Saturday, 26 July 2025

اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ، غیرتِ ایمانی کا امتحان ہے!

 اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ : غیرتِ ایمانی کا امتحان ہے! 

✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند) 

یقیناً کچھ لمحے ایسے آتے ہیں جب انسانیت چیخ اُٹھتی ہے، جب ضمیر دہاڑتا ہے، جب دل کے اندر ایسی آگ بھڑکتی ہے کہ لفظ اس کا ساتھ دینے سے عاجز ہوجاتے ہیں۔ فلسطین کی سرزمین پر، غزہ کی گلیوں میں، بیت المقدس کے سائے میں، ایک سال سے بھی زائد عرصہ سے جو کچھ ہورہا ہے، وہ صرف قتل و غارت گری نہیں، وہ انسانیت کی توہین، بچوں کی آہیں، ماؤں کی سسکیاں، اور بے گھر لوگوں کی تڑپ ہے۔ وہ لاشیں نہیں جو زمین پر گری ہوئی ہیں، وہ جیتی جاگتی زندگیاں تھیں، خواب تھیں، خواہشیں تھیں، اور ہمارے جیسے انسان تھے جنہیں صہیونی درندوں نے بموں، میزائلوں اور گولیوں سے روند ڈالا۔ فلسطین میں مرنے والوں کی تعداد اب دو لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے، جن میں زیادہ تر معصوم بچے، کمزور خواتین اور نہتے بزرگ شامل ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں لاشیں اٹھتی ہیں، گھروں کے ملبے سے بچوں کی لاشیں نکالی جاتی ہیں، ماں کی گود سے اس کا لعل چھین لیا جاتا ہے، اور ایک نسل کو صفحہئ ہستی سے مٹانے کی منظم کوشش کی جارہی ہے۔


یہ کوئی وقتی جنگ نہیں، یہ دہائیوں پر محیط ظلم و ستم کا تسلسل ہے، جس کی منصوبہ بندی صہیونی دماغوں نے کی ہے اور جس کو انجام تک پہنچانے کیلئے امریکہ جیسے سامراجی طاقتوں نے اپنے اسلحے، پیسوں اور اقوام متحدہ جیسے اداروں کی بے حسی کے ساتھ تعاون دیا ہے۔ اسرائیل کی جارحیت اب صرف غزہ، رفح اور نابلس تک محدود نہیں رہی، بلکہ اس کا ہدف پورے عالم اسلام کو کمزور کرنا، مسلمانوں کی غیرت کو مار ڈالنا اور اسلامی شعور کو مٹا دینا ہے۔ جب امریکہ اسرائیل کے حق میں کھڑے ہوکر اسلحہ فراہم کرتا ہے، جب یورپی ممالک انسانی حقوق کا نعرہ لگاتے ہوئے فلسطینی بچوں کے قتل پر خاموش رہتے ہیں، جب اقوام متحدہ صرف قراردادیں منظور کرکے اپنی جان چھڑاتا ہے، تو ایسی دنیا میں مظلوموں کی آخری امید خود امت مسلمہ کے افراد ہوتے ہیں۔


ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم بے بس ہیں؟ کیا ہم کچھ نہیں کر سکتے؟ کیا ہمارے ہاتھوں میں کوئی طاقت نہیں؟ نہیں! ہم بے بس نہیں، ہمارے پاس ایک طاقت ہے، ایک ایسا ہتھیار جو دشمن کی بنیادیں ہلا سکتا ہے، اور وہ ہے ”بائیکاٹ“! ہاں، ان کمپنیوں کا مکمل بائیکاٹ جو اسرائیل کی پشت پناہی کرتی ہیں، جو صہیونی فوج کو مالی مدد فراہم کرتی ہیں، جو اپنے منافع سے فلسطینی بچوں کی قبریں کھودتی ہیں، اور جو ہمارے پیسوں سے ہمیں ہی مارنے کیلئے اسرائیلی اسلحہ ساز کمپنیوں کو سرمایہ فراہم کرتی ہیں۔ہم جو جب کسی سوپرمارکیٹ میں خریداری کرتے ہیں، جب کسی فاسٹ فوڈ چین میں کھانا کھاتے ہیں، جب کسی مشروب کو پیاس بجھانے کیلئے حلق سے نیچے اتارتے ہیں، ہم نہیں جانتے کہ ہم دراصل کن ہاتھوں کو پیسہ دے رہے ہیں۔ ہمیں یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہی کمپنیاں جیسے Coca-Cola, Pepsi, Nestlé, McDonald's, Starbucks, Domino's, KFC, Maggi اور Unilever وغیرہ جیسی کمپنیاں اسرائیل کو نہ صرف معاشی سہارا دے رہی ہیں بلکہ کئی مرتبہ صہیونی فوج کو براہ راست امداد فراہم کرتی ہیں۔ تحقیقی رپورٹس کے مطابق ان کمپنیوں کا بڑا سرمایہ اسرائیلی مارکیٹ میں گردش کرتا ہے، اور ان کے منافع کا حصہ ان تنظیموں کو جاتا ہے جو فلسطین میں نسل کشی کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔


ابھی 2023ء کے اختتام پر شائع ہونے والی AFSC کی ایک تحقیق میں انکشاف کیا گیا کہ امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو ملنے والی سالانہ 3.8 بلین ڈالر کی امداد کے علاوہ بڑی کارپوریٹ کمپنیاں بھی کروڑوں ڈالرز کی رقم براہ راست یا بالواسطہ صہیونی اداروں کو دیتی ہیں۔ ایسی کمپنیوں میں سب سے نمایاں Starbucks ہے، جس کی انتظامیہ نے اسرائیل کی کھل کر حمایت کی اور فلسطین کی حمایت میں بولنے والے اپنے ملازمین کو نوکری سے برخاست کیا۔ McDonald'sنے اسرائیلی فوجیوں کو مفت کھانا فراہم کیا۔ HP اور Intel جیسی ٹیکنالوجی کمپنیاں اسرائیلی سیکیورٹی سسٹم کی تیاری میں براہ راست شریک ہیں۔ Coca-Cola کا مرکزی پلانٹ اسرائیل کے مقبوضہ علاقوں میں واقع ہے اور اس کا CEO کھل کر صہیونی عزائم کی حمایت کرتا ہے۔


فلسطین سالیڈیریٹی کیمپین اور BDS موومنٹ کی تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ اگر پوری دنیا کے مسلمان ان کمپنیوں کا صرف 20 فیصد بائیکاٹ کریں، تو ان کا سالانہ نقصان 30 بلین ڈالر سے زائد ہوسکتا ہے۔ جب کوئی کمپنی یا ادارہ صہیونی ریاست اسرائیل کی مالی مدد کر رہا ہو، اور اس کی مصنوعات کی خریداری سے ظالم کو تقویت ملتی ہو، تو ایسی صورت میں ان مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا صرف جذباتی ردعمل نہیں بلکہ شرعی ذمہ داری بن جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں صاف فرمایا: ”وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَی الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ“ (سورۃ المائدہ: 2) کہ ”گناہ اور زیادتی (ظلم) کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔“ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اپنے بھائی کی مدد کرو، خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔“عرض کیا گیا: مظلوم کی تو مدد سمجھ آتی ہے، مگر ظالم کی کیسے؟ فرمایا: ”اسے ظلم سے روک کر“ (صحیح بخاری: 2444)۔ اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ دراصل ظالم کو ظلم سے روکنے کا عملی قدم ہے۔ اور اگر کوئی کمپنی کسی ایسی ریاست یا فوج کی مالی معاونت کرتی ہو جو مسلمانوں پر ظلم کر رہی ہو، تو اس کے بائیکاٹ کا مطالبہ نہ صرف شرعاً درست بلکہ واجب کے قریب ہے۔ لہٰذا، اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ صرف ایک اخلاقی اقدام نہیں بلکہ ایک شرعی فریضہ ہے، جو ہر غیرت مند مسلمان پر لازم ہے۔ Bloomberg اور Reuters کی رپورٹس کے مطابق صرف عرب ممالک میں 2023 ء میں ہونے والے جزوی بائیکاٹ کی وجہ سے McDonald'sکو ایک چوتھائی خسارہ ہوا اور Middle East Eye کے رپورٹ کے مطابق کئی ممالک میں ان کے آؤٹ لیٹس بند کرنے پڑے۔ اسی طرح Coca-Cola کو خلیجی ممالک میں اپنی برانڈ ویلیو کھونا پڑی۔ اگر یہی بائیکاٹ مکمل اور منظم ہو، تو ان کمپنیوں کے مالی مفادات کو کاری ضرب لگائی جاسکتی ہے، اور اسرائیل کو عالمی سطح پر تنہائی کی طرف دھکیلا جاسکتا ہے۔


ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ کیا ایک مشروب ہماری غیرت سے زیادہ قیمتی ہے؟ کیا ایک برگر یا چکن پیس اتنا اہم ہے کہ اس کے بدلے ہم کسی فلسطینی بچے کی لاش کا سودا کرلیں؟ جب ہم Starbucks کی کافی پیتے ہیں تو کیا ہمیں وہ تصویر یاد آتی ہے جس میں ایک بچہ اپنی ماں کی لاش سے لپٹا ہوا تھا؟ جب ہم Nestlé کے چاکلیٹ کھاتے ہیں تو کیا ہم بھول جاتے ہیں کہ غزہ میں مائیں اپنے بچوں کو نمک ملا پانی پلا کر سلانے پر مجبور ہیں؟ یہ بائیکاٹ صرف معاشی اقدام نہیں، یہ ضمیر کی پکار ہے، یہ ایمان کی صداقت ہے، یہ مظلوموں کے ساتھ ہمارے ربط کا ثبوت ہے۔


آج سوشل میڈیا پر کئی ایسی رپورٹس گردش کر رہی ہیں جو ثابت کرتی ہیں کہ اسرائیلی مصنوعات کے خلاف بائیکاٹ نے اسرائیلی معیشت کو دھچکا پہنچایا ہے۔ الجزیرہ کے ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل میں 2024ء کے دوران گھریلو مصنوعات کی فروخت میں 17 فیصد کمی آئی اور براہ راست سرمایہ کاری میں 23 فیصد کمی دیکھی گئی۔ یہ محض اعداد و شمار نہیں، بلکہ ان بچوں کی دعائیں ہیں جن کے ماں باپ کو زندہ جلایا گیا، یہ ان ماؤں کی آہیں ہیں جو اپنے بچوں کی لاشیں اٹھا اٹھا کر تھک چکی ہیں۔ جب ہم ان مصنوعات کا بائیکاٹ کرتے ہیں، تو ہم ظالم کو براہ راست پیغام دیتے ہیں کہ ہم خاموش تماشائی نہیں، بلکہ امت کا زندہ ضمیر ہیں۔اسلامی شریعت بھی ہمیں یہی حکم دیتی ہے کہ ظالم کے خلاف آواز بلند کی جائے، اور اگر قوت نہ ہو تو کم از کم دل میں نفرت اور معاشی بائیکاٹ کے ذریعے اس کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا جائے۔ اگرہمارے ذریعہ ظالم حکمران کی مدد مالی طور ہورہی ہوتوگویا یہ ظلم میں شرکت مترادف ہے۔ تو جو کمپنی ظلم کی پشت پناہی کرے، اس کی مصنوعات خریدنا کیا ہے؟ کیا یہ ظلم میں حصہ داری نہیں؟


یہ صرف انفرادی عمل نہیں ہونا چاہیے، بلکہ ادارہ جاتی سطح پر بھی اس کو منظم کیا جانا چاہیے، اور الحمدللہ، مرکز تحفظ اسلام ہند نے اس حوالے سے ایک بڑی خدمت انجام دی ہے۔ ایک تین ماہ کی تفصیلی تحقیق کے بعد ایک ایسی فہرست مرتب کی گئی ہے جس میں ان تمام مصنوعات کا احاطہ کیا گیا ہے جو اسرائیل یا اس کے معاونین سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ فہرست نہ صرف درست اور مستند ہے بلکہ اس میں ہر پراڈکٹ کے پیچھے موجود کمپنی اور اس کا اسرائیل سے تعلق بھی تحقیق کے ساتھ درج ہے۔ مرکز تحفظ اسلام ہند نے یہ فہرست ملک بھر کی تنظیموں، اداروں اور عوام الناس تک پہنچانے کی کوشش کی ہے تاکہ لوگ بیدار ہوں اور اس تحریک کا حصہ بنیں۔ یہ وقت غیرتِ ایمانی کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم اسرائیلی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں۔ یہ محض ایک مہم نہیں، یہ ضمیر کا فیصلہ، دل کی پکار، اور ایمان کا امتحان ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کون اس آزمائش میں سرخرو ہوتا ہے اور کون رسوا۔ ہم یا تو ظلم کے خلاف کھڑے ہو سکتے ہیں، یا اپنی بے حسی سے قاتلوں کے معاون بن سکتے ہیں۔ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔


اب وقت آچکا ہے کہ ہم دو ٹوک فیصلہ کریں۔ یا تو ہم فلسطین کے ان بچوں کا ساتھ دیں جو ہر روز شہید ہو رہے ہیں، یا ان کمپنیوں کا جو ان کے قاتلوں کو طاقت فراہم کر رہی ہیں۔ ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم کس کے ساتھ ہیں؛ مظلوموں کے یا ظالموں کے؟ اگر ہم واقعی ایمان رکھتے ہیں، اگر ہماری غیرت ابھی زندہ ہے، اگر ہمارے دل میں امت کا درد ہے، تو ہمیں آج سے، اسی لمحے سے ان تمام اسرائیلی اور ان کے مددگار کمپنیوں کے مصنوعات کا مکمل، غیر مشروط، اٹل بائیکاٹ کرنا ہوگا۔ یہ صرف بائیکاٹ نہیں ہوگا، بلکہ مظلوم فلسطینیوں کے زخموں پر مرہم ہوگا، اور ظالم اسرائیل کے وجود پر ضربِ کاری۔


ابھی نہیں تو کب؟ ہم نہیں تو کون؟ خدارا اٹھو! خریدو نہیں، جھاڑ دو ان پراڈکٹس کو، نکال دو انہیں اپنے گھروں سے، دکانوں سے، دلوں سے۔ کیونکہ جب آخرت میں ہم سے پوچھا جائے گا کہ تم نے کیا کیا تھا؟ تو ہم کم از کم یہ تو کہہ سکیں گے: اے اللہ! ہم نے ظالم کا ساتھ نہیں دیا، ہم نے مظلوم کا ساتھ دیا، ہم نے ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا تھا۔


فقط والسلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

26؍ جولائی 2025ء بروز سنیچر 


+91 8495087865

mdfurqan7865@gmail.com


#BoycottIsraelProducts | #IsraelProducts | #Palestine | #Gaza | #IndianMuslims | #MTIH | #TIMS | #PaighameFurqan

Thursday, 24 July 2025

”بس جرم ہے اتنا کہ مسلمان ہیں ہم لوگ!“

 ”بس جرم ہے اتنا کہ مسلمان ہیں ہم لوگ!“

(11/7 ممبئی لوکل ٹرین بم دھماکہ : 12؍ مسلم نوجوان 19؍ سال بعد باعزت بری) 

”انصاف“ کے نام پر انیس سال کی سزا“..!

✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)



انیس برس کے طویل اندھیرے کے بعد بالآخر وہ روشنی جھلکی جس کی امید وقتاً فوقتاً دم توڑتی رہی۔ بامبے ہائی کورٹ نے 7/11 ممبئی لوکل ٹرین بم دھماکہ کیس میں دہشت گردی کے الزام میں قید بارہ مسلم نوجوانوں کو باعزت بری کر دیا۔ عدالت نے نہ صرف مکوکا عدالت کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دیا، بلکہ ان کے خلاف دیے گئے اقبالیہ بیانات اور تمام سرکاری گواہیوں کو بھی ناقابل قبول مانا۔ یہ فیصلہ اگرچہ عدالتی نظام میں آئینی انصاف کی ایک روشن مثال بن کر سامنے آیا، مگر اس کی چمک میں ان انیس برسوں کا وہ ظلم چھپا نہیں جا سکتا جو ان نوجوانوں نے جیل کی کال کوٹھریوں میں جھیلا۔ انصاف آیا، مگر ایک ایسے وقت جب زندگی کا سب کچھ بکھر چکا تھا۔


07؍ جولائی 2006ء کی شام ممبئی کی لوکل ٹرینیں موت کا کارواں بن گئی تھیں۔ یکے بعد دیگرے ہونے والے دھماکوں نے شہر کی روح کو لرزا دیا، ایک 189 جانیں چھن گئیں، سینکڑوں افراد زخمی ہوئے، اور ہر جانب چیخ و پکار کا عالم برپا ہو گیا۔ حکومت پر سوالات کی بارش شروع ہوئی، اور دباؤ میں آ کر جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا، وہ وہی تھے جو سب سے زیادہ بے بس تھے؛ مسلم نوجوان، 

یہ وہ نوجوان تھے جنہیں دہشت گردی کے الزامات میں صرف ان کے مذہب کی بنیاد پر گھسیٹا گیا۔ نہ کوئی پختہ ثبوت، نہ کوئی گواہ، نہ کوئی فارنسک بنیاد، صرف مذہب اور نام کی بنیاد پر انہیں اٹھا لیا گیا۔ تفتیشی اداروں نے ان سے جھوٹے اقبالیہ بیانات حاصل کیے، میڈیا نے انہیں مجرم ٹھہرا دیا، اور عوام کے ذہنوں میں نفرت کے بیج بو دیے گئے۔ برسوں تک یہ نوجوان جیل میں سڑتے رہے، ایک ایک دن ان پر قیامت بن کر گزرتا رہا، اور سچائی پر پردے ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی رہی۔


آخرکار 2025ء میں بامبے ہائی کورٹ نے اپنے تفصیلی فیصلے میں کہا کہ ان نوجوانوں کے خلاف کوئی قابل قبول ثبوت موجود نہیں، سرکاری گواہیاں مشتبہ اور اقبالیہ بیانات غیر قانونی ہیں، اور پوری تفتیشی کہانی محض مفروضوں پر مبنی تھی۔ یہ فیصلہ اگرچہ ان افراد کو آزادی دے گیا، مگر قوم کے ضمیر پر ایک ایسا دھبہ لگا گیا جو شاید کبھی مٹ نہ سکے۔ سوال یہ نہیں کہ ان ملزمین کو رہا کر دیا گیا، سوال یہ ہے کہ ان کی جوانی کیوں چھین لی گئی؟ ان کے خاندانوں کو کیوں برباد کیا گیا؟ اور کیوں انصاف کو انیس برس لگ گئے؟ کیا یہ فیصلہ انصاف کہلائے گا یا ایک ایسے سسٹم پر فردِ جرم ہے، جو جرم سے زیادہ کسی کی مذہبی شناخت کو مجرم بنانے پر آمادہ ہے؟


ان بے قصور نوجوانوں کی زندگیاں تباہ ہوگئیں۔ ان میں سے کئی کی شادیوں کے رشتے ٹوٹ گئے تو کئی کی شادیاں ہی ختم ہو گئیں، کئی کے ماں باپ انصاف کی آس میں دنیا سے رخصت ہو گئے، کئی کے بچے باپ ہونے کے باوجود یتیمی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے اور کئی نے جیل کی سلاخوں کے پیچھے اپنی جوانی، خواب، عزت، وقت اور مستقبل سب کچھ گنوا دیا۔ یہ سب وہ سزائیں تھیں جو عدالت سے پہلے سنائی جا چکی تھیں۔انہیں صرف مجرم بنا کر جیل میں نہیں ڈالا گیا بلکہ ان کے گھروں کو برباد کیا گیا، ان کی نسلوں کا مستقبل تاریک کر دیا گیا اور ان کی شناخت کو داغدار کیا گیا۔ اور سب کچھ صرف اس لیے کیونکہ وہ مسلمان تھے۔ 


حکومتیں بدلتی رہیں، وزرائے داخلہ، وزرائے قانون آتے جاتے رہے، لیکن ان بے قصور نوجوانوں کی فائلیں عدالت کی کسی دھول بھری الماری میں پڑی رہیں۔ اس دوران کئی مجرم آزاد گھومتے رہے، کئی اصل سازشی عناصر سیاسی پناہ لیتے رہے، اور کچھ کو "قومی ہیرو" کے طور پر پیش کیا جاتا رہا۔ یہ معاملہ محض چند افراد کی زندگی کا نہیں، یہ پورے ملک کے نظامِ انصاف، پولیس، تحقیقاتی ایجنسیوں، میڈیا اور حکومتوں کی اجتماعی ناکامی اور مجرمانہ غفلت کی علامت ہے۔ جب بامبے ہائی کورٹ نے کہا کہ ان کے خلاف نہ کوئی ثبوت ہے، نہ کوئی چشم دید گواہ، نہ کوئی سائنسی یا فارنسک معاونت، تب پوری قوم کو یہ سوچنے پر مجبور ہونا پڑا کہ اگر کچھ بھی نہیں تھا تو انہیں 19؍ سال تک کیوں قید رکھا گیا؟ اس کا سیدھا سا جواب ہے: کیونکہ وہ مسلمان تھے۔ ایک بار پھر ریاست نے مسلمانوں کے ساتھ وہی سلوک کیا جو پہلے بھی کیا جاتا رہا ہے؛ نہ کوئی گارنٹی، نہ کوئی تحفظ، نہ کوئی رعایت، اور نہ کوئی معذرت۔


اس پورے اندھیرے میں ایک چراغ وہ تنظیم تھی جسے جمعیۃ علماء ہند کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ وہ ادارہ ہے جس نے قانونی محاذ پر ان نوجوانوں کی پیروی کی، ان کے خاندانوں کو سہارا دیا، بہترین وکلاء کا انتظام کیا، عدالتی اخراجات برداشت کیے، اور ہر محاذ پر ان کے ساتھ کھڑا رہا۔ اگر جمعیۃ نہ ہوتی تو شاید یہ فیصلہ کبھی نہ آتا۔ مولانا ارشد مدنی کی قیادت میں جمعیۃ نے برسوں اس کیس کو زندہ رکھا، قانونی ٹیم بنائی، دلائل پیش کیے، جھوٹ کو بے نقاب کیا اور بالآخر ان معصوموں کو رہائی دلوائی۔ یہ کام صرف ایک ادارے کا نہیں بلکہ پوری ملت کا تھا، لیکن افسوس کہ پوری ملت نے خاموشی اختیار کی، اور صرف جمعیۃ نے اپنا فرض نبھایا۔


