Tuesday, 19 January 2021

ارتدادی فتنوں سے بچاؤ کیلئے عقائد اسلام کی حفاظت وقت کی اہم ترین ضرورت!


 

ارتدادی فتنوں سے بچاؤ کیلئے عقائد اسلام کی حفاظت وقت کی اہم ترین ضرورت!

آن لائن تحفظ عقائد اسلام کانفرنس کی اختتامی نشست سے مفتی محمد شعیب اللہ خان مفتاحی کا خطاب!


بنگلور، 19؍ جنوری (ایم ٹی آئی ہچ): مرکز تحفظ اسلام ہند کی فخریہ پیشکش چالیس روزہ”سلسلہ عقائد اسلام“ کے زیر اہتمام منعقد آن لائن تحفظ عقائد اسلام کانفرنس کی اختتامی نشست سے خطاب کرتے ہوئے جامعہ اسلامیہ مسیح العلوم، بنگلور کے بانی و مہتمم، فقیہ العصر حضرت مولانا مفتی محمد شعیب اللہ خان صاحب مفتاحی مدظلہ نے فرمایا کہ عقیدہ و ایمان وہ چیز ہے جس کے اوپر انسان کی نجات کا دار و مدار ہے۔ اور اعمال کا نمبر عقیدہ کے بعد آتا ہے۔ ایک آدمی کا عقیدہ صحیح نہ ہو اور دین و شریعت کے بتائے ہوئے قانون کے مطابق نہ ہو تو ایسا آدمی روزہ بھی رکھے، نماز بھی پڑھے، زکوٰۃ بھی دے، حج بھی کرے لیکن اسکا کوئی اعتبار نہیں ہوا کرتا کیونکہ اعمال کا اعتبار ایمان اور صحیح عقیدہ پر ہے۔ اس لیے اسکی بڑی ضرورت ہے کہ مسلمان اس بات پر توجہ دیں کہ انکا ایمان صحیح ہو اور انکا عقیدہ اسلامی عقیدہ کے مطابق ہو، اس لیے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم ایمان کو بھی لیکر آئے جیسے اعمال کو لیکر آئے اور آپ نے لوگوں کو واضح طور پر بتا دیا کہ ایمان کیا ہوتا ہے؟ ایمان کیسا ہوتا ہے؟ ایمان کے لوازمات کیا ہیں؟ ایمان کے تقاضے کیا ہیں؟ کچھ چیزیں قرآن پاک نے بتائی اور کچھ چیزیں محمد عربی صلی اللہ علیہ و سلم نے اسکی تشریح میں اور اسکی وضاحت میں ارشاد فرمائیں۔ مفتی صاحب نے درد بھرے انداز میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ آج عقیدہ میں بڑی کمزوریاں پائی جاتی ہیں، اور نہ صرف یہ کہ کمزوریاں بلکہ کئی طبقات ایسے ہیں جنکے اندر عقیدہ کی خرابیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ ایک ہے کمزوری کا ہونا اور ایک ہے خرابی کا ہونا، کمزوری اگرچہ نہیں ہونا چاہیے لیکن ایک حدتک قابل برداشت ہوتی ہے لیکن عقیدہ ہی خراب ہوجائے تو ساری چیزیں بیکار ہیں۔


مولانا نے فرمایا کہ اللہ کے بارے میں، اللہ کے رسولوں کے بارے میں، تقدیر کے بارے میں، صحابہ کے بارے میں، اہل اللہ کے بارے میں کیا عقیدہ رکھنا چاہیے یہ اسلام نے واضح طور پر ہمیں بتایا ہے لیکن اس کے باوجود بعض لوگ غلطیاں کرتے ہیں اور اپنے اندر عقیدہ کی خرابی پیدا کر لیتے ہیں یہاں تک کہ انکا عقیدہ اسلامی عقیدہ سے ہٹا ہوا ہوتا ہے۔ مفتی صاحب نے فرمایا کہ اہل سنت و الجماعت جن میں اصحاب رسولؓ، تابعین، تبع تابعین اور ہر دور کے اہل حق کا طبقہ شامل ہے، انہوں نے ہم کو بتایا کہ کس کے بارے میں کیا عقیدہ رکھنا چاہیے، اس لیے کہ اگر عقیدہ خراب ہو گیا تو آدمی اہل سنت و الجماعت سے نکل جاتا ہے۔ مولانا مفتاحی نے فرمایا کہ ایک یہ ہے کہ آدمی ایمان نہ لائے، ایمان نہ لایا تو کافر ہو گیا اور اسکا اسلام سے کوئی رشتہ اور کوئی تعلق نہیں لیکن ایک آدمی ایمان تو رکھتا ہے، لیکن اسکے عقیدہ میں کچھ خرابیاں پیدا ہو گئی، اسکی وجہ سے وہ اہل سنت کے عقیدہ سے ہٹ جاتا ہے۔ اس لیے بڑی ضرورت ہے کہ اہل سنت کے عقیدہ کے مطابق اپنے عقیدوں کی اصلاح کی جائے، اپنے عقیدوں کو بنایا اور سوارا جائے۔


