Thursday, 18 September 2025

وقف بچاؤ دستور بچاؤ تحریک: ملت کا اجتماعی فریضہ!

 وقف بچاؤ دستور بچاؤ تحریک: ملت کا اجتماعی فریضہ!

✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


وقف اللہ کی دی ہوئی ایک عظیم امانت ہے جسے ہمارے بزرگوں نے آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کیا تھا، یہ محض زمین یا جائیداد نہیں بلکہ ہماری تہذیب، دین اور ملی تشخص کی بنیاد ہے۔ وقف کی زمینوں پر تعمیر مساجد، مدارس، خانقاہیں، عیدگاہیں اور قبرستانوں کا استعمال ہر ایک مسلمان کرتا چلا آرہا ہے اور ان وقف کے ادارے نے صدیوں تک مسلمانوں کو تعلیم، روزگار، صحت اور فلاحی سہولیات بھی فراہم کیں اور امت کو اپنے پیروں پر کھڑا رکھا۔ آج جب حکومت وقف املاک پر قبضہ کرنے، ان کے نظام کو توڑنے اور مسلمانوں کو ان کے اپنے اداروں سے محروم کرنے کے لیے وقف ترمیمی قانون 2025 نافذ کرنے کی کوشش کر رہی ہے تو یہ صرف ایک قانونی مسئلہ نہیں بلکہ ملت اسلامیہ کے وجود اور مستقبل کا سوال ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے حالات کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے "وقف بچاؤ دستور بچاؤ تحریک" کا آغاز کیا اور اب اس تحریک کا دوسرا مرحلہ ہمارے سامنے ہے، یہ وہ مرحلہ ہے جس میں صرف بیانات اور قراردادیں کافی نہیں بلکہ عملی جدوجہد اور اجتماعی قربانیاں لازمی ہیں۔


آج ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ اگر یہ قانون نافذ ہو گیا اور وقف کی جڑیں کاٹ دی گئیں تو ہمارے مدارس، مساجد، خانقاہیں، قبرستانیں، یتیم خانے اور دینی و فلاحی اداروں کو ہڑپ لیا جائے گا؟ یہ قانون ہمارے اجتماعی وجود پر حملہ ہے، ہماری دینی شناخت پر وار ہے اور ہماری آئینی آزادی کو سلب کرنے کی کوشش ہے۔ دستور ہند نے ہمیں مذہبی آزادی دی ہے، اپنے اداروں کو چلانے کا حق دیا ہے اور اپنے مذہبی قوانین کے مطابق زندگی گزارنے کی ضمانت دی ہے، لیکن وقف ترمیمی قانون ان تمام بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے ایک واضح اور منظم روڈ میپ تیار کیا ہے تاکہ اس قانون کو ناکام بنایا جا سکے اور امت کو بیدار کر کے اجتماعی جدوجہد کی جائے۔


آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ ہمیں اپنی تحریک کو محض جذباتی نعروں پر محدود نہیں رکھنا بلکہ عملی اقدامات کے ذریعے آگے بڑھانا ہے۔ ہمیں اپنی مساجد اور مدارس کے منبروں کو بیداری کا ذریعہ بنانا ہے، ہمارے ائمہ اور خطباء کو عوام کے سامنے اس قانون کی حقیقت بیان کرنی ہے اور یہ شعور دینا ہے کہ وقف پر حملہ صرف ایک طبقے یا ادارے پر نہیں بلکہ پوری ملت پر حملہ ہے۔ جب تک ہر فرد اس کو اپنا ذاتی مسئلہ نہیں سمجھے گا تب تک ہماری جدوجہد ادھوری رہے گی۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کو اس تحریک کا ہر اول دستہ بنانا ہوگا تاکہ وہ سوشل میڈیا، تعلیمی اداروں اور عوامی مقامات پر اس قانون کے خلاف آواز بلند کریں۔


اسی دوران سپریم کورٹ آف انڈیا نے وقف ترمیمی قانون 2025 کے سلسلے میں جو عبوری فیصلہ سنایا ہے وہ بھی ملت کے لیے تشویشناک پیغام رکھتا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے جن دفعات کو برقرار رکھا ہے وہ وقف املاک کی خودمختاری کو نقصان پہنچاتی ہیں اور یہ تاثر دیتی ہیں کہ حکومت وقف کی آزادی کو محدود کر سکتی ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اس فیصلے پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ فیصلہ دستور ہند کی روح اور بنیادی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے اور اس کے خلاف بھرپور قانونی جدوجہد بھی جاری رکھی جائے گی۔ اس فیصلے نے ہمیں یہ پیغام دیا ہے کہ صرف عدالتوں کے سہارے بیٹھ جانا کافی نہیں بلکہ عوامی بیداری کی ایک بڑی تحریک بھی ساتھ ساتھ چلانا ضروری ہے تاکہ ملک کے انصاف پسند طبقے کو یہ احساس ہو کہ یہ قانون صرف مسلمانوں پر نہیں بلکہ پوری جمہوریت پر حملہ ہے۔


