Wednesday, 6 January 2021

توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے!


 

توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے! 


 از قلم : فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب مدظلہ


ریاست تلنگانہ میں ابھی ابھی برادرانِ وطن کا تیوہار گنیش پوجا گذرا ہے ، اس علاقہ میں اس تیوہار کو بڑے تزک و احتشام اور شوق و اہتمام کے ساتھ منایا جاتا ہے ، شہروں میں اس کے بڑے بڑے جلوس نکالے جاتے ہیں ، برادرانِ وطن اپنے عقیدہ کے مطابق مذہبی جذبات کا اظہار کرتے ہیں ، یقینا انھیں اس کا پورا پورا حق حاصل ہے اور اگر یہ تقریب قانون کا حق ادا کرتے ہوئے اور امن کو برقرار رکھتے ہوئے منائی جائے تو کسی کو اس پر اعتراض کا حق نہیں ، مسلمانوں نے اس ملک میں شروع سے بجا طورپر اس کا خیال رکھا ہے کہ ان کا کوئی عمل دوسرے مذہبی گروہوں کے لئے تکلیف اور دل آزاری کا سبب نہ ہو ، اس کا خیال رکھنا نہ صرف قانون کے لحاظ سے ضروری ہے ؛ بلکہ ہمارے مذہب نے بھی ہمیں یہی تعلیم دی ہے ، اسی کا نام ’’رواداری ‘‘ہے ، کہ ہم اپنے مذہب پر عمل کریں ، مگر دوسروں کے مذہبی معاملات میں دخل نہ دیں ، نہ ہم کوئی ایسی بات کہیں ، جس سے دوسروں کا دل دُکھے اور نہ ہم کوئی ایسا عمل کریں ، جس سے دوسروں کو خلل ہو ۔


لیکن اس بار مختلف مقامات سے اس طرح کی خبریں آئیں کہ وہاں مسلمان مرد و خواتین نے باضابطہ پوجا میں شرکت کی ، بالخصوص حیدرآباد کے قریبی شہر نلگنڈہ میں کچھ ایسے لوگوں نے جن کے نام مسلمانوں کی طرح کے ہیں ، گنیش جی کا منڈپ بنایا ، اس میں مورتیاں رکھیں ، مسلمان نوجوان اور برقعہ پوش خواتین وہاں جاکر بیٹھتے رہے اور قول و عمل کے ذریعہ یگانگت کا اظہار کرتے رہے ، شہر کے بعض فکر مند اور درد مند بزرگ علماء نے خواص کو توجہ دلائی اور عوام کو روکنے کی کوشش کی ؛ لیکن بدقسمتی سے سماج کے ذمہ دار مسلمانوں کو اس کی جیسی کچھ اہمیت محسوس کرنی چاہئے تھی ، محسوس نہیں کی گئی ، ایک نادانی ان لوگوں کی ہے ، جنھوںنے ایسی حرکت کی ، اور ایک تغافل ان لوگوں کا ہے ، جنھوںنے حوصلہ سے کام لے کر قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے ایسے واقعہ کو روکنے کی کوشش نہیں کی ، اس طرح کے واقعات اب ملک بھر کے مختلف علاقوں میں پیش آنے لگے ہیں ، ایسی سوچ کا پیدا ہونا اور مسلمانوں کا یہ طرز فکر کا اختیار کرنا بڑا ہی خطرناک اور لائق تشویش بات ہے ۔


حقیقت یہ ہے کہ رواداری جائز ہے اور مداہنت ناجائز ؛ لیکن رواداری اور مداہنت کی سرحدیں ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہیں ، اس لئے بہت بے دار مغزی کے ساتھ دونوں کے فرق کو سمجھنا چاہئے ، دوسرے مذہبی طور و طریق کو اختیار کرلینا مداہنت ہے رواداری نہیں ہے ، مجھ سے تو میرا کوئی ہندو بھائی دریافت کرے کہ میں آپ کے ساتھ نماز پڑھنا چاہتا ہوں ، اگرچہ کہ میرا ادارہ مسلمان ہونے کا نہیں ہے ، تو مجھے اس کے اس ارادہ سے کوئی خوشی نہیں ہوگی ؛ بلکہ میں اس کو مشورہ دوں گا کہ بہتر ہے کہ آپ نماز نہ پڑھیں ؛ کیوںکہ آپ نماز پر یقین نہیں رکھتے ، آپ کا نماز پڑھنا ایسا ہی ہوگا کہ جیسے آپ کا ارادہ تو ہو ممبئی جانے کا ، اور آپ کا کوئی دوست دلی جارہا ہو تو آپ اس کے لحاظ میں دلی کی ٹرین میں بیٹھ جائیں ، یہ کوئی حقیقت پسندی کی بات نہ ہوگی ؛ بلکہ ناسمجھی کا عمل ہوگا ۔


ہم جب اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے عقیدہ اور عملی زندگی دونوں میں ان تعلیمات کو قبول کیا ہے ، جو قرآن و حدیث کے ذریعہ ہمیں معلوم ہوئی ہیں ، ہمارے لئے یہ بات تو ضروری ہے کہ جیسے ہم خود ایک عقیدہ رکھتے ہیں ، ہم دوسرے بھائیوں کے لئے بھی اس حق کو تسلیم کریں کہ انھیں بھی اپنی پسند کے مطابق مذہب کو اختیار کرنے کا حق حاصل ہے ، آخرت کا مسئلہ اللہ کے حوالہ ہے ؛ لیکن دنیا میں ہمارے لئے کسی پر اپنا عقیدہ تھوپنے کی اجازت نہیں ، اللہ تعالیٰ نے خود ارشاد فرمایا ہے کہ اگر اللہ کو یہ بات منظور ہوتی کہ سارے کے سارے لوگ مسلمان ہی ہوں تو تم سب کو ایک ہی اُمت بنا دیاجاتا : ’’ وَلَوْ شَآئَ ﷲ ُلَجَعَلَکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً‘‘ (المائدۃ : ۴۸ ، النحل : ۹۳) اس سے معلوم ہوا کہ مذاہب و ادیان کا اختلاف اللہ تعالیٰ کی مشیت کے دائرہ میں ہے ، اس اختلاف کو اس دنیا میں مٹایا نہیں جاسکتا ۔


