Wednesday, 11 August 2021

”سیرت خلیفہ ثانی،امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ“ (یکم محرم الحرام یوم شہادت)



 ”سیرت خلیفہ ثانی،امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ“

(یکم محرم الحرام یوم شہادت)


✍️بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


امیر المومنین، خلیفۃ المسلمین حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی پیدائش مکۃ المکرمہ میں واقعہ فیل سے تیرہ سال بعد قبیلہ بنو عدی میں خطاب بن نفیل کے گھر ہوئی۔ آپؓ صحابی رسول اور مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ راشد ہیں۔ آپؓ کا شمار عشرہئ مبشرہ جن کو دنیا میں جنت کی بشارت ملی، ان میں ہوتا ہے۔ حضرت عمر ؓرسول اللہؐ کے خسربھی ہیں۔ آپؓ کی صاحبزادی ام المومنین حضرت سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا رسول اللہؐ کی ازواج میں سے ایک ہیں۔ آپ ؓکا لقب فاروق، کنیت ابو حفص ہے۔ لقب و کنیت دونوں محمدﷺ کے عطا کردہ ہیں۔ آپ کا نسب نویں پشت میں رسول اللہؐ سے جا ملتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نویں پشت میں کعب کے دو بیٹے ہیں مرہ اور عدی۔ رسول اللہؐ مرہ کی اولاد میں سے ہیں، جبکہ حضرت عمرؓ عدی کی اولاد میں سے ہیں۔


حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا شمار مکہ کے ان لوگوں میں ہوتا تھا جو پڑھ لکھ سکتے تھے۔ جب حضورؐ نے پہلے اسلام کی تبلیغ شروع کی تو حضرت عمر ؓاسکے مخالف تھے۔ آپؐ کی دعا سے آپؓ نے نبوت کے چھٹے سال ستائیس برس کی عمر میں چالیس مردوں اور گیارہ عورتوں کے بعد مشرف بااسلام ہوئے۔ اسی لئے آپکو مراد رسول کہا جاتا ہے۔ ”آپ ؓکے اسلام لانے پر فرشتوں نے بھی خوشیاں منائی تھیں“ (مستدرک حاکم)۔ ہجرت کے موقعے پر کفار مکہ کے شر سے بچنے کیلئے سب نے خاموشی سے ہجرت کی مگر آپؓ کی غیرت ایمانی نے چھپ کر ہجرت کرنا گوارا نہیں کیا۔ آپؓ نے تلوار ہاتھ میں لی، کعبہ کا طواف کیا اور کفار کے مجمع کو مخاطب کر کے کہا ”تم میں سے اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کی بیوی بیوہ ہو جائے، اس کے بچے یتیم ہوجائیں تو وہ مکہ سے باہر آکر میرا راستہ روک کر دکھائے“۔ مگر کسی کافر کی ہمت نہ ہوئی کہ آپ کا راستہ روک سکے۔ رسول اللہؐ نے آپ ؓکو مخاطب کرتے ہوئے ایک دفعہ ارشاد فرمایا کہ ”قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، عمر جس راستے پر چلتے ہیں شیطان وہ راستہ چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کرلیتا ہے“ (مصنف ابن ابی شیبہ)۔ ہجرت کے بعد سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ تمام غزوات میں رسول اللہﷺ کی معیت میں رہے۔


ٍ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کفر و نفاق کے مقابلہ میں بہت جلال والے تھے اور کفار و منافقین سے شدید نفرت رکھتے تھے۔ ایک دفعہ ایک یہودی و منافق کے مابین حضور ؐنے یہودی کے حق میں فیصلہ فرمایا مگر منافق نہ مانا اور آپؓ سے فیصلے کیلئے کہا۔ آپؓ کو جب علم ہوا کہ نبیؐ کے فیصلے کے بعد یہ آپ سے فیصلہ کروانے آیا ہے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس کو قتل کر کے فرمایا جو میرے نبیؐ کا فیصلہ نہیں مانتا میرے پاس اس کا یہی فیصلہ ہے۔ کئی موقعوں پر نبی کریم ؐکے مشورہ مانگنے پر جو مشورہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے دیا قرآن کریم کی آیات مبارکہ اس کی تائید میں نازل ہوئیں۔


حضرت عمر فاروقؓ باعظمت، انصاف پسند اور عادل حکمران تھے۔ ان کی عدالت میں مسلم و غیر مسلم دونوں کو یکساں انصاف ملا کرتا تھا۔ حضرت عمر ؓحق و صداقت کے علمبردار تھے۔ امیر المومنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے وقت وصال امت کی زمام آپؓ ہی کے سپرد کی تھی، 22؍ جمادی الثانی 13 ھجری کو آپ مسند نشین خلافت ہوئے۔آپ ؓکے دور خلافت میں عراق، مصر، لیبیا، سرزمین شام، ایران، خراسان، مشرقی اناطولیہ، جنوبی آرمینیا اور سجستان فتح ہو کر مملکت اسلامی میں شامل ہوئے۔ آپ ہی کہ دور خلافت میں پہلی مرتبہ یروشلم فتح ہوا، اس طرح ساسانی سلطنت کا مکمل رقبہ اور بازنطینی سلطنت کا تقریباً تہائی حصہ اسلامی سلطنت کے زیر نگیں آگیا۔ آپؓ نے 22؍ لاکھ مربع میل کے رقبے پر اسلام کا جھنڈا لہرایا اور قبلہ اول بیت المقدس کی شاندار فتح کا سہرا بھی آپ کے سر ہے۔ حضرت عمر بن خطاب ؓنے جس مہارت، شجاعت اور عسکری صلاحیت سے ساسانی سلطنت کی مکمل شہنشاہیت کو دو سال سے بھی کم عرصہ میں زیر کر لیا، نیز اپنی سلطنت و حدود سلطنت کا انتظام، رعایا کی جملہ ضروریات کی نگہداشت اور دیگر امور سلطنت کو جس خوش اسلوبی اور مہارت و ذمہ داری کے ساتھ نبھایا وہ ان کی عبقریت کی دلیل ہے۔ آپؓ کا دور خلافت عدل و انصاف کا درخشندہ باب اور مثالی دور ہے نیز بہت مبارک اور اشاعت و اظہار اسلام کا باعث تھا۔ آپؓ ہی نے تقویم اسلامی (اسلامی کیلنڈر) کی ابتداء ہجرت مدینہ کی بنیاد پر یکم محرم الحرام سے کروائی۔ مفتوحہ علاقوں میں 900؍ جامع مساجد اور 4000؍ عام مساجد تعمیر کروا کر اس میں تعلیم و تدریس کا انتظام کروایا، جب کہ حرمین شریفین کی توسیع بھی آپؓ کے دور خلافت میں ہوئی۔تاریخ کی سب سے پہلی مردم شماری، کرنسی سکہ کا اجراء، مہمان خانوں (سرائے) کی تعمیر، لاوارث بچوں کی خوراک،تعلیم و تربیت کا انتظام اور وطائف کا اجراء دور فاروقی میں کیا گیا۔ آپؓ کا مقام و مرتبہ کا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ”میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتے تو عمر بن خطاب ہوتے۔“(ترمذی)


