Monday, 8 August 2022

Markaz Tahaffuz-e-Islam Hind strongly condemns the barbaric attack of Zionist regime of Israel against the people of Gaza.

 Markaz Tahaffuz-e-Islam Hind strongly condemns the barbaric attack of Zionist regime of Israel against the people of Gaza.



The blood of Palestinian people will never go in vein, we stand with the people of Palestine, Gaza and Ghazis Of AlQuds.


We also appeal the world power especially Islamic Nations to break their silence and act against this Israeli atrocities & devastating violence and stand with Gaza.


Remember situations don't last forever. Al-Quds will be free soon. Inshallah!


#GazaUnderAttack #AlQuds


https://twitter.com/tahaffuze_islam/status/1556557387338694656?t=aSqlo1Aa-12eXRJb_j-Y-g&s=19

मर्कज़ तहफ्फुज-ए-इस्लाम हिंद, गाज़ा कि अवाम पर इजराइल के वहशियाना हमले की शदीद मज़म्मत करती है!



मर्कज़ तहफ्फुज-ए-इस्लाम हिंद, गाज़ा कि अवाम पर इजराइल के वहशियाना हमले की शदीद मज़म्मत करती है!


फिलिस्तीनी अवाम का खून कभी रायेगा नहीं जाएगा, हम फिलिस्तीन व गाज़ा की अवाम और अल-कुदस के गाज़ीयों के साथ खड़े हैं।


हम आलमी ताकतें खास कर इस्लामी देशों से भी अपील करते हैं कि वह अपनी खामोशी तोड़े और इसराइल के जुल्म व बरबरीयत और इस तबाहकुन तशद्दुद के खिलाफ कार्रवाई करें और गाज़ा के साथ खड़े हों।


याद रखें हालात हमेशा एक जैसे नहीं रहते, अल-कुदस अंकरीब आज़ाद होगा, इंशा-अल्लाह!


#GazaUnderAttack #AlQuds


https://twitter.com/tahaffuze_islam/status/1556562178278170625?t=07zMqrJJSN5UIn9Rdr_C-w&s=19

”سیرت شہید کربلا، نواسۂ رسول حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ“

 ”سیرت شہید کربلا، نواسۂ رسول حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ“



(10؍ محرم الحرام یوم شہادت)


از قلم: بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


نواسۂ رسول، جگر گوشۂ بتول حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی ولادتِ باسعادت 5؍ شعبان المعظم سن 4 ھ مدینہ منورہ میں ہجرت کے چوتھے سال قبیلہ بنو ہاشم میں حضرت سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے گھر ہوئی۔ آپ امام الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چھوٹے نواسے، شیر خدا حضرت سیدنا علی المرتضیؓ و خاتون جنت حضرت سیدہ فاطمہ الزہرا ؓ کے چھوٹے بیٹے اور حضرت سیدنا حسنؓ کے چھوٹے بھائی ہیں۔ آپ ؓکی ولادت کی خوشخبری سنکر جناب محمد رسول اللہﷺ تشریف لائے، آپ کو گود میں لیا، داہنے کان میں اذان اور بائیں میں اقامت کہی اور اپنا لعاب مبارک آپ کے منہ میں داخل فرمایا اور دعائیں دیں اور ”حسین“ نام رکھا۔ پیدائش کے ساتویں دن عقیقہ کیا گیا اور سر کے بالوں کے برابر چاندی خیرات کی گئی۔ آپؓ کی کنیت ”ابو عبداللہ“ہے۔ آپؓ کے بارے میں رسول اللہ نے فرمایا کہ”حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے، جو حسین سے محبت کرے اللہ اس سے محبت کریگا۔ حسین میری اولاد میں بڑی شان والا ہے۔“ (صحیح ابن حبان)

 

