Friday, 8 January 2021

سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں!

 


سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں!


از قلم : حضرت مولانا سید کمال اللہ بختیاری ندوی‏ مدظلہ

(لکچرر شعبۂ عربی دی نیوکالج، چینائی)

 


”اللہ تعالیٰ نے دین کی ترویج و تقسیم کا کام آدم علیہ السلام سے شروع کیا اور بالآخر سیدالمرسلین خاتم النّبیین  صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ زریں سلسلہ مکمل و ختم فرمادیا آپ  صلی اللہ علیہ وسلم وہی دین لے کر آئے جو دیگر انبیاء کرام لے کر آئے تھے جو ابتدا آفرینش سے تمام رسولوں کا دین تھا اسی دین کو تمام آمیزیشوں سے پاک کرکے اس کی اصل خالص صورت میں پیش کیا اب خدا کا حکم اس کا دین اس کا قانون وہ ہے جو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش فرمایا آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی خداکی نافرمانی ہے کلمہ طیبہ کی استدلالی و منطقی توجیہ یہ ہے کہ اس میں پہلے تمام خداؤں کا انکار پھر ایک خدائے وحدہ لاشریک لہ کا اقرار ہے اسی طرح تمام انبیاء کی سابقہ شریعتوں و طریقوں پر عمل کرنے کا انکار ہے (اس لئے کہ تمام شریعتیں شریعت محمدی  صلی اللہ علیہ وسلم میں سموگئی ہیں) اور صرف اسوئہ نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم پر چلنے کا اقرار ہے۔


قصراسلام میں ایک اینٹ کی جگہ خالی رہ گئی تھی سو وہ آپ کے ذریعے اللہ نے پرُکردی۔ آپ کی رسالت نسل انسانی پر اللہ کی سب سے بڑی رحمت اور نعمت غیرمترقبہ ہے۔ نزولِ کتب وصحف کا سلسلہ و طریقہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم پر منقطع کردیاگیا۔ سلسلہٴ نبوت و رسالت کو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کردیا گیا۔ اب آپ کے بعد کوئی رسول یا نبی نہیں آئیگا۔ قرآن کی طرح آپ کی رسالت ونبوت بھی آفاقی وعالمگیر ہے جس طرح تعلیمات قرآنی پر عمل پیرا ہونا فرض ہے اسی طرح تعلیمات نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنا فرض ہے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت تمام جن وانس کیلئے عام ہے دنیا کی ساری قومیں اور نسلیں آپ کی مدعو ہیں تمام انبیاء کرام میں رسالت کی بین الاقوامی خصوصیت اور نبوت کی ہمیشگی کا امتیاز صرف آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے۔ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم گروہ انبیاء کرام کے آخری فرد ہیں اور سلسلہٴ نبوت و رسالت کی آخری کڑی ہیں۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم خلاصہ انسانیت ہیں۔“(۱)


ختم نبوت قرآنی آیات کی روشنی میں


ختم نبوت اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے اسلام کی ساری خصوصیات اورامتیازات اسی پر موقوف ہیں۔ ختم نبوت ہی کے عقیدہ میں اسلام کا کمال اور دوام باقی ہے۔ چنانچہ اس آیت میں اس کی پوری وضاحت اور ہرطرح کی صراحت موجود ہے ”مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِن رَّسُولَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلَیْمًا“ نہیں ہیں محمد  صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ لیکن اللہ کے رسول اور تمام انبیاء کے سلسلہ کو ختم کرنے والے ہیں اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے(۲)


آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم علیہ وسلم کے متعلق اس آیت میں جو اعلان کیاگیا ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم آخری رسول ہیں۔ اب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے کے بعد کوئی رسول آنے والا نہیں ہے اس قرآنی اعلان کا مقصد محض فہرست انبیاء و رسل کے پورے ہوجانے کی اطلاع دینا نہیں ہے بلکہ اس قرآنی اعلان اور پیغام کا مقصد یہ بتانا ہے کہ اگرچہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ نبوت دنیا میں رہ جانے والی نہیں ہے مگر آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا بدل کارِ نبوت کی شکل میں ہمیشہ تاقیامت باقی ہے۔ اللہ نے اس آیت میں خاتم الرسل یا خاتم المرسلین لفظ کے بجائے خاتم النّبیین کا لفظ اختیار فرمایا ہے اس میں قابل غور نکتہ یہ ہے کہ نبی میں عمومیت ہوتی ہے اور رسول میں خصوصیت ہوتی ہے نبی وہ ہوتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ اصلاح خلق کیلئے منتخب فرماتا اور اپنی وحی سے مشرف فرماتا ہے اور اس کے لئے کوئی مستقل کتاب اور مستقل شریعت نہیں ہوتی ہے۔ پچھلی کتاب و شریعت کے تابع لوگوں کو ہدایت کرنے پر مامور ہوتا ہے جیسے حضرت ہارون علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب و شریعت کے تابع اور ہدایت کرنے پر مامور تھے۔ رسول وہ ہوتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ مستقل کتاب و مستقل شریعت سے نوازتا ہے جو رسول ہوتا ہے وہ اپنے آپ نبی ہوتا ہے لیکن جو نبی ہوتا ہے وہ رسول نہیں ہوتا لفظ خاتم النّبیین کا صاف مطلب یہ ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم انبیاء کے سلسلہ کو ختم کرنے والے اور سب سے آخر ہیں اب قیامت تک نہ تو نئی شریعت و کتاب کے ساتھ کسی کو منصب رسالت پر فائز کیاجائے گا اور نہ پچھلی شریعت کے متبع کسی شخص کو نبی بناکر بھیجا جائے گا۔


اس آیت میں ان لوگوں کے خیال کا رد بھی ہے جو اپنی جاہلانہ رسم و رواج کی بناء پر لے پالک کو حقیقی بیٹا سمجھتے اور بیٹے کا درجہ دیتے تھے۔ زید بن حارثہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کے منھ بولے بیٹے تھے چنانچہ جب انھوں نے اپنی بیوی حضرت زینب کو طلاق دیدی تو آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کرلیا تو اس نکا پر طعن کرتے تھے کہ بیٹے کی بیوی سے آپ نے نکاح کرلیا اس آیت میں یہ بتانا مقصود ہے کہ زید بن حارثہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی بیٹے نہیں ہیں وہ تو حارثہ کے بیٹے ہیں مزید تاکید کے طور پر یہ بھی بتادیاگیا کہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم تم مردوں میں سے کسی جسمانی باپ نہیں ہیں البتہ اللہ کے رسول ہونے کی حیثیت سے سب کے روحانی باپ ضرور ہیں۔ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کے چار بیٹے قاسم، طیب، طاہر حضرت خدیجہ سے اور ابراہیم حضرت ماریہ قبطیہ سے تھے لیکن ان میں سے کوئی رجال کی حد تک نہیں پہنچاتھا اوراس آیت کے نزول کے وقت آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی بیٹا نہیں تھا۔ حقیقی باپ ہوتو اس پر نکاح کے حلال وحرام کے احکام عائد ہوتے ہیں لیکن حضرت زید بن حارثہ تو لے پالک بیٹے تھے اس آیت کا مطلب یہ ہوا کہ آپ اُمت کے مردوں میں سے کسی کے بھی نسبی باپ نہیں لیکن روحانی باپ سب کے ہیں۔


یہاں لفظ خاتم پر ایسی روشنی ڈالی جارہی ہے جس سے عقیدہٴ ختم نبوت کی پوری وضاحت ہوجاتی ہے۔ لفظ خاتم دوقرأتوں سے بھی ثابت ہے۔ امام حسن اور عاصم کی قرأت سے خاتم بفتح التاء ہے اور دوسرے ائمہ قرأت سے خاتم بکسر التاء ہے۔ دونوں کا معنی ایک ہی ہے یعنی انبیاء کے سلسلہ کو ختم کرنے والے اور دونوں کے معنی آخر اور مہرکے ہیں۔ اور مہر کے معنی میں یہ دونوں لفظ استعمال ہوتے ہیں۔ مہر کے یہ معنی ہوئے کہ اب دستاویز مکمل ہوگئی۔ اس میں اب کسی قسم کی گنجائش اضافہ کی ہے نہ کمی کی ہے۔ امام راغب نے مفردات القرآن میں فرمایاہے: وَخَاتَمُ النُّبُوَّةِ لِاَنَّہُ خَتَمَ النُّبُوَّةَ الَّتِی تَمَّمَہَا بِمَجِیْئِہ “ یعنی آپ کو خاتم النبوت“ اس لئے کہاگیا کہ آپ نے نبوت کو اپنے تشریف لانے سے ختم اور مکمل فرمادیا۔ (۳)


خاتم القوم سے مراد آخر ہم قبیلے کا آخری آدمی(۴) ”خَتَمَ النُّبُوَّةَ فَطُبِعَ عَلَیْہَا فَلاَ تُفْتَحُ لِاَحَدٍ بَعْدَہُ اِلَی قِیَامِ السَّاعَةِ“ آپ نے نبوت کو ختم کردیا اور اس پر مہر لگادی اب قیامت تک یہ دروازہ نہیں کھلے گا۔(۵)


امام غزالی لکھتے ہیں: ”اِنَّ الْاُمَّةَ فَہِمَتْ بِالْاِجْمَاعِ مِنْ ہٰذَا اللَّفْظِ خَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ وَمِنْ قَرَائِنِ اَحْوَالِہِ اَنَّہُ فَہِمَ عَدْمَ نَبِیِّ بَعْدَہُ اَبَدًا وَاَنَّہُ لَیْسَ فِیْہِ تَاوِیْلٌ وَلاَ تَخْصِیْصٌ فَمُنْکِرُ ہٰذَا لاَ یَکُوْنُ الاَّ اِنْکَارَ الْاِجْمَاعِ“ بیشک امت نے اس لفظ خاتم النّبیین سے اور اسکے قرائن احوال سے بالاجماع یہی سمجھا ہے کہ اس آیت کا مطلب یہی ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہوگا اور نہ رسول اور نہ اس میں کوئی تاویل چل سکتی ہے اور نہ تخصیص اور اس کا منکر یقینا اجماع کا منکر ہے(۶)