27؍ ذی الحجہ سن 23ھ بروز بدھ کو مسجد نبوی میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فجر کی نماز کی امامت کررہے تھے۔ نماز کے دوران ابو ؤؤ فیروز نامی بدبخت مجوسی غلام نے زہر آلود خنجر سے آپؓ کے جسم مبارک پر تین چار وار کئے۔ جس کی وجہ سے حضرت عمرؓ زخمی ہوکر گر پڑے۔ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی۔ آپؓ کو بے ہوشی کی حالت میں گھر لایا گیا۔ ہوش آنے پر آپکو جب یہ بتایا گیا کہ حملہ آور مجوسی تھا تو آپ ؓنے اس بات پر اللہ کا شکریہ ادا کیا کہ حملہ آور مسلمان نہیں تھا۔ آپؓ کے علاج کے باوجود افاقہ نہیں ہو رہا تھا، اس دوران اپنے بیٹے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس جاکر کہیں کہ عمر کی خواہش ہے کہ انہیں اپنے رفقاء کے جوار میں دفن ہونے کی اجازت دیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا پیغام سننے کے بعد حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ”بخدا یہ جگہ میں نے اپنے لیے منتخب کرلی تھی،لیکن آج کے دن میں یہ قربان کئے دیتی ہوں۔“ تین دن کرب میں گزارنے کے بعد آپ رضی اللہ عنہ یکم محرم الحرام سن 24 ھ کو جام شہادت نوش فرماگئے۔آپؓ کی نماز جنازہ حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ نے پڑھائی۔ (المنتظم)۔روضۂ نبوی میں حضرت محمد رسول اللہ اور خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی پہلو میں حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی قبر مبارک بنائی گئی۔ اور یوں عدل و انصاف کا یہ آفتاب ومہتاب غروب ہو گیا۔ یہ مشیت خداوندی ہی ہے کہ اسلامی سال کی ابتداء ہی شہادت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ہوتی ہے اور پھر مرقدرسول اللہ کے سرہانے تا قیامت استراحت کیلئے دو گز جگہ بھی عطا فر مادی گئی۔ قیامت تک جو بھی مسلمان روضۂ اقدس میں سلامی کیلئے حاضر خدمت ہوگا وہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ پر سلام بھیجے بغیر آگے نہ بڑھ سکے گا۔ دشمنان صحابہ کا منہ بند کرنے کیلئے یہ ایک اعزاز خداوندی ہی کافی ہے۔


فقط و السلام

بندہ محمد فرقان عفی عنہ*

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

 یکم محرم الحرام ١٤٤٣ھ

11؍ اگست 2021ء بروز بدھ


+91 8495087865

mdfurqan7865@gmail.com

________

*ابن مولانا محمد ریاض الدین مظاہری

متعلم جامعہ ابو ہریرہ ؓ اکیڈمی

بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند

سوشل میڈیا انچارج جمعیۃ علماء کرناٹک

صدر مجلس احرار اسلام بنگلور

رکن عاملہ جمعیۃ علماء بنگلور


#پیغام_فرقان

#PaighameFurqan #Article #UmarFarooq #YaumeSahadath #Muharram

Saturday, 7 August 2021

مسلم لڑکیوں کو فتنہ ارتداد سے محفوظ رکھنا وقت کا اہم تقاضہ ہے



 مسلم لڑکیوں کو فتنہ ارتداد سے محفوظ رکھنا وقت کا اہم تقاضہ ہے!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام فتنہ ارتداد کے اسباب و حل پر سہ روزہ اصلاح معاشرہ کانفرنس!