لیکن ہمارے لئے اس بات کی گنجائش بھی نہیں ہے کہ ہم اپنے آپ کو مسلمان بھی کہیں اور ایسی باتوں کو بھی قبول کرلیں جو اسلامی عقیدہ سے ٹکراتی ہوں ، یہ ہرگز رواداری نہیں ، یہ مداہنت ، نفاق ، موقع پرستی اور بے ضمیری ہے ، اسلام کے تمام عقائد کی بنیاد توحید ہے ، اس عقیدہ کی ترجمانی کلمہ طیبہ ’’ لا اِلٰہ الا اللہ ‘‘ سے ہوتی ہے ، اس کلمہ میں اثبات بھی ہے اور نفی بھی ، تسلیم بھی ہے اور انکار بھی ، اقرار بھی ہے اور براء ت کا اظہار بھی ، اس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات موجود ہے اور وہ ایک ہے ، یہ پہلو کفر کی ایک خاص قسم ’’ کفر الحاد ‘‘ کی تردید کرتا ہے ، الحاد کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے وجود ہی کو نہ مانا جائے ، جیساکہ آج کل کمیونسٹ کہتے ہیں ، یا جیساکہ بہت سے اہل مغرب اور مشرقی ملکوں کے مغرب زدہ لوگ کہا کرتے ہیں ، اس کائنات کو سر کی آنکھوں سے دیکھنے اور اس کی نعمتوں سے فائدہ اُٹھانے کے باوجود خدا کا انکار کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص کہے کہ میں بغیر باپ کے اپنے آپ پیدا ہوگیا ہوں ، یقینا ایسا کہنے والے کو لوگ یا تو پاگل کہیں گے یا سمجھیں گے کہ یہ ثابت النسب نہیں ہے ۔


اس کلمہ کا منفی پہلو یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی اور خدا نہیں ، خدائی میں شرکت نہیں ہے ؛ بلکہ وحدت ہے ، یہ کفر کی ایک دوسری قسم ’’ کفر شرک ‘‘ کی تردید کے لئے ہے ، یہ بات قابل توجہ ہے کہ کلمۂ طیبہ میں پہلے اسی منفی پہلو کا ذکر کیا گیا ہے ، مثبت پہلو کا ذکر بعد میں آیا ہے ، قرآن مجید میں جو دلائل پیش کئے گئے ہیں ، وہ زیادہ تر شرک کی تردید کے لئے ہیں ، مختلف انبیاء نے جو اپنی قوموں کو خطاب فرمایا ہے ، اس کی تفصیل قرآن مجید میں موجود ہے ، ان سبھوں کا ہدف شرک کا رد کرنا تھا ، جن جن قوموں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آیا ہے ، ان کی اصل بیماری شرک ہی تھی ؛ البتہ شرک کی مختلف شکلیں ان کے یہاں مروج تھیں ، کوئی قوم مورتی پوجا کرتی تھی ، کوئی سورج ، چاند اور ستاروں کی پوجا کرتی تھی ، کسی کے یہاں بادشاہ پرستی مروج تھی ، کوئی جانور کا پرستار تھا ؛ لیکن اللہ تعالیٰ کی معبودیت میں دوسروں کو شریک ٹھہرانا ان میں قدرِ مشترک تھا ، اہل علم نے لکھا ہے کہ مسلمان کے لئے توحید کے اقرار کے ساتھ باطل معبودوں سے براء ت کا اظہار بھی ضروری ہے ، ( مفاتیح الغیب : ۶؍۲۵۴)اسی لئے اسلامی عقائد کے مشہور ترجمان امام طحاویؒ اپنی کتاب ’’ العقیدۃ الطحاویۃ‘‘ میں اور اس کے مشہور شارح علامہ ابن ابی العز حنفی فرماتے ہیں : ’’یہی وہ کلمہ توحید ہے ، جس کی طرف تمام پیغمبروں نے دعوت دی اور اس کلمہ میں توحید کا ذکر نفی و اثبات دونوں اعتبار سے ہے ، جو حصر کا تقاضا کرتا ہے ، اس لئے کہ اگر صرف خدا کا اثبات ہوتا تو اس میں ( دوسرے خدا کی ) شرکت کا احتمال ہوسکتا تھا ‘‘ ( شرح العقیدۃ الطحاویۃ : ۱۰۹) ایک اور موقع پر فرماتے ہیں :


’’جان لوکہ توحید رسولوں کی بنیادی دعوت ہے ، یہ راستہ کی پہلی منزل ہے اور یہی وہ مقام ہے جس کے ذریعہ سالک اللہ کے مقام تک پہنچ سکتا ہے ؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ نوح نے کہا : اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو ، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے ، ( اعراف : ۵۹) اور حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا : اللہ کی عبادت کرو کہ اللہ کے سوا تمہارا اور کوئی معبود نہیں ، ( اعراف : ۶۵) نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ہم نے ہر اُمت میں رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور غیر اللہ کی عبادت سے بچو ، ( نحل : ۳۶) اسی لئے مکلف پر جو پہلا فریضہ عائد ہوتا ہے ، وہ یہی ہے کہ وہ اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ‘‘۔ ( شرح العقیدۃ الطحاویۃ : ۷۷)


قرآن و حدیث کی اگر تمام تعلیمات کو جمع کیا جائے تو اس کا غالب حصہ عقیدۂ توحید کی تعلیم اور ہر قسم کے شرک کی تردید سے جڑا ہوا ہے ، مسلمان جس حال میں بھی رہے اور جیسی کچھ آزمائش سے گذرے ؛ لیکن اس کی زبان پر ہمیشہ یہی کلمہ رہے :


إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ اَعْبُدَ اﷲِ وَلَآ أُشْرِکَ بِہٖ ، إِلَیْہِ أَدْعُوْا وَإِلَیْہِ مَآبِ ۔ (الرعد : ۳۶)


مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ کی عبادت کروں اور اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤں ، میں اسی کی طرف دعوت دیتا ہوں اور اسی کی طرف ہماری واپسی ہے ۔