ارشاداتِ ربانی فرموداتِ نبوی کی روشنی میں علمائے اُمت وصلحائے ملت نے اجماعی طور پر صدیوں سے اس آیت کا یہی مطلب یعنی ختم نبوت سمجھا اور سمجھایا ہے۔


ختم نبوت احادیث وروایات کی روشنی میں


حضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم تھا کہ آپ کے تشریف لے جانے کے بعد دشمنانِ اسلام نئے نئے فتنے اٹھائیں گے دین میں طرح طرح کے رخنے ڈالیں گے اور خصوصاً ختم نبوت کے تعلق سے شبہات پیدا کرکے اُمت مسلمہ کو راہِ راست سے ہٹانے کی کوشش کریں گے لہٰذا آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور پیش بندی اُمت کو ان آئندہ خطرات سے آگاہ فرمادیا اور اُمت کو پوری طرح چوکنا کردیا کہ جو بھی نبوت کا دعویٰ کرے اسے وقت کا دجال باطل پرست اور فتنہ پرور سمجھا جائے اور اسے دین سے خارج کردیا جائے چنانچہ عقیدئہ ختم نبوت ہر زمانہ میں تمام مسلمانوں کا متفق علیہ عقیدہ رہا ہے اور اس امر میں مسلمانوں کے درمیان کبھی کوئی اختلاف نہیں رہا جس کسی نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا ہے یا جس کسی نے بھی دعویٰ کو قبول کیا ہے اسے متفقہ طور پر اسلام سے خارج سمجھا گیا ہے اس پر تاریخ کے بہت سے واقعات شاہد ہیں۔ چند مندرجہ ذیل پیش کئے جارہے ہیں۔


آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے دور میں اسود عنسی نے نبوت کا دعویٰ کیا تو آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو اس کے قتل کیلئے روانہ فرمایا۔ صحابی رسول نے جاکر اسود عنسی کا قصہ تمام کردیا۔ حضرت عروة بن الزبیر کا بیان ہے کہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات کے ایک دن پہلے اسود عنسی کے مارے جانے کی خوشخبری ملی تو آپ نے خوشی کا اظہار فرمایا۔(۷)


حضرت ابوبکر صدیق کے د ور میں سب سے پہلے جو کام ہوا وہ یہ تھا کہ حضرت ابوبکر نے مسیلمہ کذاب جس نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا اسکی سرکوبی کیلئے حضرت خالد بن ولید کو صحابہ کرام کی ایک جماعت کے ساتھ روانہ فرمایا تو حضرت خالد بن ولید نے مسیلمہ بن کذاب سمیت اٹھائیس ہزار جوانوں کو ٹھکانے لگاکر فاتح کی حیثیت سے مدینہ واپس ہوئے۔ صدیقی دور میں ایک اور شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا جس کا نام طلیحہ بن خویلد بتایاجاتا ہے اس کے قتل کیلئے بھی حضرت خالد بن ولید روانہ کئے گئے تھے۔(۸) ”اسی طرح خلیفہ عبدالملک کے دور میں جب حارث نامی شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا تو خلیفہ وقت نے صحابہ و تابعین سے فتوے لیے اور متفقہ طور پر اسے قتل کیاگیا۔ خلیفہ ہارون رشید نے بھی اپنے دور میں نبوت کا دعویٰ کرنے والے شخص کو علماء کے متفقہ فتویٰ پر قتل کی سزا دی ہے“۔(۹)


امام ابوحنیفہ کے زمانے میں ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا اور کہا کہ مجھے موقع دو کہ میں اپنی نبوت کے علامات پیش کروں اس پر امام اعظم نے فرمایا کہ جو شخص اس سے نبوت کی کوئی علامت طلب کرے گا وہ بھی کافر ہوجائے گا کیونکہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم فرماچکے ہیں کہ ”لاَنَبِیَّ بَعْدِیْ“(۱۰) غرض یہ کہ شروع سے اب تک تمام اسلامی عدالتوں اور درباروں کا یہی فیصلہ رہا ہے کہ نبوت کا دعویٰ کرنے والے اور اسے ماننے والے کافر مرتد اور واجب القتل ہیں۔


اب آئیے ذرا احادیث کی روشنی میں ختم نبوت پر روشنی ڈالی جائے ”قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّ الرِّسَالَةَ النُّبُوَّةَ قَدْ اِنْقَطَعَتْ فَلاَ رَسُوْلَ بَعْدِی وَلاَنَبِیَّ“ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رسالت و نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا میرے بعد اب کوئی رسول ہے اور نہ نبی۔(۱۱)


قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ مَثَلِیْ وَمَثَلَ الْاَنْبِیَاءِ مِنْ قَبْلِیْ کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنٰی بَیْتًا فَاحْسَنَہُ وَاَجْمَلَہُ اِلاَّ مَوضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِیَةٍ فَجَعَلَ النَّٓسُ یَطُوْفُوْنَ بِہ یَعْجَبُوْنَ لَہُ وَیَقُوْلُوْنَ ہَلاَّ وُضِعَتْ ہٰذِہ اللَّبِنَةُ قَالَ فَاَنَا اللَّبِنَةُ وَاَنَا خَاتِمُ النَّبِیِّیْنَ“۔ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری اور مجھ سے پہلے گزرے ہوئے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے ایک عمارت بنائی اور خوب حسین وجمیل بنائی مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوٹی ہوئی تھی لوگ اس عمارت کے گرد پھرتے اور اظہارِ حیرت کرتے اور کہتے تھے کہ اس جگہ ایک اینٹ نہیں رکھی گئی آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو وہ اینٹ میں ہوں اور میں خاتم النّبیین ہوں یعنی میرے آنے کے بعد اب کوئی جگہ باقی نہیں ہے نبوت کی عمارت مکمل ہوچکی ہے۔(۱۲)


قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لاَنَبِیَ بَعْدِیْ وَلاَ اُمَّةَ بَعْدِیْ“ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے بعد کوئی نبی نہیں اور میری اُمت کے بعد کوئی امت نہیں یعنی کسی نئے آنے والے نبی کی امت نہیں۔(۱۳)


”قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَجِئْتُ فَخَتَمْتُ الْاَنْبِیَاءَ“ پس میں آیا اور میں نے انبیاء کا سلسلہ ختم کردیا۔(۱۴)


”قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَا مُحَمَّدٌ وَاَنَا اَحْمَدُ وَاَنَا الْمَاحِی الَّذِیْ یُمْحٰی بِی الْکُفْرُ وَاَنَا الْحَاشِرُ یُحْشَرُ النَّاسُ عَلَی عَقْبِیْ وَاَنَا الْعَاقِبُ الَّذِیْ لَیْسَ بَعْدَہُ نَبِیٌّ“ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں محمد ہوں میں احمد ہوں میں ماحی ہوں کہ میرے ذریعے سے کفر محو کیا جائے گا میں حاشر ہوں کہ میرے بعد لوگ حشر میں جمع کئے جائیں گے یعنی میرے بعداب بس قیامت ہی آنی ہے اور میں عاقب ہوں اور عاقب وہ ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔(۱۵)


”اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: فُضِّلْتُ عَلَی الْاَنْبَیاءِ بِسِتٍ اُعْطِیْتُ جَوَامِعَ الْکَلِمَ وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ وَاُحِلَّتْ لِی الْغَنَائِمُ وَجُعِلَتْ لِی الْاَرْضُ مَسْجِدًا وَطَہُوْرًا وَاُرْسِلْتُ اِلَی الْخَلْقِ کَافَّةً وَخُتِمَ بِی النَّبِیُّوْنَ“ آنحضرت نے فرمایا مجھے چھ باتوں میں دیگر انبیا پر فضیلت دی گئی ہے: (۱) مجھے جامع و مختصر بات کہنے کی صلاحیت دی گئی، (۲) مجھے رعب کے ذریعے نصرت بخشی گئی، (۳) میرے لئے اموالِ غنیمت حلال کئے گئے،(۴) میرے لئے زمین کو مسجد بھی بنادیاگیا اور پاکیزگی حاصل کرنے کا ذریعہ بھی یعنی میری شریعت میں نماز مخصوص عبادت گاہوں میں ہی نہیں بلکہ روئے زمین میں ہرجگہ پڑھی جاسکتی ہے اور پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کرکے وضو کی حاجت بھی پوری کی جاسکتی ہے،(۵) مجھے تمام دنیاکیلئے رسول بنایا گیا ہے،(۶) اور میرے اوپر انبیاء کا سلسلہ ختم کردیاگیا۔“(۱۶)


قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَوْکَانَ بَعْدِی نَبِیٌّ لَکَانَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّاب․ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے بعداگر کوئی نبی ہوتا تو عمر بن الخطاب ہوتے۔ چونکہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم کردی گئی ہے اب کسی کو کسی طرح کی بھی نبوت نہیں مل سکتی۔(۱۷)


قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِعَلِیٍّ اَنْتَ مِنِّی بِمَنْزِلَةِ ہَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی اِلاَّ اَنَّہُ لاَنَبِیَّ بَعْدِیْ․ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی سے ارشاد فرمایا کہ میرے ساتھ تمہاری نسبت وہی ہے جو موسیٰ کے ساتھ ہارون کی تھی مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔(۱۸)


”قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَوْکَانَ مُوْسٰی حَیًّا لَمَا وَسَعَہُ اِلاَّ اِتِّبَاعِیْ“ اگر موسیٰ زندہ ہوتے تو ان کیلئے میری پیروی کے علاوہ چارہ کار نہ تھا۔(۱۹)


چنانچہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے اولوالعزم پیغمبر کے تعلق سے یہ وضاحت فرمادی کہ اگر موسیٰ بھی دوبارہ اس دنیامیں آتے تو انھیں میری شریعت پر ایک امتی کی حیثیت سے عمل پیرا ہونا پڑتا۔ اسی طرح آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے مستقبل کے بارے میں بتادیا کہ جب عیسیٰ علیہ السلام آسمانسے نزول فرمائیں گے تو ان کی بھی حیثیت امتی کی ہوگی۔ حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں۔ ابوہریرہ سے روایت ہے: ”قَالَ النَّبِیُّ کَیْفَ اَنْتُمْ اِذَا نَزَلَ عِیْسَی بْنُ مَرْیَمَ فِیْکُمْ وَاِمَامُکُمْ مِنْکُمْ“ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارا کیا حال ہوگا جب ابن مریم تمہارے درمیان اتریں گے اور تمہارا قائد تمہیں میں سے ہوگا۔(۲۰)


قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ”کَانَتْ بَنُوْ اِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُہُمْ الْاَنْبِیَاءُ کُلَّمَا ہَلَکَ نَبِیٌّ خَلَفَہُ وَاِنَّہُ لاَ نَبِیَّ بَعْدِیْ وَسَیَکُوْنُ خُلَفَاءُ“ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بنی اسرائیل کی قیادت انبیاء کیا کرتے تھے جب کوئی نبی فوت پایا جاتا تو دوسرا نبی اس کا جانشین ہوجاتا تھا مگر میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا بلکہ خلفاء ہوں گے۔(۲۱)


حضرت آدم علیہ السلام سے نبوت کا سلسلہ شروع ہوا۔ انبیاء آتے رہے اوراسلام کی تعلیمات کو پیش کرتے رہے۔ اس طرح اسلام بتدریج تکمیل کی طرف بڑھتا چلاگیا۔ یہاں تک کہ عمارت کا آخری پتھر سلسلہ انبیاء کے آخری نبی، رسولوں کی فہرست کے آخری رسول محمد عربی  صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوگیا نبوت کے سلسلہ کو بند کرناتھا تو نبی کے خلفاء کی طرف اشارہ کیاگیا اور خلافت رسول کا وعدہ کیاگیا۔ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوالصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الْاَرْضِ وعدہ کرلیا اللہ نے ان لوگوں سے جو تم میں ایمان لائے اور نیک عمل کئے۔ یقینا ان کو خلافت ارضی عطا کرے گا۔(۲۲)


ختم نبوت  صلی اللہ علیہ وسلم اکابرِ اُمت کی تحقیقات کی روشنی میں


علامہ ابن جریر اپنی مشہور تفسیر میں سورة احزاب کی آیت کی تشریح میں ختم نبوت کے تعلق سے یوں رقمطراز ہیں اللہ نے آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم کردی اور اس پر مہرلگادی اب یہ دروازہ قیامت تک کسی کیلئے نہیں کھلے گا۔(۲۳)


امام طحاوی اپنی کتاب (العقیدة السلفیہ) میں ختم نبوت کے بارے میں ائمہ سلف خصوصاً امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف، امام محمد کے اقوال کی روشنی میں لکھتے ہیں کہ حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے اوراس کے محبوب اورآخری نبی ہیں اور یہ بھی لکھتے ہیں کہ سیدالانبیاء وسیدالمرسلین محمد  صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اورآپ  صلی اللہ علیہ وسلم رب العالمین کے محبوب ہیں۔(۲۴)


علامہ امام غزالی فرماتے ہیں اس امر (ختم نبوت) پر اُمت مسلمہ کا کامل اجماع ہے کہ اللہ کے رسول حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں اور پوری اُمت اس بات پر متفق ہے کہ رسولِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد ”لا نَبِیَّ بَعْدِیْ“ سے مراد یہی ہے کہ ان کے بعد نہ کوئی نبی اور نہ رسول ہوگا جو شخص بھی اس حدیث کا کوئی اور مطلب بیان کرے وہ دائرئہ اسلام سے خارج ہے اس کی تشریح باطل اور اس کی تحریر کفر ہے۔علاوہ ازیں امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ اس کے سوا اس کی کوئی تشریح نہیں جو اس کا انکار کرے وہ اجماعِ امت کا منکر ہے۔(۲۵)


علامہ زمخشری اپنی تفسیر الکشاف میں لکھتے ہیں: اگر آپ یہ سوال کریں کہ جب یہ عقیدہ ہوکہ اللہ کے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت سے پہلے آخری زمانے میں نازل ہوں گے تو پھر رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی کیسے ہوسکتے ہیں میں کہتا ہوں کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم اس معنی میںآ خری ہیں کہ ان کے بعد کوئی اور شخص نبی کی حیثیت سے مبعوث نہ ہوگا۔ رہا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا معاملہ تو وہ ان انبیاء کرام میں سے ہیں جنھیں حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے نبوت سے سرفراز کیاگیاتھا اور جب وہ دوبارہ آئیں گے تو حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے متبع ہوں گے اور انھیں کے قبلہ الکعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھیں گے۔(۲۶)


علامہ ابن کثیر تحریر فرماتے ہیں ”یہ آیت (یعنی سورہ احزاب والی) اس امر میں نص ہے کہ انکے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا کیونکہ مقامِ رسالت مقامِ نبوت سے اخص ہے کیونکہ ہر رسول نبی ہوتا ہے اور ہر نبی رسول نہیں ہوتا ہے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدجو شخص بھی اس منصب کادعویٰ کرتا ہے وہ کذاب دجال مفتر اور کافر ہے خواہ وہ کسی قسم کے غیرمعمولی کرشمے اور جادوگری کے طلاسم دکھاتا پھرے اوراسی طرح قیامت تک جو شخص بھی اس منصب کا مدعی ہو وہ کذاب ہے۔(۲۷)


علامہ آلوسی لکھتے ہیں نبی کا لفظ عام ہے اور رسول خاص ہے اس لئے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النّبیین ہونے سے خاتم المرسلین ہونا لازمی ہے کہ اس دنیا میں آپ کے منصب نبوت پر فائز ہونے کے بعد کسی بھی انسان یا جن کو یہ منصب نصیب نہیں ہوگا۔(۲۸)


علامہ جلال الدین سیوطی اس آیت ”وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا“ کے تحت لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز سے آگاہ ہے اورجانتا ہے کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہ ہوگا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب نازل ہوں گے تو وہ حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے پیروکار ہوں گے۔(۲۹)


علامہ بیضاوی یوں رقمطراز ہیں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم انبیاء کرام کی آخری کڑی ہیں جنھوں نے ان کے سلسلہ کو ختم کردیا ہے اور سلسلہٴ نبوت پر مہر لگادی ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بعث ثانیہ سے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے کی تردید نہیں ہوتی کیوں کہ وہ جب آئیں گے تو انہی کے شریعت کے پیروکار ہوں گے۔(۳۰)


تاج العروس میں اس طرح ہے: ”وَمِنْ اَسْمَائِہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَلْخَاتِمُ وَالْخَاتَمُ وَہُو الَّذِیْ فَقَدَ النُّبُوَّةَ بِمَجِیْئِہ “ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموں میں سے خاتِم اور خاتَم بھی ہیں جن کا معنی یہ ہے کہ ان کی آمد پر نبوت ختم ہوگی۔(۳۱)


حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب کی کتاب سے مضمون بعنوان ”منکرین ختم نبوت وسنت کا مغالطہ اور اس کا مدلل اورمعقول جواب“ پیش خدمت ہے۔ واقعی حکیم الاسلام کا یہ جواب اتنا مدلل اور معقول ہے کہ اس سے گمراہ فرقہ قادیانیوں کی سازش کو سمجھنے اور بھولے بھالے مسلمانوں کو ان کے فتنہ سے بچانے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ ”اس میں اکثر قادیانی یہ مغالطہ دیتے ہیں کہ نبوت تو دنیاکیلئے رحمت ہے جب نبوت ختم ہوگئی اور زحمت پیداہوگئی۔ نبوت تو ایک نور ہے جب وہ نور نہ رہا تو دنیا میں ظلمت پیدا ہوگئی تواس میں (معاذ اللہ) حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین ہے کہ آپ دنیا کو زحمت دینے کیلئے آئے یا دنیامیں معاذ اللہ ظلمت پیدا کرنے کیلئے آئے کہ نور ہی ختم کردیا اور رحمت ہی ختم کردی یہ ایک مغالطہ ہے اور مغالطہ واقع ہوا ہے ختم نبوت کے معنی سمجھنے کے اندر یاتو سمجھا نہیں ان لوگوں نے یا سمجھ کر جان بوجھ کر دغا اور فریب سے کام لیا ہے۔


ختم نبوت کے معنی قطعِ نبوت کے نہیں ہیں کہ نبوت منقطع ہوگئی ختم نبوت کے حقیقی معنی تکمیل نبوت کے ہیں کہ نبوت اپنی انتہا کو پہنچ کر حدکمال کو پہنچ گئی ہے اب کوئی درجہ نبوت کا ایسا باقی نہیں رہا کہ بعد میں کوئی نبی لایا جائے اوراس درجہ کو پورا کرایا جائے۔ ایک ہی ذاتِ اقدس نے ساری نبوت کو حد کمال پر پہنچادیا کہ نبوت کامل ہوگئی تو ختم نبوت کے معنی تکمیل نبوت کے ہیں۔ قطع نبوت کے نہیں ہیں گویا کہ ایک ہی نبوت قیامت تک کام دے گی، کسی اور نبی کے آنے کی ضرورت نہیں اس لئے کہ نبوت کے جتنے کمالات تھے وہ سب ایک ذاتِ بابرکات میں جمع کردئیے گئے۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہے کہ جیسے آسمان پر رات کے وقت ستارے چمکتے ہیں ایک نکلا دوسرا تیسرا اور پھر لاکھوں اور کروڑوں کی تعداد میں ستارے جگمگا جاتے ہیں بھراہوا ہوتا ہے آسمان ستاروں سے اور روشنی بھی پوری ہوتی ہے لیکن رات رات ہی رہتی ہے دن نہیں ہوتا کروڑوں ستارے جمع ہیں مگر رات ہی ہے روشنی کتنی بھی ہوجائے لیکن جونہی آفتاب نکلنے کا وقت آتا ہے تو ایک ایک ستارہ غائب ہونا شروع ہوتا ہے یہاں تک کہ جب آفتاب نکل آتا ہے تو اب کوئی بھی ستارہ نظر نہیں پڑتا۔ چاند بھی نظر نہیں پڑتا تو یہ مطلب نہیں کہ ستارے غائب ہوگئے دنیا سے بلکہ اس کا نور مدغم ہوگیا۔ آفتاب کے نور میں کہ اب اس نور کے بعد سب کے نور دھیمے پڑگئے اور وہ سب جذب ہوگئے آفتاب کے نور میں اب آفتاب ہی کا نور کافی ہے کسی اور ستارے کی ضرورت نہیں اور نکلے گا تواس کا چمکنا ہی نظر نہیں آئے گا آفتاب کے نور میں مغلوب ہوجائے گا تو یوں نہیں کہیں گے کہ آفتاب نے نکلنے کے بعد دنیامیں ظلمت پیدا کردی نور کو ختم کردیا بلکہ یوں کہا جائے گا کہ نور کو اتنا مکمل کردیا کہ اب چھوٹے موٹے ستاروں کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ آفتاب کافی ہے غروب تک پورا دن اسی کی روشنی میں چلے گا تو اور انبیاء بمنزلہ ستاروں کے ہیں اور نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم بمنزلہ آفتاب کے ہیں جب آفتاب طلوع ہوگیا اور ستارے غائب ہوگئے تویہ مطلب نہیں ہے کہ نبوت ختم ہوگئی بلکہ اتنی مکمل ہوگئی کہ اب قیامت تک کسی نبوت کی ضرورت نہیں گویا نبوت کی فہرست تھی جس پر مہر لگ گئی۔ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے آکر لگادی اب کوئی نبی زائد ہوگا نہ کم ہوگا یہ ممکن ہے کہ بیچ میں سے کسی نبی کو بعد میں لے آیا جائے جیسے عیسیٰ علیہ السلام بعد میں نازل ہوں گے مگر وہ اسی فہرست میں داخل ہوں گے اوران کی متبع کی حیثیت ہوگی یہ نہیں ہے کہ کوئی جدید نبی داخل ہو۔ پچھلے نبی کو اگر اللہ تعالیٰ لانا چاہیں تو لائیں گے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرہست مکمل کردی کہ اب نہ کوئی نبی زائد ہوسکتا ہے نہ کم ہوسکتا ہے۔(۳۲)

