Sunday, 30 July 2023
Wednesday, 12 July 2023
لاء کمیشن کو اپنی رائے پیش کریں، مساجد کے باہر کیو آر کوڈ آویزاں کریں
وقت کم ہے، جلدی کریں...!
لاء کمیشن کو اپنی رائے پیش کریں، مساجد کے باہر کیو آر کوڈ آویزاں کریں!
چوک چوراہوں پر بھی QR Code چسپاں کریں اور گھروں میں گھر خواتین سے بھی ایمیل بھجوائیں!
https://tinyurl.com/nouccisAIMPLB
شریعت کی حفاظت ہماری دینی اور شرعی ذمہ داری ہے اسوقت یونیفارم سول کوڈ کا مسئلہ پورے ملک میں بہت تیزی سے پھیلایا جارہا ہے اور لاء کمیشن آف انڈیا نے ملک کے باشندوں سے اس سلسلے میں راۓ مانگی ہے لاء کمیشن آف انڈیا کو زیادہ سے زیادہ راۓ بھیجنے کے سلسلے میں، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے ایک (QR) کوڈ جاری کیا ہے، اس سے جواب بھیجنا آسان ہوگیا ہے، ضرورت ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ اس کو لوگوں تک پہنچائیں، اس سلسلے میں آپ کی مدد کی ضرورت ہے شہری سطح پر نیچے لکھے ہوئے کام کئے جا سکتے ہیں۔
1) ہر مسجد میں QR کورڈ اور لینک اسٹیگر کی شکل میں لگادیا جائے اور نمازیوں کو متوجہ کیا جائے کہ ہر ایک نمازی QR کوڈ اسکین کر کے ضرور ای میل کرے، اس سلسلے میں ائمہ کرام خصوصی دلچسپی لیں اور ہر مسجد میں اسٹیگر ضرور لگوائیں۔
2) چوک چوراہوں ہوٹلوں پر بھی اسٹیکر چسپاں کیا جائے اس سلسلے میں نوجوانوں کو خصوصی دلچسپی لینی چاہیے ساتھیوں کے ساتھ اس کام کو انجام دینا چاہیے۔
3) آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کے جانب سے جو QR کوڈ اور لنک بنائے گئے ہیں اس کو سوشل میڈیا پر شیئر کیا جائے اور لوگوں سے گزارش کی جائے کہ QR کوڈ اور لنک کے ذریعے زیادہ سے زیادہ ای میل کیا جائے اس سلسلے میں مختلف ادارے، تنظیمیں اپنے نام کے ساتھ اپیل جاری کریں تاکہ فضا بنے۔
4) محلہ میں جہاں نوجوان بیٹھتے ہیں وہاں پہونچ کر ان کو توجہ دلائی جائے کہ اپنے اپنے موبائل سے ای میل کریں۔
5) کیو آر کوڈ اور لنک کی پرچی ہر گھر میں پہنچائی جائے اور خواتین سے بھی درخواست کی جائے کہ وہ اپنے ای میل کے ذریعے رائے دیں۔
واضح رہے کہ لاء کمیشن آف انڈیا کو جواب بھیجنے کی آخری تاریخ 14؍ جولائی 2023ء ہے، صرف چند دن کا وقت باقی بچا ہے، اسلیے تمام حضرات اس سلسلے میں تھوڑی توجہ دیں اور آنے والے جمعہ کی ابھی سے ترتیب بنائے کہ ہر مسجد میں ضرور اعلان ہو اور چند نوجوان نماز کے بعد مسجد میں کھڑے ہو جائے تاکہ لوگوں کو QR کا طریقہ اور لنک کے ذریعے ای میل کرنے کا سلیقہ سکھا سکیں اور ترغیب دے کر ان سے ای میل کروائیں۔
میری آپ حضرات سے گزارش ہے کہ اس کام کو دینی اور شرعی فریضہ سمجھتے ہوئے ضرور انجام دیں،اللہ تعالیٰ آپ کو اجر عظیم عطا فرمائیں۔
والسلام
محمد عمرین محفوظ رحمانی
(سرپرست مرکز تحفظ اسلام ہند)
(سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ)
#UniformCivilCode #CommonCivilCode #UCC #NoUCC #UmrainRahmani #MTIH #TIMS
Wednesday, 5 July 2023
قرآن کی بے حرمتی کرنے والوں کے نام!
