صحابہؓ کی ناموس پر حملہ: سوشل میڈیا کا فتنہ اور ہماری ذمہ داریاں!
✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ
(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)
امت مسلمہ کا سب سے روشن اور عظیم باب، پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے وہ جان نثار رفقاء ہیں جنہیں ہم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کہتے ہیں۔ یہی وہ عظیم شخصیات ہیں جن کے ذریعے اللہ کا دین ہم تک پہنچا، جنہوں نے قرآن کی حفاظت کی، سنت کو زندہ رکھا، شریعت کو عملی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کیا، اور جن کے ایمان، تقویٰ، قربانی اور وفاداری کی گواہی خود قرآن نے دی۔ ’’رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ‘‘ (سورۃ التوبہ، 100)، ’’أُو۟لَـٰٓئِكَ كَتَبَ فِى قُلُوبِهِمُ ٱلْإِيمَانَ‘‘ (سورۃ المجادلہ، 22)، ’’وَكُلًّا وَعَدَ ٱللَّهُ ٱلْحُسْنَىٰ‘‘ (سورۃ النساء، 95)، جیسی آیاتِ کریمہ اس بات کی شاہد ہیں کہ صحابہ کرامؓ کی عظمت اللہ کے یہاں مسلم اور ثابت شدہ ہے۔ مگر افسوس کہ آج اسی برگزیدہ جماعت کی شان میں گستاخی ایک فیشن، بحث اور آزادیٔ اظہارِ رائے کے نام پر ایک کھلا فتنہ بن چکی ہے، اور اس فتنے کا سب سے مؤثر میدان سوشل میڈیا بن چکا ہے۔
سوشل میڈیا پر ایک مخصوص منظم طبقہ شعوری طور پر صحابہ کرامؓ کے مقام کو مشکوک بنانے، ان پر بے بنیاد الزامات لگانے، ان کی نیتوں پر حملہ کرنے اور فرقہ واریت کو ہوا دینے کی ناپاک کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ خاص طور پر مشاجراتِ صحابہ، یعنی ان کے باہمی اجتہادی اختلافات کو لیکر جو فتنہ کھڑا کیا جا رہا ہے، وہ انتہائی خطرناک ہے۔ یہ فتنہ اس لیے بھی حساس ہے کہ صحابہ کرامؓ کے یہ اختلافات اجتہادی نوعیت کے تھے، اور اہل السنۃ والجماعۃ کا اس پر متفقہ مؤقف ہے کہ ان اختلافات میں دونوں طرف اجتہاد تھا، جس میں مجتہد اگر درست نتیجہ پر پہنچے تو دوہرا اجر، اور اگر اجتہاد میں خطا ہو تب بھی ایک اجر ملتا ہے۔ مگر سوشل میڈیا پر بعض فتنہ پرور گروہ ان اختلافات کو جھگڑے، سازش، دنیا پرستی، اور ذاتی دشمنی کا رنگ دے کر صحابہ کرامؓ کے پاک دامن کو داغدار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
دراصل صحابہ کرامؓ کے خلاف زبان درازی اس لیے کی جا رہی ہے کیونکہ دینِ اسلام انہی کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے۔ قرآن کی آیات، سنت کی پیروی، شریعت کے احکام، سیرتِ نبوی ﷺ کے واقعات، سب کے سب انہی صحابہ کرامؓ کی روایت و تبلیغ سے ہم تک آئے ہیں۔ اگر صحابہؓ کی شخصیات کو مشکوک بنا دیا جائے، ان کی عدالت، امانت، دیانت اور نیتوں پر حملہ کیا جائے، تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ پورا دین مشکوک بن جائے گا۔ کیونکہ جب دین ہم تک پہنچانے والے ناقابلِ اعتماد ہوں گے تو دین بھی ناقابلِ قبول بنے گا۔ اسی شیطانی مقصد کے تحت دشمنانِ دین صحابہ کرامؓ کی عظمت پر وار کر رہے ہیں تاکہ لوگوں کو دین سے دور کیا جائے اور امت کو فکری طور پر تباہ کیا جائے۔
