Tuesday, 1 July 2025

وقف کے دفاع میں ”انسانی زنجیر“ : خاموش ہاتھوں کی گونجدار پکار!

 وقف کے دفاع میں ”انسانی زنجیر“ : خاموش ہاتھوں کی گونجدار پکار!

✍️ بندہ  محمد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


وقف ترمیمی قانون 2025 کے خلاف جو احتجاجی تحریک بنام ”وقف بچاؤ، دستور بچاؤ تحریک“ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی سرپرستی میں ملک بھر میں زور و شور سے جاری ہے، وہ درحقیقت وقف قانون میں صرف غیر آئینی ترمیمات کے خلاف آواز نہیں بلکہ ایک نظریاتی، دستوری اور تہذیبی بیداری کی تحریک ہے۔ وقف، اسلامی تشخص، ملی ورثہ اور اقلیتی تشخص کا محافظ ہے، اور اس پر وار دراصل ایک مخصوص طبقے؛ مسلمانوں کے وجود، اس کے دینی و تہذیبی نظام، اس کے تعلیمی اداروں، اس کے مساجد، مدارس، خانقاہوں، یتیم خانوں،مزاروں، قبرستانوں اور عوامی بھلائی کے منصوبوں پر حملہ ہے۔ چنانچہ اس حملے کا جواب صرف قانونی چارہ جوئی تک محدود نہیں رہ سکتا، بلکہ اس کے خلاف ہر سطح پر پرامن، باشعور اور منظم عوامی مزاحمت کی ضرورت ہے۔ اسی مزاحمت کے مختلف مراحل اور صورتیں ہیں جو اس وقت ”وقف بچاؤ دستور بچاؤ تحریک“ کے ذریعہ ملک کے مختلف علاقوں میں عمل میں لائی جارہی ہیں۔


احتجاجی تحریک کی ان مختلف صورتوں میں ایک منفرد اور پراثر صورت ”انسانی زنجیر“ (Human Chain) کا طریقہ ہے، جس کے ذریعہ نہ صرف قوم میں بیداری پیدا ہوتی ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک پرامن اور باوقار پیغام جاتا ہے۔ انسانی زنجیر کے ذریعہ ایک خاموش لیکن زوردار احتجاج ریکارڈ ہوتا ہے، جو حکومت کو احساس دلاتا ہے کہ عوام اب بیدار ہوچکے ہیں اور وہ اپنے حقوق، اپنے مذہبی اداروں اور اپنے دستوری تشخص کے تحفظ کیلئے خاموش تماشائی بنے نہیں بیٹھیں گے۔ یہ طریقہئ احتجاج اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ اس میں عوام کی براہ راست شرکت ہوتی ہے،مرد، نوجوان، بچے، بزرگ، ہر طبقے کے افراد سڑک پر آکر خاموشی کے ساتھ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر ایک ایسی زنجیر بناتے ہیں جو ظاہری طور پر خاموش ہوتی ہے لیکن درحقیقت اپنے پیچھے ایک گونجدار پیغام رکھتی ہے۔


کرناٹک میں 04؍ جولائی کو نماز جمعہ کے بعد جو انسانی زنجیر بننے جارہی ہے وہ صرف ایک ریاستی احتجاج نہیں بلکہ قومی سطح پر بیداری کی علامت ہے۔ یہ زنجیر اس بات کی علامت ہے کہ ملک کے آئینی اصول، اقلیتوں کے حقوق، مذہبی آزادی اور وقف جیسی دینی و سماجی ادارے ملک کی روح ہیں اور ان پر کسی قسم کی چیرہ دستی برداشت نہیں کی جائے گی۔ انسانی زنجیر کا تصور نیا نہیں، بلکہ عالمی سطح پر بھی اسے ایک مؤثر احتجاجی ذریعہ مانا گیا ہے۔ جنوبی افریقہ کی نسلی امتیاز کے خلاف تحریک میں، اسرائیلی جارحیت کے خلاف اور فلسطین کی حمایت میں، ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف احتجاج میں اور بھارت میں مختلف مواقع اور تحریکات میں اس طریقے کو کامیابی کے ساتھ استعمال کیا گیا ہے۔ اس کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ یہ ایک پرامن، مہذب اور خود کو دستور کے دائرے میں رکھتے ہوئے آواز بلند کرنے کا ذریعہ ہے، جو کسی بھی جمہوری ملک کی روح کے مطابق ہے۔ انسانی زنجیر(ہیومن چین) کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ اس میں صرف نارے بازی یا جذباتیت نہیں بلکہ منظم تیاری، شعور، یکجہتی اور عوامی شمولیت کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ جب کوئی انسان اپنے دائیں اور بائیں موجود افراد کا ہاتھ تھامے ہوئے کھڑا ہوتا ہے، تو وہ درحقیقت یہ پیغام دے رہا ہوتا ہے کہ ہم سب ایک ہیں، ہم سب متحد ہیں، اور ہم سب اپنے وقار اور اداروں کے تحفظ کیلئے کھڑے ہیں۔ اس میں کوئی لسانی، مذہبی، یا سیاسی تفریق نہیں ہوتی، بلکہ یہ صرف اور صرف اپنے مشترکہ وقار اور دستور کے تحفظ کی ایک علامت بن جاتی ہے۔


پلے کارڈز اور بینرز انسانی زنجیر کے پیغام کو مزید مضبوط بناتے ہیں۔ جب ہاتھوں میں ایسے بینرز ہوں جن پر لکھا ہو ”وقف بچاؤ، دستور بچاؤ“، ”ہم وقف کے محافظ ہیں“، ”ہم آئین مخالفت وقف ترمیمی قانون 2025 کو مسترد کرتے ہیں“، ”ہم ایک ہیں“، تو یہ ہر راہگیر، ہر کیمرہ، اور ہر سوشل میڈیا صارف کے ذہن میں سوالات پیدا کرتا ہے، اور یہی سوالات بیداری کی بنیاد بنتے ہیں۔ میڈیا کیلئے ایسے مناظر نہایت پرکشش ہوتے ہیں، کیونکہ ایک بڑی تعداد میں پرامن طریقے سے کھڑے لوگ، یکساں پلے کارڈز، منظم ترتیب، اور جذباتی فضا، یہ سب ایک مؤثر بصری پیغام میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ ایسے احتجاج میڈیا کی توجہ بھی حاصل کرتے ہیں، اور اگر اس کے ساتھ سوشل میڈیا کی منظم مہم بھی ہو، جیسے کہ تصاویر، ویڈیوز، مختصر کلپ، ہیش ٹیگز وغیرہ، تو یہ پیغام گھنٹوں میں مقامی سے قومی، اور قومی سے عالمی سطح تک پہنچ جاتا ہے۔


