”بس جرم ہے اتنا کہ مسلمان ہیں ہم لوگ!“
(11/7 ممبئی لوکل ٹرین بم دھماکہ : 12؍ مسلم نوجوان 19؍ سال بعد باعزت بری)
”انصاف“ کے نام پر انیس سال کی سزا“..!
✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ
(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)
انیس برس کے طویل اندھیرے کے بعد بالآخر وہ روشنی جھلکی جس کی امید وقتاً فوقتاً دم توڑتی رہی۔ بامبے ہائی کورٹ نے 7/11 ممبئی لوکل ٹرین بم دھماکہ کیس میں دہشت گردی کے الزام میں قید بارہ مسلم نوجوانوں کو باعزت بری کر دیا۔ عدالت نے نہ صرف مکوکا عدالت کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دیا، بلکہ ان کے خلاف دیے گئے اقبالیہ بیانات اور تمام سرکاری گواہیوں کو بھی ناقابل قبول مانا۔ یہ فیصلہ اگرچہ عدالتی نظام میں آئینی انصاف کی ایک روشن مثال بن کر سامنے آیا، مگر اس کی چمک میں ان انیس برسوں کا وہ ظلم چھپا نہیں جا سکتا جو ان نوجوانوں نے جیل کی کال کوٹھریوں میں جھیلا۔ انصاف آیا، مگر ایک ایسے وقت جب زندگی کا سب کچھ بکھر چکا تھا۔
07؍ جولائی 2006ء کی شام ممبئی کی لوکل ٹرینیں موت کا کارواں بن گئی تھیں۔ یکے بعد دیگرے ہونے والے دھماکوں نے شہر کی روح کو لرزا دیا، ایک 189 جانیں چھن گئیں، سینکڑوں افراد زخمی ہوئے، اور ہر جانب چیخ و پکار کا عالم برپا ہو گیا۔ حکومت پر سوالات کی بارش شروع ہوئی، اور دباؤ میں آ کر جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا، وہ وہی تھے جو سب سے زیادہ بے بس تھے؛ مسلم نوجوان،
یہ وہ نوجوان تھے جنہیں دہشت گردی کے الزامات میں صرف ان کے مذہب کی بنیاد پر گھسیٹا گیا۔ نہ کوئی پختہ ثبوت، نہ کوئی گواہ، نہ کوئی فارنسک بنیاد، صرف مذہب اور نام کی بنیاد پر انہیں اٹھا لیا گیا۔ تفتیشی اداروں نے ان سے جھوٹے اقبالیہ بیانات حاصل کیے، میڈیا نے انہیں مجرم ٹھہرا دیا، اور عوام کے ذہنوں میں نفرت کے بیج بو دیے گئے۔ برسوں تک یہ نوجوان جیل میں سڑتے رہے، ایک ایک دن ان پر قیامت بن کر گزرتا رہا، اور سچائی پر پردے ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی رہی۔
آخرکار 2025ء میں بامبے ہائی کورٹ نے اپنے تفصیلی فیصلے میں کہا کہ ان نوجوانوں کے خلاف کوئی قابل قبول ثبوت موجود نہیں، سرکاری گواہیاں مشتبہ اور اقبالیہ بیانات غیر قانونی ہیں، اور پوری تفتیشی کہانی محض مفروضوں پر مبنی تھی۔ یہ فیصلہ اگرچہ ان افراد کو آزادی دے گیا، مگر قوم کے ضمیر پر ایک ایسا دھبہ لگا گیا جو شاید کبھی مٹ نہ سکے۔ سوال یہ نہیں کہ ان ملزمین کو رہا کر دیا گیا، سوال یہ ہے کہ ان کی جوانی کیوں چھین لی گئی؟ ان کے خاندانوں کو کیوں برباد کیا گیا؟ اور کیوں انصاف کو انیس برس لگ گئے؟ کیا یہ فیصلہ انصاف کہلائے گا یا ایک ایسے سسٹم پر فردِ جرم ہے، جو جرم سے زیادہ کسی کی مذہبی شناخت کو مجرم بنانے پر آمادہ ہے؟
