ہندوستان کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کا کردار!
✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ
(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)
ہندوستان کی جنگ آزادی کی تاریخ جب کسی غیر جانبدار نظر سے پڑھی جائے تو یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ اس سرزمین کی آزادی کا چراغ سب سے پہلے مسلمانوں نے جلایا، اس کی حفاظت کے لیے اپنے خون کی ندیاں بہائیں اور صدیوں تک اس چراغ کو بجھنے نہ دیا۔ برصغیر میں انگریزوں کے قدم جمائے جانے کے ساتھ ہی مسلمانوں نے نہ صرف ان کی غلامی کو مسترد کیا بلکہ اس کے خلاف اعلانِ جہاد کر کے اس ملک میں آزادی کی ایک ایسی جدوجہد کا آغاز کیا جو تقریباً دو صدی سے زائد عرصہ تک جاری رہی۔ یہ وہ جدوجہد تھی جس کی بنیاد اسلام کے تصورِ آزادی اور جہاد میں مضمر تھی۔ مسلمان اس حقیقت پر یقین رکھتے تھے کہ غلامی انسانیت کی توہین ہے اور ایک مسلمان کی زندگی کا مقصد یہ ہے کہ وہ اللہ کے سوا کسی کا غلام نہ ہو۔ یہی عقیدہ تھا جس نے ان کے دلوں میں غیرت و حمیت کا وہ شعلہ بھڑکایا جس کی روشنی سے پورا برصغیر منور ہوا۔
سترہویں صدی سن 1754ء میں نواب سراج الدولہؒ کے نانا علی وردی خان نے کلکتہ کے فورٹ ولیم پر حملہ کر کے انگریزوں کو شکست دی اور انہیں ڈائمنڈ ہاربر میں پناہ لینے پر مجبور کیا، جسے ملک کی پہلی منظم مسلح جنگ آزادی کہا جا سکتا ہے۔ علی وردی خان کے بعد سراج الدولہؒ حکمران بنے اور انگریزوں کے بڑھتے خطرے کو ختم کرنے کا عزم کیا، مگر دربار کی سازشوں کے باعث 1757ء میں پلاسی کی جنگ میں شکست ہوئی اور مرشدآباد میں شہید کر دیے گئے۔ اس طرح بنگال کے نواب سراج الدولہؒ نے انگریز سامراج کے خلاف میدان سنبھالا اور پلاسی کی جنگ میں اپنی جان دے کر اس ملک میں آزادی کی پہلی اینٹ رکھی۔
اسی طرح جنوب ہند دکن کے عظیم فرمانروا حیدر علیؒ (م 1782ء) اور ان کے فرزند سلطان ٹیپو شہیدؒ برصغیر کی جنگ آزادی کے وہ عظیم مجاہد تھے جو ہمیشہ انگریزوں کے لیے خطرہ بنے رہے۔ والد کے انتقال کے بعد سلطان ٹیپو ؒ نے 1783ء میں انگریزوں کے خلاف پہلی جنگ لڑی اور انگریزوں کو شکست دیا، اس کے بعد کئی جنگیں ہوئی اور سلطنتِ میسور کے شیر، سلطان ٹیپو شہیدؒ اپنے تخت و تاج کی پرواہ کیے بغیر انگریزوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بننے کے عہد پر قائم رہے۔ اور بالآخر 1799ء میں اپنی جان قربان کر کے اس حقیقت کو ثابت کیا کہ ایک مسلمان حکمران کے لیے غلامی قبول کرنے سے بہتر ہے کہ وہ میدانِ جنگ میں شہادت کو گلے لگا لے۔