مسلمانوں نے سب کچھ برداشت کیا ؛ لیکن عقیدۂ توحید کے بارے میں کبھی جانتے بوجھتے مداہنت گوارا نہیں کیا ، جب صحابہ نے رسول اللہ ا کے حکم سے حبش کی طرف ہجرت فرمائی اور وہاں انھیں امن و سکون نصیب ہوا تو اہل مکہ کو یہ بات گوارا نہیں ہوئی اور انھوںنے ان کے پاس اپنے نمائندے بھیجے ، حبش کے بادشاہ نجاشی نے مسلمانوں کو بھی طلب کیا اور ان کی مخالفت میں آنے والے وفد کو بھی ، مسلمانوں کی طرف سے حضرت جعفر بن ابی طالبؓ نے ایک مؤثر تقریر فرمائی اور اس میں ان خوشگوار تبدیلیوں کا ذکر فرمایا ، جو پیغمبر اسلام صلی اللہ ا کی بعثت سے عرب کے جاہلی معاشرہ میں آئی ، جس نے کانٹوں کو پھول اور ذروں کو آفتاب بنادیا تھا ، نجاشی بہت متاثر ہوئے ، مسلمانوں کو قیام کی اجازت دی اور مخالفین کے لائے ہوئے تحائف بھی واپس کردیئے ، اہل مکہ نے دوبارہ آپس میں مشورہ کیا کہ عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا مانتے ہیں ، اور محمد ا اللہ کا بندہ ، تو کل ہم بادشاہ کے سامنے رکھیں گے کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ایسی بات کہتے ہیں ، جو آپ کے لئے بہت ہی ناگوار خاطر ہوگی ؛ چنانچہ وہ اس شکایت کو لے کر پہنچے ، مسلمانوں کے وفد کی دوبارہ طلبی ہوئی ، صحابہ نے آپس میں مشورہ کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق سوال کا ہمیں کیا جواب دینا چاہئے ، حضرت جعفر ؓنے فرمایا : خدا کی قسم ہم وہی کہیں گے ، جو ہمارے رسول ا نے ہمیں بتایا ہے ، چاہے اس کی وجہ سے جوبھی صورت حال پیش آئے ، انھوںنے پوری قوت کے ساتھ نجاشی کے سامنے یہ بات کہی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بیٹے نہیں ہیں ، خدا کے بندے اور پیغمبر ہیں ، نجاشی خود صاحب علم تھے ، حضرت جعفرؓ کی صدق کلامی اور صاف گوئی نے ان کو بے حد متاثر کیا اورانھوںنے ایک تنکا اُٹھاکر کہا کہ جتنی بات اِنھوںنے کہی ہے ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شخصیت اُس سے اِس تنکے کے برابر بھی زیادہ نہیں ہے ۔ ( مسند احمد : ۱؍ ۲۰۲، حدیث نمبر : ۱۷۴۰)


غرض کہ ایسے نازک حالات میں بھی صحابہ نے نہ صرف توحید پر استقامت اختیار کی ؛ بلکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں سکوت اختیار کرنے یا اَنجان بن جانے کا راستہ بھی اختیار نہیں کیا ، مسلمان فکری پستی کی اِس سطح پر آجائے کہ شرکِ صریح مبتلا ہوجائے ، یہ ایک ناقابل تصور بات ہے ، حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ مکہ کے بڑے بڑے سردار ولید بن مغیرہ ، عاص بن وائل ، اسود بن عبد المطلب اوراُمیہ بن خلف وغیرہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انھوںنے آپ کے سامنے دو تجویزیں رکھیں ؛ تاکہ آپسی جھگڑا ختم ہوجائے ، ایک یہ کہ ہم بھی آپ کے خدا کی عبادت کریں اور آپ بھی ہمارے بتوں کی پوجا کرلیجئے ، یا مدت متعین کرلیں کہ ایک سال آپ کے خدا کی عبادت ہو ، ہم اور آپ سب مل کر آپ کے خدا کی عبادت کریں اور ایک سال ہماری مورتیوں کی پوجا ہو اور ہم اور آپ مل کر پوجا کریں ، اسی موقع پر سورۂ کافرون نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے واضح فرمادیا کہ نہ ہم تمہارے معبودوں کی عبادت کرسکتے ہیں اور نہ تم اس بات کے لئے تیار ہو کہ تنہا ہمارے خدا کی عبادت کرو ، تواس طرح عبادت میں تو اشتراک ممکن نہیں کہ ہم اللہ کو ایک بھی مانیں اور اللہ کے ساتھ شریک بھی ٹھہرائیں ؛ لیکن قابل عمل صورت یہ ہے کہ آپ اپنے مذہب پر عمل کریں ، ہماری طرف سے کوئی چھیڑ خوانی نہیں ہوگی ، اور ہمیں ہمارے مذہب پر عمل کرنے دیں ۔ ( تفسیر قرطبی : ۲۰؍۲۲۵- ۲۲۷)


اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کی ایک شکل تو یہ ہے کہ آدمی زبان سے کسی کو شریک ٹھہرائے اور دوسری شکل یہ ہے کہ وہ اپنے عمل کے ذریعہ اس کا اظہار کرے ، جیسے کوئی شخص غیر اللہ کو سجدہ کرے ، غیر اللہ کے نام سے جانور ذبح کرے ، زبان سے کچھ نہ کہے ؛ لیکن غیر اللہ کے سامنے ایسا عمل کرے جس کو پوجا سمجھا جاتا ہو ، یہ بھی شرک ہے ، صحابہ نے آپ ا سے سجدہ کرنے کی اجازت چاہی ؛ لیکن آپ نے اس کی اجازت نہیں دی ، ( ابوداؤد ، باب فی حق الزوج علی المرأۃ ، حدیث نمبر : ۲۱۴۰) صحابہ نے دوسروں کے سامنے جھکنے کی اجازت طلب کی ؛ لیکن آپ نے اس کو بھی گوارا نہیں فرمایا ، ( سنن الترمذی ، حدیث نمبر : ۲۷۲۸) جس وقت دوسری قومیں سورج کی پوجا کیا کرتی تھیں ، آپ نے ان اوقات میں نماز پڑھنے کو منع فرمادیا ، (بخاری ، کتاب مواقیت الصلاۃ ، حدیث نمبر : ۵۸۱) شریعت کے اسی مزاج کو سامنے رکھتے ہوئے فقہاء نے شعلہ پھینکتے ہوئے چراغ کے سامنے نماز پڑھنے کو منع کیا ؛ کیوںکہ اس میں آتش پرستوں کی مشابہت ہے ، (المحیط البرہانی : ۵؍۳۰۸) نمازی اس طرح نماز پڑھے کہ بالکل اس کے سامنے کسی شخص کا چہرہ ہو ، اس کو بھی روکا گیا ، ( حوالۂ سابق) کیوںکہ اس میں شرک کا ایہام ہے ، اسی مصلحت کے تحت تصویر کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھنے کو منع فرمایا گیا ہے ، (حوالۂ سابق: ۵؍۳۰۹) کہ صاحب تصویر کی عبادت کی شکل نہ محسوس ہو ۔


دوسرے مذاہب کے شعائر کو اختیار کرنے کی ممانعت کی گئی ؛ چنانچہ مجوسی ایک خاص قسم کی ٹوپی پہنتے تھے ، اس ٹوپی سے منع کیا گیا ، برہمنوں کی طرح کمر میں زنار باندھنے سے منع کیا گیا ، ( فتاویٰ ہندیہ : ۲؍ ۲۷۶) آتش پرستوں کے یہاں مذہبی تقریب کی حیثیت سے ’ نو روز ‘منایا جاتا تھا ، اس میں شرکت کو بعض فقہاء نے کفر قرار دیا ہے ، ( مالا بد منہ : ۱۳۸) ممتاز فقیہ اور مصلح حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ فرماتے ہیں :