حضرت حسین ؓ نے اپنے نانا حضور اکرمؐ سے بے پناہ شفقت و محبت کو سمیٹا اور سیدنا حضرت علی المرتضی ؓاور سیدہ فاطمۃ الزہراؓ کی آغوش محبت میں تربیت و پرورش پائی۔ جس کی وجہ سے آپؓ فضل و کمال، زہد و تقویٰ، شجاعت و بہادری، سخاوت، رحم دلی، اعلیٰ اخلاق اور دیگر محاسن و خوبیوں کے بلند درجہ پر فائز تھے۔ آپ کے والد ماجد امیر المومنین سیدنا حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ سیدنا حضرت حسن ؓسینہ سے لے کر سر مبارک تک رسول اللہؐ کے مشابہ تھے اور سیدنا حضرت حسین ؓ قدموں سے لے کر سینہ تک رسول اللہؐ کے مشابہ تھے اور آپؐ کے حسن و جمال کی عکاسی کرتے تھے۔ اس مشابہت ِرسول اللہ ؐکااثر فقط جسم کے ظاہری اعضاء تک ہی محدود نہ تھابلکہ روحانی طور پر بھی اس کے گہرے اثرات تھے۔ آپ ؓنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ وعمدہ اوصاف کا کامل مظہر تھے۔ آپؓ کے مقام کا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ ”حسن اور حسین جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں۔“ (ترمذی)


جناب محمد رسول اللہ کو اپنے لاڈلے حسین سے بے پناہ محبت تھی۔ آپ حضرت حسینؓ کو گود میں اٹھاتے، سینہ مبارک سے لگاتے، کاندھے مبارک پر اٹھاتے، کمر مبارک پر بٹھا کر پھراتے۔ نماز میں سجدے کی حالت میں اگر حضرت حسینؓ آپ کی پیٹھ مبارک پر سوار ہوجاتے تو نہ انہیں کبھی ڈانٹتے نہ ناراضگی کا اظہار فرماتے۔ بلکہ سجدہ کو طول کر دیا کرتے یہاں تک کہ بچہ خود سے بخوشی پشت پر سے علاحدہ ہوجاتا۔ آپؐ کا معمول یہ تھا کہ کبھی حضرت حسین ؓکے ہونٹوں کو بوسہ دیتے تو کبھی رخسار کو چومتے۔ آپؐ کا اپنے نواسوں سے محبت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپؐ نے فرمایا ”جس نے حسن اور حسین رضی اللہ عنہما سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا“ (مسند امام احمد)۔ نیز حضرت حسینؓ کی شان کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک دفعہ جناب محمد رسول اللہ حضرت حسینؓ کو اپنے کندھے مبارک پر اٹھائے ہوئے تھے کہ ایک صحابی یہ منظر دیکھ کر بولے ”اے بچے! تم کتنی بہترین سواری پر سوار ہو۔“ رسول اللہ نے جوابا فرمایا”سوار بھی تو کتنا بہترین ہے“ (ترمذی شریف)۔ خلیفۂ اوّل سیدنا حضرت ابو بکر صدیقؓ، خلیفۂ ثانی سیدنا حضرت عمر فاروق ؓ اورخلیفۂ سوم سیدنا حضرت عثمان ذوالنورین ؓ سمیت تمام صحابہ کرام کو بھی حسنین کریمین اور خاندانِ نبوت سے بہت زیادہ عقیدت و محبت اور الفت تھی۔