اس کے بعد اٹھارویں صدی کے اوائل یعنی 1803ء میں شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ نے ”فتویٰ“ دیا کہ ہندوستان دارالحرب بن چکا ہے اور یہاں انگریزوں کے خلاف جہاد فرض ہے۔ یہ فتویٰ محض ایک دینی رائے نہیں تھی بلکہ ایک عملی اعلانِ جنگ تھا، جس نے لاکھوں مسلمانوں کے دلوں میں بغاوت کی آگ بھڑکا دی۔ اس فتوے کا اثر یہ ہوا کہ انگریزوں کے خلاف ہر گوشے سے مزاحمت اٹھنے لگی۔ یہ مزاحمت صرف زبانی نعروں تک محدود نہ تھی بلکہ خون اور جانوں کی قربانی سے مزین تھی۔ چنانچہ سن 1831ء میں سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ ”بالاکوٹ کے میدان“ میں انگریزوں کے خلاف جہاد میں شہید ہوئے، مگر ”لبریشن تحریک“ مولانا نصیرالدین دہلویؒ، پھر مولانا ولایت علی عظیم آبادیؒ (م1852ء) اور مولانا عنایت علی عظیم آبادیؒ (م1858ء) کی قیادت میں جاری رہی اور بالآخر 1857ء کی جنگ آزادی تک پہنچی۔
انگریزوں کے خلاف یہ معرکہ محض حکمرانوں تک محدود نہ رہا بلکہ عوام الناس، علماء، صوفیاء، اور دیندار طبقے نے بھی اس میں حصہ لیا۔ انگریزوں کی ریشہ دوانیوں، عیاریوں اور سازشوں کے باوجود مسلمانوں نے اپنی جدوجہد ترک نہ کی۔ 1857ء کی جنگ آزادی کو جسے تاریخ میں پہلی جنگ آزادی کہا جاتا ہے تو درحقیقت یہ وہ آگ تھی جو ایک صدی سے جل رہی تھی اور اس کی لو کو تیز کرنے والوں میں مسلمانوں کا کردار نمایاں تھا۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ، شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ، شاہ اسحاق محدث دہلویؒ اور ان کے شاگردوں کی طویل محنت کے نتیجے میں علماء کی ایک جماعت تیار ہوئی اور اس جنگ میں انہوں نے قیادت کی اور ہر محاذ پر انگریزوں کو للکارا۔ ”شاملی کا میدان“ جس کے امیر حاجی امداللہ مہاجر مکیؒ تھے اور جس کی قیادت حجۃ لاسلام مولانا قاسم نانوتویؒ اور مولانا رشید احمد گنگوہیؒ فرما رہے تھے، انہوں اپنے قلیل وسائل کے باوجود انگریز فوج کا مقابلہ کیا تو یہ دراصل اس عزم کا اعلان تھا کہ آزادی کی راہ میں جان و مال کی کوئی قربانی بڑی نہیں۔ اسی معرکے میں حافظ ضامنؒ سمیت کئی علماء شہید ہوئے۔ 1857ء کی جنگ میں مسلمانوں کو بظاہر شکست ہوئی، مگر درحقیقت یہ شکست نہیں بلکہ ایک طرح کی فتح تھی۔ اس جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد انگریزوں نے اسلام پر حملہ کرتے ہوئے اس کے عقائد، فکر اور تہذیب کو ہندوستان سے مٹانے کا فیصلہ کر لیا، لیکن یہی وہ فیصلہ تھا جس سے انگریزوں کے زوال کا آغاز ہوا۔ چنانچہ اسلام کے خلاف اس سازش کو بھانپتے ہوئے مولانا قاسم نانوتوی اور انکے رفقاء اکابرین دیوبند نے 30؍ مئی 1866ء کو ”دارالعلوم دیوبند“ کی بنیاد رکھی گئی، جو محض ایک دینی درسگاہ نہ تھی بلکہ ایک فکری و عملی قلعہ تھی جہاں آزادی، خودداری اور دینی غیرت کی شمع جلائی جاتی رہی۔ اس ادارے نے نہ صرف دینی علوم کی حفاظت کی بلکہ آزادی کی تحریک کو ایک فکری و نظریاتی بنیاد فراہم کی، جس نے آنے والے عشروں میں ہزاروں مجاہدین آزادی کو تیار کیا۔شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ، شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ، مولانا عبید اللہ سندھیؒ جیسے عظیم سپوتوں نے آزادی کی جدوجہد کو نہ صرف برصغیر بلکہ عالمی سطح پر بھی جوڑا۔ مالٹا کی جیل میں شیخ الہند اور شیخ الاسلام نے سالہا سال قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں لیکن ان کے عزم و حوصلے کو توڑنا ممکن نہ ہوا۔ انگریزوں کے خلاف 1912ء میں شروع ہونے والی ان کی ”تحریک ریشمی رومال“ خفیہ منصوبہ بندی سے لے کر خلافت موومنٹ تک پھیلی ہوئی تھی، جس نے مسلمانوں کے دلوں میں ایک نیا ولولہ پیدا کیا۔ سن 1919ء میں شیخ الہند کے شاگردوں نے ”جمعیۃ علماء ہند“ کی بنیاد رکھی اور اسکے پلیٹ فارم سے آزادی کی جدوجہد کو منظم کیا اور مسلمانوں کو یہ باور کرایا کہ آزادی محض ایک سیاسی ضرورت نہیں بلکہ ایک دینی فریضہ ہے۔ انہیں ایام میں ”تحریکِ خلافت“ وجود میں آئی، جس کے بانی مولانا محمد علی جوہرؒ تھے، اس تحریک سے ہندو مسلم اتحاد عمل میں آیا۔ گاندھی جی اور مسلم رہنماؤں نے ایک ساتھ ملک گیر دورہ کیا، اس تحریک نے عوام اور مسلم علماء کو ایک پلیٹ فارم پر کھڑا کردیا۔ اور ادھر مالٹا کی جیل سے شیخ الہند کی رہائی کے بعد سب سے پہلے 29؍ جولائی 1920ء کو ”ترکِ موالات“ کا فتوی شائع کیا گیا۔ اس کے بعد 29؍ دسمبر 1929ء کو امرتسر میں رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ اور امیر شریعت مولانا عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے آزادی کی تحریک کو مضبوط کرنے کیلئے ایک اور تحریک کا اعلان کرتے ہوئے ”مجلس احرار اسلام ہند“ کی بنیاد رکھی۔ یوں مختلف تحریکوں اور تنظیموں کے پرچم تلے مسلمانوں نے آزادی کی شمع روشن رکھی، اور دارالعلوم دیوبند و جمعیۃ علماء ہند جیسے اہم پلیٹ فارمز سے انگریز سامراج کے خلاف مسلسل بھرپور آوازیں بلند ہوتی رہیں۔ اور بالآخر 15؍ اگست 1947ء کے دن وطن عزیزبھارت کو انگریزوں سے مکمل آزادی ملی۔
یہ حقیقت بھی تاریخ کا ایک سنہری باب ہے کہ آزادی کی اس طویل جدوجہد میں ایک صدی تک مسلمان عملاً تن تنہا میدان میں ڈٹے رہے۔ انگریز حکومت نے ہر ممکن کوشش کی کہ مسلمانوں کی قیادت کو ختم کیا جائے، ان کے تعلیمی ادارے بند کیے جائیں، ان کے دینی شعائر کو مٹایا جائے اور ان کے تشخص کو مسخ کیا جائے، لیکن مسلمانوں نے ہمت نہ ہاری۔ چاہے وہ 1857ء کے شہداء ہوں، چاہے بالا کوٹ کے میدان میں سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ کا خون ہو، یا پھر 1920ء کی جمعیۃ علماء ہند، تحریک خلافت کے جلسے اور جلوس؛ ہر مقام پر مسلمانوں نے اپنے ایمان اور عزم کا ثبوت دیا۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں آزادی کی وہ فضا پیدا ہوئی جس میں دوسرے طبقات نے بھی اپنے حصے کا کردار ادا کرنا شروع کیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس فضا کو قائم رکھنے اور پروان چڑھانے والے مسلمان ہی تھے۔