جو چیزیں دوسری قوموں کی مذہبی وضع ہیں ، ان کا اختیار کرنا کفر ہے ، جیسے صلیب لٹکانا ، سرپر چوٹی رکھنا ، جنیو باندھنا ،یا ’’ جے ‘‘ پکارنا وغیرہ ۔ ( حیات المسلمین : ۲۲۴)


فقہاء نے جن صورتوں کا ذکر کیا ہے ، مورتی بیٹھانا اور اس کی تعظیم میں وہاں بیٹھنا ، یا اس پر پھول چڑھانا اس سے کہیں بڑھا ہوا عمل ہے ، اس لئے جہاں بھی جو لوگ اپنی نادانی ، ناسمجھی اور غلط رہنمائی کی وجہ سے اس کے مرتکب ہوئے ہیں ، ان کو توبہ کرنی چاہئے ، استغفار کرنا چاہئے اورعزم مصمم کرنا چاہئے کہ ہم آئندہ ہر قیمت پر ایسے عمل سے بچیں گے اور دوسروں کو بھی بچائیں گے ، دنیا کے چند سکوں کے لئے ایمان کھودینا پانا نہیں ہے کھونا ہے ، اور دنیا کی متاع حقیر کے لئے آخرت کا سودا کرلینا فائدہ نہیں ہے نقصان عظیم ہے ۔


و ما عند اﷲ خیر من اللھو ومن التجارۃ واﷲ خیر الرازقین ۔


پیشکش : سلسلہ عقائد اسلام، شعبۂ تحفظ اسلام میڈیا سروس، مرکز تحفظ اسلام ہند

اسلام میں عقیدہ کی اہمیت



 اسلام میں عقیدہ کی اہمیت


از قلم :مفتی محمد انعام اللہ حسن صاحب


ہماری موت سے پہلے اور بعد کی زندگی میں مکمل کامیابی کا ضابطہ کیا ہے؟ اس سوال کا جواب قرآن مجید میں متعدد مقامات پر، الگ الگ انداز میں دیا گیا ہے ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایمان لانا اور اعمالِ صالحہ (نیک اعمال ) کا اہتمام کرنا دونوں جہاں کی حقیقی اور ابدی کامیابی کی ضمانت ہے۔

پھر ایمان اور اعمالِ صالحہ دونوں میں بنیادی چیز ایمان ہے ، اگر آدمی کے دل میں ایمان ہے تو اس کے اعمال صالحہ قابل قبول ہیں ،ورنہ اعمالِ صالحہ کے پہاڑ بھی ایمان کے بغیر آخرت میں کسی کام کے نہیں !قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے :” وَمَنْ یَّکْفُرْ بِالْاِیْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہ،، وَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ”(سورہئ مائدہ ،آیت:٥)

ترجمہ:” اور جو ایمان سے انکار کریگا تو اس کا عمل ضائع ہوجائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔”

اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ مذہبِ اسلام میں سب سے بنیادی چیز’ ایمان ‘ ہے۔

ایمان کیا ہے؟

اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جن حقیقتوں کو بغیر دیکھے مان لینے اور دل سے یقین کر لینے کا حکم دیا ہے ؛ ان پر دل سے یقین کرنے اور دل کی گہرائیوں میں انھیں جمالینے کا نام ایمان ہے۔

عقیدہ کسے کہتے ہیں؟

‘عقیدہ’؛ دل میں جمے ہوئے یقین ہی کو کہتے ہیں ، اس کی جمع ‘عقائد’ آتی ہے ۔دل میں جما ہوا یقین ‘ اللہ تعالی اوراسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کیے ہوئے حقائق کے مطابق ہوتو یہ اسلامی عقیدہ اور ایمان قرار پائے گا۔

اور اگر دل کے کسی گوشہ میں خدا ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ سچائیوں کے خلاف یقین راہ پا جائے تو اس کا نام باطل اور کفر یہ عقیدہ ہے۔

جس طرح اللہ تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی حقیقتوں کے خلاف یقین رکھنا کفر ہے؛ اسی طرح ان حقیقتوں پر شک کرنا بھی کفر ہے؛ کیوں کہ شک ‘ یقین کی ضد ہے، جبکہ ایمان ‘ خدا اور اس کے رسول کی باتوں پر یقین کا نام ہے ۔

عقیدہ کی اہمیت

اسلام میں عقیدہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے اچھی طرح لگایا جاسکتا ہے کہ عقیدہ کی درستگی اور بگاڑ پر ہی ایمان وکفر کا مدار ہے ،عقیدہ اگر اسلامی ہے تو آدمی مومن ہے ورنہ کافر !ایمان دونوں جہاں کی یقینی کامیابیوں کا ضامن ہے جبکہ کفر دونوں جہاں کی ناکامی کا قطعی سبب ہے۔

چناں چہ فرض کر لیجیے کہ ایک طرف ایسا آدمی ہے جس کا دل انسانی ہمدردی کے جذبات سے پر ہے ، جو غریبوں ، بیواؤں ،یتیموں اور مجبوروں کی دل کھول کر امداد کرتا ہو، درجنوں مسجدیں اس نے بنوائی ہوں، دسیوں مسلمانوں کو اس نے حج وعمرے کروائے ہوں،کسی مخلوق کو تکلیف نہ دیتا ہو، اپنے مسلمان دوستوں کے ساتھ کبھی عیدگاہ بھی حاضر ہوجاتا ہو؛لیکن اس کا عقیدہ خراب ہو، وہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور مخلوق کو بھی معبود مانتا ہواور اسی حالت میں مر جائے اور اس کے احسان مند مسلمان ‘ جن کو اس نے حج وعمرے کروائے ،وہ ـــ ــــــــ اس کے کفر پر مرنے کا علم رکھنے کے باوجود ــــ ــــ اگر اس کی نمازِ جنازہ پڑھنا چاہیں یا صرف دعائے مغفرت ہی کرنے پر اصرار کرنے لگیں تو انھیں اسلام ہر گز اس کی اجازت نہیں دیتا بلکہ اس کے لیے دعائے مغفرت کو گناہ قرار دیتا ہے اور پھر آخرت میں یہ کافر ہمیشہ کے لیے جہنم میں داخل کردیا جائے گا۔

اسکے برعکس دوسری طرف وہ شخص ہے جو صحیح اسلامی عقائد رکھتا ہو’ لیکن زندگی بھر میں ایک نماز بھی اس نے نہ پڑھی ہو، نہ ہی کبھی روزہ رکھا ہو؛ بلکہ ایمان کے علاوہ کوئی فرض وواجب اس کی زندگی میں نہ ہو ، نیز شرک کو چھوڑ کر ہر کبیرہ گناہ کا وہ عادی بھی ہو اور ــــــ العیاذ باللہ ـــ ـــــ اسی حالت میں اس کی موت آجائے تب بھی محض اس کے اسلامی عقائد کی وجہ سے اسکی تجہیز وتکفین اور نمازِ جنازہ کا ادا کرنا مسلمانوں کے ذمہ فرض ہے ، اگر کوئی بھی مسلمان اس فرض کو ادا نہ کرے تو سارے مسلمان گناہ گار ہونگے اور یہ مرنے والا گناہ گار مسلمان ہمیشہ جہنم میں نہیں رہے گا ، ایک نہ ایک دن ضرور جنت میں داخل کردیا جائے گا ۔

