Friday, 16 July 2021

عشرۂ ذی الحجہ بڑی فضیلت و اہمیت کا حامل، قربانی کا مقصد رضائے الٰہی ہونا چاہیے!

 



عشرۂ ذی الحجہ بڑی فضیلت و اہمیت کا حامل، قربانی کا مقصد رضائے الٰہی ہونا چاہیے!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے ہفت روزہ کانفرنس کی افتتاحی نشست سے مولانا محمد مقصود عمران رشادی کا خطاب!


 بنگلور، 15؍ جولائی (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان آن لائن ہفت روزہ کانفرنس بسلسلہ عشرۂ ذی الحجہ و قربانی کی پہلی و افتتاحی نشست سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے جامع مسجد سٹی بنگلور کے امام و خطیب حضرت مولانا محمد مقصود عمران رشادی صاحب نے فرمایا کہ ذی الحجہ کا مبارک مہینہ شروع ہوچکا ہے۔ جو اسلامی مہینوں کا آخری مہینہ ہے۔ اسلام کے سارے ہی مہینے محترم اور قابل عظمت ہیں لیکن اللہ تعالی نے بعض مہینوں کو خاص فضیلت اور عظمت سے نوازا ہے، ان میں سے ایک ذوالحجہ کا مہینہ بھی ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے سورۃ الفجر میں ذی الحجہ کی دس راتوں کی قسم کھائی ہے جس سے معلوم ہوا کہ ماہ ذی الحجہ کا ابتدائی عشرہ اسلام میں خاص اہمیت کا حامل ہے۔ حج جیسا عظیم فریضہ اور اسکا اہم رکن وقوف عرفہ اسی عشرہ میں ادا کیا جاتا ہے، جو اللہ تعالیٰ کے خاص فضل وکرم کو حاصل کرنے کا دن ہے۔ مولانا نے ایک حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تمام دنوں میں کسی دن میں بھی بندے کا عبادت کرنا اللہ کو اتنا محبوب نہیں جتنا ذوالحجہ کے عشرہ میں محبوب ہے۔ اس عشرہ کے ہر دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر ہے اور اس کی ہر رات کی نوافل شب قدر کے نوافل کے برابر ہے۔ بالخصوص عرفہ کے دن کا ایک روزہ ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کی معافی کا سبب بنتا ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ عشرۂ ذی الحجہ میں میں زیادہ سے زیادہ اللہ کی عبادت کریں، اللہ کا ذکر کریں، روزہ رکھیں، قربانی کریں۔ مولانا رشادی نے قربانی کے پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ عشرۂ ذی الحجہ کی دس تاریخ کو عید منائی جاتی ہے، عید الاضحی کا دن مسلمانوں کے لیے بہت ہی تاریخی اور عظمت کا حامل دن ہے، یہ دن صرف عید کی خوشی میں مست ہوجانے والا دن نہیں بلکہ ایک عظیم پیغام اور سبق دینا والا دن ہے، مسلمان عید الاضحٰی کے دن جانور کی قربانی کرتے ہیں، اور صاحب حیثیت اور مالک نصاب افراد اپنی جانب سے قربانی انجام دیتے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ دیگر اعمال صالحہ کی طرح قربانی میں بھی مطلوب و مقصود رضاء الٰہی ہونی چاہیے اور قربانی کے جانوروں کی نمائش سے حتیٰ الامکان بچنا چاہیے۔ انہوں نے فرمایا کہ قربانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم اللہ کی اطاعت اور فرمانبرداری میں اپنی جان ومال و وقت ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار رہیں۔ مولانا نے قربانی کے اہم مسائل پر اور جانور کی خریداری پر خصوصی روشنی ڈالی۔ علاوہ ازیں فرمایا کہ قربانی کے وقت ہمیں پاکی صفائی کا خاص خیال رکھنا چاہیے اور قربانی کے گوشت کی تقسیم میں غریبوں، مسکینوں اور یتیموں کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ قابل ذکر ہیکہ مرکز تحفظ اسلام ہند کے اس عظیم الشان آن لائن ہفت روزہ کانفرنس بسلسلہ عشرۂ ذی الحجہ و قربانی کی افتتاحی نشست مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور مرکز کے رکن شوریٰ مولانا محمد طاہر قاسمی کی نظامت میں منعقد ہوئی۔ جسکا آغاز مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان کی تلاوت اور مرکز کے رکن حافظ محمد عمران کے نعتیہ اشعار سے ہوا۔ اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے ہدیہ تشکر پیش کیا۔ اس موقع پر حضرت مولانا محمد مقصود عمران رشادی نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو خوب سراہا اور انہیں کی دعا سے یہ افتتاحی نششت اختتام پذیر ہوئی۔

Monday, 12 July 2021

عشرۂ ذی الحجہ کی برکتوں سے اپنے آپ کو محروم نہ کریں!

 



عشرۂ ذی الحجہ کی برکتوں سے اپنے آپ کو محروم نہ کریں!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے آن لائن ہفت روزہ کانفرنس بسلسلہ عشرۂ ذی الحجہ و قربانی کا آغاز!


بنگلور، 12؍ جولائی (پریس ریلیز): ماہ ذی الحجہ اسلامی سال کا سب سے آخری مہینہ ہے اور قرآن پاک میں جن چار مہینوں کے حرمت والے ہونے کا تذکرہ ہے، ان میں سے ایک ذی الحجہ بھی ہے۔ اسلام کے سارے ہی مہینے محترم اور قابل عظمت ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے بعض مہینوں کو خاص فضیلت اور عظمت سے نوازا ہے۔ ان میں سے ایک ذی الحجہ کا مہینہ بھی ہے، جس کا احترام شروع زمانہ سے چلتا آرہا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس مہینہ میں کچھ عبادتوں کو رکھا ہے جس کی وجہ سے اس کی عظمت میں اور بھی اضافہ ہو گیا۔ ماہ ذی الحجہ کو مختلف عبادات کی وجہ سے خصوصی مقام اور امتیاز حاصل ہے، حج جیسی عظیم عبادت بھی اسی ماہ میں انجام دی جاتی ہے، اسی مناسبت سے اس کا نام ذی الحجہ ہے یعنی حج والا مہینہ ہے۔ ماہ ذی الحجہ کی عظمت اور فضیلت اس وجہ سے اور بڑھ جاتی ہے کہ اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کے دو برگزیدہ پیغمبر حضرت سیدنا ابراہیم وحضرت سیدنا اسماعیل علیہما السلام سے ہے اور اس ماہ میں اللہ کی راہ میں ان کی دی ہوئی قربانی کی یاد کو تازہ کیا جاتا ہے اور عزم کیا جاتے ہیکہ ہم اللہ تعالیٰ کے دین اور اسکی رضا کیلئے ہر طرح کی قربانی دینے کیلئے تیار ہیں۔ مذکورہ خیالات کا اظہار مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان نے آن لائن پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ ذی الحجہ کا پورا مہینہ ہی قابل احترام ہے لیکن اس کے ابتدائی دس دن تو بہت ہی فضیلت اور عظمت والے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس کی عظمت و اہمیت کو بیان فرمایا اور نبی کریمﷺ نے امت کو عشرۂ ذی الحجہ کی قدردانی سے آگاہ فرمایا۔ انہوں نے فرمایا کہ عشرۂ ذی الحجہ کی دس تاریخ کو عید منائی جاتی ہے، عید الاضحٰی کا دن مسلمانوں کے لیے بہت ہی تاریخی اور عظمت کا حامل دن ہے، یہ دن صرف عید کی خوشی میں مست ہوجانے والا دن نہیں بلکہ ایک عظیم پیغام اور سبق دینا والا دن ہے، مسلمان عید الاضحٰی کے دن جانور کی قربانی کرتے ہیں، اور صاحب حیثیت اور مالک نصاب افراد اپنی جانب سے قربانی انجام دیتے ہیں۔ مرکز کے ڈائریکٹر نے فرمایا کہ عشرۂ ذی الحجہ کی خصوصیت اور فضیلت احادیث میں بکثرت آئی ہیں اور اسلام کے اہم ترین عبادات اس میں انجام دئیے جاتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں اس کی تعظیم اور احترام کرنا چاہیے اور زیادہ سے زیادہ عبادات وغیرہ کا اہتمام کرنا چاہیے۔ بالخصوص معاصی اور گناہوں کے کاموں اور نافرمانی والے اعمال سے بچنا چاہیے، کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے ان دنوں کی عظمت کو بڑھا دیا اور اس میں عبادت انجام دینے پر اجر وثواب میں زیادتی ہوگی، اسی طرح اس دنوں کو بے حرمتی کرتے ہوئے گناہوں کا ارتکاب کرنے پر سزا اور عتاب میں بھی اضافہ ہوجائے گا۔ اسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے عشرۂ ذی الحجہ اور قربانی کی فضیلت و اہمیت سے امت مسلمہ کو واقف کروانے کیلئے مرکز تحفظ اسلام ہند کی جانب سے ”سلسلہ عشرۂ ذی الحجہ و قربانی“ کا آغاز کیا جارہا ہے۔ مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے یومیہ نظام پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ روزانہ صبح 11؍ بجے ایک ایک مختصر ویڈیو پیغام بنام واٹساپ اسٹیٹس بھیجی جائے گی، دوپہر دو بجے عشرۂ ذی الحجہ کی فضیلت پر ایک حدیث یا قرآنی آیت کا اشتہار بھیجا جائے گا، اسکے علاوہ روزانہ رات 9:30 بجے ”عظیم الشان آن لائن ہفت روزہ کانفرنس بسلسلہ عشرۂ ذی الحجہ و قربانی“ منعقد ہوگی۔ جس سے ملک کے مختلف اکابر علماء کرام خطاب فرمائیں گے۔ انہوں نے برادران اسلام سے کثیر تعداد میں شرکت کرنے کی اپیل کی۔اس موقع پر مرکز تحفظ اسلام ہند کے رکن شوریٰ مولانا محمد طاہر قاسمی نے مرکز کی خدمات پر مختصراً روشنی ڈالتے ہوئے کانفرنس کے اغراض و مقاصد بیان فرمائے اور مرکز کے رکن شوریٰ قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی بستوی نے تمہیدی گفتگو کے ساتھ پریس کانفرنس کی نظامت کے فرائض انجام دئے۔ علاوہ ازیں مرکز کے رکن شوریٰ مولانا سید ایوب مظہر قاسمی نے ذی الحجہ کی فضیلت اور مرکز کے رکن مولانا بلال احمد حسینی نے قربانی کی فضیلت پر روشنی ڈالتے ہوئے برادران اسلام سے اس اہم پروگرام میں شرکت کی اپیل کی۔ پریس کانفرنس کے اختتام پر مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان نے تمام صحافی حضرات، ناظرین، اراکین مرکز تحفظ اسلام ہند کا شکریہ ادا کیا۔

