Wednesday, 7 April 2021

امیر شریعت کے انتقال پر مرکز تحفظ اسلام ہند کی تعزیتی و دعائیہ نشست!



مفکر اسلام مولانا محمد ولی رحمانیؒ کی وفات ملت اسلامیہ کیلئے عظیم خسارہ اور ایک عہد کا خاتمہ ہے!

امیر شریعت کے انتقال پر مرکز تحفظ اسلام ہند کی تعزیتی و دعائیہ نشست!


بنگلور، 07؍ اپریل (پریس ریلیز): عالم اسلام کی مایہ ناز اور عظیم شخصیت، مسلمانانِ ہند کے قدآور اور عظیم رہنما، مفکر اسلام، امیر شریعت حضرت اقدس مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ 03؍ اپریل 2021ء بروز سنیچر کو اس دارفانی سے دارالبقاء کی طرف کوچ کرگئے۔انکے انتقال کی خبر پھیلتے ہی عالم اسلام بالخصوص مسلمانانِ ہند پر غم و افسوس کا بادل چھا گیا۔ ہنگامی طور پر مرکز تحفظ اسلام ہند کے اراکین نے اسی رات ایک آن لائن زوم پر تعزیتی و دعائیہ نشست منعقد کی۔ جس میں مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان، ناظم اعلیٰ مولانا محمد رضوان حسامی و کاشفی، آرگنائزر حافظ حیات خان، اراکین شوریٰ مولانا محمد طاہر قاسمی، قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی، مولانا محمد نظام الدین، مفتی جلال الدین قاسمی، مولانا ایوب مظہر قاسمی، اراکین احمد خطیب خان، شبیر احمد، سید توصیف، عمیر الدین، حافظ شعیب اللہ خان، حافظ نور اللہ، شیخ عدنان احمد، محمد عاصم، حارث پٹیل، عمران خان اور جمعیۃ الحفاظ فاؤنڈیشن کے جنرل سیکرٹری حافظ محمد ادریس مصباحی وغیرہ نے شرکت کی۔اس موقع پر حضرت امیر شریعت کے ایصال ثواب کیلئے مرکز کے اراکین نے دو قرآن مجید کی تلاوت کی۔ مرکز کے ڈائریکٹر، ناظم اعلیٰ و دیگر اراکین نے حضرت کی شخصیت پر مختصر روشنی ڈالی بعد ازاں ایک تعزیتی مکتوب میں مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے فرمایا کہ حضرتؒ کی شخصیت ہمہ جہت تھی۔ انکی پوری زندگی ملت کی خدمت سے عبارت تھی۔ وہ ایک جید عالم دین، ماہر تعلیمات، لاکھوں علماء کے استاذ، لاکھوں مریدین کے کامل شیخ طریقت، خانقاہ رحمانی مونگیر کے سجادہ نشین، جامعہ رحمانی مونگیر کے سرپرست، بہار، اڑیسہ اور جھارکھنڈ کے امیر شریعت، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سیکریٹری، درجنوں مدارس عربیہ کے سرپرست اور درجنوں کتابوں کے مصنف تھے۔انہوں نے اپنی پوری زندگی دین اسلام کیلئے وقف کردی تھی۔ انکا شمار ان بزرگ ترین ہستیوں میں ہوتا ہے جن کے علمی و دینی خدمات سے تاریخ کے نے شمار باب روشن ہیں۔ آپکی شخصیت تواضع و انکساری، خوش مزاجی و سادگی، تقویٰ و پرہیزگاری، شستہ و شگفتہ اخلاق کی حامل تھی۔ آپکی ذات عالیہ مسلمانان ہند کے لئے قدرت کا عظیم عطیہ تھی، جو انقلابی فکر اور صحیح سمت میں صحیح اور فوری اقدام کی جرأت رکھتے تھے۔ استقلال، استقامت، عزم بالجزم، اعتدال و توازن اور ملت کے مسائل کیلئے شب و روز متفکر اور رسرگرداں رہنا حضرت امیر شریعت کی خاص صفت تھی۔انکی بے باکی اور حق گوئی ہر خاص و عام میں مشہور تھی۔ انہوں نے فرمایا کہ حضرت امیر شریعت ؒکا اس طرح اچانک پردہ فرما جانے سے ملت اسلامیہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے، بلکہ علمی و عملی میدان میں ایک بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے۔ انکا انتقال ایک عظیم خسارہ ہے بلکہ ایک عہد کا خاتمہ ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ اس رنج و ملال کے موقع پر ہر ایک تعزیت کا مستحق ہے۔ لہٰذا وہ عموماً پوری ملت اسلامیہ اور خصوصاً تمام محبین، متعلقین، تلامذہ و مریدین بالخصوص حضرت والا کے فرزندان جانشین مفکر اسلام مولانا احمد فیصل رحمانی صاحب، محترم حامد فہد رحمانی صاحب، مولانا نے خلیفہ اجل حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر حضرت مولانا محمد رابع حسنی ندوی صاحب، و جمیع اراکین بورڈ، امارت شرعیہ، خانقاہ رحمانی و جامعہ رحمانی، و جملہ پسماندگان کے غم و افسوس میں برابر کے شریک ہیں اوروہ اپنی اور مرکز تحفظ اسلام ہند کے اراکین کی جانب سے تعزیت مسنونہ پیش کرتے ہیں۔ اور دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ حضرت والا کی مغفرت فرماتے ہوئے انکی خدمات کو شرف قبولیت بخشے اور انکے نہ رہنے سے جو کمی ہوئی ہے اسکی تلافی فرمائے، اسکا نعم البدل عطاء فرمائے۔نیز مرحوم کو جوار رحمت اور اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ قابل ذکر ہیکہ یہ تعزیتی و دعائیہ نشست مرکز تحفظ اسلام ہند کے ناظم اعلیٰ مولانا محمد رضوان حسامی و کاشفی کی دعا سے اختتام پذیر ہوئی۔