اللہ اکبر! یہ ہے اسلام میں عقیدہ کا بنیادی مقام اور اس کی اہمیت ! آخرت کے ہمیشہ ہمیش کے انعامات اور کامیابیاں ملتی ہیں تو اِ سی عقیدہ کی درستگی پر اور اگر اگلی لامحدود زندگی کی تباہی وبربادی سامنے آتی ہے تو وہ بھی اسی عقیدہ کے بگاڑ اور فساد کے سبب! یہی وجہ تھی کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کے بعد سب سے پہلے عقیدہ کی اصلاح کی دعوت دی؛ بلکہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام نے اپنی اپنی قوم کو سب سے پہلے عقائد کی درستگی ہی کی تعلیم دی ہے ۔

یہاں پہنچ کر ایک لمحہ کے لئے ہمیں بھی ضرور اپنی حالت پر غور کر لینا چاہیئے کہ کیا ہم عقائد کا علم رکھتے ہیں ؟کتنے اسلامی عقائد ایسے ہیں جن کے بارے میں آج تک ہم نے سنا بھی نہیں، صرف اس وجہ سے کہ ہم اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں ؛ اسلام کے بنیادی عقائد سے نا واقفیت پر خدا کی پکڑ سے بچ جائیںگے ؟ اللہ تعالی کی طرف سے قرآن کریم میں بارہا عقیدہ کی اصلاح کی طرف متوجہ کیا جانا کیا یونہی ایک اتفاق ہے ؟

اگر نہیں اور ہر گز نہیںتو ہمیں آج ہی اسلامی عقائد کے علم کی طرف توجہ کرنی ہوگی اور انھیں تسلیم کرتے ہوئے ان کا یقین اپنے دل میں جما لینا ہوگا ۔

واضح رہے کہ مختلف زبانوں میں اسلامی عقائد سے متعلق مستند کتابیں کتب خانوں پر دستیاب ہیں اور ان میں سے اکثر کوانٹر نیٹ کے ذریعہ بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔

اللہ تعالی ہمارے دلوں کو اسلامی عقائد کے یقین سے منور فرمائے ۔آمین


پیشکش : سلسلہ عقائد اسلام، شعبۂ تحفظ اسلام میڈیا سروس، مرکز تحفظ اسلام ہند

Sunday, 3 January 2021

پیام فرقان - 01

{ پیام فرقان - 01 }



🎯قلم کی اہمیت اور طاقت (آغاز تحریر)!


✍️بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


اللہ تبارک و تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے، جسکا ذکر قرآن مجید میں بار بار ملتا ہے۔ انہیں نعمتوں میں سے ”قلم“ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے۔ قلم کی اہمیت کسی سے مخفی نہیں ہے۔ اس نعمتِ خدا وندی کا تذکرہ قرآن مجید کی سب سے پہلی وحی میں بھی کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِی خَلَقَ، خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ، اقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ، الَّذِی عَلَّمَ بِالْقَلَمِ، عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ“ کہ ”اے پیغمبر! اپنے رب کا نام لے کر پڑھا کیجیے، جو سب کا پیدا کرنے والا ہے، جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا، آپ قرآن پڑھا کیجیے اور آپ کا رب بڑا کریم ہے، جس نے قلم سے تعلیم دی، انسان کو ان چیزوں کی تعلیم دی جن کو وہ نہیں جانتا تھا۔“ (سورۃ العلق)۔ قرآن مجید کے نزدیک قلم و کتابت کی اہمیت کا ثبوت اس سے زیادہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ قرآن مجید کی ایک سورۃ کو ”القلم“ کا نام دیا گیا ہے، اور اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے قلم کی قسم اور ان چیزوں کی بھی قسم ذکر فرمائی جنہیں قلم لکھتا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے: ”نٓ ۚ وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُوْنَ“ کہ ”قسم ہے قلم کی اور اس کی جو وہ لکھتے ہیں۔“ (سورۃ القلم)۔ قلم وہ عظیم شئ ہے جس کے ذریعہ علوم کو تحفظ و بقاء فراہم ہوتا ہے۔ دین کی حفاظت اور ملت کے دینی، سیاسی، معاشی، معاشرتی اور اجتماعی امور کو سرانجام دینے کیلئے فن کتابت کی اشد ضرورت ہوتی ہے اور قرآن مجید کی بےشمار آیات اس کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو فن کتابت کے زیور سے آراستہ کرنے کیلئے خصوصی اہتمام فرمایا۔ قلم کا استعمال مثبت ومنفی دونوں طرح ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم الشان نعمت کی قدردانی اسی میں ہیکہ اسے خیر و بھلائی، دین و شریعت کی نشر و اشاعت کے کاموں میں استعمال کیا جائے۔ دور حاضر میں اہل علم کی ذمہ داری ہیکہ وہ قلم کے استعمال اور فن تحریر کو امر بالمعروف او رنہی عن المنکر کے کاموں میں استعمال کریں۔ کیونکہ قلم تلوار سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے، جسکا کا استعمال وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے عاجز نے چند سال قبل ”پیغام فرقان“ کے نام سے طویل مضامین کا سلسلہ شروع کیا تھا، الحمدللہ ملک بھر کے مختلف اخبارات نے اس سلسلے کی قسطوں کو شائع کرتے ہوئے اسے زینت بخشی۔ اسی کے ساتھ اب ”پیام فرقان“ کے نام سے مضامین کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا جارہا ہے۔ پیام فرقان کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہوگی کہ یہ مختصر اور جامع ہوگا۔ امید ہیکہ آپ حضرات یہ منفرد سلسلے کو پسند فرمائیں گے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قلم کے صحیح استعمال کی توفیق عنایت عطا فرمائے اور فتنوں سے مامون و محفوظ فرمائے۔ آمین!


فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

یکم جنوری 2021ء بروز جمعہ

+918495087865

mdfurqan7865@gmail.com

ortArticle

Tuesday, 29 December 2020

”مجلس احرار اسلام ہند“؛ ہمت وجرأت کے 91؍ سال! (29؍ دسمبر یوم تاسیس)



”مجلس احرار اسلام ہند“؛ ہمت وجرأت کے 91؍ سال!

