Monday, 28 July 2025

اسلامی نکاح پر اعتراضات کا علمی و عقلی تجزیہ!

 اسلامی نکاح پر اعتراضات کا علمی و عقلی تجزیہ! 

✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

اسلامی تعلیمات کی روشنی میں نکاح محض ایک سماجی معاہدہ نہیں بلکہ ایک مقدس بندھن، عبادت، فطرت کی تکمیل اور روحانی پاکیزگی کا ذریعہ ہے۔ یہ محض دو افراد کا ملاپ نہیں، بلکہ دو خاندانوں، دو نسلوں، اور دو دلوں کا باوقار، باہمی فہم و تعاون پر مبنی تعلق ہے۔ لیکن جدید دور میں جب عقل کو مذہب سے کاٹ دیا گیا، اور خواہشات کو آزادی کا لباس پہنا دیا گیا، تو بہت سے لوگ خصوصاً وہ جو الحاد یا مذہب بیزاری کی طرف مائل ہو گئے، اسلامی نکاح کے اصولوں پر اعتراضات کرنے لگے۔ ان میں بعض ایکس مسلم کہلائے جانے والے بھی ہیں، جو یا تو جذباتی یا فکری الجھن کا شکار ہوئے، یا مغربی پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر دین اسلام پر سوالات اٹھانے لگے۔ ان اعتراضات کا مقصد بظاہر بعض اوقات حق کی تلاش ہوتا ہے، تو بعض اوقات صرف مخالفت برائے مخالفت۔ لیکن اسلام سچائی کا دین ہے۔ یہ نہ اندھی تقلید سکھاتا ہے، نہ اندھا انکار۔ یہ دلیل، فطرت اور وحی کا حسین امتزاج ہے۔ اس لیے ہم ان اعتراضات کو سنجیدگی سے لیتے ہیں، اور ان کے جوابات بھی اسی سنجیدگی، محبت اور دلائل کے ساتھ دیتے ہیں۔


پہلا اعتراض جو اکثر کیا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ اسلام میں مرد کو عورت پر فوقیت دی گئی ہے، اور نکاح میں بھی مرد حاکم اور عورت محکوم ہے۔ حالانکہ یہ دعویٰ حقیقت سے کوسوں دور ہے۔ قرآن کہتا ہے: "وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ"* یعنی "عورتوں کے ساتھ حسن سلوک سے رہو۔" (النساء: 19)۔ اس ایک جملے میں اسلام کے خاندانی نظام کی بنیاد پوشیدہ ہے؛ حسن سلوک، محبت، مہربانی اور انصاف۔ اسلام نے مرد کو قوام ضرور بنایا، لیکن اس لیے نہیں کہ وہ عورت پر ظلم کرے، بلکہ اس لیے کہ وہ اس کی حفاظت، کفالت اور رہنمائی کرے۔ قوامیت، حاکمیت نہیں بلکہ خدمت کی ذمہ داری ہے، جیسا کہ ایک ملاح اپنے جہاز کو سنبھالتا ہے، نہ کہ اسے تباہ کرتا ہے۔


پھر سوال کیا جاتا ہے کہ اسلام میں مرد کو چار شادیاں کیوں جائز ہیں جبکہ عورت کو نہیں؟ اور یہ باور کرایا جاتا ہے کہ یہ غیر مساوات ہے، مگر درحقیقت یہ ایک فطری، سماجی اور نفسیاتی حکمت پر مبنی اصول ہے۔ مرد اور عورت کی حیاتیاتی ساخت (Biological Structure)، تولیدی صلاحیت (Fertility)، جذباتی مزاج (Emotional temperament)، اور سماجی کردار (Social Role) یکساں نہیں۔ ایک عورت صرف ایک وقت میں ایک ہی مرد سے حاملہ ہو سکتی ہے، اور بچہ پیدا ہونے کے بعد کئی ماہ و سال تک ماں کی شدید توجہ اور پرورش کا محتاج ہوتا ہے۔ اس دوران ماں کا تعلق اور ذمہ داری ایک شوہر اور بچے تک محدود ہوتی ہے۔ برخلاف اس کے، مرد کی تولیدی صلاحیت مسلسل جاری رہتی ہے، اور وہ بیک وقت کئی بیویوں اور بچوں کی کفالت کر سکتا ہے بشرطیکہ وہ عدل کرے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے چار شادیوں کی اجازت مشروط کی: "فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً" (النساء: 3) یعنی "اگر عدل نہ کر سکو تو ایک ہی پر اکتفا کرو۔" یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ معاشرے میں بیواؤں، مطلقہ خواتین، یا غیر شادی شدہ خواتین کی تعداد بعض اوقات مردوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے، خاص کر جنگوں، قدرتی آفات یا سماجی عوامل کے بعد۔ اس وقت تعددِ ازوجات ان خواتین کے لیے ایک باعزت زندگی کی ضمانت بن جاتا ہے۔ جس معاشرے نے اس کو رد کیا، وہاں یا تو خواتین "live-in relationships" کا شکار ہوئیں، یا بازاروں کی زینت بن گئیں۔


