Friday, 30 May 2025

دارالعلوم دیوبند کی ”یومِ تاسیس“ اور اکابر دیوبند کا طرزِ عمل!

 دارالعلوم دیوبند کی ”یومِ تاسیس“ اور اکابر دیوبند کا طرزِ عمل! 


✍️ بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


دارالعلوم دیوبند برصغیر کی وہ عظیم دینی درسگاہ ہے جس نے نہ صرف اسلامی علوم کی شمع روشن کی بلکہ برطانوی استعمار کے خلاف فکری و عملی جہاد کا بھی مرکز رہی۔ اس ادارے کی بنیاد ١٥؍ محرم الحرام ١٢٧٣ھ مطابق 31؍ مئی 1866 کو رکھی گئی، اور اس کے بعد سے یہ ادارہ امت مسلمہ کی علمی، دینی، اور فکری رہنمائی کا مرکز بنا رہا۔ تاہم حالیہ برسوں میں بعض حلقوں کی جانب سے ”یومِ تاسیس“ منانے کی روایت شروع کی گئی ہے، جو دیوبند کے اصل مزاج و منہج سے ہم آہنگ نظر نہیں آتی۔


دارالعلوم دیوبند کی امتیازی خصوصیات میں اخلاص، سادگی، ریاکاری سے اجتناب اور غیر رسمی طرزِ عمل شامل رہے ہیں۔ اکابرینِ دیوبند کی زندگیوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی طرح کی رسمی تقریبات، سالگرہ منانے یا ادارہ جاتی دنوں کی خصوصی تقریبات سے اجتناب کرتے رہے۔ ان کے نزدیک دین کی خدمت ہی اصل شرف ہے، نہ کہ اس کی نمائش۔


بعض لوگوں کی نظر میں یومِ تاسیس منانا ایک جائز امر ہے، جس میں ادارے کی خدمات کا اعتراف اور نئی نسل کو اس کی تاریخ سے جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب یہ عمل؛ رسمی تقاریب، دکھاوے اور دنیاوی نمائش کا شکار ہو جائے، اخلاص کی جگہ شہرت اور پذیرائی مقصود ہو جائے، اور یہ تقاریب دیگر مکاتبِ فکر کی غیر اسلامی رسوم کی نقل پر مبنی ہوں۔


دارالعلوم دیوبند کی تاریخ میں تقریباً ڈیڑھ صدی گزر جانے کے باوجود اس کے اکابرین نے کبھی بھی ”یومِ تاسیس“ منانے کا اہتمام نہیں کیا۔ نہ اس کی کوئی باقاعدہ تقریب منعقد کی، نہ ہی اس دن کو خصوصی اہمیت دی اور نہ ہی اس کی کوئی عملی مثال چھوڑی۔ حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، قطب الارشاد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ،  شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ، شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ، امام العصر حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ، مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلویؒ، شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمیؒ، اور دیگر جملہ اکابر نے دارالعلوم کی بنیاد کے دن کو کوئی ”مقدس“ یا ”خصوصی“ حیثیت نہیں دی۔ ان کے نزدیک دارالعلوم کی اہمیت اس کی تاریخِ آغاز سے نہیں، بلکہ اس کے مشن اور خدمات سے تھی۔


یہ بات غور طلب ہے کہ اکابر کی اتنی طویل جماعت میں سے کسی نے بھی کبھی اس دن کو منانے کا مشورہ نہیں دیا، نہ ہی اس پر کوئی مضمون، تقریر یا تحریر موجود ہے۔ اگر اس طرح کا اہتمام مستحسن ہوتا، تو یقیناً ہمارے اکابر اس پر نہ صرف خاموش نہ رہتے بلکہ اس کی عملی مثال بھی قائم کرتے۔ ان کے نزدیک ہر دن علم، تقویٰ، اور دین کی خدمت کا دن تھا۔ دارالعلوم کی بقا کا راز بھی اسی خلوص، سادگی، اور ریاکاری سے اجتناب میں پوشیدہ ہے۔ 