یہ پہلا واقعہ اور ایک دو ناموں پر محدود نہیں۔ ہمیں مفتی عبد القیوم قاسمی کا کیس یاد ہے، جنہیں اکشردھام حملے میں جھوٹے طور پر پھنسا کر گیارہ سال تک اذیت دی گئی۔ ہمیں وہ ہزاروں مسلم نوجوان یاد ہیں جنہیں ٹاڈا، پوٹا اور مکوکا جیسے کالے قوانین کے تحت گرفتار کیا گیا، برسوں قید رکھا گیا، اور آخرکار عدالتوں نے انہیں باعزت بری کیا۔ ہمیں مولانا انظر شاہ قاسمی جیسے علماء یاد ہیں جنہیں بغیر کسی جرم کے میڈیا نے دہشت گرد بنا کر پیش کیا، لیکن آخر میں عدالت نے انہیں بے قصور مانا۔ ہمیں کشمیر کے وہ پانچ نوجوان یاد ہیں جو 23 سال بعد باعزت بری ہوئے تھے، ان کے ماں باپ قبروں میں جا چکے تھے، ان کی جوانی قبرستان بن چکی تھی، اور ان کی واپسی پر صرف آنسو، سناٹا اور سوال باقی رہ گئے تھے۔  یہ فہرست طویل ہے کشمیر سے کنیاکماری تک، گجرات سے مغربی بنگال تک، یہ قصے ہر جگہ دہرائے جا رہے ہیں۔ ہر علاقے سے ایسے ہزاروں کیسز سامنے آتے ہیں جہاں مسلمان نوجوانوں کو صرف ان کی شناخت کی بنیاد پر نشانہ بنایا گیا۔ آج بھی ملک کی مختلف جیلوں میں ہزاروں مسلمان نوجوان ایسے الزامات میں قید ہیں جن کا کوئی ثبوت نہیں، جن کے مقدمات کی سماعت نہیں ہو رہی، جنہیں ضمانت نہیں دی جا رہی اور جنہیں وکیل میسر نہیں آ رہا۔ ان کے خلاف صرف اور صرف پولیس کی کہانی ہے، جسے میڈیا سچ بنا کر پیش کرتا ہے، اور عدالتیں برسوں بعد غلط ثابت کرتی ہیں۔ لیکن جب تک عدالتیں فیصلہ سناتی ہیں، تب تک اس کی پوری زندگی تباہ ہو چکی ہوتی ہے۔


عدالتی نظام کی سست روی اور تفتیشی ایجنسیوں کی تعصب زدہ روش نہ صرف انفرادی المیوں کو جنم دیتی ہے بلکہ ایک پوری قوم کو احساسِ کمتری میں مبتلا کر دیتی ہے۔ 19؍ سال بعد اگر عدالت فیصلہ دیتی ہے تو یہ انصاف نہیں، بلکہ نظام کی ناکامی کا اعلان ہے۔ اس فیصلے میں خوشی کم، شرمندگی زیادہ ہے۔ سب سے شرمناک پہلو یہ ہے کہ پولیس، اے ٹی ایس، اور تفتیشی ایجنسیوں نے جو ثبوت عدالت میں پیش کیے، وہ خود ان کے منہ پر طمانچہ بن کر سامنے آئے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں صاف لکھا کہ پولیس کی کہانی میں جھول ہے، ملزمان کی موجودگی کے شواہد مشکوک ہیں، ان کے اقبالیہ بیانات قانون کے مطابق نہیں لیے گئے، اور پورے کیس میں متعدد نقائص ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سب کچھ جان بوجھ کر کیا گیا۔ مقصد اصل مجرم کو پکڑنا نہیں تھا، بلکہ فوری طور پر کسی کو پکڑ کر کیس بند کرنا تھا، اور اس کے لیے سب سے آسان شکار مسلمان تھے۔


اور میڈیا؟ جسے معاشرے کا ضمیر کہا جاتا ہے، وہ اس معاملے میں سب سے بڑا مجرم ہے۔ گرفتاری کے فوراً بعد ان نوجوانوں کی تصویریں دکھا دکھا کر چیخ چیخ کر بتایا گیا کہ "دہشت گرد پکڑے گئے"۔ مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو شک کی نظر سے دیکھا گیا، دینی مدارس کو دہشت گردی کا گڑھ قرار دیا گیا، اور عام مسلمان کو ایک مشتبہ مخلوق بنا دیا گیا۔ پھر جب عدالت نے کہا کہ یہ سب بے قصور تھے تو کوئی معذرت نہیں، کوئی ندامت نہیں، کوئی پچھتاوا نہیں۔ میڈیا نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ ان کی خبروں نے کتنے گھروں کو برباد کیا، کتنے رشتے توڑے، کتنی ملازمتیں چھن گئیں، اور کتنے ذہنوں میں نفرت کے بیج بوئے۔


سوال یہ ہے کہ جب عدالت نے سب گواہوں، اقبالیہ بیانات اور شواہد کو مسترد کر دیا تو اتنے سال تک ان نوجوانوں کو قید میں رکھنے کی بنیاد کیا تھی؟ اور سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ اصل مجرموں کو پکڑنے کے بجائے پولیس نے صرف اپنی فائلیں بند کرنے کیلئے مسلمانوں کو قربانی کا بکرا بنایا۔ لیکن کیا ان افسروں پر مقدمہ چلے گا جنہوں نے جھوٹے کیس بنائے، بے بنیاد ثبوت گھڑے، اذیتیں دیں؟ کیا ان ایجنسیوں سے سوال کیا جائے گا جنہوں نے معصوم نوجوان کو دہشت گرد بنا کر پیش کیا؟ کیا ان سیاستدانوں سے سوال ہوگا جنہوں نے مجرموں کی گرفتاری کے نام پر سیاسی واہ واہی لوٹی؟ کیا میڈیا سے جواب طلب کیا جائے گا؟ افسوس کہ نہیں! کیونکہ اس ملک میں مسلمان کا انصاف مانگنا بھی خود ایک جرم بن چکا ہے۔


عدالتوں سے رہا ہو جانا انصاف نہیں کہلاتا، جب تک ظلم کرنے والوں کو سزائیں نہ دی جائیں، اور متاثرین کو ازالہ نہ دیا جائے۔ اس وقت ان نوجوانوں کے پاس نہ کوئی روزگار ہے، نہ کوئی نفسیاتی سہارا، نہ ریاستی مدد، نہ کوئی رسمی معافی۔ وہ برسوں کی اذیتیں لے کر باہر نکلے ہیں، مگر زندگی کی گاڑی اب بھی پٹری سے اتری ہوئی ہے۔ اگر ان بے قصور پر ظلم کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوئی، تو کیا یہی انصاف ہے؟ اگر ان افسران پر جنہوں نے سازش رچی ان پر مقدمہ نہیں چلایا گیا تو یاد رکھیں کہ پھر اگلے کسی حادثے میں کوئی اور قاسم، کوئی اور کلیم، کوئی اور عرفان نشانہ بنے گا اور عنقریب ہم بھی ان کے نشانے پر ہونگے! 


ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ ایسے کیسز کے بعد مسلمانوں کا عدلیہ اور نظامِ انصاف پر جو اعتماد مجروح ہوتا ہے، اس کی تلافی کیسے ہوگی؟ کیا عدالتیں صرف ثبوت کی بنیاد پر ہی فیصلہ دیں گی، یا اس نظام کے اندر موجود تعصب، نفرت اور استحصال کو بھی دیکھیں گی؟ جب مسلمان نوجوان ہر دھماکے کے بعد پہلے ملزم بن جاتے ہیں، اور برسوں بعد بے قصور قرار دیے جاتے ہیں، تو پھر قوم کا اعتماد ٹوٹتا ہے، دلوں میں ناامیدی جڑ پکڑتی ہے، اور سماج میں فاصلے بڑھتے ہیں۔ 7/11 کیس میں جو کچھ ہوا وہ ایک مکمل ریاستی و ادارہ جاتی ناکامی تھی۔ یہ ایک آزاد ملک کے اس "سیکولر" ڈھانچے پر سوالیہ نشان ہے جو اقلیتوں کو برابری کے حقوق دینے کا دعویٰ کرتا ہے۔ اس کیس نے ثابت کر دیا کہ مذہبی اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں کو ایک مخصوص بیانیہ کے تحت نشانہ بنایا جاتا ہے، انہیں شکوک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اور ان کے خلاف مقدمات بنانے کے لیے پولیس، ایجنسیاں، اور میڈیا سب مل کر کام کرتے ہیں۔ اس ظالمانہ سسٹم میں عدالت صرف آخری دروازہ بن کر رہ جاتی ہے، جو اگر انصاف کرے بھی تو بہت دیر سے کرتی ہے۔