______________________________


ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ10، جلد: 90 ‏،رمضان المبارک1427 ہجری مطابق اکتوبر2006ء


پیشکش : سلسلہ عقائد اسلام، شعبۂ تحفظ اسلام میڈیا سروس، مرکز تحفظ اسلام ہند

Wednesday, 6 January 2021

وجودِ باری تعالیٰ اور توحید کا اثبات واقعاتی دلائل سے!


 

وجودِ باری تعالیٰ اور توحید کا اثبات واقعاتی دلائل سے! 


از قلم : حضرت مولانا عبد الصمد صاحب


عقیدۂ توحید کی اہمیت اور ضرورت کے متعلق حضرت مولانا مفتی محمد شفیع  ؒ کی عبارت ملاحظہ فرمائیں:

’’عقیدۂ توحید جو اسلام کا سب سے پہلا بنیادی عقیدہ ہے، یہ صر ف ایک نظر یہ نہیں، بلکہ انسان کو صحیح معنی میں انسان بنانے کا واحد ذریعہ ہے جو انسان کی تمام مشکلات کا حل اور ہر حالت میں اس کی پناہ گاہ، اور ہر غم و فکر میں اس کا غمگسار ہے، کیونکہ عقیدۂ توحید کا حاصل یہ ہے کہ: عناصر کے کون و فساد اور ان کے سارے تغیرات صرف ایک ہستی کی حیثیت کے تابع اور اس کی حکمت کے مظاہر ہیں:


ہر  تغیر  ہے  غیب  کی  آواز

ہر  تجدُّد  میں  ہیں  ہزاروں  راز


اس عقیدہ کا مالک ساری دنیا سے بے نیاز، ہر خوف و خطر سے بالاتر ہوکر زندگی گزارتا ہے۔‘‘        (معارف القرآن، ص: ۱۳۹)

ہمارے اکابر اور اسلاف نے ہر دور میں مسئلہ توحید سمجھانے کے لیے روز مرہ زندگی میں پیش آنے والے واقعات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سمجھانے کی پوری پوری کوشش فرمائی ہے۔ جب بھی اسلاف سے توحید کے متعلق سوالات کیے گئے تو اللہ تبارک نے مخالفین کے حالات کے اعتبار سے ان کے دل میں ایسی مثالیں ڈالیں جو بیان کرنے کے بعد بہت ہی مؤثر ثابت ہوئیں اور ہدایت کا ذریعہ بنیں۔ اس طرح کے واقعات تو بہت زیادہ ہیں، لیکن ہم یہاں چند نمونے کے طور پر ذکر کر رہے ہیں، جن میں ابھی تک افادیت اور تاثیر کی خوشبو مہک رہی ہے :

۱:- امام اعظم ابو حنیفہ ؒ ایک دن اپنی مسجد میں تشریف فرما تھے، دہریوں کے خلاف آپ ننگی تلوار تھے،ا دھریہ لوگ آپ کو فرصت کا موقع پاکر قتل کرنے کے در پے رہتے تھے۔ ایک دن دہریہ لوگ تلوار یں تان کر جماعت کی شکل میں امام ابوحنیفہؒ کے پاس آدھمکے اور وجودِ باری تعالیٰ کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ: میں اس وقت ایک بڑی سوچ میں ہوں، لوگوں نے مجھ سے کہا ہے کہ ایک بہت بڑی کشتی جس میں طرح طرح کا تجارتی سامان ہے، مگر نہ کوئی اس کا نگہبان ہے نہ چلانے والا ہے، مگر اس کے باوجود برابر آجا رہی ہے اور بڑی بڑی موجوں کو خود بخود چیرتی، پھاڑتی گزر جاتی ہے، رُکنے کی جگہ پر رُک جاتی ہے اور چلنے کی جگہ پر چلنے لگتی ہے، نہ کوئی ملاح ہے، نہ منتظم۔ سوال کرنے والے دہریوں نے کہا کہ: آپ کس سوچ میں پڑ گئے؟ کوئی عقلمند انسان ایسی بات کہہ سکتا ہے کہ اتنی بڑی کشتی نظام کے ساتھ طوفانی سمندر میں آئے جائے، اور کوئی اس کا نگران اور چلانے والا نہ ہو؟! حضرت امام صاحب ؒ نے فرمایا کہ: افسوس تمہاری عقلوں پر کہ ایک کشتی تو بغیر چلانے والے کے نہ چل سکے، لیکن یہ ساری دنیا آسمان وزمین کی سب چیزیں ٹھیک اپنے اپنے کام پر لگی رہیں اور اس کا مالک حاکم اور خالق کوئی نہ ہو؟ یہ جواب سن کر وہ لاجواب ہو گئے اور حق معلوم کرکے اسلام لائے۔ (التفسیر الکبیر، ج:۱، ص: ۳۳۳۔ تفسیر ابن کثیر، ج:۱، ص:۵۹۔ الخیرات الحسان، ص: ۷۹)

۲:-امام مالک ؒ سے ہارون رشید نے پوچھا کہ: اللہ تعالیٰ کے وجود پر کیا دلیل ہے؟ آپ نے فرمایا: زبانوں کا مختلف ہونا، آوازوں کا جدا ہونا، لب ولہجہ کا الگ ہونا، ثابت کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ ہے۔ (التفسیر الکبیر، ج:۱، ص: ۳۳۴۔ ابن کثیر، ج: ۱، ص: ۵۸)

۳:- امام شافعی ؒ سے وجودِ باری تعالیٰ کے بارے میں سوال کیا گیا کہ تو آپ نے جواب دیا کہ: شہتوت درخت کے سب پتے ایک ہی جیسے ہیں، ایک ہی ذائقہ کے ہوتے ہیں، کیڑے اور شہد کی مکھی اور گائے، بکریاں اور ہرن وغیرہ سب اس کو چاٹتے ہیں، کھاتے ہیں، چگتے ہیں، چرتے ہیں، اسی کو کھا کر کیڑے میں سے ریشم نکلتا ہے، شہد کی مکھی شہد دیتی ہے، ہرن میں مشک پیدا ہوتا ہے، گائے، بکریاں اسے کھا کر مینگنیاں دیتی ہیں، کیا یہ اس امر کی صاف دلیل نہیں کہ ایک ہی پتے میں مختلف خواص پیدا کرنے والا کوئی ہے؟ اور اسی کو ہم اللہ تبارک تعالیٰ کہتے ہیں، وہ ہی موجد اور صانع ہے۔ (التفسیر الکبیر، ج:۱ ، ص:۳۳۳۔ ابن کثیر، ج: ۱، ص: ۵۷)

۴:- امام احمد بن حنبل ؒ سے ایک بار وجودِ باری تعالیٰ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ: سنو، یہاں ایک نہایت مضبوط قلعہ ہے، جس میں کوئی دروازہ نہیں، نہ کوئی راستہ ہے، بلکہ سوراخ تک نہیں، باہر سے چاندی کی طرح چمک رہا ہے اور اندر سے سونے کی طرح دمک رہا ہے اور اوپر نیچے دائیں بائیں چاروں طرف سے بالکل بند ہے۔ ہوا تک اس میں نہیں جا سکتی ہے، اچانک اس کی ایک دیوار گرتی ہے اور ایک جاندار آنکھوں والا ، کانوں والا بولتا چلتا، خوبصورت شکل والا، پیاری بولی والا، چلتا پھرتا نکل آتا ہے۔ بتائو! اس بند اور محفوظ مکان میں اسے پیدا کرنے والا کوئی ہے یا نہیں؟ اور وہ ہستی انسانی ہستیوں سے بالا تر اور اس کی قدرت غیر محدود ہے یا نہیں؟ آپ کا مطلب یہ تھا کہ انڈے کو دیکھو جو ہر طرف سے بند ہے، پھر اس کی سفید زردی سے پروردگار خالق یکتا جاندار بچہ پیدا کر دیتا ہے، یہ ہی دلیل ہے خدا کے وجود پر اور اس کی توحید پر۔ (التفسیرالکبیر، ج:۱، ص: ۳۳۴۔ ابن کثیر، ج: ۱، ص: ۵۹)