Saturday, 10 July 2021

ذکر اللہ ہی شیطان سے نجات دیتا ہے، معاشرے کو موبائل فون کے غلط استعمال سے بچنے کی ضرورت ہے!


 ذکر اللہ ہی شیطان سے نجات دیتا ہے، معاشرے کو موبائل فون کے غلط استعمال سے بچنے کی ضرورت ہے! 

امیر الہند منتخب ہونے پر جمعیۃ علماء کرناٹک کی جانب سے منعقد تہنیتی اجلاس سے امیر الہند مولانا سید ارشد مدنی کا خطاب!


 بنگلور، 10 جولائی (پریس ریلیز): امیر الہند خامس منتخب ہونے کے بعد گزشتہ دنوں دارالعلوم دیوبند کے صدر المدرسین اور جمعیۃ علماء ہند کے صدر امیر الہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم شہر گلستان بنگلور کے دورہ پر تشریف لائے تھے۔ موقع کو غنیمت جانتے ہوئے جمعیۃ علماء کرناٹک نے مدرسہ علوم الشرعیہ، سجاپورہ، بنگلور میں ایک تہنیتی اجلاس منعقد کیا۔ جس میں جمعیۃ علماء کرناٹک کے اراکین عاملہ، مختلف اضلاع کے صدور ونظماء اور ریاست کے مؤقر علماء کرام نے شرکت کی۔ اس خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے صدر امیر الہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب نے فرمایا کہ انسان کا سب سے بڑا دشمن شیطان ہے۔ جو قیامت تک آنے والے ہر ایک انسان کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا رہے گا۔ کوئی آدمی کتنا ہی بڑا بن جائے لیکن شیطان کے شر سے کوئی محفوظ نہیں سوائے ذکر الٰہی میں مشغول ذاکرین کے۔ کیونکہ ذکر اللہ ہی شیطان سے نجات دیتا ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ آج مسلمانوں کو باآسانی گناہوں کی طرف جو شیطان لے جاتا ہے اس کا سبب ذکر اللہ سے غفلت اختیار کرنا ہے۔ کیونکہ جو لوگ ذکر الٰہی سے غافل رہتے ہیں شیطان انہی کے پیچھے لگا رہتا ہے۔ شیطان اسی وقت دل میں وسوسہ ڈالتا ہے، جب وہ ذکر الٰہی سے غافل ہو۔ اگر قلب ذکر اللہ کی طرف راغب ہے، تو شیطان کو وسوسہ ڈالنے کا موقع نہیں ملتا اور وہ وہاں سے چل دیتا ہے۔ امیر الہند نے فرمایا کہ شیطان انسان کے دل پر چاروں طرف سے چھایا رہتا ہے، جب قلب ذکر الٰہی میں مشغول رہتا ہے تو شیطان سکڑ کر دبک جاتا ہے۔ کیونکہ ذکر الٰہی کے سامنے شیطان ٹک نہیں سکتا۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم ہر وقت اللہ کو یاد کرتے رہیں اور ذکر الٰہی سے کبھی غافل نہ ہوں۔حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب نے موبائل کے غلط استعمال پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ موبائل فون نے انسانی زندگی کا رخ ہی بدل دیا ہے۔ ہر چھوٹے بڑے کے پاس آج موبائل فون موجود ہے۔ موبائل فون نے عام آدمی کی زندگی کو تو آسان بنا دیا لیکن ضرورت کی اس چیز کے غیر ضروری استعمال نے آج ہمیں اخلاقی اور سماجی پستیوں میں دھکیل دیا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ موبائل فون کے غیر ضروری استعمال سے معاشرے میں فحاشی اور عریانی میں بھی غیرمعمولی حد تک اضافہ ہوا ہے۔ موبائل کے کیمرے اور انٹرنیٹ سمیت کئی دوسری چیزیں نوجوان نسل کی اخلاقی تباہی کا باعث بن رہی ہیں اور فحش قسم کی تصویریں اور ویڈیو کلپس سے بھی معاشرے پر برے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ امیر الہند نے فرمایا کہ آج کل موبائل فون کے فوائد سے زیادہ، اس کے نقصانات اور تباہ کاریاں ہیں۔ اس کے غلط استعمال کی کثرت کی وجہ سے وقت کی قدر و قیمت کا احساس فنا ہوگیا ہے اور وقت ضائع کرنے کا ایک نیا دور شروع ہوگیا ہے۔انہوں نے فرمایا کہ موبائل فون کی تباہ کاریوں اور فتنہ انگیزیوں کے مناظر دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہیکہ ہمارا معاشرے کہاں سے کہاں جارہا ہے؟ مولانا مدنی نے فرمایا کہ ایک مسلمان کا ہر کام شریعت کے عین مطابق ہونا چاہئے، بالفرض ناجائز و گناہ کے کاموں میں اس کا استعمال نہ بھی کیا جائے، صرف فضول کاموں میں ہی استعمال کیا جائے، جب بھی اس سے بچنا ہی چاہئے، کیونکہ فضول کام وقت ضائع کرنے کے ساتھ ساتھ آدمی کے اسلام کی لذت و حلاوت اور حسن پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ جس کہ وجہ سے انسان اللہ کی یاد سے غافل ہوجاتا ہے۔ لہٰذا ہمیں موبائل فون کے غلط استعمال سے بچنے کی ضرورت ہے۔ قابل ذکر ہیکہ اس موقع پر حضرت کے امیر الہند منتخب ہونے پر انکی خدمت میں جمعیۃ علماء کرناٹک کی جانب سے ایک تہنیت نامہ پیش کیا گیا۔ اس موقع پر جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر مولانا عبد الرحیم رشیدی، جنرل سکریٹری محب اللہ خان امین، نائب صدر مولانا شمیم سالک مظاہری، قاری مرتضیٰ خان، مولانا عبدالوحید مفتاحی، رکن عاملہ حافظ ایل محمد فاروق، جمعیۃ علماء بنگلور کے صدر مولانا محمد صلاح الدین قاسمی سمیت اراکین جمعیۃ علماء کرناٹک بطور خاص شریک تھے۔ نیز جمعیۃ علماء تمل ناڈو کے صدر مفتی سبیل احمد قاسمی، جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر مفتی افتخار احمد قاسمی، دارالعلوم شاہ ولی اللہ بنگلور کے مہتمم مولانا محمد زین العابدین رشادی مظاہری، جامع مسجد سٹی بنگلور کے امام و خطیب مولانا محمد مقصود عمران رشادی، اقراء انٹرنیشنل اسکول بنگلور کے بانی و چیرمین محمد نذیر احمد، سماجی کارکن سید شفیع اللہ وغیرہ بھی شریک تھے۔ حضرت صدر محترم امیر الہند مولانا سید ارشد مدنی صاحب کی دعا سے یہ خصوصی پروگرام اختتام پذیر ہوا۔