مفتی شعیب اللہ خان صاحب مفتاحی نے فرمایا کہ حدیث میں آقا نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا بنی اسرائیل 72؍ فرقوں میں بٹ گئے تھے اور میری امت 73؍ فرقوں میں بٹ جائے گی ان میں سے 72؍ فرقے جہنم میں جائیں گے اور ایک فرقہ نجات پائے گا، حضرات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پوچھا کہ یا رسول اللہؐ وہ ناجی فرقہ کونسا ہے؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا ”ما انا علیہ و اصحابی“ جو ان عقیدوں پر قائم ہو، جو اس ڈگر پر قائم ہو، اُس روش پر قائم ہو جس پر میں ہوں اور میرے صحابہ ہیں وہ فرقہ جنتی ہوگا۔ اور یہی عقیدہ اہل سنت و الجماعت کا ہے، جس کی طرف اللہ کے نبیؐ نے اشارہ کیا۔ مفتی صاحب نے فرمایا کہ آج ضرورت ہیکہ ہمیں اپنے اور دوسروں کے خصوصاً ہماری نئی نسلوں کے عقیدوں کو درست کرنے کی فکر کرنی چاہیے کیونکہ عقیدوں کی خرابی ہی وہ وجہ ہیکہ آج ہماری نئی نسلیں ارتدادی فتنوں کا شکار ہوتی جارہی ہیں۔ لہٰذا ارتدادی فتنوں سے بچاؤ کیلئے عقائد اسلام کی حفاظت وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ قابل ذکر ہیکہ مفتی محمد شعیب اللہ خان صاحب مفتاحی مدظلہ نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا اور اس منفرد چالیس روزہ سلسلہ عقائد اسلام پر مبارکبادی پیش کی۔ علاوہ ازیں مفتی صاحب کی ہی دعا سے یہ سلسلہ اور کانفرنس اپنے اختتام کو پہنچی۔

Sunday, 17 January 2021

پیام فرقان - 03

 


{ پیام فرقان - 03 }

🎯عقیدہ ہر عمل کی قبولیت کی اولین شرط ہے!


✍️ بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


عقیدہ ہر عمل کی قبولیت کی اولین شرط ہے، اگر عقیدہ درست ہو گا تو عمل قبول ہوگا اور اگر عقیدہ غلط ہوگا تو عمل قبول نہیں ہوگا۔ اسلامی عقیدے کی تعلیم وتفہیم اور اس کی طرف دعوت دینا ہر دور کا اہم فریضہ ہے۔ کیونکہ اعمال کی قبولیت عقیدے کی صحت پر موقوف ہے۔ اور دنیا وآخرت کی خوش نصیبی اسے مضبوطی سے تھامنے پر منحصر ہے اور اس عقیدے کے جمال وکمال میں نقص یا خلل ڈالنے والے تمام قسم کے امور سے بچنے پر موقوف ہے۔ لہٰذا ہمیں اپنے اور دوسروں کے عقیدوں کو درست کرنے کی فکر کرنی چاہیے تاکہ ہمیں دونوں جہاں کی خوشیاں اور کامیابیاں میسر ہو!


فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

17 جنوری 2021ء بروز اتوار

+918495087865

mdfurqan7865@gmail.com


Thursday, 14 January 2021

انسان کی نجات صحیح عقیدہ و ایمان پر منحصر ہے؛ توحید، رسالت اور آخرت اسلام کی بنیادی عقائد ہیں

 


انسان کی نجات صحیح عقیدہ و ایمان پر منحصر ہے؛ توحید، رسالت اور آخرت اسلام کی بنیادی عقائد ہیں!