Tuesday, 6 April 2021

معاشرے کو جہیز کی زنجیروں سے آزاد کروانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے!





معاشرے کو جہیز کی زنجیروں سے آزاد کروانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے!

مرکز تحفظ اسلام ہند کی اصلاح معاشرہ کانفرنس سے مولانا محمد مقصود عمران رشادی کا خطاب!


بنگلور، 6؍ اپریل (پریس ریلیز): آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے اصلاح معاشرہ کمیٹی کی دس روزہ آسان و مسنون نکاح مہم کی ملک گیر تحریک کے پیش نظر مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد آن لائن اصلاح معاشرہ کانفرنس کی پانچوں نشست سے خطاب کرتے ہوئے جامع مسجد سٹی بنگلور کے امام و خطیب حضرت مولانا محمد مقصود عمران رشادی صاحب نے فرمایا کہ اسلام نے نکاح کو جتنا آسان بنایا تھا آج معاشرے نے اسے اتنا ہی مشکل بنا دیا ہے۔ شادی بیاہ میں بیجا رسوم و رواج اور جہیز کے لین دین نے امت کے ہزاروں گھرانوں کو تباہ و برباد کردیا ہے۔ بالخصوص مالداروں کی شادیوں میں ہونے والی فضول خرچی اور لین دین کی وجہ سے امت کے غریب گھرانوں کی ہزاروں بیٹیاں جہیز کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ آج امت کی حالت ایسی ہوچکی ہیکہ وہ فضول خرچی اور غیر شرعی رسوم و رواج کو گناہ ہی نہیں سمجھتی، جس کی وجہ سے یہ لوگ بےتحاشا ان گناہوں میں پڑ کر عیاشی کررہے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ مالدار ہونا بری بات نہیں ہے بلکہ مال و دولت کو غلط جگہوں پر استعمال کرنا اور فضول خرچی کرنا بری بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ نکاح ایک عبادت ہے اور عبادت میں نمائش نہیں کی جاتی اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ شخص سب سے زیادہ محترم ہے جو تقویٰ والا ہو۔ مولانا نے فرمایا کہ ہماری کامیابی و کامرانی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق عمل کرنے میں ہی ہے اور دین و شریعت سے علاحدہ ہوکر نکاح کرنے سے کامیابی اور سکون کبھی حاصل نہیں ہوسکتا۔ مولانا نے فرمایا کہ جہیز کے مطالبات بڑھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہیکہ لڑکیوں کو وراثت سے بےدخل کردیا جارہا ہے۔ مولانا رشادی نے فرمایا کہ نکاح کو آسان بنانے کا طریقہ یہ ہیکہ نکاح کو سنت و شریعت کے مطابق انجام دیں اور جہیز کی لعنت سے اس امت کو بچائیں۔ مولانا نے فرمایا کہ معاشرہ کے نوجوان کھڑے ہوکر جہیز کی ان زنجیروں کو توڑکر معاشرے سے اس لعنت کو ختم کریں اور کسی کے دباؤ میں نہ آکر نکاح کو نبوی طریقہ کے مطابق انجام دیں، اس سے نکاح بھی آسان ہوگا، ازدواجی زندگی بھی خوشگوار ہوگی اور ایک بہترین معاشرہ بھی بنے گا۔ مولانا نے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی اصلاح معاشرہ کمیٹی کی جانب سے ملکی سطح پر جاری آسان و مسنون نکاح مہم میں بھر پور تعاون کرنے کیلئے امت مسلمہ بالخصوص نوجوانان ملت سے اپیل کی۔ قابل ذکر ہیکہ مولانا محمد مقصود عمران رشادی نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔

نکاح کے مشکل ہونے سے ہزاروں لڑکیاں ارتداد کا شکار ہورہی ہیں!





