عشقِ رسولﷺ: حیاتِ مومن کا سرمایہ!
✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ
(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)
عشق رسول ﷺ وہ سرمدی حقیقت ہے جو ایمان کی جان ہے، زندگی کا مرکز ہے اور آخرت کی نجات کا ذریعہ ہے۔ یہ وہ چراغ ہے جو دلوں کے اندھیروں کو روشنی میں بدل دیتا ہے، وہ خوشبو ہے جو روح کے ہر گوشے کو معطر کر دیتی ہے، وہ نغمہ ہے جو سینے کو وجد میں ڈال دیتا ہے اور وہ حقیقت ہے جس کے بغیر ایمان ادھورا اور زندگی بے مقصد ہے۔حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ وہ محبوب ہیں جن کی محبت پر کائنات فخر کرتی ہے، وہ رحمت ہیں جن کی رحمت نے زمین و آسمان کو اپنی آغوش میں لیا ہے۔ ان کی ذات وہ مرکز ہے جس پر ہر عاشق اپنی جان و دل نچھاور کرتا ہے اور ہر مومن اپنی عقیدت اور عظمت کا نذرانہ پیش کرتا ہے۔ دنیا کے ہر رشتے میں کمی ہوسکتی ہے، ہر تعلق میں ٹوٹ پھوٹ آسکتی ہے، ہر محبت زوال پذیر ہوسکتی ہے لیکن رسول اللہؐ سے محبت ایسی ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی، جس کی خوشبو قیامت تک باقی رہتی ہے اور جس کی تاثیر دلوں کو ایمان کے نور سے بھر دیتی ہے۔ رسول اللہﷺ کی ذات وہ چراغ ہے جس کے بغیر انسان اندھیروں میں بھٹکتا ہے، وہ مرکز ہے جس کے بغیر انسان کا وجود بکھر جاتا ہے، وہ رحمت ہے جس کے بغیر دنیا قہر و غضب کا شکار ہوجاتی ہے۔ ایمان کا کمال اسی وقت مکمل ہوتا ہے جب رسول اللہﷺ کی محبت والدین، اولاد، دوستوں اور دنیا کے ہر تعلق سے بڑھ جائے۔ حدیث پاک میں صاف اعلان ہے کہ کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک رسول اللہﷺ اسے ہر چیز سے زیادہ محبوب نہ ہوجائیں۔ یہ محبت محض دعوے یا نعرے کا نام نہیں بلکہ یہ دل کی دھڑکن اور زندگی کے ہر عمل میں ظاہر ہونے والی کیفیت ہے۔ محبت کا اصل تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنی سوچ کو، اپنے جذبات کو، اپنی عادات کو اور اپنی پوری زندگی کو محمد رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مطابق ڈھال دے۔ زبان پر درود و سلام کے نغمے ہوں، دل میں عقیدت کی روشنی ہو اور زندگی کے ہر گوشے میں اتباعِ مصطفیؐ جھلک ہو۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اسی عشق کے پیکر تھے۔ ان کے نزدیک دنیا کی کوئی چیز رسول اللہ ﷺ کی رضا اور محبت سے بڑھ کر نہیں تھی۔ بدر و احد کے میدان اسی عشق کے گواہ ہیں کہ کیسے ایک ایک صحابی اپنی جان قربان کرتا مگر حضورﷺ کے قدموں میں قربانی پیش کرنے سے پیچھے نہ ہٹتا۔ حضرت صدیق اکبرؓ کی زندگی سراسر حضور ؐ پر فنا ہونے کی تفسیر تھی، حضرت فاروق اعظمؓ کی غیرت عشقِ رسول ؐ سے سرشار تھی، حضرت عثمان غنیؓ کی بے مثال سخاوت محمد رسول اللہ ؐ کے عشق و محبت کا آئینہ دار تھی، اور حضرت علی المرتضیٰؓ کی جوانی اور شجاعت حضورؐکے قدموں میں قربان ہو کر عشق کی کامل تصویر بن گئی تھی۔ یہ وہ لوگ تھے جن کی رگوں میں خون کی جگہ عشق مصطفیٰ ﷺ دوڑ رہا تھا۔ کیونکہ عشق کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنی تمام خواہشات، اپنی تمام آرزوئیں، اپنے سارے خواب حضور ؐکی محبت پر قربان کردے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرامؓ کے نزدیک حضور ﷺ کی ایک مسکراہٹ دنیا کے تمام خزانوں سے بڑھ کر تھی۔ وہ آپ ؐ کے وضو کا پانی پینے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لیتے تھے، آپ ؐ کے قدموں کی خاک کو آنکھوں کا سرمہ بناتے تھے، آپ ؐ کے بالوں کو تبرک سمجھ کر محفوظ کرلیتے تھے۔ یہ سب اسی عشق کی علامتیں تھیں جس نے ان کے دلوں کو ایمان سے لبریز کردیا تھا۔
محمد مصطفی ﷺ کی سیرت سراسر رحمت ہے۔ دشمنوں نے آپ کو ستایا، پتھر مارے، وطن سے نکالا لیکن آپ ؐ نے بدلے میں کبھی بددعا نہیں کی، بلکہ ہمیشہ معافی اور رحمت کے دامن کو پھیلایا۔ طائف کے میدان میں لہولہان بدن کے ساتھ بھی یہ دعا کی کہ اے اللہ! ان کی نسل سے وہ لوگ پیدا کر جو تجھ پر ایمان لائیں۔ فتح مکہ کے موقع پر آپ ؐ نے دشمنوں کے سامنے اعلان فرمایا کہ جاؤ تم سب آزاد ہو، حالانکہ یہ وہی دشمن تھے جنہوں نے زندگی بھر اذیتیں دیں۔ یہ رحمت ہی عشق کی سب سے بڑی بنیاد ہے، یہی وہ صفت ہے جس نے دلوں کو کھینچ کر آپ ؐکا دیوانہ بنایا اور آپ کے دشمن بھی معترف ہوگئے۔
عشق کا تقاضا یہ ہے کہ محبوب کی اطاعت کی جائے۔ قرآن کریم نے صاف فرمایا کہ اگر اللہ سے محبت کا دعویٰ کرتے ہو تو رسول اللہﷺ کی اتباع کرو، تبھی اللہ تم سے محبت کرے گا۔ یہی عشق کی اصل ہے، یہی محبت کا ثبوت ہے۔ ورنہ نعرے اور دعوے کھوکھلے ہیں۔ سچا عاشق وہ ہے جو اپنی روزمرہ زندگی میں حضور ؐکی سنت کو زندہ کرے، چاہے وہ کھانے پینے کا طریقہ ہو یا چلنے کا انداز، عبادات ہوں یا معاملات، اخلاق ہوں یا عادات، ہر جگہ محمد رسول اللہ ﷺ کی جھلک نظر آئے۔یہی محبت علماء دیوبند نے اپنے قلوب میں بسائی اور عشق رسول ؐ کی سب سے روشن مثالیں قائم کی۔ ان کے نزدیک دین کی اصل روح اتباع سنت اور عشق رسول ؐ تھی۔ ان کی سادہ زندگی حضور ؐ کی سنتوں کی عملی تصویر تھی۔ انہوں نے جیل کی تاریکیوں میں بھی عشق رسول ؐ کو اپنے دل کی روشنی بنایا۔ ان کی تعلیمات اور اصلاحی مشن عشق رسول ؐکی خوشبو سے معطر تھے۔ یہ وہ علم و حریت کا قافلہ ہے جنہوں نے اپنے قلم اور عمل دونوں سے یہ واضح کیا کہ عشق رسول ؐ کا مطلب صرف عقیدت کا اظہار نہیں بلکہ شریعت کی پابندی، سنتوں کی پیروی اور دین کے غلبے کے لیے قربانی دینا ہے۔عاشق رسول ﷺ کے لیے سب سے بڑی سعادت یہ ہے کہ جب دنیا میں نبی ؐ کی عظمت پر حملے ہوں تو وہ اپنی جان و مال قربان کردے لیکن رسول اللہ ؐکی شان پر آنچ نہ آنے دے۔ یہی عشق ہے جس نے صحابہؓ کو ہر میدان میں فاتح بنایا اور یہی عشق تھا جس نے علماء دیوبند کو غلامی کے اندھیروں میں آزادی کی جدوجہد کے لیے تیار کیا۔ ان کے نزدیک عشق رسول ؐ کا تقاضا تھا کہ ظلم کے سامنے ڈٹ جائیں، باطل کے خلاف علم اٹھائیں اور دین کی عزت کے لیے کوئی قربانی دینے سے نہ گھبرائیں۔