سوشل میڈیا کا کردار آج کے دور میں احتجاج کو عالمی بنانے کا سب سے بڑا ذریعہ بن چکا ہے۔ جس طرح فلسطین کے مظالم پر عالمی شعور، سوشل میڈیا خاص طور پر X (Twitter) کے ذریعہ بیدار ہوا، اسی طرح اگر ہمارے نوجوان، ہمارے علماء، ہمارے کارکنان، ہمارے تعلیمی ادارے، طلبہ، اپنے اپنے مقامات پر انسانی زنجیر کے ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا پر ایک ہی ہیش ٹیگ کے تحت نشر کریں، تو یہ احتجاج صرف سڑکوں تک محدود نہ رہے گا، بلکہ ہندوستانی عوام، عدالتوں، ایوانوں، اور دنیا بھر میں انسانی حقوق کے اداروں تک اپنی آواز پہنچائے گا اور یہ مسئلہ صرف مقامی نہ رہ جائے گا بلکہ قومی اور بین الاقوامی مسئلہ بن جائے گا۔ یہی وہ طریقہ ہے جو آج کے دور میں کم وسائل کے باوجود مؤثر مزاحمت کی راہ ہموار کرتا ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ ہر سطح پر منظم تیاری ہو، تصاویر اور ویڈیوز اچھے معیار کی ہوں، ترسیل منظم ہو، اور پیغام مربوط ہو۔


انسانی زنجیر ایک ایسا طریقہ احتجاج ہے جو صرف حکومت کو چیلنج نہیں کرتا بلکہ اپنے اندر کی غفلت کو بھی جھنجھوڑتا ہے۔ جب ایک عام شخص، جسے شاید سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں، وہ سڑک پر آکر اپنے ہم مذہب بھائی کا ہاتھ پکڑتا ہے اور کھڑا ہوتا ہے، تو وہ یہ اعلان کرتا ہے کہ اب غفلت کافی ہوچکی، اب ہم جاگ چکے ہیں۔ یہ بیداری کا لمحہ صرف حکومت کو پریشان نہیں کرتا بلکہ پوری قوم کو ایک نئی روح بخشتا ہے۔ کرناٹک کی یہ انسانی زنجیر اس بیداری کی علامت ہے، اور اگر ہر ادارہ، ہر تنظیم، ہر شہر، ہر ضلع، ہر ریاست اس جذبے کو قبول کرے، تو یہ احتجاج ایک انقلاب میں بدل سکتا ہے۔


اس میں کوئی شک نہیں کہ انسانی زنجیر میں شرکت خاموش احتجاج ہے، لیکن یہ خاموشی گونجدار ہوتی ہے۔ یہ خاموشی ہر زندہ ضمیر کو آواز دیتی ہے، یہ خاموشی ہر دستور شکن طاقت کیلئے خطرہ بن جاتی ہے، اور یہ خاموشی ہر مظلوم کے دل میں امید کی کرن جگاتی ہے۔ اس میں کوئی اشتعال نہیں، کوئی جارحیت نہیں، کوئی قانون شکنی نہیں، صرف محبت، اتحاد، اور بیداری کا پیغام ہوتا ہے۔ اور یہی وہ اسلوب ہے جس سے بڑی سے بڑی حکومتیں بھی دباؤ محسوس کرتی ہیں اور اپنے فیصلوں پر نظر ثانی پر مجبور ہوتی ہیں۔

انسانی زنجیر کا سب سے بڑا پیغام یہی ہے کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں، ہم اپنے اداروں کی حفاظت کریں گے، ہم اپنے بزرگوں کی امانتوں کے وارث بن کر ابھریں گے، اور ہم اس ملک کے دستور، جمہوریت، اور اقلیتی تحفظات کے اصولوں کو اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھیں گے۔ کرناٹک کی سڑکوں پر بننے والی انسانی زنجیر اس وقت تاریخ رقم کرے گی، اگر ہم سب اسے صرف ایک احتجاج نہ سمجھیں، بلکہ اسے اپنے عزم، اپنی بصیرت، اور اپنی ذمہ داری کا اعلان بنائیں۔ یہ وقت صرف باتوں کا نہیں، عمل کا ہے۔ اور انسانی زنجیر ایک ایسا عمل ہے جو تاریخ کے صفحات پر ثبت ہوگا، اور آنے والی نسلیں اس دن کو یاد رکھیں گی کہ ہم نے خاموشی سے ایک ایسا زوردار پیغام دیا جو دیواروں، قانون ساز اداروں، اور اقتدار کے ایوانوں کو ہلا کر رکھ گیا۔


لہٰذا ہر شخص، ہر فرد، ہر باشعور شہری کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس انسانی زنجیر کا حصہ بنے۔ یہ صرف مظلوموں کی حمایت نہیں بلکہ اپنے وجود، اپنے تشخص، اور اپنے آئینی حقوق کے تحفظ کا اعلان ہے۔ ہمیں اپنے ہاتھوں کو جوڑنا ہے، لیکن صرف ہاتھ نہیں، اپنے دلوں کو بھی جوڑنا ہے، اپنی فکروں کو جوڑنا ہے، اپنے وسائل کو جوڑنا ہے، اور اپنے راستے کو جوڑنا ہے۔ جب ہم سب ایک ہاتھ سے ایک ہاتھ جوڑیں گے، تو وہ زنجیر صرف انسانوں کی نہیں ہوگی بلکہ ایک بیدار قوم کی علامت ہوگی، جو ہر سازش، ہر ناانصافی، اور ہر آئینی حملے کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جائے گی۔ یہ زنجیر ہمارے اتحاد، شعور اور دستور سے وفاداری کی گواہی دے گی۔ یہی وہ پرامن لیکن پراثر طریقہ ہوگا جس کے ذریعے وقف کی حفاظت کے لیے ایک پرزور آواز بلند ہوگی۔ یہ صرف احتجاج نہیں بلکہ ایک اعلان ہوگا کہ ہم اپنے دینی، ملی اور قانونی ورثے پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ انسانی زنجیر کے ذریعہ ہم وقف ترمیمی قانون 2025 کے خلاف ایک بڑی اور منظم مزاحمت کو جنم دیں گے، جو آنے والی نسلوں کو یہ پیغام دے گی کہ جب وقف پر وار کیا گیا، تو قوم خاموش نہ رہی بلکہ تاریخ کے ہر موڑ پر اس نے اپنے تشخص کا دفاع کیا۔


#SaveWaqfSaveConstitution | #WithdrawWaqfAmendments | #HumanChain | #WaqfAmendmentAct

Tuesday, 24 June 2025

”اسلام غالب آئے گا“ محض جذباتی نعرہ نہیں، روشن حقیقت ہے!

 ”اسلام غالب آئے گا“

محض جذباتی نعرہ نہیں، روشن حقیقت ہے! 


✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


”اسلام غالب آئے گا“ یہ محض جذباتی نعرہ نہیں، بلکہ روشن حقیقت ہے، یہ صرف ایک دینی عقیدہ نہیں بلکہ ایک ایسا پیشین گوئی شدہ وعدۂ ربانی ہے جسے نہ صرف قرآن و حدیث کی روشن تعلیمات میں صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، بلکہ عقلی، سائنسی اور تاریخی حقائق کی روشنی میں بھی یہ وعدہ ہر گزرتے دن کے ساتھ پورا ہوتا نظر آ رہا ہے۔ لیکن اس عقیدے پر اکثر غیر مسلموں، ملحدین اور ایکس مسلموں کی طرف سے یہ اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہ جب دنیا میں مسلمان آج بھی ایک اقلیت ہیں، سائنس و ٹیکنالوجی، معیشت، تعلیم اور بین الاقوامی سیاست پر مغرب اور دیگر غیر مسلم اقوام کا واضح تسلط ہے، تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اسلام ایک دن دنیا پر غالب آ جائے گا؟ ان کا استدلال یہی ہوتا ہے کہ اگر کوئی مذہب غالب ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو اس کا عملی مظاہرہ بھی ہونا چاہیے، اور موجودہ عالمی حالات میں بظاہر ایسا نظر نہیں آتا۔ ایسے اعتراضات کا نہایت سنجیدہ، متوازن اور مدلل انداز میں جواب دینا ضروری ہے، تاکہ یہ غلط فہمیاں دور ہوں، حقیقت آشکار ہو، اور اسلام کے آفاقی پیغام کی صداقت و جامعیت دنیا کے سامنے واضح ہو سکے۔



اسلام کا تصورِ غلبہ دراصل صرف سیاسی یا جغرافیائی غلبے کا نام نہیں، بلکہ فکری، روحانی، تہذیبی اور اخلاقی غلبہ بھی اس میں شامل ہے۔ قرآن مجید کی کئی آیات اس بات کی تصدیق کرتی ہیں۔ هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ (سورہ توبہ، آیت 33) یعنی: ”وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق دے کر بھیجا تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب کرے، چاہے مشرکوں کو ناگوار گزرے۔“ یہی مضمون سورہ فتح (48:28) اور سورہ صف (61:9) میں بھی دہرایا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ وعدہ محض وقتی غلبے کی بات نہیں بلکہ ایک دائمی روحانی اور فکری غلبہ ہے۔ اس غلبے کی تائید کئی احادیث سے بھی ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”یبلغنّ هذا الأمر ما بلغ الليل والنهار، ولا يترك الله بيت مدر ولا وبر إلا أدخله الله هذا الدين، بعزّ عزيز أو بذلّ ذليل، عزّاً يعزّ الله به الإسلام وذلّاً يذلّ به الكفر“ (مسند احمد) یعنی: ”یہ دین ہر اس جگہ پہنچے گا جہاں دن اور رات پہنچتے ہیں۔ یہ دین ہر گھر تک پہنچے گا، چاہے وہ کچا ہو یا پکا، اور لوگ اسلام میں داخل ہوں گے یا ذلت کے ساتھ اس کی عظمت کو قبول کریں گے۔“


یہ وہ ”غلبہ“ ہے جو نہ توپ سے حاصل ہوتا ہے، نہ تاج سے۔ بلکہ وہ نورِ ہدایت جو عقل و قلب میں اترتا ہے، اور جو انسان کو بندگیِ نفس سے نجات دے کر بندگیِ ربّ کی طرف لے جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک ایسے معاشرے میں فکری غلبہ قائم کیا جس میں بتوں کی پوجا، نسل پرستی، فحاشی اور ظلم کی جڑیں بہت گہری تھیں۔ نہ کوئی سیاسی سلطنت تھی، نہ عسکری طاقت۔ لیکن صرف 23؍ سال کے عرصے میں اسلام نے دلوں کو فتح کر لیا، عدل کو معاشرے کی بنیاد بنا دیا، اور سچائی، صبر، اور حلم کو قیادت کے معیار قرار دیا۔ غلبۂ اسلام کا یہ تصور آج بھی زندہ ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جن علاقوں میں اسلام کو سیاسی یا عسکری طاقت حاصل نہیں، وہاں بھی قرآن، سنت، اور اخلاقِ نبویؐ کی کشش سے لوگ دین کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ اسلام کا غلبہ وہ ہے جو باطل کے نظام کو صرف شکست نہیں دیتا بلکہ دلائل اور اخلاق سے اس کی بنیاد ہلا دیتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اللہ نے فرمایا: ”وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ“ یعنی مشرک جتنا چاہیں اس غلبے کو ناپسند کریں، یہ غلبہ ہوگا، کیونکہ یہ ربّ کے نظامِ ہدایت کا لازمی حصہ ہے۔ یہی غلبہ ہے جسے روکنے کے لیے دنیا کی بڑی طاقتیں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں، لیکن رب العالمین کا یہ وعدہ اور محسن انسانیت ﷺ کا یہ مشن مکمل ہوکر رہے گا، نہ صرف فکری، روحانی، تہذیبی اور اخلاقی اعتبار سے بلکہ سیاسی اور جغرافیائی اعتبار سے بھی مکمل ہوگا۔ 


اب ذرا عقلی دلائل پر غور کیجیے! اگر کوئی دین حقیقت پر مبنی ہو، اس کا پیغام خالص، ملاوٹ سے پاک اور جذباتی یا نسلی تعصبات سے بالاتر ہو، اگر وہ دین انسانی فطرت کے عین مطابق ہو اور انفرادی، خاندانی، معاشرتی، اخلاقی، روحانی اور معاشی زندگی کا ایک جامع اور متوازن نظام فراہم کرتا ہو، تو منطقی اعتبار سے وہی دین طویل مدت میں دنیا پر غالب آنا چاہیے۔ کیونکہ حق اپنی روشنی سے باطل کو مٹا دیتا ہے، فطرت کے خلاف چلنے والے نظام دیرپا نہیں ہوتے، اور جھوٹ کبھی بھی دائمی تسلط قائم نہیں رکھ سکتا۔ اسلام کی تعلیمات چاہے وہ توحید کا عقیدہ ہو، عدل و انصاف کا اصول ہو، زکوٰۃ و صدقات کا فلاحی تصور ہو، عفت و پاکیزگی کا معیار ہو، یا خاندانی زندگی کی ترتیب، یہ سب نہ صرف انسانی عقل و ضمیر سے ہم آہنگ ہیں بلکہ انسان کے ہر دور کی ضروریات کا حل بھی فراہم کرتے ہیں۔ یہی وہ ہمہ گیر اور فطری نظام ہے جو خود اپنے وجود سے گواہی دیتا ہے کہ اسلام ہی وہ سچائی ہے جس کا غلبہ ایک منطقی و فطری انجام ہے، اور یہ غلبہ کسی جبر یا ظلم کے ذریعے نہیں، بلکہ دلیل، اخلاق، روحانیت اور سچائی کے ذریعے حاصل ہونا ہے۔ اسلام کا فطری، عقلی اور کامل نظام اس کا زندہ ثبوت ہے۔ 