نکاح کے مشکل ہونے سے ہزاروں لڑکیاں ارتداد کا شکار ہورہی ہیں!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے اصلاح معاشرہ کانفرنس سے مفتی افتخار احمد قاسمی کا خطاب!


بنگلور، 6؍ اپریل (پریس ریلیز): آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے اصلاح معاشرہ کمیٹی کی دس روزہ آسان و مسنون نکاح مہم کی ملک گیر تحریک کے پیش نظر مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد آن لائن اصلاح معاشرہ کانفرنس کی چوتھی نشست سے خطاب کرتے ہوئے جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر حضرت مولانا مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب نے فرمایا کہ اسلام میں نکاح ایک عبادت ہے۔ نکاح انسانی فطرت کا وہ تقاضا ہے جس کے ذریعے آدمی انسانی خواہشات کی تکمیل اور فطری جذبات کی تسکین کرتا ہے۔ اور یہی نکاح کا پہلا مقصد ہے۔ انسان کو نکاح کے ذریعہ صرف جنسی سکون ہی حاصل نہیں ہوتا بلکہ قلبی سکون ذہنی اطمینان غرضیکہ ہرطرح کا سکون میسر ہوتا ہے۔ اور یہ سکون اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب نکاح کو دین و شریعت کے مطابق انجام دیا جائے۔ مولانا نے فرمایا کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق نکاح کا آغاز رشتوں کے انتخاب سے ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے دینداری کی بنیاد پر رشتوں کے انتخاب کرنے میں کامیابی رکھی ہے۔ مولانا قاسمی نے فرمایا کہ اولاد کا طلب کرنا نکاح کا دوسرا مقصد ہے، نسل انسانی کی بقا بھی اسی سے ممکن ہے۔ اور صالح اولاد تبھی ملے گی جب بیوی دیندار ہوگی۔ لیکن افسوس کا مقام ہیکہ اللہ تعالیٰ نے جس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ اور اسوہ حسنہ کو پوری کائنات کیلئے نمونہ بنایا آج خود مسلمان اسے چھوڑ کر اغیار کے طور طریقوں کو اپناتے ہوئے اپنی زندگی کو تباہ و برباد کررہا ہے، یہی وجہ ہیکہ آج زندگی سے چین و سکون ختم ہوچکا ہے۔ مفتی صاحب نے فرمایا کہ جس نکاح کو اسلام نے آسان بنایا اور آج ہم نے اسے مشکل سے مشکل ترین بنا دیا ہے۔ مولانا قاسمی نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ برکت والا نکاح وہ ہے جس میں خرچ کم ہو۔ لیکن غیر شرعی رسوم و رواج، فضول خرچی اور جہیز کے لین دین نے تو معاشرے کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جس نکاح کی ذمہ داریاں مرد پر رکھی تھیں، آج ہم لوگوں نے وہ ساری ذمہ داریاں لڑکی والوں پر ڈال دی۔ یہی وجہ ہیکہ ایک طرف جہاں ہزاروں بیٹیاں بن بیاہی اپنے گھروں میں بیٹھی ہیں۔ وہیں نکاح کے مشکل ہونے کی وجہ سے دوسری طرف ہزاروں بیٹیاں ارتداد کا شکار ہوچکی ہیں۔ جس کے ذمہ دار امت کا وہ نوجوان طبقہ ہے جنکے مطالبات آسمان چھو رہے ہیں۔ لہٰذا ضرورت ہیکہ نکاح سے غیر شرعی رسوم و رواج بالخصوص جہیز کے لین دین کو ختم کرتے ہو اسے آسان و مسنون طریقہ پر انجام دیں، اسی میں خیر و خوبی، بھلائی اور کامیابی ہے۔ مفتی افتخار احمد قاسمی نے فرمایا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے ملکی سطح پر جو دس روزہ آسان و مسنون نکاح مہم چلائی جارہی ہے یہ انتہائی مفید اور وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ نیز اسی مہم کو تقویت پہنچانے کیلئے مرکز تحفظ اسلام ہند نے جو آن لائن اصلاح معاشرہ کانفرنس منعقد کیا وہ قابل ستائش ہے۔ انہوں نے تمام مسلمانوں سے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی اپیل کی۔


نکاح سے غیر شرعی رسم و رواج خصوصاً جہیز کو ختم کرتے ہوئے آسان بنائیں!