ان بے قصور نوجوانوں کی زندگیاں تباہ ہوگئیں۔ ان میں سے کئی کی شادیوں کے رشتے ٹوٹ گئے تو کئی کی شادیاں ہی ختم ہو گئیں، کئی کے ماں باپ انصاف کی آس میں دنیا سے رخصت ہو گئے، کئی کے بچے باپ ہونے کے باوجود یتیمی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے اور کئی نے جیل کی سلاخوں کے پیچھے اپنی جوانی، خواب، عزت، وقت اور مستقبل سب کچھ گنوا دیا۔ یہ سب وہ سزائیں تھیں جو عدالت سے پہلے سنائی جا چکی تھیں۔انہیں صرف مجرم بنا کر جیل میں نہیں ڈالا گیا بلکہ ان کے گھروں کو برباد کیا گیا، ان کی نسلوں کا مستقبل تاریک کر دیا گیا اور ان کی شناخت کو داغدار کیا گیا۔ اور سب کچھ صرف اس لیے کیونکہ وہ مسلمان تھے۔
حکومتیں بدلتی رہیں، وزرائے داخلہ، وزرائے قانون آتے جاتے رہے، لیکن ان بے قصور نوجوانوں کی فائلیں عدالت کی کسی دھول بھری الماری میں پڑی رہیں۔ اس دوران کئی مجرم آزاد گھومتے رہے، کئی اصل سازشی عناصر سیاسی پناہ لیتے رہے، اور کچھ کو "قومی ہیرو" کے طور پر پیش کیا جاتا رہا۔ یہ معاملہ محض چند افراد کی زندگی کا نہیں، یہ پورے ملک کے نظامِ انصاف، پولیس، تحقیقاتی ایجنسیوں، میڈیا اور حکومتوں کی اجتماعی ناکامی اور مجرمانہ غفلت کی علامت ہے۔ جب بامبے ہائی کورٹ نے کہا کہ ان کے خلاف نہ کوئی ثبوت ہے، نہ کوئی چشم دید گواہ، نہ کوئی سائنسی یا فارنسک معاونت، تب پوری قوم کو یہ سوچنے پر مجبور ہونا پڑا کہ اگر کچھ بھی نہیں تھا تو انہیں 19؍ سال تک کیوں قید رکھا گیا؟ اس کا سیدھا سا جواب ہے: کیونکہ وہ مسلمان تھے۔ ایک بار پھر ریاست نے مسلمانوں کے ساتھ وہی سلوک کیا جو پہلے بھی کیا جاتا رہا ہے؛ نہ کوئی گارنٹی، نہ کوئی تحفظ، نہ کوئی رعایت، اور نہ کوئی معذرت۔
اس پورے اندھیرے میں ایک چراغ وہ تنظیم تھی جسے جمعیۃ علماء ہند کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ وہ ادارہ ہے جس نے قانونی محاذ پر ان نوجوانوں کی پیروی کی، ان کے خاندانوں کو سہارا دیا، بہترین وکلاء کا انتظام کیا، عدالتی اخراجات برداشت کیے، اور ہر محاذ پر ان کے ساتھ کھڑا رہا۔ اگر جمعیۃ نہ ہوتی تو شاید یہ فیصلہ کبھی نہ آتا۔ مولانا ارشد مدنی کی قیادت میں جمعیۃ نے برسوں اس کیس کو زندہ رکھا، قانونی ٹیم بنائی، دلائل پیش کیے، جھوٹ کو بے نقاب کیا اور بالآخر ان معصوموں کو رہائی دلوائی۔ یہ کام صرف ایک ادارے کا نہیں بلکہ پوری ملت کا تھا، لیکن افسوس کہ پوری ملت نے خاموشی اختیار کی، اور صرف جمعیۃ نے اپنا فرض نبھایا۔
یہ پہلا واقعہ اور ایک دو ناموں پر محدود نہیں۔ ہمیں مفتی عبد القیوم قاسمی کا کیس یاد ہے، جنہیں اکشردھام حملے میں جھوٹے طور پر پھنسا کر گیارہ سال تک اذیت دی گئی۔ ہمیں وہ ہزاروں مسلم نوجوان یاد ہیں جنہیں ٹاڈا، پوٹا اور مکوکا جیسے کالے قوانین کے تحت گرفتار کیا گیا، برسوں قید رکھا گیا، اور آخرکار عدالتوں نے انہیں باعزت بری کیا۔ ہمیں مولانا انظر شاہ قاسمی جیسے علماء یاد ہیں جنہیں بغیر کسی جرم کے میڈیا نے دہشت گرد بنا کر پیش کیا، لیکن آخر میں عدالت نے انہیں بے قصور مانا۔ ہمیں کشمیر کے وہ پانچ نوجوان یاد ہیں جو 23 سال بعد باعزت بری ہوئے تھے، ان کے ماں باپ قبروں میں جا چکے تھے، ان کی جوانی قبرستان بن چکی تھی، اور ان کی واپسی پر صرف آنسو، سناٹا اور سوال باقی رہ گئے تھے۔ یہ فہرست طویل ہے کشمیر سے کنیاکماری تک، گجرات سے مغربی بنگال تک، یہ قصے ہر جگہ دہرائے جا رہے ہیں۔ ہر علاقے سے ایسے ہزاروں کیسز سامنے آتے ہیں جہاں مسلمان نوجوانوں کو صرف ان کی شناخت کی بنیاد پر نشانہ بنایا گیا۔ آج بھی ملک کی مختلف جیلوں میں ہزاروں مسلمان نوجوان ایسے الزامات میں قید ہیں جن کا کوئی ثبوت نہیں، جن کے مقدمات کی سماعت نہیں ہو رہی، جنہیں ضمانت نہیں دی جا رہی اور جنہیں وکیل میسر نہیں آ رہا۔ ان کے خلاف صرف اور صرف پولیس کی کہانی ہے، جسے میڈیا سچ بنا کر پیش کرتا ہے، اور عدالتیں برسوں بعد غلط ثابت کرتی ہیں۔ لیکن جب تک عدالتیں فیصلہ سناتی ہیں، تب تک اس کی پوری زندگی تباہ ہو چکی ہوتی ہے۔
عدالتی نظام کی سست روی اور تفتیشی ایجنسیوں کی تعصب زدہ روش نہ صرف انفرادی المیوں کو جنم دیتی ہے بلکہ ایک پوری قوم کو احساسِ کمتری میں مبتلا کر دیتی ہے۔ 19؍ سال بعد اگر عدالت فیصلہ دیتی ہے تو یہ انصاف نہیں، بلکہ نظام کی ناکامی کا اعلان ہے۔ اس فیصلے میں خوشی کم، شرمندگی زیادہ ہے۔ سب سے شرمناک پہلو یہ ہے کہ پولیس، اے ٹی ایس، اور تفتیشی ایجنسیوں نے جو ثبوت عدالت میں پیش کیے، وہ خود ان کے منہ پر طمانچہ بن کر سامنے آئے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں صاف لکھا کہ پولیس کی کہانی میں جھول ہے، ملزمان کی موجودگی کے شواہد مشکوک ہیں، ان کے اقبالیہ بیانات قانون کے مطابق نہیں لیے گئے، اور پورے کیس میں متعدد نقائص ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سب کچھ جان بوجھ کر کیا گیا۔ مقصد اصل مجرم کو پکڑنا نہیں تھا، بلکہ فوری طور پر کسی کو پکڑ کر کیس بند کرنا تھا، اور اس کے لیے سب سے آسان شکار مسلمان تھے۔
اور میڈیا؟ جسے معاشرے کا ضمیر کہا جاتا ہے، وہ اس معاملے میں سب سے بڑا مجرم ہے۔ گرفتاری کے فوراً بعد ان نوجوانوں کی تصویریں دکھا دکھا کر چیخ چیخ کر بتایا گیا کہ "دہشت گرد پکڑے گئے"۔ مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو شک کی نظر سے دیکھا گیا، دینی مدارس کو دہشت گردی کا گڑھ قرار دیا گیا، اور عام مسلمان کو ایک مشتبہ مخلوق بنا دیا گیا۔ پھر جب عدالت نے کہا کہ یہ سب بے قصور تھے تو کوئی معذرت نہیں، کوئی ندامت نہیں، کوئی پچھتاوا نہیں۔ میڈیا نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ ان کی خبروں نے کتنے گھروں کو برباد کیا، کتنے رشتے توڑے، کتنی ملازمتیں چھن گئیں، اور کتنے ذہنوں میں نفرت کے بیج بوئے۔