آن لائن تحفظ عقائد اسلام کانفرنس سے مولانا محمد الیاس کا خطاب!


بنگلور، 14؍ جنوری (ایم ٹی آئی ہچ): مرکز تحفظ اسلام ہند کی آن لائن تحفظ عقائد اسلام کانفرنس کی تیسری اور چوتھی نشست سے خطاب کرتے ہوئے مجلس تحفظ ختم نبوت ہانگ کانگ کے امیر مولانا محمد الیاس صاحب نے فرمایا کہ عقیدہ و ایمان کا نور تین ستونوں پر جگمگاتا ہے جسکو علماء کی اصطلاح میں ”الایمان بثلاثیات“ کہا جاتا ہے یعنی ایمان کے تین نہایت ہی اہم مسئلے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ پورے قرآن پاک میں الم کی الف سے لیکر والناس کی سین تک جگہ جگہ ان تین چیزوں کو بیان کیا گیا ہے۔ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی مجلسوں میں مختلف لوگوں کے سامنے مختلف مقامات پر بیان کیا ہے، پہلا توحید، دوسرا رسالت، تیسرا آخرت، یہ تینوں عنوانات ہیں اور انکو یاد رکھنا بہت ضروری ہے، یہی وہ عنوانات ہیں جس پر انسان کی نجات ٹھہری ہوئی ہے۔


مولانا محمد الیاس نے عقیدۂ توحید پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ مولانا ادریس کاندھلویؒ نے اپنی کتاب”عقائد الاسلام“ میں اللہ رب ذوالجلال والاکرام کے متعلق 33؍ عقیدے لکھے ہیں۔ انہوں نے لکھا ہیکہ اللہ جل شانہ ایک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اس لیے کہ شرکت عیب ہے اور اللہ تعالیٰ ہر عیب سے پاک ہے۔ نیز شریک کی ضرورت جب ہوتی ہے کہ جب وہ کافی اور مستقل نہ ہو اور یہ نقص ہے جو الوہیت کے منافی ہے، اور جب وہ خود کافی اور مستقل ہوگا تو شریک کا وجود عبث اور بیکار ہوگا اور وہ خدا نہیں ہو سکتا۔پس شریک ثابت کرنے سے دو شریکوں میں سے کسی ایک شریک کا ناقص اور عیب دار ہونا لازم آتا ہے جو الوہیت کے منافی ہے۔ غرض یہ کہ شرکت کا ثابت کرنا شرکت کی نفی کو مستلزم ہے، پس ثابت ہوا کہ اللہ کا شریک محال ہے اور جب یہ ثابت ہو گیا کہ خدا کا کوئی شریک نہیں تو اس سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ خدا کے لیے نہ کوئی بیٹا ہو سکتا ہے اور نہ بیٹی، اس لیے کہ اولاد باپ کی ہم جنس اور ہم نوع ہوتی ہے۔ مولانا الیاس صاحب نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ذات کے اعتبار سے بھی اکیلا ہے اور صفات کے اعتبار سے بھی اکیلا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی پاک ذات میں بھی کوئی شریک نہیں اور اس پاک ذات کی صفات میں بھی کوئی شریک نہیں۔ اسی کو عقیدۂ توحید کہا جاتا ہے۔ مولانا الیاس صاحب نے اہل سنت و الجماعت کے عقیدۂ توحید پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ہے جو ہمیشہ ہمیش سے ہے اور ہمیشہ رہیگی نہ جسکی ابتدا ہے نہ انتہا، اور یہ شان صرف اور صرف اللہ کی ہے اللہ کے سوا یہ کسی کی شان نہیں۔ مولانا نے فرمایا جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات قدیم ہے ازلی و ابدی ہے ٹھیک اسی طرح اللہ کی صفات بھی قدیم ہیں، ازلی و ابدی ہیں۔ اور اہل سنت کا یہ عقیدہ بھی ہے کہ اللہ کی ذات ایک ہے اور اسکی صفتیں بہت ساری ہیں تو یہ صفات نہ عین ذات ہیں، نہ غیر ذات ہیں، بلکہ یہ سب لوازم ذات ہیں۔