بنگلور، 07؍ اگست (پریس ریلیز): ملک کے حالات روز بروز بگڑتے جارہے ہیں۔ امت مسلمہ دین سے دور ہورہی ہے۔ جس تیزی کے ساتھ یہ ارتداد ہماری نسلوں کو تباہ کررہا ہے اس کے واقعات ہمارے سامنے ہیں۔ ملک کے تقریباً ہر شہروں سے ارتداد کی خبریں آرہی ہیں۔ امت مسلمہ جن بڑے بڑے مسائل سے دوچار ہے ان میں سے ایک بڑا اور سنگین مسئلہ غیرمسلموں سے مسلم لڑکے اور لڑکی کا شادی کرنا ہے۔ یہ فعل ایک مسلمان کو ارتداد کی دہلیز پر لا کھڑا کردیتا ہے۔ ہندوستانی مسلمان اس سنگین مسئلہ سے شدید متاثر ہیں، ملک کے طول و عرض سے آئے دن یہ روح فرسا واقعات سننے اور پڑھنے کو ملتے رہتے ہیں کہ فلاں مسلم لڑکے یا لڑکی نے فلاں غیرمسلم لڑکی یا لڑکے سے شادی رچا لی۔ ان روح فرسا اور دل کو چھلنی کردینے والے واقعات کا سب سے زیادہ دل دہلا دینے والا پہلو یہ ہے کہ مسلم لڑکے اور لڑکی اپنی رضامندی اور خوشدلی سے ایسا کررہے ہیں اور انھیں اس پر ذرا بھی افسوس نہیں اور اس پر دشمن کی چالیں اور سازشیں مستزاد ہیں۔ مذکورہ خیالات کا اظہار مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان نے کیا۔انہوں نے فرمایا کہ ہندوستان میں بڑھتی مذہبی منافرت اب ایک نازک موڑ پر آپہنچی۔یہ بات بہت حیران کن اور فکر انگیز ہیکہ ہندوتوا ایجنڈے کے ایک سازش کے تحت محبت کا جھانسہ دیکر مسلم لڑکیوں کو غیروں نے اپنے چنگل میں پھسانے کا منصوبہ تیار کیا ہے۔ گھر واپسی کے نام پر مسلمان لڑکیوں کو ہندو بنانے کی مکمل سازش چل رہی ہے۔ اور روز بہ روز ہزاروں دختران ملت اس سازش کا شکار ہوتی نظر آرہی ہیں، جن کی زندگی تیاہ و برباد ہورہی ہیں۔ اس کی ایک وجہ جہاں ہندو شدد پسند تنظیموں کی گھناؤنی سازش ہے وہیں دوسری وجہ اباحیت پسندی، مغربی تہذیب کی اندھی دلدادگی اور فرد کی بے محابا آزادی نے جہاں اس کو خوب بڑھاوا دیا ہے، وہیں مسلم نسل نو کی ایمانی اور اسلامی تربیت سے ہماری غفلت کوشی اور سہل انگاری کا بھی بڑا دخل ہے۔ ان تمام تر حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے مرکز تحفظ اسلام ہند نے ارتداد کے اس سازش کو بے نقاب کرنے اور اسکے دنیوی اور اخروی نقصانات سے امت کو واقف کرواتے ہوئے اسے بیدار کرنے کیلئے ”سہ روزہ آن لائن اصلاح معاشرہ کانفرنس“بعنوان ”مسلم لڑکیاں ارتداد کے دہانوں پر: اسباب و حل“ منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے تفصیلات بتاتے ہوئے فرمایا کہ یہ کانفرنس مرکز کے آفیشیل یوٹیوب چینل اور فیس بک پیج تحفظ اسلام میڈیا سروس پر روزانہ رات 9:30 بجے سے براہ راست نشر ہوگا۔ جس سے ملک کے مختلف اکابر علماء کرام خطاب فرمائیں گے۔ انہوں نے فرمایا کہ کانفرنس کے علاوہ ان شا اللہ کچھ اہم مضامین اور لٹریچر بھی مرکز کی جانب سے شائع کیا جائے گا۔ تاکہ اکابرین کے رہبری و رہنمائی سے امت مسلمہ اس فتنہ ارتداد کے خلاف متحد ہوکر میدان عمل میں کام کرے اور امت مسلمہ کی نسل نو کے ایمان و اسلام کی حفاظت کرے۔ مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے برادران اسلام گزارش کی کہ وہ اس اہم پروگرام میں کثیر تعداد میں شرکت فرمائیں کیونکہ ان حالات میں ہمیں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے آگے آنے کی ضرورت ہے۔

Saturday, 31 July 2021

عصبیت کا فتنہ اور امت مسلمہ!



 عصبیت کا فتنہ اور امت مسلمہ!


✍️ بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


 میں اپنی تحریر کا آغاز اس دعا کے ساتھ کررہا ہوں کہ اس کائنات کا ایک بڑا فتنہ بلکہ فتنوں کی ماں اور زمانے میں سب سے زیادہ خطرناک اور تیزی سے پھیل کر خوشگوار فضا کو زہر آلود کرنے والی شئ عصبیت اور تعصب کے ان تنگ و تاریک گلیوں کی بھول بھلیوں میں بھٹکے فرزندانِ توحید کی ایک بڑی تعداد راہ راست پر آجائے۔ اس موضوع پر کئی دنوں سے کچھ لکھنے کی کوششیں کی لیکن قلب و دماغ مجتمع نہیں ہوئے۔آج جب کچھ ہمت ہورہی ہے تو یکطرف قلم کچھ لرزش محسوس کررہا ہے تو دوسری طرف انگلیاں بھی ساتھ چھوڑنے کی کوشش کررہی ہیں۔ تعصب کے اس عنوان پر لکھتے ہوئے قلم کی لرزش اور قلب و دماغ کی گھبراہٹ بے معنی نہیں۔ کیونکہ تعصب کے اس زہر نے ہر طبقے کو زہر آلود کردیا ہے، دنیا کے بڑے بڑے مفکرین، دانشوران، سیاستدان اور عوام الناس کے ساتھ ساتھ بعض شرع کے پابند سفید پوش طبقے کے افراد بھی اس تعصب کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ جسکی وجہ سے آج اسلامی اخوت اور بھائی چارگی تہس نہس ہوگئی ہے۔ قلب مضطر کو بے کلی سے اطمینان کرتے ہوئے اس عنوان پر لکھنے کی ضرورت اسلئے محسوس ہوئی کہ اسی تعصب کی وجہ سے لاکھوں لوگوں نے اپنی پیر پر کلہاڑی مارلی تو ہزاروں معزز حضرات جن عہدوں کے لائق تھے ان سے وہ محروم ہوگئے اور ہزاروں افراد جن عہدوں پر فائز تھے ان سے انہیں دستبردار ہونا پڑا۔ شدت و انتہا پسندی، نفرت، تفرقہ اور غرور کے اس چشمہ تعصب اور عصبیت سے اللہ تعالیٰ پوری امت مسلمہ کی حفاظت فرمائے۔آمین