سوال یہ ہے کہ جب عدالت نے سب گواہوں، اقبالیہ بیانات اور شواہد کو مسترد کر دیا تو اتنے سال تک ان نوجوانوں کو قید میں رکھنے کی بنیاد کیا تھی؟ اور سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ اصل مجرموں کو پکڑنے کے بجائے پولیس نے صرف اپنی فائلیں بند کرنے کیلئے مسلمانوں کو قربانی کا بکرا بنایا۔ لیکن کیا ان افسروں پر مقدمہ چلے گا جنہوں نے جھوٹے کیس بنائے، بے بنیاد ثبوت گھڑے، اذیتیں دیں؟ کیا ان ایجنسیوں سے سوال کیا جائے گا جنہوں نے معصوم نوجوان کو دہشت گرد بنا کر پیش کیا؟ کیا ان سیاستدانوں سے سوال ہوگا جنہوں نے مجرموں کی گرفتاری کے نام پر سیاسی واہ واہی لوٹی؟ کیا میڈیا سے جواب طلب کیا جائے گا؟ افسوس کہ نہیں! کیونکہ اس ملک میں مسلمان کا انصاف مانگنا بھی خود ایک جرم بن چکا ہے۔
عدالتوں سے رہا ہو جانا انصاف نہیں کہلاتا، جب تک ظلم کرنے والوں کو سزائیں نہ دی جائیں، اور متاثرین کو ازالہ نہ دیا جائے۔ اس وقت ان نوجوانوں کے پاس نہ کوئی روزگار ہے، نہ کوئی نفسیاتی سہارا، نہ ریاستی مدد، نہ کوئی رسمی معافی۔ وہ برسوں کی اذیتیں لے کر باہر نکلے ہیں، مگر زندگی کی گاڑی اب بھی پٹری سے اتری ہوئی ہے۔ اگر ان بے قصور پر ظلم کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوئی، تو کیا یہی انصاف ہے؟ اگر ان افسران پر جنہوں نے سازش رچی ان پر مقدمہ نہیں چلایا گیا تو یاد رکھیں کہ پھر اگلے کسی حادثے میں کوئی اور قاسم، کوئی اور کلیم، کوئی اور عرفان نشانہ بنے گا اور عنقریب ہم بھی ان کے نشانے پر ہونگے!
ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ ایسے کیسز کے بعد مسلمانوں کا عدلیہ اور نظامِ انصاف پر جو اعتماد مجروح ہوتا ہے، اس کی تلافی کیسے ہوگی؟ کیا عدالتیں صرف ثبوت کی بنیاد پر ہی فیصلہ دیں گی، یا اس نظام کے اندر موجود تعصب، نفرت اور استحصال کو بھی دیکھیں گی؟ جب مسلمان نوجوان ہر دھماکے کے بعد پہلے ملزم بن جاتے ہیں، اور برسوں بعد بے قصور قرار دیے جاتے ہیں، تو پھر قوم کا اعتماد ٹوٹتا ہے، دلوں میں ناامیدی جڑ پکڑتی ہے، اور سماج میں فاصلے بڑھتے ہیں۔ 7/11 کیس میں جو کچھ ہوا وہ ایک مکمل ریاستی و ادارہ جاتی ناکامی تھی۔ یہ ایک آزاد ملک کے اس "سیکولر" ڈھانچے پر سوالیہ نشان ہے جو اقلیتوں کو برابری کے حقوق دینے کا دعویٰ کرتا ہے۔ اس کیس نے ثابت کر دیا کہ مذہبی اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں کو ایک مخصوص بیانیہ کے تحت نشانہ بنایا جاتا ہے، انہیں شکوک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اور ان کے خلاف مقدمات بنانے کے لیے پولیس، ایجنسیاں، اور میڈیا سب مل کر کام کرتے ہیں۔ اس ظالمانہ سسٹم میں عدالت صرف آخری دروازہ بن کر رہ جاتی ہے، جو اگر انصاف کرے بھی تو بہت دیر سے کرتی ہے۔