Tuesday, 6 July 2021

”امیر الہند خامس“ حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب حیات و خدمات!



”امیر الہند خامس“ حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب حیات و خدمات!


✍️ بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد مسلمانوں کے مسائل کا شرعی حل ممکن نہیں رہ گیا تھا، اس لیے کہ عدالتوں میں مسلم جج نہیں رہ گئے تھے اور جو تھے وہ شرعی نظام کو پیش نظر نہیں رکھتے تھے، اس لیے شرعی درالقضاء کا قیام ایک ناگزیر ضرورت تھا۔مسلمانان ہند کی مؤقر تنظیم ”جمعیۃ علماء ہند“ نے اپنے قیام کے روز اول ہی سے وطن عزیز میں امت مسلمہ کی شیرازہ بندی اور احکام شریعت کے نفاذ اور اجراء کیلئے امارت شرعیہ کے نظام کو ناگزیر قرار دیا تھا۔ چنانچہ جمعیۃ علماء ہند کے قیام کے محض ایک سال بعدسن 1920ء میں جب حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب دیوبندی ؒ مالٹا کی جیل سے واپس تشریف لائے تو آپ کو جمعیۃ علماء ہند کا مستقل صدر منتخب کیا گیا، اور آپ کی صدارت میں جمعیۃ علماء ہند کا اجلاس دوم منعقد ہوا۔ اس میں حضرت شیخ الہند ؒ نے قومی سطح پر ”امارت شرعیہ ہند“ کے نظام کو قائم کرنے اور ”امیر الہند“ کے انتخاب کی تجویز پیش کی۔ لیکن اس وقت چند دشواریوں کی وجہ سے یہ آرزو پوری نہ ہوسکی۔ بعد میں محض بارہ دن بعد صاحبؒ کا انتقال ہوگیا، تو ان کے جانشین حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی صاحبؒ نے اس مشن کو آگے بڑھایا، لیکن بعض وجودہ سے اس وقت یہ کام آگے نہیں بڑھ پایا، البتہ صوبائی طور پر حضرت مولانا ابو المحاسن سجاد صاحبؒ بہار میں امارت شرعیہ قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔تاہم کل ہند سطح پر امارات شرعیہ ہند کے قیام کی کوششیں بعد میں بھی جاری رہیں۔ بالآخر 02؍ نومبر 1967ء کو مرکزی دفتر جمعیۃ علماء ہند نئی دہلی میں ایک نمائندہ اجتماع بلایا گیا اور ”امارت شرعیہ ہند“ کا قیام عمل میں آیا۔ اس عظیم نمائندہ اجتماع میں چودہ صوبوں کے ارباب علم و دانش علماء کرام، مفتیان عظام، فقہاء و محدثین، دینی مدارس کے اساتذہ و مشائخ طریقت اور دوسرے اہل مسلم اور دانشوروں کے درمیان ”امیر الہند“ کے انتخاب کی تجویز پیش کی گئی۔ اس سلسلے میں صرف ایک نام آیا اور وہ محدث کبیر ابو المآثر حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی صاحبؒ کا تھا۔پورے اجتماع کے اتفاق رائے سے حضرت کو امیر الہند منتخب کرلیا گیا۔انکی رحلت کے بعد 09؍ مئی 1992ء میں فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی صاحبؒ، بعد ازاں حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب بجنوریؒ اور پھر حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصورپوریؒ کو بالترتیب امیر الہند منتخب کیا گیا۔ امیر الہند رابع حضرت مولانا قاری محمد عثمان صاحب منصورپوری رحمہ اللہ کے انتقال کے بعد امارت شرعیہ ہند کی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کیلئے اس بات کی سخت ضرورت تھی کہ جلد از جلد نئے امیر کا انتخاب کیا جائے۔ اسی کے پیش نظر مؤرخہ 03؍ جولائی 2021ء مطابق ۲۲؍ ذی القعدہ ١٤٤٢ھ بروز سنیچر کو جمعیۃ علماء ہند کے صدر دفتر نئی دہلی میں واقع مدنی ہال میں امارت شرعیہ ہند کا ایک روزہ نمائندہ اجتماع دارالعلوم دیوبند کے مہتمم و شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی ابو القاسم صاحب نعمانی دامت برکاتہم کے زیر صدارت منعقد ہوا۔ جس میں ملک بھر سے امارت شرعیہ ہند کے ارکان شوری، جمعیۃ علماء ہند کے ذمہ داران اور منتخب ارباب حل و عقد شریک ہوئے۔ اور باتفاق رائے عالم اسلام کی مایہ ناز شخصیت، ملت اسلامیہ ہندیہ کے عظیم قائد، اکابرین دیوبند کے عملی ورثہ کے امین، حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی صاحبؒ کے سچے جانشین، تقویٰ و طہارت کے امام، مروت کے شہنشاہ، میدان خطابت کے شہسوار، نامور محدث، باکمال مدرس، ام المدارس دارالعلوم دیوبند کے صدر المدرسین، رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن تاسیس، جمعیۃ علماء ہند کے صدر، ہزاروں اداروں کے سرپرست، ہندوستانی مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن، شیر ہند، جانشین شیخ الاسلام حضرت اقدس مولانا سید ارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کو ”امیر الہند خامس“ منتخب کرلیا گیا، الحمدللہ۔ انتخاب کے بعد اجلاس میں شریک علماء، داعیان نیز دیگر حاضرین نے آپ کے ہاتھ پر بیعت سمع و طاعت کی۔

سراپا رشد ہے ارشاد ہے ارشد کی پیشانی

انہیں کا کام ہے دینی شعائر کی نگہبانی


امیر الہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب مدظلہ کی پیدائش 1360ھ مطابق سن 1941ء میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی صاحبؒ کے گھر ہوئی۔ ابتدائی تعلیم دیوبند ہی میں حضرت شیخ الاسلام کے خلیفہ مجاز و خادم خاص حضرت مولانا قاری اصغر علی صاحب سہسپوریؒ کے زیر نگرانی حاصل کی اور انہیں کے پاس ناظرہ و حفظ قرآن بھی مکمل کیا۔ پھر متوسط اور اعلیٰ تعلیم کے لئے سن 1959ء میں باضابطہ دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا اور 1383ھ مطابق سن 1963ء میں فخر المحدثین حضرت مولانا سید فخر الدین احمد صاحب مرادآبادیؒ سے بخاری شریف پڑھ کر فارغ التحصیل ہوئے۔دارالعلوم دیوبند میں آپ نے جن اکابر علماء کرام سے استفادہ اور شرف تلمذ حاصل کیا ان میں حضرت مولانا فخر الدین صاحب مرادآبادیؒ، حضرت علامہ ابراہیم صاحب بلیاویؒ سے، حضرت مولانا بشیر احمد خاں صاحب بلندشہریؒ، حضرت علامہ فخرالحسن صاحب مرادآبادیؒ، حضرت مولانا محمد ظہور صاحب دیوبندیؒ، حضرت مولانا عبد الجلیل صاحب دیوبندیؒ، اور حضرت مولانا عبد الاحد صاحب دیوبندیؒ جیسے اساطین علم و فن شامل ہیں۔


دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد جانشین شیخ الاسلام امیر الہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب مدظلہ سن 1965ء میں بہار کے مرکزی ادارہ ”جامعہ قاسمیہ ضلع گیا“ میں مدرس مقرر ہوئے اور تقریباً ڈیڑھ سال تک یہاں تدریسی خدمات انجام دیں۔ پھر سن 1967ء کی ابتداء میں آپ مدینہ منورہ تشریف لے گئے اور تقریباً چودہ ماہ وہاں مقیم رہے، پھر دوبارہ ہندوستان واپس تشریف لے آئے۔ چونکہ دارالعلوم دیوبند میں زمانہ طالب علمی سے ہی آپ کا حضرت مولانا فخر الدین صاحب مرادآبادیؒ سے خصوصی تعلق رہا اور حضرت بھی آپ پر خصوصی شفقت فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ مدینہ منورہ سے آپ کی واپسی پر حضرت علیہ الرحمہ نے آپکو جامعہ قاسمیہ شاہی مرادآباد میں خدمت تدریس کا مشورہ دیا، جسے آپ نے قبول کیا اور سن 1969ء میں ”جامعہ قاسمیہ شاہی مرادآباد“ میں منصب تدریسی پر فائز ہوئے۔ جامعہ میں آپ نے کتب متوسطہ کے علاوہ مشکوۃ شریف، مسلم شریف اور موطا امام مالک وغیرہ جیسی اعلیٰ کتابوں کا درس دیا۔ پھر 1403ھ مطابق 1982ء میں ام المدارس ”دارالعلوم دیوبند“ میں مدرس مقرر ہوئے۔یہاں آکر آپ نے درس نظامی کی اعلیٰ کتابوں میں مسلم شریف، ترمذی شریف جلد ثانی اور مشکوٰۃ شریف کا درس دیا اور تادم تحریر بھی یہ اسباق آپ سے وابستہ ہیں۔ حضرت والا نے دارالعلوم میں استاذ حدیث ہونے کے ساتھ ساتھ نظامت تعلیمات کا عہدہ بھی ایک عرصہ تک سنبھالا، چنانچہ 1987ء سے 1990ء تک آپ ”نائب ناظم تعلیمات“ رہے۔ پھر 1996ء سے 2008ء تک دارالعلوم کے”ناظم تعلیمات“ کے عہدے پر فائز رہے اور تعلیم وتربیت کی بہتری کے لیے مؤثر اقدامات کیے۔ گزشتہ سال 14؍ اکتوبر 2020ء کو دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ نے متفقہ طور پر آپکو دارالعلوم دیوبند کا ”صدر المدرسین“ منتخب کیا۔ آپکی درسی تقریریں مربوط، مسلسل اور پرجوش ہوتی ہیں، طلبہ ذوق و شوق سے آپ کے درس میں حاضر ہوتے ہیں۔


امیر الہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب مدظلہ کو تعلیم و تعلم، درس و تدریس کے ساتھ ساتھ اپنے والد گرامی حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمہ اور برادر اکبر حضرت فدائے ملت علیہ الرحمہ کی طرح ملی اور قومی سرگرمیوں میں بھی خاص دلچسپی تھی۔ اور آپ نے اس میں میدان میں بھی اپنی نمایاں خدمات انجام دیں بالخصوص ”جمعیۃ علماء ہند“ کے پلیٹ فارم سے آپ نے اب تک ملک و ملت اور اسلامی تشخص کی سربلندی اور حفاظت کیلئے جو گرانقدر خدمات انجام دی ہیں وہ تاریخ کا روشن باب ہے۔ ابتداءً آپ ایک طویل عرصہ تک جمعیۃ علماء ہند کی مرکزی مجلس عاملہ کے رکن رکین رہے۔ پھر 28؍ فروری 2006ء میں آپ نے جمعیۃ علماء ہند کے منصب صدارت کو سنبھالا اور اکابر کی روایات کو زندہ رکھتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف اٹھنے والے طوفان بلاخیز کا ہر محاذ پر جمعیۃ علماء ہند کے پلیٹ فارم سے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ارباب اقتدار کو چیلنج کرتے ہوئے جس فراست و جرأت کا مظاہرہ کیا ہے اس نے فرزندان ملت کو عزت و وقار کے ساتھ جینے کا حوصلہ دیا ہے۔ چنانچہ آئین و قانون کی حدود میں رہتے ہوئے جبر و تشدد کے شکار مظلومین کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے مسئلہ کو جس جرأت و بے باکی کے ساتھ اٹھایا اور انکی فریاد رسی کی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ خواہ وہ دہشت گردی کی آڑ میں مسلم نوجوانوں کے استحصال کا مسئلہ ہو یا انسداد فرقہ وارانہ فسادات بل کا، تحفظ شریعت کی اہم ذمہ داری ہو یا مرکزی مدرسہ بورڈ کا فتنہ، ملک میں کھربوں روپے کی وقف جائیدادوں کے تحفظ کا مسئلہ ہو یا بابری مسجد کے مقدمہ کی پیروی، خواتین ریزرویشن جیسے خطرناک بل کا معاملہ ہو یا مسلم ریزرویشن کی پر زور وکالت کا، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اقلیتی کردار کی بحالی کے سلسلے میں مخلصانہ جدوجہد ہو یا گوپال گڑھ کی پولیس کی بربریت کے خلاف مساعی، فرقہ پرستوں کی پست ذہنیت کے خلاف ارباب اقتدار کو وارننگ ہو یا مختلف کمیشنوں کی رپورٹ کے نفاذ کا معاملہ، جمہوریت کے تحفظ کا مسئلہ ہو یا فرقہ پرستی کے خلاف صدائے احتجاج، قومی حقوق انسانی کمیشن کی دوغلی پالیسی ہو یا حصول انصاف کا تقاضا، یکساں سول کوڈ کا فتنہ ہو یا مسلم پرسنل لا میں مداخلت کا مسئلہ، لازمی شادی رجسٹریشن کی تجویز کی مذمت ہو یا طلاق ثلاثہ بل کا قانون، تعداد ازواج کا مسئلہ ہو یا ہم جنس پرستی کا فتنہ، دینی تعلیمی بورڈ کے ذریعے ملک بھر میں مکاتب کا قیام ہو یا ملک میں اصلاح معاشرہ کی تحریک، غریبوں اور مصیبت زدہ افراد کی بروقت دست گیری ہو یا طوفان اور سیلاب زدگان کیلئے ریلیف، فسادات پر ارباب حکومت کو وارننگ دینا ہو یا فسادات سے مثاثر لوگوں کی امداد، برما کے مہاجرین کا مسئلہ ہو یا آسام کے باشندوں کی شہریت کا مسئلہ، شہرت ترمیم قانون ہو یا این آر سی اور این پی آر کا مسئلہ، قومی یکجہتی کانفرنس ہو یا عید ملن کی تقاریب، عظمت صحابہ کانفرنس ہو یا جمعیۃ علماء ہند کا اجلاس عام، گودی میڈیا پر لگام لگانے کوشش ہو یا لاک ڈاؤن سے متاثر غریبوں اور ضرورتمندوں کی امداد، قرآن کی چھبیس آیات پر اعتراضات کا جواب ہو یا جبراً تبدیلی مذہب کا سوشہ، ملکی حالات ہوں یا عالمی حالات، ہر محاذ پر صدر جمعیۃ علماء ہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب نے جس ہمت، جرأت، اخلاص اور توجہ کے ساتھ سعی پیہم کرتے ہوئے ملت اسلامیہ ہندیہ کی جو شاندار اور مثالی قیادت کی ہے وہ یقیناً مسلمانانِ ہند بالخصوص جمعیۃ علماء ہند کا روشن باب ہے۔ آپ نے مسلمانوں کی اس نمائندہ و تاریخ ساز انقلابی تنظیم جمعیۃ علماء ہند کی مسند صدارت پر فائز ہونے کے بعد سیاسی گلیاروں میں بیٹھے اقتدار کے دلالوں سے قربت یا ارباب اقتدار کی کاسہ لیسی جیسے ناپسندیدہ اور غیر مہذب طریقہ پر لات مار کر ایک نڈر بے خوف مجاہد حق کا حقیقی کردار ادا کرتے ہوئے مظلوم و ستم رسیدہ ملت کے مستحق افراد کے زخم خوردہ قلوب پر مرہم رکھنے کے قائدانہ فریضہ کو نہ صرف ادا کیا بلکہ یہ ثابت کردیا کہ آپ موجودہ فتنہ انگیزی کے دور میں اپنے اکابرین کے تاریخ ساز کردار کے حقیقی وارث اور امین ہیں۔

