آسام کی بدلتی سیاست، مولانا محمود مدنی کی للکار اور ہیمنت بسوا سرما کی بوکھلاہٹ!
✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ
(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)
آج کے ہندوستان میں اقتدار کی کرسی پر بیٹھے کچھ لوگ جب زبان کھولتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ جمہوری ملک نہیں بلکہ کسی آمریت کی چراگاہ ہے، جہاں قانون، انصاف اور آئین کے بجائے غرور، تعصب اور طاقت کی زبان بولی جاتی ہے۔ آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما کا جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی کے خلاف زبان درازی کرتے ہوئے یہ کہنا کہ ”اگر مجھے مولانا محمود مدنی مل گئے تو میں انہیں بنگلہ دیش بھیج دوں گا“ دراصل اسی زہریلی ذہنیت کی عکاسی ہے۔ یہ جملہ نہ صرف ایک مذہبی قائد کی توہین ہے بلکہ پورے ہندوستانی مسلمانوں کی عزت و وقار کو للکارنے کے مترادف ہے۔ یہ وہی ملک ہے جس کے آئین نے سب کو برابری کا حق دیا، لیکن آج حکمرانوں کی زبان سے ایسے جملے نکل رہے ہیں جو نہ صرف آئین بلکہ انسانیت کی بھی توہین ہیں۔ اس بیان نے صاف کر دیا ہے کہ آسام میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ زمین بازیابی یا تجاوزات ہٹانے کا معاملہ نہیں بلکہ ایک خاص مذہبی طبقے کو نشانہ بنانے کی منظم سازش ہے۔
جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ نے گزشتہ دنوں مولانا محمود مدنی کی صدارت میں بروقت اور برمحل قدم اٹھاتے ہوئے وزیر اعلیٰ آسام کو معطل کرنے اور ان پر ہیٹ اسپیچ کے مقدمات درج کرنے کا مطالبہ کیا۔ یہ وہی جمعیۃ ہے جو اپنے قیام 1919ء سے آج تک ہندوستانی مسلمانوں کے لیے ڈھال بنی ہوئی ہے۔ اس کی تاریخ میں قربانیوں کے ایسے ایسے باب درج ہیں جن پر پوری ملت فخر کرتی ہے۔ آزادی کی تحریک سے لے کر بعد آزادی کے نازک ترین مواقع تک، جب بھی ملک میں مسلمانوں یا اقلیتوں کو نشانہ بنایا گیا یا ان کے مذہبی و آئینی حقوق پر شب خون مارنے کی کوشش کی گئی، جمعیۃ ہمیشہ سب سے آگے کھڑی رہی۔ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ کی بے مثال جدوجہد اور ان کی جرأت مندی آج بھی تاریخ کے اوراق پر جگمگا رہی ہے۔ انہوں نے انگریز سامراج کے خلاف قیادت کی، جیلیں کاٹیں، تعذیبیں برداشت کیں مگر حق گوئی اور استقلال سے پیچھے نہ ہٹے۔ وہ اس نظریے کے داعی تھے کہ یہ ملک ہندو مسلم سب کا ہے اور سب کو ساتھ مل کر اس کی حفاظت کرنی ہے۔ انہی کی اولاد مولانا محمود اسعد مدنی آج اسی حوصلے اور عزم کے ساتھ اپنے بزرگوں کی وراثت کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ جس شخص کے دادا نے ہندوستان کی آزادی اور مسلمانوں کے وقار کے لیے اپنی زندگی قربان کی، اس کے پوتے کو بنگلہ دیش بھیجنے کی دھمکی دینا نہ صرف بدزبانی ہے بلکہ اپنی سیاسی پستی اور بوکھلاہٹ کا اعتراف بھی ہے۔