کسی بھی بدعت کی ابتداء بظاہر جائز یا مباح امور سے ہوتی ہے، لیکن وقت کے ساتھ وہی عمل رسم بن جاتا ہے، اور پھر اس میں دین داری کا گمان پیدا ہو جاتا ہے۔ اگر آج ہم یومِ تاسیس کو ”محض تاریخی یادگار“ کہہ کر منائیں، تو کل کو یہی عمل ”دینی تقاضا“ سمجھا جانے لگے گا۔


دارالعلوم دیوبند کی عظمت اس کی تاریخ منانے میں نہیں، بلکہ اس کے منہج کو زندہ رکھنے میں ہے۔ اگر ہم واقعی دارالعلوم سے محبت رکھتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ اس کے اکابر کے طرزِ عمل کو اپنائیں، علم، اخلاص، اور عمل سے وابستہ رہیں، نہ کہ رسمی تقاریب اور دنیاوی نمائش سے۔ دارالعلوم دیوبند کی یومِ تاسیس منانا نہ صرف دیوبندی مزاج کے خلاف ہے بلکہ اس میں ایسی رسمیت اور دکھاوا شامل ہو سکتا ہے جو دین کی روح کے خلاف ہے۔ ہمیں اپنے اسلاف کے طریقے پر چلتے ہوئے سادگی، خلوص، اور خدمتِ دین کو اپنانا چاہیے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اکابر کے مزاج، منہج، اور فکری طہارت کو زندہ رکھیں۔ خلوص کے اس چراغ کو دنیاوی رسموں اور غیر ضروری تقریبات کی ہوا سے بجھنے نہ دیں۔ امید ہے کہ ہم اس طرف توجہ فرمائیں گے، اور دیوبندیت کو محض ظاہری نسبت نہیں بلکہ فکری و عملی پیروی کی شکل میں اپنائیں گے۔


فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

ابن مولانا محمد ریاض الدین مظاہری

30؍ مئی 2025ء، بروز جمعہ

#PaighameFurqan | #DarulUloomDeoband | #DarulUloom | #Deoband

Monday, 26 May 2025

وقف ترمیمی قانون 2025 کے خلاف خواتین کے احتجاجی مظاہرے : چند گزارشات!

 وقف ترمیمی قانون 2025 کے خلاف خواتین کے احتجاجی مظاہرے : چند گزارشات! 


✍️ بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند) 



وقف ترمیمی قانون 2025 بلاشبہ ایک حساس، شرعی، اور آئینی مسئلہ ہے، جس پر ملتِ اسلامیہ ہند کا احتجاج ایک فطری اور ضروری رد عمل ہے۔ اس قانون کے ذریعے نہ صرف وقف کی شرعی بنیادوں کو چیلنج کرنے کی کوشش کی جارہی ہے بلکہ اسے ہڑپنے اور خاص طور پر اقلیتوں کے مذہبی حقوق کو مجروح کیا جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں قوم کا بیدار ہونا، آواز بلند کرنا، اور آئینی دائرے میں جدوجہد کرنا قابل تحسین ہے۔


تاہم، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس جائز تحریک کی آڑ میں بعض مقامات پر ایسے مناظر دیکھنے میں آئے ہیں جن کا شریعتِ مطہرہ اور اسلامی غیرت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ خاص طور پر خواتین کی جانب سے بے پردگی، مخلوط اجتماعات، اور ایسے نعروں کا استعمال جو اسلامی آداب اور تہذیب سے متصادم ہیں، یہ سب ایک سنگین فکری اور عملی انحراف کی علامت ہے۔


اسلام نے عورت کو عظمت، حیاء، اور وقار کا پیکر بنایا ہے۔ اسلام کا دیا ہوا پردہ محض ایک ظاہری لباس نہیں، بلکہ یہ اُس روحانی تحفظ، عفت اور وقار کا ضامن ہے جس سے ایک معاشرہ پاکیزگی، برکت، اور امن کا گہوارہ بنتا ہے۔ وقف کی حفاظت کی بات ہو اور وقف کی اصل روح یعنی دینی اقدار کو ہی پامال کیا جائے، تو یہ خود اپنے مقصد سے انحراف ہے۔