ایک اور اعتراض اکثر سننے کو ملتا ہے کہ اسلامی نکاح میں عورت کی مرضی کو ثانوی حیثیت دی گئی ہے، اور ولی کا کردار زبردستی مسلط کیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ ایک بنیادی غلط فہمی ہے۔ اسلام عورت کی مرضی کے بغیر نکاح کو باطل قرار دیتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "بیوہ عورت کی شادی بغیر اس کی اجازت کے نہ کی جائے، اور کنواری سے اجازت لی جائے، اور اس کی خاموشی (انکار نہ کرے) اس کی اجازت ہے۔" (صحیح مسلم)۔ ولی کا کردار عورت کی حفاظت کے لیے ہے، نہ کہ اس کی آزادی کو سلب کرنے کے لیے۔ ولی اس وقت تک مداخلت کرتا ہے جب لڑکی کوئی غیر معقول فیصلہ کرے، یا جذبات میں آکر اپنے یا خاندان کے لیے نقصان دہ قدم اٹھائے۔ عقلی اعتبار سے بھی دیکھیں تو شادی جیسا اہم فیصلہ جس کا اثر پوری زندگی، نسل اور معاشرت پر پڑتا ہے، محض ایک فرد کا ذاتی فیصلہ نہیں ہو سکتا، خاص کر جب وہ فرد تجربے یا فہم سے عاری ہو۔ ایک بالغ، باشعور لڑکی جسے زندگی کا تجربہ ہے، اگر وہ خود فیصلہ کرے تو شریعت اس پر سختی نہیں کرتی، بلکہ اس کے ولی کو اس کی رائے کا احترام لازم ہے۔


کچھ لوگ اسلامی مہر پر بھی اعتراض کرتے ہیں، کہ یہ گویا عورت کی قیمت ہے۔ لیکن دراصل مہر عورت کا "حق" ہے، قیمت نہیں۔ قیمت وہ ہوتی ہے جو مالک کو ملتی ہے، جبکہ مہر عورت خود وصول کرتی ہے، یہ اس کے احترام، تحفظ، اور اس رشتے کی سنجیدگی کا نشان ہے۔ قرآن نے فرمایا: "وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً" یعنی "عورتوں کو ان کا مہر خوش دلی سے ادا کرو۔" (سورۃ النساء: 4)۔ حیرت کی بات ہے کہ جو لوگ تحفے تحائف، ڈیٹ، رِنگ، اور سفر پر لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں، وہ نکاح کے وقت مہر پر سوال اٹھاتے ہیں، حالانکہ مہر عورت کی مالی آزادی اور خودمختاری کی علامت ہے۔


اسی طرح بعض افراد کو یہ اعتراض ہوتا ہے کہ طلاق کا اختیار مرد کو ہے، عورت کو نہیں۔ حالانکہ اسلام میں عورت کو بھی مکمل حق دیا گیا ہے؛ خلع، عدالتی فسخ اور اس کے کئی طریقے موجود ہیں۔ مرد کو طلاق کا حق فوری طور پر اس لیے دیا گیا کہ وہ مالی و قانونی ذمہ دار ہے، اور اسے خاندان کے استحکام کو ذہن میں رکھنا ہوتا ہے۔ عورت کے لیے بھی شرعی عدالت کا دروازہ کھلا ہے، تاکہ وہ بغیر عدل و فکر کے محض جذبات میں آکر نکاح نہ توڑے۔ اسلام کی نظر میں طلاق اگرچہ ایک ناگوار اور ناپسندیدہ عمل ہے، لیکن اگر صلح و صفائی کے تمام طریقے ناکام ہو جائیں اور زوجین کے درمیان اعتماد ختم ہو جائے، تو نکاح کو زبردستی برقرار رکھنا ظلم بن جاتا ہے۔ ایسی صورت میں زندگی تنگی، نفرت اور گناہوں کا باعث بن سکتی ہے۔ اسلام میں طلاق ناپسندیدہ ضرور ہے، لیکن مجبوری کی حالت میں اسے جائز قرار دیا گیا ہے تاکہ میاں بیوی سکون کے ساتھ اپنی راہ جدا کر سکیں۔ ایسے حالات میں طلاق ایک رحمت پر مبنی شریعت کا حل ہے، جس سے دونوں کو نئی زندگی شروع کرنے کا موقع ملتا ہے۔