”قرآن کی بے حرمتی کرنے والوں کے نام!“
(سویڈن میں قرآن کو نذر آتش کئے جانے کے پیش نظر)
✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ
(بانی وڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس دارفانی میں اپنے بندوں کی ہدایت کیلئے تقریباً سوا لاکھ پیغمبروں کو مبعوث فرمایا اور کئی آسمانی کتابیں ان پر نازل فرمائیں۔ تمام آسمانی کتابوں میں چار کتابیں مشہور ہیں: تورات، زبور، انجیل اور قرآن مجید۔ جن میں قرآن مجید کو اللہ نے تمام آسمانی کتابوں کا سردار مقرر فرمایا۔ تورات، زبور اور انجیل وغیرہ پچھلی آسمانی کتابیں صرف کتاب اللہ ہیں، کلام اللہ نہیں ہیں۔ کلام اللہ آسمانی کتابوں میں صرف قرآن مجید ہے۔ کیونکہ قرآن وحدیث میں کہیں تورات، زبور اور انجیل کو کلام اللہ نہیں کہا گیا ہے؛ بلکہ قرآن مجید میں انہیں کُتُب اور صُحُف فرمایا گیا ہے: قرآن کہتا ہے ”کُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَمَلَآءِکَتِہِ وَکُتُبِہِ وَرُسُلِہ“ کہ ”سب نے اللہ کو اور اس کے فرشتوں کو اور اس کی کتابوں کو اور اس کے رسولوں کو مان لیا ہے“ (سورۃالبقرہ، آیت:285)۔ ایک اور جگہ فرمایا ”صُحُفِ اِبْرَاہِیْمَ وَمُوْسٰی“ یعنی ”ابراھیم اور موسیٰ کے صحیفوں میں“ (سورۃالا علیٰ، آیت:19)۔ اس کے برعکس قرآن مجید کو متعدد جگہ کلام اللہ کہا گیا ہے، چناں چہ قرآن کہتا ہے: ”حَتّٰی یَسْمَعَ کَلَامَ اللّٰہِ“ کہ ”یہاں تک کہ اللہ کا کلام سنے“ (سورۃ التوبہ، آیت:6)۔ ایک اور جگہ فرمایا کہ ”یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّبَدِّلُوْا کَلَامَ اللّٰہِ“ کہ ”وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کا کلام (اللہ کا حکم) بدل دیں“ (سورۃالفتح، آیت:15)۔ لہٰذا کتب سماویہ کی عبارتیں کلام اللہ نہیں ہیں، صرف ان کا مضمون من جانب اللہ ہے، ان کی حیثیت احادیث قدسیہ کی طرح ہے۔ وہ بعینہ کلام اللہ نہیں ہوتیں۔ کلام اللہ مُعجز ہوتا ہے، جبکہ کتب سماویہ مُعجز نہیں ہیں۔ نیز کلام اللہ میں تحدّی پائی جاتی ہے، قرآن پاک میں اللہ نے شک کرنے والوں کو تحدّی فرمائی ہے، یعنی انہیں چیلنج دیا ہے ”وَاِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہ“کہ ”اور اگر تمہیں اس چیز میں شک ہے جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے تو ایک سورت اس جیسی لے آؤ!“ (سورۃالبقرہ، آیت: 23) اور سورہئ بقرہ کی دوسری آیت ہی میں اللہ نے فرمایا ”ذٰلِکَ الْکِتَابُ لَا رَیْبَ فِیْہ“ کہ ”یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی بھی شک و شبہہ نہیں۔“ کتب سماویہ کے بارے میں یہ اعجاز اور تحدّی نہیں ملتی، اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ کلام اللہ نہیں ہیں۔