تحریکیں اگر کردار سازی سے خالی ہوں، اور صرف جذباتی نعروں اور وقتی شورش پر مبنی ہوں، تو وہ دیرپا اثر نہیں چھوڑتیں۔ خاص طور پر جب خواتین اسلام کے وقار کو نمایاں کرنے کے بجائے میڈیا کی توجہ کا ذریعہ بن جائیں، تو نقصان دوگنا ہوتا ہے: نہ صرف تحریک کی سنجیدگی مشکوک بن جاتی ہے بلکہ اسلام مخالف عناصر کو ملت پر تنقید کا موقع بھی مل جاتا ہے۔


لہٰذا ضروری بلکہ لازم ہے کہ :

1) تحریک اور احتجاج کے تمام شرکاء خاص طور پر خواتین مکمل طور پر شرعی آداب، پردے اور اسلامی اخلاق کا پاس و لحاظ رکھیں، تاکہ ہماری جدوجہد دینِ اسلام کی اقدار کا آئینہ دار ہو۔

2) پروگرام کے منتظمین پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس امر کو یقینی بنائیں کہ خواتین کا احتجاج اسلام کے اعلیٰ اخلاقی اقدار جیسا کہ حیا، وقار اور کردار کا عملی مظہر ہو، تاکہ دنیا کے سامنے  دینِ اسلام کی حقیقی اور مثبت تصویر پیش کی جا سکے۔

3) نوجوان نسل کو یہ سمجھایا جائے کہ شریعت اور دستور کی حفاظت کے لیے جدوجہد، خود شریعت کی پابندی کے بغیر ممکن نہیں۔


وقف کی حفاظت ہمارے دین اور تہذیبی ورثے کا ایک اہم تقاضا ہے، اور اس کے لیے بھرپور جدوجہد وقت کی ضرورت بن چکی ہے۔ تاہم یہ بات ہر کارکن، ہر رہنما اور ہر فرد کے ذہن میں واضح ہونی چاہیے کہ یہ جدوجہد اسی وقت بااثر اور بابرکت ہو سکتی ہے جب وہ مکمل طور پر دینِ اسلام کی تعلیمات، شریعت کی حدود، اور اخلاقی آداب کے دائرے میں رہ کر کی جائے۔ کیونکہ شریعت سے ہٹ کر کی جانے والی کوئی بھی کوشش، کتنی ہی پرجوش کیوں نہ ہو، آخرکار اپنی روح کھو بیٹھتی ہے۔ وقف بچانے کا راستہ، شریعت اپنانے سے ہو کر گزرتا ہے۔ اور ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارا اصل ہتھیار ہماری اخلاقی برتری، ہماری دینی وابستگی، اور ہماری تہذیبی شناخت ہے۔ اگر ہم خود ہی اپنی بنیادوں کو کھوکھلا کریں گے، تو کوئی تحریک کامیاب نہیں ہو سکتی۔

 

Thursday, 22 May 2025

مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام ”وقف بچاؤ، دستور بچاؤ کانفرنس“ کا انعقاد، اہل وطن سے شرکت کی اپیل!

 وقف ترمیمی قانون 2025 : دستور ہند کے خلاف اور مسلمانوں کی مذہبی شناخت پر حملہ ہے: محمد فرقان

مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام ”وقف بچاؤ، دستور بچاؤ کانفرنس“ کا انعقاد، اہل وطن سے شرکت کی اپیل!