بدقسمتی سے اس فتنے کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ اہلِ بیتؓ کے نام پر دیگر صحابہؓ کو نشانہ بنایا جاتا ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے اہل بیتؓ کے نام پر خلفاء ثلاثہ، حضرت امیر معاویہؓ اور دیگر جلیل القدر صحابہؓ کی شان میں زبان درازی کی، وہ درحقیقت اہل بیتؓ کے بھی دشمن ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ اہل بیتؓ خود ان صحابہ کے احترام اور محبت کے قائل تھے۔ حضرت حسنؓ نے خلافت حضرت معاویہؓ کے سپرد کی، حضرت علیؓ نے حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کی امامت میں نماز پڑھی، اور حضرت فاطمہؓ ان کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آتی تھیں۔ حضرت علیؓ کے صاحبزادے محمد بن حنفیہؒ کا قول ہے: ’’کیا تم لوگ رسول اللہ ﷺ کے بعد سب سے بہتر شخص کو گالیاں دیتے ہو؟‘‘ اور وہ یہ بات حضرت ابوبکرؓ کے بارے میں کہہ رہے تھے۔ لہٰذا اہل بیتؓ کے نام پر دیگر صحابہؓ کی تنقیص ایک باطل فکری دھوکہ ہے جس سے خود اہل بیتؓ بری ہیں۔
اہل السنۃ والجماعۃ بالخصوص اکابر علمائے دیوبند کا اس مسئلہ پر مؤقف نہایت واضح، مدلل اور اعتدال پر مبنی ہے۔ ان حضرات نے نہ صرف صحابہ کرامؓ کی عظمت پر بے شمار کتب تحریر کیں، بلکہ گستاخانِ صحابہ کے فتنوں کا علمی و عوامی سطح پر ہمیشہ دفاع کیا۔ حضرت علامہ سید انور شاہ کشمیریؒ، شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ، حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ، حضرت مفتی محمد شفیع عثمانیؒ، جیسے علمائے ربانیین نے اس باب میں علمی قلعے تعمیر کیے ہیں۔ دیوبند کا مؤقف یہ ہے کہ مشاجراتِ صحابہ کے بارے میں خاموشی اختیار کی جائے، ان کے اعمال کی نیتوں پر حملہ نہ کیا جائے، اور صحابہ کرامؓ کے باہمی اجتہادی معاملات میں عدل و انصاف کے ساتھ زبان کو روکا جائے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے فرمایا: ’’ان مشاجرات میں ہمیں خاموشی اختیار کرنا ہی سلامتی کا راستہ ہے۔‘‘ (کتاب : ازالة الخفاء عن خلافة الخلفاء)
اس کے برعکس آج سوشل میڈیا پر گمنام اکاؤنٹس، یوٹیوب چینلز، نام نہاد خطیب اور شہرت کے بچاری پوری دیدہ دلیری سے حضرت امیر معاویہؓ، حضرت عمرو بن العاصؓ، حضرت مغیرہؓ جیسے جلیل القدر صحابہؓ کی شان میں کھلے الفاظ میں گستاخی کرنے تک کی جسارت کرتے ہیں۔ یہ وہی زبان ہے جو قدیم رافضیوں کی تھی، جسے آج کے فتنہ پرور دہراتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو شخص ایک بھی صحابی کو گالی دیتا ہے، یا اس کی نیت پر حملہ کرتا ہے، وہ صرف اسی صحابی کا گستاخ نہیں بلکہ درحقیقت رسول اللہ ﷺ کی صحبت کا انکار کر رہا ہوتا ہے۔ کیونکہ صحابہ کرامؓ کے ساتھ گستاخی دراصل نبی اکرم ﷺ کے انتخاب پر اعتراض ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’میرے صحابہؓ کے بارے میں اللہ سے ڈرو، میرے بعد ان کو نشانہ نہ بناؤ۔‘‘ (ترمذی)
