Monday, 14 July 2025

بغض صحابہؓ درحقیقت بغض رسولؐ ہے، انکی گستاخی دین پر حملہ اور ایمان کی تباہی ہے!

 بغض صحابہؓ درحقیقت بغض رسولؐ ہے، انکی گستاخی دین پر حملہ اور ایمان کی تباہی ہے! 

مرکز تحفظ اسلام ہند کے ”عظمت صحابہؓ کانفرنس“ سے مولانا عبد الرحیم رشیدی اور حافظ ارشد احمد کے خطابات!



 بنگلور، 12؍ جولائی (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیرِ اہتمام منعقد عظیم الشان آن لائن ”عظمت صحابہؓ کانفرنس“ کی تیسری نشست سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر حضرت مولانا عبد الرحیم رشیدی صاحب نے فرمایا کہ صحابہ کرامؓ کی عظمت بلند و بالا ہے، وہ ایسی مقدس شخصیات ہیں جن کے ذریعے دین ہم تک پہنچا، اور جنہوں نے نبی کریم ﷺ کے ہر حکم پر اپنی جان و مال قربان کر دی۔ ان کی قربانیوں کی نظیر تاریخِ انسانی میں نہیں ملتی۔ قرآنِ کریم نے ان کے مقام و مرتبے کی گواہی دی ہے اور اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا: "رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ"۔ ایسے مقدس اور منتخب نفوس پر زبان درازی کرنا، درحقیقت اپنی آخرت برباد کرنے اور جہنم کی آگ کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ انہوں نے سخت لہجے میں فرمایا کہ جو لوگ صحابہ کی شان میں گستاخی کرتے ہیں وہ لعنتی، کم عقل، جاہل اور ایمان سے محروم لوگ ہیں۔ صحابہؓ کے بارے میں بدگمانی اور انکی شان میں گستاخی دراصل رسول اللہ ﷺ کی توہین کے مترادف ہے، کیونکہ ان کے مربی و معلم خود سرورِ کائنات ﷺ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ کی موجودگی میں ان پاکباز ہستیوں نے ایمان، فداکاری، سچائی، قربانی اور دیانت کا وہ عملی نمونہ پیش کیا جسے قیامت تک کے لیے امت کے لیے معیارِ حق بنا دیا گیا۔ ہمیں چاہئے کہ صحابہؓ کی سیرت اور ان کے تذکروں کو عام کریں، ان کے نقشِ قدم پر چلیں اور ان سے محبت کو اپنے ایمان کا حصہ بنائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جو قوم اپنے محسنوں اور بزرگوں کی قدر نہیں کرتی وہ تاریخ کے صفحات سے مٹا دی جاتی ہے، اور صحابہ کرامؓ وہ ہستیاں ہیں جن کے بغیر دین کا کوئی باب مکمل نہیں۔ صحابہؓ کے دفاع کو ایمان کا دفاع سمجھنا چاہیے، اور ہر فرد کو ان کی ناموس کے تحفظ کے لیے بیدار ہونا چاہیے۔


اسی نشست سے کلیدی خطاب کرتے ہوئے جمعیۃ علماء کرناٹک کے نائب صدر حضرت حافظ ارشد احمد حنفی صاحب نے فرمایا کہ آج اسلام دنیا بھر میں جس حیثیت سے موجود ہے، وہ صحابہ کرامؓ کی انتھک جدوجہد، بے مثال قربانیوں اور دعوتی محنت کا ثمر ہے۔ اسلام، صحابہ کے واسطے سے ہم تک پہنچا، اور جہاں کہیں بھی ایمان، قرآن، اذان اور نماز ہے، وہ صحابہ کی محنت کا فیض ہے۔ افسوس کہ آج انہی ہستیوں کی شان میں گستاخی کی جا رہی ہے، یہ ایک ایسا خطرناک فتنہ ہے جو دین کی بنیادوں کو متزلزل کرنے کی سازش ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ صحابہ پر اعتراضات دراصل نبی کریم ﷺ کی تربیت و کردار پر اعتراض ہے، کیونکہ صحابہ کے معلم و مزکی خود نبی کریم ﷺ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صحابہ کے فضائل قرآن و حدیث میں بکثرت موجود ہیں، اور جو شخص ان کی شان میں گستاخی کرے وہ دراصل اپنے انجام کو جہنم کے لیے تیار کر رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر صحابہ کرامؓ کی عدالت، صداقت اور امانت پر سوال اٹھا دیا جائے تو پورا دین مشکوک بن جاتا ہے، کیونکہ ہمیں دین انہی کے توسط سے ملا ہے۔ ان کے ذریعہ قرآن ہم تک پہنچا، سنت محفوظ ہوئی، اور اسلام کا نظامِ زندگی ہم تک منتقل ہوا۔ آج کے دور میں جبکہ ایمان پر فکری حملے ہو رہے ہیں، صحابہؓ کا تذکرہ کرنا، ان کی سیرت کو زندہ رکھنا، اور ان کا دفاع کرنا از حد ضروری ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صحابہ کرام نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ عدل و انصاف، دیانت و شجاعت کے عالمی نمونے ہیں، یہاں تک کہ غیر مسلم مؤرخین بھی ان کی سچائی، بہادری اور اخلاص کی مثالیں دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دفاعِ صحابہ وقت کی شدید ضرورت ہے اور ہمیں ہر گھر، ہر فرد تک یہ پیغام پہنچانا ہے کہ تمام صحابہ کرامؓ معیارِ حق ہیں اور ان کی تنقیص ایمان کی کمزوری بلکہ بربادی ہے۔