اب سب کی زباں پر ارشد ہے، ملت کا یہی آواز ہے اب

جذبات سلف کے رازوں کا، ارشد ہی یہاں ہمراز ہے اب


جانشین شیخ الاسلام حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم دارالعلوم دیوبند اور جمعیۃ علماء ہند کے ساتھ ساتھ مختلف اداروں کے پلیٹ فارم سے بھی نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ بالخصوص ملک کی متحدہ، متفقہ اور مشترکہ پلیٹ فارم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے مجلس تاسیسی کے آپ رکن ہیں۔ اسی طرح عالم اسلام کی ہمہ گیر اور وسیع ترین تنظیم رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کے بھی مجلس تاسیسی کے آپ رکن ہیں۔ اس کے علاوہ ملک و بیرون ملک کے مختلف بڑے بڑے ادارے آپکی سرپرستی و نگرانی میں اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں، علاوہ ازیں عالم اسلام کی مختلف نمائندہ تنظیموں کے آپ رکن رکین بھی ہیں۔ عالم اسلام بالخصوص ملت اسلامیہ ہندیہ کیلئے آپکی خدمات ناقابل فراموش ہے، یہی وجہ ہیکہ جب گزشتہ دنوں ”امیر الہند خامس“ کے انتخاب کیلئے مؤرخہ 03؍ جولائی 2021ء مطابق ۲۲؍ ذی القاعدہ ١٤٤٢ھ بروز سنیچر کو جمعیۃ علماء ہند کے صدر دفتر نئی دہلی میں واقع مدنی ہال میں ”امارت شرعیہ ہند“ کا ایک روزہ نمائندہ اجتماع دارالعلوم دیوبند کے مہتمم و شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی ابو القاسم صاحب نعمانی دامت برکاتہم کے زیر صدارت منعقد ہوا، تو امارت شرعیہ ہند کے ارکان شوری، جمعیۃ علماء ہند کے ذمہ داران اور منتخب ارباب حل و عقد کی موجودگی میں صدر جمعیۃ علماء ہند حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی صاحب مدظلہ نے اس باوقار منصب کے لیے جانشین شیخ الاسلام حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب مدظلہ (صدر جمعیۃ علماء ہند و صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند) کا نام پیش کیا۔ جسکی تائید حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی مدظلہ (استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند)، حضرت مولانا عبد العلیم صاحب فاروقی مدظلہ (رکن شوریٰ دارالعلوم دیوبند و امیر شریعت اترپردیش)، حضرت مولانا رحمت اللہ میر صاحب قاسمی کشمیری مدظلہ (رکن شوری دارالعلوم دیوبند امیر شریعت جموں و کشمیر)، حضرت مولانا سید اسجد صاحب مدنی مدظلہ (رکن عاملہ جمعیۃ علماء ہند)، حضرت مفتی احمد صاحب دیولہ مدظلہ (نائب صدر جمعیۃ علماء گجرات)، حضرت مولانا سید اشہد صاحب رشیدی مدظلہ (مہتمم جامعہ قاسمیہ شاہی مرادآباد)، حضرت مولانا بدر احمد صاحب مجیبی مدظلہ (خانقاہ مجیبیہ پٹنہ بہار)، حضرت مولانا یحییٰ صاحب باسکنڈی مدظلہ (امیر شریعت آسام)، حضرت مولانا بدرالدین اجمل صاحب قاسمی مدظلہ (رکن شوریٰ دارالعلوم دیوبند و صدر جمعیۃ علماء آسام) نے کی۔ ان تائیدات کے بعد صدر اجتماع حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی مدظلہ نے ”امیر الہند خامس“ کے طور پر ”جانشین شیخ الاسلام حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم“ کے نام کا اعلان کیا۔ حالاں کہ حضرت نے اپنی ضعیف العمری کی وجہ سے معذرت ظاہر کی تاہم تمام مجمع کی تائید کے بعد وہ امیر الہند خامس منتخب ہوئے۔ بعد میں شریک علماء، داعیان نیز دیگر حاضرین نے آپ کے ہاتھ پر بیعت سمع و طاعت کی۔ الحمدللہ

بس بہ توفیق الٰہی ہے یہ حسن انتخاب

کارواں تو پھرمیسرہے امیر لاجواب

ائے امیر الہند ارشد عزم و ہمت کو سلام

سید ارشدصدر جمعیۃ کی رفعت کو سلام

میر خامس آبروئے ملک و ملت کو سلام


امیر الہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب مدظلہ نے جمعیۃ علماء ہند کے پلیٹ فارم سے ہندوستانی مسلمانوں کی جو شاندار مثالی قیادت کی ہے جو تاریخ میں سنہرے الفاظ میں لکھے جانے کے قابل ہیں۔ آپکی دینی، ملی، قومی، سماجی اور معاشرتی خدمات ناقابل فراموش ہے۔ جمعیۃ علماء ہند جیسی باوقار تنظیم کی صدارت اور ام المدارس دارالعلوم دیوبند کے صدرات تدریس کی اعلیٰ منصب پر فائز ہونے کے بعد اب آپ کو ”امیر الہند“ بھی منتخب کرلیا گیا ہے۔ اس حسن انتخاب سے ملت اسلامیہ ہند میں بے حد خوشی کا ماحول ہے۔ کیونکہ نومنتخب امیر الہند اس وقت عالم اسلام میں اپنے اکابر و اسلاف کی نشانی، عبقری شخصیت، صاحب عزم و عزیمت اور علماء دیوبند کے سرخیل ہیں۔ ملت اسلامیہ انہیں انتہائی قدر و منزلت اور وقار و احترام کی نظروں سے دیکھتی ہیں۔ آپ کی ایک آواز پر جہاں امت مسلمہ کا ایک بہت بڑا طبقہ لبیک کہتا ہے وہیں آپکی ایک جھلک دیکھنے اور آپکو سننے کیلئے امت مسلمہ کا ٹھاٹھے مارتا ہوا سمندر جمع ہوجاتا ہے۔ راقم السطور کو بھی یہ سعادت حاصل ہیکہ امیر الہند جانشین شیخ الاسلام حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب کو کئی مرتبہ قریب سے دیکھنے، سننے، ملاقات اور خدمت کا حسین موقع میسر ہوا ہے۔ ابھی امیر الہند منتخب ہونے کے ایک دن بعد 05؍ جولائی 2021ء کو حضرت والا کی بنگلور تشریف آوری پر جمعیۃ علماء کرناٹک کے زیر اہتمام منعقد ایک خصوصی تہنیتی اجلاس میں شرکت اور آپ سے ایک مرتبہ پھر استفادہ اور ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ آپکی شخصیت علم و عمل، عظمت و ہمت، تقویٰ و طہارت، سخاوت و تواضع، ذہانت و صلاحیت، شجاعت و بلند اخلاق کی حامل ہے۔ آپ مسلمانان ہند کے لئے قدرت کا عظیم عطیہ ہیں، جو انقلابی فکر اور صحیح سمت میں صحیح اور فوری اقدام کی جرأت رکھتے ہیں۔ استقلال، استقامت، عزم بالجزم، اعتدال و توازن اور ملت کے مسائل کیلئے شب و روز متفکر اور رسرگرداں رہنا حضرت امیر الہند کی خاص صفت ہے۔ آپ حقیقی مانوں میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی صاحبؒ کے جانشین اور انکے علوم کے امین ہیں۔ امیر الہند جانشین شیخ الاسلام حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب مدظلہ کی قیادت و سیادت میں جمعیۃ علماء ہند کے پلیٹ فارم سے جڑ کر کام کرنا ہمارا لئے باعث سعادت اور فخر ہے اور آج سے ان شا اللہ آپکی امارت میں بھی مسلمانانِ ہند حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے ایک روشن مستقبل کی طرف بڑھے گی اور پوری ہمت و حوصلے اور اپنے مذہبی و ملی امتیازی شان وشوکت اور اپنی انفرادی تشخص کے ساتھ اس ملک میں زندگی گذارے گی۔ آپ کے ”امیر الہند خامس“ منتخب کئے جانے پر ہم والہانہ عقیدت و محبت کے ساتھ آپ کی خدمت عالی میں مبارکباد پیش کرتے ہوئے آپکا استقبال کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ آپ کا سایہ امت پر تادیر قائم و دائم فرمائے!