بورڈ کے اس وقف بچاؤ دستور بچاؤ تحریک کے دوسرے مرحلے میں سب سے زیادہ ضرورت اتحاد اور تنظیم کی ہے۔ اختلافات کو بھلا کر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا آج وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ دشمن ہمارے بکھراؤ سے فائدہ اٹھاتا ہے اور ہمیں کمزور کرنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن اگر ہم متحد ہو گئے تو کوئی طاقت ہمیں شکست نہیں دے سکتی۔ ہمیں اپنے سیاسی اور مسلکی اختلافات کو پس پشت ڈال کر صرف ایک بات پر متحد ہونا ہے کہ وقف ہماری امانت ہے اور ہم اسے ہر قیمت پر بچائیں گے۔


یہ وقت قلم اور زبان دونوں کے استعمال کا ہے۔ ہمیں علمی سطح پر دلائل کے ساتھ یہ بات ملک کے عوام کے سامنے رکھنی ہے کہ وقف ترمیمی قانون آئین ہند کے خلاف ہے، یہ بنیادی حقوق پر ڈاکہ ہے اور یہ ایک مخصوص طبقے کے مذہبی اداروں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ ہمیں عدالتوں میں اپنی لڑائی لڑنی ہے، ملک کے دانشور طبقے کو اپنے ساتھ کھڑا کرنا ہے، اور میڈیا کے ذریعے سچائی کو سامنے لانا ہے۔ ساتھ ہی ہمیں عوامی سطح پر تحریک کو مضبوط بنانا ہے تاکہ گلی گلی، بستی بستی اور شہر شہر یہ پیغام جائے کہ مسلمان اپنے وقف اور اپنے دستور کے تحفظ کے لیے کھڑے ہیں۔


یہ تحریک صرف مسلمانوں تک محدود نہیں ہونی چاہیے بلکہ ہمیں ملک کے انصاف پسند غیر مسلم بھائیوں کو بھی ساتھ لینا ہے۔ ہمیں انہیں یہ سمجھانا ہے کہ یہ قانون صرف مسلمانوں کے خلاف نہیں بلکہ یہ ملک کے دستور کے خلاف ہے، یہ ایک خطرناک مثال قائم کرے گا جو کل کو کسی اور طبقے کے مذہبی اداروں پر بھی لاگو کی جا سکتی ہے۔ اس لیے یہ تحریک دراصل پورے ملک کی جمہوریت کے تحفظ کی تحریک ہے۔


آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپنے اس روڈ میپ میں وہ تمام عملی اقدامات شامل کیے ہیں جو اس تحریک کو کامیابی کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ یہ وقت محض تماشائی بننے کا نہیں بلکہ اپنے حصے کا کردار ادا کرنے کا ہے۔ ہر فرد کو اپنی استطاعت کے مطابق اس میں حصہ لینا ہوگا۔ علماء کو منبروں سے، دانشوروں کو قلم سے، نوجوانوں کو اپنی توانائیوں سے، تاجروں کو اپنے مالی تعاون سے اور عام مسلمانوں کو اپنی موجودگی اور دعاؤں سے اس تحریک کو مضبوط بنانا ہوگا۔ یہ اجتماعی جدوجہد ہی وہ ہتھیار ہے جو اس ظالمانہ قانون کو شکست دے سکتی ہے۔