 انسان کو اللہ تعالیٰ نے بہت سے مثبت اور منفی جذبات اور احساسات سے نواز رکھا ہے۔ یہی جذبات و احساسات اس کی انفرادیت بھی ہیں اور انہی میں سے بعض کے ہاتھوں اس کی ہلاکت بھی ہوتی ہے۔ ان دونوں کا اثر براہ راست معاشرہ پر بھی پڑتا ہے۔ آپسی محبت و الفت سے معاشرے مثالی بنتے ہیں، قومیں ترقی کرتی ہیں اور باہمی اخوت وبھائی چارگی کو فروغ ملتا ہے۔ انتشار، نفرت انگیزی، تکبر وغرور، انانیت، قومیت، علاقائیت، لسانیت، تفرقہ بازی ایسی چیزیں ہیں جن سے معاشرہ اس طرح بکھر جاتا ہے جس طرح ٹوٹے ہوئے دھاگے سے موتی، قوموں کا شیرازہ بکھر جاتا ہے، افراد ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوجاتے ہیں، رشتہ دار، عزیز واقارب، گھر وخاندان اور قوم وقبیلوں کے درمیان نفرت ودشمنی جنم لینے لگتی ہے۔ اگر آج ہم اپنے گردوپیش کا جائزہ لیں، معاشرے پر نظر دوڑائیں تو جس چیز سے ہمارا معاشرہ رو بہ زوال ہے اور اپنا منفرد تشخص کھو رہا ہے وہ ”عصبیت اور تعصب“ہے۔ جذبۂ محبت کی طرح انسانی شخصیت کے اندر نفرت اور تعصب کا جذبہ بھی بہت گہرا ہوتا ہے۔ یہ دراصل انسانی کمزوریوں کے شخصی عیوب و نقائص کے اظہار کی علامت ہوتا ہے۔ یوں کہہ لیجئے کہ محبت و الفت انسان کے اندر رحمانی صفات پیدا کرتی ہے اور نفرت، عداوت اور تعصب انسان کو شیطانی دائروں میں مقید رکھ کر معاشرے میں بدامنی اور بے چینی کی راہ ہموار کرتی ہے۔


 اس روئے زمین پر بے شمار فتنوں نے جنم لیا لیکن ان تمام فتنوں میں ”عصبیت اور تعصب“ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، بعض مؤرخین نے تو عصبیت کو فتنوں کی ماں سے تعبیر کیا ہے۔ کیونکہ تعصب خطرناک سماجی امراض ہے۔ یہ انسانیت کو کھوکھلا کردیتا ہے۔ تعصب افراد، اقوام اور معاشروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ یہ ایسی آفت ہے جب بڑھتی اور پھیلتی ہے تو انسانوں کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیتی ہے۔ تعصب کی ہوا چلتی ہے تو تعلیم یافتہ غیر تعلیم یافتہ، مہذب، غیر مہذب، دیندار اور غیر دیندار بلکہ اہل علم شرع کا پابند سفید پوش طبقہ سمیت ہر ایک کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ یہ غرور کا سرچشمہ ہے۔ یہ نفرت اور بدعنوانی کا بہت بڑا سبب ہے۔ تعصب کے باعث انسان افراد سے تعلق میں شدت پسند ہوجاتا ہے۔ افکار کے حوالے سے انحراف کی روش اپنا لیتا ہے۔ تعصب کا مارا انسان روا داری، افہام و تفہیم اور مختلف فکر قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ تعصب شدت پسندی اور انتہا پسندی کا وہ کیڑا ہے جو نفرت، تفرقہ، گمراہی، بغض کو بڑھاوا دیتا ہے۔ تعصب اور عصبیت حق و انصاف اور اصول پسندی کا حقیقی دشمن ہے۔ اسکے چلتے ہمیں کسی کی ترقی، کامیابی اور عزت دیکھی نہیں جاتی۔ تعصب خواہ کسی بھی نوعیت کا ہو، امت کے شیرازہ کو منتشر کردیتا، ان میں پھوٹ اور تفرقہ ڈال دیتا، ان میں بغض وعداوت اور نفرت وکراہیت اور حسد وعناد کا زہر گھول دیتا ہے، جس کے بعد انسان اندھا ہوجاتا ہے، پھر انہیں باہم قتل وقتال اور لڑائی جھگڑے کرنے در پے آزار ہونے اور کسی بھی حال میں دوسرے کو زیر کرنے کی جدوجہد کرتے رہنے میں کوئی تأمل نہیں ہوتا۔ اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہیکہ تاریخ انسانی کا سب سے پہلا قتل بھی اسی عصبیت اور عداوت کی وجہ سے ہوا تھا۔ جب سیدنا آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں قابیل اور ہابیل دونوں نے قربانی کی تو ہابیل کی قربانی کو شرف قبولیت مل گیا اور قابیل کی قربانی رد ہوگئی تو اس نے ہابیل کو قتل کردیا۔ شیطان نے وہیں سے انسانوں کے ہاتھوں انسانوں کے قتل کا سلسلہ شروع کردیا اور اس قتل کا سبب بھی عصبیت اور حسد ہی تھا۔ تعصبات کے نقصانات سے تاریخ کے ہزاروں صفحات سیاہ ہیں۔ انبیائے کرام علیہم السلام اور مصلحین کو بندوں کی اصلاح اور ہدایت کی راہ میں غیر معمولی تعصبات کا سامنا کرنا پڑا۔ تعصبات کے باعث خونریزیاں، حقوق کا ضیاع اور ظلم و ستم کا رواج قائم ہوا۔