۵:- عالمِ اسلام اور اہلِ بیتؓ کی مشہور شخصیت حضرت جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ  کے پاس ایک زندیق ملحد آیا اور صانع و خالق کا انکار کرنے لگا۔ امام نے اس کو سمجھانے کی غرض سے سوال کیا کہ: تم نے کبھی سمندر کا سفر کشتی پر کیا ہے؟ اس نے جواباً کہا: جی ہاں ، پھر امام نے پوچھا کہ: کیاتونے سمندر کے خوفناک حالات کابھی کبھی مشاہدہ کیا ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں! پھر امام نے فرمایا: کیسے؟ ذرا تفصیل تو بتائیں؟ اس شخص نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ: ایک دن سمندری سفر کے دوران سخت خوف زدہ طوفانی ہوا چل پڑی، جس کے نتیجہ میں کشتی بھی ٹوٹ گئی اور ملاح بھی ڈوب کر مرگئے۔ میں نے ٹوٹی ہوئی کشتی میں سے ایک تختہ کو پکڑا، لیکن بالآخر سمندری موجوں کی وجہ سے وہ تختہ بھی مجھ سے چھوٹ گیا، بالآخر سمندری موجوں  نے مجھے کنارے تک پہنچا دیا۔ یہ سن کر حضرت جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا کہ: پہلے تو سمندری سفر کے دوران سمندری پانی سے گزرنے کے لیے کشتی پر اعتماد کرکے سوار ہوا اور ساتھ ساتھ ملاحوں پر بھی اعتماد کیا، لیکن جب یہ دو نوں ختم ہو گئے تو کشتی کے ایک تختہ پر اعتماد کرکے اپنے آپ کو بچانے کے لیے تو نے اس پراعتماد کیا، یہ جب سارے سہارے ختم ہوئے تو تونے اپنے آپ کو ہلاکت کے لیے تیار کرلیا۔ اس پر حضرت جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا کہ: کیا تونے اس کے بعد سلامتی کی تمنا کی؟ کہا کہ: جی ہاں، حضرت جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا کہ: اس درد ناک حالت میں سلامتی کی امید کس سے رکھی؟ وہ شخص خاموش ہوگیا۔ اس پر حضرت جعفر رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا کہ: اس خوفناک حالت میں تونے جس سے سلامتی کی اُمید رکھی، یہ ہی تو صانع وخالق ہے، جس نے تجھے غرق ہونے سے بچایا۔ یہ سن کر وہ آپ ؒ کے ہاتھ پر مسلمان ہو گیا۔ واہ کیا ہی سمجھانے کا انداز ہے ۔ (التفسیر الکبیر، ج: ۱، ص: ۳۳۳)

۶:- امام اعظم ابو حنیفہ ؒ سے ایک بار وجودِ باری تعالیٰ کے متعلق سوال کیا گیا تو آپؒ نے فرمایا کہ: تم نے یہ نہیں دیکھا کہ والدین کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ لڑکا پیدا ہو، لیکن اس کے برعکس لڑکی پیدا ہو جاتی ہے۔ اسی طرح بعض اوقات والدین کی یہ آرزو ہوتی ہے کہ لڑکی پیدا ہو، لیکن اس کے برعکس لڑکا پیدا ہو جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کوئی ایسی ذات ہے جو والدین کی خواہش کی تکمیل میں مانع ہے اور اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتی ہے۔ یہ وہی ذات ہے جس کو ہم اللہ تبارک تعالیٰ کہتے ہیں۔ (التفسیر الکبیر، ج:۱، ص: ۳۳۳)

۷:- شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ  وجودِ باری تعالیٰ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ: جس دہریہ سے چاہیں پوچھ دیکھئے کہ تمہاری کتنی عمر ہے؟ وہ ضرور بیس ، تیس، چالیس، پچاس کوئی عدد یقینی یا تخمینی بیان کرے گا، جس کے معنی یہ ہیں کہ ہم کو موجود ہوئے اتنے برس ہوئے ہیں۔ اب اس سے پوچھئے کہ آیا آپ خود بخود پیدا ہو گئے یا کسی نے تم کو پیدا کیا ہے؟ اور پھر وہ پید ا کرنے والا ممکن ہے یا واجب؟ یہ تو ظاہر ہے کہ وہ خود بخود پیدا نہیں ہوا، ورنہ واجب الوجود ہو جاتا،ا ور ہمیشہ پایا جاتاا ور پھر معدوم نہ ہوتا۔ جس کا وجود اپنا ہو‘ وہ ہمیشہ رہتا ہے۔ یہ بد یہی بات ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس کا پیدا کرنے والا ممکن نہیں، ورنہ تسلسل لازم آئے گا، اور پھر اس ممکن کے پیدا کرنے والے اور پھر اس کے پیدا کرنے میں کلام کیا جائے اور یہ سلسلہ کسی واجب الوجود کی طرف منتہی مانا جائے گا، جس نے ہم کو اس خوبی اور محبوب کی شان میں پیدا کیا ہے، وہ رب ہے جس کا ہر زمان میں ایک جدا نام ہے اور جب وہ خالق ہے تو اس میں علم، قدرت ، حیات، ارادہ وغیرہ عمدہ صفات بھی ہیں، خواہ وہ عین ذات ہو یا غیر، خواہ لاعین ولاغیر۔ (تفسیر حقانی، ج:۱، ص: ۱۱۲)

۸:- کسی بدوی دیہاتی سے وجودِ باری تعالیٰ کے بارے میں سو ال کیا گیا تو اس نے کہا کہ: ’’یَا سُبْحَانَ اللّٰہِ اِنَّ البَعْرَۃَ تَدُلُّ عَلَی الْبَعِیْرِ‘‘ زمین پر پڑی ہوئی مینگنیاں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ یہاں سے اونٹ گزر گیا ہے۔ ’’وَإِنَّ اَثَرَ الأََ قْدَامِ یَدُ لُّ عَلَی المَسِیْرِ‘‘  زمین پر پائوں کے نشانات سے کسی آدمی کے گزرنے کا پتہ چلتا ہے۔ ’’وَالْرَّوْثُ عَلَی الْحَمِیْر‘‘  لید سے گدھے کا پتہ چلتا ہے۔  ’’فَسَمَائٌ ذَاتِ الْأَبْرَاجِ وَأَرْضٌ ذَاتُ فِجَاجِ وَبحَارٌ ذَاتُ الْأَمْوَاجِ، أَلاَ یَدُلُّ عَلٰی ذٰلِکَ؟‘‘  تو کیا برجوں والا آسمان، اور راستوں والی زمین، اور موج مارنے والے سمندر، اللہ تعالیٰ باریک بین اور خبردار کے وجود پر اور توحید پر دلیل نہیں بن سکتے؟ ۔ ( التفسیر الکبیر، ج: ۱، ص: ۳۳۴۔ تفسیر ابن کثیر، ج: ۱، ص: ۵۹)

۹:-ایک حکیم سے وجودِ باری تعالیٰ کے بارے میں سوال کیا گیا کہ آپ نے اپنے رب کو کیسے پہچانا؟ تو فرمایا کہ : ’’ ہڑ اگر خشک استعمال کی جائے تو اسہال کر دیتی ہے اور اگر تر گیلی نرم کھا ئی جائے تو اسہال کو روک دیتی ہے۔‘‘ ( التفسیر الکبیر، ج:۱، ص: ۳۳۴)

۱۰:- ایک حکیم سے سوال کیا گیا کہ آپ نے اپنے رب کو کیسے پہچانا؟ تو فرمایا کہ: شہد کی مکھی کے ذریعہ، وہ اس طرح کہ شہد کی مکھی کی دو طرف ہوتی ہیں: ان میں سے ایک طرف سے تو شہد دیتی ہے اور دوسری طرف  سے ڈنگ مارتی ہے اور یہ شہد حقیقت میں اس ڈنگ کے نتیجہ میں حاصل ہوتی ہے:  ’’عرفتہ بنحلۃ  بأحد طرفیھا تعسل والآخر تلسع والعسل مقلوب اللسع۔‘‘  (التفسیرالکبیر، ج:۱، ص: ۳۳۴)

۱۱:-  ابن المعتز کا قول ہے کہ افسوس اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اس کی ذات کے جھٹلانے پر لوگ کیسی دلیری کرجاتے ہیں، حالانکہ ہر چیز اس پر وردگار کی ہستی اور وحدہٗ لاشریک ہونے پر گواہ ہے:


فیا عجباً کیف یعص الإلٰہ

أم کیف یجحدہ الجاحد

و في کل شيء لہٗ آیۃ

تدل علی أنہ واحد

 (تفسیر ابن کثیر، ج: ۷، ص: ۵۹)


پیشکش: سلسلہ عقائد اسلام، شعبۂ تحفظ اسلام میڈیا سروس، مرکز تحفظ اسلام ہند

توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے!


 

توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے! 


 از قلم : فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب مدظلہ


ریاست تلنگانہ میں ابھی ابھی برادرانِ وطن کا تیوہار گنیش پوجا گذرا ہے ، اس علاقہ میں اس تیوہار کو بڑے تزک و احتشام اور شوق و اہتمام کے ساتھ منایا جاتا ہے ، شہروں میں اس کے بڑے بڑے جلوس نکالے جاتے ہیں ، برادرانِ وطن اپنے عقیدہ کے مطابق مذہبی جذبات کا اظہار کرتے ہیں ، یقینا انھیں اس کا پورا پورا حق حاصل ہے اور اگر یہ تقریب قانون کا حق ادا کرتے ہوئے اور امن کو برقرار رکھتے ہوئے منائی جائے تو کسی کو اس پر اعتراض کا حق نہیں ، مسلمانوں نے اس ملک میں شروع سے بجا طورپر اس کا خیال رکھا ہے کہ ان کا کوئی عمل دوسرے مذہبی گروہوں کے لئے تکلیف اور دل آزاری کا سبب نہ ہو ، اس کا خیال رکھنا نہ صرف قانون کے لحاظ سے ضروری ہے ؛ بلکہ ہمارے مذہب نے بھی ہمیں یہی تعلیم دی ہے ، اسی کا نام ’’رواداری ‘‘ہے ، کہ ہم اپنے مذہب پر عمل کریں ، مگر دوسروں کے مذہبی معاملات میں دخل نہ دیں ، نہ ہم کوئی ایسی بات کہیں ، جس سے دوسروں کا دل دُکھے اور نہ ہم کوئی ایسا عمل کریں ، جس سے دوسروں کو خلل ہو ۔