جس طرح اللہ کی ذات ازلی اور ابدی ہے، اسی طرح اللہ کی صفت بھی ازلی اور ابدی ہے۔ کلام اللہ بھی اللہ کی صفت ہے، یہ بھی ازلی اور ابدی ہے، یعنی: ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، کبھی اس کو فنا لاحق نہ ہوگا۔ کتب سماویہ اگر کلام اللہ ہوتیں تو یہ کبھی تحریف نہ ہوتیں، حالانکہ کتب سماویہ سب مٹ گئیں اور ناپید ہوگئیں، اس کے برخلاف قرآن کریم جب سے نازل ہوا ہے، آج تک من وعن موجود ہے اور ہمیشہ موجود رہے گا۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود کلام اللہ کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے: ”إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ إِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ“ کہ ”ہم نے ہی قرآن کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے!“ (سورۃ الحجر،آیت: 9)۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید ہرقسم کے تغیرات سے پاک وصاف ہے، آج تک کلام اللہ میں ایک زیر و زبر کا بھی تغیر نہیں ہوا۔ یہ پہلی وہ آسمانی کتاب ہے، جس کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے خود لیا، گویا اس کی حفاظت کے لیے یہ وعدہئ الٰہی ہے اور قرآن کا اعلان ہے: ”إِنَّّّ اللَّہَ لَاْ یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ“ کہ ”اللہ کبھی بھی وعدہ خلافی نہیں کرتے۔“ (سورۃ آل عمران، آیت:9)۔ بس اللہ نے اپنا یہ وعدہ سچ کر دکھایا۔ اور کتاب اللہ کی حفاظت کا حیرت انگیز انتظام کیا۔ اس طور پر کہ اس کے الفاظ بھی محفوظ، اس کے معانی بھی محفوظ، اس کا رسم الخط بھی محفوظ، اس کی عملی صورت بھی محفوظ، اس کی زبان بھی محفوظ، اس کا ماحول بھی محفوظ، جس عظیم ہستی پر اس کا نزول ہوا اس کی سیرت بھی محفوظ، اور اس کے اولین مخاطبین کی سیَرْ بھی یعنی زندگیاں بھی محفوظ۔ قربان جائیے اس رب کائنات پر، جس نے اپنی کتاب کی حفاظت کے لیے ایسے ایسے انتظام کیے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے، اور انسان اس کی کرشمہ سازیوں پر سر دھندتا رہ جاتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کی حفاظت کے لیے جتنے اسباب و وسائل اور طریقے ہوسکتے تھے، سب اختیار کیے، اور یوں یہ مقدس اور پاکیزہ کتاب ہر لحاظ اور ہر جانب سے مکمل محفوظ ہوگئی۔ الحمدللہ آج چودہ سو سال گذرنے کے بعد بھی اس میں رتی برابر بھی تغیر و تبدل نہ ہوسکا، لاکھ کوششیں کی گئیں، مگر کوئی ایک کوشش بھی کامیاب اور کارگر ثابت نہ ہوسکی، اور نہ قیامت تک ہوسکتی ہے۔ اسی کو شاعر نے کیا خوب کہا:
ہے قول خدا، قول محمدؐ، فرمان نہ بدلا جائیگا
بدلے گا زمانہ لاکھ مگر قرآن نہ بدلا جائیگا
اللہ تبارک و تعالیٰ نے جو مقام و مرتبہ حضرت محمد رسول اللہﷺ کو عطا کیا یہ کسی دوسرے نبی کو نہیں دیا۔ اسی طرح جو مقام و عظمت آخری کتاب قرآن مجید کو حاصل ہوا وہ کسی دوسری کتاب کو نہیں مل سکا۔ اس آخری کتاب قرآن مجید کی عظمت و خصوصیات بہت ہیں۔ مثلاً قرآن مجید تمام کتابوں کا سردار اور تمام دینی و دنیاوی علوم کا مرکز ہے۔ قرآن مجید جس امت پر نازل ہوا وہ امت محمدیہ تمام امتوں میں افضل ہے، جن شہروں میں نازل ہوا وہ مکہ مدینہ تمام شہروں میں افضل ہے، جس رات میں نازل ہوا وہ شب قدر ہزاروں راتوں سے افضل ہے، جس ماہ مبارک میں نازل ہوا وہ رمضان المبارک تمام مہینوں میں افضل ہے، جس پیغمبر پر قرآن مجید نازل ہوا وہ محمد رسول اللہ ؐتمام انبیاء کے سردار ہیں۔ لہٰذا قرآن مجید سے تعلق عروج و بلندی کی ضمانت ہے۔ نیز یہ کتاب تمام بنی نوع انسان کے لئے رشد و ہدایت کا سرچشمہ ہے کیونکہ اس کے نزول کا مقصد ہی یہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاس“کہ”اور یہ رمضان کا ہی وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو کہ لوگوں کو ہدایت دینے والا ہے۔“ (سورۃ البقرہ، آیت: 185)۔ قرآن مجید کے اندر ذرہ برابر تحریف و تبدیل کرنے کی کسی میں جرأت نہیں ہے کیونکہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اس کے نازل کرنے والے اللہ تعالیٰ نے لی ہے۔ اللہ فرماتا ہے ”إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ إِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ“ کہ ”ہم نے ہی قرآن کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔“ (سورۃ الحجر، آیت: 9)
افسوس کہ آج کچھ ایسے فتنہ پرور اسلام مسلمان دشمن ہیں جو قرآن کی حرمت و تقدس کی پامالی کرنے کے درپہ ہیں اور قرآن سوزی سے پورے عالم اسلام اور مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا چاہتے ہیں۔ لیکن شاید ان لوگوں کو یہ نہیں معلوم کہ قرآن مجید کی بے حرمتی اللہ تبارک و تعالیٰ سے اعلان جنگ کرنے اور اسکے عذاب کو دعوت دینے کے مانند ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس بھی ملعون نے قرآن مجید کو مٹانے یا اسے جلانے کی کوشش کی اللہ نے اسکا نام و نشان مٹا دیا اور قرآن مجید آج تک محفوظ ہے۔ یہاں ان بدبختوں کو یہ بات بھی ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ وہ قرآن مجید کے اوراق تو مٹا سکتے ہیں لیکن کروڑوں مسلمانوں کے سینوں میں جو قرآن مجید محفوظ ہے انکو کیسے مٹائیں گے؟ اللہ کی عجیب و غریب شان ہیکہ کہ جس معصوم بچوں کو یہ تک نہیں معلوم کہ قرآن مجید کیا ہے؟ ان کم سن بچوں کے سینوں میں اسے محفوظ کرکے یہ بات ثابت کردی کہ کلام اللہ کو کبھی فنا لاحق نہ ہوگا!
قرآن کریم کی بے حرمتی دنیا کے کسی بھی مسلمان کے لیے قابل برداشت نہیں ہے اور اس پر مسلمانوں کا غصہ میں آنا اور اپنے جذبات کا اظہار کرنا ایک فطری ردعمل ہے جو ان کے ایمان اور قرآن کریم کے ساتھ ان کی وابستگی کا تقاضہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عیدالاضحیٰ کے دن سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم کی مرکزی مسجد کے باہر پولیس سیکورٹی کے ساتھ دو ملعون شخص کی جانب سے قرآن مجید کے نسخے کو نذر آتش کئے جانے پراس وقت پورا عالم اسلام سراپا احتجاج ہے، ساتھ ہی مسلم ممالک نے شدید مذمت کرتے ہوئے اپنے غضے کا اظہار کیا ہے۔ جب سویڈن کی سرزمین پر کلام اللہ کو نذر آتش کیا جارہا تھا تو وہاں موجود افراد نے احتجاج کرنے کے لیے ’گاڈ از گریڈ‘ (خدا عظیم ہے) کے نعرے لگائے اور اس مذموم حرکت کو روکنے کی کوشش میں پولیس کی گرفت میں آگئے۔ سویڈن حکومت اور پولیس کی ان جانبدارانہ کارروائی کی نہ صرف امت مسلمہ مذمت کرتی ہے بلکہ ان باہمت، جرأت اور غیرت مند افراد کو سلام کرتی ہے، جنہوں نے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر قرآن کریم کی حفاظت کیلئے اپنی گرفتاریاں پیش کردیں۔ اسلام دشمن طاقتوں کا قرآن کو مٹانے کا یہ خواب صبح قیامت تک محض ایک خواب ہی رہے گا۔لیکن جہاں تک قرآن کریم کا تعلق ہے اس کا اعجاز اور تاثیر آج بھی دنیا میں پورے وقار کے ساتھ ایک زندہ حقیقت کے طور پر لوگوں کے مشاہدہ میں ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت اور حفظ و تجوید کا دائرہ پوری دنیا میں وسیع سے وسیع ہوتا جا رہا ہے، اس کے مطالعہ کی طرف رغبت بڑھ رہی ہے، اس کے درس و تعلیم کے حلقے پھیلتے جا رہے ہیں، اسے پڑھ کر ہزاروں لوگ مسلمان ہو رہے ہیں اور اس کے احکام و قوانین میں آج کے عالمی مسائل کے لیے راہنمائی تلاش کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس لیے ایسی مذموم حرکات سے قرآن کریم پر تو کسی پہلو سے کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ معاندین کی یہ مذمومی حرکات قرآن کریم کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور پھیلتے ہوئے دائرہ اثر پر ان کی شدید جھنجھلاہٹ اور مایوسانہ ردعمل کی علامت ہے۔ البتہ مسلمانوں کے جذبات ضرور مجروح ہوتے ہیں اور ان کے جذبات و اشتعال میں اضافہ ہوتا ہے جو قرآن کریم کے ساتھ ان کے قلبی تعلق کا اظہار اور ان کی ایمانی غیرت کا تقاضہ ہے۔ قرآن کی بے حرمتی کرنے والے سمجھتے ہیں کہ ایسی مذموم حرکتوں سے اسکے اعجاز و اثرات ختم ہوجائیں گے۔ لیکن ان نادانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ جب بھی مغرب کے متعصب جنونیوں نے قرآن کریم اور جناب محمد رسول اللہﷺ کے بارے میں منفی اور معاندانہ کاروائیاں کی ہیں ان کی یہ حرکتیں قرآن کریم اورجناب نبی اکرم ؐ کی ذات گرامی سے واقفیت حاصل کرنے کے رجحان میں اضافہ کا سبب بنی ہیں اور اب بھی یقیناً ایسا ہی ہو گا بلکہ ہو رہا ہے۔ اسی کو شاعر نے کہا:
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی وہ ابھرے گا جتنا کہ دباؤ گے
دشمنان اسلام قرآن کے ساتھ جو بھی نامناسب رویہ رکھیں وہ الگ بات ہے لیکن ہمارا رونا اس بات کا ہے کہ ہم مسلمان قرآن کا کتنا احترام کرتے ہیں؟ اسلام مسلمان دشمن نے قرآن مجید کے ساتھ جو زیادتی کی ہے کیا آج کا مسلمان بھی نہیں کررہا ہے؟ جس قرآن کی تعلیم کو ہمارے نبیﷺ نے سب سے بہتر تعلیم قرار دیا کیا آج اس کی تعلیم سے ہم دور نہیں بھاگ رہے ہیں؟ اور جن خوش نصیبوں کو اس کی تعلیم مل گئی ہے انہیں حقارت کی نظر سے کیا ہم نہیں دیکھ رہے ہیں؟ ہمارے نزدیک ایک سرکاری اہلکار کی کیا عزت ہے اور ایک حافظ قرآن کی کیا عزت ہے؟ قرآن کو ماننے والے مسلمان کیا قرآن کی باتوں کو مان رہے ہیں؟ کیا قرآن فقط طاقوں میں سجانے، سینے سے لگانے، ایصال و ثواب کیلئے، گھروں اور دکانوں کی افتتاح کیلئے نازل ہوا ہے؟ کیا قرآن مجید کے ساتھ اس طرح کی زیادتی قرآن مجید کی بے حرمتی اور مذاق نہیں ہے؟ آج قرآن مجید سے دوری اور اسکے احکامات سے انکار و اعتراض نے ہمیں بہت سی پریشانیوں میں مبتلا کردیا ہے خصوصاً ہماری ذلت و رسوائی کی وجہ بھی یہی ہے۔ کیونکہ اللہ نے فرمایا کہ ”وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہُ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا وَّنَحْشُرُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اَعْمٰی“ ”اور جو میرے ذکر سے منہ پھیرے گا تو اس کی زندگی بھی تنگ ہوگی اور اسے قیامت کے دن اندھا کر کے اٹھائیں گے۔“ (سورۃ طٰہٰ،آیت:124)۔ اسی کو علامہ اقبال ؒنے کہا تھا:
وہ معزز تھے زمانہ میں مسلماں ہوکر
اور تم خوار ہوئے تارک قراں ہوکر
قرآن سے اعراض کرنے کی سب سے بڑی دنیاوی سزا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ذلت و پستی کی زندگی میں ڈھکیل دیتا ہے اور ان پر ایسے لوگوں کو مسلط کردیتا ہے جو ان پر بے جا تشدد و ظلم کرتے ہیں۔ عالم اسلام کی موجودہ صورتحال سے ہم اس کا بخوبی مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ قرآن کا یہ مطلب نہیں کہ طاقوں میں سجائے یا سینے سے لگائے بلکہ اس کی درد بھری آہ وفریاد یہ ہے کہ اس کے معانی اور مطالب پر غور کرے اور اس کے احکامات وفرمودات کو اپنی زندگی کا لائحہ عمل بنایا جائے کیونکہ قرآنی احکام سے اعتراض و انکار بھی قرآن کی بے حرمتی اور مذاق ہے۔ ماضی میں بھی کئی لوگوں نے قرآن مجید کی بے حرمتی کی اور انہیں منھ کی کھانی پڑی۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ قرآن مجید کو بے حرمتی سے بچانا ہماری اولین ذمہ داری ہے لیکن پہلے خود قرآن کی بے حرمتی سے بچا جائے اور اس کے حق کو مکمل طور پر ادا کیا جائے پھر غیروں سے بچانے کی کوشش کریں کیونکہ ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ کی مدد بھی شامل ہوگی کیونکہ اللہ کہتا ہے ”اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ“ کہ ”اگر تم اللہ کی مدد کرو گے وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جمائے رکھے گا۔“ (سورۃ محمد، آیت: 7)۔ آج ضرورت یہ ہیکہ ہم ابھی سے قرآن مجید سے اپنا رشتہ مضبوط کریں اور اپنے دلوں کو کتاب الٰہی کے نور سے روشن کریں۔ اگر ہم اس کے پابند ہوگئے تودونوں جہاں میں ہمیں کامیابی حاصل ہوگی۔ کیونکہ ہماری عزت، ہماری سربلندی، ہماری کامیابی قرآن مجید سے ہی وابستہ ہے! علامہ اقبال نے کیا خوب کہا:
گر تو می خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جز بہ قرآں زیستن
(کہ اگر تم مسلمان کی زندگی گزارنا چاہتے ہو تو قرآن مجید کو زندگی کا حصہ بنائے بغیر ایسا ممکن نہیں!)
فقط و السلام
بندہ محمّد فرقان عفی عنہ
(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)
١٦؍ ذی الحجہ ١٤٤٤ھ
مطابق 05؍ جولائی 2023ء
+91 8495087865
mdfurqan7865@gmail.com
#PaighameFurqan #Quran #SwedenQuran
#Mazmoon
#Article
#پیغام_فرقان
Wednesday, 28 June 2023
عید قرباں کا مقصد رضائے الٰہی و تقویٰ کا حصول اور اہل ایمان میں ایثار و قربانی کا جذبہ پیدا کرنا ہے!
عید قرباں کا مقصد رضائے الٰہی و تقویٰ کا حصول اور اہل ایمان میں ایثار و قربانی کا جذبہ پیدا کرنا ہے!
مرکز تحفظ اسلام ہند کے ”عظیم الشان کانفرنس بسلسلہ عشرۂ ذی الحجہ و قربانی“ کی اختتامی نشست سے مفتی افتخار احمد قاسمی کا خطاب!