مولانامحمد الیاس صاحب نے مولانا نورالحسن بخاریؒ کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا پہلا مقصد ہی عقیدۂ توحید کی خدمت ہے۔ مولانا الیاس نے دو ٹوک الفاظ میں فرمایا کہ علماء اہل سنت و الجماعت کے نزدیک عقیدہ توحید اللہ تعالیٰ کو صرف ماننے اور صرف اللہ اللہ کرنے کا نام نہیں بلکہ عقیدۂ توحید یہ ہے کہ فقط اسی ایک اللہ کی عبادت ہو اور مشکل کشاء بھی اسی ایک کو سمجھا جائے پھر حاجت روا بھی فقط اسی پاک ذات کو مانا جائے۔ قابل ذکر ہیکہ مولانا محمد الیاس صاحب نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔ اطلاعات کے مطابق مرکز تحفظ اسلام ہند کی فخریہ پیشکش چالیس روزہ ”سلسلہ عقائد اسلام“ اور آن لائن تحفظ عقائد اسلام کانفرنس کا اختتامی پروگرام 15؍ جنوری 2021ء کو منعقد ہے اور فقیہ العصر حضرت مولانا مفتی محمد شعیب اللہ خان صاحب مفتاحی مدظلہ کے خطاب و دعا سے اس سلسلے اور کانفرنس کا اختتام ہوگا۔

Wednesday, 13 January 2021

عقائد اسلام اور اسکی اہمیت!



 { پیام فرقان - 02 } 


🎯عقائد اسلام اور اسکی اہمیت!


✍️بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


عقیدہ مضبوط بندھی ہوئی گرہ کو کہتے ہیں، دین کی وہ اصولی اور ضروری باتیں جن کا جاننا اور دل سے ان پر یقین کرنا مسلمان کیلئے ضروری ہے- اسلام میں عقیدہ کو اولیت حاصل ہے- صحیح عقیدے کے بعد ہی اعمال کی ابتداء ہوتی ہے- صحیح عقیدہ ہی وہ بنیاد ہے جس پر دین قائم ہوتا ہے، اور اس کی درستگی پر ہی اعمال کی صحت کا دارومدار ہے- حیات انسانی میں عقیدہ کی جو اہمیت ہے، اس کی مثال عمارت کی بنیاد کی ہے- اگر اسکی بنیاد صحیح اور مضبوط ہوگی تو عمارت بھی صحیح اور مضبوط ہوگی اور اگر بنیاد ہی کھوکھلی، کمزور اور غلط ہوگی تو عمارت بھی کمزور اور غلط ہوگی اور ایک نہ ایک دن اسکے بھیانک نتائج لاحق ہونگے- بس کسی کا عقیدہ درست ہو اور کثرت عبادت نہ بھی ہو تو ایک نہ ایک دن جنت ضرور ملے گی اور اگر عقیدہ ہی غلط اور باطل ہو تو اسکا ٹھکانی ہمیشہ ہمیش کیلئے جہنم ہوگا- معلوم ہوا کہ عقائد اصل ہیں اور اعمال فرع ہیں اور صحیح عقائد ہی مدار نجات ہیں- لیکن افسوس کہ عقائد کی جتنی اہمیت ہے اتنے ہی ہم عقائد کے معاملے میں غافل اور اسکی محنت سے دور ہیں- یہی وجہ ہیکہ آج جگہ جگہ فتنوں کی کثرت ہورہی ہے اور نئے نئے ارتدادی فتنے جنم لے رہے ہیں- لہٰذا ہمیں عقائد اسلام پر اس طرح کی پختگی حاصل کرنی چاہیے کہ اس کے خلاف سوچنے یا عمل کرنے کی ہمارے اندر ہمت نہ ہو، اس کے خلاف سننا یا دیکھنا ہم سے برداشت نہ ہو، ہم اپنے عقائد پر اس طرح مضبوط ہوجائیں کہ پوری دنیا بھی اگر ہمارے پیچھے لگ جائے تب بھی ہم اپنے عقائد پر مضبوطی کے ساتھ جمے رہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے عقائد کی حفاظت فرمائے- آمین


فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

13 جنوری 2021ء بروز بدھ

+918495087865

mdfurqan7865@gmail.com



Tuesday, 12 January 2021

واٹساپ پرائیویسی بمقابلہ آخرت پرائیویسی! ✍️ بندہ محمّد فرقان عفی عنہ (ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)



 واٹساپ پرائیویسی بمقابلہ آخرت پرائیویسی!