(29؍ دسمبر یوم تاسیس)


✍️ بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(صدر مجلس احرار اسلام بنگلور و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


تحریک آزادیٔ ہند میں جن انقلابی جماعتوں نے اپنے مذہب و قوم اور وطن کے لیے انگریز سامراج کا مقابلہ کیا اور جدوجہد آزادی میں لازوال و بے مثال ایثار و قربانی اور ایمان و عزیمت کی داستانیں رقم کیں ان میں مجلس احرار اسلام ہند سر فہرست ہے۔جس کی جرأت، استقامت، بہادری اور بے باکی کی داستانیں تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ آج سے تقریباً 91؍ سال قبل جب سن 1929ء میں دریائے راوی لاہور کے کنارے کانگریس کے اجلاس کے اختتام پر نہرو رپورٹ دریا میں بہا دی گئی اور انگریز مسلمانوں کے دلوں اور ذہنوں سے جذبۂ جہاد کی آخری چنگاری اور رمق ختم کرنے کے لیے ایک جھوٹے نبی مرزا غلام قادیانی کو جنم دے چکا تھا اور کشمیر میں ڈوگری حکومت کے مسلمانوں کے ساتھ مظالم کے درمیان انگریز کے خودکاشتہ پودے مرزا غلام قادیانی کے بیٹے مرزا بشیر الدین محمود کی طرف سے کشمیر کو مرزائیت میں رنگنے کی سازش رچی جانے لگی تو مسلمانوں کے سامنے ملک کی آزادی کے ساتھ ساتھ اپنے عقیدوں بالخصوص عقیدۂ ختم نبوت کی حفاظت ایک بڑا چیلنج بن کر ابھرا اور ملک کے اکابرین بھی ایک ایسی جماعت کے خواہشمند تھے جو تحریک آزادیٔ ہند کے ساتھ ساتھ تحریک ختم نبوت کی بھی نمائندگی کرے۔بالآخر 29؍ دسمبر 1929ء کو دریائے راوی کے کنارے اسلامیہ کالج لاہور کے حبیب ہال میں تحریک آزادی کے حریت پسندوں کا ایک اجلاس منعقد ہوا۔ جس میں رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ، سید الاحرار امیر شریعت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ، مفکر احرار چودھری افضل حقؒ، مولانا سید محمد غزنویؒ، مولانا مظہر علی مظہرؒ، شیخ حسام الدینؒ، ماسٹر تاج الدین انصاریؒ جیسے سربکف وجان باز مجاہدوں نے امام الہند مولانا ابو الکلام آزادؒ کے تجویز کردہ نام کے مطابق ”مجلس احرار اسلام ہند“ کے نام سے اس انقلابی جماعت کی بنیاد رکھی۔ اجلاس کے اختتام پر بطل حریت رئیس الاحرار حضرت مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ کو مجلس احرار اسلام ہند کا صدر منتخب کیا گیا۔


مجلس احرار اسلام ہند کا قیام اس دور کے مشہور بزرگ شیخ المشائخ حضرت مولانا عبد القادر رائے پوریؒ اور امام المحدثین حضرت مولانا سیدانور شاہ کشمیری ؒکے عین خواہشات کے مطابق تھا۔ ان بزرگوں نے ہمیشہ احرار کی سرپرستی فرمائی۔ مجلس احرار کا قیام جہاں تحریک آزادی کے حریت پسندوں کیلئے ایک مضبوط جماعت کی شکل میں ہوا وہیں ملک میں اس جماعت نے اسلامی روایات کے مطابق میدان سیاست میں قدم رکھا۔ چونکہ مجلس احرار اسلام کے بنیادی مقاصد میں آزادی وطن اور تحفظ ختم نبوت ایسے عظیم اہداف شامل تھے۔ اس لیے کسی بھی مکتبہ فکر کے لیے احرار میں شمولیت کے لیے بے پناہ کشش پائی جاتی تھی۔ اس طرح مجلس احرار نے آزادی کی جدوجہد میں نہ صرف مذہبی شعور کو اجاگر کیا بلکہ مختلف مذہبی مکاتب فکر کے سرکردہ راہنماؤں کو یکجا کر کے مشترکہ قیادت فراہم کی۔ احرار کے قیام سے عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور فرنگی حکومت کے چہرے پر شکن پڑگئے۔


مجلس احرار اسلام ہند نے اپنے قیام کے فوراً بعد کشمیر کو مرزائی اسٹیٹ بنانے کی قادیانی خلیفہ مرزا بشیر الدین کی سازش کو ناکام بنانے کیلئے سن 1931ء میں پہلی ملک گیر تحریک کشمیری مسلمانوں کے حق میں چلائی۔ جو تحریک خلافت کے بعد سب سے بڑی تحریک ثابت ہوئی۔ جس میں پچاس ہزار احرار کارکن گرفتار ہوئے۔ مجلس احرار اسلام نے اس گہری سازش کو ناکام بناتے ہوئے تحریک کشمیر میں قائدانہ کردار ادا کیا اور جنت نظیر وادی کے مسلمانوں کو ڈوگرہ راج کے مظالم سے نجات دلائی اور وہاں قادیانی سازش کے خطرناک نتائج سے بچایا۔ تحریک کشمیر کے بعد احرار کی مقبولیت آسمانوں کو چھونے لگی اور ملک کے مختلف حصوں میں احرار کی شاخیں قائم ہوئیں۔تحریک تحفظ ختم نبوت کے سلسلے میں سب سے بڑا اور مشکل مرحلہ جھوٹی نبوت کے گڑھ قادیان کو فتح کرنا تھا۔ اسی کے پیش نظر مجلس احرار اسلام ہند کے قائدین رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی ؒاور امیر شریعت مولاناسید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے اپنے احرار کے جانثار قافلے کے ساتھ سن 1934ء میں قادیان کا دورہ کرتے ہوئے وہاں سہ روزہ کانفرنس منعقد کیا اور اسی درمیان قادیان میں مجلس احرار اسلام کا دفتر قائم ہوا، جس پر احرار کا پرچم لہرا دیا گیا۔ جسے دیکھ کر جھوٹی نبوت کے پیروکار مرزائیوں کے یہاں زلزلہ برپا ہوگیا۔ اسی کو شاعر نے کہا:

ڈر کے سوتے ہی نہیں رات کو مرزا مرتد

آنکھ لگتی ہے تو احرار نظر آتے ہیں


مجلس احرار اسلام ہند کے قائدین بے غرضی اور بے لوثی میں اپنی مثال آپ تھے۔ انہیں مفکر احرار چوہدری افضل حقؒ کا دماغ، رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ کا جوش عمل اور امیر شریعت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی ساحرانہ خطابت میسر تھی۔ اس لیے دیکھتے ہی دیکھتے پورے ہندوستان میں احرار کا طوطی بولنے لگا۔ مجلس احرار اسلام نے انگریزی استعمار کے شدید مظالم کے مقابلے میں دل برداشتہ اور مایوس ہونے کے بجائے عزم کامل اور پوری جرأت و شجاعت کے ساتھ حریتِ اسلامی اور آزادیِ وطن کا علم بلند کیا۔ احرار کا قافلۂ ولی اللّٰہی اپنی مکمل دینی شناخت اور پہچان کے ساتھ تحریک آزادی میں کامیابی، مسلمانوں کے عقیدہ و ایمان کی حفاظت اور خدمت انسانیت کے جذبوں کو پروان چڑھانے کی جدوجہد میں اپنی قربانیوں کا رنگ بھرتا چلا گیا۔ تحریک آزادیٔ ہند کے ساتھ ساتھ مجلس احرار نے تحریک کشمیر، تحریک تحفظ ختم نبوت، تحریک بحالیِ مسجد شہید گنج، تحریک مسجد منزل گاہ سکھر، تحریک امداد و تعاون زلزلہ زدگان کوئٹہ ومتاثرین قحط بنگال جیسی درجنوں تحریکوں کی قیادت کی اور مسلمانوں کی رہنمائی کا حق ادا کر دیا۔ ہندوستان کے جید علماء و مشائخ کی دعائیں اور سرپرستی احرار کو شاملِ حال رہی۔


تحریک آزادی کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور سن 1947ء میں ملک آزاد ہوا لیکن افسوس کہ آزادی کے ساتھ ساتھ ملک تقسیم بھی ہوگیا۔ مجلس احرار اسلام نے روز اول سے تقسیم ہند اور قیام پاکستان کی مخالفت کی۔ الغرض ملک کی آزادی کے ساتھ ہی ملک تقسیم ہوا اور پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ پاکستان کے قیام کے اعلان کے ساتھ ہی ملک بھر میں فسادات کی ابتداء ہوگئی، ہر طرف قتل و غارت، لوٹ مار کا بازار گرم تھا، پاکستان سے بڑی تعداد میں سکھ اور ہندوستان سے بڑی تعداد میں مسلمان ہجرت کررہے تھے۔ کچھ عرصے بعد ہجرت کا یہ سلسلہ ختم ہوا۔ امیر شریعت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ سمیت احراریوں کی ایک تعداد بھی پاکستان ہجرت کرگئی لیکن چند ہی دنوں بعد رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ اپنے اہل خانہ سمیت ہندوستان دوبارہ واپس تشریف لے آئے۔ 1947ء کے بعد پاکستان میں امیر شریعت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے احرار کی سرگرمیاں جاری رکھیں اور ہندوستان میں رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ نے عزم احرار کو زندہ رکھا۔ البتہ دونوں مقامات میں فرق یہ تھا کہ امیر شریعت ؒکے ہمراہ بے شمار احراری موجود تھے اور رئیس الاحرارؒ نے دیار کفر میں اس کا پرچم بلند رکھا تھا۔


مجلس احرار اسلام ہند نے دینی معاملات پر یکسوئی کے ساتھ توجہ مرکوز رکھی۔ تقسیم ہند کے بعد جب پنجاب و اطراف کے علاقوں میں دین اسلام کا نام لینے والا کوئی بھی نہ رہا اس وقت بھی رئیس الاحرار نے ہمت نہ ہاری بلکہ پنجاب میں مساجد آباد کاری کا کام شروع کروایا اور الحمدللہ انکی قربانیوں کے صدقے آج مشرقی پنجاب میں ایک مرتبہ پھر سے اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہورہی ہیں۔ اسی کے ساتھ سیاسی میدان میں نہ ہونے کے باوجود قومی امور اور عوامی مسائل پر مجلس احرار کی توانا آواز سنائی دیتی رہی۔ ستمبر 1956ء میں رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ کا اچانک وصال ہوگیا، اناللہ وانا الیہ راجعون۔ رئیس الاحرار کے تمام صاحبزادے پنجاب میں اسلام کی اشاعت نو میں متحرک تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپ کے فرزند مفتیٔ اعظم مفتی محمد احمد لدھیانویؒ نے عزم احرار کو آگے بڑھایا اور اس ضمن میں پندرہ روزہ اخبار ”الحبیب“ بھی جاری کیا جو کہ احرار کی ترجمانی کررہا تھا۔ رئیس الاحرار کی رحلت کے بعد پنجاب میں مساجد اور مسلمانوں کو آباد کرنے، تحریک ختم نبوت، مدرسہ حبیبیہ کا قیام جیسے مختلف تحریکوں کے ذریعہ اپنی نمایاں خدمات انجام دیتے ہوئے 27؍ مئی 1988ء میں اس مرد مجاہد نے بھی داعی اجل کو لبیک کہ دیا، اناللہ وانا الیہ راجعون۔ مفتیٔ اعظم کے انتقال کے صرف ایک سال بعد لدھیانہ جامع مسجد میں احرار قائدین کی میٹنگ ہوئی، جس میں مجلس احرار اسلام ہند کو ایک بار پھر ملک بھر میں سرگرم کرنے کیلئے اور مسلمانوں کو جذبۂ احرار سے آشناء کروانے کیلئے طویل مجلس کے بعد اتفاق رائے سے قائد الاحرار حضرت مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانوی دامت برکاتہم کو جماعت احرار کا صدر منتخب کیا گیا۔