جدید دور کی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا ایک عظیم محاذ کی شکل اختیار کر چکا ہے اور موجودہ زمانے میں کسی بھی تحریک کا سوشل میڈیا کے بغیر کامیابی تک پہنچنا ممکن نہیں۔ لہٰذا اس تحریک کو بھی کامیاب بنانے کے لیے سوشل میڈیا کا بھر پور استعمال کیا جانا چاہیے، اس کیلئے ٹویٹر پر مربوط مہم چلانا ہوگی، احتجاجی پروگراموں کی لائیو اسٹریمنگ بالخصوص فیس بک اور یوٹیوب پر کرنی ہوگی، اور وقف ترمیمی قانون کی ہر شق کی حقیقت کو چھوٹے چھوٹے کلپس، پوسٹرز اور مضامین کے ذریعے عوام تک پہنچانا ہوگا، نوجوان نسل کو اس میں بھرپور کردار ادا کرنا ہے تاکہ یہ پیغام صرف شہروں تک محدود نہ رہے بلکہ دیہات اور چھوٹے قصبوں تک بھی پہنچ جائے۔ اس مہم کے ذریعے عالمی سطح پر بھی یہ آواز جائے گی کہ ہندوستان کے مسلمان اپنے بنیادی آئینی اور مذہبی حقوق کے تحفظ کے لیے پرامن جدوجہد کر رہے ہیں اور کسی قیمت پر اس کالے قانون کو قبول کرنے پر تیار نہیں۔ اسی کے ساتھ ہی یہ کوشش بھی ہونی چاہیے کہ وقف ترمیمی قانون کے حوالے سے ویب سیریز کے انداز میں معیاری اور مؤثر ویڈیوز تیار کی جائیں جن میں اس قانون کے نقصانات کو واضح انداز میں اجاگر کیا جائے، تاکہ ملک کے باشندے انہیں دیکھ کر وقف کے بارے میں پھیلائی گئی غلط فہمیوں سے نجات حاصل کریں اور اس کالے قانون کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ علاوہ ازیں وقف بچاؤ دستور بچاؤ تحریک کو مؤثر اور منظم انداز میں آگے بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ مرکزی سطح پر اور جہاں جہاں ممکن ہو ریاستی سطح پر بھی سوشل میڈیا وار روم قائم کیے جائیں تاکہ تحریک کی نگرانی، منصوبہ بندی اور پیغام رسانی جدید تقاضوں کے مطابق کی جا سکے، غلط فہمیوں کا بروقت ازالہ ہو اور ملت کی آواز ہر پلیٹ فارم پر بھرپور انداز میں گونجے۔

 


ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ وقف ہماری تاریخ کی امانت ہے۔ ہمارے بزرگوں نے اپنی زمینیں، اپنی جائیدادیں اور اپنی زندگیاں وقف کر کے یہ ادارے قائم کیے تاکہ آنے والی نسلیں دین پر قائم رہ سکیں۔ آج اگر ہم نے ان اداروں کا تحفظ نہ کیا تو ہم اپنی تاریخ سے بے وفائی کریں گے۔ یہ تحریک دراصل اس امانت کی حفاظت کی تحریک ہے اور ہمیں اپنی پوری طاقت کے ساتھ اس کو کامیاب بنانا ہے۔


یہ وقت ہے کہ ہم اپنی غفلت کی نیند سے جاگ جائیں، اپنی سہل پسندی کو خیرباد کہہ کر قربانی کا راستہ اختیار کریں اور اپنی ذات کے دائرے سے بلند ہو کر ملت کے اجتماعی مفاد کے لیے کھڑے ہوں، کیونکہ اگر آج ہم نے اپنی ذمہ داری ادا نہ کی اور اپنی تاریخ، اپنی تہذیب اور اپنے دین کی امانت یعنی وقف کے تحفظ کے لیے جان و مال اور وقت کی قربانی دینے میں کوتاہی کی تو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی اور ہمیں بزدلی اور غفلت کی علامت کے طور پر یاد کریں گی، اس لیے لازمی ہے کہ ہم پوری سنجیدگی اور اخلاص کے ساتھ اس تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے اپنی ہر ممکن توانائی جھونک دیں، اپنی زندگی کے قیمتی لمحات اس جدوجہد کے لیے وقف کریں اور اپنے وسائل کو اس مقصد پر قربان کرنے کے لیے تیار ہو جائیں، کیونکہ یہی وہ جذبہ ہے جس نے ماضی میں امت اسلامیہ کو عظیم فتوحات اور کامیابیاں عطا کیں اور آج بھی اگر ہم اسی جذبے کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوں تو یقیناً اللہ کی نصرت ہمارے شامل حال ہوگی اور ہم اس کالے قانون کو ناکام بنا کر سرخرو ہوں گے۔


فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

18؍ ستمبر 2025ء بروز جمعرات


#SaveWaqfSaveConstitution | #WithdrawWaqfAmendments | #WaqfAmendmentAct | #AIMPLB | #PaighameFurqan | #MTIH |#TIMS

Thursday, 4 September 2025

عشقِ رسولﷺ: حیاتِ مومن کا سرمایہ!