نکاح سے غیر شرعی رسم و رواج خصوصاً جہیز کو ختم کرتے ہوئے آسان بنائیں! 

مرکز تحفظ اسلام ہند کی اصلاح معاشرہ کانفرنس سے مفتی حامد ظفر ملی رحمانی کا خطاب!


بنگلور، 5؍ اپریل (پریس ریلیز): آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے اصلاح معاشرہ کمیٹی کی دس روزہ آسان و مسنون نکاح مہم کی ملک گیر تحریک کے پیش نظر مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد آن لائن اصلاح معاشرہ کانفرنس کی تیسری نشست سے خطاب کرتے ہوئے مدرسہ معہد ملت، مالیگاؤں کے استاذ حدیث مفتی حامد ظفر ملی رحمانی صاحب نے فرمایا کہ نکاح ایک دینی و ایمانی فریضہ، انسانی ضرورت اور تمام انبیاء کی سنت ہے۔ نکاح کا مقصد سکون حاصل کرنا ہے۔ اور یہ سکون تب تک حاصل نہیں ہوسکتا جب تک نکاح کے تمام مراحل کو سنت و شریعت کے مطابق نہ کیا جائے۔ اور جب سنت و شریعت کی پاسداری کے ساتھ نکاح کیا جاتا ہے تو ازدواجی زندگی خوشگوار ہوتی ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ شریعت نے رشتوں کا انتخاب دینداری کی بنیاد پر کرنے کی تلقین کی ہے اور اسی میں ہی کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ اور مجلس نکاح کے سلسلے میں شریعت نے مسجد میں کرنے کی تلقین کی اور فرمایا کہ برکت والا نکاح وہ ہے جس میں کم خرچ کیا جائے۔ اور نکاح میں دو چیزیں حق مہر اور ولیمہ کے علاوہ کوئی خرچ نہیں ہے اور یہ دونوں بھی لڑکے والوں کے ذمہ ہے۔ اسی کے ساتھ شریعت نے یہ بھی تلقین کی ہیکہ ولیمہ بطور نمائش نہ ہو بلکہ بہترین ولیمہ وہ ہے جس میں غریبوں اور مسکینوں کا خیال رکھا جائے۔ مولانا نے فرمایا کہ شریعت نے بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔ بیوی کا نان نفقہ شوہر کے ذمہ ہے اور بیوی کی بھی ذمہ داری ہیکہ نکاح کے بعد ہر ایک قدم شوہر کی اجازت سے رکھیں اور شوہر کی فرمانبرداری کرے۔ مولانا ظفر ملی نے فرمایا کہ شریعت نے نکاح کو سادہ اور آسان رکھا ہے جسے ہم نے غیر شرعی رسوم و رواج خصوصاً جہیز کے لین دین کے ذریعے اسے مشکل بنا دیا ہے۔ لہٰذا ضرورت ہیکہ معاشرے سے بیجا رسم و رواج خصوصاً جہیز کو ختم کرتے ہوئے نکاح کو آسان بنائیں۔ مولانا نے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی آسان و مسنون نکاح مہم میں تمام مسلمانوں کو بڑھ چڑھ کر حصہ لینے اور نکاح کو سادہ اور مسنون طریقہ سے انجام دینے کی اپیل کی تاکہ اللہ و رسول کی رضامندی میسر ہو۔ قابل ذکر ہیکہ مفتی حامد ظفر ملی رحمانی نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔

غیر شرعی اور جہیز کے لین دین والی شادیوں کا مکمل بائیکاٹ کریں!





 غیر شرعی اور جہیز کے لین دین والی شادیوں کا مکمل بائیکاٹ کریں!

مرکز تحفظ اسلام ہند کی اصلاح معاشرہ کانفرنس سے مولانا احمد ومیض ندوی کا خطاب!


