرہ جیسی کمپنیاں اسرائیل کو نہ صرف معاشی سہارا دے رہی ہیں بلکہ کئی مرتبہ صہیونی فوج کو براہ راست امداد فراہم کرتی ہیں۔ تحقیقی رپورٹس کے مطابق ان کمپنیوں کا بڑا سرمایہ اسرائیلی مارکیٹ میں گردش کرتا ہے، اور ان کے منافع کا حصہ ان تنظیموں کو جاتا ہے جو فلسطین میں نسل کشی کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔


ابھی 2023ء کے اختتام پر شائع ہونے والی AFSC کی ایک تحقیق میں انکشاف کیا گیا کہ امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو ملنے والی سالانہ 3.8 بلین ڈالر کی امداد کے علاوہ بڑی کارپوریٹ کمپنیاں بھی کروڑوں ڈالرز کی رقم براہ راست یا بالواسطہ صہیونی اداروں کو دیتی ہیں۔ ایسی کمپنیوں میں سب سے نمایاں Starbucks ہے، جس کی انتظامیہ نے اسرائیل کی کھل کر حمایت کی اور فلسطین کی حمایت میں بولنے والے اپنے ملازمین کو نوکری سے برخاست کیا۔ McDonald'sنے اسرائیلی فوجیوں کو مفت کھانا فراہم کیا۔ HP اور Intel جیسی ٹیکنالوجی کمپنیاں اسرائیلی سیکیورٹی سسٹم کی تیاری میں براہ راست شریک ہیں۔ Coca-Cola کا مرکزی پلانٹ اسرائیل کے مقبوضہ علاقوں میں واقع ہے اور اس کا CEO کھل کر صہیونی عزائم کی حمایت کرتا ہے۔


فلسطین سالیڈیریٹی کیمپین اور BDS موومنٹ کی تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ اگر پوری دنیا کے مسلمان ان کمپنیوں کا صرف 20 فیصد بائیکاٹ کریں، تو ان کا سالانہ نقصان 30 بلین ڈالر سے زائد ہوسکتا ہے۔ جب کوئی کمپنی یا ادارہ صہیونی ریاست اسرائیل کی مالی مدد کر رہا ہو، اور اس کی مصنوعات کی خریداری سے ظالم کو تقویت ملتی ہو، تو ایسی صورت میں ان مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا صرف جذباتی ردعمل نہیں بلکہ شرعی ذمہ داری بن جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں صاف فرمایا: ”وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَی الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ“ (سورۃ المائدہ: 2) کہ ”گناہ اور زیادتی (ظلم) کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔“ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اپنے بھائی کی مدد کرو، خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔“عرض کیا گیا: مظلوم کی تو مدد سمجھ آتی ہے، مگر ظالم کی کیسے؟ فرمایا: ”اسے ظلم سے روک کر“ (صحیح بخاری: 2444)۔ اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ دراصل ظالم کو ظلم سے روکنے کا عملی قدم ہے۔ اور اگر کوئی کمپنی کسی ایسی ریاست یا فوج کی مالی معاونت کرتی ہو جو مسلمانوں پر ظلم کر رہی ہو، تو اس کے بائیکاٹ کا مطالبہ نہ صرف شرعاً درست بلکہ واجب کے قریب ہے۔ لہٰذا، اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ صرف ایک اخلاقی اقدام نہیں بلکہ ایک شرعی فریضہ ہے، جو ہر غیرت مند مسلمان پر لازم ہے۔ Bloomberg اور Reuters کی رپورٹس کے مطابق صرف عرب ممالک میں 2023 ء میں ہونے والے جزوی بائیکاٹ کی وجہ سے McDonald'sکو ایک چوتھائی خسارہ ہوا اور Middle East Eye کے رپورٹ کے مطابق کئی ممالک میں ان کے آؤٹ لیٹس بند کرنے پڑے۔ اسی طرح Coca-Cola کو خلیجی ممالک میں اپنی برانڈ ویلیو کھونا پڑی۔ اگر یہی بائیکاٹ مکمل اور منظم ہو، تو ان کمپنیوں کے مالی مفادات کو کاری ضرب لگائی جاسکتی ہے، اور اسرائیل کو عالمی سطح پر تنہائی کی طرف دھکیلا جاسکتا ہے۔


ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ کیا ایک مشروب ہماری غیرت سے زیادہ قیمتی ہے؟ کیا ایک برگر یا چکن پیس اتنا اہم ہے کہ اس کے بدلے ہم کسی فلسطینی بچے کی لاش کا سودا کرلیں؟ جب ہم Starbucks کی کافی پیتے ہیں تو کیا ہمیں وہ تصویر یاد آتی ہے جس میں ایک بچہ اپنی ماں کی لاش سے لپٹا ہوا تھا؟ جب ہم Nestlé کے چاکلیٹ کھاتے ہیں تو کیا ہم بھول جاتے ہیں کہ غزہ میں مائیں اپنے بچوں کو نمک ملا پانی پلا کر سلانے پر مجبور ہیں؟ یہ بائیکاٹ صرف معاشی اقدام نہیں، یہ ضمیر کی پکار ہے، یہ ایمان کی صداقت ہے، یہ مظلوموں کے ساتھ ہمارے ربط کا ثبوت ہے۔


آج سوشل میڈیا پر کئی ایسی رپورٹس گردش کر رہی ہیں جو ثابت کرتی ہیں کہ اسرائیلی مصنوعات کے خلاف بائیکاٹ نے اسرائیلی معیشت کو دھچکا پہنچایا ہے۔ الجزیرہ کے ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل میں 2024ء کے دوران گھریلو مصنوعات کی فروخت میں 17 فیصد کمی آئی اور براہ راست سرمایہ کاری میں 23 فیصد کمی دیکھی گئی۔ یہ محض اعداد و شمار نہیں، بلکہ ان بچوں کی دعائیں ہیں جن کے ماں باپ کو زندہ جلایا گیا، یہ ان ماؤں کی آہیں ہیں جو اپنے بچوں کی لاشیں اٹھا اٹھا کر تھک چکی ہیں۔ جب ہم ان مصنوعات کا بائیکاٹ کرتے ہیں، تو ہم ظالم کو براہ راست پیغام دیتے ہیں کہ ہم خاموش تماشائی نہیں، بلکہ امت کا زندہ ضمیر ہیں۔اسلامی شریعت بھی ہمیں یہی حکم دیتی ہے کہ ظالم کے خلاف آواز بلند کی جائے، اور اگر قوت نہ ہو تو کم از کم دل میں نفرت اور معاشی بائیکاٹ کے ذریعے اس کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا جائے۔ اگرہمارے ذریعہ ظالم حکمران کی مدد مالی طور ہورہی ہوتوگویا یہ ظلم میں شرکت مترادف ہے۔ تو جو کمپنی ظلم کی پشت پناہی کرے، اس کی مصنوعات خریدنا کیا ہے؟ کیا یہ ظلم میں حصہ داری نہیں؟


یہ صرف انفرادی عمل نہیں ہونا چاہیے، بلکہ ادارہ جاتی سطح پر بھی اس کو منظم کیا جانا چاہیے، اور الحمدللہ، مرکز تحفظ اسلام ہند نے اس حوالے سے ایک بڑی خدمت انجام دی ہے۔ ایک تین ماہ کی تفصیلی تحقیق کے بعد ایک ایسی فہرست مرتب کی گئی ہے جس میں ان تمام مصنوعات کا احاطہ کیا گیا ہے جو اسرائیل یا اس کے معاونین سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ فہرست نہ صرف درست اور مستند ہے بلکہ اس میں ہر پراڈکٹ کے پیچھے موجود کمپنی اور اس کا اسرائیل سے تعلق بھی تحقیق کے ساتھ درج ہے۔ مرکز تحفظ اسلام ہند نے یہ فہرست ملک بھر کی تنظیموں، اداروں اور عوام الناس تک پہنچانے کی کوشش کی ہے تاکہ لوگ بیدار ہوں اور اس تحریک کا حصہ بنیں۔ یہ وقت غیرتِ ایمانی کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم اسرائیلی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں۔ یہ محض ایک مہم نہیں، یہ ضمیر کا فیصلہ، دل کی پکار، اور ایمان کا امتحان ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کون اس آزمائش میں سرخرو ہوتا ہے اور کون رسوا۔ ہم یا تو ظلم کے خلاف کھڑے ہو سکتے ہیں، یا اپنی بے حسی سے قاتلوں کے معاون بن سکتے ہیں۔ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔


اب وقت آچکا ہے کہ ہم دو ٹوک فیصلہ کریں۔ یا تو ہم فلسطین کے ان بچوں کا ساتھ دیں جو ہر روز شہید ہو رہے ہیں، یا ان کمپنیوں کا جو ان کے قاتلوں کو طاقت فراہم کر رہی ہیں۔ ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم کس کے ساتھ ہیں؛ مظلوموں کے یا ظالموں کے؟ اگر ہم واقعی ایمان رکھتے ہیں، اگر ہماری غیرت ابھی زندہ ہے، اگر ہمارے دل میں امت کا درد ہے، تو ہمیں آج سے، اسی لمحے سے ان تمام اسرائیلی اور ان کے مددگار کمپنیوں کے مصنوعات کا مکمل، غیر مشروط، اٹل بائیکاٹ کرنا ہوگا۔ یہ صرف بائیکاٹ نہیں ہوگا، بلکہ مظلوم فلسطینیوں کے زخموں پر مرہم ہوگا، اور ظالم اسرائیل کے وجود پر ضربِ کاری۔


ابھی نہیں تو کب؟ ہم نہیں تو کون؟ خدارا اٹھو! خریدو نہیں، جھاڑ دو ان پراڈکٹس کو، نکال دو انہیں اپنے گھروں سے، دکانوں سے، دلوں سے۔ کیونکہ جب آخرت میں ہم سے پوچھا جائے گا کہ تم نے کیا کیا تھا؟ تو ہم کم از کم یہ تو کہہ سکیں گے: اے اللہ! ہم نے ظالم کا ساتھ نہیں دیا، ہم نے مظلوم کا ساتھ دیا، ہم نے ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا تھا۔


فقط والسلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

26؍ جولائی 2025ء بروز سنیچر 


+91 8495087865

mdfurqan7865@gmail.com


#BoycottIsraelProducts | #IsraelProducts | #Palestine | #Gaza | #IndianMuslims | #MTIH | #TIMS | #PaighameFurqan

Thursday, 24 July 2025

”بس جرم ہے اتنا کہ مسلمان ہیں ہم لوگ!“

 ”بس جرم ہے اتنا کہ مسلمان ہیں ہم لوگ!“

(11/7 ممبئی لوکل ٹرین بم دھماکہ : 12؍ مسلم نوجوان 19؍ سال بعد باعزت بری) 

”انصاف“ کے نام پر انیس سال کی سزا“..!

✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)



انیس برس کے طویل اندھیرے کے بعد بالآخر وہ روشنی جھلکی جس کی امید وقتاً فوقتاً دم توڑتی رہی۔ بامبے ہائی کورٹ نے 7/11 ممبئی لوکل ٹرین بم دھماکہ کیس میں دہشت گردی کے الزام میں قید بارہ مسلم نوجوانوں کو باعزت بری کر دیا۔ عدالت نے نہ صرف مکوکا عدالت کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دیا، بلکہ ان کے خلاف دیے گئے اقبالیہ بیانات اور تمام سرکاری گواہیوں کو بھی ناقابل قبول مانا۔ یہ فیصلہ اگرچہ عدالتی نظام میں آئینی انصاف کی ایک روشن مثال بن کر سامنے آیا، مگر اس کی چمک میں ان انیس برسوں کا وہ ظلم چھپا نہیں جا سکتا جو ان نوجوانوں نے جیل کی کال کوٹھریوں میں جھیلا۔ انصاف آیا، مگر ایک ایسے وقت جب زندگی کا سب کچھ بکھر چکا تھا۔


07؍ جولائی 2006ء کی شام ممبئی کی لوکل ٹرینیں موت کا کارواں بن گئی تھیں۔ یکے بعد دیگرے ہونے والے دھماکوں نے شہر کی روح کو لرزا دیا، ایک 189 جانیں چھن گئیں، سینکڑوں افراد زخمی ہوئے، اور ہر جانب چیخ و پکار کا عالم برپا ہو گیا۔ حکومت پر سوالات کی بارش شروع ہوئی، اور دباؤ میں آ کر جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا، وہ وہی تھے جو سب سے زیادہ بے بس تھے؛ مسلم نوجوان، 

یہ وہ نوجوان تھے جنہیں دہشت گردی کے الزامات میں صرف ان کے مذہب کی بنیاد پر گھسیٹا گیا۔ نہ کوئی پختہ ثبوت، نہ کوئی گواہ، نہ کوئی فارنسک بنیاد، صرف مذہب اور نام کی بنیاد پر انہیں اٹھا لیا گیا۔ تفتیشی اداروں نے ان سے جھوٹے اقبالیہ بیانات حاصل کیے، میڈیا نے انہیں مجرم ٹھہرا دیا، اور عوام کے ذہنوں میں نفرت کے بیج بو دیے گئے۔ برسوں تک یہ نوجوان جیل میں سڑتے رہے، ایک ایک دن ان پر قیامت بن کر گزرتا رہا، اور سچائی پر پردے ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی رہی۔


آخرکار 2025ء میں بامبے ہائی کورٹ نے اپنے تفصیلی فیصلے میں کہا کہ ان نوجوانوں کے خلاف کوئی قابل قبول ثبوت موجود نہیں، سرکاری گواہیاں مشتبہ اور اقبالیہ بیانات غیر قانونی ہیں، اور پوری تفتیشی کہانی محض مفروضوں پر مبنی تھی۔ یہ فیصلہ اگرچہ ان افراد کو آزادی دے گیا، مگر قوم کے ضمیر پر ایک ایسا دھبہ لگا گیا جو شاید کبھی مٹ نہ سکے۔ سوال یہ نہیں کہ ان ملزمین کو رہا کر دیا گیا، سوال یہ ہے کہ ان کی جوانی کیوں چھین لی گئی؟ ان کے خاندانوں کو کیوں برباد کیا گیا؟ اور کیوں انصاف کو انیس برس لگ گئے؟ کیا یہ فیصلہ انصاف کہلائے گا یا ایک ایسے سسٹم پر فردِ جرم ہے، جو جرم سے زیادہ کسی کی مذہبی شناخت کو مجرم بنانے پر آمادہ ہے؟


ان بے قصور نوجوانوں کی زندگیاں تباہ ہوگئیں۔ ان میں سے کئی کی شادیوں کے رشتے ٹوٹ گئے تو کئی کی شادیاں ہی ختم ہو گئیں، کئی کے ماں باپ انصاف کی آس میں دنیا سے رخصت ہو گئے، کئی کے بچے باپ ہونے کے باوجود یتیمی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے اور کئی نے جیل کی سلاخوں کے پیچھے اپنی جوانی، خواب، عزت، وقت اور مستقبل سب کچھ گنوا دیا۔ یہ سب وہ سزائیں تھیں جو عدالت سے پہلے سنائی جا چکی تھیں۔انہیں صرف مجرم بنا کر جیل میں نہیں ڈالا گیا بلکہ ان کے گھروں کو برباد کیا گیا، ان کی نسلوں کا مستقبل تاریک کر دیا گیا اور ان کی شناخت کو داغدار کیا گیا۔ اور سب کچھ صرف اس لیے کیونکہ وہ مسلمان تھے۔ 


حکومتیں بدلتی رہیں، وزرائے داخلہ، وزرائے قانون آتے جاتے رہے، لیکن ان بے قصور نوجوانوں کی فائلیں عدالت کی کسی دھول بھری الماری میں پڑی رہیں۔ اس دوران کئی مجرم آزاد گھومتے رہے، کئی اصل سازشی عناصر سیاسی پناہ لیتے رہے، اور کچھ کو "قومی ہیرو" کے طور پر پیش کیا جاتا رہا۔ یہ معاملہ محض چند افراد کی زندگی کا نہیں، یہ پورے ملک کے نظامِ انصاف، پولیس، تحقیقاتی ایجنسیوں، میڈیا اور حکومتوں کی اجتماعی ناکامی اور مجرمانہ غفلت کی علامت ہے۔ جب بامبے ہائی کورٹ نے کہا کہ ان کے خلاف نہ کوئی ثبوت ہے، نہ کوئی چشم دید گواہ، نہ کوئی سائنسی یا فارنسک معاونت، تب پوری قوم کو یہ سوچنے پر مجبور ہونا پڑا کہ اگر کچھ بھی نہیں تھا تو انہیں 19؍ سال تک کیوں قید رکھا گیا؟ اس کا سیدھا سا جواب ہے: کیونکہ وہ مسلمان تھے۔ ایک بار پھر ریاست نے مسلمانوں کے ساتھ وہی سلوک کیا جو پہلے بھی کیا جاتا رہا ہے؛ نہ کوئی گارنٹی، نہ کوئی تحفظ، نہ کوئی رعایت، اور نہ کوئی معذرت۔


اس پورے اندھیرے میں ایک چراغ وہ تنظیم تھی جسے جمعیۃ علماء ہند کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ وہ ادارہ ہے جس نے قانونی محاذ پر ان نوجوانوں کی پیروی کی، ان کے خاندانوں کو سہارا دیا، بہترین وکلاء کا انتظام کیا، عدالتی اخراجات برداشت کیے، اور ہر محاذ پر ان کے ساتھ کھڑا رہا۔ اگر جمعیۃ نہ ہوتی تو شاید یہ فیصلہ کبھی نہ آتا۔ مولانا ارشد مدنی کی قیادت میں جمعیۃ نے برسوں اس کیس کو زندہ رکھا، قانونی ٹیم بنائی، دلائل پیش کیے، جھوٹ کو بے نقاب کیا اور بالآخر ان معصوموں کو رہائی دلوائی۔ یہ کام صرف ایک ادارے کا نہیں بلکہ پوری ملت کا تھا، لیکن افسوس کہ پوری ملت نے خاموشی اختیار کی، اور صرف جمعیۃ نے اپنا فرض نبھایا۔


یہ پہلا واقعہ اور ایک دو ناموں پر محدود نہیں۔ ہمیں مفتی عبد القیوم قاسمی کا کیس یاد ہے، جنہیں اکشردھام حملے میں جھوٹے طور پر پھنسا کر گیارہ سال تک اذیت دی گئی۔ ہمیں وہ ہزاروں مسلم نوجوان یاد ہیں جنہیں ٹاڈا، پوٹا اور مکوکا جیسے کالے قوانین کے تحت گرفتار کیا گیا، برسوں قید رکھا گیا، اور آخرکار عدالتوں نے انہیں باعزت بری کیا۔ ہمیں مولانا انظر شاہ قاسمی جیسے علماء یاد ہیں جنہیں بغیر کسی جرم کے میڈیا نے دہشت گرد بنا کر پیش کیا، لیکن آخر میں عدالت نے انہیں بے قصور مانا۔ ہمیں کشمیر کے وہ پانچ نوجوان یاد ہیں جو 23 سال بعد باعزت بری ہوئے تھے، ان کے ماں باپ قبروں میں جا چکے تھے، ان کی جوانی قبرستان بن چکی تھی، اور ان کی واپسی پر صرف آنسو، سناٹا اور سوال باقی رہ گئے تھے۔  یہ فہرست طویل ہے کشمیر سے کنیاکماری تک، گجرات سے مغربی بنگال تک، یہ قصے ہر جگہ دہرائے جا رہے ہیں۔ ہر علاقے سے ایسے ہزاروں کیسز سامنے آتے ہیں جہاں مسلمان نوجوانوں کو صرف ان کی شناخت کی بنیاد پر نشانہ بنایا گیا۔ آج بھی ملک کی مختلف جیلوں میں ہزاروں مسلمان نوجوان ایسے الزامات میں قید ہیں جن کا کوئی ثبوت نہیں، جن کے مقدمات کی سماعت نہیں ہو رہی، جنہیں ضمانت نہیں دی جا رہی اور جنہیں وکیل میسر نہیں آ رہا۔ ان کے خلاف صرف اور صرف پولیس کی کہانی ہے، جسے میڈیا سچ بنا کر پیش کرتا ہے، اور عدالتیں برسوں بعد غلط ثابت کرتی ہیں۔ لیکن جب تک عدالتیں فیصلہ سناتی ہیں، تب تک اس کی پوری زندگی تباہ ہو چکی ہوتی ہے۔


عدالتی نظام کی سست روی اور تفتیشی ایجنسیوں کی تعصب زدہ روش نہ صرف انفرادی المیوں کو جنم دیتی ہے بلکہ ایک پوری قوم کو احساسِ کمتری میں مبتلا کر دیتی ہے۔ 19؍ سال بعد اگر عدالت فیصلہ دیتی ہے تو یہ انصاف نہیں، بلکہ نظام کی ناکامی کا اعلان ہے۔ اس فیصلے میں خوشی کم، شرمندگی زیادہ ہے۔ سب سے شرمناک پہلو یہ ہے کہ پولیس، اے ٹی ایس، اور تفتیشی ایجنسیوں نے جو ثبوت عدالت میں پیش کیے، وہ خود ان کے منہ پر طمانچہ بن کر سامنے آئے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں صاف لکھا کہ پولیس کی کہانی میں جھول ہے، ملزمان کی موجودگی کے شواہد مشکوک ہیں، ان کے اقبالیہ بیانات قانون کے مطابق نہیں لیے گئے، اور پورے کیس میں متعدد نقائص ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سب کچھ جان بوجھ کر کیا گیا۔ مقصد اصل مجرم کو پکڑنا نہیں تھا، بلکہ فوری طور پر کسی کو پکڑ کر کیس بند کرنا تھا، اور اس کے لیے سب سے آسان شکار مسلمان تھے۔


اور میڈیا؟ جسے معاشرے کا ضمیر کہا جاتا ہے، وہ اس معاملے میں سب سے بڑا مجرم ہے۔ گرفتاری کے فوراً بعد ان نوجوانوں کی تصویریں دکھا دکھا کر چیخ چیخ کر بتایا گیا کہ "دہشت گرد پکڑے گئے"۔ مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو شک کی نظر سے دیکھا گیا، دینی مدارس کو دہشت گردی کا گڑھ قرار دیا گیا، اور عام مسلمان کو ایک مشتبہ مخلوق بنا دیا گیا۔ پھر جب عدالت نے کہا کہ یہ سب بے قصور تھے تو کوئی معذرت نہیں، کوئی ندامت نہیں، کوئی پچھتاوا نہیں۔ میڈیا نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ ان کی خبروں نے کتنے گھروں کو برباد کیا، کتنے رشتے توڑے، کتنی ملازمتیں چھن گئیں، اور کتنے ذہنوں میں نفرت کے بیج بوئے۔


سوال یہ ہے کہ جب عدالت نے سب گواہوں، اقبالیہ بیانات اور شواہد کو مسترد کر دیا تو اتنے سال تک ان نوجوانوں کو قید میں رکھنے کی بنیاد کیا تھی؟ اور سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ اصل مجرموں کو پکڑنے کے بجائے پولیس نے صرف اپنی فائلیں بند کرنے کیلئے مسلمانوں کو قربانی کا بکرا بنایا۔ لیکن کیا ان افسروں پر مقدمہ چلے گا جنہوں نے جھوٹے کیس بنائے، بے بنیاد ثبوت گھڑے، اذیتیں دیں؟ کیا ان ایجنسیوں سے سوال کیا جائے گا جنہوں نے معصوم نوجوان کو دہشت گرد بنا کر پیش کیا؟ کیا ان سیاستدانوں سے سوال ہوگا جنہوں نے مجرموں کی گرفتاری کے نام پر سیاسی واہ واہی لوٹی؟ کیا میڈیا سے جواب طلب کیا جائے گا؟ افسوس کہ نہیں! کیونکہ اس ملک میں مسلمان کا انصاف مانگنا بھی خود ایک جرم بن چکا ہے۔


عدالتوں سے رہا ہو جانا انصاف نہیں کہلاتا، جب تک ظلم کرنے والوں کو سزائیں نہ دی جائیں، اور متاثرین کو ازالہ نہ دیا جائے۔ اس وقت ان نوجوانوں کے پاس نہ کوئی روزگار ہے، نہ کوئی نفسیاتی سہارا، نہ ریاستی مدد، نہ کوئی رسمی معافی۔ وہ برسوں کی اذیتیں لے کر باہر نکلے ہیں، مگر زندگی کی گاڑی اب بھی پٹری سے اتری ہوئی ہے۔ اگر ان بے قصور پر ظلم کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوئی، تو کیا یہی انصاف ہے؟ اگر ان افسران پر جنہوں نے سازش رچی ان پر مقدمہ نہیں چلایا گیا تو یاد رکھیں کہ پھر اگلے کسی حادثے میں کوئی اور قاسم، کوئی اور کلیم، کوئی اور عرفان نشانہ بنے گا اور عنقریب ہم بھی ان کے نشانے پر ہونگے! 


ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ ایسے کیسز کے بعد مسلمانوں کا عدلیہ اور نظامِ انصاف پر جو اعتماد مجروح ہوتا ہے، اس کی تلافی کیسے ہوگی؟ کیا عدالتیں صرف ثبوت کی بنیاد پر ہی فیصلہ دیں گی، یا اس نظام کے اندر موجود تعصب، نفرت اور استحصال کو بھی دیکھیں گی؟ جب مسلمان نوجوان ہر دھماکے کے بعد پہلے ملزم بن جاتے ہیں، اور برسوں بعد بے قصور قرار دیے جاتے ہیں، تو پھر قوم کا اعتماد ٹوٹتا ہے، دلوں میں ناامیدی جڑ پکڑتی ہے، اور سماج میں فاصلے بڑھتے ہیں۔ 7/11 کیس میں جو کچھ ہوا وہ ایک مکمل ریاستی و ادارہ جاتی ناکامی تھی۔ یہ ایک آزاد ملک کے اس "سیکولر" ڈھانچے پر سوالیہ نشان ہے جو اقلیتوں کو برابری کے حقوق دینے کا دعویٰ کرتا ہے۔ اس کیس نے ثابت کر دیا کہ مذہبی اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں کو ایک مخصوص بیانیہ کے تحت نشانہ بنایا جاتا ہے، انہیں شکوک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اور ان کے خلاف مقدمات بنانے کے لیے پولیس، ایجنسیاں، اور میڈیا سب مل کر کام کرتے ہیں۔ اس ظالمانہ سسٹم میں عدالت صرف آخری دروازہ بن کر رہ جاتی ہے، جو اگر انصاف کرے بھی تو بہت دیر سے کرتی ہے۔


قوم کے سامنے اب دو راستے ہیں: یا تو ہم خاموشی سے ہر بار یہی تماشا دیکھتے رہیں گے، یا پھر ہم منظم ہو کر اس سسٹم کو چیلنج کریں گے۔ ہمیں قانونی میدان میں مضبوطی لانا ہوگی، ہر کیس کی پیروی کرنی ہوگی، میڈیا کی نگرانی کرنی ہوگی، اور مظلوموں کی داد رسی کو دینی و ملی فریضہ سمجھنا ہوگا، کیونکہ آج جو ان نوجوانوں کے ساتھ ہوا، وہ کل کسی اور کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ اور اگر ہم خاموش رہے تو کل شاید ہمارا بھی نمبر ہو۔ اب وقت آ چکا ہے کہ ہم صرف رہائی کی خبر پر خوش ہونا چھوڑ دیں، اور ان سوالات کو بنیاد بنائیں جو اس نظام کے کھوکھلے پن کو بے نقاب کرتے ہیں۔ ہمیں متحد ہو کر مطالبہ کرنا ہوگا کہ ان نوجوانوں کو مکمل انصاف دیا جائے، سرکاری معافی، مالی ازالہ، نفسیاتی بحالی، روزگار کی ضمانت، اور سب سے بڑھ کر ان کے ساتھ ظلم کرنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔ انہیں نشانِ عبرت بنایا جائے تاکہ آئندہ کوئی معصوم صرف مذہب کی بنیاد پر قربانی کا بکرا نہ بنے۔ اگر ہم اب بھی خاموش رہے، تو ظلم کا یہ پہیہ رکنے والا نہیں، بلکہ کل کو پوری قوم اس کی زد میں آ سکتی ہے۔


اس فیصلے نے ہمیں ایک تلخ حقیقت کا سامنا کروایا ہے کہ جب ریاستی طاقت مذہبی تعصب کے تابع ہو جائے تو قانون صرف ایک دکھاوا بن جاتا ہے، اور انصاف کی کرسی پر بیٹھنے والا اگر وقت پر سچ نہ بولے تو وہ خود جرم میں شریک ہو جاتا ہے۔ مگر ہمیں مایوس نہیں ہونا، ہار نہیں ماننی۔ ہمیں اپنے مظلوم بھائیوں کے لیے مسلسل آواز بلند کرتے رہنا ہے، قانونی میدان میں مضبوطی سے جمے رہنا ہے، میڈیا کے زہریلے کردار کا محاسبہ کرنا ہے، اور اپنی نسلوں کو یہ شعور دینا ہے کہ سچ کو دبایا جا سکتا ہے، مگر ختم نہیں کیا جا سکتا؛ آخرکار وہ سامنے آتا ہے، اگر ہم ڈٹے رہیں۔ یہ فیصلہ درحقیقت عدالت کا نہیں بلکہ ظلم کے خلاف ایک گواہی ہے، اور یہ رہائی انصاف کی فتح نہیں بلکہ ریاستی نظام کی ناکامی کا اقرار ہے۔ ہمیں اس وقت تک لڑنا ہے جب تک ہر بے گناہ قیدی آزاد نہ ہو جائے، ہر جھوٹے مقدمے کو ختم نہ کر دیا جائے، ہر ایجنسی جواب دہ نہ بن جائے، اور ہر مسلمان کو یہ اعتماد حاصل نہ ہو جائے کہ اس ملک میں اس کی جان، عزت اور ایمان محفوظ ہے۔ یہ کیس ہمارے لیے ایک سبق بھی ہے اور انتباہ بھی؛ سبق اس لیے کہ ہمیں اپنی نئی نسل کو قانون، عدلیہ اور میڈیا کے مکر و فریب سے واقف کرانا ہوگا، انہیں اپنی حفاظت کے لیے شعور اور تیاری دینا ہوگی، اور ظلم کے خلاف ایک منظم تحریک اٹھانی ہوگی اور آخیر تک لڑائی لڑنی ہے کیونکہ یہ صرف انصاف کی نہیں، انسانی وقار، مذہبی آزادی اور قومی سلامتی کی بھی لڑائی ہے۔ اور انتباہ اس لیے کہ اگر ہم اب بھی غفلت میں رہے تو یہ ظلم دوبارہ کسی اور شہر، کسی اور نام، کسی اور حادثے کی آڑ میں سر اٹھا سکتا ہے، اور اگلا فیصلہ شاید پھر انیس سال بعد آئے؛ تب جب ہم شاید بہت کچھ کھو چکے ہوں۔ اور ہوسکتا ہے کہ آج اگر ہم خاموش رہے تو کل شاید ہمارا ہی نمبر ہو!  

اس دیش میں برسوں سے پریشان ہیں ہم لوگ 

بس جرم ہے اتنا کہ مسلمان ہیں ہم لوگ


فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

23؍ جولائی 2025 ء بروز بدھ


#MumbaiTrainBlast #InnocentMuslim #Jamiat #ArshadMadani #MTIH #TIMS #PaighameFurqan


Tuesday, 22 July 2025

”یومِ صحابہؓ“ کا پیغام ملتِ اسلامیہ کے نام!

 ”یومِ صحابہؓ“ کا پیغام ملتِ اسلامیہ کے نام!

✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ 

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


امتِ مسلمہ کی تاریخ کا ہر ورق ان عظیم نفوسِ قدسیہ کی قربانیوں سے روشن ہے، جنہیں دنیا ”صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین“ کے نام سے جانتی ہے۔ یہ وہ عظیم ہستیاں ہیں جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کی معیت میں دینِ اسلام کی آبیاری کی، اس کے لیے ہجرتیں کیں، صعوبتیں اٹھائیں، مال و جان قربان کیے، اور تاریخِ انسانی میں بے مثال وفاداری کا مظاہرہ کیا۔ وہ نہ صرف نبی مکرم ﷺ کے ہم نشین تھے بلکہ وہ اولین مخاطب اور عامل تھے اُس وحی الٰہی کے جو قیامت تک انسانیت کی ہدایت کا ذریعہ ہے۔ 


لیکن افسوس! آج جب امتِ مسلمہ کو اپنے ماضی سے رشتہ جوڑنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، کچھ فتنہ پرور عناصر اسی ماضی کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کی ناپاک کوششوں میں مصروف ہیں۔ صحابہ کرامؓ کی عظمت و توقیر، جن پر قرآن گواہ ہے اور سنتِ نبوی شاہد، آج اُن کے کردار پر زبان درازی، شبہات اور طعن و تشنیع کے تیر برسائے جا رہے ہیں۔ کبھی اجتہادی اختلافات کو بنیاد بنا کر فتنے اٹھائے جاتے ہیں، تو کبھی سوشل میڈیا کو ہتھیار بنا کر نئی نسل کے اذہان کو گمراہ کرنے کی سازشیں کی جاتی ہیں۔


ایسے پرفتن ماحول میں ”یومِ صحابہؓ“ کا انعقاد صرف ایک دینی تقویمی عمل نہیں بلکہ بیداری، شعور، غیرتِ ایمانی، اور اتحادِ ملت کی ایک عملی تحریک تھی۔ اس دن کا پیغام، دراصل ایک عہد کی تجدید تھی: کہ ہم اپنے اسلاف، اپنے محسنین، اپنے معلمینِ اولین کے دفاع میں ہر میدان میں حاضر ہیں۔ اس دن نے ہمیں یاد دلایا کہ جن صحابہؓ کے ذریعے ہمیں قرآن ملا، حدیث ملی، دین کی حقیقت ملی، آج اگر اُن پر انگلی اٹھے تو گویا ہم پر دین کی بنیادیں لرزنے لگتی ہیں۔


”یومِ صحابہؓ“ ہمیں بتا گیا کہ صحابہ کرامؓ معیارِ حق ہیں۔ ان کے فیصلے، ان کا فہم، ان کی سیرت اور ان کی قربانیاں نہ صرف ماضی کی شان ہیں بلکہ آج کے فتنوں کا توڑ اور آنے والے کل کے لیے ہدایت کی روشنی ہیں۔ ان کی شخصیتیں ہمیں یہ سبق دے گئی کہ دین کے لیے جینا کیا ہوتا ہے، وفا کیسے نبھائی جاتی ہے، اور حق کی خاطر قربانی کیسے دی جاتی ہے۔


مرکز تحفظ اسلام ہند کی تحریک پر اور اکابر علماء کرناٹک کی اپیل پر ریاست کرناٹک میں 18؍ جولائی 2025ء بروز جمعہ کو منایا گیا ”یومِ صحابہؓ“ صرف ایک ریاستی مہم نہ تھی، بلکہ ایک امت گیر پیغام تھا کہ جب صحابہؓ کی عزت پر حملہ ہو، تو کوئی کلمہ گو خاموش نہ رہے۔ ریاست بھر کی ہزاروں علماء، ائمہ و خطباء اس پیغام میں شریک ہوئے، اور اپنی آہنی مساجد کے منبر و محراب سے اصحابِ رسول ﷺ کے عدل و تقویٰ، زہد و اخلاص، قربانی و فداکاری، علم و بصیرت اور غیر متزلزل وفاداری پر خطبات دیے۔ اس تحریک نے نہ صرف مساجد کے ماحول کو روشن کیا بلکہ نوجوان نسل کے دلوں میں محبتِ صحابہؓ کی شمع بھی فروزاں کر دی۔


آج کا نوجوان سوشل میڈیا کے دباؤ، مغرب زدہ ذہنیت، اور خود ساختہ مفکرین کی گمراہ کن باتوں کے بیچ جھول رہا ہے۔ اس کی رہنمائی صرف وہی کر سکتے ہیں جو اسے دین کی اصل بنیادوں سے جوڑیں۔ اور دین کی اصل بنیادیں وہی صحابہؓ ہیں جنہوں نے سچائی کو نبی ﷺ سے لیا، دل و جان سے قبول کیا، اور پوری امت تک پہنچایا۔ اس لیے ”یومِ صحابہؓ“ کے ذریعے جو شعور دیا گیا وہ وقتی نہیں، بلکہ دائمی پیغام ہے۔ یہ امت کے لیے ایک بیداری کا آغاز ہے کہ اب خاموشی کی گنجائش نہیں۔