قوم کے سامنے اب دو راستے ہیں: یا تو ہم خاموشی سے ہر بار یہی تماشا دیکھتے رہیں گے، یا پھر ہم منظم ہو کر اس سسٹم کو چیلنج کریں گے۔ ہمیں قانونی میدان میں مضبوطی لانا ہوگی، ہر کیس کی پیروی کرنی ہوگی، میڈیا کی نگرانی کرنی ہوگی، اور مظلوموں کی داد رسی کو دینی و ملی فریضہ سمجھنا ہوگا، کیونکہ آج جو ان نوجوانوں کے ساتھ ہوا، وہ کل کسی اور کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ اور اگر ہم خاموش رہے تو کل شاید ہمارا بھی نمبر ہو۔ اب وقت آ چکا ہے کہ ہم صرف رہائی کی خبر پر خوش ہونا چھوڑ دیں، اور ان سوالات کو بنیاد بنائیں جو اس نظام کے کھوکھلے پن کو بے نقاب کرتے ہیں۔ ہمیں متحد ہو کر مطالبہ کرنا ہوگا کہ ان نوجوانوں کو مکمل انصاف دیا جائے، سرکاری معافی، مالی ازالہ، نفسیاتی بحالی، روزگار کی ضمانت، اور سب سے بڑھ کر ان کے ساتھ ظلم کرنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔ انہیں نشانِ عبرت بنایا جائے تاکہ آئندہ کوئی معصوم صرف مذہب کی بنیاد پر قربانی کا بکرا نہ بنے۔ اگر ہم اب بھی خاموش رہے، تو ظلم کا یہ پہیہ رکنے والا نہیں، بلکہ کل کو پوری قوم اس کی زد میں آ سکتی ہے۔


اس فیصلے نے ہمیں ایک تلخ حقیقت کا سامنا کروایا ہے کہ جب ریاستی طاقت مذہبی تعصب کے تابع ہو جائے تو قانون صرف ایک دکھاوا بن جاتا ہے، اور انصاف کی کرسی پر بیٹھنے والا اگر وقت پر سچ نہ بولے تو وہ خود جرم میں شریک ہو جاتا ہے۔ مگر ہمیں مایوس نہیں ہونا، ہار نہیں ماننی۔ ہمیں اپنے مظلوم بھائیوں کے لیے مسلسل آواز بلند کرتے رہنا ہے، قانونی میدان میں مضبوطی سے جمے رہنا ہے، میڈیا کے زہریلے کردار کا محاسبہ کرنا ہے، اور اپنی نسلوں کو یہ شعور دینا ہے کہ سچ کو دبایا جا سکتا ہے، مگر ختم نہیں کیا جا سکتا؛ آخرکار وہ سامنے آتا ہے، اگر ہم ڈٹے رہیں۔ یہ فیصلہ درحقیقت عدالت کا نہیں بلکہ ظلم کے خلاف ایک گواہی ہے، اور یہ رہائی انصاف کی فتح نہیں بلکہ ریاستی نظام کی ناکامی کا اقرار ہے۔ ہمیں اس وقت تک لڑنا ہے جب تک ہر بے گناہ قیدی آزاد نہ ہو جائے، ہر جھوٹے مقدمے کو ختم نہ کر دیا جائے، ہر ایجنسی جواب دہ نہ بن جائے، اور ہر مسلمان کو یہ اعتماد حاصل نہ ہو جائے کہ اس ملک میں اس کی جان، عزت اور ایمان محفوظ ہے۔ یہ کیس ہمارے لیے ایک سبق بھی ہے اور انتباہ بھی؛ سبق اس لیے کہ ہمیں اپنی نئی نسل کو قانون، عدلیہ اور میڈیا کے مکر و فریب سے واقف کرانا ہوگا، انہیں اپنی حفاظت کے لیے شعور اور تیاری دینا ہوگی، اور ظلم کے خلاف ایک منظم تحریک اٹھانی ہوگی اور آخیر تک لڑائی لڑنی ہے کیونکہ یہ صرف انصاف کی نہیں، انسانی وقار، مذہبی آزادی اور قومی سلامتی کی بھی لڑائی ہے۔ اور انتباہ اس لیے کہ اگر ہم اب بھی غفلت میں رہے تو یہ ظلم دوبارہ کسی اور شہر، کسی اور نام، کسی اور حادثے کی آڑ میں سر اٹھا سکتا ہے، اور اگلا فیصلہ شاید پھر انیس سال بعد آئے؛ تب جب ہم شاید بہت کچھ کھو چکے ہوں۔ اور ہوسکتا ہے کہ آج اگر ہم خاموش رہے تو کل شاید ہمارا ہی نمبر ہو!  

اس دیش میں برسوں سے پریشان ہیں ہم لوگ 

بس جرم ہے اتنا کہ مسلمان ہیں ہم لوگ


فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

23؍ جولائی 2025 ء بروز بدھ


#MumbaiTrainBlast #InnocentMuslim #Jamiat #ArshadMadani #MTIH #TIMS #PaighameFurqan


Tuesday, 22 July 2025

”یومِ صحابہؓ“ کا پیغام ملتِ اسلامیہ کے نام!

 ”یومِ صحابہؓ“ کا پیغام ملتِ اسلامیہ کے نام!

✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ 

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


امتِ مسلمہ کی تاریخ کا ہر ورق ان عظیم نفوسِ قدسیہ کی قربانیوں سے روشن ہے، جنہیں دنیا ”صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین“ کے نام سے جانتی ہے۔ یہ وہ عظیم ہستیاں ہیں جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کی معیت میں دینِ اسلام کی آبیاری کی، اس کے لیے ہجرتیں کیں، صعوبتیں اٹھائیں، مال و جان قربان کیے، اور تاریخِ انسانی میں بے مثال وفاداری کا مظاہرہ کیا۔ وہ نہ صرف نبی مکرم ﷺ کے ہم نشین تھے بلکہ وہ اولین مخاطب اور عامل تھے اُس وحی الٰہی کے جو قیامت تک انسانیت کی ہدایت کا ذریعہ ہے۔ 


لیکن افسوس! آج جب امتِ مسلمہ کو اپنے ماضی سے رشتہ جوڑنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، کچھ فتنہ پرور عناصر اسی ماضی کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کی ناپاک کوششوں میں مصروف ہیں۔ صحابہ کرامؓ کی عظمت و توقیر، جن پر قرآن گواہ ہے اور سنتِ نبوی شاہد، آج اُن کے کردار پر زبان درازی، شبہات اور طعن و تشنیع کے تیر برسائے جا رہے ہیں۔ کبھی اجتہادی اختلافات کو بنیاد بنا کر فتنے اٹھائے جاتے ہیں، تو کبھی سوشل میڈیا کو ہتھیار بنا کر نئی نسل کے اذہان کو گمراہ کرنے کی سازشیں کی جاتی ہیں۔


ایسے پرفتن ماحول میں ”یومِ صحابہؓ“ کا انعقاد صرف ایک دینی تقویمی عمل نہیں بلکہ بیداری، شعور، غیرتِ ایمانی، اور اتحادِ ملت کی ایک عملی تحریک تھی۔ اس دن کا پیغام، دراصل ایک عہد کی تجدید تھی: کہ ہم اپنے اسلاف، اپنے محسنین، اپنے معلمینِ اولین کے دفاع میں ہر میدان میں حاضر ہیں۔ اس دن نے ہمیں یاد دلایا کہ جن صحابہؓ کے ذریعے ہمیں قرآن ملا، حدیث ملی، دین کی حقیقت ملی، آج اگر اُن پر انگلی اٹھے تو گویا ہم پر دین کی بنیادیں لرزنے لگتی ہیں۔