اس لیے علماءِ کرام کا اس پر اتفاق ہے کہ جو شخص صحابہ کرامؓ کی تنقیص، طعن یا سبّ و شتم کرتا ہے، وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔ علامہ ابن تیمیہؒ، امام مالکؒ، امام احمد بن حنبلؒ اور دیگر ائمہ کرام اس پر متفق ہیں کہ صحابہؓ کی گستاخی، نبی اکرم ﷺ کی گستاخی کے مترادف ہے، اور وہ شخص مسلمان نہیں رہتا۔ علماء دیوبند فرماتے ہیں کہ: ’’جس نے ایک صحابیؓ کو برا کہا، اس نے گویا ان سب کو برا کہا جن کے ذریعے دین ہم تک پہنچا، اور گویا وہ دین کی پوری بنیاد کو منہدم کر رہا ہے۔‘‘
اب سوال یہ ہے کہ ہم امت کے ہر فرد کی حیثیت سے کیا کر رہے ہیں؟ کیا ہم ان گستاخیوں پر خاموش رہ کر خود بھی اس جرم میں شریک نہیں ہو رہے؟ کیا سوشل میڈیا پر ان گستاخانہ ویڈیوز کو دیکھ کر، شیئر کر کے، یا لائک کر کے ہم صحابہ کرامؓ کی توہین میں حصہ نہیں ڈال رہے؟ یہ وقت ہے کہ ہم امت کو بیدار کریں، خاص طور پر نوجوان نسل کو اس فتنے سے بچائیں، ان کی ذہن سازی کریں، اور علمی، قانونی، اور فکری محاذ پر بھرپور دفاع کریں۔ ہمارے ادارے، تنظیمیں، مدارس، مساجد، سب کو اس مقصد کے لیے منظم ہونا ہوگا۔ ہمیں صحابہ کرامؓ کے فضائل، ان کی قربانیوں، اور ان کے دینی خدمات کو مسلسل اجاگر کرنا ہوگا، تاکہ امت کے دل میں ان کی محبت، عزت، اور عقیدت راسخ ہو۔
مرکز تحفظ اسلام ہند جیسے ادارے اسی بیداری کی عملی مثال بن کر میدان میں اترے ہیں۔ عظمتِ صحابہ کانفرنس جیسے پروگرام اس بات کی علامت ہیں کہ امت اب بیدار ہو رہی ہے۔ مگر یہ بیداری اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی جب تک ہم ہر پلیٹ فارم پر، ہر سطح پر، اور ہر طریقہ سے صحابہ کرامؓ کا دفاع نہ کریں، اور ان کے خلاف اٹھنے والی ہر زبان کو علم، دلیل، محبت اور غیرتِ ایمانی سے خاموش نہ کر دیں۔
لہٰذا، اب وقت آ چکا ہے کہ ہم صرف محبتِ صحابہ کو دل میں رکھنے پر اکتفا نہ کریں، بلکہ ان کی ناموس کے تحفظ کے لیے کھل کر سامنے آئیں۔ یاد رکھیں! صحابہؓ کی عظمت پر حملہ درحقیقت اسلام پر حملہ ہے، اور جو شخص اس حملے پر خاموش ہے وہ خود بھی ایمان کے خطرے میں ہے۔ آج ہر مسلمان، ہر نوجوان، ہر عالم، ہر خطیب، اور ہر ادارے پر یہ شرعی، اخلاقی اور تاریخی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ناموسِ صحابہؓ کے تحفظ کے لیے سینہ سپر ہو، اور امت کو اس فتنے کے خلاف یکجا کرے۔ یہی ہماری دینی غیرت کا تقاضا ہے، اور یہی ہماری نسلوں کے ایمان کی حفاظت کا واحد راستہ ہے۔ اگر ہم نے آج دفاعِ صحابہؓ کے فریضے کو پسِ پشت ڈال دیا، تو آنے والی نسلوں کے ایمان پر اس کا سنگین اثر پڑے گا۔ وہ ہمیں معاف نہیں کریں گی، اور قیامت کے دن اللہ کے دربار میں ہمیں ان کی گمراہی اور اپنے سکوت کا جواب دینا ہوگا۔
اب نہیں وقت کہ خاموش تماشائی بنیں
ناموسِ صحابہؓ پر جو حملہ ہو، صف آرائی کریں
فقط و السلام
بندہ محمّد فرقان عفی عنہ
11؍ جولائی 2025، بروز جمعہ
#Sahaba | #AzmateSahaba | #NamooseSahaba | #MTIH | #TIMS