قوم کے سامنے اب دو راستے ہیں: یا تو ہم خاموشی سے ہر بار یہی تماشا دیکھتے رہیں گے، یا پھر ہم منظم ہو کر اس سسٹم کو چیلنج کریں گے۔ ہمیں قانونی میدان میں مضبوطی لانا ہوگی، ہر کیس کی پیروی کرنی ہوگی، میڈیا کی نگرانی کرنی ہوگی، اور مظلوموں کی داد رسی کو دینی و ملی فریضہ سمجھنا ہوگا، کیونکہ آج جو ان نوجوانوں کے ساتھ ہوا، وہ کل کسی اور کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ اور اگر ہم خاموش رہے تو کل شاید ہمارا بھی نمبر ہو۔ اب وقت آ چکا ہے کہ ہم صرف رہائی کی خبر پر خوش ہونا چھوڑ دیں، اور ان سوالات کو بنیاد بنائیں جو اس نظام کے کھوکھلے پن کو بے نقاب کرتے ہیں۔ ہمیں متحد ہو کر مطالبہ کرنا ہوگا کہ ان نوجوانوں کو مکمل انصاف دیا جائے، سرکاری معافی، مالی ازالہ، نفسیاتی بحالی، روزگار کی ضمانت، اور سب سے بڑھ کر ان کے ساتھ ظلم کرنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔ انہیں نشانِ عبرت بنایا جائے تاکہ آئندہ کوئی معصوم صرف مذہب کی بنیاد پر قربانی کا بکرا نہ بنے۔ اگر ہم اب بھی خاموش رہے، تو ظلم کا یہ پہیہ رکنے والا نہیں، بلکہ کل کو پوری قوم اس کی زد میں آ سکتی ہے۔
اس فیصلے نے ہمیں ایک تلخ حقیقت کا سامنا کروایا ہے کہ جب ریاستی طاقت مذہبی تعصب کے تابع ہو جائے تو قانون صرف ایک دکھاوا بن جاتا ہے، اور انصاف کی کرسی پر بیٹھنے والا اگر وقت پر سچ نہ بولے تو وہ خود جرم میں شریک ہو جاتا ہے۔ مگر ہمیں مایوس نہیں ہونا، ہار نہیں ماننی۔ ہمیں اپنے مظلوم بھائیوں کے لیے مسلسل آواز بلند کرتے رہنا ہے، قانونی میدان میں مضبوطی سے جمے رہنا ہے، میڈیا کے زہریلے کردار کا محاسبہ کرنا ہے، اور اپنی نسلوں کو یہ شعور دینا ہے کہ سچ کو دبایا جا سکتا ہے، مگر ختم نہیں کیا جا سکتا؛ آخرکار وہ سامنے آتا ہے، اگر ہم ڈٹے رہیں۔ یہ فیصلہ درحقیقت عدالت کا نہیں بلکہ ظلم کے خلاف ایک گواہی ہے، اور یہ رہائی انصاف کی فتح نہیں بلکہ ریاستی نظام کی ناکامی کا اقرار ہے۔ ہمیں اس وقت تک لڑنا ہے جب تک ہر بے گناہ قیدی آزاد نہ ہو جائے، ہر جھوٹے مقدمے کو ختم نہ کر دیا جائے، ہر ایجنسی جواب دہ نہ بن جائے، اور ہر مسلمان کو یہ اعتماد حاصل نہ ہو جائے کہ اس ملک میں اس کی جان، عزت اور ایمان محفوظ ہے۔ یہ کیس ہمارے لیے ایک سبق بھی ہے اور انتباہ بھی؛ سبق اس لیے کہ ہمیں اپنی نئی نسل کو قانون، عدلیہ اور میڈیا کے مکر و فریب سے واقف کرانا ہوگا، انہیں اپنی حفاظت کے لیے شعور اور تیاری دینا ہوگی، اور ظلم کے خلاف ایک منظم تحریک اٹھانی ہوگی اور آخیر تک لڑائی لڑنی ہے کیونکہ یہ صرف انصاف کی نہیں، انسانی وقار، مذہبی آزادی اور قومی سلامتی کی بھی لڑائی ہے۔ اور انتباہ اس لیے کہ اگر ہم اب بھی غفلت میں رہے تو یہ ظلم دوبارہ کسی اور شہر، کسی اور نام، کسی اور حادثے کی آڑ میں سر اٹھا سکتا ہے، اور اگلا فیصلہ شاید پھر انیس سال بعد آئے؛ تب جب ہم شاید بہت کچھ کھو چکے ہوں۔ اور ہوسکتا ہے کہ آج اگر ہم خاموش رہے تو کل شاید ہمارا ہی نمبر ہو!
اس دیش میں برسوں سے پریشان ہیں ہم لوگ
بس جرم ہے اتنا کہ مسلمان ہیں ہم لوگ
فقط و السلام
بندہ محمّد فرقان عفی عنہ
23؍ جولائی 2025 ء بروز بدھ
#MumbaiTrainBlast #InnocentMuslim #Jamiat #ArshadMadani #MTIH #TIMS #PaighameFurqan