”یومِ صحابہؓ“ نے ایک فکری و علمی محاذ کی بھی نمائندگی کی۔ اس دن اہلِ قلم، خطباء، محدثین، مفسرین، اور ہر ذی شعور مسلمان نے یہ عہد کیا کہ وہ دین کے ان بنیادی محافظوں کے بارے میں کسی بھی قسم کی گستاخی، توہین یا طعنہ زنی کو برداشت نہیں کریں گے۔ اہلِ علم نے یہ اعلان کیا کہ صحابہ کرامؓ کے عدل، تقویٰ، علم، زہد، اور بصیرت پر نہ صرف یقین رکھتے ہیں بلکہ اُسے امت کی فکری بنیاد مانتے ہیں۔ کیونکہ اگر صحابہؓ پر اعتماد اٹھ جائے تو قرآن کی حفاظت، حدیث کی صداقت، اور دین کی تمام روایتیں مشکوک ہو جاتی ہیں۔ لہٰذا ان کی عظمت پر ایمان رکھنا دراصل دین پر ایمان رکھنے کے مترادف ہے۔


”یومِ صحابہؓ“ ہمیں یہ بھی سکھا گیا کہ وحدتِ امت کیسے قائم کی جائے۔ صحابہ کرامؓ کی صفات میں سب سے بڑی صفت یہ تھی کہ وہ ”وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا....“ کے عملی نمونہ تھے۔ وہ قوم، نسل، زبان یا قبیلہ کی بنیاد پر نہیں بلکہ صرف دین کی بنیاد پر جُڑے تھے۔ اسی بنیاد پر اسلام نے دنیا میں ایک نئی تہذیب، نئی سیاست، نئی معاشرت اور نیا نظام قائم کیا۔ آج جب امت لسانیت، قومیت، فرقہ واریت، اور خود ساختہ تصورات میں بٹ چکی ہے، تو صحابہؓ کی سیرت ہمیں وحدت کی راہ دکھاتی ہے۔


کرناٹک میں منعقد ہونے والا ”یومِ صحابہؓ“ اسی وحدت، ایمان، غیرت اور شعور کا عملی مظاہرہ تھا۔ ریاستی سطح پر جو آواز بلند ہوئی، وہ گونجی تو بیرون ریاست کے کئی علاقوں میں بھی علماء نے اسی جذبے کو اپنایا اور یومِ صحابہؓ منایا۔ یہ بات واضح ہو گئی کہ جب دین کے بنیادی ستونوں پر حملہ ہوتا ہے تو امت بیدار ہوتی ہے، متحد ہوتی ہے، اور اپنے دفاع کے لیے میدان میں آ جاتی ہے۔ امت کا یہ متحدہ موقف دراصل اس بات کا مظہر ہے کہ صحابہ کرامؓ کے خلاف اٹھنے والی کوئی بھی آواز امت کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔


اس دن کا پیغام یہ بھی ہے کہ دین کے دشمن صرف تلوار سے حملہ نہیں کرتے، وہ ذہنوں کو مسموم کرتے ہیں، سوالات کی شکل میں شکوک پیدا کرتے ہیں، عقیدے کو بے وزن بناتے ہیں، اور نوجوانوں کو تاریخ سے کاٹنے کی چالاکی کرتے ہیں۔ لیکن جب امت کا ہر فرد، ہر خطیب، ہر امام، ہر معلم اور ہر قلمکار میدان میں اتر آتا ہے تو پھر یہ فتنے خود بخود دم توڑ دیتے ہیں۔


”یومِ صحابہؓ“ نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ صحابہ کرامؓ صرف تاریخی شخصیات نہیں بلکہ ہمارے ایمان کا حصہ ہیں۔ ان کی محبت ایمان کی علامت، اور ان کی توہین نفاق کی نشانی ہے۔ اس لیے یہ دن صرف ایک تقریری دن نہیں، بلکہ ایک عملی عزم کا دن ہے کہ ہم صحابہؓ کے افکار، ان کی سیرت، ان کے اسوہ، ان کے عدل و فہم کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں گے۔ ہم نہ صرف ان کی عزت کی حفاظت کریں گے بلکہ ان کے راستے کو اپنی عملی زندگی میں اپنائیں گے۔


اس دن ہمیں یہ بھی سمجھنے کا موقع ملا کہ صحابہؓ کے متعلق فتنوں کی جڑیں کہاں ہیں، اور ان کا توڑ کیسے ممکن ہے۔ تعلیم، تربیت، تقریر، تحریر، اور عمل؛ یہ وہ پانچ میدان ہیں جن میں کام کر کے ہم آنے والی نسل کو فتنوں سے بچا سکتے ہیں۔ ”یومِ صحابہؓ“ نے ہمیں یہ شعور دیا کہ فتنوں کا مقابلہ صرف جذبات سے نہیں، علم، حکمت، اور تدبر سے بھی کرنا ہو گا۔ ہمیں اپنی مساجد کو تعلیمی مراکز بنانا ہو گا، اپنے مدارس کو فکری قلعے بنانا ہو گا، اور اپنے نوجوانوں کو صحابہ کرامؓ کی سیرت کا عاشق بنانا ہو گا۔


”یومِ صحابہؓ“ دراصل ایک امت گیر دعوت ہے کہ آئیے، اپنے دلوں کو صحابہؓ کی محبت سے روشن کریں، اپنی زبانوں کو ان کے تذکرہ سے پاک کریں، اپنی محفلوں کو ان کی سیرت سے مہکائیں، اور اپنی نسلوں کو یہ سبق دیں کہ دین ہم تک جن کے ذریعے پہنچا، وہ ہمارے لیے معیارِ حق ہیں، اور ان کی گستاخی دراصل دین کے خلاف جنگ ہے۔


یہ دن ہمیں یاد دلا گیا کہ دشمنانِ اسلام کی چالیں وقتی ہوتی ہیں، مگر امت کی غیرت جاگ جائے تو تاریخ بدل جاتی ہے۔ پس ”یومِ صحابہؓ“ نہ صرف ایک دن تھا بلکہ ایک تحریک تھا، ایک عزم تھا، ایک دعوت تھا، ایک روشنی تھا؛ جو ہمیں بتا گیا کہ جب ہم اصحابِ رسول ﷺ کے دامن کو تھام لیتے ہیں، تو دین کے قلعے مضبوط ہو جاتے ہیں، اور باطل کی تمام سازشیں خاک میں مل جاتی ہیں۔


اسی عزم، غیرت، اور اجتماعیت کی زندہ تصویر بن کر ”یومِ صحابہؓ“ سامنے آیا۔ ریاست بھر میں جس جوش، اتحاد، اور دینی شعور کا اظہار ہوا، اس نے یہ واضح پیغام دیا کہ صحابہ کرامؓ کے خلاف اٹھنے والا ہر فتنہ امت کے سینے سے ٹکرا کر بکھر جائے گا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس دن کے پیغام کو سال بھر کی مسلسل تحریک میں تبدیل کریں، اور ہر شعبۂ حیات میں صحابہؓ کی سیرت اور افکار کو بنیاد بنائیں، تاکہ آنے والی نسلیں گمراہی کی تاریکیوں کے بجائے صحابہؓ کی روشنی میں اپنے دین کو پہچان سکیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرامؓ کی محبت، وفاداری، اور دفاع کے راستے پر استقامت نصیب فرمائے، اور امتِ مسلمہ کو بیدار، متحد اور غیرت مند بنائے۔ آمین یا رب العالمین۔


فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

22؍ جولائی 2025ء بروز منگل



#Sahaba | #YaumeSahaba | #AzmateSahaba |#DifaeSahaba | #NamooseSahaba | #PaighameFurqan | #News | #Article | #MTIH | #TIMS

Monday, 21 July 2025

مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام ”کل ہند منقبتی و نعتیہ مشاعرہ“ کا انعقاد، ملک کے ممتاز شعرائے کرام کی شرکت!

 مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام ”کل ہند منقبتی و نعتیہ مشاعرہ“ کا انعقاد، ملک کے ممتاز شعرائے کرام کی شرکت!

منبرِ شعر و ادب کو ”دفاع صحابہؓ“ کا مضبوط قلعہ بنائیں: مفتی افتخار احمد قاسمی


بنگلور، 21؍ جولائی (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام عظیم الشان آن لائن ”کل ہند منقبتی و نعتیہ مشاعرہ“ کا انعقاد عمل میں آیا، جس میں ملک بھر سے ممتاز شعرائے کرام نے شرکت کی اور عظمت صحابہؓ، محبت رسول ﷺ اور غیرتِ ایمانی سے لبریز کلام پیش کیا۔ اس روح پرور ادبی و ایمانی محفل کا مقصد صحابہ کرامؓ کی عظمت، ناموس اور شانِ اقدس کا تحفظ نیز محبت نبوی ﷺ کے پیغام کو شعر و ادب کے قالب میں امت کے دلوں تک پہنچانا تھا۔ مشاعرہ کا انعقاد ایسے وقت میں کیا گیا جب محرم الحرام کے موقع پر بعض فرقہ پرست عناصر اہل بیت کی آڑ میں جلیل القدر صحابہ کرامؓ کی گستاخی کو اپنا معمول بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس عظیم الشان مشاعرہ کی صدارت مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست حضرت مفتی افتخار احمد قاسمی (صدر جمعیۃ علماء کرناٹک) نے فرمائی۔ آپ نے اپنے ایمان افروز صدارتی خطاب میں فرمایا کہ محرم الحرام آتے ہی بعض لوگ اہل بیت کے نام پر صحابہ کرامؓ کی گستاخی کرنا شروع کر دیتے ہیں، حالانکہ قرآن و حدیث میں تمام صحابہؓ کی عظمت بیان کی گئی ہے اور ان کے لیے جنت کی بشارتیں موجود ہیں۔ جو صحابہؓ پر زبان درازی کرے وہ گویا قرآن و سنت کے منکر ہیں۔ افسوس کہ کچھ لوگ اہل سنت والجماعت کہلاتے ہوئے بھی صحابہ کرامؓ کی تنقیص کرتے ہیں، حالانکہ صحابہؓ کے بغیر ہمیں دین تک نہیں پہنچتا، انہیں چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو اہل سنت والجماعت کہنا چھوڑ دیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت جو عناصر صحابہؓ پر حملہ کر رہے ہیں وہ اسلام پر حملہ آور ہیں اور ان کے خلاف ہر سطح پر محاذ کھولنا وقت کی ضرورت ہے۔ مولانا قاسمی نے فرمایا کہ مرکز تحفظ اسلام ہند کے اس مشاعرہ کے ذریعہ ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ شعر و ادب صرف جذبہ انگیز ذریعہ نہیں، بلکہ یہ ایمان کے پیغام کا قوی ترجمان بھی ہے، اور جب یہ سچائی کے علمبرداروں کے حق میں اٹھے تو یہ بھی میدانِ جہاد بن جاتا ہے۔ اسی لیے آج شعر و ادب کے منبر سے صحابہ کرامؓ کی ناموس کا دفاع کیا گیا، اور امت مسلمہ کو ایک جذباتی، دینی اور فکری پیغام دیا گیا کہ صحابہ کرامؓ کی عظمت کے تحفظ میں ہم ہر سطح پر آواز بلند کریں گے۔ مفتی صاحب نے تمام شعرائے کرام سے اپیل کی کہ وہ اپنے اجلاس اور محفلوں میں ناموسِ صحابہؓ کے تحفظ میں ہر ممکن کردار ادا کریں، اور اپنی کلام کے ساتھ شعر و ادب کے اس منبر کو بھی دفاعِ صحابہ کا مضبوط قلعہ بنائیں۔ اس موقع پر حضرت نے صحابہؓ کے مقام و مرتبہ، دینی خدمات اور اسلام کے فروغ میں ان کی قربانیوں کو دلنشین انداز میں اجاگر کیا۔ اس مشاعرہ میں شرکت کرنے والے اہم شعرائے کرام میں مولانا محمد مصعب قاسمی (چترادرگہ)، قاری عبد الباطن فیضی (فیض آباد)، قاری طاہر سعود کرتپوری (بجنور)، مولانا حسان احسن قاسمی (کشن گنج)، قاری انس کالوپوری (احمد آباد)، مولانا نصرت الباری مظاہری (پورنیہ)، قاری بدر عالم (چمپارن)، مولانا فدا حسین قاسمی (دہلی)، اور مولانا جعفر حسین قاسمی (باگلکوٹ) کے اسماء شامل ہیں۔ تلاوتِ قرآن پاک سے مشاعرہ کا آغاز قاری محمد ثاقب معروفی (مظفر نگر) نے کیا۔ قابل ذکر ہے کہ یہ عظیم الشان آن لائن ”کل ہند منقبتی و نعتیہ مشاعرہ“ مرکز تحفظ اسلام ہند کے شعبہئ قرأت و نعت کمیٹی کی زیر نگرانی منعقد ہوا۔ مشاعرہ کی نظامت مرکز کے رکن تاسیسی اور کمیٹی کے کنوینر قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی نے فرمائی، جبکہ مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان، آرگنائزر اور کمیٹی کے معاون کنوینر حافظ محمد حیات خان، رکن مولانا اسرار احمد قاسمی، قاری محمد عمران، محمد فرحان، تبریز عالم بطور خاص موجود تھے۔ مشاعرہ کے اختتام پر مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے صدر مشاعرہ، تمام شعرائے کرام، اور انتظامیہ کمیٹی کا شکریہ ادا کیا، اور صدر مشاعرہ کی دعا پر مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد یہ عظیم الشان آن لائن ”کل ہند منقبتی و نعتیہ مشاعرہ“ اختتام پذیر ہوا۔


#Sahaba | #YaumeSahaba | #PressRelease #AzmateSahaba |#DifaeSahaba | #NamooseSahaba | #News | #NamooseSahaba | #MTIH | #TIMS


Sunday, 20 July 2025

مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام عظیم الشان ”کل ہند منقبتی و نعتیہ مشاعرہ“، برادران اسلام سے شرکت کی اپیل!