 آج امت مسلمہ کا ایک بہت بڑا طبقہ قوم پرستی اور عصبیت و تعصب کی دلدل میں پھنستا جارہا ہے، یہ وہ جہالت ہے جس میں مشرکین مکہ ہی نہیں پورا جزیرۃ العرب مبتلا تھا اور چھوٹی چھوٹی سی بات پر ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ پر حملہ آور ہوجاتا تھا اور یہ لڑائی کئی کئی دن تک ہوتی رہتی، قتل و غارت کی انتہائی ہوتی اور سینکڑوں لوگ اس تعصب اور عصبیت کے چلتے قتل کردیئے جاتے۔ مگر جب رسول اللہﷺ کی بعثت کے بعد اس روئے زمین پر اسلام کی کرنیں پڑنی شروع ہوئیں تو سب سے پہلے اس نے جاہلیت کی عصبیت وتنگ نظری کے خاتمہ پر توجہ دی اور اس کا خاتمہ کیا اور اس کی جگہ دینی ومذہبی اخوت وبھائی چارگی کو پروان چڑھایا، اسلامی اخوت و مودت کو ہی اس نے ایک مرکز پر مجتمع ہونے اور انسانی رابطے کا محور بننے کا ذریعہ قرار دیا۔ اس طرح انسداد عصبیت اسلام کی اولین دعوت ہے۔ عہد نبوی میں پہلی مرتبہ حضورﷺ نے مواخات یعنی اسلامی اخوت و بھائی چارگی کا رشتہ مکہ مکرمہ میں ان لوگوں کے درمیان کرائی جو اسلام قبول کر چکے تھے، ان میں زیادہ تر لوگ مکہ مکرمہ ہی کے رہنے والے تھے لیکن کچھ ایسے حضرات بھی تھے جو حبشہ، فارس اور دیگر دور دراز علاقوں سے تعلق رکھتے تھے۔ پھر ہجرت مدینہ کے بعد بھی آپ ؐ نے مہاجرین اور انصار کے درمیان مواخات قائم فرمادیا۔ اس کے علاوہ اللہ کے رسول ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر نہایت جامع ومفصل خطبہ دیا تھا، اس خطبے میں آپ ؐ نے عصبیت کو ختم کرنے کی دعوت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”اے لوگو آگاہ رہنا، تمہارا پروردگار ایک ہے، تمہارا باپ ایک ہے، کسی عربی کو عجمی پر، اور کسی عجمی کو عربی پر اور کسی کالے کو گورے پر اور کسی گورے کو کالے پر کوئی فضیلت وفوقیت حاصل نہیں، البتہ یہ فوقیت وبرتری حاصل ہوتی ہے تقویٰ سے، اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا تمہارا پرہیزگار ہے، کیا میں نے پیغام الٰہی پہنچا دیا؟ صحابہؓ نے عرض کیا بے شک اللہ کے رسولؐ آپ نے پہنچا دیا، تو آپ ؐ نے فرمایا: موجود لوگ میرا پیغام ان تک پہنچا دیں جو اس وقت موجود نہیں ہیں۔“ (مسند احمد)۔ معلوم ہوا کہ اسلام میں بڑوں چھوٹوں، غریبوں ومالداروں، عرب وعجم، کالے گورے، قریب وبعید، رشتہ دار و اجنبی علاقائی وبیرونی کی تفریق نہیں اور نہ ہی طبقاتی امتیاز ہے۔ اسلام ایک ایسا جامع و مکمل، یکتا ومنفرد دین ہے جس نے اپنے تابع ہونے والوں کی مکمل راہنمائی کی ہے، پیدائش سے لے کر موت تک قدم قدم پر بہترین راہنما اصول بتلائے ہیں، اسی نسبت سے اسلام نے عصبیت کے متعلق ایسے واضح اور قیمتی اصول بیان فرمائے جس سے تعصب اور عصبیت پسندی کی دیواریں ہل گئیں، ان کا وجود لزرنے لگا، اسلام نے انسانیت کو حیوانیت، درندگی، ظلم واستبداد، جبر ومشقت، تعصب وعصبیت سے نکال کر ایسا صالح اور مثالی معاشرہ، جینے کا منظم نظام عطا کیا جس کی بدولت ہم دنیا و آخرت میں سرخرو ہوسکتے ہیں۔لیکن افسوس کہ ہم نے اسلامی تعلیمات سے روگردانی، احکامات کی نافرمانی اور اسوۂ رسولؐ سے بغاوت کی، اور تعصب اور عصبیت کا وہ راستہ اختیار کیا جو ہمیں تباہی کی طرف لے گیا، اسی لیے آج ہم دنیا میں ذلت وعبرت کا نشانہ ٹھہرے اور ٹھہرتے جارہے ہیں۔


اس پر فتن دور میں علاقائی اور لسانی تعصب اور عصبیت اپنے عروج پر ہے۔ اس فتنہ نے ملت اسلامیہ کا امن و امان غارت کر رکھا ہے، رشتوں کی اہمیت کو نیست و نابود کردیا ہے، اتحاد اتفاق اور پیار و محبت کے ساتھ رہنے والے اسلامی بھائیوں میں نفرت و عداوت کی بنیج بو دی ہے۔ جبکہ اسلامی احکام کے مطابق خاندان، قبیلوں، برادریوں، ذاتوں، علاقوں، صوبوں اور شہروں کی تقسیم اور ان کی بناء پر انسانوں کی تقسیم فقط شناخت اور پہچان کیلئے ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہیکہ ”اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت (آدم و حوا) سے پیدا کیا اور تم کو مختلف قومیں اور مختلف خاندان بنایا (محض اس لئے) تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو، اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سب سے بڑا شریف وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو بلاشبہ اللہ تعالیٰ خوب جاننے والا اور پوری خبر رکھنے والا ہے۔“(الحجرات :13)۔ اس آیت کریمہ کے ذریعے قرآن نے رسومِ جاہلیت اور تمام طرح کی عصبیت کی بیخ کنی کی ہے چاہے وہ قومیت پرستی، قبیلہ پرستی، ذات وبرادری کی عصبیت، لسانیت وطنیت پرستی ہو، اسلام نے یکسر اس کی مخالفت کی ہے اور صالح معاشرے کے لیے بہترین اصول ارشاد فرمائے ہیں۔بہرحال یہ بات واضح ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک خاندان، برادری اور وطنی ولسانی تقسیم کا مقصد یہ ہیکہ اس کے ذریعہ لوگ ایک دوسرے کی شناخت کرسکیں ایک دوسرے سے تعارف ہوسکے کہ یہ شخص فلاں ملک میں سے فلاں صوبہ کے فلاں شہر کے فلاں قبیلہ اور برادری کے فلاں خاندان سے ہے لیکن افسوس کہ اب یہ تقسیم تعصب کے لیے استعمال ہونے لگی ہے۔ اور اسی تعصب اور عصبیت پسندی سے دنیا میں ایک فساد برپا ہے، عصبیت ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹنے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے، اسی عصبیت نے اسلامی اخوت وبھائی چارگی کو تہس نہس کر ڈالا ہے، عصبیت پسندی کی وجہ سے ہم اسلامی اخوت کے اس عظیم نعرے کو بھی پسِ پشت ڈال چکے ہیں، اس یکتا درس کو بھلا بیٹھے جس میں آقائے نامدارحضرت محمد رسولﷺ نے ارشاد فرمایا”مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے، نہ اس کی تحقیر و تذلیل کرتا ہے“ (مشکوٰۃ)۔