”یومِ صحابہؓ“ ہمیں بتا گیا کہ صحابہ کرامؓ معیارِ حق ہیں۔ ان کے فیصلے، ان کا فہم، ان کی سیرت اور ان کی قربانیاں نہ صرف ماضی کی شان ہیں بلکہ آج کے فتنوں کا توڑ اور آنے والے کل کے لیے ہدایت کی روشنی ہیں۔ ان کی شخصیتیں ہمیں یہ سبق دے گئی کہ دین کے لیے جینا کیا ہوتا ہے، وفا کیسے نبھائی جاتی ہے، اور حق کی خاطر قربانی کیسے دی جاتی ہے۔


مرکز تحفظ اسلام ہند کی تحریک پر اور اکابر علماء کرناٹک کی اپیل پر ریاست کرناٹک میں 18؍ جولائی 2025ء بروز جمعہ کو منایا گیا ”یومِ صحابہؓ“ صرف ایک ریاستی مہم نہ تھی، بلکہ ایک امت گیر پیغام تھا کہ جب صحابہؓ کی عزت پر حملہ ہو، تو کوئی کلمہ گو خاموش نہ رہے۔ ریاست بھر کی ہزاروں علماء، ائمہ و خطباء اس پیغام میں شریک ہوئے، اور اپنی آہنی مساجد کے منبر و محراب سے اصحابِ رسول ﷺ کے عدل و تقویٰ، زہد و اخلاص، قربانی و فداکاری، علم و بصیرت اور غیر متزلزل وفاداری پر خطبات دیے۔ اس تحریک نے نہ صرف مساجد کے ماحول کو روشن کیا بلکہ نوجوان نسل کے دلوں میں محبتِ صحابہؓ کی شمع بھی فروزاں کر دی۔


آج کا نوجوان سوشل میڈیا کے دباؤ، مغرب زدہ ذہنیت، اور خود ساختہ مفکرین کی گمراہ کن باتوں کے بیچ جھول رہا ہے۔ اس کی رہنمائی صرف وہی کر سکتے ہیں جو اسے دین کی اصل بنیادوں سے جوڑیں۔ اور دین کی اصل بنیادیں وہی صحابہؓ ہیں جنہوں نے سچائی کو نبی ﷺ سے لیا، دل و جان سے قبول کیا، اور پوری امت تک پہنچایا۔ اس لیے ”یومِ صحابہؓ“ کے ذریعے جو شعور دیا گیا وہ وقتی نہیں، بلکہ دائمی پیغام ہے۔ یہ امت کے لیے ایک بیداری کا آغاز ہے کہ اب خاموشی کی گنجائش نہیں۔


”یومِ صحابہؓ“ نے ایک فکری و علمی محاذ کی بھی نمائندگی کی۔ اس دن اہلِ قلم، خطباء، محدثین، مفسرین، اور ہر ذی شعور مسلمان نے یہ عہد کیا کہ وہ دین کے ان بنیادی محافظوں کے بارے میں کسی بھی قسم کی گستاخی، توہین یا طعنہ زنی کو برداشت نہیں کریں گے۔ اہلِ علم نے یہ اعلان کیا کہ صحابہ کرامؓ کے عدل، تقویٰ، علم، زہد، اور بصیرت پر نہ صرف یقین رکھتے ہیں بلکہ اُسے امت کی فکری بنیاد مانتے ہیں۔ کیونکہ اگر صحابہؓ پر اعتماد اٹھ جائے تو قرآن کی حفاظت، حدیث کی صداقت، اور دین کی تمام روایتیں مشکوک ہو جاتی ہیں۔ لہٰذا ان کی عظمت پر ایمان رکھنا دراصل دین پر ایمان رکھنے کے مترادف ہے۔


”یومِ صحابہؓ“ ہمیں یہ بھی سکھا گیا کہ وحدتِ امت کیسے قائم کی جائے۔ صحابہ کرامؓ کی صفات میں سب سے بڑی صفت یہ تھی کہ وہ ”وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا....“ کے عملی نمونہ تھے۔ وہ قوم، نسل، زبان یا قبیلہ کی بنیاد پر نہیں بلکہ صرف دین کی بنیاد پر جُڑے تھے۔ اسی بنیاد پر اسلام نے دنیا میں ایک نئی تہذیب، نئی سیاست، نئی معاشرت اور نیا نظام قائم کیا۔ آج جب امت لسانیت، قومیت، فرقہ واریت، اور خود ساختہ تصورات میں بٹ چکی ہے، تو صحابہؓ کی سیرت ہمیں وحدت کی راہ دکھاتی ہے۔


کرناٹک میں منعقد ہونے والا ”یومِ صحابہؓ“ اسی وحدت، ایمان، غیرت اور شعور کا عملی مظاہرہ تھا۔ ریاستی سطح پر جو آواز بلند ہوئی، وہ گونجی تو بیرون ریاست کے کئی علاقوں میں بھی علماء نے اسی جذبے کو اپنایا اور یومِ صحابہؓ منایا۔ یہ بات واضح ہو گئی کہ جب دین کے بنیادی ستونوں پر حملہ ہوتا ہے تو امت بیدار ہوتی ہے، متحد ہوتی ہے، اور اپنے دفاع کے لیے میدان میں آ جاتی ہے۔ امت کا یہ متحدہ موقف دراصل اس بات کا مظہر ہے کہ صحابہ کرامؓ کے خلاف اٹھنے والی کوئی بھی آواز امت کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔


اس دن کا پیغام یہ بھی ہے کہ دین کے دشمن صرف تلوار سے حملہ نہیں کرتے، وہ ذہنوں کو مسموم کرتے ہیں، سوالات کی شکل میں شکوک پیدا کرتے ہیں، عقیدے کو بے وزن بناتے ہیں، اور نوجوانوں کو تاریخ سے کاٹنے کی چالاکی کرتے ہیں۔ لیکن جب امت کا ہر فرد، ہر خطیب، ہر امام، ہر معلم اور ہر قلمکار میدان میں اتر آتا ہے تو پھر یہ فتنے خود بخود دم توڑ دیتے ہیں۔


”یومِ صحابہؓ“ نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ صحابہ کرامؓ صرف تاریخی شخصیات نہیں بلکہ ہمارے ایمان کا حصہ ہیں۔ ان کی محبت ایمان کی علامت، اور ان کی توہین نفاق کی نشانی ہے۔ اس لیے یہ دن صرف ایک تقریری دن نہیں، بلکہ ایک عملی عزم کا دن ہے کہ ہم صحابہؓ کے افکار، ان کی سیرت، ان کے اسوہ، ان کے عدل و فہم کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں گے۔ ہم نہ صرف ان کی عزت کی حفاظت کریں گے بلکہ ان کے راستے کو اپنی عملی زندگی میں اپنائیں گے۔


اس دن ہمیں یہ بھی سمجھنے کا موقع ملا کہ صحابہؓ کے متعلق فتنوں کی جڑیں کہاں ہیں، اور ان کا توڑ کیسے ممکن ہے۔ تعلیم، تربیت، تقریر، تحریر، اور عمل؛ یہ وہ پانچ میدان ہیں جن میں کام کر کے ہم آنے والی نسل کو فتنوں سے بچا سکتے ہیں۔ ”یومِ صحابہؓ“ نے ہمیں یہ شعور دیا کہ فتنوں کا مقابلہ صرف جذبات سے نہیں، علم، حکمت، اور تدبر سے بھی کرنا ہو گا۔ ہمیں اپنی مساجد کو تعلیمی مراکز بنانا ہو گا، اپنے مدارس کو فکری قلعے بنانا ہو گا، اور اپنے نوجوانوں کو صحابہ کرامؓ کی سیرت کا عاشق بنانا ہو گا۔


”یومِ صحابہؓ“ دراصل ایک امت گیر دعوت ہے کہ آئیے، اپنے دلوں کو صحابہؓ کی محبت سے روشن کریں، اپنی زبانوں کو ان کے تذکرہ سے پاک کریں، اپنی محفلوں کو ان کی سیرت سے مہکائیں، اور اپنی نسلوں کو یہ سبق دیں کہ دین ہم تک جن کے ذریعے پہنچا، وہ ہمارے لیے معیارِ حق ہیں، اور ان کی گستاخی دراصل دین کے خلاف جنگ ہے۔