آج امارت ناز کرتی ہے تمہاری شان پر

فرحتیں ہر فرد پر رقصاں ہیں اس اعلان پر

اب امیر الہند کے اس مسند فرماں پر

ارشد مدنی رہیں گے جلوہئ فیضان پر

ہو مبارک آپ کو، یہ منصب اہل وفا

مرحبا اب کہہ رہی ہے، مسند اہل ہدی


فقط و السلام

بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

 ٢٤؍ ذو القعدہ ١٤٤٢ھ

06؍ جولائی 2021ء بروز منگل



+91 8495087865

mdfurqan7865@gmail.com

____________

*ابن مولانا محمد ریاض الدین مظاہری

متعلم جامعہ ابو ہریرہ ؓ اکیڈمی

بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند

صدر مجلس احرار اسلام بنگلور

رکن عاملہ جمعیۃ علماء ساؤتھ بنگلور


#پیغام_فرقان

#PaighameFurqan #Article #Mazmoon #ArshadMadni #AmeerulHind #Jamiat #Akabir #Deoband #JamiatUlama

Thursday, 1 July 2021

مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحبؒ ایک عہد ساز شخصیت!



 مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحبؒ ایک عہد ساز شخصیت!


✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


 قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ قرب قیامت میں علماء حق کی پے درپے وفات ہو گی۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ”بے شک اللہ تعالیٰ اس طرح علم نہ اٹھائے گا کہ اسے بندوں سے کھینچ لے، بلکہ علماء کو اٹھا کر اسے اٹھائے گا، یہاں تک کہ جب (زمین پر) کسی عالم کو باقی نہ چھوڑے گا تو لوگ جاہلوں کو پیشوا بنالیں گے، جن سے مسائل پوچھے جائیں گے تو وہ جاہل بغیر علم کے فتویٰ دیں گے تو خود گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے“، (بخاری)۔ اسی لئے علماء کی وفات کو پورے عالَم کی وفات سے تعبیر کیا گیا ہے۔ قحط الرجال کے اس دور میں علماء اور اہل علم کا یکے بعد دیگرے اٹھ جانا کسی سانحہ سے کم نہیں ہے۔ آسمان علم و معرفت کے ستاروں میں سے ایک تارہ اور ٹوٹ گیا۔ اخلاص و تقویٰ کے روشن چراغوں میں سے ایک دیا اور بجھ گیا۔ گزرے وقتوں کے باخدا بزرگوں اور پچھلے زمانوں کے ربانی علماء کی ایک جیتی جاگتی نشانی، عالم اسلام کی نامور شخصیت، خادم کتاب و سنت، ترجمان حق و صداقت، یادگار اسلاف، میر کارواں، شیخ طریقت، رہبر شریعت، امارت شرعیہ بہار،اڑیسہ و جھارکھنڈ کے امیر شریعت، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری، خانقاہ رحمانی مونگیر کے سجادہ نشین، رحمانی تھرٹی اور رحمانی فاؤنڈیشن کے بانی،دارالعلوم ندوۃ العلماء کے رکن، جامعہ رحمانی مونگیر اور درجنوں اداروں کے سرپرست، مفکر اسلام حضرت اقدس مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ مورخہ 20؍ شعبان 1442ھ مطابق 03؍ اپریل2021ء بروز سنیچر دوپہر ڈھائی بجے پٹنہ کے پارس ہاسپٹل میں مختصر علالت کے بعد راہ ملک بقاء ہوگئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون، ان اللہ ما اخذ ولہ مااعطی وکل شء عندہ بأجل مسمی۔

جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں 

کہیں سے آب بقائے دوام لاساقی


 حضرت علیہ الرحمہ کے انتقال کے دوسرے دن صبح 11؍ بجے مونگیر میں حضرت کے خلیفہ ئاجل حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب مدظلہ نے لاکھوں افراد کی موجودگی میں انکی نماز جنازہ پڑھائی اور خانقاہ رحمانی میں انکے والد حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانی صاحبؒ کے پہلو میں سپرد خاک کردیا گیا۔ حضرت امیر شریعتؒ کا انتقال ایک عظیم خسارہ ہے بلکہ ایک عہد کا خاتمہ ہے جو امت مسلمہ کیلئے ناقابل تلافی نقصان ہے۔ لیکن خالق کائنات اللہ رب العزت نے ہر جاندار کے لئے موت کا وقت اور جگہ متعین کردی ہے اور موت ایسی شی ہے کہ دنیا کا کوئی بھی شخص اس سے محفوظ نہیں۔ کیونکہ موت ایک ایسی حقیقت ہے جسے قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں، یہ ایک ایسی کیفیت ہے جس سے کسی کو بھی مفر نہیں، جب پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو موت نے اپنے آغوش میں لے لیا اور قرآن نے بھی کہہ دیا: ”کُلُّ نَفسٍ ذَآءِقَۃُ المَوتِ“ (سورہ آل عمران:185) کہ ”ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے“، تو ہما شما کی کیا بات ہے۔ چناں چہ سب کے سب انبیاء ورسل، صحابہ وتابعین اوراولیاء وصلحا کو اس جہان سے کوچ کرنا پڑا۔ ہم سب کو بھی ایک دن جانا ہوگا۔ حضرت امیر شریعت نوراللہ مرقدہ بھی اپنے مقررہ وقت پر، پاک پروردگار کے حکم کا اتباع کرتے ہوئے ہزاروں شاگردوں، مریدوں اور متعلقین کو الوداع کہتے ہوئے اس جہاں سے کوچ کرگئے۔ اللہ تعالی حضرت والا کو جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے، آمین!

جان کر من جملہ خاصان میخانہ تجھے

مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ تجھے


 امیر شریعت حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحبؒ کی ولادت بہار کے مشہور علمی اور روحانی خانوادہئ رحمانی میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے بانی، امیر شریعت حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانی نوراللہ مرقدہ کے گھر 05؍ جون 1943ء کو ہوئی۔ آپ کے دادا قطب الزماں حضرت مولانا محمد علی مونگیری صاحب رحمۃ اللہ علیہ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے بانیوں میں سے تھے۔ آپکی تعلیم اور تربیت ابتداء میں خانقاہ رحمانی کے احاطہ میں چل رہے پرائمری اسکول میں ہوئی، مولانا حبیب الرحمن صاحب اور ماسٹر فضل الرحمن صاحب کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے نامور والد گرامی کے سامنے بھی زانوئے تلمذ تہ کیا، اور جامعہ رحمانی مونگیر میں مشکوۃ شریف تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1961ء میں دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ اور 1964ء میں ام المدارس دارالعلوم دیوبند سے علوم متداولہ کی تکمیل کی اور ان دونوں اداروں سے کسب فیض اور خاندانی تعلیم وتربیت کی وجہ سے زبان ہوش مند اور فکر ارجمند سے مالا مال ہوئے۔ اس کے بعد سن 1970ء میں تلکا مانجھی یونیورسٹی بھاگلپور آپنے سے ایم اے کیا۔ آپکے خاندان کا یہ امتیاز رہا ہے کہ علم و معرفت، تصوف و سلوک، شریعت و طریقت، تصنیف و تالیف، تقریر و خطابت، قیادت و رہبری کے وہ اوصاف جو دوسری جگہوں پر الگ الگ پائے جاتے ہیں اس خانوادہئ رحمانی میں ایک ساتھ جمع نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کی آپکی شخصیت بھی اپنے آباء و اجداد کی طرح ہمہ جہت تھی، ان کی پوری زندگی ملت کی خدمت سے عبارت تھی، وہ ایک مؤقر عالم دین، شیخ طریقت، امیر شریعت اور مفکر اسلام اور تحریکی مزاج کے آدمی تھے۔ انہوں نے خانقاہ رحمانی مونگیر، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، امارت شرعیہ، اصلاح معاشرہ، جامعہ رحمانی مونگیر، درجنوں مدارس کی سرپرستی اور رحمانی تھرٹی کے ذریعہ مختلف شعبوں میں ملت اسلامیہ کی بے پناہ خدمات انجام دیں۔


 مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب رحمہ اللہ نے اپنی فراغت کے بعد سن 1967ء میں امارت شرعیہ کے ترجمان ہفت روزہ نقیب، پھلواری شریف، پٹنہ کی ادارت کے ساتھ ساتھ جامعہ رحمانی مونگیر میں تدریس اور فتوی نویسی کا کام بھی شروع کیا، اور 1969ء میں جامعہ رحمانی کی نظامت کے عہدہ پر فائز ہوئے۔پھر 1974ء میں ویدھان پریشد کے رکن منتخب ہوئے، اسی سال جامعہ رحمانی کے ترجمان صحیفہ کی ادارت سنبھالی۔ سن 1974ء سے 1996ء تک بہار قانون ساز کونسل کے رکن کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ اسی درمیان 1985ء بہار ودہان پریشد کے ڈپٹی چیرمین بھی منتخب ہوئے۔ وہ اپنے والد ماجد حضرت مولانا منت اللہ رحمانی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات 1991ء کے بعد سے خانقاہ رحمانی مونگیر کے سجادہ نشین اور جامعہ رحمانی مونگیر کے سرپرست رہے۔ سن 1991ء تا 2015ء ملت اسلامیہ ہندیہ کے تمام مسالک کا متحدہ، متفقہ اور مشترکہ پیلٹ فارم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سکریٹری رہے۔ اور 07؍ جون 2015ء کو بورڈ کے کارگزار جنرل سکریٹری نامزد ہوئے۔ بعدازاں 16؍ اپریل 2016ء کو دارالعلوم ندوۃ العلماء میں منعقد مجلس عاملہ کے اجلاس میں باتفاق رائے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری منتخب ہوئے۔ اسی طرح 03؍ اپریل 2005ء میں امارت شرعیہ بہار، اڑیسہ و جھارکھنڈ کے نائب امیر شریعت منتخب ہوئے۔اور 29؍ نومبر 2015ء کو دارالعلوم رحمانی، زیرو مائل، ارریہ، بہار میں مجلس ارباب حل و عقد نے آپکو مستقل طور پر امیر شریعت سابع بہار،اڑیسہ و جھارکھنڈ منتخب کیا۔ سن 2010ء میں آپ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کورٹ کے ممبر منتخب ہوئے۔ ساتھ ہی آپ تاحیات دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے انتظامی رکن، مولانا آزاد فاؤنڈیشن کے وائس چیرمین اور آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے نائب صدر رہے۔


حضرت امیر شریعت علیہ الرحمہ مختلف اداروں اور تحریکوں سے وابستہ ہوکر مسلمانوں کے حقوق کی لڑائی لڑتے رہے اور تعمیراتی اور ترقیاتی کاموں میں حصہ لیتے رہے۔اسی کے پیش نظر انہوں نے مختلف اداروں کا قیام بھی عمل میں لایا۔ انہوں نے سن 1996ء میں سماجی فلاح و بہود کیلئے رحمانی فاونڈیشن کی بنیاد رکھی، جس کی تعلیم اور تربیت کی سمت میں شاندار خدمات ہیں - سن 2008ء میں حضرت نے مسلمانوں کے معیاری تعلیمی ترقی کیلئے رحمانی 30 کو قائم کیا۔ یہ وہ پلیٹ فارم ہے جہاں عصری تعلیم کے متعدد شعبوں میں معیاری اعلی تعلیم و قومی مقابلاجاتی امتحانات کے لیے طلبہ کو تیار کیا جاتا ہے۔ اس ادارے نے آئی آئی ٹی، جے ای ای، نیٹ، چارٹرڈ اکاؤنٹ اور دیگر مشکل مقابلوں میں مسلم بچوں اور بچیوں کو کامیابی کی راہ دکھائی اور شاندار ریکارڈ قائم کیا۔ اسی کے ساتھ انہوں نے سن 2013ء میں مسلم طلبہ کو ڈاکٹرز بنانے کیلئے میڈیکل کی تیاری اور سن 2014ء میں وکیل اور جج بنانے کی تیاری کرانے کی شروعات کی۔ اسی طرح حضرت امیرشریعت نے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف تحریکات کو چلایا جس کے ذریعے پورے ملک میں اچھے اثرات مرتب ہوئے۔انہوں نے سن 2003ء میں مدارس کی حفاظت کی تحریک چلائی اور مونگیر میں تاریخ ساز ”ناموس مدارس اسلامی کنونشن“ منعقد کیا۔ امارت شرعیہ کے استحکام کے لئے متعدد اقدام کئے اور تینوں ریاستوں میں امارت کو مضبوط کیا۔ دارالقضاء کے کاموں کو وسعت بخشی، تعلیمی میدان میں بنیادی دینی تعلیم کے فروغ، عصری تعلیمی اداروں کے قیام عمل میں لایا۔ 15؍ اپریل 2018ء کو گاندھی میدان میں ”دیش بچاؤ، دین بچاؤ“ کے نام سے حضرت کی صدارت میں تاریخ ساز کانفرنس کا انعقاد عمل میں آیا۔ اسی کے ساتھ ”سی اے اے، اینڈ آر سی اور این پی آر“ کے خلاف بھی مہم چلائیں گئی۔ اپنے آخری دور میں حضرت نے ”اردو کی بقاء و تحفظ اور ترویج و اشاعت“ کے لئے پورے بہار، اڑیسہ و جھارکھنڈ میں تحریک چلائی۔امارت شرعیہ کے ساتھ ساتھ حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحبؒ نے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے پلیٹ فارم سے بھی نمایاں خدمات انجام دئے۔ انہوں نے رائٹ ٹو ایجوکیشن اور قانون وقف کی اصلاح نیز ڈائریکٹ ٹیکس کوڈ کو روکنے کیلئے بورڈ کے بینر تلے ”آئینی حقوق بچاؤ“ کے نام سے کامیاب ملک گیر تحریک چلائی۔ 2015ء میں شریعت اسلامی اور آئین ہند کے تحفظ اورحکومت کی جانب سے اس میں مداخلت اور ترمیم کی سازشوں کے خلاف”دین و دستور بچاؤ“ کے نام سے حضرت کی قیادت میں بورڈ نے ملک گیر تحریک چلائی۔ 2016ء میں ”یونیفارم سول کوڈ“ کے خلاف ملک کے مختلف حصوں میں پروگرامات منعقد کئے۔ 2017ء کے اواخر اور 2018ء کی ابتداء میں پورے ملک میں مرکزی حکومت کے مجوزہ ”طلاق ثلاثہ بل“ کے خلاف تحریکِ چلائی، جس کے تحت ملک کے مختلف شہروں میں تاریخ ساز احتجاجی پروگرامات اور ریلیاں منعقد ہوئے، بالخصوص امت کے بہادر ماؤں اور بہنوں نے شرعی دائرے میں رہ کر احتجاجی جلوس نکالے۔اسی دوران حضرت کے حکم پر ملک کے مختلف علاقوں میں ”تحفظ شریعت کمیٹی“ تشکیل پائی۔ اسی دوران مسلم پرسنل لا میں مداخلت کے خلاف ”دستخطی مہم“ بھی چلائی گئی اور تقریباً پانچ کڑوروں دستخطوں کو لاء کمیشن کے حوالے کیا گیا۔ جب 2018ء میں حکومت کی جانب سے مسلم پرسنل لا میں تبدیل کی بات ہونے لگی تو لاء کمیشن کے چیئرمین کی دعوت پر بورڈ کے وفد نے حضرت کا پیغام ان تک پہنچایا۔ جس میں اسلامی تعلیمات اور فقہ کی روشنی میں انکے اشکالات کا واضح جواب دیا گیا اور واضح طور پر کہا گیا کہ مسلم پرسنل لا میں کسی ترمیم، تنسیخ یا تبدیلی کی ضرورت نہیں۔ حضرت علیہ الرحمہ نے بورڈ کی”بابری مسجد کمیٹی“ کے ذریعے آخری مرحلے تک بابری مسجد کی پیروی کرنے والوں کی نگرانی فرمائی۔ اسی طرح پورے ملک میں اصلاح معاشرہ کی تحریک چلائی اور ملک کے مختلف ریاستوں اور اضلاع میں ”اصلاح معاشرہ کمیٹی“ تشکیل دئیے اور ساتھ ہی وحدت امت کیلئے ہمیشہ کوشاں رہے۔ مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب رحمہ اللہ نے اپنی پوری زندگی تحفظ شریعت، وحدت امت اور اصلاح معاشرہ کیلئے وقف کردی تھی۔