 دفاعِ صحابہؓ کی تحریک میں شعر و ادب کا کردار: ایک زندہ و مؤثر ترجمان

مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام عظیم الشان ”کل ہند منقبتی و نعتیہ مشاعرہ“، برادران اسلام سے شرکت کی اپیل!

بنگلور، 20؍ جولائی (پریس ریلیز): صحابہ کرامؓ کی عظمت، امت مسلمہ کے ایمان کا حصہ ہے اور ان کی ناموس کا تحفظ، ہماری دینی، ایمانی اور تاریخی ذمہ داری ہے۔ حالیہ دنوں میں مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی عظیم الشان دس روزہ آن لائن ”عظمت صحابہؓ کانفرنس“ اور ریاست کرناٹک میں تاریخی ”یوم صحابہؓ“ کے انعقاد نے ملت اسلامیہ میں صحابہؓ سے محبت، عقیدت اور وفاداری کے جذبے کو پھر سے تازہ کیا ہے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر مرکز تحفظ اسلام ہند اب ایک عظیم الشان آن لائن ”کل ہند منقبتی و نعتیہ مشاعرہ“ منعقد کرنے جا رہا ہے، جس کا مقصد صحابہ کرامؓ کی عظمت کو خراجِ تحسین پیش کرنا اور عشقِ رسول ﷺ کے جذبے کو شاعری کے قالب میں امت تک پہنچانا ہے۔ مذکورہ خیالات کا اظہار مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ مشاعرہ نہ صرف ایک ادبی و روحانی نشست ہے بلکہ صحابہ کرامؓ کی شان میں کی جانے والی گستاخیوں کے منہ توڑ جواب کا ایک لطیف، مؤثر اور بیدار کن انداز بھی ہے۔ اس میں شعرائے اسلام اپنے ایمانی جذبات کو قلم و زبان کے ذریعے یوں پیش کریں گے کہ محبت صحابہؓ کے چراغ روشن ہوں اور گستاخ ذہنیت کے اندھیرے چھٹ جائیں۔ عظمت صحابہؓ کے موضوع پر یہ مشاعرہ دراصل زبانِ شعر میں دشمنانِ صحابہ کے خلاف امت کا متفقہ موقف اور غیرت ایمانی کا اظہار ہوگا۔


انہوں نے کہا کہ یہ مشاعرہ محض ایک ادبی نشست نہیں بلکہ ایک فکری و دینی پیغام کا حامل پروگرام ہے، جس کے ذریعہ ہم اس حقیقت کو اجاگر کرنا چاہتے ہیں کہ شعر و ادب اگر اسلامی روح اور شریعت کی حدود کے اندر رہ کر ہو، تو وہ دین کا مؤثر ترجمان بن سکتا ہے۔ بدقسمتی سے آج کل کے مروجہ مشاعرے اکثر شریعت سے ہٹے ہوئے طرز، بے حیائی، لغویات اور شعری آداب سے عاری ماحول کی عکاسی کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں دین، ادب اور معاشرت تینوں کا نقصان ہو رہا ہے۔ اس کے برعکس مرکز تحفظ اسلام ہند ایسے مشاعروں کی اصلاح کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہے، اور اسی مقصد کے تحت منقبت و نعت سے مزین ایسے مشاعرے منعقد کرتا ہے جو دینی مزاج، شعری لطافت اور ایمانی حرارت کا حسین امتزاج ہوں۔ محمد فرقان نے کہا کہ مرکز تحفظ اسلام ہند کا یہ مشاعرہ نہ صرف شعرائے اسلام کے لیے اپنی دینی وابستگی کے اظہار کا موقع فراہم کرے گا، بلکہ عوام کے لیے بھی ایک تربیتی پلیٹ فارم ثابت ہوگا، جہاں وہ شریعت کے دائرے میں رہ کر محبت رسول ﷺ اور عظمت صحابہؓ کے نغمے سن سکیں گے اور اپنے دلوں کو ایمان کی تازگی سے منور کر سکیں گے۔


مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے بتایا کہ یہ عظیم الشان آن لائن ”کل ہند منقبتی ونعتیہ مشاعرہ“ آج اتوار، 20؍ جولائی 2025 رات 8:30 بجے سے منعقد ہوگا، جس کی صدارت مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست حضرت مولانا مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب (صدر جمعیۃ علماء کرناٹک) فرما ئینگے۔ جبکہ یہ عظیم الشان مشاعرہ کے کنوینر مرکز کے رکن تاسیسی قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی اور معاون کنوینر حافظ محمد حیات خان ہیں، جو مرکز کے شعبہ قرأت و نعت کمیٹی کے بھی ذمہ دار ہیں۔ اس مشاعرے میں ملک کے ممتاز شعراء کرام بالخصوص مولانا محمدمصعب قاسمی (چترادرگہ، کرناٹک)، قاری عبد الباطن فیضی (فیض آباد، یو پی)، حافظ اسعد بستوی (بستی، یوپی)، طاہر سعود کرتپوری (بجنور، یوپی)، مفتی طارق جمیل (قنوج، یوپی)، مولانا حسان احسن قاسمی (کشن گنج، بہار)، قاری وجہ الدین جلال (کبیر نگر، یوپی)، قاری محمد انس کالوپوری (احمد آباد، گجرات)، مولانا نصرت الباری مظاہری (پورنیہ، بہار)، قاری بدر عالم (چمپارن، بہار)، مولانا فدا حسین قاسمی (دہلی)، قاری ضیاء الرحمن فاروقی (ڈائریکٹر تحفظ دین میڈیا، اورنگ آباد، مہاراشٹرا) بطور خاص شریک ہونگے اور اپنا کلام پیش کریں گے۔ پروگرام کا آغاز ان شاء اللہ قاری محمد ثاقب معروفی (مظفر نگر، یوپی) کی تلاوت قرآن مجید کے ذریعہ ہوگا۔ یہ پروگرام ر مرکز تحفظ اسلام ہند کے آفیشل یوٹیوب چینل اور فیس بک پیج تحفظ اسلام میڈیا سروس پر براہِ راست نشر کیا جائے گا۔


مرکز تحفظ اسلام ہند تمام شعرائے اسلام، علمائے کرام، دینی اداروں، مدارس و جامعات، نوجوانان ملت اور اہلِ ذوق حضرات سے دردمندانہ اپیل کرتا ہے کہ وہ اس منظم اور شریعت پسند ادبی تحریک کا حصہ بنیں۔ اپنے اشعار کے ذریعے دین کی سچائیوں، صحابہؓ کی سیرتوں اور رسول اللہ ﷺ کی عظمتوں کو اُجاگر کریں اور معاشرے میں مثبت، دینی اور غیرتمند شاعری کا رجحان قائم کریں۔ مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے کہا کہ ہم ملت کے تمام طبقات سے بھرپور شرکت اور تائید کی اپیل کرتے ہیں تاکہ دین و ادب کا یہ بابرکت سنگم پوری امت کے لیے رشد و ہدایت اور روحانی بالیدگی کا ذریعہ بنے۔





#Press_Release #News #Mushaira #AzmateSahaba #Sahaba #NamooseSahaba #DifaeSahaba #Naat #MTIH #TIMS 



مرکز تحفظ اسلام ہند کے دس روزہ ”عظمت صحابہؓ کانفرنس“ کی اختتامی نشست میں اکابر علماءِ کرام کے ولولہ انگیز خطابات!

 تمام صحابہ کرامؓ معیارِ حق ہیں، ان کی شان اقدس میں گستاخی ہرگز برداشت نہیں!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے دس روزہ ”عظمت صحابہؓ کانفرنس“ کی اختتامی نشست میں اکابر علماءِ کرام کے ولولہ انگیز خطابات!

حضرت امیر شریعت کرناٹک مولانا صغیر احمد خان رشادی کی صدارت، امت مسلمہ کے نام اہم پیغام!

حضرت مفتی شعیب اللہ خان، حضرت مفتی افتخار احمد قاسمی، حضرت مفتی مقصود عمران رشادی، حضرت مولانا زین العابدین رشادی، حضرت مفتی عبد العزیز قاسمی، حضرت مولانا الیاس بھٹکلی، اور حضرت مولانا عبد الرحیم رشیدی کے اہم خطابات!

بنگلور، 19؍ جولائی (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقدہ عظیم الشان آن لائن دس روزہ ”عظمت صحابہؓ کانفرنس“ کی اختتامی نشست امیر شریعت کرناٹک حضرت مولانا صغیر احمد خان رشادی صاحب مدظلہ کی زیر صدارت منعقد ہوئی، جس میں ریاست کرناٹک کے ممتاز و اکابر علماء کرام نے خصوصی شرکت فرمائی۔ یہ کانفرنس کرناٹک میں ”یومِ صحابہؓ“ کے تاریخی اور کامیاب انعقاد کا تسلسل اور اس کے روحانی اثرات کا مظہر بھی تھی۔


اس موقع پر صدارتی خطاب کرتے ہوئے حضرت امیر شریعت کرناٹک نے فرمایا کہ صحابہ کا مقام اور عظمت بلند و بالا ہے، کوئی بھی مسلمان صحابہ کرام ؓکے مقام و مرتبہ کو نہیں پا سکتا، کیونکہ وہ وہ مقدس ہستیاں ہیں جن کے بارے میں خود رسول اللہ ؐ نے اکرام و تعظیم کا حکم دیا اور ان کو گالی دینے والوں پر اللہ کی لعنت کا اعلان فرمایا۔ آج جو فتنہ پرور عناصر صحابہ کی شان میں گستاخی کر رہے ہیں، لعن طعن اور زبان درازی سے ان کی عظمت کو مجروح کرنا چاہتے ہیں، وہ درحقیقت عذابِ خداوندی کو دعوت دے رہے ہیں۔ ایسے گستاخ اور ملعون عناصر کسی بھی صورت میں امت مسلمہ کے لیے قابل قبول نہیں ہو سکتے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم صحابہؓ کا ادب و احترام اپنے دلوں میں راسخ کریں، ان کی سیرت کو مشعلِ راہ بنائیں، اور ان کے خلاف ہر زہرآلود سازش کو مکمل اتحاد، ایمان اور غیرت ایمانی کے ساتھ ناکام بنائیں، کیونکہ صحابہؓ آسمان ہدایت کے روشن ستارے ہیں جن کی پیروی میں دنیا و آخرت کی کامیابی ہے۔ صحابہ کو برا بھلا کہنا، ان پر زبان درازی کرنا صرف گمراہی نہیں بلکہ ایمان کے لیے خطرہ ہے، اور ملت اسلامیہ ہرگز یہ گستاخی برداشت نہیں کرے گی۔