 عشقِ رسولﷺ: حیاتِ مومن کا سرمایہ!

✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ 

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


عشق رسول ﷺ وہ سرمدی حقیقت ہے جو ایمان کی جان ہے، زندگی کا مرکز ہے اور آخرت کی نجات کا ذریعہ ہے۔ یہ وہ چراغ ہے جو دلوں کے اندھیروں کو روشنی میں بدل دیتا ہے، وہ خوشبو ہے جو روح کے ہر گوشے کو معطر کر دیتی ہے، وہ نغمہ ہے جو سینے کو وجد میں ڈال دیتا ہے اور وہ حقیقت ہے جس کے بغیر ایمان ادھورا اور زندگی بے مقصد ہے۔حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ وہ محبوب ہیں جن کی محبت پر کائنات فخر کرتی ہے، وہ رحمت ہیں جن کی رحمت نے زمین و آسمان کو اپنی آغوش میں لیا ہے۔ ان کی ذات وہ مرکز ہے جس پر ہر عاشق اپنی جان و دل نچھاور کرتا ہے اور ہر مومن اپنی عقیدت اور عظمت کا نذرانہ پیش کرتا ہے۔ دنیا کے ہر رشتے میں کمی ہوسکتی ہے، ہر تعلق میں ٹوٹ پھوٹ آسکتی ہے، ہر محبت زوال پذیر ہوسکتی ہے لیکن رسول اللہؐ سے محبت ایسی ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی، جس کی خوشبو قیامت تک باقی رہتی ہے اور جس کی تاثیر دلوں کو ایمان کے نور سے بھر دیتی ہے۔ رسول اللہﷺ کی ذات وہ چراغ ہے جس کے بغیر انسان اندھیروں میں بھٹکتا ہے، وہ مرکز ہے جس کے بغیر انسان کا وجود بکھر جاتا ہے، وہ رحمت ہے جس کے بغیر دنیا قہر و غضب کا شکار ہوجاتی ہے۔ ایمان کا کمال اسی وقت مکمل ہوتا ہے جب رسول اللہﷺ  کی محبت والدین، اولاد، دوستوں اور دنیا کے ہر تعلق سے بڑھ جائے۔ حدیث پاک میں صاف اعلان ہے کہ کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک رسول اللہﷺ اسے ہر چیز سے زیادہ محبوب نہ ہوجائیں۔ یہ محبت محض دعوے یا نعرے کا نام نہیں بلکہ یہ دل کی دھڑکن اور زندگی کے ہر عمل میں ظاہر ہونے والی کیفیت ہے۔ محبت کا اصل تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنی سوچ کو، اپنے جذبات کو، اپنی عادات کو اور اپنی پوری زندگی کو محمد رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مطابق ڈھال دے۔ زبان پر درود و سلام کے نغمے ہوں، دل میں عقیدت کی روشنی ہو اور زندگی کے ہر گوشے میں اتباعِ مصطفیؐ جھلک ہو۔


صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اسی عشق کے پیکر تھے۔ ان کے نزدیک دنیا کی کوئی چیز رسول اللہ ﷺ کی رضا اور محبت سے بڑھ کر نہیں تھی۔ بدر و احد کے میدان اسی عشق کے گواہ ہیں کہ کیسے ایک ایک صحابی اپنی جان قربان کرتا مگر حضورﷺ کے قدموں میں قربانی پیش کرنے سے پیچھے نہ ہٹتا۔ حضرت صدیق اکبرؓ کی زندگی سراسر حضور ؐ پر فنا ہونے کی تفسیر تھی، حضرت فاروق اعظمؓ کی غیرت عشقِ رسول ؐ سے سرشار تھی، حضرت عثمان غنیؓ کی بے مثال سخاوت محمد رسول اللہ ؐ کے عشق و محبت کا آئینہ دار تھی، اور حضرت علی المرتضیٰؓ کی جوانی اور شجاعت حضورؐکے قدموں میں قربان ہو کر عشق کی کامل تصویر بن گئی تھی۔ یہ وہ لوگ تھے جن کی رگوں میں خون کی جگہ عشق مصطفیٰ ﷺ دوڑ رہا تھا۔ کیونکہ عشق کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنی تمام خواہشات، اپنی تمام آرزوئیں، اپنے سارے خواب حضور ؐکی محبت پر قربان کردے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرامؓ کے نزدیک حضور ﷺ کی ایک مسکراہٹ دنیا کے تمام خزانوں سے بڑھ کر تھی۔ وہ آپ ؐ کے وضو کا پانی پینے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لیتے تھے، آپ ؐ کے قدموں کی خاک کو آنکھوں کا سرمہ بناتے تھے، آپ ؐ کے بالوں کو تبرک سمجھ کر محفوظ کرلیتے تھے۔ یہ سب اسی عشق کی علامتیں تھیں جس نے ان کے دلوں کو ایمان سے لبریز کردیا تھا۔