اب ہم امریکہ کے تحقیق ادارے پیور ریسرچ سینٹر (Pew Research Center) کے اعداد و شمار کا جائزہ لیتے ہیں۔ حالیہ 2025 کی رپورٹ کے مطابق اسلام دنیا کا سب سے تیزی سے بڑھنے والا مذہب بن چکا ہے۔ ساتھ ہی یہ دنیا کا دوسرا سب سے بڑا مذہبی گروپ بھی ہے اور 2050 تک مسلمان دنیا کی سب سے بڑی آبادی بن سکتے ہیں۔ 2010 سے 2020 کے درمیان مسلم آبادی میں 21 فیصد کا اضافہ ہوا ہے، یعنی یہ اعداد و شمار 170 کروڑ سے بڑھ کر 200 کروڑ تک پہنچ چکا ہے۔ یہ اضافہ عالمی اوسط آبادی اضافہ (10 فیصد) سے دو گنا ہے۔ اب دنیا کا چار میں سے ہر ایک شخص مسلم ہے یعنی مسلمانوں کی پوری دنیا کی آبادی میں 26 فیصد عالمی حصہ داری ہے۔ رپورٹ کے مطابق مسلمان نوجوان ترین مذہبی گروہ ہیں، دنیا کے کئی غیر مسلم ممالک میں اسلام قبول کرنے والوں کی شرح دیگر مذاہب کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے، مغرب میں اسلام مخالف پروپیگنڈہ اور نفرت انگیز سیاست کے باوجود اسلام قبول کرنے والے نو مسلمین کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔


مثلاً امریکہ میں اسلام قبول کرنے والوں کی بڑی تعداد کالے امریکیوں، لاطینیوں اور سابق عیسائیوں پر مشتمل ہے۔ پیو (Pew) ریسرچ سینٹر کی رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کی سب سے زیادہ آبادی 2010 سے لے کر 2020 تک شمالی امریکہ میں 52 فیصد بڑھی ہے۔ یہاں کل مسلم آبادی 59 لاکھ ہے۔ فرانس، برطانیہ، جرمنی، ہالینڈ، آسٹریلیا اور افریقہ میں بھی رجحان یہی ہے۔ خاص طور پر فرانس میں ہر سال ہزاروں لوگ اسلام قبول کرتے ہیں، جن میں تعلیم یافتہ نوجوان خواتین کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ جرمنی میں 2015 - 2020 کے دوران دسیوں ہزار افراد نے اسلام قبول کیا، ان میں بڑی تعداد پناہ گزینوں، یونیورسٹی طلبہ، اور مڈل کلاس یورپیوں کی تھی۔


اسلامی تعلیمات کی سچائی، وحدانیت، سادہ عقیدہ، سماجی عدل، روحانیت، خاندانی نظام، جنسی تطہیر، فطری زندگی، منصفانہ معیشت، یہ سب اسلام کو ایک ایسا مکمل نظام حیات بناتے ہیں جو دلوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اسلام صرف عبادات کا مجموعہ نہیں، بلکہ ایک مکمل نظام زندگی ہے جو صحت، تعلیم، تجارت، سیاست، انصاف، روحانیت، اخلاق، معیشت، معاشرت سب پر محیط ہے۔ یہی ہمہ گیر نظام ہی ہے جو دنیا کے بکھرتے ہوئے انسانوں کو اپنی جانب متوجہ کر رہا ہے۔ واقعاتی طور پر بھی ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اسلام نہ صرف غریبوں بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں میں بھی مقبول ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر یوسف ایسٹس، امام حمزہ یوسف، عمر ریجن، فرانسسکا ماریا، جیریمی میکلالن، مارٹن لنگز، ان سب نے اسلام قبول کیا اور اپنی زندگیوں میں انقلاب برپا کیا، جبکہ ان میں کئی خود اسلام کے مخالف تھے۔


اسی طرح ہندوستان میں بھی اسلام مخالف بیانیے، تشدد، قانونی رکاوٹوں اور میڈیا کے منفی پروپیگنڈے کے باوجود اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد کم نہیں ہو رہی۔ Center Pew Research کے مطابق ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ صرف پیدائش کی بنیاد پر نہیں بلکہ نو مسلمین کے سبب بھی ہے۔ دہلی، کیرالہ، آندھرا پردیش، گجرات، مہاراشٹر، اور بنگال میں اسلام قبول کرنے والوں کی خبریں میڈیا میں مسلسل آتی رہی ہیں۔ کئی سابق ہندو پنڈت، سکھ، عیسائی اور دہریے (atheists) اسلام قبول کر چکے ہیں۔ ان میں سے بہت سے افراد نے اسلام کی اخلاقیات، انصاف، توحید، اور مساوات سے متاثر ہو کر اسلام کا راستہ اختیار کیا۔


اسی کے ساتھ ساتھ، اسلام پر بڑھتے ہوئے حملے، میڈیا میں منفی پروپیگنڈا، اور حکومتوں کی سختیاں دراصل اسی بات کا ثبوت ہیں کہ اسلام نہ صرف زندہ ہے بلکہ پھیل رہا ہے۔ جب کوئی نظریہ یا دین کسی کو خطرہ محسوس ہوتا ہے، تو اس نظریے کی طاقت کا وہی سب سے بڑا ثبوت ہوتا ہے۔ اسلام کو سب سے زیادہ نشانہ اسی لیے بنایا جاتا ہے کیونکہ وہ انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑتا ہے، فطرت سے ہم آہنگ ہے، اور باطل نظاموں کے لیے ایک خطرہ بن چکا ہے۔ مغرب میں مذہب سے دوری، تنہائی، ذہنی بیماریوں، خودکشیوں، خاندانی ٹوٹ پھوٹ اور اخلاقی انارکی کا دور ہے۔ مغربی معاشرے مذہبی روحانیت سے خالی ہو چکے ہیں اور وہاں کے نوجوان 'meaninglessness' (بے معنویت) کا شکار ہیں۔ یہی خلا انہیں اسلام کی طرف کھینچ رہا ہے۔