اس موقع پر دونوں حضرات نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ دشمنانِ صحابہ سے مکمل بیزاری کا اعلان کریں، ان کے فتنوں سے بچیں، اور صحابہؓ کے فضائل و مناقب کو عام کریں۔ ان کی سیرت کو اپنا شعار بنائیں اور دفاعِ صحابہ کے اس مقدس فریضے کو اپنی زندگیاں وقف کر دیں۔ ان شاء اللہ، اسی کے ذریعہ سے امت کے ایمان، اتحاد اور عزت کا تحفظ ممکن ہے۔


قابل ذکر ہے کہ مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیرِ اہتمام منعقد یہ عظیم الشان آن لائن ”عظمت صحابہؓ کانفرنس“ مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور مرکز کے رکنِ تاسیسی قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی کی نظامت میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا آغاز مرکز کے رکن شوریٰ قاری محمد عمران کی تلاوت و نعتیہ اشعار سے ہوا۔ اس موقع پر دونوں اکابر علماء نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا اور عظمتِ صحابہ کانفرنس کے انعقاد پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے اسے وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیا۔ اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے دونوں حضرات اور جملہ سامعین کا شکریہ ادا کیا اور صدرِ اجلاس کی دعا پر یہ عظیم الشان ”عظمت صحابہؓ کانفرنس“ کی تیسری نشست اختتام پذیر ہوئیں۔


#AzmateSahaba #DifaSahaba #Sahaba #TIMS #MTIH #PressRelease

Sunday, 13 July 2025

مرکز تحفظ اسلام ہند کے ”عظمتِ صحابہؓ کانفرنس“ کی شاندار کامیابی کے پیش نظر پانچ دن کی توسیع کا اعلان

 مرکز تحفظ اسلام ہند کے ”عظمتِ صحابہؓ کانفرنس“ کی شاندار کامیابی کے پیش نظر پانچ دن کی توسیع کا اعلان

اکابر علماء کی ہدایت، شرکاء کے اصرار اور دینی تقاضوں کی تکمیل کے لیے اہم فیصلہ!


بنگلور، 13؍ جولائی (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقدہ آن لائن ”عظمتِ صحابہؓ کانفرنس“ کی شاندار عوامی و علمی پذیرائی، بھرپور دینی اثر انگیزی، ممتاز علماء کرام کے پے در پے فکر انگیز خطابات، اور ملت کے مختلف طبقات سے مسلسل موصول ہونے والے مثبت ردعمل کو مدنظر رکھتے ہوئے، نیز اکابر علماء کرام کی خصوصی ہدایت اور مشورے کی تعمیل میں اس کانفرنس کے پروگرام میں مزید پانچ دنوں کی توسیع کا فیصلہ کیا گیا ہے۔


مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے آج منعقد ایک پریس کانفرنس کے ذریعہ اعلان کیا کہ یہ کانفرنس جس جذبے، قبولیت، اور بیداری کے ماحول کے ساتھ جاری ہے، وہ کسی بھی علمی تحریک کے لیے باعثِ فخر ہے۔ صحابہ کرامؓ کے فضائل، مناقب، سیرت، خدمات اور دفاع کے موضوع پر ہونے والی اس ہمہ گیر مہم نے امت کے اندر ایمان کی تجدید، عقیدے کی اصلاح، اور دشمنانِ صحابہؓ کے خلاف علمی صف بندی کی نئی فضا قائم کی ہے۔ عوامی مطالبات، علماء کی رائے، اور دعوتِ دین کے وسیع تر مفاد میں ہم نے اس کانفرنس کو مزید پانچ دنوں تک جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ اس مشن کی وسعت کو نئی جہت دی جا سکے۔