محمد مصطفی ﷺ کی سیرت سراسر رحمت ہے۔ دشمنوں نے آپ کو ستایا، پتھر مارے، وطن سے نکالا لیکن آپ ؐ نے بدلے میں کبھی بددعا نہیں کی، بلکہ ہمیشہ معافی اور رحمت کے دامن کو پھیلایا۔ طائف کے میدان میں لہولہان بدن کے ساتھ بھی یہ دعا کی کہ اے اللہ! ان کی نسل سے وہ لوگ پیدا کر جو تجھ پر ایمان لائیں۔ فتح مکہ کے موقع پر آپ ؐ نے دشمنوں کے سامنے اعلان فرمایا کہ جاؤ تم سب آزاد ہو، حالانکہ یہ وہی دشمن تھے جنہوں نے زندگی بھر اذیتیں دیں۔ یہ رحمت ہی عشق کی سب سے بڑی بنیاد ہے، یہی وہ صفت ہے جس نے دلوں کو کھینچ کر آپ ؐکا دیوانہ بنایا اور آپ کے دشمن بھی معترف ہوگئے۔


عشق کا تقاضا یہ ہے کہ محبوب کی اطاعت کی جائے۔ قرآن کریم نے صاف فرمایا کہ اگر اللہ سے محبت کا دعویٰ کرتے ہو تو رسول اللہﷺ کی اتباع کرو، تبھی اللہ تم سے محبت کرے گا۔ یہی عشق کی اصل ہے، یہی محبت کا ثبوت ہے۔ ورنہ نعرے اور دعوے کھوکھلے ہیں۔ سچا عاشق وہ ہے جو اپنی روزمرہ زندگی میں حضور ؐکی سنت کو زندہ کرے، چاہے وہ کھانے پینے کا طریقہ ہو یا چلنے کا انداز، عبادات ہوں یا معاملات، اخلاق ہوں یا عادات، ہر جگہ محمد رسول اللہ ﷺ کی جھلک نظر آئے۔یہی محبت علماء دیوبند نے اپنے قلوب میں بسائی اور عشق رسول ؐ کی سب سے روشن مثالیں قائم کی۔ ان کے نزدیک دین کی اصل روح اتباع سنت اور عشق رسول ؐ تھی۔ ان کی سادہ زندگی حضور ؐ کی سنتوں کی عملی تصویر تھی۔ انہوں نے جیل کی تاریکیوں میں بھی عشق رسول ؐ کو اپنے دل کی روشنی بنایا۔ ان کی تعلیمات اور اصلاحی مشن عشق رسول ؐکی خوشبو سے معطر تھے۔ یہ وہ علم و حریت کا قافلہ ہے جنہوں نے اپنے قلم اور عمل دونوں سے یہ واضح کیا کہ عشق رسول ؐ کا مطلب صرف عقیدت کا اظہار نہیں بلکہ شریعت کی پابندی، سنتوں کی پیروی اور دین کے غلبے کے لیے قربانی دینا ہے۔عاشق رسول ﷺ کے لیے سب سے بڑی سعادت یہ ہے کہ جب دنیا میں نبی ؐ کی عظمت پر حملے ہوں تو وہ اپنی جان و مال قربان کردے لیکن رسول اللہ ؐکی شان پر آنچ نہ آنے دے۔ یہی عشق ہے جس نے صحابہؓ کو ہر میدان میں فاتح بنایا اور یہی عشق تھا جس نے علماء دیوبند کو غلامی کے اندھیروں میں آزادی کی جدوجہد کے لیے تیار کیا۔ ان کے نزدیک عشق رسول ؐ کا تقاضا تھا کہ ظلم کے سامنے ڈٹ جائیں، باطل کے خلاف علم اٹھائیں اور دین کی عزت کے لیے کوئی قربانی دینے سے نہ گھبرائیں۔