نواسۂ رسول حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ عصمت و طہارت کا مجسمہ تھے۔ آپؓ کی عبادت، زہد، سخاوت اور آپؓ کے کمالِ اخلاق کے دوست و دشمن سب ہی قائل تھے۔ عبادت گزاری کی یہ حالت تھی کہ آپ ؓ شب زندہ دار اور سوائے ایام ممنوعہ کے ہمیشہ روزہ سے ہوتے۔ قرآن مجید کی تلاوت کثرت سے فرماتے اور حج بھی بکثرت کرتے ایک روایت کے مطابق آپ نے پچیس حج پیدل فرمائے۔ آپ ؓ کی مجالس وقار و متانت کا حسین مرقع اور آپؓ کی گفتگو علم و حکمت اور فصاحت و بلاغت سے بھرپور ہوتی۔ لوگ آپؓ کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے اوران کے سامنے ایسے سکون اور خاموشی سے بیٹھتے تھے گویا کہ ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں۔ آپؓ میں سخاوت اور شجاعت کی صفت کو خود رسول اللہؐ نے بچپن میں ایسا نمایاں پایا کہ فرمایا ”حسین میں میری سخاوت اور میری جرأت ہے۔“ چنانچہ آپؓ کے دروازے پر مسافروں اور حاجتمندوں کا سلسلہ برابر قائم رہتا تھا اور کوئی سائل محروم واپس نہیں ہوتا تھا۔بعض دفعہ خود ضرورت مندوں کے پاس جاکر انکے مسائل حل کرتے۔ غلاموں اور کنیزوں کے ساتھ آپؓ عزیزوں کا سا برتاؤ کرتے تھے۔ ذرا ذرا سی بات پر آپؓ انہیں آزاد کر دیتے تھے۔ آپؓ کے علمی کمالات کے سامنے دنیا کا سر جھکا ہوا تھا۔ مذہبی مسائل اور اہم مشکلات میں آپؓ کی طرف رجوع کیا جاتا تھا۔ آپؓ کی دعاؤں کا ایک مجموعہ ”صحیفہ حسینیہ“ کے نام سے اس وقت بھی موجود ہے۔آپ رحم دل ایسے تھے کہ دشمنوں پر بھی وقت آنے پر رحم کھاتے تھے اور ایثار ایسا تھا کہ اپنی ضرورت کو نظر انداز کر کے دوسروں کی ضرورت کو پورا کرتے تھے۔


مظلومانہ شہادت:

حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کوفیوں کے بے شمار خطوط موصول ہونے پر سفر پر روانہ ہونے کا فیصلہ کیا۔ سفر پر روانہ ہونے سے پہلے اپنے چچازاد بھائی حضرت مسلم بن عقیل ؓ کو کوفے کا جائزہ لینے بھیجا تو بارہ ہزار کوفیوں نے آپکے ہاتھ پر بیعت کی۔ نیز کوفہ کے اموی حاکم بشیر نے ان کے ساتھ نرمی سے کام لیا۔ کوفیوں کے جذبات سے متاثر ہو کر آپ نے حضرت حسینؓ کو اطلاع دی کہ حالات سازگار ہیں آپ تشریف لائیں۔ لہٰذا حضرت سیدنا حسینؓ سفر پر روانہ ہوگئے۔ ان حالات کی بنا پر یزید نے فوراً کوفہ کے موجودہ حاکم نعمان کو معزول کر دیا اور عبیداللہ بن زیاد کو کوفہ کا حاکم مقرر کر دیا۔ اس نے کوفہ پہنچ کر یہ اعلان کیا کہ جو بھی یزید کی بیعت پر قائم رہے گا اسکی جان بخش دی جائیگی ورنہ اسے قتل کردیا جائے گا۔ابن زیاد کے اس اعلان کے بعد اہل کوفہ نے حضرت حسینؓ سے کئے ہوئے وعدے کو توڑ دیا۔دوران سفر حضرت حسینؓ کو یہ بھی اطلاع ملی کہ عبیداللہ بن زیاد نے حضرت مسلم بن عقیلؓ کو شہید کردیا ہے۔ جسے سن کر حضرت حسینؓ کے ساتھ آئے ہوئے لوگوں میں سے کچھ حضرات نے سفر کو ختم کردیا اور واپس ہوگئے لیکن حضرت حسین ؓنے اپنا سفر جاری رکھا۔ چنانچہ قافلہ روانہ ہوا، مقام قادسیہ سے کچھ آگے پہنچا تو حربن یزید ایک ہزار کے مسلح سوار لشکر کے ساتھ ملا۔ حضرت حسین ؓنے کوفیوں کے تمام خطوط دکھائے اور کہا کہ تم لوگوں نے خود دعوت دی ہے، اب اگر آپکا ارادہ بدل گیا ہو تو میں واپس چلا جاتا ہوں۔ لیکن آپ ؓکے مطالبے کو قبول نہیں کیا گیا۔ چنانچہ یہ مختصر سا قافلہ 2؍  محرم الحرام 61ھ کو آخر کار کربلا پہنچا۔ ابن زیاد نے خط کے ذریعے حضرت حسینؓ کو کہا کہ وہ اپنے لشکر کے ساتھ ہماری اطاعت کرلیں۔ حضرت حسینؓ نے صاف انکار کردیا۔ لہٰذا چند افراد، یعنی 72؍ افراد کے روبرو ہزاروں کا لشکر کھڑا کیا گیا۔ 10؍ محرم الحرام 61 ھ کو میدان کربلا میں عمر بن سعد اپنے لشکر کے ساتھ حملہ آور ہوا۔ اس طرح باقاعدہ لڑائی شروع ہوگئی۔ دونوں طرف سے ہلاکتیں اور شہادتیں ہوتی رہیں۔ آخر کار دغابازوں کا لشکر حاوی ہوا اور حضرت حسینؓ کے خیمہ کو گھیر کر جلا دیا اور نواسۂ رسول، جگر گوشۂ بتول حضرت سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور انکے خاندان کے کئی افراد اور رفقاء سمیت سب کو شہید کردیا گیا۔ آخر نبی کریمؐ کی پیشنگوئی صحیح ثابت ہوئی۔ اس طرح یزید کے بھیجے ہوئے لشکر نے حضرت حسین کو شہید کردیا۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ یزید نے حضرت حسین ؓکو فقط گرفتار کرنے کا حکم دیا تھا لیکن ابن زیاد نے انہیں شہید کیا اور بعض نے لکھا ہے کہ چونکہ یزید کی دور حکومت میں حضرت حسینؓ کو شہید کیا گیا تھا اور یزید اگر چاہتا تو اسے روک سکتا تھا لہٰذا حضرت حسین ؓکی شہادت کا ذمہ دار براہ راست یزید ہے۔ لہٰذا ہمارے جمہور علماء اور اکابرین کا مؤقف یہ ہے کہ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ حضرت حسینؓ کی شہادت یزید کے دور حکومت اور اسی کی فوج سے ہوئی اور یزید فاسق و فاجر بھی تھا لیکن یزید کے مسئلہ پر سکوت اختیار کرنا چاہئے یعنی اس پر نہ تو رحمت بھیجی جائے اور نہ ہی لعنت۔ یزید کے متعلق حضرت امام ابو حنیفہ ؒ فرماتے ہیں کہ ”سکوت اور توقف کرنا چاہئے، نہ اس کو کافر کہا جائے نہ اس پر لعن طعن کیا جائے، بلکہ اس کے امر کو خدا کے حوالے کردینا چاہئے“(فتاوی دارالعلوم)۔ اس کے علاوہ قطب الارشاد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ یزید کے بارے میں تحریرفرماتے ہیں کہ ”اور ہم مقلدین کو احتیاط سکوت میں ہے، کیونکہ اگر لعن جائز ہے تو لعن نہ کرنے میں کوئی حرج نہیں لعن نہ فرض ہے، نہ واجب، نہ سنت، نہ مستحب محض مباح ہے۔ اور جو وہ محل نہیں تو خود مبتلا ہونا معصیت کا اچھا نہیں“(فتاوی رشیدیہ: 78؍ قدیم)۔ الغرض حضرت سیدنا حسینؓ نے جس پامردی اور صبر سے کربلا کے میدان میں مصائب و مشکلات کو برداشت کیا وہ حریت، جرأت اور صبر و استقلال کی لازوال داستان ہے۔ باطل کی قوتوں کے سامنے سرنگوں نہ ہو کر آپ نے حق و انصاف کے اصولوں کی بالادستی، حریت فکر اور خدا کی حاکمیت کا پرچم بلند کرکے اسلامی روایات کی لاج رکھ لی۔ اور انھیں ریگزارِ عجم میں دفن ہونے سے بچا لیا۔ حضرت حسینؓ کا یہ ایثار اور قربانی تاریخ اسلام کا ایک ایسا درخشندہ باب ہے،جو رہروان منزل شوق و محبت اور حریت پسندوں کیلئے ایک اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔نواسۂ رسول حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب، سیرت و کردار اور کارناموں سے تاریخ اسلام کے ہزاروں صفحات روشن ہیں۔ سانحہ کربلا سے ایک اہم پیغام یہ بھی ملتا ہیکہ ”حق کیلئے سر کٹ تو سکتا ہے لیکن باطل کے سامنے سر جکھ نہیں سکتا۔“

مولانا محمد علی جوہر ؒنے کیا خوب کہا:

قتل حسین اصل میں مرگِ یزید تھا

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد


فقط و السلام

بندہ محمد فرقان عفی عنہ*

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

١٠؍ محرم الحرام ١٤٤٤ھ

09؍ اگست 2022ء بروز منگل


+91 8495087865

mdfurqan7865@gmail.com


____

*ابن مولانا محمد ریاض الدین مظاہری

بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند

جنرل سیکرٹری مجلس احرار اسلام کرناٹک

سوشل میڈیا انچارج جمعیۃ علماء کرناٹک

رکن عاملہ جمعیۃ علماء بنگلور


#پیغام_فرقان

#PaighameFurqan #Article #HazratHusain #Husain #YaumeSahadath #Muharram

حق کیلئے سر کٹ تو سکتا ہے لیکن باطل کے سامنے سر جھک نہیں سکتا، یہی شہادت حسینؓ کا پیغام ہے!

 حق کیلئے سر کٹ تو سکتا ہے لیکن باطل کے سامنے سر جھک نہیں سکتا، یہی شہادت حسینؓ کا پیغام ہے! 



مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان”عظمت صحابہؓ کانفرنس“سے مفتی اسعد قاسم سنبھلی کا خطاب! 


 بنگلور، 08؍ اگست (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے ہفت روزہ عظیم الشان آن لائن ”عظمت صحابہؓ کانفرنس“ کی تیسری نشست سے خطاب کرتے ہوئے جامعہ شاہ ولی اللہؒ، مرادآباد کے مہتمم ممتاز عالم دین حضرت مولانا مفتی اسعد قاسم سنبھلی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ حضور اکرم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے، حضرت علی ؓ اور حضرت فاطمہ ؓ کے لخت جگر ہیں۔ یہ وہی شخصیت ہیں جنہوں نے حضورؐ کے سایہ عاطفت میں پرورش پائی اور آپ ؐ کی تربیت میں رہ کر حق گوئی و بیباکی کی خوبیوں سے متصف ہوئے۔ مولانا نے فرمایا کہ حضور اکرم ؐ کو حضرت حسن ؓ و حضرت حسینؓ سے بے پناہ محبت تھی۔ آپ ؐ فرماتے تھے کہ ”حسن ؓ و حسینؓ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں“۔ مولانا نے فرمایا کہ جس شخصیت کی تعریف حضورؐ نے بیان فرمائی ہو اور جس کو امت مسلمہ نے اپنا رہبر و رہنما مانا ہو وہ شخصیت کسی تعریف کی محتاج نہیں، حضرت حسینؓ تاریخ اسلام کی وہ قد آور شخصیت ہیں کہ صدیاں بیت جانے کے با وجود بھی ان کا کردار زندہ اور ان کی عظمت پائندہ ہے۔ مولانا سنبھلی نے فرمایا محرم الحرام کا مہینہ ہمیں نواسۂ رسول حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی اس عظیم قربانی کی یاد دلاتا ہے جو دین محمدی کی بقا کا باعث ہے، آپؓ نے کربلا کے میدان میں اپنے اصحاب و اقربا کے ساتھ جو عظیم الشان قربانی پیش کی تاریخ اسلام میں اسکی کوئی نظیر نہیں ملتی، آپؓ نے دین اسلام کی سربلندی اور اعلائے حق کے لئے اپنی اور اپنے اہل و عیال جان کی قربانی دی۔ مفتی صاحب نے شہدات حضرت حسینؓ پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا ک یزید نے اقتدار کی باگ ڈور سنبھالنے کے ساتھ ہی اسلامی خلافت کے دستور کی ساری دفعات تبدیل کرنا شروع کردیں۔ یہ وہ حالات تھے جب اسلامی نظامِ خلافت ملوکیت میں تبدیل ہو رہا تھا۔ اب حضرت حسینؓ کے سامنے دو ہی راستے تھے۔ ایک راستہ یہ تھا کہ اس ظلم و ناانصافی پر خاموش ہوجائیں اور اپنی جان، مال اور اولاد کو محفوظ رکھیں اور ایک راستہ یہ تھا کہ اپنے پاس جو کچھ بھی ہے اسے اسلامی نظامِ خلافت کو بچانے میں لگا دیں۔ نواسۂ رسولؐ کیلئے یہ بات تو ہر گز ممکن نہیں تھی کہ چپ سادھ لیں، لہٰذا انہوں نے دوسرا راستہ اختیار فرمایا اور اپنی اور اپنے اہل و عیال کی قربانی دے کر اس بات کو ثابت فرما دیا کہ حق کیلئے سر کٹانا قبول ہے لیکن باطل کے سامنے سر جھکانا قبول نہیں۔ مولانا نے فرمایا حضرت حسینؓ کا مقصد خلافت کو منہاج نبوت پر قائم کرنا تھا جبکہ یزید کا مقصد خلافت کو اپنی میراث اور خاندانی جائداد پر قائم کرنا تھا۔ مولانا نے فرمایا کہ اہل سنت و الجماعت علماء دیوبند کا یہ مؤقف ہے کہ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ حضرت حسینؓ کی شہادت یزید کے دور حکومت اور اسی کی فوج سے ہوئی اور یزید فاسق و فاجر بھی تھا، لیکن یزید کے مسئلہ پر سکوت اختیار کرنا چاہئے۔ اور رہی بات حق و باطل کی تو یہ روز روشن کی طرح عیاں ہیکہ حضرت حسینؓ حق پر تھے اور یزید باطل پر تھا۔ مولانا نے فرمایا کہ شہادت حسینؓ کا یہ پیغام ہیکہ حضرت حسینؓ جو اصرار نبوت کو سمجھتے تھے، جنہوں نے حضورؐ کی صحبت حاصل کی ہے، جو صحابیت کے منصب پر فائز تھے اور حضورؐ کے قلب اطہر کے انوار انکے قلب میں منتقل ہوئے ہیں، اس حضرت حسینؓ کا مقصد یہ تھا کہ خلافت جو عظیم الشان شعبہ ہے، اس خلافت کو ہر قیمت منہاج نبوت پر قائم کرنا ضروری ہے، چاہیے اس سلسلے میں اپنی جان چلی جائے اور انہوں نے اپنی جان بھی قربان کردی لیکن خلافت کو میراث اور خاندان جائداد ہونے سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا، یہی حضرت حسینؓ کا پیغام ہے۔مولانا نے فرمایا کہ نئی نسل کو حضرت حسینؓ کے اس پیغام کو یاد کرنا چاہیے اور اس کو دل میں بسا کر سمجھنا چاہیے کہ ہمیں حق کیلئے کیا کرنا چاہیے اور باطل کیلئے کیا کرنا چاہیے؟ مولانا نے فرمایا حضرت سیدنا حسینؓ کا جذبہ، ایثار و قربانی کو اللہ تعالیٰ امت میں دوبارہ پیدا فرمایا اور خلافت راشدہ قائم فرمائے۔ مولانا نے فرمایا کہ حضرت حسین ؓ کی شہادت اُمت کے لیے ایک نمونہ اور لائحہ عمل فراہم کرتی ہے۔ شہادت حسینؓ ہر دور کے یزیدیوں کی موت کا اعلان اور اسلام کی زندگی کا ثبوت ہے۔ قابل ذکر ہیکہ اس موقع پر حضرت مولانا مفتی اسعد قاسم سنبھلی صاحب نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا اور حضرت ہی کی دعا سے عظیم الشان ”عظمت صحابہؓ کانفرنس“ کی تیسری نشست اختتام پذیر ہوئی۔


#Press_Release #News #AzmateSahaba #Sahaba #MTIH #TIMS

Friday, 5 August 2022

مسلمان حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرت کو اپنائیں اور انہیں نمونۂ عمل بنائیں!

 مسلمان حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرت کو اپنائیں اور انہیں نمونۂ عمل بنائیں!



مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”عظمت صحابہؓ کانفرنس“ سے مولانا محمد مقصود عمران رشادی کا خطاب!