جس کے ایثار سے ملت کی دوبالا ہوئی شان

اس جماعت کے ہیں سردار حبیب الرحمن


مجلس احرار اسلام ہند کا صدر بننے کے بعد قائد الاحرار مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانوی نے تمام تر ذمہ داریاں بخوبی ادا کرنی شروع کردیں۔ اولاً تحریک تحفظ ختم نبوت، ثانیاً پنجاب میں مساجد کی آبادکاری اور دینی تعلیم کا فروغ، ثالثاً جماعت احرار کی تنظیم کے کام کو سرفہرت رکھا۔ آپ نے چند سالوں میں ہی نہ صرف جماعت احرار کو منظم کیا بلکہ احراریوں کو ایک بار پھر سے قادیانیوں اور فرقہ پرست طاقتوں کے سامنے شیشہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح قائم کردیا۔ آپ نے پورے ملک کا طوفانی دورہ کرتے ہوئے انگریز کے خودکاشہ پودے قادیانیوں کو اس طرح بے نقاب کیا کہ قادیانی کی راتوں کی نیند حرام ہوگئی۔ یہی وجہ تھی کہ سن 2001ء میں قادیانیوں نے آپکے فرزند ارجمند اور مجلس احرار اسلام ہند کے جنرل سیکریٹری مولانا محمدعثمان رحمانی لدھیانوی سمیت دیگر احراریوں کے خلاف قتل کا ایک جھوٹا مقدمہ درج کرواتے ہوئے گرفتار کرواکر جیل بھیج دیا گیا۔ اس گرفتاری کے بعد قادیانی خوش تھے کہ وہ کامیاب ہوگئے لیکن انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ احراری جہاں جائیں وہاں اللہ کے فضل سے انفرادی انداز میں دین کا کام کرتے ہی رہتے ہیں۔ لدھیانہ جیل میں احراریوں نے عشق رسول اور جرأت و بے باکی کی بے شمار مثالیں قائم کی۔ مجلس احرار اسلام ہند کے تعاون اور قائد الاحرار مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانوی کی سرپرستی میں اسیران ختم نبوت نے لدھیانہ سنٹرل جیل میں فقط پانچ ماہ کے مختصر عرصے میں برصغیر کے جیلوں میں اول”مسجد ختم نبوت“ تعمیر کردی، جسکا افتتاح سن 2005ء میں قائد الاحرار نے کیا۔ اسی طرح مرتد قادیانی پر علمائے لدھیانہ کے سرخیل مولانا شاہ محمد لدھیانویؒ، مولانا شاہ عبداللہ لدھیانویؒ اور مولانا شاہ عبد العزیز لدھیانویؒ کی جانب سے جاری کئے گئے اول فتویٰ تکفیر کے ساتھ جو تحریک تحفظ ختم نبوت شروع ہوئی تھی اسکے سو سال مکمل ہونے پر مجلس احرار اسلام ہند نے 10؍ اپریل 2011ء کو قائد الاحرار مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانوی کی صدارت میں لدھیانہ کی سرزمین پر تاریخی صد سالہ جلسہ منعقد کیا، جس میں تقریباً 10؍ لاکھ سے زائد فرزند توحید نے شرکت کی اور قادیانیوں کا تعاقب اور تاج ختم نبوت کی حفاظت کا عزم کیا۔ جسے دیکھ کر قادیانی بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئے اور ملک کی حکومت اور اسکے اہلکاروں کے یہاں احرار کی شکایتیں کرنے لگے لیکن انہیں شاید معلوم نہیں کہ ایسی شکایتوں سے احرار نہ کبھی ماضی میں گھبرایا تھا اور نہ آج اور کل گھبرائے گا کیونکہ احرار تاج ختم نبوت کی حفاظت کے خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا جانتا ہے تو شکایت اور مقدمہ کیا چیز ہے!


الحمداللہ! آج 29؍ ڈسمبر 2020ء کو مجلس احرار اسلام ہند عزم، ہمت، جرأت اور استقامت کے 91؍ سال مکمل کرچکی ہے اور ملک کے مختلف حصوں میں اپنا یوم تاسیس منا رہی ہے۔ یہ حقیقت ہیکہ علماء لدھیانہ نے بقائے احرار کے لیے اپنی صلاحیتیں وقف کر دیں۔ پرچم احرار بلند رکھا اور اپنے عظیم نصب العین کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہے۔ جس کے نتیجے میں قافلۂ احرار آج بھی قائد الاحرار حضرت مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانوی دامت برکاتہم کی قیادت میں رواں دواں ہے اور مجلس احرار اسلام ہند کے جنرل سیکریٹری مولانا محمد عثمان لدھیانوی کی مدبرانہ صلاحیتوں کے نتیجے میں حلقۂ احرار وسیع ہورہا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آج ملک کے طول و عرض میں شیر اسلام، شاہی امام پنجاب، قائد الاحرار مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانوی مدظلہ کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ آج ملت اسلامیہ ہندیہ کا ایک بڑا طبقہ جہاں آپکی آواز پر لبیک کہتا ہے وہیں دشمن پر آپکا رعب اس طرح طاری ہیکہ دشمن ڈر بھاگتا ہے۔ آج احرار میں وہی جذبۂ حریت، بے خوف، حق گوئی کی صفات موجود ہے جس کی بنیاد رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ اور امیر شریعت مولانا سیدعطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے رکھی تھی۔ آج بھی احرار کا شمار ان جماعتوں میں ہوتا ہے جو فتنۂ قادیانیت کے خلاف صف اول میں ملت اسلامیہ کی رہنمائی کررہے ہیں اور مظلوموں کے حق میں ظالم حکومتوں کے آنکھوں میں آنکھ ڈال کر بات کررہی ہے۔ احرار کے خلاف قادیانیوں کی لگاتار شکایتیں، قائد الاحرار پر بزدلانہ حملے، احراریوں پر ناجائز مقدمات، گودی میڈیا کا قائد الاحرار کے خلاف غلط پروپیگنڈا اور ظالم حکومت کو للکارنے پر قائد الاحرار کا ملک کی راجیہ سبھا میں تذکرہ ہونا اسکی جیتی جاگتی ثبوت ہے کہ احرار کا عمل قبول ہورہا ہے اور یہ واضح پیغام ہیکہ احرار ہیں ہم بیدار ہیں ہم! الغرض ہم دعا کرتے ہیں کہ دین و اسلام اور تحریک ختم نبوت کیلئے اپنی ساری زندگی وقف کرنے والے اس مرد مجاہد، ملت اسلامیہ کے عظیم جرنیل، شیر اسلام، قائد الاحرار مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانوی مدظلہ کی قیادت میں مجلس احرار اسلام ہند اپنی پیش قدمی جاری رکھی، آمین یارب العالمین۔

یہ طنطنہ یہ دبدبا ہے مسلمان کا

ہیبت سے کانپتا ہے بدن قادیان کا

احراریوں نے جو کیا انگریزیوں کے ساتھ

حشر اس سے بڑھ کے ہوگا مرتدوں کے ساتھ


(مجلس احرار اسلام ہند اور علماء لدھیانہ کی تاریخ اور خدمات کو پڑھنے کیلئے مولانا محمد عثمان لدھیانوی کی کتاب ”قافلہ علم حریت“ کا مطالعہ ضرور کریں!)


فقط و السلام

بندہ محمد فرقان عفی عنہ*

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

١٣؍ جمادی الاول ١٤٤٣ھ

مطابق 29؍ دسمبر 2020ء


+91 8495087865

mdfurqan7865@gmail.com

_____________________

*ابن مولانا محمد ریاض الدین مظاہری

متعلم جامعہ ابو ہریرہ ؓ اکیڈمی

ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند

صدر مجلس احرار اسلام بنگلور

رکن عاملہ جمعیۃ علماء ساؤتھ بنگلور

Sunday, 27 December 2020

Moulana Mohammed Ilyas Sb (Ameer Majlise Tahaffuze Khatm-e-Nabuwat Hong Kong) Speech In Online Tahaffuze Aqaid-e-Islam Conference

 Newspapers | 27 Dec 2020









🎯Moulana Mohammed Ilyas Sb (Ameer Majlise Tahaffuze Khatm-e-Nabuwat Hong Kong) Speech In Online Tahaffuze Aqaid-e-Islam Conference!