بنگلور،27؍ جون (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد ”آن لائن سہ روزہ عظیم الشان کانفرنس بسلسلہ عشرۂ ذی الحجہ و قربانی“ کی تیسری و آخری نشست سے خطاب کرتے ہوئے مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست اور جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر حضرت مولانا مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ اسلام کی دو عیدوں میں ایک عید الاضحیٰ ہے، جو ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو عالم اسلام میں پورے جوش و خروش سے منائی جاتی ہے۔ عید الاضحیٰ اس بے مثال قربانی کی یادگار ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کی تھی۔ چنانچہ حضرت ابراہیم ؑ کی نے خواب دیکھا کہ وہ اپنے اکلوتے بیٹے کو اپنے ہی ہاتھوں ذبح کر رہے ہیں۔ آپ اسے وحی الٰہی سمجھ کر فوراً اس کی تکمیل کے لیے تیار ہو گئے اور اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام سے مشورہ کیا تو انہوں نے بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کر دیا۔ مولانا نے فرمایا کہ جب حضرت ابراہیم ؑاس عظیم قربانی کے لیے تیار ہو گئے اور آپ نے اسماعیل ؑ کو پیشانی کے بل لیٹا دیا کہ چہرا دیکھ کر پدرانہ محبت ہاتھوں میں لرزش نہ پیدا کر دے اور قریب تھا کہ چھری اپنا کام کر جاتی کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ابراہیم تم اس آزمائش میں بھی سرخرو ہو نکلے اور ایک مینڈھا آپ کی جگہ بطور فدیہ قربانی کے لیے جنت سے بھیج دیا۔ مولانا نے فرمایا کہ یہی وہ سنت ابراہیمی ہے جس کی یاد میں ہر سال مسلمان عید الاضحیٰ کے موقع پر کرتے آئے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں قربانی کا اہتمام فرمایا اور اپنی اُمت کو بھی اس کی تاکید فرمائی۔ ایک موقع پر فرمایا کہ عید الاضحی کے دن کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے محبوب اور پسندیدہ نہیں۔ مولانا قاسمی نے فرمایا کہ سنتِ ابراہیمی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اللہ تعالی کی راہ میں اپنی محبوب ترین چیز پیش کی جائے جس کا مقصد صرف اور صرف اس کی خوشنودی و رضا کا حصول ہو اور اہم بات یہ کہ اس میں ریا کاری نہ ہو۔کوئی اگر اس وجہ سے عمدہ مہنگے جانور خریدتا ہے کہ لوگ اس کی تعریف کریں اور اسے سراہا جائے تو اللہ تعالیٰ کے پاس اس کا کوئی اجر نہ ہوگا۔ مفتی صاحب نے فرمایا کہ اللہ قربانیوں کے خون سے محظوظ نہیں ہوتا، بلکہ اس تقویٰ اور اس اطاعت سے خوش ہوتا ہے، جو ان قربانیوں سے ان کے پیش کرنے والوں کے اندر پیدا ہوتا ہے۔ قربانی کی ایک صورت ہے اور ایک روح ہے، صورت تو جانور کا ذبح کرنا ہے اور اس کی حقیقت ایثار نفس کا جذبہ پیدا کرنا اور تقرب الی اللہ ہے۔ معلوم ہوا کہ قربانی کا بہ ظاہر مقصد جانور ذبح کرنا ہے، مگر اس کی اصل روح تقویٰ اور اخلاص کی آب یاری ہے۔ الغرض قربانی کا اصل فلسفہ تقویٰ اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے۔ اگر اسی جذبے سے قربانی کی جائے تو یقیناً وہ بارگاہ الٰہی میں شرف قبولیت پاتی ہے۔ مولانا قاسمی نے فرمایا کہ ہمیں چاہیے کہ ہم اسی نیت اور یقین کے ساتھ قربانی کا اہم فریضہ انجام دیں نیز قربانی کے موقع پر غریب و مسکین اور ضرورتمندوں کا خاص خیال رکھیں،اسی کے ساتھ اپنے اطراف و اکناف پاکی صفائی کا بھی خیال رکھیں۔ قابل ذکر ہیکہ اس موقع پر خادم القرآن حضرت مولانا مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب مدظلہ نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا اور حضرت کی ہی دعا سے یہ ”آن لائن عظیم الشان سہ روزہ کانفرنس بسلسلہ عشرۂ ذی الحجہ و قربانی“ اپنے اختتام کو پہنچی۔
#Press_Release #News #Zilhijjah #Qurbani #ZilhijjahSeries #QurbaniSeries #IftikharAhmedQasmi #MTIH #TIMS
Tuesday, 27 June 2023
قربانی کا بنیادی مقصد اہل ایمان میں جذبۂ ایثار پیدا کرنا ہے اور حج ایک عاشقانہ عبادت ہے!
قربانی کا بنیادی مقصد اہل ایمان میں جذبۂ ایثار پیدا کرنا ہے اور حج ایک عاشقانہ عبادت ہے!