واضح رہے کہ پہلے مرحلے میں یہ پروگرام 9؍ جولائی تا 13؍ جولائی تک پانچ دن کے لیے متعین کیا گیا تھا، جس میں ملک بھر کے چوٹی کے جید علمائے کرام، مفتیانِ عظام، خطباء و مبلغین نے شرکت کی، اور صحابہ کرامؓ کی عظمت، ان کی عدل و دیانت، دین کے لیے ان کی قربانیوں اور دشمنانِ صحابہ کی شرانگیزیوں کے خلاف مدلل، متوازن اور ایمان افروز بیانات پیش کیے۔ اس پانچ روزہ سلسلے کو پورے ملک میں زبردست مقبولیت حاصل ہوئی۔ سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر ہزاروں افراد نے براہِ راست مجالس میں شرکت کی، اور نوجوانوں کی بڑی تعداد اس بیداری مہم سے جڑی۔


علمائے کرام کی جانب سے مشورہ دیا گیا کہ جب تک گستاخ صحابہ کا فتنہ زندہ ہے، تب تک دفاعِ صحابہ کا فریضہ بھی زندہ اور جاری رہنا چاہیے۔ اس لیے صرف وقتی ردعمل پر اکتفا کرنے کے بجائے ایک تسلسل کے ساتھ، منظم علمی جواب اور عوامی شعور کی بیداری کو جاری رکھا جائے۔ اسی روح کو سامنے رکھتے ہوئے یہ اہم فیصلہ کیا گیا کہ 14؍ جولائی تا 18؍ جولائی 2025 تک مزید پانچ دن اس کانفرنس کو جاری رکھا جائے گا۔ نئی توسیع کے تحت بھی ممتاز مقررین و علمائے کرام کے خطابات کا سلسلہ جاری رہے گا۔ موضوعات کو وسعت دیتے ہوئے نہ صرف صحابہؓ کے دفاع کو تقویت دی جائے گی بلکہ ان کی سیرت کو نئی نسل تک پہنچانے کی مؤثر کوشش کی جائے گی۔ ان مجالس کو حسب سابق مرکز کے آفیشیل یوٹیوب چینل اور فیس بک پیج تحفظ اسلام میڈیا سروس پر ہر رات 10 بجے براہِ راست نشر کیا جائے گا۔


مرکز تحفظ اسلام ہند تمام مسلمانوں، بالخصوص نوجوان نسل سے اپیل کرتا ہے کہ وہ ان مجالس میں بھرپور شرکت کریں، اپنے ایمان کو تازہ کریں، صحابہ کرامؓ کی سیرت سے روشنی حاصل کریں، اور دشمنانِ دین کے خلاف ایک مضبوط فکری و ایمانی قلعہ بن کر ابھریں۔ یہ توسیع صرف ایک پروگرام کا بڑھایا جانا نہیں بلکہ ایک جدوجہد، ایک تحریک، اور ایک فکری جہاد ہے جسے آپ کی شرکت اور تائید سے تقویت ملے گی۔ آئیے! اس کارواں کا حصہ بنیے، دفاعِ صحابہؓ کے علم کو تھام لیجیے، اور پوری امت کو یہ پیغام دیجیے کہ ناموسِ صحابہؓ کی حفاظت آج بھی ہمارے دلوں کی سب سے بڑی ترجیح ہے۔ قابل ذکر ہے کہ مرکز تحفظ اسلام ہند کی جانب سے منعقد اس اہم پریس کانفرنس میں مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان، آرگنائزر حافظ محمد حیات خان، رکن تاسیسی قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی بطور خاص موجود رہے۔


#AzmateSahaba #DifaSahaba #Sahaba #TIMS #MTIH #PressRelease


Saturday, 12 July 2025

صحابہ کرامؓ کی شانِ اقدس میں گستاخی ناقابلِ برداشت ہے، دفاع صحابہؓ وقت کی اہم ترین ضرورت!