رسول اللہ ﷺ کی ذات وہ پناہ ہے جس کے بغیر دلوں کو سکون نہیں ملتا۔ وہ محبوب ہیں جن کی محبت سے دل زندہ ہوتا ہے، آنکھیں اشکبار ہوتی ہیں، زبان درود و سلام سے تر ہوجاتی ہے اور روح کو وہ لذت نصیب ہوتی ہے جو کسی اور تعلق سے ممکن نہیں۔ ان پر درود و سلام پڑھنے والا دل بیدار ہوجاتا ہے، ان کی سیرت پر غور کرنے والا دل نرم ہوجاتا ہے، ان کی سنت اپنانے والا انسان کامیاب ہوجاتا ہے۔ عشق رسول ؐ وہ سرور ہے جو عاشق کو جھومنے پر مجبور کر دیتا ہے، وہ آگ ہے جو دل کو جلا کر خاکستر کردیتی ہے مگر اس میں ایمان کا نور باقی رکھتی ہے۔ عشق رسول ؐ کے بغیر ایمان کی لذت نہیں، عبادت کی روح نہیں اور زندگی کی راحت نہیں۔ عاشق کے دل میں ہر لمحہ یہی تمنا رہتی ہے کہ کاش میری زندگی بھی سنت کے مطابق ہوجائے، میری آنکھوں کا نور حضور ؐ کا دیدار بن جائے، میرے کانوں کی لذت درود و سلام کی صدائیں ہوں اور میرے دل کا قرار حضور ؐ کی یاد ہو۔ یہ عشق ہی ہے جو ایک عام انسان کو ولی بنادیتا ہے، غلام کو آقا کے قریب کردیتا ہے، اور گناہگار کو مغفرت کے دروازے تک پہنچادیتا ہے۔ یہی عشق ہے جو روزِ محشر نجات کی ضمانت ہے۔ حضور ؐ کی شفاعت اسی کو نصیب ہوگی جو دل و جان سے آپ ؐکا عاشق ہوگا، جو اپنی زندگی کو آپ ؐ کی سیرت کے مطابق گزارے گا اور جو آپ ؐ کے نام پر اپنی جان بھی قربان کردے گا۔
کون سا عاشق رسول ﷺ ہے جو یہ سن کر نہ تڑپے کہ روزِ قیامت جب سب لوگ ایک دوسرے سے دور بھاگ رہے ہوں گے، وہاں صرف ایک ہستی ہوگی جو“امتی! امتی!”کی صدا لگائے گی، اور وہ ہستی ہے محمد مصطفیﷺ کی۔ اس دن سچے عاشقوں کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی کہ ہم جس کے دیوانے تھے وہی ہماری شفاعت کے لیے کھڑا ہے، مگر یہ حقیقت ہمیں سوچنے پر بھی مجبور کرتی ہے کہ کیا محض عاشق رسول ؐ ہونے کا دعویٰ کافی ہے؟ اگر ہماری زندگی سنت مصطفیؐ سے خالی ہے، اگر ہماری عادات و معاملات شریعت کے مطابق نہیں، اگر ہمارے دل و دماغ نبی ؐ کے نقش قدم سے محروم ہیں، تو پھر ہمارا دعویٰ عشق ایک بے جان صدا بن کر رہ جائے گا۔ سچا عاشق وہی ہے جو اپنے محبوب ؐ کے ہر فرمان کو دل سے قبول کرے، اپنی ذات کو ان کے دین پر قربان کرے اور اپنی زندگی کو حضور ؐ کی سنتوں کی خوشبو سے معطر کرے، تبھی قیامت کے دن رسول اللہ ؐ کی شفاعت نصیب ہوگی اور آنکھوں کو وہ ٹھنڈک ملے گی جس کا خواب ہر مومن اپنے دل میں سجائے بیٹھا ہے۔
یہی وہ پیغام ہے جو صحابہؓ نے دیا، یہی وہ تعلیم ہے جو علماء دیوبند نے آگے بڑھائی اور یہی وہ راستہ ہے جو ہر مومن کو اختیار کرنا ہے۔ رسول اللہ ﷺ سے محبت ایمان کا سر ہے، عشق ایمان کی جان ہے اور اتباع اس کی حقیقت ہے۔ اگر یہ تینوں چیزیں جمع ہوجائیں تو انسان کی زندگی نور سے بھر جاتی ہے اور اس کا انجام جنت الفردوس میں رسول اللہ ﷺ کی رفاقت کے ساتھ ہوتا ہے۔
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسم محمد ﷺ سے اجالا کر دے
#ProphetMohammed | #Muhammad | #RabiulAwwal | #Madina | #PaighameFurqan | #MTIH | #TIMS
No comments:
Post a Comment