بنگلور، 22؍ مئی (پریس ریلیز): وقف ایک مذہبی فریضہ اور ایک مقدس امانت ہے، جو صدیوں سے عوامی فلاح، عبادات، تعلیم اور رفاہی کاموں کے لیے وقف کی گئی زمینوں اور اداروں کی صورت میں ہماری تہذیبی و دینی زندگی کا اہم حصہ رہی ہے۔ مگر موجودہ حکومت کی جانب سے پیش کیا گیا وقف ترمیمی قانون 2025ء نہ صرف اس مقدس نظام پر حملہ ہے بلکہ یہ ایک مخصوص مذہبی طبقے کی شناخت، آزادی اور آئینی حقوق پر ضرب کاری ہے۔ مذکورہ خیالات کا اظہار مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے کیا۔ انہوں نے کہا کہ ان ترمیمات کے ذریعے حکومت بڑی آسانی سے ان وقف جائیدادوں پر اپنے قبضہ جما سکتی ہے، جو کہ نہ صرف دستور ہند کے خلاف ہے بلکہ مذہبی آزادی کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ محض قانونی معاملہ نہیں بلکہ ایک پوری قوم کی روحانی، تاریخی اور ثقافتی اساس کا مسئلہ ہے۔ لہٰذا ملک کے انصاف پسند شہری بالخصوص مسلمان اس ناانصافی پر خاموش نہیں رہ سکتے۔ یہی وجہ ہیکہ اس غیر آئینی، غیر جمہوری اور غیر منصفانہ وقف ترمیمی قانون 2025ء کے خلاف پورا ملک سراپا احتجاج ہے اور ملت اسلامیہ ہندیہ کا متحدہ و متفقہ پلیٹ فارم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ملک بھر میں وقف املاک کو درپیش خطرات کے پیش نظر ”وقف بچاؤ، دستور بچاؤ تحریک“ چلا رہی ہے۔ جس کو ملک کے تمام دینی، ملی، سماجی تنظیموں اور انصاف پسند شہریوں کا تعاون ہے۔ مرکز تحفظ اسلام ہند بھی روز اول سے بورڈ کی اس تحریک کے ساتھ کھڑی ہے، نیز مرکز نے پارلیمنٹ میں وقف ترمیمی بل پیش ہونے سے قبل بھی ایک عظیم تحفظ اوقاف کانفرنس کا انعقاد کیا تھا۔ مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے کہا کہ چونکہ بورڈ اب ملک بھر میں ”وقف بچاؤ، دستور بچاؤ تحریک“ چلا رہی ہے، لہٰذا مرکز تحفظ اسلام ہند اس تحریک کو کامیاب کرنے کے سلسلے میں نہ صرف مسلسل جدوجہد کررہی ہے بلکہ اب ایک عظیم الشان آن لائن ”وقف بچاؤ، دستور بچاؤ کانفرنس“ کے انعقاد کا آغاز کررہی ہے، اس کے لئے ایک ایکشن کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے۔ محمد فرقان نے بتایا کہ اس تحریک اور کانفرنس کا مقصد وقف کی شرعی اور قانونی حیثیت کا تحفظ، اقلیتوں کے آئینی حقوق کی حفاظت، اور حکومت ہند کی جانب سے مجوزہ و منظور شدہ وقف ترمیمی قوانین کے غیر آئینی اور غیر منصفانہ پہلوؤں کو بے نقاب کرنا ہے۔ محمد فرقان نے کہا کہ ”وقف بچاؤ، دستور بچاؤ تحریک“ صرف وقف املاک کے تحفظ کی تحریک نہیں، بلکہ یہ ایک وسیع تر جمہوری اور دستوری جدوجہد ہے جو اس ملک کی اقلیتوں کے مذہبی، تعلیمی اور ثقافتی حقوق کی حفاظت کے لیے ناگزیر ہو چکی ہے۔ یہ تحریک عوام کو بیدار کرنے، قانونی اور سیاسی سطح پر اقدامات اٹھانے، اور تمام امن پسند و انصاف پسند شہریوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی ایک کوشش ہے۔ مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے کہا کہ انہیں مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کیلئے مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام یہ عظیم الشان آن لائن”وقف بچاؤ، دستور بچاؤ کانفرنس“ منعقد کی جارہی ہے، جس کی نشستیں ہر ہفتے میں تین دن یعنی جمعہ، سنیچر اور اتوار کی شب رات 9 بجے منعقد ہوگی اور مرکز کے آفیشیل یوٹیوب چینل اور فیس بک پر براہ راست نشر کیا جائے گا۔ محمد فرقان نے ملک کے باشندوں سے اپیل کی کہ وہ اس تحریک کا بھرپور حصہ بنیں اور اس کانفرنس کو کامیاب بنائیں اور ملک کے آئینی ڈھانچے، اقلیتی حقوق اور وقف املاک کے تحفظ کی اس عظیم جدوجہد کو مضبوط بنائیں۔


#SaveWaqfSaveConstitution | #WaqfBachaoCampaign | #RejectWaqfAct | #WaqfAmendmentAct | #WithdrawWaqfAmendments

Tuesday, 29 April 2025

وقف ترمیمی قانون 2025ء کے خلاف ”بتی گل تحریک“ کو کامیاب بنائیں!