✍️ بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


سوشل میڈیا کا مشہور و معروف میسنجنگ ایپ واٹس ایپ نے نئے سال میں اپنی سروس اور پرائیویسی پالیسی میں تبدیلیاں متعارف کرواتے ہوئے صارفین کو نوٹیفکیشنز بھیجی ہیں۔ اور نئی پالیسی کو قبول نہ کرنے کی صورت میں صارف اپنے واٹس ایپ اکاؤنٹ تک رسائی کھوبیٹھے گا اور اسے اکاؤنٹ ڈیلیٹ کرنا پڑے گا۔ صارفین کو نئی پالیسی قبول کرنے کے لیے آٹھ فروری تک کا وقت بھی دیا ہے۔ نئی پالیسی کے مطابق واٹس ایپ صارفین کا ڈیٹا نہ صرف استعمال کرے گا بلکہ اسے تھرڈ پارٹی بالخصوص فیس بک کے ساتھ شیئر بھی کرے گا۔ واٹس ایپ کی نئی پالیسی کے مطابق وہ صارف کا نام، موبائل نمبر، تصویر، سٹیٹس، فون ماڈل، آپریٹنگ سسٹم کے ساتھ ساتھ ڈیوائس کی انفارمیشن، آئی پی ایڈریس، موبائل نیٹ ورک اور لوکیشن بھی واٹس ایپ اور اس سے منسلک دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو مہیا کرے گا۔ اس کے ساتھ واٹس ایپ ٹرانزیکشن اور پیمنٹ کے نئے فیچر کی انفارمیشن بھی شئیر کرے گا۔ نئی پرائیویسی پالیسی میں واضح طور پہ کہا گیا ہے کہ انتظامیہ صارفین کا ڈیٹا سٹور کرنے کے لیے فیس بک کا عالمی انفرا سٹرکچر اور اس کے ڈیٹا سنٹرز استعمال کر رہی ہیں۔ ان میں امریکہ میں موجود ڈیٹا سنٹر بھی شامل ہے۔


صارفین کی جانب سے واٹس ایپ پرائیویسی پالیسی میں تبدیلی پر خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے اور ان میں ڈر و خوف کا ماحول پایا جارہا ہے۔واٹساپ صارفین کی ایک بڑی تعداد واٹساپ کو الوداع کہ چکی ہے اور ایک بڑی تعداد الوداع کہنے کی تیاری میں ہے۔ صارفین اپنی پرائیویسی بچانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور واٹس ایپ کا متبادل تلاش کرتے ہوئے دیگر میسیجنگ ایپ کی طرف منتقل ہورہے ہیں۔ پرائیویسی کے خطرات مسلمانوں کیلئے زیادہ معنیٰ رکھتی ہیں کیونکہ یہود و نصاریٰ کے رگوں کے اندر دوڑنے والے خون کے ایک ایک قطرے میں اسلام دشمنی شامل ہے۔ اور حالیہ دنوں میں اپنی پرائیویسی کو لیکر مسلمان بھی فکرمند نظر آرہے ہیں۔ لیکن کیا ہم مسلمانوں کو واقعی اپنی پرائیویسی کی فکر ہے؟ کیا واقعی پرائیویسی ہمارے لئے کوئی معنیٰ رکھتی ہے؟ کیا ہم واقعی اپنا ڈیٹا محفوظ رکھنا چاہتے ہیں؟ یقیناً ہم پرائیویسی کو لیکر فکر مند نظر آرہے ہیں۔ لیکن کیا ہمیں معلوم نہیں کہ ایک ایسا دن بھی آنے والا ہے جب ہماری زندگی کی پرائیویسی کا نام و نشان ختم کردیا جائے گا اور ہماری زندگی کا مکمل ڈیٹا سب کے سامنے کھول کر رکھا جائے گا اور شئیر کیا جائے گا!