یہ تمام دلائل نہ صرف اسلام کے غلبے کے نظریے کو تقویت دیتے ہیں بلکہ یہ واضح کرتے ہیں کہ اسلام کا غلبہ محض کوئی جذباتی دعویٰ یا غیر حقیقت پسندانہ خواہش نہیں، بلکہ ایک ایسا ناقابل انکار سچ ہے جو روز بروز حقیقت کا روپ دھارتا جا رہا ہے۔ یہ غلبہ کوئی تلوار، جنگ یا سیاسی سازش کے بل پر حاصل نہیں ہو رہا، بلکہ دلیل کی روشنی، اخلاق کی طاقت، علم کی برتری اور روحانیت کی لطافت کے ذریعے قلوب و اذہان کو تسخیر کر رہا ہے۔ اسلام کا نور ان دلوں میں اپنی جگہ بنا رہا ہے جو سچائی کے متلاشی، روحانی سکون کے طلبگار، اور اخلاقی زوال سے پریشان ہیں۔ قرآن نے پہلے ہی اعلان کر دیا تھا کہ ”يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّـهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّـهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ“ (الصف: 8) کہ ”یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ سے بجھا دیں، لیکن اللہ اپنے نور کو مکمل کر کے رہے گا، چاہے کافر کتنے ہی ناپسند کریں۔“ اور سچ یہ ہے کہ نور کا مقابلہ اندھیرے سے ممکن نہیں، اور حق کا دبایا جانا جتنا بھی ممکن ہو، اس کا ابھرنا طے شدہ حقیقت ہے۔ کوئی بھی غیر جانبدار، انصاف پسند، اور تعصب سے پاک ذہن جب اسلام کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کے سامنے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام نہ صرف ایک مذہب ہے بلکہ ایک ہمہ گیر نظامِ زندگی ہے، ایسا نظام جو انسان کی فطرت سے ہم آہنگ، دل و دماغ دونوں کو مطمئن کرنے والا، اور ہر دور کے تقاضوں کا جامع حل فراہم کرنے والا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی جدید ترین، تعلیم یافتہ اور ترقی یافتہ قوموں کے افراد بھی اسلام کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ وہ اسلام کو محض روایتی عقائد نہیں بلکہ ایک مربوط، سائنسی، عملی، اور پرامن طرزِ حیات کے طور پر اپنا رہے ہیں۔


اسلام کا غلبہ اب دور کی بات نہیں رہا، بلکہ ہر دن، ہر لمحہ، یہ غلبہ ذہنوں اور دلوں میں راسخ ہو رہا ہے۔ مغربی پروپیگنڈہ، میڈیا کی مہمات، اسلاموفوبیا، اور شدت پسند تحریکیں سب مل کر بھی اسلام کے اس پرامن، علمی اور روحانی غلبے کو روکنے سے قاصر ہیں۔ کیونکہ اسلام ایک فطری دین ہے، اور فطرت کے خلاف کوئی بھی طویل جنگ جیتی نہیں جا سکتی۔ ”اسلام غالب آئے گا“ یہ محض ایمان کا تقاضہ نہیں، بلکہ تاریخ، عقل، سچائی، اور زمینی حقائق کی صدا بھی یہی ہے۔

اس دنیا کے آفاق پر، رحمت کا بادل چھائے گا

اور پاک سے پاکیزہ تر، پورا عالم ہوجائے گا

پھر کفر کا ،الحاد کا، سکہ نہ چلنے پائے گا

پیغمبرِ اسلام کا، پرچم یہاں لہرائے گا

اسلام غالب آئے گا، اسلام غالب آئے گا


فقط والسلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

23؍ جون 2025ء بروز پیر


+918495087865

mdfurqan7865@gmail.com


#Islam #Muslim #Religion #PaighameFurqan #MTIH #TIMS

Monday, 23 June 2025

یوگا کے فکری یلغار کے خلاف جرأت مند قیادت کی صدا..!

{ پیام فرقان - 18 }

🎯 یوگا کے فکری یلغار کے خلاف جرأت مند قیادت کی صدا..!

✍️ بندہ محمّد فرقان عفی عنہڈ

(ائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


جب کبھی ملت اسلامیہ کسی فکری یلغار یا تہذیبی حملے کا سامنا کرتی ہے، تو ایسے نازک وقت میں امت کو ان ہی رہنماؤں کی ضرورت ہوتی ہے جو بروقت صحیح آواز بلند کریں، شعور بخشیں اور ایمان کی حفاظت کا راستہ دکھائیں۔ عالمی یوگا ڈے کی شکل میں جو تہذیبی فتنہ سامنے آیا، وہ محض ایک جسمانی ورزش کا عنوان نہیں بلکہ درحقیقت ایک گہرا مذہبی اور عقیدتی مسئلہ ہے، جس کی جڑیں برہمنی نظام عبادت اور مشرکانہ افکار سے پیوستہ ہیں۔ ایسی صورتحال میں امت کو گمراہی سے بچانے کے لیے اہلِ علم و بصیرت کا بروقت اقدام ہی اصل رہنمائی ہے۔

اس موقع پر ایک طرف مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست اور جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر حضرت مولانا مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب مدظلہ نے جس جرأت، حکمت اور وضاحت کے ساتھ علمائے کرام، ائمہ مساجد اور خطباء حضرات کو متوجہ کیا کہ وہ جمعہ کے خطبات میں اس مسئلے کو موضوع بنائیں، وہ نہایت قابلِ تحسین اور بروقت اقدام تھا۔ دوسری طرف ریاست کرناٹک کی سب سے بڑی اور مرکزی مسجد، جامع مسجد بنگلور کے خطیب حضرت مولانا مفتی ڈاکٹر محمد مقصود عمران رشادی صاحب مدظلہ نے اپنے خطبہ جمعہ میں اس مسئلے پر صدائے حق بلند کی، جس کا دینی، فکری اور عملی اثر ریاست بھر میں دیکھا گیا۔ ان حضرات کی آواز محض الفاظ نہ تھی، بلکہ ایمان کی چنگاری تھی جس نے سینکڑوں دلوں کو بیدار کیا، اور متعدد والدین نے خود اعتراف کیا کہ ان علماء کی اپیل سننے کے بعد انہوں نے یوگا اور سوریہ نمسکار جیسے مشرکانہ پروگراموں سے خود کو اور اپنے بچوں کو الگ رکھا، اور اپنے ایمان کو محفوظ رکھنے کا فیصلہ کیا۔

مزید برآں، آج جب ہمارے معاشرے میں دینی شعور کمزور ہوتا جا رہا ہے، میڈیا گمراہی پھیلانے کا سب سے مؤثر ہتھیار بن چکا ہے، اور فتنہ پرور عناصر نئی نسل کے ذہنوں کو مذہبی الجھنوں میں مبتلا کرنے کے لیے مختلف انداز سے راہ ہم وار کر رہے ہیں، ایسے میں اگر علمائے کرام کی آواز خاموش ہو جائے، منبر و محراب سے رہنمائی بند ہو جائے، تو عام مسلمان کس دروازے پر دستک دے گا؟ عوام کی اکثریت علماء، ائمہ اور خطباء کے بیان سے اپنی دینی سمجھ اور عقیدہ کی حفاظت کرتی ہے۔ اس لیے یہ وقت صرف ردعمل کا نہیں بلکہ پیشگی بصیرت اور تحفظ ایمان کے لیے منظم رہنمائی کا تقاضا کرتا ہے۔ ایسے وقت میں جب فکری فتنہ نرمی سے دلوں میں اتارا جا رہا ہو، علماء کی جرأت مندانہ رہنمائی ہی سب سے بڑی نعمت ہوتی ہے۔