بنگلور، 5؍ اپریل (پریس ریلیز): آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے اصلاح معاشرہ کمیٹی کی دس روزہ آسان و مسنون نکاح مہم کی ملک گیر تحریک کے پیش نظر مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد آن لائن اصلاح معاشرہ کانفرنس کی دوسری نشست سے خطاب کرتے ہوئے دارالعلوم حیدرآباد کے استاذ حدیث شیخ طریقت حضرت مولانا سید احمد ومیض ندوی نقشبندی صاحب نے فرمایا کہ نکاح کے تعلق سے ہمارے معاشرے میں جتنی خرابیاں اور خرافات پائی جاتی ہیں اسکی بنیادی وجہ یہ ہیکہ امت مسلمہ نکاح کو عبادت نہیں سمجھتی۔ اور کوئی بھی عمل اس وقت تک عبادت نہیں بنتا جب تک وہ عمل نبی کریم کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق انجام نہیں دیا جاتا۔ مولانا نے فرمایا کہ جس دن امت کے ذہن میں نکاح کے عبادت ہونے کا تصور بیٹھ جائے گا ان شا اللہ اسی دن نکاح کے سارے خرافات ختم ہوجائیں گے۔ انہوں نے فرمایا کہ مومن نکاح کے تعلق سے آزاد نہیں ہے بلکہ ایک مومن کو نکاح بھی نبوی طریقہ سے انجام دینا لازم ہے۔


مولانا ندوی نے فرمایا کہ آج کے دور میں نکاح مہنگے ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہیکہ رشتوں کا انتخاب مال و دولت کی بنیاد پر کیا جارہا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ نکاح کا سب سے پہلا اصول یہ ہیکہ رشتوں کا انتخاب مال و دولت کے بجائے دینداری کی بنیاد پر کیا جائے۔ مولانا ندوی نے فرمایا کہ نکاح کا دوسرا اصول یہ ہیکہ نکاح سادہ سیدہ ہونا چاہئے۔ اور شریعت نے بھی نکاح میں مہر اور ولیمہ کے علاوہ کوئی مالی اخراجات نہیں رکھا ہے اور یہ بھی اپنی استطاعت کے مطابق انجام دینے کا حکم دیا ہے۔ لیکن آج کل نکاح میں بہت ہی زیادہ فضول خرچی کی جاتی ہے جبکہ رسول اللہ نے فرمایا کہ بابرکت نکاح وہ ہے جس میں کم خرچ ہو۔ لہٰذا اس طرف توجہ دینے اور نکاح کو آسان کرنے کی ضرورت ہے۔ مولانا احمد ومیض ندوی نے فرمایا کہ گجرات کی عائشہ نے اسی جہیز اور دیگر مطالبات کے نتیجے میں خودکشی کرلی، گرچہ یہ عمل شریعت کے خلاف ہے کیونکہ اسلام میں خودکشی حرام ہے، لیکن خودکشی کی جو وجہ بنی اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ایسی ہزاروں عائشائیں جہیز کی بھینٹ چڑھ گئی ہیں۔ کیا اب بھی ہمیں خواب غفلت سے جاگنے کی ضرورت نہیں ہے؟ مولانا نے فرمایا کہ نکاح کا تیسرا اصول یہ ہیکہ شریعت نے نکاح کی ساری مالی ذمہ داریاں لڑکے والوں پر ڈالی ہیں لیکن افسوس کا مقام ہیکہ ہم نے شریعت کے اس اصول کو ہی پلٹ دیا اور لڑکی والوں پر ساری ذمہ داریاں ڈال دیں۔ جبکہ دیکھا جائے تو جہیز مانگنا بھی ایک طرح کا بھیک ہے اور ایک مرد کے شان کے خلاف ہے۔ لہٰذا نکاح کو آسان کرنے کیلئے شریعت کے ان اصولوں پر غور کرنے اور عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ جس معاشرے میں نکاح مشکل ہے وہاں زنا آسان ہے اور جہاں زنا مشکل ہے وہاں نکاح آسان ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ جب سے نکاح مشکل ہوا ہے تب سے اس میں دن بہ دن غیر شرعی رسومات کا اضافہ ہوتا ہی جارہا ہے۔ لہٰذا ضرورت ہیکہ نکاح کو آسان بنانے کیلئے ہر علاقے میں کمیٹی بنائی جائے اور جس نکاح میں فضول خرچی اور جہیز کا لین دین ہو اسکا مکمل بائیکاٹ کیا جائے۔ مولانا نے فرمایا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ کی جانب سے آسان و مسنون نکاح کی جو مہم چلائی جارہی ہے وہ بڑی بابرکت مہم ہے، اس میں ہمیں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے اور اکابرین بورڈ کی ہدایات پر عمل کرنا اور انکے پیغامات کو عام کرنا چاہئے۔ انہوں نے خاص طور پر نوجوانوں کو آگے آکر اس مہم میں بھر پور حصہ لینے کی اپیل کی۔ قابل ذکر ہیکہ شیخ طریقت مولانا سید احمد ومیض ندوی صاحب نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