جی ہاں! آپ نے صحیح پڑھا کہ عنقریب ایک ایسا ہولناک دن آنے والا ہے جب آپکا مکمل ڈیٹا نوع انسانی کے سامنے رکھا جائے۔ جس دن جن و انس، چرند و پرند سب حیرت کے عالم میں ادھر ادھر بھاگتے ہونگے اور ایک بھیانک آواز سے سب کے جگر ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے، پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر روئی کی طرح اڑنے لگیں گے، آسمان پھٹ جائے گا، ستارے جھڑ جائیں گے، پورا عالم فنا ہوجائے گا اور اللہ کی ذات کے علاوہ کوئی چیز باقی نہیں رہے گی۔ ہاں ہم اسی ہولناک دن کی بات کررہے ہیں جس دن سنگین حادثات پیش آئیں گے، ہر طرف شر پھیلا ہوگا اور مصیبت چھائی ہوگی، مردے قبروں سے اٹھیں گے اور میدان محشر میں آئیں گے، جہاں اللہ کی عدالت لگی ہوئی ہوگی، بڑے بڑے شیر دل اور بہادر لوگوں کے دل بھی زور زور سے دھڑکنے لگیں گے اور ان کی آنکھیں فرط خوف سے جھکی ہوں گی، اوپر آنکھ اٹھاکر دیکھنے کی انہیں ہمت نہیں ہوگی، لیکن ہر ایک کو بار گاہ الٰہی میں پیش ہونا ہوگا، رب کے سامنے آکر ہم کلام ہونا پڑے گا، درمیان میں کوئی ترجمان بھی نہیں ہوگا، زندگی کا مکمل ڈیٹا یعنی دنیا میں کیے ہوئے سب اعمال سامنے ہوں گے، ان کے بارے میں جواب دہی ہوگی، انسان کا ہر عمل اللہ کے علم، لوح محفوظ اور کرامً کاتبین کے رجسٹر میں محفوظ ہوگا۔ یہی وہ قیامت کا دن ہوگا جس دن پرائیویسی کا کوئی تصور نہ ہوگا، جہاں آپکے والدین، بیوی بچے، رشتہ دار اور پوری نوع انسانی کے سامنے آپکی زندگی کا مکمل ڈیٹا رکھا جائے گا اور حساب و کتاب ہوگا، ایک ترازو میں آپ کے اعمال تولے جائیں گے اور اعمال کے اعتبار سے نیک لوگوں کو جنت کا عیش اور بد لوگوں کو جہنم کا عذاب نصیب ہوگا۔ ایسے ہولناک دن میں اپنی پرائیویسی کو محفوظ رکھنے کے بارے میں کیا ہم نے کبھی سوچا ہے؟ جبکہ روز محشر ایک ایسی پالیسی ہے جسکو صدیوں سے بیان کیا جارہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو قرآن میں واضح الفاظ میں میدان محشر کی ہولناکی اور حساب و کتاب کا تذکرہ کیا ہے۔ قرآن کے سورۃ الانفطار میں فرمایا ”اِذَا السَّمَآءُ انْفَطَرَتْ“ کہ جب آسمان پھٹ جائے۔”وَاِذَا الْکَوَاکِبُ انْتَثَرَتْ“ اور جب ستارے جھڑ جائیں۔ ”وَاِذَا الْبِحَارُ فُجِّرَتْ“اور جب سمندر ابل پڑیں۔”وَاِذَا الْقُبُوْرُ بُعْثِرَتْ“ اور جب قبریں اکھاڑ دی جائیں۔”عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ وَاَخَّرَتْ“ تب ہر شخص جان لے گا کہ کیا آگے بھیجا اور کیا پیچھے چھوڑ آیا۔ (سورۃ الانفطار، آیت 1 یا 5)۔ ایک اور جگہ سورۃ الجاثیۃ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ”قُلِ اللّٰہُ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یَجْمَعُکُمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ لَا رَیْبَ فِیْہِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ“ کہ کہہ دو اللہ ہی تمہیں زندہ کرتا ہے پھر تمہیں مارتا ہے پھر وہی تم سب کو قیامت میں جمع کرے گا جس میں کوئی شک نہیں لیکن اکثر آدمی نہیں جانتے۔