بعض لوگ نکاح میں عمر کی کوئی حد نہ ہونے پر اعتراض کرتے ہیں، اور اسلام پر الزام لگاتے ہیں کہ اس نے بچپن میں شادی کی اجازت دے کر بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی کی ہے، حالانکہ یہ اعتراض دراصل اسلامی نکاح کے صحیح مفہوم سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔ اسلام میں نکاح کو صرف ایک ابتدائی معاہدہ (Contract) تصور کیا گیا ہے، نہ کہ فوراً ازدواجی زندگی کا آغاز۔ اگر کسی کم عمر بچے یا بچی کا نکاح کر بھی دیا جائے تو اس کے عملی تقاضے، جیسے جسمانی تعلق، صرف اس وقت جائز اور نافذ ہوتے ہیں جب وہ بلوغت کو پہنچ کر ذہنی طور پر سمجھدار ہو جائے اور ازدواجی زندگی کی ذمہ داریاں اٹھانے کے قابل ہو۔ یہ اصول دراصل بچوں کے تحفظ اور ان کی فلاح کا ضامن ہے، کیونکہ اسلام کسی پر ایسی ذمہ داری نہیں ڈالتا جو وہ سمجھ اور جسمانی طور پر اٹھانے کے لائق نہ ہو۔ اس طرح اسلامی تعلیمات بچوں کے حقوق کی حفاظت اور ان کی جسمانی و ذہنی صحت کے احترام پر مبنی ہیں، نہ کہ ان کی خلاف ورزی پر۔ دوسری طرف، دنیا بھر کے سیکولر قوانین میں بھی "کم عمری کی شادی" کی تعریف متغیر ہے۔ امریکہ کی کئی ریاستوں میں آج بھی 14–16 سال کی عمر میں والدین کی رضامندی یا عدالتی اجازت کے ساتھ شادی ممکن ہے۔ سچ یہ ہے کہ مسئلہ عمر کا نہیں بلکہ شعور، رضامندی، اور فطرت کی تکمیل کا ہے۔ اسلامی قانون نے انہی اصولوں کو بنیاد بنایا۔ اگر کوئی بالغ، سمجھدار لڑکی خود یا والدین کی رضامندی سے نکاح کرے تو اس پر اعتراض صرف اس لیے کرنا کہ وہ "کم عمر" ہے، ایک تہذیبی تعصب ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کے دور میں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ہزاروں کم سن لڑکے اور لڑکیاں "Boyfriend" اور "Girlfriend" کے نام پر بے حیائی میں مبتلا ہیں، ناجائز تعلقات عام ہیں، اور معاشرہ خاموش تماشائی بنا ہوا ہے، کسی کو اس پر اعتراض نہیں ہوتا۔ لیکن جب اسلام ایک پاکیزہ، ذمہ دار اور باقاعدہ نکاح جیسے مقدس رشتے کے ذریعے زندگی کو نظم و اخلاق کا پابند بناتا ہے، تو اسی پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نکاح انسان کی فطری ضرورت کو عزت، تحفظ، اور شریعت کے دائرے میں پورا کرنے کا ذریعہ ہے، جب کہ آزاد تعلقات معاشرتی بگاڑ، ذہنی تناؤ اور اخلاقی زوال کا سبب بنتے ہیں۔ اسلام کی تعلیمات زندگی کو باحیا اور متوازن رکھنے کے لیے ہیں، نہ کہ کسی کی آزادی کو سلب کرنے کے لیے۔



ایک اور اعتراض یہ ہے کہ نکاح عورت کی آزادی کو محدود کرتا ہے، اسے گھر، شوہر اور بچوں کے دائرے میں قید کر دیتا ہے۔ اس اعتراض کا جواب بہت واضح ہے: جو شخص آزادی کو صرف جسمانی خواہش، بے لگام تعلقات، اور خاندانی ذمہ داری سے انکار کے طور پر سمجھتا ہے، وہ کبھی نکاح کی حکمت کو نہیں سمجھ سکتا۔ اسلام میں نکاح دونوں کے لیے سکون، اطمینان، محبت اور تعاون کا ذریعہ ہے: "وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً" (سورہ الروم: 21)۔ عورت نکاح میں قید نہیں ہوتی، بلکہ وہ تسلیم شدہ، محفوظ، محبت سے بھرپور تعلق میں شامل ہوتی ہے، جہاں اس کے حقوق اور اس کی عزت کی ضمانت دی جاتی ہے۔ اس کے برخلاف جو مغربی معاشرے نے “freedom” کے نام پر "Live-in relationships" اور casual تعلقات کو فروغ دیا، وہاں نہ صرف عورت بلکہ بچے بھی قانونی تحفظ سے محروم ہو گئے۔ سائنسی مطالعات (جیسے CDC USA، Pew Research) بتاتے ہیں کہ live-in تعلقات میں طلاق کی شرح، domestic violence، اور بچوں میں ذہنی پریشانی کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ نکاح ایک قانونی، روحانی اور سماجی معاہدہ ہے، جو نہ صرف جسموں کو، بلکہ دلوں اور خاندانوں کو جوڑتا ہے۔