 عصبیت کی نحوست سے معاشرہ متعفن ہو رہا ہے لیکن اس سماجی اور اخلاقی بیماری کے علاج کی فکر بہت کم لوگوں کو ہے اور حد یہ ہے کہ اس مرض میں مبتلا لوگ اپنے کو بیمار نہیں بلکہ صحت مند سمجھتے ہیں۔ اپنی غلطی کو تسلیم نہ کرتے ہوئے دوسروں پر ناحق ظلم و زیادتی کرتے ہیں۔ اور اگر انکی حقیقت آشکار ہوجائے تو فیصلہ کو سر تسلیم کرنے کے بجائے اپنے باطل مقاصد کے حصول کیلئے تعصب و عصبیت کے زہر کے پیالے کو آب حیات سمجھ کر پیتے ہیں۔ لیکن یہ بات تو طے ہے کہ جس نے بھی اس زہر کو پیا وہ تعصب کے ان تنگ و تاریک گلیوں کی بھول بھلیوں میں اس طرح بھٹک گیا کہ پھر اسے واپسی کا راستہ نہیں ملا۔ ایسے لوگ جو عصبیت پر مبنی رویہ اختیار کرتے ہیں اور جاہلیت کا نعرہ لگاتے ہیں، اسلام انہیں دل کا گندہ اور معنوی نجاست میں مبتلا قرار دیتا ہے۔ مذہب اسلام عصبیت کو کس قدر ناپسند کرتا ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ حضور اکرمﷺ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا کہ ”جس نے عصبیت کی دعوت دی وہ ہم میں سے نہیں ہے اور جس نے عصبیت پر قتل کیا اور جو عصبیت پر مرا وہ ہم میں سے نہیں ہے“ (مشکوۃ: 418)۔ اگر یوں کہا جائے کہ تعصب ناسور سے بھی بدتر ہے تو کوئی مبالغہ نہیں ہوگا کیونکہ ناسور جیسے امراض تو دنیوی زندگی کو تباہ وبرباد کرتے ہیں بلکہ ان امراض میں مبتلا انسانوں کو ایمان والوں کو اخروی ثواب سے نوازا جائے گا اور تعصب وعصبیت سے دنیا بھی برباد اور آخرت بھی، دنیا میں بھی رسوائی اور آخرت میں بھی۔ بد قسمت ہیں وہ لوگ، اور کتاب و سنت کی روشنی اور خوشبو سے دور ہیں وہ افراد جو عصبیت کے چوبچے میں غوطہ لگاتے ہیں، اور قومیت، علاقائیت، لسانیت اور ذات و برادری کا گھناؤنا کھیل کھیلتے ہیں، اور اس طرح دنیا کے سامنے اسلام کے خوبصورت چہرہ کو داغدار کرتے ہیں۔


 مذہب اسلام آفاقی و عالمگیر نظریہ و فکر کا حامل ہے، وہ کبھی بھی کسی تنگ نظری، تنگ خیالی قومیت، علاقیت، وطنیت اور فرقہ پرستی سے مصالحت کا روا دار نہیں ہوسکتا۔ لیکن افسوس کہ جس مذہب کی تعلیمات اس قدر وسیع و ہمہ گیر، شاف و شفاف اور جس کے اندر تعصب، عصبیت، تنگ نظری اور تنگ خیالی کی ذرا بھی گنجائش نہیں، اور جو مذہب جاہلی عصبیت (قومیت، لسانیت، طنیت و علاقیت) کو مٹانے کے لیے آیا، جس امت کو یہ پیغام دیا گیا کہ عجم و عرب کی بنیاد پر گورے اور کالے کی بنیاد پر کسی کو کسی پر فضیلت و فوقیت اور برتری حاصل نہیں، جس امت کے آخری نبی ؐنے عصبیت کو جاہلانہ عمل قرار دیا، اس کو اپنے ہاوں کے خاک کے نیچے دبا دیا اور یہ فرمایا کہ جو عصبیت اور قومیت وطنیت کی طرف بلاوے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں، اس امت کی اکثریت میں یہ جاہلی برائی کثرت سے پنپ رہی ہے، عوام تو عوام مہذب و مثقف اور تعلیم یافتہ لوگوں بلکہ سفید پوش طبقے میں بھی یہ برائی کچھ زیادہ ہی پائی جارہی ہے۔ جو بہت ہی افسوس کی بات ہے۔ جبکہ اگر مسلمانوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو اندازہ ہوگا کہ مسلمان جہاں کہیں بھی کمزور ہوئے، جہاں کہیں بھی ان کی حالت دگرگوں ہوئی، جہاں کہیں بھی وہ پستی کے دلدل میں پھنسے اور جہاں کہیں بھی ان کے ملک کے ٹکڑے کئے گئے اور ان کے حصے بخرے ادھیڑے گئے جس کے بعد وہ ہمیشہ کیلئے مغلوب ومحکوم بن گئے، اس کی بنیادی وجہ یہی عصبیت تھی، عربوں کو جب خانوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا، خلافت عثمانیہ کے خلاف علم بغاوت بلند کی گئی تو اس سے پہلے ان عربوں اور دوسری مسلم وغیر مسلم قوموں میں اسی عصبیت کو ہوا دی گئی، اسے پروان چڑھایا گیا اور قومیت کے نعرے کا طوفان برپا کرکے اسلام کی عمارت کو کھوکھلا کیا گیا اور آج بھی یہی ہورہا ہے۔ اتنا سب کچھ ہماری نگاہوں کے سامنے ہوا اور ہورہا ہے اسکے باوجود ہم صوبائیت، علاقائیت و لسانیات کی لڑائی لڑنے میں اپنا وقت اور صلاحیت ضائع کررہے ہیں، ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے اور مشرق ومغرب، شمال وجنوب کی باتیں کرتے گھوم رہے ہیں۔ جبکہ اسلام کا اس برق رفتاری سے ساری دنیا میں پھیلنا اسی لئے ممکن ہوسکا کہ اس نے رنگ ونسل اور ہر طرح کی عصبیت وامتیاز کا پہلے خاتمہ کیا اور اتحاد و اتفاق سے اسلام کو پوری دنیا میں پھیلا کر ایک مثالی تاریخ رقم کی، لیکن افسوس کہ آج اسی اتحاد و اتفاق کو بعض ناداں لوگ علاقائی، لسانی اور رنگ ونسل کی عصبیت کی بھینٹ چڑھا رہے ہیں،جسکا کا خمیازہ پوری ملت اسلامیہ کو بھگتنا پڑے گا۔