رسول اللہ ﷺ کی ذات وہ پناہ ہے جس کے بغیر دلوں کو سکون نہیں ملتا۔ وہ محبوب ہیں جن کی محبت سے دل زندہ ہوتا ہے، آنکھیں اشکبار ہوتی ہیں، زبان درود و سلام سے تر ہوجاتی ہے اور روح کو وہ لذت نصیب ہوتی ہے جو کسی اور تعلق سے ممکن نہیں۔ ان پر درود و سلام پڑھنے والا دل بیدار ہوجاتا ہے، ان کی سیرت پر غور کرنے والا دل نرم ہوجاتا ہے، ان کی سنت اپنانے والا انسان کامیاب ہوجاتا ہے۔ عشق رسول ؐ وہ سرور ہے جو عاشق کو جھومنے پر مجبور کر دیتا ہے، وہ آگ ہے جو دل کو جلا کر خاکستر کردیتی ہے مگر اس میں ایمان کا نور باقی رکھتی ہے۔ عشق رسول ؐ کے بغیر ایمان کی لذت نہیں، عبادت کی روح نہیں اور زندگی کی راحت نہیں۔ عاشق کے دل میں ہر لمحہ یہی تمنا رہتی ہے کہ کاش میری زندگی بھی سنت کے مطابق ہوجائے، میری آنکھوں کا نور حضور ؐ کا دیدار بن جائے، میرے کانوں کی لذت درود و سلام کی صدائیں ہوں اور میرے دل کا قرار حضور ؐ کی یاد ہو۔ یہ عشق ہی ہے جو ایک عام انسان کو ولی بنادیتا ہے، غلام کو آقا کے قریب کردیتا ہے، اور گناہگار کو مغفرت کے دروازے تک پہنچادیتا ہے۔ یہی عشق ہے جو روزِ محشر نجات کی ضمانت ہے۔ حضور ؐ کی شفاعت اسی کو نصیب ہوگی جو دل و جان سے آپ ؐکا عاشق ہوگا، جو اپنی زندگی کو آپ ؐ کی سیرت کے مطابق گزارے گا اور جو آپ ؐ کے نام پر اپنی جان بھی قربان کردے گا۔


کون سا عاشق رسول ﷺ ہے جو یہ سن کر نہ تڑپے کہ روزِ قیامت جب سب لوگ ایک دوسرے سے دور بھاگ رہے ہوں گے، وہاں صرف ایک ہستی ہوگی جو“امتی! امتی!”کی صدا لگائے گی، اور وہ ہستی ہے محمد مصطفیﷺ کی۔ اس دن سچے عاشقوں کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی کہ ہم جس کے دیوانے تھے وہی ہماری شفاعت کے لیے کھڑا ہے، مگر یہ حقیقت ہمیں سوچنے پر بھی مجبور کرتی ہے کہ کیا محض عاشق رسول ؐ ہونے کا دعویٰ کافی ہے؟ اگر ہماری زندگی سنت مصطفیؐ سے خالی ہے، اگر ہماری عادات و معاملات شریعت کے مطابق نہیں، اگر ہمارے دل و دماغ نبی ؐ کے نقش قدم سے محروم ہیں، تو پھر ہمارا دعویٰ عشق ایک بے جان صدا بن کر رہ جائے گا۔ سچا عاشق وہی ہے جو اپنے محبوب ؐ کے ہر فرمان کو دل سے قبول کرے، اپنی ذات کو ان کے دین پر قربان کرے اور اپنی زندگی کو حضور ؐ کی سنتوں کی خوشبو سے معطر کرے، تبھی قیامت کے دن رسول اللہ ؐ کی شفاعت نصیب ہوگی اور آنکھوں کو وہ ٹھنڈک ملے گی جس کا خواب ہر مومن اپنے دل میں سجائے بیٹھا ہے۔


یہی وہ پیغام ہے جو صحابہؓ نے دیا، یہی وہ تعلیم ہے جو علماء دیوبند نے آگے بڑھائی اور یہی وہ راستہ ہے جو ہر مومن کو اختیار کرنا ہے۔ رسول اللہ ﷺ سے محبت ایمان کا سر ہے، عشق ایمان کی جان ہے اور اتباع اس کی حقیقت ہے۔ اگر یہ تینوں چیزیں جمع ہوجائیں تو انسان کی زندگی نور سے بھر جاتی ہے اور اس کا انجام جنت الفردوس میں رسول اللہ ﷺ کی رفاقت کے ساتھ ہوتا ہے۔

قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے

دہر میں اسم محمد ﷺ سے اجالا کر دے


#ProphetMohammed | #Muhammad | #RabiulAwwal | #Madina | #PaighameFurqan | #MTIH | #TIMS