یہ دن ہمیں یاد دلا گیا کہ دشمنانِ اسلام کی چالیں وقتی ہوتی ہیں، مگر امت کی غیرت جاگ جائے تو تاریخ بدل جاتی ہے۔ پس ”یومِ صحابہؓ“ نہ صرف ایک دن تھا بلکہ ایک تحریک تھا، ایک عزم تھا، ایک دعوت تھا، ایک روشنی تھا؛ جو ہمیں بتا گیا کہ جب ہم اصحابِ رسول ﷺ کے دامن کو تھام لیتے ہیں، تو دین کے قلعے مضبوط ہو جاتے ہیں، اور باطل کی تمام سازشیں خاک میں مل جاتی ہیں۔


اسی عزم، غیرت، اور اجتماعیت کی زندہ تصویر بن کر ”یومِ صحابہؓ“ سامنے آیا۔ ریاست بھر میں جس جوش، اتحاد، اور دینی شعور کا اظہار ہوا، اس نے یہ واضح پیغام دیا کہ صحابہ کرامؓ کے خلاف اٹھنے والا ہر فتنہ امت کے سینے سے ٹکرا کر بکھر جائے گا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس دن کے پیغام کو سال بھر کی مسلسل تحریک میں تبدیل کریں، اور ہر شعبۂ حیات میں صحابہؓ کی سیرت اور افکار کو بنیاد بنائیں، تاکہ آنے والی نسلیں گمراہی کی تاریکیوں کے بجائے صحابہؓ کی روشنی میں اپنے دین کو پہچان سکیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرامؓ کی محبت، وفاداری، اور دفاع کے راستے پر استقامت نصیب فرمائے، اور امتِ مسلمہ کو بیدار، متحد اور غیرت مند بنائے۔ آمین یا رب العالمین۔


فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

22؍ جولائی 2025ء بروز منگل



#Sahaba | #YaumeSahaba | #AzmateSahaba |#DifaeSahaba | #NamooseSahaba | #PaighameFurqan | #News | #Article | #MTIH | #TIMS

Monday, 21 July 2025

مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام ”کل ہند منقبتی و نعتیہ مشاعرہ“ کا انعقاد، ملک کے ممتاز شعرائے کرام کی شرکت!

 مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام ”کل ہند منقبتی و نعتیہ مشاعرہ“ کا انعقاد، ملک کے ممتاز شعرائے کرام کی شرکت!

منبرِ شعر و ادب کو ”دفاع صحابہؓ“ کا مضبوط قلعہ بنائیں: مفتی افتخار احمد قاسمی


بنگلور، 21؍ جولائی (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام عظیم الشان آن لائن ”کل ہند منقبتی و نعتیہ مشاعرہ“ کا انعقاد عمل میں آیا، جس میں ملک بھر سے ممتاز شعرائے کرام نے شرکت کی اور عظمت صحابہؓ، محبت رسول ﷺ اور غیرتِ ایمانی سے لبریز کلام پیش کیا۔ اس روح پرور ادبی و ایمانی محفل کا مقصد صحابہ کرامؓ کی عظمت، ناموس اور شانِ اقدس کا تحفظ نیز محبت نبوی ﷺ کے پیغام کو شعر و ادب کے قالب میں امت کے دلوں تک پہنچانا تھا۔ مشاعرہ کا انعقاد ایسے وقت میں کیا گیا جب محرم الحرام کے موقع پر بعض فرقہ پرست عناصر اہل بیت کی آڑ میں جلیل القدر صحابہ کرامؓ کی گستاخی کو اپنا معمول بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس عظیم الشان مشاعرہ کی صدارت مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست حضرت مفتی افتخار احمد قاسمی (صدر جمعیۃ علماء کرناٹک) نے فرمائی۔ آپ نے اپنے ایمان افروز صدارتی خطاب میں فرمایا کہ محرم الحرام آتے ہی بعض لوگ اہل بیت کے نام پر صحابہ کرامؓ کی گستاخی کرنا شروع کر دیتے ہیں، حالانکہ قرآن و حدیث میں تمام صحابہؓ کی عظمت بیان کی گئی ہے اور ان کے لیے جنت کی بشارتیں موجود ہیں۔ جو صحابہؓ پر زبان درازی کرے وہ گویا قرآن و سنت کے منکر ہیں۔ افسوس کہ کچھ لوگ اہل سنت والجماعت کہلاتے ہوئے بھی صحابہ کرامؓ کی تنقیص کرتے ہیں، حالانکہ صحابہؓ کے بغیر ہمیں دین تک نہیں پہنچتا، انہیں چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو اہل سنت والجماعت کہنا چھوڑ دیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت جو عناصر صحابہؓ پر حملہ کر رہے ہیں وہ اسلام پر حملہ آور ہیں اور ان کے خلاف ہر سطح پر محاذ کھولنا وقت کی ضرورت ہے۔ مولانا قاسمی نے فرمایا کہ مرکز تحفظ اسلام ہند کے اس مشاعرہ کے ذریعہ ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ شعر و ادب صرف جذبہ انگیز ذریعہ نہیں، بلکہ یہ ایمان کے پیغام کا قوی ترجمان بھی ہے، اور جب یہ سچائی کے علمبرداروں کے حق میں اٹھے تو یہ بھی میدانِ جہاد بن جاتا ہے۔ اسی لیے آج شعر و ادب کے منبر سے صحابہ کرامؓ کی ناموس کا دفاع کیا گیا، اور امت مسلمہ کو ایک جذباتی، دینی اور فکری پیغام دیا گیا کہ صحابہ کرامؓ کی عظمت کے تحفظ میں ہم ہر سطح پر آواز بلند کریں گے۔ مفتی صاحب نے تمام شعرائے کرام سے اپیل کی کہ وہ اپنے اجلاس اور محفلوں میں ناموسِ صحابہؓ کے تحفظ میں ہر ممکن کردار ادا کریں، اور اپنی کلام کے ساتھ شعر و ادب کے اس منبر کو بھی دفاعِ صحابہ کا مضبوط قلعہ بنائیں۔ اس موقع پر حضرت نے صحابہؓ کے مقام و مرتبہ، دینی خدمات اور اسلام کے فروغ میں ان کی قربانیوں کو دلنشین انداز میں اجاگر کیا۔ اس مشاعرہ میں شرکت کرنے والے اہم شعرائے کرام میں مولانا محمد مصعب قاسمی (چترادرگہ)، قاری عبد الباطن فیضی (فیض آباد)، قاری طاہر سعود کرتپوری (بجنور)، مولانا حسان احسن قاسمی (کشن گنج)، قاری انس کالوپوری (احمد آباد)، مولانا نصرت الباری مظاہری (پورنیہ)، قاری بدر عالم (چمپارن)، مولانا فدا حسین قاسمی (دہلی)، اور مولانا جعفر حسین قاسمی (باگلکوٹ) کے اسماء شامل ہیں۔ تلاوتِ قرآن پاک سے مشاعرہ کا آغاز قاری محمد ثاقب معروفی (مظفر نگر) نے کیا۔ قابل ذکر ہے کہ یہ عظیم الشان آن لائن ”کل ہند منقبتی و نعتیہ مشاعرہ“ مرکز تحفظ اسلام ہند کے شعبہئ قرأت و نعت کمیٹی کی زیر نگرانی منعقد ہوا۔ مشاعرہ کی نظامت مرکز کے رکن تاسیسی اور کمیٹی کے کنوینر قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی نے فرمائی، جبکہ مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان، آرگنائزر اور کمیٹی کے معاون کنوینر حافظ محمد حیات خان، رکن مولانا اسرار احمد قاسمی، قاری محمد عمران، محمد فرحان، تبریز عالم بطور خاص موجود تھے۔ مشاعرہ کے اختتام پر مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے صدر مشاعرہ، تمام شعرائے کرام، اور انتظامیہ کمیٹی کا شکریہ ادا کیا، اور صدر مشاعرہ کی دعا پر مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد یہ عظیم الشان آن لائن ”کل ہند منقبتی و نعتیہ مشاعرہ“ اختتام پذیر ہوا۔


#Sahaba | #YaumeSahaba | #PressRelease #AzmateSahaba |#DifaeSahaba | #NamooseSahaba | #News | #NamooseSahaba | #MTIH | #TIMS


Sunday, 20 July 2025

مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام عظیم الشان ”کل ہند منقبتی و نعتیہ مشاعرہ“، برادران اسلام سے شرکت کی اپیل!