(سورۃ الجاثیۃ، آیت 26)۔ اور فرمایا ”وَوَتَرٰی کُلَّ اُمَّۃٍ جَاثِیَۃً ۚ کُلُّ اُمَّۃٍ تُدْعٰٓی اِلٰی كِتَابِـهَاۖ اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ“ اور آپ ہر ایک جماعت کو گھٹنے ٹیکے ہوئے دیکھیں گے، ہر ایک جماعت اپنے نامۂ اعمال کی طرف بلائی جائے گی، (کہا جائے گا) آج تمہیں تمہارے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔(سورۃ الجاثیۃ، آیت 28)۔ اور فرمایا ”ہٰذَا کِتَابُنَا یَنْطِقُ عَلَیْکُمْ بِالْحَقِّ اِنَّا کُنَّا نَسْتَنْسِخُ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ“ یہ ہمارا دفتر تم پر سچ سچ بول رہا ہے، کیونکہ جو کچھ تم کیا کرتے تھے اسے ہم لکھ لیا کرتے تھے۔ (سورۃ الجاثیۃ، آیت 29)۔ ایسی متعدد آیات و احادیث میں قیامت کی ہولناکی اور آخرت کا واضح طور پر تذکرہ کیا گیا ہے۔ اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہیکہ اس دنیائے فانی میں انسان کو آخرت کی تیاری کیلئے ہی بھیجا گیا ہے اور اس بات کو بار بار یاد دلوانے کیلئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے تقریباً سوا لاکھ پیغمبروں کو اپنے بندوں کے درمیان بھیجا۔ لیکن افسوس کی بات ہیکہ آج ہم قیامت کے ہولناک دن کو بھول چکے ہیں۔ ہم واٹساپ اور اسکی نئی پالیسی کے بارے میں تو فکر مند ہیں لیکن ہم نے میدان محشراور اسکے حساب و کتاب کی پالیسی کو بھلا دیا، ہمیں یہ بات تو خوب ستارہی ہے کہ واٹساپ ہمارا ڈیٹا فیس بک اور دیگر کمپنیوں کے سامنے رکھے گا لیکن ہائے افسوس کہ ہمیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ میدان محشر میں ہم لوگوں کی زندگی کا مکمل ڈیٹا ہمارے آباؤ اجداد اور نسلوں کے سامنے رکھا جائے گا، ہم اپنی پرائیویسی کی فکر کرتے ہوئے واٹساپ کا متبادل تلاش کرنے میں لگے ہوئے ہیں لیکن کیا ہم نے میدان محشر میں اپنی پرائیویسی کو محفوظ رکھنے کیلئے بنا حساب و کتاب جنت میں داخل ہونے کے متبادل طریقہ کو کبھی تلاش کیا؟ جبکہ یہ بات متعدد حدیثوں سے ثابت ہیکہ بعض خوش نصیب اللہ تعالیٰ کے نیک بندے اس روز ہر حزن و غم سے محفوظ ہوں گے، ان کے دل مطمئن ہوں گے، ان کی طبیعتوں میں کسی قسم کا اضطراب نہ ہوگا اور فرشتے ان کا استقبال کریں گے، انھیں بتائیں گے یہی وہ تمہارا دن ہے، جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا اور وہ لوگ بنا حساب و کتاب جنت میں داخل ہوجائیں۔لیکن افسوس کہ ہم دنیاوی زندگی کو پرتعیش اور کامیاب بنانے میں اس قدر مشغول ہیں کہ اپنی آخرت کو ہی بھول گئے۔ حالانکہ دنیا کی زندگی تو چند دن کی ہے اور اسی زندگی میں ہم آخرت کیلئے اچھے اعمال کرکے جنت میں اپنے لئے ہمیشہ کی زندگی کو کامیاب بناسکتے ہیں۔ اسی کو کسی نے کہا تھا:

دنیا کی عشرت یاد رہی محشر کا منظر بھول گئے

جی ایسا لگایا جینے میں مرنے کو مسلماں بھول گئے


قرآن مجید کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آخرت لازمی ہے اور آنے والی ہے۔ دنیوی زندگی محدود ہے اور اخروی زندگی لا محدود ہے۔ ہرانسان کو دنیا کی زندگی میں کیے ہوئے اعمال کا بدلہ آخرت میں ملنے والا ہے۔ دنیا دار العمل ہے اور آخرت دار الجزاء ہے۔ انبیاء کرام علیہم السلام کی زندگیاں فکر آخرت سے کبھی خالی نہیں رہیں۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی آخرت کی فکر میں گزاری اور اپنی امت کو بھی یہی تعلیم دی کہ آخرت کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں اور اسکی تیاری کریں۔ صحابہ کرام اور صلحاء عظام کی زندگیوں پر بھی فکر آخرت غالب رہتی تھی۔ اللہ کی عظمت، اس کا جلال، آخرت کی فکر اور یوم الحساب کی ہولناکی کا تصور ان کے دل و دماغ پر چھا گیا تھا۔ وہ قرآن کریم پڑھتے یا سنتے تو سسکیاں لینے لگتے۔ وہ قبریں دیکھتے تو اتنا روتے کہ داڑھی آنسوؤں سے تر ہوجاتی۔ وہ میدان جنگ میں حیدر کرار تھے لیکن تنہائیوں میں خدا کے خوف اور آخرت کی فکر سے اس طرح کانپتے، تلملاتے اور بے چین ہوتے جیسے انہیں کچھ ہوگیا ہو۔ وہ صداقت وامانت میں صدیق ہوتے لیکن چڑیوں کوچہچہاتے دیکھتے تو کہہ اُٹھتے کاش میں بھی چڑیا ہوتا کہ آخرت کے حساب کتاب سے بچ جاتا۔ ہائے افسوس کہ آج ہم نے نہ صرف اپنے اسلاف کی تعلیم کو بھلا دیا ہے بلکہ اپنے مقصد زندگی اور اپنی منزل کو ہی بھلا بیٹھے ہیں۔ہماری منزل اللہ کی رضا، اس کی خوشنودی، جنت کا حصول ہے۔ ایک مومن کا اصل گھر آخرت ہے، یہ دنیا اس گھر کی تیاری کی جگہ ہے۔ لہٰذا اس کو اس کی تیاری کرتے رہنا چاہیے۔ ہمہ وقت، ہر لحظہ، ہر آن اس کی فکر کرنی چاہیے۔ اس عارضی گھر دنیا کو اپنا وطن نہ سمجھے، سفر کے دوران سو نہ جائے، اس میں مگن نہ ہوجائے۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو منزل پر پہنچنا دشوار ہوجائے گا۔ اور ایک مومن کا اللہ سے ایک معاہدہ ہوا ہے اور وہ جان ومال کے بدلے جنت کا معاہدہ ہے۔ اللہ نے فرمایا: ”إِنَّ اللَّہَ اشْتَرَیٰ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ أَنفُسَہُمْ وَأَمْوَالَہُم بِأَنَّ لَہُمُ الْجَنَّۃَ“بے شک اللہ نے مسلمانوں سے ان کی جان اور ان کا مال اس قیمت پر خرید لیے ہیں کہ ان کے لیے جنت ہے۔(سورۃ التوبہ: 111)۔ جنت بہت قیمتی چیز ہے یہ تبھی ملے گی، جب زبان کے اعلان کے ساتھ عمل سے ثابت کیاجائے۔ اپنی جان ومال، اپنی تمام صلاحیتوں، قوتوں، لیاقتوں اور ہنرمندیوں کے ساتھ اس کے حصول کے لیے لگا جائے۔ ہرطرف سے کٹ کر اللہ کی رضا کے لیے یکسو ہوجائیں۔ جس دن ہم اسے عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوگئے تو یاد رکھیں دنیا و آخرت کی کامیابیاں ہمارے قدم چومیں گی اور ہماری آخرت کی پرائیویسی محفوظ رہے گی۔ اور ایسے حالات میں جب قرب قیامت کی نشانیاں ظاہر ہونی شروع ہوچکی ہیں تو آخرت کی تیاری میں غفلت آگے پریشانی کا سبب بن سکتی ہے۔لہٰذا اب وقت ہیکہ ہم خواب غفلت سے جاگیں اور آخرت کی تیاری کریں کیونکہ قیامت اب قریب ہے۔

کوئی تیری غفلت کی ہے انتہا بھی

جنون چھوڑ کر اب ہوش میں آبھی

جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے

یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے


فقط و السلام

بندہ محمد فرقان عفی عنہ*

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

٢٧؍ جمادی الاول ١٤٤٢ھ

مطابق 12؍ جنوری 2021ء


+91 8495087865

mdfurqan7865@gmail.com

_________________

*ابن مولانا محمد ریاض الدین مظاہری

متعلم جامعہ ابو ہریرہ ؓ اکیڈمی

ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند

صدر مجلس احرار اسلام بنگلور

رکن عاملہ جمعیۃ علماء ساؤتھ بنگلور


#پیغام_فرقان #آخرت #قیامت #واٹساپ