یہی تو قیادت کی اصل روح ہے۔ قائد وہی ہوتا ہے جو حالات کی نزاکت کو سمجھے، بروقت زبان کھولے، امت کو صرف جذبات سے نہیں بلکہ دلیل، شریعت اور بصیرت سے راہ دکھائے۔ ایسے رہنما ملت کے اصل سرمایہ اور فکری محافظ ہوتے ہیں، جن کی وجہ سے امت کی شناخت، دینی حمیت اور ایمانی غیرت باقی رہتی ہے۔ اگر علماء خاموش ہو جائیں، ائمہ لاتعلق بن جائیں اور خطباء مصلحت کے پردے اوڑھ لیں، تو امت گمراہیوں میں ڈوب جائے گی۔ الحمدللہ، حضرت مفتی افتخار احمد قاسمی اور حضرت مفتی محمد مقصود عمران رشادی جیسے علماء نے جو کردار ادا کیا، وہ رہنماؤں کے لیے ایک مثال اور ملت کے لیے رحمت بن گیا۔ اللہ تعالیٰ ان حضرات کو سلامت رکھے، اور ملت کو ایسے ہی بصیرت مند، بے خوف، اور حق گو قائدین عطاء فرمائے، جو ہر دور کے فتنوں میں امت کی کشتی کو کنارے تک پہنچا سکیں۔ آمین یارب العالمین

فقط و السلام
بندہ محمّد فرقان عفی عنہ
23؍ جون 2023ء بروز پیر
منہاج نگر، بنگلور بعد نماز ظہر

+918495087865
mdfurqan7865@gmail.com

#PayameFurqan #Yoga #YogaDay #پیام_فرقان
#ShortArticle #MTIH #TIMS #Islam #Muslim

Thursday, 19 June 2025

عالمی یوگا ڈے: ایمان کا امتحان یا جسمانی ورزش کا فریب؟

 عالمی یوگا ڈے: ایمان کا امتحان یا جسمانی ورزش کا فریب؟


✍️ بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


اس وقت دنیا میں ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت تہذیبی یلغار کو فروغ دینے کی کوششیں مسلسل جاری ہیں۔ انسان کی شناخت، اس کی تہذیب، اس کی مذہبی وابستگی اور اس کے عقائد کو ملیا میٹ کر کے اسے ایک مخصوص سانچے میں ڈھالنے کا کام کیا جا رہا ہے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی ”عالمی یوگا ڈے“ (International Yoga Day) ہے، جسے ہندوتوا نظریے کی حامل حکومت کی تجویز پر اقوام متحدہ نے منظور کیا، اور ہر سال 21؍ جون کو دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔ اگرچہ اسے صحت، ورزش اور جسمانی فٹنس (Physical Fitnes) کے نام پر پیش کیا جاتا ہے، مگر درحقیقت اس کی جڑیں خالصتاً ایک مخصوص مذہب اور عقیدے سے جڑی ہوئی ہیں، جس کا مقصد آہستہ آہستہ غیر ہندو قوموں خصوصاً مسلمانوں کو ایک برہمنی نظام فکر و عبادت کی طرف مائل کرنا ہے۔

یوگا صرف ایک جسمانی مشق نہیں بلکہ برہمن ویدک مذہب (Brahmanical Vedic Religion) کا ایک بنیادی جزو ہے۔ قدیم ہندو متون جیسے ”یوگا سوترا“ (Yoga Sutras) اور ”بھگوت گیتا“ (Bhagavad Gita) میں یوگا کو ”موکش“ (Moksha) یعنی نجات کے راستے کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ یوگا کے مختلف آسن دراصل ہندو دیوی دیوتاؤں کے سامنے جھکنے، ان کی پرستش کرنے اور جسم و روح کو برہمن (ہندو عقیدے کے مطابق کائناتی روح) سے ملا دینے کا ذریعہ سمجھے جاتے ہیں۔ سب سے زیادہ متنازع اور اسلام کے اصولوں کے بالکل منافی ”سوریہ نمسکار“ ہے، جو سورج کو دیوتا مان کر اس کے سامنے جھکنے، اس کی حمد و ثنا بیان کرنے اور اس کی پرستش پر مبنی ہوتا ہے۔ اس میں جو منتر پڑھے جاتے ہیں، وہ سراسر شرکیہ ہیں اور انسان کو توحید کے راستے سے ہٹا کر شرک کی گہرائیوں میں لے جاتے ہیں۔


اسلام ایک خالص توحیدی مذہب ہے، جس کی بنیاد ”لا الٰہ الا اللہ“ پر ہے۔ مسلمان صرف اللہ کے سامنے جھکتا ہے، اور صرف اسی کو سجدہ کرتا ہے۔ نہ وہ سورج، چاند، ستارے، درخت یا پتھر کو معبود مانتا ہے اور نہ ہی ان کے سامنے جھکتا ہے۔ قرآن نے واضح طور پر کہا: ”وَلا تَرْکَنُوا إِلَی الَّذِینَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ“ (سورہ ہود، آیت 133) یعنی ”ظالموں کی طرف جھکاؤ بھی نہ اختیار کرو، ورنہ تمہیں بھی آگ پکڑ لے گی۔“ لہٰذا جو بھی انسان اسلامی عقیدے پر مضبوطی سے قائم ہے، وہ کسی صورت یوگا جیسی مشرکانہ رسموں میں شرکت نہیں کر سکتا۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں آیا ہے کہ: ”مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُمْ“ (سنن أبی داود) یعنی ”جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا، قیامت کے دن اسی کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔“ یہ حدیث اس بات پر کھلی دلیل ہے کہ مسلمانوں کے لیے غیر مسلم اقوام کی مذہبی رسومات، تہوار، اور عبادات میں کسی قسم کی شرکت یا مشابہت جائز نہیں ہے۔ یوگا اور سوریہ نمسکار نہ صرف ہندوانہ عبادات کا حصہ ہیں بلکہ انہیں ”روحانی ورزش“ (Spiritual Exercise) کے طور پر پیش کر کے مسلمانوں کو فریب میں مبتلا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، تاکہ وہ انجانے میں بھی ان مشرکانہ اعمال کا حصہ بن جائیں۔


مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے دین کی بنیادوں کو مضبوط کریں، توحید کے مفہوم کو اچھی طرح سمجھیں، اور اپنے بچوں کو بھی اس فکری حملے سے بچائیں۔ افسوس کہ آج کچھ اسکول، کالج اور سرکاری ادارے اپنے طلبہ کو یوگا کے لیے مجبور کرتے ہیں، اور بعض مسلمان والدین محض لاعلمی یا معاشرتی دباؤ کے تحت اپنے بچوں کو ان پروگراموں میں بھیج دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ صرف ایک شرکت نہیں بلکہ ایمان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ جو شخص دانستہ طور پر یوگا یا سوریہ نمسکار جیسی مشرکانہ رسومات میں شامل ہوتا ہے، وہ درحقیقت اپنے عقیدے کی بنیاد کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ کچھ لوگ دلیل دیتے ہیں کہ ”ہم تو صرف ورزش کے طور پر یوگا کرتے ہیں، ہمیں اس کی مذہبی حیثیت سے کوئی لینا دینا نہیں۔“لیکن اسلام کی نظر میں کسی عمل کی نیت سے زیادہ اس کی ماہیت اور اصل حیثیت بھی دیکھی جاتی ہے۔ مثلاً کوئی شخص اگر کعبہ کی طرف منہ کر کے سجدہ کرے تو وہ عبادت ہے، لیکن اگر وہی عمل کسی بت یا سورج کی طرف رخ کر کے کیا جائے، تو وہ عبادت نہیں بلکہ شرک بن جائے گا، چاہے نیت کچھ بھی ہو۔ اسی طرح یوگا کی اصل حیثیت چونکہ ایک مذہبی رسم ہے، اس لیے اسے ورزش کا نام دینا محض خود فریبی ہے۔ علمائے کرام اور فقہائے اسلام نے یوگا کے بارے میں واضح فتوے دیے ہیں کہ چونکہ یہ ہندوانہ مذہب سے جڑا ہوا عمل ہے، لہٰذا اس میں شرکت یا اس کو اپنانا ناجائز و حرام ہے۔ ام المدارس دارالعلوم دیوبند اور دیگر بڑے اسلامی ادارے متعدد بار یہ وضاحت کر چکے ہیں کہ یوگا کی ترویج دراصل ایک برہمنی ایجنڈے کا حصہ ہے اور اس سے مسلمانوں کو ہر قیمت پر بچنا چاہیے۔ ان فتوؤں کی روشنی میں ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ خود بھی ان چیزوں سے بچے اور دوسروں کو بھی روکے۔


آج ہمارے معاشرے میں دینی شعور کی کمی، میڈیا کے پروپیگنڈے، اور تعلیم یافتہ طبقے کی غفلت کے باعث مسلمانوں کے گھروں میں بھی یوگا کو فیشن اور صحت کی علامت سمجھا جانے لگا ہے۔ حتیٰ کہ بعض مسلمان ٹی وی چینلز پر یوگا سیکھتے اور سکھاتے نظر آتے ہیں۔ یہ نہ صرف دین سے دوری کی علامت ہے بلکہ ایک سنگین گمراہی ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ جسمانی صحت کی بہت ساری شکلیں اور متبادل ورزشیں موجود ہیں، جیسے واک (Walking)، جاگنگ (Jogging)، سائیکلنگ (Cycling)، تیراکی (Swimming) وغیرہ، جن کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ اور مسلمانوں کے لیے سب سے جامع اور پاکیزہ ورزش، نماز ہے، یہ مسلمان کے لیے صرف عبادت نہیں بلکہ کامل ورزش بھی ہے۔ اس سے بڑھ کر صحت بخش اور روح افزا مشق دنیا میں کوئی نہیں۔ تو پھر آخر ہم کیوں ان مشرکانہ رسومات کا سہارا لیں، جو ہمارے ایمان کو خطرے میں ڈال سکتی ہیں؟ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

یوگا کی رسمیں شرک کا پیغام ہیں

مسلم ہے وہی جو توحید کا غلام ہے


یہ بات بھی قابل غور ہے کہ یوگا ڈے کو مرکزی، ریاستی اور ضلعی سطح پر سرکاری تعاون کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ اسکولوں، کالجوں، دفاتر اور دیگر اداروں تک میں اس کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اگر مسلمانوں کو اس میں شرکت پر مجبور کیا جائے تو یہ مذہبی آزادی پر کھلی چوٹ ہے، جسے ہرگز قبول نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت کا آئین ہر شہری کو اپنے مذہب پر عمل کرنے اور کسی مذہبی رسم میں شرکت نہ کرنے کا حق دیتا ہے۔ اس کے باوجود اگر کوئی مسلمان بچہ یا طالب علم یوگا میں شرکت پر مجبور کیا جاتا ہے تو والدین اور سرپرستوں کو چاہیے کہ وہ اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کریں، اسکول انتظامیہ کو تحریری شکایت دیں اور آئینی حقوق کا استعمال کرتے ہوئے اپنے بچوں کے ایمان کی حفاظت کریں۔


ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ایمان اللہ تعالیٰ کی سب سے قیمتی نعمت ہے۔ اگر ایمان محفوظ رہا تو سب کچھ محفوظ ہے، اور اگر ایمان چلا گیا تو کچھ بھی باقی نہ رہا۔ دنیا کی وقتی کامیابی، معاشرتی قبولیت، یا وقتی آرام کبھی بھی ہمارے ایمان کا بدل نہیں ہو سکتی۔ ہمیں اپنی آئندہ نسلوں کو دینی شعور دینا ہوگا، انہیں توحید کا مفہوم سکھانا ہوگا، اور ہر اس چیز سے دور رکھنا ہوگا جو ان کے ایمان کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ لہٰذا تمام اہل ایمان پر فرض بنتا ہے کہ وہ پوری بصیرت، ایمانی غیرت اور دینی شعور کے ساتھ اس حقیقت کو دل و جان سے تسلیم کریں کہ یوگا اور سوریہ نمسکار محض جسمانی ورزش نہیں، بلکہ درحقیقت ایک ایسی مذہبی رسم ہے جس کی جڑیں خالص مشرکانہ عقائد میں پیوست ہیں، اور جو اسلام کے توحیدی عقیدے سے سراسر متصادم ہے۔ ایسے اعمال میں شرکت نہ صرف مسلمانوں کے ایمان کے لیے خطرناک ہے، بلکہ رفتہ رفتہ یہ عمل ان کے عقیدے کو مجروح کر کے انہیں فکری گمراہی کی طرف لے جا سکتا ہے۔ ہمیں چاہیئے کہ ہم خود بھی ان ہندوانہ رسومات سے مکمل علیحدگی اختیار کریں، اپنے بچوں کو اس کے فتنوں سے محفوظ رکھیں، اور اپنے اہلِ خانہ، دوستوں، تعلیمی اداروں اور پورے معاشرے کو بھی اس فکری یلغار کے خطرات سے آگاہ کریں، خاص طور پر علماء، ائمہ و خطباء حضرات اپنے خطاب جمعہ اور جلسوں میں اس پر روشنی ڈالیں۔ یہ محض ایک انفرادی مسئلہ نہیں بلکہ ایک اجتماعی ذمہ داری ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم تعلیمی اداروں، سرکاری محکموں، اور حکومتی پالیسی سازوں کے سامنے پُرامن مگر جرأت مندانہ انداز میں احتجاج کریں، آئینی دائرے میں رہتے ہوئے آرٹیکل 25 کے تحت اپنے مذہبی حقوق کا دفاع کریں، اور اس بات پر زور دیں کہ کسی بھی قوم کو اس کے مذہب کے خلاف کسی رسم یا عبادت میں شریک کرنے پر مجبور کرنا نہ صرف آئینی جرم ہے بلکہ انسانی حقوق کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔ یہی وقت ہے کہ ہم نیند سے بیدار ہوں، مصلحت کی چادر کو جھاڑ کر کھڑے ہوں، اور اپنی نسلوں کے ایمان و عقیدہ کو ہر اس چیز سے بچائیں جو ان کے دین کے لیے زہر قاتل ہے۔ یہ وقت بے حسی، لاپرواہی یا خاموشی کا نہیں، بلکہ بیداری، شعور، اور اقدام کا ہے۔ کیونکہ ایمان ایک ایسی دولت ہے کہ اگر وہ سلامت ہے تو دنیا کی ہر محرومی معمولی لگتی ہے، اور اگر ایمان چلا جائے تو دنیا کی ساری کامیابیاں اور عزتیں خاک میں مل جاتی ہیں۔ ہمیں اس حقیقت کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ایمان کی حفاظت دنیا کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے، اور اسی میں ہماری دنیا و آخرت کی کامیابی مضمر ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایمان پر استقامت عطا فرمائے، باطل تہذیبوں کے دھوکوں سے محفوظ رکھے، اور ہر دور کے فتنوں سے ہمیں اور ہماری نسلوں کو سلامت رکھے۔ آمین یا رب العالمین۔