 صحابہ کرامؓ کی شانِ اقدس میں گستاخی ناقابلِ برداشت ہے، دفاع صحابہؓ وقت کی اہم ترین ضرورت!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے ”عظمت صحابہؓ کانفرنس“ سے مفتی افتخار احمد قاسمی اور مولانا مقصود عمران رشادی کے خطابات!

 بنگلور، 12؍ جولائی (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیرِ اہتمام منعقد عظیم الشان آن لائن ”عظمت صحابہؓ کانفرنس“ کی پہلی و افتتاحی نشست سے خطاب کرتے ہوئے مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست اور جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر حضرت مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب نے فرمایا کہ ایمان اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے، اگر کوئی اس سے محروم ہے تو وہ ہر دولت و مقام کے باوجود خالی ہے۔ آج کا سب سے بڑا فتنہ یہ ہے کہ انسان کے دل و دماغ کو ایمان سے خالی کر دیا جائے۔ بالخصوص نوجوان نسل فکری گمراہی اور ذہنی ارتداد کا شکار ہو رہی ہے۔ ایسے ماحول میں جہاں ایمان کو متزلزل کرنے کی منصوبہ بند کوششیں جاری ہیں، وہاں صحابہ کرامؓ کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے، شکوک و شبہات اور گستاخانہ رویے اختیار کر کے مسلمانوں کے ایمان پر ڈاکہ ڈالنے کی مذموم سازشیں کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ جس قرآن پر ہمارا ایمان ہے، وہی قرآن صحابہ کرامؓ کی عظمت اور برتری کی گواہی دیتا ہے، ان کی تعریف و توصیف کرتا ہے، اور انہیں رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ کے لقب سے نوازتا ہے۔ ایسے میں صحابہؓ کی شان میں گستاخی کرنا گویا قرآن اور ایمان دونوں سے انکار کے مترادف ہے۔ مولانا قاسمی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج بعض لوگ اہلِ بیتؓ کے نام پر دیگر صحابہ کرامؓ کی توہین اور تنقیص کر رہے ہیں، حالانکہ خود اہلِ بیتؓ نے تمام صحابہ کرامؓ کی تعظیم و توقیر کی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے متعدد مواقع پر صحابہؓ کے فضائل بیان کیے، ان کے ایمان، قربانی، اخلاص اور وفاداری کو سراہا۔ ایسے عظیم المرتبت اور مقدس جماعت کے بارے میں طعن و تشنیع ناقابلِ برداشت اور ناقابلِ معافی جرم ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ صحابہ کرامؓ وہ مبارک ہستیاں ہیں جن کے ذریعہ ہمیں قرآن ملا، حدیث پہنچی، دین کی بنیادیں ہمیں منتقل ہوئیں۔ اگر انہی کو مشکوک بنا دیا جائے تو پورا دین مشکوک اور غیر معتبر بن جائے گا۔ جو شخص صحابہؓ کی شان میں گستاخی کرتا ہے وہ اللہ کی لعنت کا مستحق ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ صحابہ کرامؓ کی عظمت کو اجاگر کرنا صرف ایک تاریخی یا علمی مسئلہ نہیں، بلکہ ایمان و عقیدہ کا حصہ ہے۔ جن لوگوں کے دلوں میں صحابہؓ کی محبت نہیں، ان کے ایمان کے بارے میں خود غور و فکر کی ضرورت ہے۔ یہ وہ جماعت ہے جس نے نبی کریم ﷺ کے شانہ بشانہ دین کی سرفرازی کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔ ان کے خلاف زبان درازی کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے اور ملتِ اسلامیہ کی ذمہ داری ہے کہ ان کے تذکرے کو عام کریں اور ان سے محبت اور دفاع کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیں تاکہ ہمارے اور ہماری نسلوں کا ایمان محفوظ ہو سکے۔