 وقف ترمیمی قانون 2025ء کے خلاف ”بتی گل تحریک“ کو کامیاب بنائیں! 

مرکز تحفظ اسلام ہند کی باشندگان ملک بالخصوص ملت اسلامیہ سے اپیل! 




بنگلور، 29؍ اپریل (پریس ریلیز): غیر آئینی، غیر دستوری اور غیر منصفانہ وقف ترمیمی قانون 2025ء کے خلاف آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے زیر اہتمام جاری ”وقف بچاؤ، دستور بچاؤ تحریک“ کے تحت ایک اہم اور پر امن احتجاج ”بتی گل تحریک“ کا نفاذ بروز چہارشنبہ 30؍ اپریل 2025ء کو رات 9 بجے سے 9:15 بجے تک کیا جائے گا۔ مذکور خیالات کا اظہار مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے کیا۔ انہوں نے کہا کہ بورڈ کی ہدایات کے مطابق یہ خاموش احتجاج پورے ملک میں ایک وقت اور ایک طریقہ پر ہوگا، ہر گھر کی، ہر دکان کی، ہر مکان کی، ہر فیکٹری کی لائٹ بند ہوگی اور ملت کے اجتماعی شعور اور بیداری کی گواہ بنیں گی اور متحدہ طور پر حکومت کو یہ واضح پیغام جائے گا کہ پورا ملک اس غیر آئینی سیاہ قانون کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ وقف ترمیمی قانون 2025ء کے خلاف بتی گل تحریک ایک علامت ہوگا کہ ہم ظلم کے خلاف ہیں، ہم بیدار ہیں اور اپنے حق کے حصول کی جد وجہد کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔ انہوں نے کہا مرکز تحفظ اسلام ہند جہاں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے اس بتی گل تحریک کی حمایت کرتی ہے وہیں ملک کے تمام باشندگان بالخصوص ملت اسلامیہ ہندیہ سے گزارش کرتی ہیکہ 30؍ اپریل 2025ء کی رات کو 9 بجے سے 9:15 تک اپنے مکانوں، دکانوں، فیکٹریوں اور دیگر تجارتی مراکز کی روشنیاں بند کر کے بورڈ کی ہدایت کے مطابق اس کام کو پورے اہتمام سے انجام دیتے ہوئے پر امن احتجاج کا مظاہرہ کریں۔ ساتھ ہی اپنی مساجد اور حلقہ اثر میں عوام کو اس احتجاج میں شامل ہونے کی ترغیب دیں تا کہ حکومت کو یہ واضح پیغام دیا جا سکے کہ ملک کے انصاف پسند شہری بالخصوص ملت اسلامیہ اپنی وقف املاک پر کسی قسم کی زیادتی برداشت نہیں کرے گی۔ اسی کے ساتھ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ سے جاری ہیش ٹیگ 

 #BlackOutAgainstWaqfAmendments 

کو استعمال کرتے ہوئے اپنی تصاویر اور ویڈیوز کو سوشل میڈیا پر زیادہ سے زیادہ عام کرنے کی کوشش کریں بالخصوص ٹیوٹر (ایکس) پر زیادہ سے زیادہ اہتمام کے ساتھ ٹیوٹ کریں اور دوسروں کو بھی اسکی ترغیب دلائیں۔ یہ وقت بیداری، یکجہتی اور شعور کا ہے۔ ان شاء اللہ یہ پندرہ منٹ وقف کے تحفظ اور دستور کے بقا کے لئے روشن پیغام ثابت ہوگا۔ اور ہماری وحدت، نظم اور شعوری احتجاج کی علامت ہوں گے۔

Saturday, 12 April 2025

WAQF BACHAO ANDOLAN

 WAQF BACHAO ANDOLAN

(Defending Constitution | Protecting Rights)



ONLINE AWARENESS SESSION ON WAOF


Jb. Md Furqan

Director, Markaz Tahaffuz-e-Islam Hind


Jb. Luqman Farqalit 

Secretary, Association for the Protection of Civil Rights, AP Chapter


📆13 April 2025


Organized By:

Youth Joint Action Committee, Vijayawada


#WaqfAmendmentAct #RejectWaqfAct #RepealWaqfAct #Waqfbill