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا


 حضرت امیر شریعت علیہ الرحمہ کو اداروں اور تحریکوں کی قیادت اور تعلیم و تعلم کے ساتھ ساتھ تالیف و تصنیف میں بھی یکساں عبور حاصل تھا۔ آپ نے اپنے زور قلم سے مختلف کتابیں مرتب فرمائی۔جس میں ”تصوف اور حضرت شاہ ولی اللہؒ“، ”بیت عہد نبوی میں آپکی منزل یہ ہے!“، ”دینی مدارس میں مفت تعلیم کا مسئلہ!“، ”سماجی انصاف، عدلیہ اور عوام“، ”شہنشاہ کونین کے دربار میں!“، ”حضرت سجاد، مفکر اسلام“، ”کیا 1857 پہلی جنگ آزادی ہے؟“، ”مجموعہ رسائل رحمانی“ وغیرہ حضرت ؒ کے تصنیفی کمالات کا شاہکار ہے۔ انکی بے لوث خدمات پر انہیں مختلف اعزاز سے بھی نوازا گیا۔ انہیں بھارت جیوتی ایوارڈ، راجیو گاندھی ایکسلنس ایوارڈ، شکچھارتن ایوارڈ، سر سید ایوارڈ، امام رازی ایوارڈ، کولمبیا یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری قابل ذکر ہیں اور حضرت کے تدفین سے قبل حکومت بہار کی جانب سے سرکاری اعزازی سلامی بھی دی گئی۔


 شیخ طریقت حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحبؒ نے تصوف و سلوک کے میدان میں بھی عظیم مقام پایا تھا۔ آپ اپنے والد گرامی حضرت مولانا منت اللہ رحمانی صاحبؒ سے بیعت و مجاز تھے اور چاروں سلسلہ قادریہ، چشتیہ، نقشبندیہ اور سہروردیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ آپکے دست مبارک پر تقریباً ساڑھے آٹھ لاکھ سے زیادہ افراد نے توبہ و بیعت کیا تھا۔ جس میں آپ کے خلفاء کی تعداد نو ہے۔ جو ملک کے مختلف حصوں میں اصلاحی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس طرح حضرتؒ کو ہر میدان میں یکساں عبور حاصل تھا۔ 


 راقم السطور کو عالم اسلام کی جن عظیم المرتبت شخصیات کو قریب سے دیکھنے اور سننے کا حسین موقع ملا ان میں مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب رحمہ اللہ کی ذات گرامی بطور خاص شامل ہے۔ ماضی قریب کے سالوں میں جب بھی حضرت والا کا شہر گلستان بنگلور آمد مسعود ہوتا راقم بلا ناغہ انکی مجالس میں شریک رہتا۔ آپکی شخصیت تواضع و انکساری، خوش مزاجی و سادگی، تقویٰ و پرہیزگاری، شستہ و شگفتہ اخلاق کی حامل تھی۔ آپکی ذات عالیہ مسلمانان ہند کے لئے قدرت کا عظیم عطیہ تھی، جو انقلابی فکر اور صحیح سمت میں صحیح اور فوری اقدام کی جرأت رکھتے تھے۔ استقلال، استقامت، عزم بالجزم، اعتدال و توازن اور ملت کے مسائل کیلئے شب و روز متفکر اور رسرگرداں رہنا حضرت امیر شریعتؒ کی خاص صفت تھی۔ انکی بے باکی اور حق گوئی ہر خاص و عام میں مشہور تھی۔ عاجز کا جب بھی آبائی وطن جھارکھنڈ جانا ہوتا تو وہاں کی فضاء میں حضرت کی جرأت مندی، عزم و حوصلہ اور بے باکی نظر آتی، جس پر ہمارے گاؤں کے بزرگ اور رشتہ داروں کی زبان واضح ثبوت دے رہی ہوتی۔ یوں تو بنگلور میں حضرت کے مجالس میں شرکت کا موقع ملا لیکن بالمشافہ کبھی ملاقات نہیں ہو پایا لیکن دل میں ایک آرزو تھی کہ حضرت سے ایک دفعہ ضرور ملاقات کرنا ہے، لیکن اب یہ آرزو ایک حسین خواب ہی بن کر رہ گئی۔

آئے عشاق، گئے وعدہئ فردا لے کر

اب انھیں ڈھونڈ چراغ رج زیبا لے کر


 زندگی کے آخری لمحات میں حضرت امیر شریعتؒ جہاں امارت شرعیہ کے ”تحریک فروغ اردو“ کی قیادت فرما رہے تھے وہیں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ”آسان اور مسنون نکاح مہم“ کی سرپرستی فرما رہے تھے۔ اسی دوران اچانک طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے پٹنہ کے پارس ہاسپٹل بغرض علاج داخل کرایا گیا۔ جہاں علم و عرفان کے اس روشن ستارے نے 20؍ شعبان المعظم 1442ھ مطابق 03؍ اپریل 2021ء بروز سنیچر دوپہر ڈھائی بجے اپنی آخری سانس لیتے ہوئے اس دار فانی سے کوچ کر گئے،اناللہ وانا الیہ راجعون۔ آپکے انتقال کو دنیا بھر کے علماء و مشائخین نے عالم اسلام کیلئے ایک عظیم خسارہ قرار دیا۔ یہ ایک ایسا موقع تھا کہ ہر ایک غم و افسوس میں مبتلا تھا اور ہر کوئی تعزیت کا مستحق تھا۔ انکے انتقال سے آقائے دوعالم جناب محمد الرسول اللہﷺ کا یہ فرمان ”موت العالِم موت العالَم“ کہ ”ایک عالم دین کی موت پورے عالم کی موت ہے“ کا ہر کسی نے عملی مشاہدہ کیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ حضرت امیر شریعتؒ کی خدمات کو شرف قبولیت بخشتے ہوئے انکی مغفرت فرمائے اور اعلیٰ علیلین میں جگہ نصیب فرمائے، ہم تمام کو انکے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور امت مسلمہ کو انکا نعمل بدل عطاء فرمائے۔ آمین

عجب قیامت کا حادثہ ہے، آستیں نہیں ہے

زمین کی رونق چلی گئی ہے، اُفق پہ مہر مبیں نہیں ہے

تری جدائی سے مرنے والے، وہ کون ہے جو حزیں نہیں ہے

مگر تری مرگ ناگہاں کا اب تک یقیں نہیں ہے


فقط و السلام

بندہ محمد فرقان عفی عنہ*

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

١٩؍ ذو القعدہ ١٤٤٢ھ

مطابق یکم جولائی 2021ء بروز جمعرات


+91 8495087865

mdfurqan7865@gmail.com


_________

*ابن مولانا محمد ریاض الدین مظاہری

متعلم جامعہ ابو ہریرہ ؓ اکیڈمی

بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند

صدر مجلس احرار اسلام بنگلور

رکن عاملہ جمعیۃ علماء ساؤتھ بنگلور


#پیغام_فرقان

#PaighameFurqan #Article #Mazmoon #WaliRahmani #AIMPLB #Akabir #AmeerShariat #Rahmani