بنگلور، 05؍ جولائی (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد ہفت روزہ عظیم الشان آن لائن ”عظمت صحابہؓ کانفرنس“ کی دوسری نشست سے خطاب کرتے ہوئے جامع مسجد سٹی بنگلور کے امام و خطیب حضرت مولانا ڈاکٹر محمد مقصود عمران رشادی صاحب نے فرمایا حضرات صحابہ کرامؓ وہ پاکیزہ اور برگزیدہ لوگ ہیں کہ جنہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا شرف حاصل ہے، جن کے ذریعہ سے اسلام کا تعارف کرایاگیا اور رسول اللہؐ کی سیرت طیبہ اور سنت کو عام کیا گیا۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے رسول اللہ ؐ سے براہ راست قرآن و سنت کی تعلیم حاصل کی اور دنیا کے سامنے اسے صاف و شفاف آئینہ کی طرح پیش کیا جو کہ سورج کی طرح واضح اور روشن ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ تاریخ شاہد ہے کہ اصحابِ رسول ؐنے نہایت خلوص اور دیانت کے ساتھ اپنی ذمہ داری کو نبھایا۔ شریعت اسلامی کے دو بنیادی مآخذ قرآن و حدیث کو یاد کرنے، محفوظ رکھنے، جمع کرنے، لکھنے اور اُن کو عام کرنے کے حوالے سے اصحابِ رسول ؐ کی جو خدمات ہیں وہ اُمت محمدیہ کی روشن تاریخ کا ایک نمایاں باب ہے۔ مولانا رشادی نے فرمایا کہ صحابہ کرامؓ میں اتباع سنت کا ایسا جذبہ تھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنے کے لئے بہت زیادہ دلدادہ اور شوقین تھے، جو عمل حضور پاکؐ نے ایک دفعہ کیا تھا، صحابہ کرامؓ اس عمل کو بھی جاری رکھتے تھے۔ مولانا نے فرمایا کہ حضرات صحابہ کرامؓ کی فضیلت کیلئے یہی بات کافی ہیکہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ان سے راضی ہونے اور ان کے جنتی ہونے کا اعلان کیا۔ مولانا نے فرمایا کہ آج بھی اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم بھی دونوں جہاں میں کامیاب ہوں تو ہمیں چاہیے کہ ان پاکیزہ نفوس کی محبت دل میں بساتے ہوئے ان کے حالات و واقعات کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کریں اور دونوں جہاں میں کامیابی کے لیے ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے زندگی بسر کرنے کی کوشش کریں۔ مولانا رشادی نے فرمایا کہ اس ماہ محرم الحرام میں خاص طور پر نواسۂ رسول حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا تذکرہ کیا جاتا ہے، جنہوں نے اسلام کی سربلندی کیلئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کردیا۔ مولانا نے فرمایا کہ ہم شہداء کربلا کا تذکرہ تو بڑے زور و شور کے ساتھ کرتے ہیں لیکن افسوس کے ہم انکے پیغام پر عمل کرنا نہیں چاہتے۔ مولانا نے فرمایا کہ حضرت حسینؓ نے میدان کربلا میں جنگ کی حالت میں جب نماز کا وقت ہوا تو نماز کو ترک نہیں کیا بلکہ تلوار کے سائے میں نماز کو ادا کرتے ہوئے سجدے میں سر کٹا دیا اور رہتی دنیا تک یہ پیغام دے دیا کہ نماز کسی بھی حال میں چھوڑی نہیں جاسکتی لیکن افسوس کہ آج حضرت حسینؓ سے عقیدت و محبت رکھنے والی امت مسلمہ کا حال یہ ہیکہ انہیں نمازوں کی کوئی فکر نہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ آج ضرورت اس بات کی ہیکہ ہمیں اصحاب رسول رضوان اللہ علیہم اجمعین کو، انکی زندگیوں کو، انکی سیرتوں کو اپنی اجتماعی اور انفرادی دونوں زندگی میں نمونہ بنانا ہوگا، اسلام ہمیں اسی کا حکم بھی دیتا ہے اور اسی میں ہماری کامیابی کی بھی ضمانت ہے۔ قابل ذکر ہیکہ اس موقع پر حضرت مولانا محمد مقصود عمران رشادی صاحب نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا اور اس اہم عظیم الشان ”عظمت صحابہؓ کانفرنس“ کے انعقاد پر مبارکبادی پیش کی۔


#Press_Release #News #AzmateSahaba #Sahaba #MTIH #TIMS