 دفاعِ صحابہؓ کی تحریک میں شعر و ادب کا کردار: ایک زندہ و مؤثر ترجمان

مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام عظیم الشان ”کل ہند منقبتی و نعتیہ مشاعرہ“، برادران اسلام سے شرکت کی اپیل!

بنگلور، 20؍ جولائی (پریس ریلیز): صحابہ کرامؓ کی عظمت، امت مسلمہ کے ایمان کا حصہ ہے اور ان کی ناموس کا تحفظ، ہماری دینی، ایمانی اور تاریخی ذمہ داری ہے۔ حالیہ دنوں میں مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی عظیم الشان دس روزہ آن لائن ”عظمت صحابہؓ کانفرنس“ اور ریاست کرناٹک میں تاریخی ”یوم صحابہؓ“ کے انعقاد نے ملت اسلامیہ میں صحابہؓ سے محبت، عقیدت اور وفاداری کے جذبے کو پھر سے تازہ کیا ہے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر مرکز تحفظ اسلام ہند اب ایک عظیم الشان آن لائن ”کل ہند منقبتی و نعتیہ مشاعرہ“ منعقد کرنے جا رہا ہے، جس کا مقصد صحابہ کرامؓ کی عظمت کو خراجِ تحسین پیش کرنا اور عشقِ رسول ﷺ کے جذبے کو شاعری کے قالب میں امت تک پہنچانا ہے۔ مذکورہ خیالات کا اظہار مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ مشاعرہ نہ صرف ایک ادبی و روحانی نشست ہے بلکہ صحابہ کرامؓ کی شان میں کی جانے والی گستاخیوں کے منہ توڑ جواب کا ایک لطیف، مؤثر اور بیدار کن انداز بھی ہے۔ اس میں شعرائے اسلام اپنے ایمانی جذبات کو قلم و زبان کے ذریعے یوں پیش کریں گے کہ محبت صحابہؓ کے چراغ روشن ہوں اور گستاخ ذہنیت کے اندھیرے چھٹ جائیں۔ عظمت صحابہؓ کے موضوع پر یہ مشاعرہ دراصل زبانِ شعر میں دشمنانِ صحابہ کے خلاف امت کا متفقہ موقف اور غیرت ایمانی کا اظہار ہوگا۔


انہوں نے کہا کہ یہ مشاعرہ محض ایک ادبی نشست نہیں بلکہ ایک فکری و دینی پیغام کا حامل پروگرام ہے، جس کے ذریعہ ہم اس حقیقت کو اجاگر کرنا چاہتے ہیں کہ شعر و ادب اگر اسلامی روح اور شریعت کی حدود کے اندر رہ کر ہو، تو وہ دین کا مؤثر ترجمان بن سکتا ہے۔ بدقسمتی سے آج کل کے مروجہ مشاعرے اکثر شریعت سے ہٹے ہوئے طرز، بے حیائی، لغویات اور شعری آداب سے عاری ماحول کی عکاسی کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں دین، ادب اور معاشرت تینوں کا نقصان ہو رہا ہے۔ اس کے برعکس مرکز تحفظ اسلام ہند ایسے مشاعروں کی اصلاح کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہے، اور اسی مقصد کے تحت منقبت و نعت سے مزین ایسے مشاعرے منعقد کرتا ہے جو دینی مزاج، شعری لطافت اور ایمانی حرارت کا حسین امتزاج ہوں۔ محمد فرقان نے کہا کہ مرکز تحفظ اسلام ہند کا یہ مشاعرہ نہ صرف شعرائے اسلام کے لیے اپنی دینی وابستگی کے اظہار کا موقع فراہم کرے گا، بلکہ عوام کے لیے بھی ایک تربیتی پلیٹ فارم ثابت ہوگا، جہاں وہ شریعت کے دائرے میں رہ کر محبت رسول ﷺ اور عظمت صحابہؓ کے نغمے سن سکیں گے اور اپنے دلوں کو ایمان کی تازگی سے منور کر سکیں گے۔


مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے بتایا کہ یہ عظیم الشان آن لائن ”کل ہند منقبتی ونعتیہ مشاعرہ“ آج اتوار، 20؍ جولائی 2025 رات 8:30 بجے سے منعقد ہوگا، جس کی صدارت مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست حضرت مولانا مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب (صدر جمعیۃ علماء کرناٹک) فرما ئینگے۔ جبکہ یہ عظیم الشان مشاعرہ کے کنوینر مرکز کے رکن تاسیسی قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی اور معاون کنوینر حافظ محمد حیات خان ہیں، جو مرکز کے شعبہ قرأت و نعت کمیٹی کے بھی ذمہ دار ہیں۔ اس مشاعرے میں ملک کے ممتاز شعراء کرام بالخصوص مولانا محمدمصعب قاسمی (چترادرگہ، کرناٹک)، قاری عبد الباطن فیضی (فیض آباد، یو پی)، حافظ اسعد بستوی (بستی، یوپی)، طاہر سعود کرتپوری (بجنور، یوپی)، مفتی طارق جمیل (قنوج، یوپی)، مولانا حسان احسن قاسمی (کشن گنج، بہار)، قاری وجہ الدین جلال (کبیر نگر، یوپی)، قاری محمد انس کالوپوری (احمد آباد، گجرات)، مولانا نصرت الباری مظاہری (پورنیہ، بہار)، قاری بدر عالم (چمپارن، بہار)، مولانا فدا حسین قاسمی (دہلی)، قاری ضیاء الرحمن فاروقی (ڈائریکٹر تحفظ دین میڈیا، اورنگ آباد، مہاراشٹرا) بطور خاص شریک ہونگے اور اپنا کلام پیش کریں گے۔ پروگرام کا آغاز ان شاء اللہ قاری محمد ثاقب معروفی (مظفر نگر، یوپی) کی تلاوت قرآن مجید کے ذریعہ ہوگا۔ یہ پروگرام ر مرکز تحفظ اسلام ہند کے آفیشل یوٹیوب چینل اور فیس بک پیج تحفظ اسلام میڈیا سروس پر براہِ راست نشر کیا جائے گا۔


مرکز تحفظ اسلام ہند تمام شعرائے اسلام، علمائے کرام، دینی اداروں، مدارس و جامعات، نوجوانان ملت اور اہلِ ذوق حضرات سے دردمندانہ اپیل کرتا ہے کہ وہ اس منظم اور شریعت پسند ادبی تحریک کا حصہ بنیں۔ اپنے اشعار کے ذریعے دین کی سچائیوں، صحابہؓ کی سیرتوں اور رسول اللہ ﷺ کی عظمتوں کو اُجاگر کریں اور معاشرے میں مثبت، دینی اور غیرتمند شاعری کا رجحان قائم کریں۔ مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے کہا کہ ہم ملت کے تمام طبقات سے بھرپور شرکت اور تائید کی اپیل کرتے ہیں تاکہ دین و ادب کا یہ بابرکت سنگم پوری امت کے لیے رشد و ہدایت اور روحانی بالیدگی کا ذریعہ بنے۔





#Press_Release #News #Mushaira #AzmateSahaba #Sahaba #NamooseSahaba #DifaeSahaba #Naat #MTIH #TIMS