 اب بھی وقت ہے کہ ہم زمانہ جاہلیت کی عصبیت کی بیماری سے پیچھا چڑھائیں، اپنے دلوں میں اخوت ایمانی کو پروان چڑھائیں اور اسلام کے کلمہ پر متحد ویکجا ہوں کہ عزت و رفعت کی بحالی اس کے بغیر ممکن نہیں، آخر کب تک ہم بغض وعنات، کینہ وکدورت، حسد و نفرت کے دلدل میں پھنسے رہیں گے، کب تک عہد جاہلیت کی تاریکی میں بھٹکتے رہیں گے۔ اس وقت سب سے زیادہ تیزی سے پھیل کر ایک منظم معاشرے کو تباہی کی راہ پر لے جانی والا یہی تعصب اور عصبیت ہے، چپراسی سے لے کر اعلیٰ عہدے داروں تک کے لوگ اس عصبیت کے موذی مرض میں مبتلا ہیں۔ آج وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ہر قسم کے تعصب اور عصبیت بالخصوص قومیت، علاقائیت، لسانیت اور ذات و برادری کے گھناؤنے کھیل سے اپنے آپ کو بچاتے ہوئے اپنے ذہنوں کو پاک کریں اور اسلام کے پیغام حق وانصاف اور مساوات کو عملی جامہ پہنائیں تاکہ دنیا پھر اسلام کے دامن میں پناہ لینے کو اپنی خوش قسمتی سمجھے۔ اگر ہم دین و اسلام کی سربلندی چاہتے ہیں تو ہمیں تعصب و عصبیت کو اپنے ذہن و دماغ سے نکال کر اسلامی اخوت وبھائی چارگی کو فروغ دینا ہی ہوگا ورنہ ہم خود اپنے گھر کو آگ لگانے والوں کے مانند ہونگے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں ہرطرح کے تعصب و عصبیت سے اور اس کے بھیانک نتائج سے محفوظ فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو

تم سبھی کچھ ہو بتاؤ مسلمان بھی ہو


فقط و السلام

بندہ محمد فرقان عفی عنہ*

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

 ٢٠؍ ذی الحجہ ١٤٤٢ھ

31؍ جولائی 2021ء بروز سنیچر


+91 8495087865

mdfurqan7865@gmail.com


____________

*ابن مولانا محمد ریاض الدین مظاہری

متعلم جامعہ ابو ہریرہ ؓ اکیڈمی

بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند

سوشل میڈیا انچارج جمعیۃ علماء کرناٹک

صدر مجلس احرار اسلام بنگلور

رکن عاملہ جمعیۃ علماء بنگلور


#پیغام_فرقان

#PaighameFurqan #Article #Mazmoon #Asbiyat #Tassub #Nafrat

Friday, 30 July 2021

امیر شریعت کرناٹک سے مرکز تحفظ اسلام ہند کے وفد کی ایک یاد گار ملاقات!












 امیر شریعت کرناٹک سے مرکز تحفظ اسلام ہند کے وفد کی ایک یاد گار ملاقات!


آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے آسان اور مسنون نکاح مہم کے سلسلے میں بتاریخ 14 مارچ 2021ء بروز اتوار امیر شریعت کرناٹک حضرت مولانا صغیر احمد صاحب رشادی دامت برکاتہم (مہتمم و شیخ الحدیث دارالعلوم سبیل الرشاد، بنگلور) سے مرکز تحفظ اسلام ہند کے وفد کی ایک یادگار ملاقات، جس میں مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان، آرگنائزر حافظ محمد حیات خان، اراکین شوریٰ مولانا محمد طاہر قاسمی، مولانا محمد نظام الدین مظاہری، اراکین عمیر الدین، شبیر احمد، محمد توصیف وغیرہ خصوصی طور پر موجود تھے!


Ameer-e-Shariat Karnataka Se Markaz Tahaffuz-e-Islam Hind Ke Wafad Ki Ek Yaadgaar Mulaqaat!


All India Muslim Personal Law Board Ke Asaan Aur Masnoon Nikah Muhim Ke Silsila Main 14 March 2021, Sunday Ko Ameer-e-Shariat Karnataka Hazrat Moulana Sageer Ahmed Saheb Rashadi DB (Mohtamim & Sheikul Hadees Darul Uloom Sabeelur Rashad, B'lore) Se Markaz Tahaffuz-e-Islam Hind Ke Wafad Ki Ek Yadgaar Mulaqaat, Jismain Markaz Tahaffuz-e-Islam Hind Ke Founder & Director Mohammed Furqan, Organizer Hafiz Mohammed Hayath Khan, Members Moulana Mohammed Tahir Qasmi, Moulana Mohammed Nizam Uddin Mazahiri, Umairuddin, Shabbir Ahmed, Syed Tausif Wagaira Khaas Toor Per Maujood Thai.


#MarkazHighlights #Highlights #MTIHHighlights #MTIH #TIMS #AIMPLB

Thursday, 29 July 2021

جمعیۃ علماء کرناٹک کے اراکین کی مشاورتی اجلاس میں اہم فیصلے!



 جمعیۃ علماء کرناٹک کے اراکین کی مشاورتی اجلاس میں اہم فیصلے!

سیلاب زدگان کی راحت رسانی، جمعیۃ کی ممبر سازی مہم، شعبہ نشر و اشاعت و دیگر کئی اہم امور پر تبادلہ خیال!