لیکن اس بار مختلف مقامات سے اس طرح کی خبریں آئیں کہ وہاں مسلمان مرد و خواتین نے باضابطہ پوجا میں شرکت کی ، بالخصوص حیدرآباد کے قریبی شہر نلگنڈہ میں کچھ ایسے لوگوں نے جن کے نام مسلمانوں کی طرح کے ہیں ، گنیش جی کا منڈپ بنایا ، اس میں مورتیاں رکھیں ، مسلمان نوجوان اور برقعہ پوش خواتین وہاں جاکر بیٹھتے رہے اور قول و عمل کے ذریعہ یگانگت کا اظہار کرتے رہے ، شہر کے بعض فکر مند اور درد مند بزرگ علماء نے خواص کو توجہ دلائی اور عوام کو روکنے کی کوشش کی ؛ لیکن بدقسمتی سے سماج کے ذمہ دار مسلمانوں کو اس کی جیسی کچھ اہمیت محسوس کرنی چاہئے تھی ، محسوس نہیں کی گئی ، ایک نادانی ان لوگوں کی ہے ، جنھوںنے ایسی حرکت کی ، اور ایک تغافل ان لوگوں کا ہے ، جنھوںنے حوصلہ سے کام لے کر قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے ایسے واقعہ کو روکنے کی کوشش نہیں کی ، اس طرح کے واقعات اب ملک بھر کے مختلف علاقوں میں پیش آنے لگے ہیں ، ایسی سوچ کا پیدا ہونا اور مسلمانوں کا یہ طرز فکر کا اختیار کرنا بڑا ہی خطرناک اور لائق تشویش بات ہے ۔


حقیقت یہ ہے کہ رواداری جائز ہے اور مداہنت ناجائز ؛ لیکن رواداری اور مداہنت کی سرحدیں ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہیں ، اس لئے بہت بے دار مغزی کے ساتھ دونوں کے فرق کو سمجھنا چاہئے ، دوسرے مذہبی طور و طریق کو اختیار کرلینا مداہنت ہے رواداری نہیں ہے ، مجھ سے تو میرا کوئی ہندو بھائی دریافت کرے کہ میں آپ کے ساتھ نماز پڑھنا چاہتا ہوں ، اگرچہ کہ میرا ادارہ مسلمان ہونے کا نہیں ہے ، تو مجھے اس کے اس ارادہ سے کوئی خوشی نہیں ہوگی ؛ بلکہ میں اس کو مشورہ دوں گا کہ بہتر ہے کہ آپ نماز نہ پڑھیں ؛ کیوںکہ آپ نماز پر یقین نہیں رکھتے ، آپ کا نماز پڑھنا ایسا ہی ہوگا کہ جیسے آپ کا ارادہ تو ہو ممبئی جانے کا ، اور آپ کا کوئی دوست دلی جارہا ہو تو آپ اس کے لحاظ میں دلی کی ٹرین میں بیٹھ جائیں ، یہ کوئی حقیقت پسندی کی بات نہ ہوگی ؛ بلکہ ناسمجھی کا عمل ہوگا ۔


ہم جب اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے عقیدہ اور عملی زندگی دونوں میں ان تعلیمات کو قبول کیا ہے ، جو قرآن و حدیث کے ذریعہ ہمیں معلوم ہوئی ہیں ، ہمارے لئے یہ بات تو ضروری ہے کہ جیسے ہم خود ایک عقیدہ رکھتے ہیں ، ہم دوسرے بھائیوں کے لئے بھی اس حق کو تسلیم کریں کہ انھیں بھی اپنی پسند کے مطابق مذہب کو اختیار کرنے کا حق حاصل ہے ، آخرت کا مسئلہ اللہ کے حوالہ ہے ؛ لیکن دنیا میں ہمارے لئے کسی پر اپنا عقیدہ تھوپنے کی اجازت نہیں ، اللہ تعالیٰ نے خود ارشاد فرمایا ہے کہ اگر اللہ کو یہ بات منظور ہوتی کہ سارے کے سارے لوگ مسلمان ہی ہوں تو تم سب کو ایک ہی اُمت بنا دیاجاتا : ’’ وَلَوْ شَآئَ ﷲ ُلَجَعَلَکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً‘‘ (المائدۃ : ۴۸ ، النحل : ۹۳) اس سے معلوم ہوا کہ مذاہب و ادیان کا اختلاف اللہ تعالیٰ کی مشیت کے دائرہ میں ہے ، اس اختلاف کو اس دنیا میں مٹایا نہیں جاسکتا ۔


لیکن ہمارے لئے اس بات کی گنجائش بھی نہیں ہے کہ ہم اپنے آپ کو مسلمان بھی کہیں اور ایسی باتوں کو بھی قبول کرلیں جو اسلامی عقیدہ سے ٹکراتی ہوں ، یہ ہرگز رواداری نہیں ، یہ مداہنت ، نفاق ، موقع پرستی اور بے ضمیری ہے ، اسلام کے تمام عقائد کی بنیاد توحید ہے ، اس عقیدہ کی ترجمانی کلمہ طیبہ ’’ لا اِلٰہ الا اللہ ‘‘ سے ہوتی ہے ، اس کلمہ میں اثبات بھی ہے اور نفی بھی ، تسلیم بھی ہے اور انکار بھی ، اقرار بھی ہے اور براء ت کا اظہار بھی ، اس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات موجود ہے اور وہ ایک ہے ، یہ پہلو کفر کی ایک خاص قسم ’’ کفر الحاد ‘‘ کی تردید کرتا ہے ، الحاد کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے وجود ہی کو نہ مانا جائے ، جیساکہ آج کل کمیونسٹ کہتے ہیں ، یا جیساکہ بہت سے اہل مغرب اور مشرقی ملکوں کے مغرب زدہ لوگ کہا کرتے ہیں ، اس کائنات کو سر کی آنکھوں سے دیکھنے اور اس کی نعمتوں سے فائدہ اُٹھانے کے باوجود خدا کا انکار کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص کہے کہ میں بغیر باپ کے اپنے آپ پیدا ہوگیا ہوں ، یقینا ایسا کہنے والے کو لوگ یا تو پاگل کہیں گے یا سمجھیں گے کہ یہ ثابت النسب نہیں ہے ۔


اس کلمہ کا منفی پہلو یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی اور خدا نہیں ، خدائی میں شرکت نہیں ہے ؛ بلکہ وحدت ہے ، یہ کفر کی ایک دوسری قسم ’’ کفر شرک ‘‘ کی تردید کے لئے ہے ، یہ بات قابل توجہ ہے کہ کلمۂ طیبہ میں پہلے اسی منفی پہلو کا ذکر کیا گیا ہے ، مثبت پہلو کا ذکر بعد میں آیا ہے ، قرآن مجید میں جو دلائل پیش کئے گئے ہیں ، وہ زیادہ تر شرک کی تردید کے لئے ہیں ، مختلف انبیاء نے جو اپنی قوموں کو خطاب فرمایا ہے ، اس کی تفصیل قرآن مجید میں موجود ہے ، ان سبھوں کا ہدف شرک کا رد کرنا تھا ، جن جن قوموں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آیا ہے ، ان کی اصل بیماری شرک ہی تھی ؛ البتہ شرک کی مختلف شکلیں ان کے یہاں مروج تھیں ، کوئی قوم مورتی پوجا کرتی تھی ، کوئی سورج ، چاند اور ستاروں کی پوجا کرتی تھی ، کسی کے یہاں بادشاہ پرستی مروج تھی ، کوئی جانور کا پرستار تھا ؛ لیکن اللہ تعالیٰ کی معبودیت میں دوسروں کو شریک ٹھہرانا ان میں قدرِ مشترک تھا ، اہل علم نے لکھا ہے کہ مسلمان کے لئے توحید کے اقرار کے ساتھ باطل معبودوں سے براء ت کا اظہار بھی ضروری ہے ، ( مفاتیح الغیب : ۶؍۲۵۴)اسی لئے اسلامی عقائد کے مشہور ترجمان امام طحاویؒ اپنی کتاب ’’ العقیدۃ الطحاویۃ‘‘ میں اور اس کے مشہور شارح علامہ ابن ابی العز حنفی فرماتے ہیں : ’’یہی وہ کلمہ توحید ہے ، جس کی طرف تمام پیغمبروں نے دعوت دی اور اس کلمہ میں توحید کا ذکر نفی و اثبات دونوں اعتبار سے ہے ، جو حصر کا تقاضا کرتا ہے ، اس لئے کہ اگر صرف خدا کا اثبات ہوتا تو اس میں ( دوسرے خدا کی ) شرکت کا احتمال ہوسکتا تھا ‘‘ ( شرح العقیدۃ الطحاویۃ : ۱۰۹) ایک اور موقع پر فرماتے ہیں :


’’جان لوکہ توحید رسولوں کی بنیادی دعوت ہے ، یہ راستہ کی پہلی منزل ہے اور یہی وہ مقام ہے جس کے ذریعہ سالک اللہ کے مقام تک پہنچ سکتا ہے ؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ نوح نے کہا : اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو ، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے ، ( اعراف : ۵۹) اور حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا : اللہ کی عبادت کرو کہ اللہ کے سوا تمہارا اور کوئی معبود نہیں ، ( اعراف : ۶۵) نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ہم نے ہر اُمت میں رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور غیر اللہ کی عبادت سے بچو ، ( نحل : ۳۶) اسی لئے مکلف پر جو پہلا فریضہ عائد ہوتا ہے ، وہ یہی ہے کہ وہ اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ‘‘۔ ( شرح العقیدۃ الطحاویۃ : ۷۷)


قرآن و حدیث کی اگر تمام تعلیمات کو جمع کیا جائے تو اس کا غالب حصہ عقیدۂ توحید کی تعلیم اور ہر قسم کے شرک کی تردید سے جڑا ہوا ہے ، مسلمان جس حال میں بھی رہے اور جیسی کچھ آزمائش سے گذرے ؛ لیکن اس کی زبان پر ہمیشہ یہی کلمہ رہے :


إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ اَعْبُدَ اﷲِ وَلَآ أُشْرِکَ بِہٖ ، إِلَیْہِ أَدْعُوْا وَإِلَیْہِ مَآبِ ۔ (الرعد : ۳۶)


مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ کی عبادت کروں اور اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤں ، میں اسی کی طرف دعوت دیتا ہوں اور اسی کی طرف ہماری واپسی ہے ۔