مرکز تحفظ اسلام ہند کے ”عظیم الشان کانفرنس بسلسلہ عشرۂ ذی الحجہ و قربانی“ کی دوسری نشست سے مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی کا خطاب!
بنگلور، 26؍ جون (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد ”آن لائن سہ روزہ عظیم الشان کانفرنس بسلسلہ عشرۂ ذی الحجہ و قربانی“ کی دوسری نشست سے خطاب کرتے ہوئے مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سکریٹری شیخ طریقت حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ ذی الحجہ اسلامی سال کا سب سے آخری مہینہ ہے، جو ماہ رمضان کے بعد عظمت وفضیلت میں اپنی نمایاں شان اور منفرد شناخت رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ذی الحجہ کی دس راتوں کی قسم کھائی ہے، جس سے معلوم ہوا کہ ماہ ذی الحجہ کا ابتدائی عشرہ اسلام میں خاص اہمیت کا حامل ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کی بنیاد پانچ ارکان پر رکھی ہے ان میں سے پانچواں رکن حج کرنا ہے۔ حج ایک ایسی عاشقانہ عبادت ہے کہ یہ ایک وقت میں بدنی، مالی و روحانی تینوں چیزوں پر مشتمل ہے۔اور حج جیسی اہم عبادت کے لئے اللہ تعالیٰ نے اسی مہینے کو مقرر فرما دیا۔ حج کے اہم ارکان مثلاً عرفات میں جاکر ٹھہرنا، مزدلفہ میں رات گزارنا، جمرات کی رمی کرنا وغیرہ اعمال انہیں ایام میں انجام دئے جاتے ہیں۔مولانا نے فرمایا کہ ذی الحجہ کی نو تاریخ کو یوم عرفہ کہا جاتا ہے کیوں کہ اس دن حجاج کرام میدان عرفات میں جمع ہوتے ہیں، یہ حج کا اہم رکن ہے جسے وقوف عرفہ کہتے ہیں، جو اللہ تعالیٰ کے خاص فضل وکرم کو حاصل کرنے کا دن ہے۔ یہ وہی دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اس دین کی تکمیل اور اہل اسلام پر اپنی نعمت کو پورا فرمایا۔ مولانا نے حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ عرفہ کے دن کا ایک روزہ ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کی معافی کا سبب بنتا ہے۔ لہٰذا نویں ذی الحجہ کے دن روزہ رکھنے کا اہتمام کریں۔ مولانا رحمانی نے فرمایا کہ حج کے ساتھ ساتھ اس ماہ میں جانوروں کی قربانی کے ذریعے عام مسلمان سنت ابراہیمی کو زندہ کرتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ قربانی کا بنیادی مقصد اپنے رب کے ہر حکم کے آگے سرتسلیم خم کردینا اور اہل ایمان میں جذبہ ایثار پیدا کرنا ہے۔ قربانی کرنے والے شخص کی نیت یہ ہونی چاہیے کہ آج ہمارے رب نے جانور کی قربانی کا حکم دیا ہے تو ہم اسے بہ خوشی تسلیم کرتے ہیں اور کل اگر ہمارا رب ہماری جان کی قربانی مانگے گا تو ہمارے مالک وخالق کے نام پر یہ جان بھی قربان ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ جذبۂ ایثار کو بیدار کرنا اور اپنی عزیز سے عزیز تر چیز کو حکم ربانی کے مطابق رضائے الٰہی کے حصول میں قربان کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہی قربانی کا مقصد ہے۔ مولانا رحمانی نے پوری امت مسلمہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ عشرہ ذی الحجہ کے ان ایام کی قدردانی کریں، خوب دعاؤں اور نوافل کا اہتمام کریں، نو ذی الحجہ یوم عرفہ کا روزہ ضرور رکھیں اور جو صاحب استطاعت ہیں وہ ضرور بالضرور قربانی کا فریضہ انجام دیں۔ قابل ذکر ہیکہ اس موقع پر شیخ طریقت حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب مدظلہ نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔
#Press_Release #News #Qurbani #Zilhijjah #UmrainRahmani #QurbaniSeries #ZilhijjahSeries #MTIH #TIMS