کانفرنس سے کلیدی خطاب کرتے ہوئے جامعہ اسلامیہ مسیح العلوم بنگلور کے بانی و مہتمم حضرت مفتی محمد شعیب اللہ خان مفتاحی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ فتنوں کے اس دور میں جہاں ایمان، دینی شعائر اور مقدسات پر حملے ہو رہے ہیں، ایک منظم سازش صحابہ کرامؓ پر اعتماد ختم کرنے کی بھی ہے۔ خاص طور پر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، حالانکہ وہ جلیل القدر صحابی، کاتب وحی، عظیم اسلامی سپہ سالار، اور علم و عدل کے پیکر تھے جنہیں محدثین اور مفسرین نے ثقہ، متقی اور معتبر قرار دیا ہے۔ ان کی فضیلت پر متعدد احادیث موجود ہیں۔ مشاجرات صحابہ کو بنیاد بنا کر کسی بھی صحابی کی شان میں گستاخی کی کوئی گنجائش نہیں، کیونکہ یہ اختلافات اجتہادی تھے جن میں سب مأجور ہیں۔ اہل السنۃ والجماعۃ کا متفقہ عقیدہ ہے کہ تمام صحابہ عادل اور ہدایت کے ستارے ہیں۔ اس نشست میں مفتی صاحب نے علمی و تحقیقی انداز میں حضرت امیر معاویہؓ پر کیے جانے والے اعتراضات کے تفصیلی دلائل سے جواب دیے اور واضح کیا کہ صحابہ کی توہین درحقیقت اسلام اور ایمان پر حملہ ہے، جسے برداشت نہیں کیا جا سکتا۔


اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر اور مرکز تحفظ اسلام ہند سرپرست حضرت مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ قرآن و حدیث میں صحابہ کرامؓ کی شان و عظمت واضح طور پر بیان کی گئی ہے، اور تمام صحابہ عادل، حق کے پیمانہ اور امت کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ افسوس کہ آج بعض افراد اہل بیتؓ کی محبت کا جھوٹا نعرہ لگا کر دیگر جلیل القدر صحابہؓ پر زبان درازی کرتے ہیں، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ اہل بیتؓ کے بھی دشمن ہیں، کیونکہ اہل بیتؓ خود صحابہ کرامؓ کی عزت و توقیر کرتے تھے۔ جو شخص صحابہ کی شان میں گستاخی کرتا ہے، وہ نہ صرف گمراہ ہے بلکہ اپنے ایمان کو بھی خطرے میں ڈال چکا ہے۔ یہ دراصل اسلام کی بنیادوں پر حملے کی سازش ہے تاکہ دین کے اولین محافظوں کو مشکوک بنا کر اسلام کو ہی مشتبہ ٹھہرایا جائے، کیونکہ صحابہؓ ہی وہ واسطہ ہیں جن کے ذریعے دین ہم تک پہنچا۔ لہٰذا امت مسلمہ پر لازم ہے کہ ان سازشوں سے ہوشیار رہے، صحابہ کرامؓ کا احترام کرے اور ان کے نقش قدم پر چل کر اپنی ایمانی بنیاد کو مضبوط بنائے۔


کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جامع مسجد سٹی بنگلور کے امام و خطیب حضرت مفتی ڈاکٹر محمد مقصود عمران رشادی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ صحابہ کرامؓ کی عظمت ہمارے دلوں میں رچی بسی ہے، اور ان کی شان میں کوئی گستاخی ہمارے لیے ہرگز قابل برداشت نہیں۔ آج سوشل میڈیا پر اسلام دشمن عناصر نئی نسل کے ایمان کو متزلزل کرنے کے لیے صحابہ کے خلاف غلط فہمیاں پھیلا رہے ہیں، مگر ہمیں ان کے پروپیگنڈے پر ہرگز کان نہیں دھرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ اور رسول اکرمؐ نے صحابہ کرامؓ کی عظمت، عدالت اور مقام کو واضح طور پر بیان فرمایا ہے، لہٰذا کسی کی گستاخی سے ان کے مقام میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں آتا۔


اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے دارالعلوم شاہ ولی اللہ بنگلور کے مہتمم حضرت مولانا محمد زین العابدین رشادی و مظاہری صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ یہ فتنوں کا دور ہے، اور فتنوں کی کثرت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ بعض فتنہ پرور عناصر صحابہ کرام جیسے نفوسِ قدسیہ پر لعن طعن کر رہے ہیں۔ ایسے لوگ اپنی آخرت برباد کر رہے ہیں، کیونکہ جب اللہ تعالیٰ خود صحابہ سے راضی ہیں تو کسی کو ان پر زبان درازی کا ہرگز کوئی حق نہیں، لہٰذا ملتِ اسلامیہ صحابہ کرامؓ کی سیرت کا مطالعہ کرے اور ان کا ادب و احترام لازم جانے۔


کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کرناٹک کے نائب امیر شریعت حضرت مفتی عبد العزیز قاسمی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ صحابہ کرامؓ امتِ مسلمہ کے لیے نجومِ ہدایت ہیں، جن کا رتبہ انبیاء علیہم السلام کے بعد سب سے بلند ہے۔ ان کے اجتہادی اختلافات کو بنیاد بنا کر کسی کو بھی ان کی شان میں گستاخی یا تنقیص کا حق نہیں دیا جا سکتا۔ ہر صحابیؓ لائقِ احترام اور واجب التعظیم ہے۔ ان کا ادب و احترام صرف زبانی دعویٰ نہیں بلکہ عملی طرزِ عمل سے ظاہر ہونا چاہیے۔ صحابہؓ کی عظمت کو دل میں بسانا، ان کی سیرت سے رہنمائی لینا اور ان کی توہین کرنے والوں کا علمی و دینی رد کرنا ملت اسلامیہ کی ایمانی و اخلاقی ذمہ داری ہے۔


کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن حضرت مولانا محمد الیاس بھٹکلی ندوی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ صحابہ کرامؓ امت مسلمہ کے لیے بہترین رول ماڈل ہیں۔ افسوس کہ آج کچھ عناصر انہیں تنقید کا نشانہ بنا کر نئی نسل کے دلوں میں ان کے خلاف شکوک پیدا کرنے کی سازش کر رہے ہیں، تاکہ اسلام پر اعتماد متزلزل کیا جا سکے۔ یاد رکھیں! ہمیں دین اسلام صحابہؓ کے ذریعے ہی ملا ہے، اور ان کی شان میں گستاخی دراصل اپنے ایمان کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم نئی نسل کے دلوں میں اسلام پر اعتماد بحال کریں، اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم عظمتِ صحابہ کو دلوں میں زندہ کریں، ان کی سیرت کو عام کریں اور ان کی محبت کو ایمان کا جزو سمجھیں۔


کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر حضرت مولانا عبد الرحیم رشیدی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ قرآن و حدیث صحابہ کرامؓ کی عظمت و رفعت کا واضح اعلان کرتے ہیں، مگر افسوس کہ آج کچھ لوگ من گھڑت اور ضعیف روایات کو بنیاد بنا کر ان مقدس ہستیوں پر جھوٹے الزامات لگاتے ہوئے عام مسلمانوں کے ایمان کو متزلزل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ وقت کا سب سے بڑا فتنہ ہے، جس کا مقابلہ علمی، ایمانی اور ملی سطح پر کرنا نہایت ضروری ہے۔ یاد رکھیں! صحابہؓ کی شان میں گستاخی وہی کر سکتا ہے جس کے دل میں ایمان کی روشنی باقی نہ ہو۔


قابل ذکر ہے کہ مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیرِ اہتمام منعقد یہ عظیم الشان آن لائن ”عظمت صحابہؓ کانفرنس“ مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور مرکز کے رکن تاسیسی قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی کی نظامت میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا آغاز مولانا فیاض احمد رشادی کی تلاوت اور مولانا محمد مصعب قاسمی کے نعتیہ اشعار سے ہوا۔ جبکہ اسٹیج پر مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان، اراکین قاری محمد عمران، تبریز عالم وغیرہ بطور خاص موجود تھے۔ اس موقع پر تمام اکابر علماء نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا اور ”عظمت صحابہؓ کانفرنس“ اور ”یوم صحابہؓ“ کے کامیاب انعقاد پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے اسے وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیا۔ اس موقع پر مرکز کے رکن مولانا اسرار احمد قاسمی نے مرکز کی جانب سے دس نکاتی اعلامیہ پیش کیا۔ اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے اعلان کیا یہ مرکز تحفظ اسلام ہند ”دفاع صحابہؓ“ کی تحریک کو اخیر تک لے جائے گی، انہوں نے تمام اکابر اور جملہ سامعین و معاونین کا شکریہ ادا کیا اور سرپرست مرکز کی دعا پر یہ عظیم الشان دس روزہ ”عظمت صحابہؓ کانفرنس“ اختتام پذیر ہوئی۔






#Sahaba | #YaumeSahaba | #AzmateSahaba |#DifaeSahaba | #NamooseSahaba | #Newspaper | #News | #NamooseSahaba | #MTIH | #TIMS

Saturday, 19 July 2025

کرناٹک میں ”یومِ صحابہؓ“ کا تاریخی انعقاد، غیرت ایمانی کا مظاہرہ اور امت کا متحد پیغام!

 صحابہ کرامؓ معیار حق ہیں، ان کی شان اقدس میں گستاخی ہرگز برداشت نہیں!

کرناٹک میں ”یومِ صحابہؓ“ کا تاریخی انعقاد، غیرت ایمانی کا مظاہرہ اور امت کا متحد پیغام!

بنگلور، 18؍ جولائی 2025ء (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کی جانب سے امیر شریعت کرناٹک حضرت مولانا صغیر احمد خان رشادی صاحب، جامعہ مسیح العلوم بنگلور کے بانی و مہتمم حضرت مفتی محمد شعیب اللہ خان مفتاحی صاحب، جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر حضرت مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب اور جامع مسجد سٹی بنگلور کے امام و خطیب حضرت مفتی ڈاکٹر محمد مقصود عمران رشادی صاحب کی اپیل پر ریاست بھر میں 18؍ جولائی بروز جمعہ ”یومِ صحابہؓ“ نہایت ہی کامیابی، دینی جوش، غیرت ایمانی اور اتحاد و اخوت کے ماحول میں منایا گیا۔ اس دن ریاست کرناٹک کے تمام اضلاع، تحصیلوں، شہروں اور دیہاتوں میں واقع ہزاروں مساجد کے خطباء و ائمہ کرام نے اپنے خطباتِ جمعہ میں اصحابِ رسول ﷺ کی عظمت، ان کے عدل و تقویٰ، قربانی و ایثار اور دین کے لیے ان کی بے مثال خدمات پر ایمان افروز انداز میں روشنی ڈالی۔ ان خطبات کے ذریعے امت مسلمہ کو یہ باور کرایا گیا کہ صحابہ کرامؓ کی شان و مقام نہ صرف قرآن و سنت سے ثابت ہے بلکہ ان کا احترام ایمان کا جزوِ لاینفک ہے، اور ان کی گستاخی گویا دین کی بنیادوں کو متزلزل کرنے کی کوشش ہے۔ نیز صحابہ کرامؓ معیارِ حق ہیں، جن کی زندگیوں اور فیصلوں سے حق و باطل کا فرق نمایاں ہوتا ہے۔ ان پر اعتماد دراصل دینِ خالص پر اعتماد ہے، اور ان کی اہانت، ہدایت کے اصل سرچشمے کو مشکوک بنانے کی سازش ہے۔ علماء کرام نے مؤثر انداز میں صحابہ کرامؓ کے خلاف بڑھتے ہوئے فتنوں پر تنبیہ کی، اور اہل سنت والجماعت کا معتدل، متوازن اور اجماعی موقف واضح کیا۔ خطباء نے نوجوانوں کے دلوں میں صحابہؓ کی محبت و عقیدت کے چراغ روشن کیے اور انہیں یہ شعور دیا کہ دین ہم تک جن نفوسِ قدسیہ کے ذریعے پہنچا، ان کی توہین گویا خود دین کی اہانت ہے۔ سوشل میڈیا سے لے کر تعلیمی اداروں تک اور گھروں سے لے کر مساجد تک، یہ پیغام واضح طور پر دیا گیا کہ امت مسلمہ کسی بھی قیمت پر صحابہ کرامؓ کی ناموس پر حملہ برداشت نہیں کرے گی۔ ان خطبات کے ذریعہ گستاخانِ صحابہ کے خلاف ایک ہم آواز اور پرامن مگر غیرت ایمانی سے لبریز موقف سامنے آیا، جس نے نوجوانوں کے دلوں میں بیداری کی لہر دوڑا دی۔ اس موقع پر اہلِ قلم نے بھی اپنی تحریروں کے ذریعے صحابہؓ کے دفاع میں زوردار آواز بلند کی اور علمی مورچہ کو مضبوط کیا۔ ان کے مضامین نے فکری رہنمائی کا فرض بخوبی انجام دیا۔ مزید خوش آئند بات یہ ہے کہ کرناٹک کی اس عظیم دینی تحریک نے ریاستی سرحدوں کو عبور کر کے ملک کے دیگر حصوں میں بھی اثرات چھوڑے۔ بیرون ریاست کے کئی علاقوں میں علماء نے انہی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے ”یومِ صحابہؓ“ منایا، اور منبر و محراب سے صحابہ کرامؓ کی محبت کا پرخلوص اظہار کیا۔ یوں کرناٹک نے ملک بھر کے لیے ایک عملی نمونہ، تاریخ ساز مثال اور جرأت ایمانی کا ریکارڈ قائم کر دیا کہ جب دین کے بنیادی ستونوں پر حملہ ہو، تو امت بیدار ہوتی ہے، متحد ہوتی ہے، اور اپنے اسلاف کی عزت و ناموس کے لیے سینہ سپر ہو جاتی ہے۔ یومِ صحابہؓ منانے کا یہ فیصلہ صرف وقتی ردعمل نہ تھا، بلکہ ایک پائیدار دینی پیغام کا آغاز تھا جس نے ثابت کیا کہ جب علمائے کرام، خطباء و ائمہ متحد ہو جائیں تو دین کے خلاف اٹھنے والی کوئی آواز دیرپا نہیں ہو سکتی۔ اس موقع پر تمام اکابرین کرناٹک کی جانب سے مرکز تحفظ اسلام ہند، ریاست بھر کے تمام علماء کرام، ائمہ و خطباء، اہلِ قلم، مساجد کی انتظامیہ، اور ان تمام احباب کا دلی شکریہ ادا کرتا ہے جنہوں نے اس مقدس مقصد کے لیے اپنا کردار ادا کیا، محبت صحابہؓ کا پرچم بلند کیا اور دشمنانِ صحابہ کو ایک زوردار پیغام دیا کہ صحابہ کرامؓ کے تحفظ کے لیے امت مسلمہ بیدار ہے، متحد ہے، اور ان شاء اللہ ہمیشہ میدان میں رہے گی۔ اللہ تعالیٰ سب کی ان مساعی جمیلہ کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے، اور ہمیں دین کی عظمتوں کے تحفظ کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔


#Sahaba | #YaumeSahaba | #AzmateSahaba |#DifaeSahaba | #NamooseSahaba | #Newspaper | #News | #NamooseSahaba | #MTIH | #TIMS

Friday, 18 July 2025

ناموس صحابہؓ کے تحفظ اور امت کی رہنمائی کے لیے جمعہ کو ریاست کرناٹک میں ”یومِ صحابہؓ“ منانے کا اعلان!

 ناموس صحابہؓ کے تحفظ اور امت کی رہنمائی کے لیے جمعہ کو ریاست کرناٹک میں ”یومِ صحابہؓ“ منانے کا اعلان!

امیر شریعت کرناٹک اور دیگر علماء کی ائمہ و خطباء سے جمعہ کے خطبات میں ”عظمت صحابہؓ‘‘ پر روشنی ڈالنے کی اپیل!

بنگلور، 17؍ جولائی (پریس ریلیز): امیر شریعت کرناٹک حضرت مولانا صغیر احمد خان رشادی صاحب، حضرت مفتی محمد شعیب اللہ خان مفتاحی صاحب (بانی و مہتمم جامعہ اسلامیہ مسیح العلوم بنگلور)، حضرت مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب (صدر جمعیۃ علماء کرناٹک)، حضرت مفتی ڈاکٹر محمد مقصود عمران رشادی صاحب (امام و خطیب جامع مسجد سٹی بنگلور) نے علماء، ائمہ و خطباء کرام کے نام ایک اہم اپیل جاری کرتے ہوئے فرمایا کہ امت مسلمہ اس وقت ایک نازک ترین دور سے گزر رہی ہے، جہاں عقائد، شعائر اسلام اور مقدسات پر حملے تیز تر ہو رہے ہیں۔ سوشل میڈیا سے لے کر منبر و محراب تک بعض فتنہ پرور عناصر پوری منصوبہ بندی کے ساتھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عظمت کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ یہ لوگ امت کی دینی بنیادوں کو کمزور کر کے نئی نسل کو شکوک و شبہات کی دلدل میں دھکیلنے کی ناپاک کوششوں میں مصروف ہیں۔ صحابہ کرامؓ وہ نفوسِ قدسیہ ہیں جن کے ذریعہ دین ہم تک پہنچا، جنہوں نے نبی کریم ﷺ کی معیت میں قربانیاں دیں، اور جن کی عظمت پر خود اللہ تعالیٰ نے قرآن میں مہرِ تصدیق ثبت فرمائی: ”رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ وَرَضُوا عَنْہُ“، ”أُولَٰٓءِکَ کَتَبَ فِی قُلُوبِہِمُ الْإِیمَانَ“۔انہوں نے فرمایا کہ آج جبکہ ان مقدس ہستیوں کی عزت و ناموس پر زبان دراز کی جا رہی ہے، امت کو بالعموم اور اہل علم کو بالخصوص ایک منظم علمی و فکری محاذ پر سرگرم ہونے کی اشد ضرورت ہے۔ اسی مقصد کے تحت مرکز تحفظ اسلام ہند کی جانب سے فیصلہ کیا گیا ہے کہ آنے والے جمعہ یعنی 18؍ جولائی 2025ء کو پوری ریاست کرناٹک میں ”یومِ صحابہؓ“ کے طور پر منایا جائے، تاکہ امت کو صحابہ کرامؓ کی عظمت، ان کی دینی خدمات، ان کا عدل و تقویٰ، اور اہل السنۃ والجماعۃ کا ان کے متعلق معتدل اور حق پر مبنی موقف ازسرِنو یاد دلایا جا سکے۔ لہٰذا ہم ریاست بھر کے علماء و ائمہ کرام سے پُر زور اپیل کرتے ہیں کہ اس جمعہ کے خطبہ میں صحابہ کرامؓ کی شان و فضیلت پر روشنی ڈالیں۔ صحابہؓ کے عدل و انصاف، دیانت و تقویٰ، اور دین کے لیے ان کی جانثاری کو اجاگر کریں۔ گستاخوں کے فتنہ سے نئی نسل کو بچانے کے لیے ان کے ذہنوں کو منور کریں۔ صحابہ کرامؓ کے متعلق اہل سنت والجماعت کا متوازن، معتدل اور اجماعی موقف واضح طور پر بیان کریں۔ اور امت کو یہ شعور دیں کہ صحابہؓ کی توہین دراصل دین کے بنیادی ستون کو ہلانے کے مترادف ہے۔ یہی وقت ہے کہ ہم صرف دل میں محبتِ صحابہؓ پر اکتفا نہ کریں، بلکہ ان کی عظمت کے تحفظ کے لیے زبان و قلم سے، وعظ و نصیحت اور فکر و عمل سے کھل کر میدان میں آئیں۔ یاد رکھیں! صحابہؓ کا دفاع، دین کا دفاع ہے۔ ان کی توہین، دین کی بنیادوں پر حملہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرامؓ کی محبت، عقیدت، اور دفاع کے فریضہ میں مخلص بنائے اور امت کو متحد و بیدار فرمائے۔ آمین یا رب العالمین




#Sahaba | #YaumeSahaba | #AzmateSahaba |#DifaeSahaba | #NamooseSahaba | #Newspaper | #News | #NamooseSahaba | #MTIH | #TIMS

”یومِ صحابہؓ“: غیرتِ ایمانی کی تجدید کا دن!

 ”یومِ صحابہؓ“: غیرتِ ایمانی کی تجدید کا دن!

اصحابِ رسول ﷺ وہ مقدس ہستیاں ہیں جنہوں نے اپنی جان، مال، خاندان، خواہشات اور پوری زندگی اللہ، رسول اور دینِ اسلام کے لیے قربان کر دی۔ ان کے اخلاص، استقامت، فداکاری اور نبی ﷺ سے بے مثال محبت کی گواہی خود قرآن نے دی: ”رَضِيَ ٱللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا۟ عَنْهُ“۔ وہی صحابہؓ جنہوں نے قرآن کو محفوظ کیا، حدیث کو روایت کیا، اسلام کو پوری دنیا تک پہنچایا، آج اُن کی شان میں زبان دراز کرنا، سوشل میڈیا پر اُن کی توہین کرنا اور اجتہادی اختلافات کو بنیاد بنا کر ان پر طعن کرنا نہایت افسوسناک، خطرناک اور درحقیقت ایمان سوز عمل ہے۔


دشمنانِ اسلام جانتے ہیں کہ اگر صحابہؓ کی عظمت دلوں سے نکال دی جائے تو دین کو مشکوک بنانا آسان ہو جائے گا۔ اسی لیے فتنہ پرور حلقے اہل بیتؓ کے نام پر دیگر صحابہؓ پر طعن کرتے ہیں، حالانکہ اہل بیتؓ خود دیگر صحابہؓ کی عزت کرتے تھے، ان کی امامت میں نماز پڑھتے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرتے۔ گستاخانِ صحابہ دراصل نبی ﷺ کے گستاخ ہیں، کیونکہ صحابہؓ ہی نبی ﷺ کی مجلس، جنگ، قربانی اور امانت کے وارث تھے۔


آج *”یومِ صحابہؓ“* اس عہد کی تجدید کا دن ہے کہ ہم اُن مقدس ہستیوں کے دفاع میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پروا نہیں کریں گے۔ کیونکہ امتِ مسلمہ کی خاموشی، بے حسی اور غیرت کا فقدان اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم ایمان کے قلعے سے دور ہو چکے ہیں۔ اگر آج ہم نے صحابہؓ کے دفاع میں زبان نہ کھولی، نسلوں کو ان کی سیرت نہ سنائی، گستاخوں کو جواب نہ دیا، تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی اور قیامت کے دن ہمیں نبی ﷺ اور اُن کے یاروں کے سامنے جواب دینا ہوگا۔


*یاد رکھو! دفاعِ صحابہ ایمان کی علامت ہے، غیرت کا تقاضا ہے اور امت کے مستقبل کا تحفظ ہے۔*


لہٰذا اُٹھو، جاگو، اور *”یومِ صحابہؓ“* مبارک موقع پر صحابہؓ کے عشق کا پرچم تھام کر باطل کو للکار دو! ان شاء اللہ دنیا بھی سنورے گی، اور آخرت بھی۔


ہم اصحابِ نبیؐ کے خادم ان کے نوکر ہیں

یہ نسبت ہے ہماری، یہ فخر کا جوہر ہے

اگر کوئی کرے توہین یاروں کی نبیؐ کے

تو پھر ہمارا ہر لفظ شمشیرِ جوہر ہے


فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

18 جولائی 2025ء بروز جمعہ

بموقع : ”یومِ صحابہؓ“


#Sahaba | #YaumeSahaba | #AzmateSahaba |#DifaeSahaba | #NamooseSahaba | #Newspaper | #News | #NamooseSahaba | #MTIH | #TIMS

Monday, 14 July 2025

اسلاموفوبک فلمیں: سچائی کو چھپانے کا نیا ہتھیار!

 اسلاموفوبک فلمیں: سچائی کو چھپانے کا نیا ہتھیار!

✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


 ہندوستان میں حالیہ برسوں میں فلم اور میڈیا کے ذریعہ جو بیانیہ قائم کیا جا رہا ہے، وہ تخلیقی آزادی یا آزادی اظہار رائے کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک منظم سیاسی، سماجی اور نظریاتی پروپیگنڈا ہے، جس کا مقصد صرف مسلمانوں کو نشانہ بنانا نہیں بلکہ اس ملک کے اندر جاری اصلی مسائل، ظلم و ناانصافی اور سماجی و آئینی جرائم سے عوام کی توجہ ہٹانا بھی ہے۔ ”دی کشمیر فائلز“، ”دی کیرالہ اسٹوری“ اور تازہ ترین ”ادے پور فائلز“ جیسی فلمیں اسلاموفوبیا کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ ایک بڑی اور خطرناک چال کا حصہ ہیں، جس کے ذریعے اصل حقائق کو چھپایا جا رہا ہے، تاریخ کو مسخ کیا جا رہا ہے، اور اکثریتی عوام کے ذہنوں میں مسلمانوں کے خلاف زہر گھولا جا رہا ہے۔ ان فلموں میں مسلمانوں کو دہشت گرد، غدار، سماج دشمن اور ملک مخالف قوت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہی مسلمان اس ملک کی ترقی، تاریخ، تہذیب، آزادی اور ثقافت کا ایک ناقابلِ انکار حصہ رہے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے آج میڈیا، فلمی دنیا اور حکومت کی ملی بھگت سے انہیں ایک فرضی بیانیے کے تحت کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا ہے۔ اگر واقعی ملک میں انصاف، سچائی اور انسانیت پر مبنی فلمیں بنانی ہوں تو انہیں ان مظلوم مسلمانوں پر بنانا چاہیے جنہیں نظامِ عدل نے بغیر کسی جرم کے دہائیوں تک قید و بند میں رکھا۔



”ادے پور فائلز“ جیسی فلمیں کنہیا لال کے قتل کے آڑ میں پورے اسلام کو بدنام کرنے کی مذموم کوشش کرتی ہیں، لیکن کیا آج تک کسی فلم ساز کو یہ توفیق ہوئی کہ وہ 2002ء کے گجرات فسادات پر ”گجرات فائلز“ بنائے؟ وہ نسل کشی جس میں ہزاروں مسلمانوں کو زندہ جلا دیا گیا، حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کیے گئے، مسجدیں شہید کی گئیں، اور پوری بستیوں کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا گیا، اس پر کوئی فلم کیوں نہیں بنی؟ کیوں نہیں دکھایا گیا کہ کیسے بی جے پی کے نظامِ حکومت نے ان فسادات میں اپنی ناکامی یا ملی بھگت کو چھپانے کی کوشش کی؟ کیا یہ سچائی دکھانے سے سماج کو فائدہ نہیں ہوگا؟ لیکن چونکہ ان سچائیوں سے اکثریت کی خاموش حمایت اور حکومت کی ناکامی بے نقاب ہوتی ہے، اس لیے یہ فلمیں کبھی وجود میں نہیں آتیں۔ 


اسی طرح 1989ء کے بھاگلپور فسادات، جس میں مسلمانوں کا بے دریغ قتل عام ہوا، سیکڑوں عورتوں کی عصمتیں لوٹی گئیں، اور ہزاروں افراد بے گھر ہوئے، آج تک فلمی پردے پر نظر نہیں آئے۔ جبکہ یہی میڈیا اور فلمی دنیا ہر اس واقعہ پر فوراً متحرک ہو جاتی ہے جہاں کوئی فرد واحد کسی قابلِ مذمت حرکت کا ارتکاب کرے، اگر وہ مسلمان ہو۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ سارا نظام انصاف، میڈیا اور فلمی دنیا کا ایک گٹھ جوڑ ہے جو ملک کے عوام کو اصل مسائل سے غافل رکھ کر ایک فرضی دشمن تراشتا ہے تاکہ ان کا غصہ، ان کی مایوسی اور ان کی بے بسی مسلمانوں پر نکالی جا سکے۔


 ملک کی عدلیہ نے اکشردھام حملے کے الزام میں گرفتار مفتی عبد القیوم منصوری کو گیارہ سال سلاخوں کے پیچھے رکھنے کے بعد باعزت بری کیا، اور کہا کہ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تھا۔ لیکن ان کی تباہ شدہ زندگی پر کوئی فلم کیوں نہیں بنی؟ ان کے خاندان کی بربادی، ان کے جذباتی اور نفسیاتی صدمات پر کوئی کیمرہ کیوں نہیں گیا؟ کیا ایک بے گناہ مسلمان کی زندگی کی قیمت اس ملک میں اتنی کم ہو چکی ہے کہ اس کی کہانی کو سننے کے قابل بھی نہیں سمجھا جاتا؟ درحقیقت یہ خاموشی خود ایک جرم ہے، اور اس خاموشی کو چھپانے کے لیے ”کشمیر فائل“ اور ”ادے پور فائلز“ جیسے شور پیدا کیے جاتے ہیں تاکہ اصل سچائی پس منظر میں دفن ہو جائے۔ ہزاروں مسلمان نوجوان آج بھی جیلوں میں سڑ رہے ہیں، جن پر دہشت گردی کے فرضی الزامات لگائے گئے۔ سالوں بعد جب عدالتیں انہیں باعزت بری کرتی ہیں تو نہ کوئی معاوضہ، نہ کوئی معافی، نہ ہی کوئی پچھتاوا نظر آتا ہے۔ ان کی تباہ شدہ جوانی، ان کی ماؤں کی سسکیاں، ان کے بچوں کی بھوکی آنکھیں، ان سب پر کوئی فلم نہیں بنتی، کیونکہ یہ سچ فلموں کے اسکرپٹ میں فٹ نہیں بیٹھتا۔ یہاں فلم وہی بنتی ہے جو مسلمانوں کو ولن دکھائے، وہ نہیں جو سسٹم کی بدعنوانی، نفرت کی سیاست اور فرقہ پرست ذہنیت کو بے نقاب کرے۔


بابری مسجد کی شہادت ایک تاریخی سانحہ ہے۔ دن دہاڑے ایک تاریخی عبادت گاہ کو گرا دیا گیا، اور بعد میں عدالت نے یہ مانا کہ وہ توڑنا غیر قانونی تھا اور مسجد کسی مندر پر نہیں بنا تھا، لیکن پھر بھی زمین مندر کو دے دی گئی۔ کیا یہ انصاف ہے؟ کیا اس پر فلم بنانا ملک کی عوام کو سچ سے روشناس کرانا نہیں ہے؟ کیوں نہیں دکھایا جاتا کہ اس ملک میں کس طرح اکثریتی دباؤ اور مذہبی سیاست کے تحت عدالتی فیصلے بھی متاثر ہوتے ہیں؟ اگر ”ادے پور فائلز“ ایک شخص کے قتل کے آڑ میں پورے مسلم سماج کو بدنام کرنے کیلئے بن سکتی ہے تو بابری مسجد کی شہادت پر کیوں نہیں؟ اس لیے کہ وہاں مظلوم مسلمان تھے، اور ظالم کی پشت پناہی اقتدار کر رہا تھا۔ 


مسلمان خواتین کی زندگی اس ملک میں دوہری تلوار کے نیچے ہے۔ ایک طرف ان کے مذہبی تشخص کو نشانہ بنایا جاتا ہے، پردے پر طنز کیے جاتے ہیں، شرعی نظام کو پسماندگی کہا جاتا ہے، اور دوسری طرف خود سماج میں انہیں بے پردگی، اسلام مخالف قوانین، اور ہراسانی کا سامنا ہے۔ ”سلی ڈیلز“ (Sulli Deals) اور ”بلّی بائی“ (Bulli Bai) جیسے ایپس پر ان کی نیلامی کی جاتی ہے، سوشل میڈیا پر ان کے حجاب کو نشانہ بنایا جاتا ہے، اور عدلیہ خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔ کیا ان مسلم خواتین کی عزت و عصمت اور ان کے خلاف ہونے والی بھگوا سازشوں پر آج تک کوئی فلم بنی؟ نہیں، کیونکہ یہاں مقصد صرف مسلمانوں کو نیچا دکھانا ہے۔


شریعت پر حملے ہو رہے ہیں، اسلامی تعلیمی اداروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، مدارس پر دہشت گردی کا لیبل چسپاں کیا جا رہا ہے، دارالعلوم دیوبند جس کے علماء کی بدولت ملک کو آزادی ملی اس ادارے کو دہشت گردی کا اڈا بتایا جارہا ہے، اور وقف املاک کو ہتھیانے کے لیے قانون بدلے جا رہے ہیں۔ لیکن یہ سب موضوعات کبھی کسی فلمی ڈائریکٹر کا موضوع نہیں بنتے۔ کیونکہ ان پر روشنی ڈالنا موجودہ حکومت کی پالیسیوں کو بے نقاب کرنا ہوگا، اور ایسا کوئی فلم ساز یا پروڈیوسر کرنے کو تیار نہیں کیونکہ ان کے مالی مفادات، حکومتی حمایت، اور پروپیگنڈا مشینری کا چکر اس کی اجازت نہیں دیتا۔


 اس تمام صورتحال کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ نہ صرف یہ فلمیں مسلمانوں کے خلاف نفرت بڑھاتی ہیں، بلکہ اصل سماجی، اقتصادی اور آئینی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹاتی ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری، تعلیمی بحران، کسانوں کی بدحالی، عدلیہ کی کمزوری، اور میڈیا کی جانبداری جیسے حقیقی مسائل کو پس منظر میں دھکیل کر ایک فرضی دشمن کی دیوار کھڑی کر دی گئی ہے تاکہ ہر سوال کو فرقہ واریت میں دفن کیا جا سکے۔یہ فلمیں دراصل حکومتی ناکامیوں کی پردہ پوشی کے لیے ایک شطرنج کا مہرہ ہیں، اور ان کا ہدف صرف مسلمان نہیں بلکہ وہ ہر شخص ہے جو انصاف، عقل، اور آئینی قدروں پر یقین رکھتا ہے۔ جو آج مسلمانوں کے خلاف زہر کو نظرانداز کرے گا، کل اسے خود اس زہر کا نشانہ بننا پڑے گا۔ نفرت کے اس کاروبار کا نقصان صرف اقلیتوں کو نہیں بلکہ پورے ملک کو ہوگا۔ ایک ایسا سماج جو انصاف اور سچائی پر نہیں بلکہ جھوٹ اور تعصب پر قائم ہو، وہ زیادہ دن قائم نہیں رہ سکتا۔


 یہ وقت ہے کہ ہم ان جھوٹے، گمراہ کن اور خطرناک بیانیوں کے خلاف ایک سچ پر مبنی، باوقار اور انسانیت نواز بیانیہ کھڑا کریں۔ ہمیں اب خاموشی، خوف یا وقتی مصلحت سے بالاتر ہو کر اس پروپیگنڈا کے طوفان کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہونا ہوگا۔ ہمیں اپنے قلم کو ہتھیار بنانا ہوگا، کیمرے کو سچ کا آئینہ بنانا ہوگا، آواز کو مظلوموں کی فریاد بنانا ہوگا، اور شعور کو بیداری کا پرچم بنانا ہوگا۔ ہمیں اس سرزمین پر ہونے والی نسل کشیوں، مذہبی ناانصافیوں، عدالتی زیادتیوں اور سماجی تفریق کی کہانیاں دنیا کے سامنے لانی ہوں گی۔ یہ وقت ہے کہ ہم صرف ”ادے پور فائلز“، ”کشمیر فائلز“ اور ”کیرالا اسٹوری“ جیسے جھوٹے فلم کے بیانیوں کا جواب نہیں بلکہ اس ملک کی حقیقی تاریخ، اصل المیوں اور مظلوم انسانوں کی پکار کو اجاگر کرنا ہوگا اور سچائی پر مبنی واقعات اور ظلم کی داستان کو دکھنا ہوگا۔ ہمیں دنیا کو یہ دکھانا ہوگا کہ ہندوستان صرف نفرت کی زمین نہیں، بلکہ سچائی، انصاف اور ضمیر والوں کی سرزمین بھی ہے۔ ہمیں یہ احساس دلانا ہوگا کہ اگر ظلم کے ساتھ طاقت ہے تو مظلوم کے ساتھ حق ہے، اگر پروپیگنڈا کے ساتھ پیسہ ہے تو سچ کے ساتھ خدا ہے۔ یہ جنگ صرف مسلمانوں کی نہیں ہے، بلکہ ہر اُس انسان کی ہے جو انصاف، عزتِ انسانی، برابری اور آئینی اقدار پر یقین رکھتا ہے۔ اگر ہم سب نے مل کر اب بھی خاموشی اختیار کی، تو آنے والی نسلیں صرف ہماری بے بسی کا نوحہ پڑھیں گی، ہمیں تاریخ کے کٹہرے میں لا کر کھڑا کریں گی اور سوال کریں گی کہ جب سچ پامال ہو رہا تھا، انصاف روندھا جا رہا تھا، اقلیتوں کو شیطان بنا کر پیش کیا جا رہا تھا،آئین اور قانون کی دھجیاں اڑائی جارہی تھیں؛ تب تم کہاں تھے؟ آج وقت ہے کہ ہم تاریخ کا صحیح رُخ متعین کریں۔ ایک ایسا رُخ جو سچ، عدل، امن، انسانیت، اور باہمی احترام پر قائم ہو، نہ کہ جھوٹ، نفرت، سیاسی مفاد اور اکثریتی تسلط پر۔ یہ تاریخ کا فیصلہ کن لمحہ ہے اور فیصلہ ہمیں کرنا ہے، آج، ابھی اور اسی وقت!

نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہند کے مسلمانو!

تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں 


فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

14؍ جولائی 2025ء بروز پیر


#UdaipurFiles #PaighameFurqan #Islamophobia #IslamobhopicFilm #Film #Bollywood #MTIH #TIMS #KashmirFiles #KeralaStory