مسلمانوں نے سب کچھ برداشت کیا ؛ لیکن عقیدۂ توحید کے بارے میں کبھی جانتے بوجھتے مداہنت گوارا نہیں کیا ، جب صحابہ نے رسول اللہ ا کے حکم سے حبش کی طرف ہجرت فرمائی اور وہاں انھیں امن و سکون نصیب ہوا تو اہل مکہ کو یہ بات گوارا نہیں ہوئی اور انھوںنے ان کے پاس اپنے نمائندے بھیجے ، حبش کے بادشاہ نجاشی نے مسلمانوں کو بھی طلب کیا اور ان کی مخالفت میں آنے والے وفد کو بھی ، مسلمانوں کی طرف سے حضرت جعفر بن ابی طالبؓ نے ایک مؤثر تقریر فرمائی اور اس میں ان خوشگوار تبدیلیوں کا ذکر فرمایا ، جو پیغمبر اسلام صلی اللہ ا کی بعثت سے عرب کے جاہلی معاشرہ میں آئی ، جس نے کانٹوں کو پھول اور ذروں کو آفتاب بنادیا تھا ، نجاشی بہت متاثر ہوئے ، مسلمانوں کو قیام کی اجازت دی اور مخالفین کے لائے ہوئے تحائف بھی واپس کردیئے ، اہل مکہ نے دوبارہ آپس میں مشورہ کیا کہ عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا مانتے ہیں ، اور محمد ا اللہ کا بندہ ، تو کل ہم بادشاہ کے سامنے رکھیں گے کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ایسی بات کہتے ہیں ، جو آپ کے لئے بہت ہی ناگوار خاطر ہوگی ؛ چنانچہ وہ اس شکایت کو لے کر پہنچے ، مسلمانوں کے وفد کی دوبارہ طلبی ہوئی ، صحابہ نے آپس میں مشورہ کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق سوال کا ہمیں کیا جواب دینا چاہئے ، حضرت جعفر ؓنے فرمایا : خدا کی قسم ہم وہی کہیں گے ، جو ہمارے رسول ا نے ہمیں بتایا ہے ، چاہے اس کی وجہ سے جوبھی صورت حال پیش آئے ، انھوںنے پوری قوت کے ساتھ نجاشی کے سامنے یہ بات کہی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بیٹے نہیں ہیں ، خدا کے بندے اور پیغمبر ہیں ، نجاشی خود صاحب علم تھے ، حضرت جعفرؓ کی صدق کلامی اور صاف گوئی نے ان کو بے حد متاثر کیا اورانھوںنے ایک تنکا اُٹھاکر کہا کہ جتنی بات اِنھوںنے کہی ہے ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شخصیت اُس سے اِس تنکے کے برابر بھی زیادہ نہیں ہے ۔ ( مسند احمد : ۱؍ ۲۰۲، حدیث نمبر : ۱۷۴۰)


غرض کہ ایسے نازک حالات میں بھی صحابہ نے نہ صرف توحید پر استقامت اختیار کی ؛ بلکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں سکوت اختیار کرنے یا اَنجان بن جانے کا راستہ بھی اختیار نہیں کیا ، مسلمان فکری پستی کی اِس سطح پر آجائے کہ شرکِ صریح مبتلا ہوجائے ، یہ ایک ناقابل تصور بات ہے ، حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ مکہ کے بڑے بڑے سردار ولید بن مغیرہ ، عاص بن وائل ، اسود بن عبد المطلب اوراُمیہ بن خلف وغیرہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انھوںنے آپ کے سامنے دو تجویزیں رکھیں ؛ تاکہ آپسی جھگڑا ختم ہوجائے ، ایک یہ کہ ہم بھی آپ کے خدا کی عبادت کریں اور آپ بھی ہمارے بتوں کی پوجا کرلیجئے ، یا مدت متعین کرلیں کہ ایک سال آپ کے خدا کی عبادت ہو ، ہم اور آپ سب مل کر آپ کے خدا کی عبادت کریں اور ایک سال ہماری مورتیوں کی پوجا ہو اور ہم اور آپ مل کر پوجا کریں ، اسی موقع پر سورۂ کافرون نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے واضح فرمادیا کہ نہ ہم تمہارے معبودوں کی عبادت کرسکتے ہیں اور نہ تم اس بات کے لئے تیار ہو کہ تنہا ہمارے خدا کی عبادت کرو ، تواس طرح عبادت میں تو اشتراک ممکن نہیں کہ ہم اللہ کو ایک بھی مانیں اور اللہ کے ساتھ شریک بھی ٹھہرائیں ؛ لیکن قابل عمل صورت یہ ہے کہ آپ اپنے مذہب پر عمل کریں ، ہماری طرف سے کوئی چھیڑ خوانی نہیں ہوگی ، اور ہمیں ہمارے مذہب پر عمل کرنے دیں ۔ ( تفسیر قرطبی : ۲۰؍۲۲۵- ۲۲۷)


اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کی ایک شکل تو یہ ہے کہ آدمی زبان سے کسی کو شریک ٹھہرائے اور دوسری شکل یہ ہے کہ وہ اپنے عمل کے ذریعہ اس کا اظہار کرے ، جیسے کوئی شخص غیر اللہ کو سجدہ کرے ، غیر اللہ کے نام سے جانور ذبح کرے ، زبان سے کچھ نہ کہے ؛ لیکن غیر اللہ کے سامنے ایسا عمل کرے جس کو پوجا سمجھا جاتا ہو ، یہ بھی شرک ہے ، صحابہ نے آپ ا سے سجدہ کرنے کی اجازت چاہی ؛ لیکن آپ نے اس کی اجازت نہیں دی ، ( ابوداؤد ، باب فی حق الزوج علی المرأۃ ، حدیث نمبر : ۲۱۴۰) صحابہ نے دوسروں کے سامنے جھکنے کی اجازت طلب کی ؛ لیکن آپ نے اس کو بھی گوارا نہیں فرمایا ، ( سنن الترمذی ، حدیث نمبر : ۲۷۲۸) جس وقت دوسری قومیں سورج کی پوجا کیا کرتی تھیں ، آپ نے ان اوقات میں نماز پڑھنے کو منع فرمادیا ، (بخاری ، کتاب مواقیت الصلاۃ ، حدیث نمبر : ۵۸۱) شریعت کے اسی مزاج کو سامنے رکھتے ہوئے فقہاء نے شعلہ پھینکتے ہوئے چراغ کے سامنے نماز پڑھنے کو منع کیا ؛ کیوںکہ اس میں آتش پرستوں کی مشابہت ہے ، (المحیط البرہانی : ۵؍۳۰۸) نمازی اس طرح نماز پڑھے کہ بالکل اس کے سامنے کسی شخص کا چہرہ ہو ، اس کو بھی روکا گیا ، ( حوالۂ سابق) کیوںکہ اس میں شرک کا ایہام ہے ، اسی مصلحت کے تحت تصویر کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھنے کو منع فرمایا گیا ہے ، (حوالۂ سابق: ۵؍۳۰۹) کہ صاحب تصویر کی عبادت کی شکل نہ محسوس ہو ۔


دوسرے مذاہب کے شعائر کو اختیار کرنے کی ممانعت کی گئی ؛ چنانچہ مجوسی ایک خاص قسم کی ٹوپی پہنتے تھے ، اس ٹوپی سے منع کیا گیا ، برہمنوں کی طرح کمر میں زنار باندھنے سے منع کیا گیا ، ( فتاویٰ ہندیہ : ۲؍ ۲۷۶) آتش پرستوں کے یہاں مذہبی تقریب کی حیثیت سے ’ نو روز ‘منایا جاتا تھا ، اس میں شرکت کو بعض فقہاء نے کفر قرار دیا ہے ، ( مالا بد منہ : ۱۳۸) ممتاز فقیہ اور مصلح حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ فرماتے ہیں :


جو چیزیں دوسری قوموں کی مذہبی وضع ہیں ، ان کا اختیار کرنا کفر ہے ، جیسے صلیب لٹکانا ، سرپر چوٹی رکھنا ، جنیو باندھنا ،یا ’’ جے ‘‘ پکارنا وغیرہ ۔ ( حیات المسلمین : ۲۲۴)


فقہاء نے جن صورتوں کا ذکر کیا ہے ، مورتی بیٹھانا اور اس کی تعظیم میں وہاں بیٹھنا ، یا اس پر پھول چڑھانا اس سے کہیں بڑھا ہوا عمل ہے ، اس لئے جہاں بھی جو لوگ اپنی نادانی ، ناسمجھی اور غلط رہنمائی کی وجہ سے اس کے مرتکب ہوئے ہیں ، ان کو توبہ کرنی چاہئے ، استغفار کرنا چاہئے اورعزم مصمم کرنا چاہئے کہ ہم آئندہ ہر قیمت پر ایسے عمل سے بچیں گے اور دوسروں کو بھی بچائیں گے ، دنیا کے چند سکوں کے لئے ایمان کھودینا پانا نہیں ہے کھونا ہے ، اور دنیا کی متاع حقیر کے لئے آخرت کا سودا کرلینا فائدہ نہیں ہے نقصان عظیم ہے ۔


و ما عند اﷲ خیر من اللھو ومن التجارۃ واﷲ خیر الرازقین ۔


پیشکش : سلسلہ عقائد اسلام، شعبۂ تحفظ اسلام میڈیا سروس، مرکز تحفظ اسلام ہند

اسلام میں عقیدہ کی اہمیت



 اسلام میں عقیدہ کی اہمیت


از قلم :مفتی محمد انعام اللہ حسن صاحب


ہماری موت سے پہلے اور بعد کی زندگی میں مکمل کامیابی کا ضابطہ کیا ہے؟ اس سوال کا جواب قرآن مجید میں متعدد مقامات پر، الگ الگ انداز میں دیا گیا ہے ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایمان لانا اور اعمالِ صالحہ (نیک اعمال ) کا اہتمام کرنا دونوں جہاں کی حقیقی اور ابدی کامیابی کی ضمانت ہے۔

پھر ایمان اور اعمالِ صالحہ دونوں میں بنیادی چیز ایمان ہے ، اگر آدمی کے دل میں ایمان ہے تو اس کے اعمال صالحہ قابل قبول ہیں ،ورنہ اعمالِ صالحہ کے پہاڑ بھی ایمان کے بغیر آخرت میں کسی کام کے نہیں !قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے :” وَمَنْ یَّکْفُرْ بِالْاِیْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہ،، وَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ”(سورہئ مائدہ ،آیت:٥)

ترجمہ:” اور جو ایمان سے انکار کریگا تو اس کا عمل ضائع ہوجائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔”

اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ مذہبِ اسلام میں سب سے بنیادی چیز’ ایمان ‘ ہے۔

ایمان کیا ہے؟

اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جن حقیقتوں کو بغیر دیکھے مان لینے اور دل سے یقین کر لینے کا حکم دیا ہے ؛ ان پر دل سے یقین کرنے اور دل کی گہرائیوں میں انھیں جمالینے کا نام ایمان ہے۔

عقیدہ کسے کہتے ہیں؟

‘عقیدہ’؛ دل میں جمے ہوئے یقین ہی کو کہتے ہیں ، اس کی جمع ‘عقائد’ آتی ہے ۔دل میں جما ہوا یقین ‘ اللہ تعالی اوراسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کیے ہوئے حقائق کے مطابق ہوتو یہ اسلامی عقیدہ اور ایمان قرار پائے گا۔

اور اگر دل کے کسی گوشہ میں خدا ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ سچائیوں کے خلاف یقین راہ پا جائے تو اس کا نام باطل اور کفر یہ عقیدہ ہے۔

جس طرح اللہ تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی حقیقتوں کے خلاف یقین رکھنا کفر ہے؛ اسی طرح ان حقیقتوں پر شک کرنا بھی کفر ہے؛ کیوں کہ شک ‘ یقین کی ضد ہے، جبکہ ایمان ‘ خدا اور اس کے رسول کی باتوں پر یقین کا نام ہے ۔

عقیدہ کی اہمیت

اسلام میں عقیدہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے اچھی طرح لگایا جاسکتا ہے کہ عقیدہ کی درستگی اور بگاڑ پر ہی ایمان وکفر کا مدار ہے ،عقیدہ اگر اسلامی ہے تو آدمی مومن ہے ورنہ کافر !ایمان دونوں جہاں کی یقینی کامیابیوں کا ضامن ہے جبکہ کفر دونوں جہاں کی ناکامی کا قطعی سبب ہے۔

چناں چہ فرض کر لیجیے کہ ایک طرف ایسا آدمی ہے جس کا دل انسانی ہمدردی کے جذبات سے پر ہے ، جو غریبوں ، بیواؤں ،یتیموں اور مجبوروں کی دل کھول کر امداد کرتا ہو، درجنوں مسجدیں اس نے بنوائی ہوں، دسیوں مسلمانوں کو اس نے حج وعمرے کروائے ہوں،کسی مخلوق کو تکلیف نہ دیتا ہو، اپنے مسلمان دوستوں کے ساتھ کبھی عیدگاہ بھی حاضر ہوجاتا ہو؛لیکن اس کا عقیدہ خراب ہو، وہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور مخلوق کو بھی معبود مانتا ہواور اسی حالت میں مر جائے اور اس کے احسان مند مسلمان ‘ جن کو اس نے حج وعمرے کروائے ،وہ ـــ ــــــــ اس کے کفر پر مرنے کا علم رکھنے کے باوجود ــــ ــــ اگر اس کی نمازِ جنازہ پڑھنا چاہیں یا صرف دعائے مغفرت ہی کرنے پر اصرار کرنے لگیں تو انھیں اسلام ہر گز اس کی اجازت نہیں دیتا بلکہ اس کے لیے دعائے مغفرت کو گناہ قرار دیتا ہے اور پھر آخرت میں یہ کافر ہمیشہ کے لیے جہنم میں داخل کردیا جائے گا۔

اسکے برعکس دوسری طرف وہ شخص ہے جو صحیح اسلامی عقائد رکھتا ہو’ لیکن زندگی بھر میں ایک نماز بھی اس نے نہ پڑھی ہو، نہ ہی کبھی روزہ رکھا ہو؛ بلکہ ایمان کے علاوہ کوئی فرض وواجب اس کی زندگی میں نہ ہو ، نیز شرک کو چھوڑ کر ہر کبیرہ گناہ کا وہ عادی بھی ہو اور ــــــ العیاذ باللہ ـــ ـــــ اسی حالت میں اس کی موت آجائے تب بھی محض اس کے اسلامی عقائد کی وجہ سے اسکی تجہیز وتکفین اور نمازِ جنازہ کا ادا کرنا مسلمانوں کے ذمہ فرض ہے ، اگر کوئی بھی مسلمان اس فرض کو ادا نہ کرے تو سارے مسلمان گناہ گار ہونگے اور یہ مرنے والا گناہ گار مسلمان ہمیشہ جہنم میں نہیں رہے گا ، ایک نہ ایک دن ضرور جنت میں داخل کردیا جائے گا ۔

اللہ اکبر! یہ ہے اسلام میں عقیدہ کا بنیادی مقام اور اس کی اہمیت ! آخرت کے ہمیشہ ہمیش کے انعامات اور کامیابیاں ملتی ہیں تو اِ سی عقیدہ کی درستگی پر اور اگر اگلی لامحدود زندگی کی تباہی وبربادی سامنے آتی ہے تو وہ بھی اسی عقیدہ کے بگاڑ اور فساد کے سبب! یہی وجہ تھی کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کے بعد سب سے پہلے عقیدہ کی اصلاح کی دعوت دی؛ بلکہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام نے اپنی اپنی قوم کو سب سے پہلے عقائد کی درستگی ہی کی تعلیم دی ہے ۔

یہاں پہنچ کر ایک لمحہ کے لئے ہمیں بھی ضرور اپنی حالت پر غور کر لینا چاہیئے کہ کیا ہم عقائد کا علم رکھتے ہیں ؟کتنے اسلامی عقائد ایسے ہیں جن کے بارے میں آج تک ہم نے سنا بھی نہیں، صرف اس وجہ سے کہ ہم اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں ؛ اسلام کے بنیادی عقائد سے نا واقفیت پر خدا کی پکڑ سے بچ جائیںگے ؟ اللہ تعالی کی طرف سے قرآن کریم میں بارہا عقیدہ کی اصلاح کی طرف متوجہ کیا جانا کیا یونہی ایک اتفاق ہے ؟

اگر نہیں اور ہر گز نہیںتو ہمیں آج ہی اسلامی عقائد کے علم کی طرف توجہ کرنی ہوگی اور انھیں تسلیم کرتے ہوئے ان کا یقین اپنے دل میں جما لینا ہوگا ۔

واضح رہے کہ مختلف زبانوں میں اسلامی عقائد سے متعلق مستند کتابیں کتب خانوں پر دستیاب ہیں اور ان میں سے اکثر کوانٹر نیٹ کے ذریعہ بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔

اللہ تعالی ہمارے دلوں کو اسلامی عقائد کے یقین سے منور فرمائے ۔آمین


پیشکش : سلسلہ عقائد اسلام، شعبۂ تحفظ اسلام میڈیا سروس، مرکز تحفظ اسلام ہند

Sunday, 3 January 2021

پیام فرقان - 01

{ پیام فرقان - 01 }



🎯قلم کی اہمیت اور طاقت (آغاز تحریر)!


✍️بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


اللہ تبارک و تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے، جسکا ذکر قرآن مجید میں بار بار ملتا ہے۔ انہیں نعمتوں میں سے ”قلم“ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے۔ قلم کی اہمیت کسی سے مخفی نہیں ہے۔ اس نعمتِ خدا وندی کا تذکرہ قرآن مجید کی سب سے پہلی وحی میں بھی کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِی خَلَقَ، خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ، اقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ، الَّذِی عَلَّمَ بِالْقَلَمِ، عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ“ کہ ”اے پیغمبر! اپنے رب کا نام لے کر پڑھا کیجیے، جو سب کا پیدا کرنے والا ہے، جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا، آپ قرآن پڑھا کیجیے اور آپ کا رب بڑا کریم ہے، جس نے قلم سے تعلیم دی، انسان کو ان چیزوں کی تعلیم دی جن کو وہ نہیں جانتا تھا۔“ (سورۃ العلق)۔ قرآن مجید کے نزدیک قلم و کتابت کی اہمیت کا ثبوت اس سے زیادہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ قرآن مجید کی ایک سورۃ کو ”القلم“ کا نام دیا گیا ہے، اور اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے قلم کی قسم اور ان چیزوں کی بھی قسم ذکر فرمائی جنہیں قلم لکھتا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے: ”نٓ ۚ وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُوْنَ“ کہ ”قسم ہے قلم کی اور اس کی جو وہ لکھتے ہیں۔“ (سورۃ القلم)۔ قلم وہ عظیم شئ ہے جس کے ذریعہ علوم کو تحفظ و بقاء فراہم ہوتا ہے۔ دین کی حفاظت اور ملت کے دینی، سیاسی، معاشی، معاشرتی اور اجتماعی امور کو سرانجام دینے کیلئے فن کتابت کی اشد ضرورت ہوتی ہے اور قرآن مجید کی بےشمار آیات اس کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو فن کتابت کے زیور سے آراستہ کرنے کیلئے خصوصی اہتمام فرمایا۔ قلم کا استعمال مثبت ومنفی دونوں طرح ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم الشان نعمت کی قدردانی اسی میں ہیکہ اسے خیر و بھلائی، دین و شریعت کی نشر و اشاعت کے کاموں میں استعمال کیا جائے۔ دور حاضر میں اہل علم کی ذمہ داری ہیکہ وہ قلم کے استعمال اور فن تحریر کو امر بالمعروف او رنہی عن المنکر کے کاموں میں استعمال کریں۔ کیونکہ قلم تلوار سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے، جسکا کا استعمال وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے عاجز نے چند سال قبل ”پیغام فرقان“ کے نام سے طویل مضامین کا سلسلہ شروع کیا تھا، الحمدللہ ملک بھر کے مختلف اخبارات نے اس سلسلے کی قسطوں کو شائع کرتے ہوئے اسے زینت بخشی۔ اسی کے ساتھ اب ”پیام فرقان“ کے نام سے مضامین کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا جارہا ہے۔ پیام فرقان کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہوگی کہ یہ مختصر اور جامع ہوگا۔ امید ہیکہ آپ حضرات یہ منفرد سلسلے کو پسند فرمائیں گے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قلم کے صحیح استعمال کی توفیق عنایت عطا فرمائے اور فتنوں سے مامون و محفوظ فرمائے۔ آمین!


فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

یکم جنوری 2021ء بروز جمعہ

+918495087865

mdfurqan7865@gmail.com

ortArticle