آج افسوس کا مقام یہ ہے کہ جن مسلمانوں نے اپنی جانوں کی قربانی دے کر اس ملک کو آزادی دلائی، ان ہی سے آج محب وطن ہونے کا سرٹیفکیٹ طلب کیا جا رہا ہے۔ یہ سوال ان زبانوں سے اٹھ رہا ہے جن کا اس جنگ آزادی میں دور دور تک کوئی کردار نہ تھا، بلکہ بعض کے آبا و اجداد انگریزوں کے وفادار رہے اور آزادی کی تحریک کو کچلنے میں انگریزوں کے مددگار بنے۔ تاریخ کے یہ سیاہ کردار آج اس حد تک جری ہو گئے ہیں کہ ملک کی آزادی کے اصل محافظوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، ان کے مذہبی شعائر پر قدغن لگاتے ہیں، ان کے تعلیمی اداروں کو نشانہ بناتے ہیں اور ان کے بنیادی حقوق کو پامال کرتے ہیں۔لیکن تاریخ کا ایک اور سبق یہ بھی ہے کہ مسلمانوں نے جب بھی ظلم و جبر کے سائے تلے زندگی گزاری، انہوں نے آزادی کے لیے جدوجہد کی اور اپنی جان و مال قربان کیے۔ اگر آج بھی حالات اس نہج پر پہنچ جائیں کہ ظلم اپنی انتہا کو چھو لے اور انصاف کا چراغ بجھنے لگے، تو وہی مسلمان جو کل انگریزوں کے خلاف سینہ سپر تھے، آج کے ظالموں کے خلاف بھی میدان میں ہوں گے۔ کیونکہ ان کے خون میں وہی غیرت، وہی حمیت اور وہی جذبہ موجزن ہے جو سلطان ٹیپو شہیدؒؒ، مولانا قاسم نانوتویؒ، مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ اور مولانا حسین احمد مدنیؒ کے رگ و پے میں دوڑتا تھا۔
ہندوستان کی آزادی کی کہانی محض سیاسی جملوں یا سرکاری نصاب کی محدود سطروں میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ یہ کہانی شہادتوں، قربانیوں اور جدوجہد کے ان ابواب پر مشتمل ہے جنہیں مسلمانوں کے خون سے لکھا گیا۔ یہ کہانی ان بزرگوں کی ہے جنہوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، پھانسی کے پھندوں کو بوسہ دیا، جلاوطنی کو گلے لگایا اور اپنی نسلوں کو غلامی سے بچانے کے لیے سب کچھ قربان کر دیا۔ اور یہ کہانی ہمیں یہ یاد دلاتی ہے کہ محب وطن وہ نہیں ہوتے جو صرف زبانی دعوے کریں بلکہ وہ ہیں جو آزادی کی قیمت اپنے خون سے ادا کریں۔
لہٰذا آج اگر کوئی مسلمان کے حب الوطنی پر سوال اٹھاتا ہے تو دراصل وہ تاریخ سے ناواقف ہے یا جان بوجھ کر سچ کو مسخ کر رہا ہے۔ مسلمانوں کا کردار اس ملک کی آزادی میں بنیاد کا ہے اور بنیاد کو کمزور کر کے عمارت مضبوط نہیں رہ سکتی۔ جو قوم اپنی بنیاد کو فراموش کر دے، وہ خود اپنے زوال کو دعوت دیتی ہے۔ مسلمانوں نے کل بھی اس وطن کو غلامی سے نکالا تھا اور اگر آج ضرورت پڑی تو وہی کردار ادا کر کے اس وطن کو ہر ظالم اور جابر کے پنجے سے آزاد کرائیں گے، کیونکہ آزادی اور خودداری مسلمانوں کی میراث ہے اور وہ اس میراث کی حفاظت کرنا بخوبی جانتے ہیں۔ گرچہ مسلمانوں کی قربانیوں کو مٹانے اور ان کے کردار کو فراموش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، لیکن مسلمانوں کی تاریخ، جدوجہد اور خدمات ایسی روشن اور ناقابلِ فراموش حقیقت ہیں جو وقت کی گرد میں دب نہیں سکتیں، بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے ہمیشہ حوصلہ، عزم اور آزادی کی جستجو کا چراغ بنی رہیں گی۔
جب پڑاوقت گلستاں پہ توخوں ہم نے دیا
جب بہارآئی تو کہتے ہیں ترا کام نہیں
فقط و السلام
بندہ محمّد فرقان عفی عنہ
12؍ اگست 2025ء بروز منگل
#IndependenceDay | #Azaadi | #FreedomFighters | #PaighameFurqan | #MTIH | #TIMS
No comments:
Post a Comment