آسام کے حالات گواہی دے رہے ہیں کہ انخلا کے نام پر ظلم کی ایسی داستان لکھی جا رہی ہے جس کی مثال شاید ہی کہیں اور ملے۔ پچاس ہزار خاندانوں کو گھروں سے محروم کر کے کھلے آسمان تلے بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا۔ اور یہ سب کچھ اس دعوے کے ساتھ کیا گیا کہ یہ لوگ غیر قانونی بنگلہ دیشی ہیں، جب کہ اب تک اجاڑے گئے سب خاندان سو فیصد مسلمان ہیں۔ وزیر اعلیٰ کا یہ اعتراف کہ ”ہم صرف میاں مسلمانوں کو بے دخل کر رہے ہیں“ اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ یہ سب کچھ محض انتظامی کارروائی نہیں بلکہ خالص مسلم دشمنی ہے۔ کیا یہ بیان آئین ہند کی روح سے کھلا مذاق نہیں؟ کیا یہ سپریم کورٹ کی واضح گائیڈ لائنز کی صریح خلاف ورزی نہیں؟ جمعیۃ علماء ہند نے نہایت متوازن اور اصولی موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ وہ کبھی بھی سرکاری زمین پر ناجائز قبضے کی حامی نہیں رہی، لیکن موجودہ بے دخلی کی مہم انصاف اور انسانی ہمدردی کے تمام تقاضوں کو روندتے ہوئے ایک مخصوص طبقے کو نشانہ بنانے کا ثبوت ہے۔ یہی وہ اصولی رویہ ہے جس نے ہمیشہ جمعیۃ کو دوسروں سے ممتاز کیا ہے۔ ماضی قریب میں جب آسام کے چالیس لاکھ شہریوں کو ان شہریت سے محروم کرنے کی سازش کی گئی۔ اس نازک موقع پر جمعیۃ علماء ہند نے میدان میں آ کر بھرپور جدوجہد کی۔ قانونی اور عوامی محاذ پر مضبوط دلائل کے ساتھ آواز بلند کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ حکومت کی سازش ناکام ہوئی اور انصاف کی جیت ہوئی۔ یوں جمعیۃ علماء ہند نے چالیس لاکھ آسامیوں کو ان کا حق دلا کر تاریخ رقم کی جس کو آج ہر طرف سراہا جاتا ہے۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما کی حکومت بدعنوانی اور اقربا پروری میں دھنسی ہوئی ہے۔ گروکھوتی کثیر مقصدی زرعی منصوبہ (Garukhuti Multipurpose Agricultural Project) کی مثال آج بھی سامنے ہے، جس میں ہزاروں مسلم گھرانوں کو اجاڑ کر زمین حاصل کی گئی اور پھر گائے کے نام پر ایسا گھپلا کیا گیا جس نے حکومت کی نیت کو بے نقاب کر دیا۔ کروڑوں روپے کی لاگت سے خریدی گئی گائیں یا تو مر گئیں یا وزیروں اور ایم ایل ایز کے فارم ہاؤسوں پر پہنچا دی گئیں۔ عوام کا پیسہ لوٹا گیا اور کسانوں کو فریب دیا گیا۔ یہ سب کچھ ”گؤ ماتا“ کے تحفظ کے نام پر کیا گیا، مگر اصل مقصد سیاسی اور مالی مفادات سمیٹنا تھا۔اس مسئلہ کو اپوزیشن نے پورے آسام میں گرما رکھا ہے۔
اسی کے ساتھ اگلے سال 2026ء میں آسام کے اسمبلی انتخابات کے پیش نظر آسام کی سیاست میں اس وقت جو منظرنامہ ابھر رہا ہے، وہ ہیمنت بسوا سرما کی گھبراہٹ اور بوکھلاہٹ کو کھول کر سامنے لے آ رہا ہے۔ کانگریس کے گورو گگوئی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت، ان کی شفاف شبیہ اور عوامی حمایت نے بی جے پی کے مضبوط قلعے میں دراڑیں ڈال دی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سرما کبھی ان پر بے بنیاد الزامات لگاتے ہیں، تو کبھی مسلمانوں کو کھلے عام دھمکیاں دے کر اپنی بے بسی چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ جارحانہ لب و لہجہ دراصل ان کے دل میں گھر کرتی اس سیاسی خوف کا اظہار ہے، جو بدلتی ہوئی فضاؤں نے ان پر طاری کر دیا ہے۔ آسام میں بی جے پی کے پاس بلاشبہ عددی طاقت موجود ہے، لیکن اقتدار مخالف لہر، بدعنوانی کے الزامات، اندرونی اختلافات اور عوامی ناراضگی نے اس طاقت کو کھوکھلا بنا دیا ہے۔ سرما کے لیے یہ وقت سخت آزمائش کا ہے، کیونکہ شمال مشرق کی سیاست میں منی پور سمیت مختلف ریاستوں کے بحرانوں نے بی جے پی کی قیادت کو مشکوک بنا دیا ہے۔ آج وہ جس اعتماد کے ساتھ بی جے پی کے واحد مضبوط چہرے کے طور پر ابھرتے تھے، وہ اعتماد تیزی سے ٹوٹ رہا ہے۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اگر بی جے پی آسام کے انتخابات جیت بھی لے تو اندرونی حالات اور قیادت کے بحران کے باعث ممکن ہے کہ ہمنتا بسوا سرما کو اقتدار کی کرسی سے محروم ہونا پڑے۔ گویا آسام کی بدلتی ہوا نہ صرف بی جے پی کے لیے دردِ سر بنتی جارہی ہے بلکہ خود سرما کی سیاسی بقا پر بھی سوالیہ نشان لگا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہیمنت بسوا سرما اپنی اقتدار کی کرسی بچانے کے لیے کبھی مسلمانوں کو دھمکیاں دیتے نظر آتے ہیں اور کبھی ملت اسلامیہ ہندیہ کی رہنما تنظیم جمعیۃ علماء ہند اور اس کی قیادت پر زہر افشانی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے دھمکی آمیز جملے دراصل اس گھبراہٹ کا اعتراف ہیں جو آسام کی بدلتی ہوئی سیاسی فضا نے ان کے دل میں پیدا کر دی ہے۔
آج دنیا فلسطین میں جاری نسل کشی بھی دیکھ رہی ہے جہاں مسلمانوں کو ان کی زمینوں سے محروم کیا جا رہا ہے، اور آسام کی کہانی بھی کچھ اسی طرح ہے۔ ایک طرف اسرائیل کے ٹینک اور بم فلسطینی گھروں کو مٹا رہے ہیں، دوسری طرف آسام میں بے دخلی کی آڑ میں مسلمانوں کے مکانات اجاڑے جا رہے ہیں۔ جمعیۃ علماء ہند نے اپنے اجلاس میں دونوں مسائل کو اٹھا کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ صرف ہندوستانی مسلمانوں کی نمائندہ نہیں بلکہ پوری ملت اسلامیہ کی آواز ہے۔ یہی وہ جرأت ہے جو جمعیۃ کو تاریخ کے روشن ابواب میں جگہ دیتی ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے عظیم سپوت شیخ الہندؒ اور شیخ الاسلام مولانا مدنیؒ نے جو چراغ جلایا تھا وہ آج بھی بجھا نہیں، اور مولانا محمود مدنی جیسے جانشین اسی روشنی کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ہیمنت سرما لاکھ شور مچائیں، انگوٹھا دکھائیں یا دھمکیاں دیں، وہ اس حقیقت کو نہیں بدل سکتے کہ جمعیۃ علماء ہند کی جڑیں اس ملک کی مٹی میں اتنی گہری ہیں کہ کوئی آندھی انہیں اکھاڑ نہیں سکتی۔
وقت کا تقاضا ہے کہ ملک کے انصاف پسند ادارے اور عدلیہ آگے بڑھیں۔ اگر آج ہیمنت بسوا سرما جیسے وزرائے اعلیٰ کو لگام نہ دی گئی تو کل آئین اور انصاف کا جنازہ اٹھ جائے گا۔ جمعیۃ کا مطالبہ بالکل بجا ہے کہ وزیر اعلیٰ کو برطرف کیا جائے، ان پر ہیٹ اسپیچ کے مقدمات درج ہوں، اور متاثرہ خاندانوں کی بازآبادکاری فوری کی جائے۔ جمعیۃ علماء ہند نے ہمیشہ حق کا پرچم بلند رکھا ہے اور آج بھی یہ پرچم سر بلند ہے۔ یہ جدوجہد صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ ہندوستان کی جمہوریت اور آئین کے تحفظ کے لیے ہے۔ ظلم اور دھمکیاں کبھی حق کی روشنی کو بجھا نہیں سکتیں، بلکہ وہ روشنی مزید تیز ہو کر ظلم کی اندھیری رات کو چیر دیتی ہے۔ ہیمنت بسوا سرما کی بوکھلاہٹ اس بات کی دلیل ہے کہ آسام میں رات کی تاریکی ختم ہونے والی ہے اور صبحِ روشن قریب ہے!
فقط و السلام
بندہ محمّد فرقان عفی عنہ
30؍ اگست 2025ء بروز سنیچر
+918495087865
mdfurqan7865@gmail.com
#Assam | #MahmoodMadni | #HimantBiswaSharma | #AssamDemolition | #PaighameFurqan | #MTIH | #TIMS
No comments:
Post a Comment