جھکنے نہ پائے سجدہ غیر میں پیشانی

یہی تو شان ہے ملت کی، یہی ایمانی


فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

19؍ جون 2025ء بروز جمعرات


#Yoga #YogaDay #SuryaNamaskaar #Surya #mdfurqanofficial #PaighameFurqan

شرکیہ اقوال پر مشتمل یوگا اور سوریہ نمسکار کی اسلام میں قطعی اجازت نہیں: مفتی افتخار احمد قاسمی

شرکیہ اقوال پر مشتمل یوگا اور سوریہ نمسکار کی اسلام میں قطعی اجازت نہیں: مفتی افتخار احمد قاسمی

علماء، ائمہ و خطباء حضرات جمعہ کے خطبات میں امت کو بیدار کریں!

بنگلور، 19؍ جون (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست اور جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر مفتی افتخار احمد قاسمی نے ایک اخباری بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ہر سال 21؍ جون کو منایا جانے والا ”عالمی یوگا ڈے“ درحقیقت ایک فکری و دینی آزمائش بن چکا ہے۔ اسے بظاہر جسمانی صحت، فٹنس اور ورزش کے نام پر پیش کیا جاتا ہے، لیکن اس کے پس پردہ برہمن ویدک مذہب کی مشرکانہ رسوم کی ترویج کا ایک منظم منصوبہ کارفرما ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ یوگا اور بالخصوص سوریہ نمسکار صرف جسمانی مشق یا ورزش نہیں بلکہ خالص مشرکانہ عقائد اور برہمنی عبادات کا حصہ ہیں۔ ان میں استعمال ہونے والے ”آسن“، ”منتر“ اور حرکات ہندو مذہب کے دیوی دیوتاؤں کی پرستش پر مبنی ہیں۔ سوریہ نمسکار میں تو باقاعدہ سورج کو دیوتا مان کر سجدہ کیا جاتا ہے، جو اسلام کے توحیدی عقیدے سے کھلا تصادم ہے۔ مفتی صاحب نے فرمایا کہ طلوع اور غروبِ آفتاب کے وقت شریعت نے مسلمانوں کو نماز سے روکا ہے، تاکہ سورج کے پجاری یہ نہ سمجھیں کہ مسلمان بھی سورج کو سجدہ کر رہے ہیں۔ جب عبادت کے لیے بھی شریعت ایسی احتیاط برتتی ہے، تو کیا مشرکانہ رسوم جیسے سوریہ نمسکار اور یوگا کی شرکت کی کوئی گنجائش دی جا سکتی ہے؟ ہرگز نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ”یوگا“ ایک تہذیبی یلغار اور فکری حملہ ہے، جسے ”روحانی ورزشُ“ کے نام پر عام مسلمانوں کو غفلت یا فریب کے تحت اس میں شامل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ امت کے ایمان اور تشخص کے لیے ایک خطرناک چال ہے جس سے بیداری، بصیرت اور شعور کے ساتھ نمٹنے کی ضرورت ہے۔ مفتی افتخار احمد قاسمی نے تمام علماء کرام، ائمہ مساجد اور خطباء حضرات سے پرزور اپیل کی کہ وہ اس جمعہ کے خطابات میں یوگا اور سوریہ نمسکار کی شرعی حیثیت پر کھل کر گفتگو کریں، اور عوام کو اس فتنہ سے بچنے کی تاکید کریں۔ ان حالات میں والدین اور سرپرستاں کی بھی اہم دینی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو شرکیہ اقوال پر مشتمل یوگا اور سوریہ نمسکار کے کسی بھی پروگرام میں شامل ہونے سے بچائیں۔ انہوں نے آئینی حق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بھارتی آئین کی دفعہ 25؍ ہر شہری کو اپنے مذہب پر عمل کرنے اور کسی دوسری مذہبی رسم میں شرکت نہ کرنے کا مکمل حق دیتا ہے۔ اگر کسی تعلیمی ادارے یا دفتر میں زبردستی یوگا یا سوریہ نمسکار میں شامل کیا جائے تو یہ آئین کی کھلی خلاف ورزی ہے، جس کے خلاف قانونی چارہ جوئی اور تحریری شکایت کی جانی چاہیے۔ آخر میں مفتی افتخار احمد قاسمی نے فرمایا ایمان اللہ تعالیٰ کی سب سے قیمتی نعمت ہے، اس کی حفاظت ہر مسلمان پر فرض ہے۔ یہ صرف فرد کا نہیں بلکہ امت کا اجتماعی فریضہ ہے، اور اس مشن میں ائمہ و خطباء کا کردار سب سے نمایاں ہے۔ خاموشی، غفلت اور مصلحت پسندی اس فتنہ کو مزید پھیلنے دے گی۔ اب وقت ہے کہ ہم بیدار ہوں، اور اپنے عقیدے، تہذیب اور نسلوں کو باطل تہذیبوں کی یلغار سے محفوظ رکھیں۔



#PressRelease #News #Yoga #YogaDay #InternationalYogaDay #IftikharAhmedQasmi #MTIH #TIMS #SuryaNamaskaar