کچھ لوگ کہتے ہیں کہ نکاح ایک “پرانی روایتی چیز” ہے، جو آج کے جدید، ترقی یافتہ معاشرے کے لیے موزوں نہیں۔ یہ اعتراض بھی دراصل “زمانہ پرستی” (chronological snobbery) کا شکار ہے؛ یعنی ہر نئی چیز اچھی اور ہر پرانی چیز دقیانوسی! لیکن تاریخ شاہد ہے کہ جن معاشروں نے نکاح کو کمزور کیا، وہاں خاندان ٹوٹ گئے، جنسی تعلقات بے اصول ہو گئے، بچے والدین کے بغیر یا سنگل والدین کے ساتھ محرومی میں پلنے لگے، اور خود عورت سب سے زیادہ استحصال کا شکار بنی، خواہ وہ جسم فروشی کی صنعت ہو، یا ورک پلیس پر ہراسانی، یا اکیلی ماں بننے کا درد۔ اس کے برخلاف اسلام نے عورت کو ماں، بیوی، بیٹی، بہن کے ہر روپ میں تحفظ دیا، اور نکاح کو اس تحفظ، عزت، محبت اور سکون کی ضمانت بنایا۔ اسلام نکاح کو شہوت کی تسکین کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک مقدس عبادت قرار دیتا ہے۔ وہ اسے نسلِ انسانی کی بقا، مرد و عورت کی روحانی و جذباتی تکمیل، اور ایک صالح معاشرے کی بنیاد کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اگر اسلام میں بعض حدود مقرر کی گئی ہیں، جیسے مہر، عدل، قوامیت، خلع، طلاق یا تعددِ ازوجات، تو یہ سب انسان کی فطرت، معاشرتی تقاضوں اور انسانی کمزوریوں کو سامنے رکھ کر دی گئی ہیں۔ ان حدود کا مقصد مرد کو برتری دینا نہیں، بلکہ دونوں کے لیے توازن، حفاظت، سکون اور باہمی تعاون فراہم کرنا ہے۔


یہاں ایک اور اہم بات واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ اعتراض کرنے والوں میں بعض sincere اور سوالات کے ذریعے سچ کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ ان کے لیے دعوتِ فکر کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہنا چاہیے۔ ہمیں سختی، طنز یا نفرت کے بجائے محبت، دلائل اور حکمت سے بات کرنی چاہیے، کیونکہ قرآن خود کہتا ہے: "ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ" (النحل: 125) یعنی "اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت سے بلاؤ۔" اگر کوئی شخص اسلام میں نکاح کے اصولوں کو "پسماندہ" یا "ظالمانہ" سمجھتا ہے تو اسے دعوت ہے کہ وہ صرف اعتراض نہ کرے، بلکہ قرآن، سنت، اور فطری عقل کے ساتھ اس نظام کو سمجھے، اس کی حکمت کو دیکھے، اس کے نتائج کو دوسروں نظاموں سے تقابل کرے۔ ان شاء اللہ، جس دل میں انصاف کی طلب ہوگی، وہ دل اس نظام کے حسن کے آگے جھک جائے گا۔ ہم سب کی یہ ذمہ داری ہے کہ ہم اسلام کے خاندانی نظام کو صرف زبانی نہ بیان کریں، بلکہ خود اپنی زندگیوں میں نکاح کو واقعی محبت، سکون، حسنِ سلوک، عدل، اور وفاداری کا نمونہ بنائیں۔ تب ہی ہم سچائی کے علمبردار بن کر دنیا کو دکھا سکیں گے کہ اسلام نہ صرف عبادت، عقیدہ اور روحانیت کا دین ہے، بلکہ انسانی تعلقات، ازدواجی زندگی، اور معاشرتی استحکام کا بھی کامل نظام ہے۔


فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

03؍ جولائی 2025ء بروز جمعرات


+91 8495087865

mdfurqan7865@gmail.com


#Nikah #Marriage #IslamicNikah #IslamicMarriage #PaighameFurqan #MTIH #TIMS

No comments:

Post a Comment