 بنگلور، 29؍ جولائی (پریس ریلیز): شریعت اسلامیہ میں خدمت خلق کو بڑی اہمیت دی گئی ہے، روئے زمین پر بسنے والے ہر جاندار سے ہمدردی کرنا، گاہے بگائے انکا خیال رکھنا اور حتیٰ الامکان انکی مدد کرنا مسلمانوں کا مذہبی اور اخلاقی فریضہ ہے۔ اور دور حاضر میں مسلمانانِ ہند کی سب سے بڑی اور قدیم مذہبی تنظیم جمعیۃ علماء ہند کے ذمہ داران اور کارکنان حقیقی معنوں میں ان اوصاف کا نمونہ ہیں۔ ملک میں جہاں کہیں بھی کوئی پریشانی یا آفت پیش آتی ہے تو وہاں جمعیۃ علماء ہند کے خدام سب سے پہلے نظر آتے ہیں۔بالخصوص مظلوموں اور بے کسوں کی مدد اور سیلاب و آفات میں اجڑے لوگوں کی بازآبادکاری، بے قصور قیدیوں کی رہائی سمیت دیگر ہر محاذ پر جمعیۃ علماء ہند نے خدمت خلق کی ایسی عظیم تاریخ رقم کی ہے جو آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ ابھی مہاراشٹر کے ساحلی علاقے بالخصوص کوکن، رائیگڑھ، رتناگیری، وغیرہ بھیانک سیلاب کی وجہ سے شدید متاثر ہیں، بارش کی کثرت اور اس کے بعد سیلاب کی تباہی کے جو مناظر اور انسانی زندگی کے جو کربناک حالات ہیں وہ دردمند دل رکھنے والے انسان کے رونگٹے کھڑے کردینے والے ہیں۔ ان علاقوں میں جمعیۃ علماء ہند کے قومی صدر امیر الہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب مدظلہ کی ہدایت پر جمعیۃ علماء مہاراشٹر کی جانب سے ریلیف کا کام شروع کیا جاچکا ہے۔ اسی کے پیش نظر کل اراکین جمعیۃ علماء کرناٹک اور اراکین جمعیۃ علماء بنگلور کا مشترکہ ایک اہم مشاورتی اجلاس جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر مولانا عبد الرحیم رشیدی کی زیر صدارت اور جنرل سکریٹری محب اللہ خان امین کی زیر نگرانی مسجد حسنیٰ، شانتی نگر، بنگلور میں منعقد ہوا۔ اور باتفاق رائے یہ طے پایا کہ جمعیۃ علماء کرناٹک اور اسکے تمام اضلاع مہاراشٹر کے اس قیامت خیز سیلاب کے متاثرین کے ساتھ برابر کھڑی ہے اور حتیٰ المقدور سیلاب متاثرین کی راحت رسانی کیلئے بلاتفریق مذہب وملت ریلیف کا کام کرے گی۔ اس اہم مشاورتی اجلاس میں دیگر امور پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے اراکین جمعیۃ علماء کرناٹک نے یہ فیصلہ لیا کہ جمعیۃ علماء ہند کا دو سالہ ٹرم مکمل ہوگیا ہے، اب نئے ٹرم کے لئے مبر سازی مہم شروع ہوچکی ہے، اس مہم میں ہمیں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی ضرورت ہے۔ اس مہم میں سارے مسلمان مرد اور عورت بھر پور حصہ لیں، خود بھی ممبر بنیں، دوست و احباب اور متعلقین کو بھی ممبر بنائیں۔ جمعیۃ علماء ہند کے دستور اساسی کے مطابق ہر بالغ مسلمان (مرد و عورت) جمعیۃ علماء ہند کا ممبر بننے کا مجاز ہے، اس کے لئے بیداری مہم چلائی جائے۔ اس کے علاوہ اس مشاورتی اجلاس میں سوشل میڈیا کی بڑھتی اہمیت و افادیت کے پیش نظر اراکین جمعیۃ علماء کرناٹک نے شعبہ نشر و اشاعت کے تحت جمعیۃ علماء کرناٹک کا سوشل میڈیا پیلٹ فارم قائم کرنے کا فیصلہ کیا اور جمعیۃ علماء کرناٹک کے رکن عاملہ حافظ یل محمد فاروق اور جمعیۃ علماء ساؤتھ بنگلور کے رکن عاملہ محمد فرقان کو اسکی ذمہ داری سونپی۔ اسکے علاوہ اجلاس میں یہ بات قابل ذکر رہی کہ جمعیۃ علماء ہند کی سو سالہ سنہری تاریخ ہے جس نے اپنے قیام کے روز اول سے ملک و ملت کے لئے قربانیاں دی ہیں، اور دور حاضر میں اس کی خدمات اور قربانیاں ناقابل فراموش ہیں۔لہٰذا ائمہ مساجد اور علماء کرام سے خطبات جمعہ اور اصلاحی پروگراموں میں ملک و ملت کے لئے جمعیۃ علماء ہند کی خدمات اور اس کے اکابر علماء کرام کی قربانیوں کو عوام میں بیان کرنے کی طرف متوجہ کرنے کیلئے آنے والے دنوں میں علماء اور ائمہ مساجد کی مختلف نشستیں جمعیۃ علماء کرناٹک منعقد کرگی۔ اس کے علاوہ متعدد اراکین نے بھی اپنی قیمتی آراء پیش کیں اور مفید مشورے دیئے۔ قابل ذکر ہیکہ اس اہم مشاورتی اجلاس میں جمعیۃ کرناٹک کے صدر مولانا عبد الرحیم رشیدی، نائب صدر مولانا شمیم سالک مظاہری، جنرل سکریٹری محب اللہ خان امین، رکن عاملہ حافظ یل محمد فاروق، جمعیۃ علماء بنگلور کے صدر مولانا محمد صلاح الدین قاسمی، نائب صدر حافظ محمد آصف، رکن عاملہ مولانا آدم علی قاسمی، جمعیۃ علماء ساؤتھ بنگلور حلقہ عیدگاہ بلال کے صدر مولانا محمد اقبال، جنرل سکریٹری محمد فاضل، جمعیۃ علماء ویسٹ بنگلور کے صدر مولانا عتیق الرحمن، جنرل سکریٹری سید امین، جمعیۃ علماء نارتھ بنگلور کے رکن عاملہ اعجاز سادات، سید غوث پرویز، محمد سلیم، جمعیۃ علماء ساؤتھ بنگلور حلقہ بنشنکری کے رکن عاملہ محمد فرقان، محمد عمران وغیرہ خصوصی طور پر شریک تھے۔ اجلاس کا آغاز قاری محمد اقبال کی تلاوت سے ہوا، جس کے بعد جمعیۃ علماء کرناٹک کے جنرل سکریٹری محب اللہ خان امین نے میٹنگ کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی۔ مغرب بعد سے جاری یہ اہم مشاورتی اجلاس دیر رات جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر مولانا عبد الرحیم رشیدی کی دعا سے اختتام پذیر ہوا۔