مرکز تحفظ اسلام ہند کے ”عظمت صحابہؓ کانفرنس“ کی دوسری نشست سے خطاب کرتے ہوئے جامع مسجد سٹی بنگلور کے خطیب و امام حضرت مولانا مفتی ڈاکٹر محمد مقصود عمران رشادی صاحب نے فرمایا کہ گزشتہ کچھ عرصہ سے ملک میں بعض فرقہ پرست ذہن رکھنے والے افراد کا یہ معمول بن چکا ہے کہ وہ اصحابِ رسول ﷺ کی عظمت کو مجروح کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ اسی پس منظر میں اس عظمت صحابہؓ کانفرنس کی ضرورت محسوس ہوئی تاکہ امت کو بیدار کیا جا سکے اور ان فتنوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑا کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ تمام صحابہؓ اللہ کے محبوب بندے ہیں، ان سے اللہ تعالیٰ راضی ہے، اور ان کے لیے جنت کی خوشخبریاں دی گئی ہیں۔ کسی بھی مسلک، جماعت یا گروہ کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی صحابیؓ کی شان میں گستاخی کرے۔ صحابہؓ معیارِ حق ہیں، ان کے ایمان، عدالت اور کردار پر تنقید دراصل دینِ اسلام پر حملہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جو لوگ صحابہ کرامؓ کی شان میں گستاخی کرتے ہیں، وہ حقیقت میں منافق، فتنہ پرور اور اسلام دشمن ایجنڈے کے علمبردار ہیں۔ ایسے لوگوں کو چاہیے کہ فوراً توبہ کریں، اپنی زبانوں کو لگام دیں اور امتِ مسلمہ کو گمراہ کرنے کا سلسلہ بند کریں، ورنہ آخرت میں سخت ترین حساب کے لیے تیار رہیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں بھی ایسے لوگ ذلت و رسوائی کا شکار ہوں گے، اور ان کی حقیقت عیاں ہو جائے گی۔ مولانا رشادی نے پُرزور انداز میں فرمایا کہ صحابہؓ کی ذات پر الزام تراشی صرف ایک فرقہ وارانہ مسئلہ نہیں بلکہ یہ پوری امت کے دینی تشخص اور عقیدے پر حملہ ہے۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کو سوشل میڈیا کے ان زہریلے پروپیگنڈوں سے بچانا ہوگا جن کے ذریعے صحابہؓ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ دینی ادارے، خطباء، علماء اور والدین سب کو اپنی ذمہ داری ادا کرنی ہوگی تاکہ نئی نسل صحابہ کرامؓ کی محبت، ان کی قربانیوں اور ان کے کردار سے واقف ہو اور ان کی عظمت کا تحفظ کرے۔


 آخر میں دونوں حضرات نے تمام مسلمانوں، خصوصاً نوجوانوں سے اپیل کی کہ وہ صحابہ کرامؓ کی سیرت، تاریخ اور خدمات کا گہرائی سے مطالعہ کریں، ان کے کردار کو اپنائیں اور ان کی محبت کو اپنا ایمانی شعار بنائیں۔ صحابہ کرامؓ کی ناموس کا دفاع ہر مسلمان پر فرض ہے، اور ان کی عظمت کو عام کرنا وقت کی اہم ترین دینی و اخلاقی ضرورت ہے۔ یہ کانفرنس اسی مقصد کے تحت منعقد کی گئی تھی، اور ان شاء اللہ آئندہ بھی ایسے مزید علمی، فکری اور اصلاحی پروگرام جاری رہیں گے۔

 قابل ذکر ہے کہ مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیرِ اہتمام منعقد یہ عظیم الشان آن لائن ”عظمت صحابہؓ کانفرنس“ مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور مرکز کے رکنِ تاسیسی قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی کی نظامت میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا آغاز مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان اور رکن مولانا اسرار احمد قاسمی کی تلاوت اور رکن شوریٰ قاری محمد عمران کے نعتیہ اشعار سے ہوا، جبکہ مرکز کے اراکین محمد حارث پٹیل، سید توصیف، عمران خان بطورِ خاص شریک رہے۔ اس موقع پر دونوں اکابر علماء نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا اور عظمتِ صحابہ کانفرنس کے انعقاد پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے اسے وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیا۔ اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے دونوں حضرات اور جملہ سامعین کا شکریہ ادا کیا اور صدرِ اجلاس کی دعا پر یہ عظیم الشان ”عظمت صحابہؓ کانفرنس“ کی نشستیں اختتام پذیر ہوئیں۔


#Sahaba #AzmateSahaba #ProphetMohammed #MTIH #TIMS #IftikharAhmedQasmi #MaqsoodImranRashadi

Friday, 11 July 2025

صحابہؓ کی ناموس پر حملہ: سوشل میڈیا کا فتنہ اور ہماری ذمہ داریاں!

 صحابہؓ کی ناموس پر حملہ: سوشل میڈیا کا فتنہ اور ہماری ذمہ داریاں! 

✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


امت مسلمہ کا سب سے روشن اور عظیم باب، پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے وہ جان نثار رفقاء ہیں جنہیں ہم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کہتے ہیں۔ یہی وہ عظیم شخصیات ہیں جن کے ذریعے اللہ کا دین ہم تک پہنچا، جنہوں نے قرآن کی حفاظت کی، سنت کو زندہ رکھا، شریعت کو عملی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کیا، اور جن کے ایمان، تقویٰ، قربانی اور وفاداری کی گواہی خود قرآن نے دی۔ ’’رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ‘‘ (سورۃ التوبہ، 100)، ’’أُو۟لَـٰٓئِكَ كَتَبَ فِى قُلُوبِهِمُ ٱلْإِيمَانَ‘‘ (سورۃ المجادلہ، 22)، ’’وَكُلًّا وَعَدَ ٱللَّهُ ٱلْحُسْنَىٰ‘‘ (سورۃ النساء، 95)، جیسی آیاتِ کریمہ اس بات کی شاہد ہیں کہ صحابہ کرامؓ کی عظمت اللہ کے یہاں مسلم اور ثابت شدہ ہے۔ مگر افسوس کہ آج اسی برگزیدہ جماعت کی شان میں گستاخی ایک فیشن، بحث اور آزادیٔ اظہارِ رائے کے نام پر ایک کھلا فتنہ بن چکی ہے، اور اس فتنے کا سب سے مؤثر میدان سوشل میڈیا بن چکا ہے۔


سوشل میڈیا پر ایک مخصوص منظم طبقہ شعوری طور پر صحابہ کرامؓ کے مقام کو مشکوک بنانے، ان پر بے بنیاد الزامات لگانے، ان کی نیتوں پر حملہ کرنے اور فرقہ واریت کو ہوا دینے کی ناپاک کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ خاص طور پر مشاجراتِ صحابہ، یعنی ان کے باہمی اجتہادی اختلافات کو لیکر جو فتنہ کھڑا کیا جا رہا ہے، وہ انتہائی خطرناک ہے۔ یہ فتنہ اس لیے بھی حساس ہے کہ صحابہ کرامؓ کے یہ اختلافات اجتہادی نوعیت کے تھے، اور اہل السنۃ والجماعۃ کا اس پر متفقہ مؤقف ہے کہ ان اختلافات میں دونوں طرف اجتہاد تھا، جس میں مجتہد اگر درست نتیجہ پر پہنچے تو دوہرا اجر، اور اگر اجتہاد میں خطا ہو تب بھی ایک اجر ملتا ہے۔ مگر سوشل میڈیا پر بعض فتنہ پرور گروہ ان اختلافات کو جھگڑے، سازش، دنیا پرستی، اور ذاتی دشمنی کا رنگ دے کر صحابہ کرامؓ کے پاک دامن کو داغدار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔


دراصل صحابہ کرامؓ کے خلاف زبان درازی اس لیے کی جا رہی ہے کیونکہ دینِ اسلام انہی کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے۔ قرآن کی آیات، سنت کی پیروی، شریعت کے احکام، سیرتِ نبوی ﷺ کے واقعات، سب کے سب انہی صحابہ کرامؓ کی روایت و تبلیغ سے ہم تک آئے ہیں۔ اگر صحابہؓ کی شخصیات کو مشکوک بنا دیا جائے، ان کی عدالت، امانت، دیانت اور نیتوں پر حملہ کیا جائے، تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ پورا دین مشکوک بن جائے گا۔ کیونکہ جب دین ہم تک پہنچانے والے ناقابلِ اعتماد ہوں گے تو دین بھی ناقابلِ قبول بنے گا۔ اسی شیطانی مقصد کے تحت دشمنانِ دین صحابہ کرامؓ کی عظمت پر وار کر رہے ہیں تاکہ لوگوں کو دین سے دور کیا جائے اور امت کو فکری طور پر تباہ کیا جائے۔


بدقسمتی سے اس فتنے کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ اہلِ بیتؓ کے نام پر دیگر صحابہؓ کو نشانہ بنایا جاتا ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے اہل بیتؓ کے نام پر خلفاء ثلاثہ، حضرت امیر معاویہؓ اور دیگر جلیل القدر صحابہؓ کی شان میں زبان درازی کی، وہ درحقیقت اہل بیتؓ کے بھی دشمن ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ اہل بیتؓ خود ان صحابہ کے احترام اور محبت کے قائل تھے۔ حضرت حسنؓ نے خلافت حضرت معاویہؓ کے سپرد کی، حضرت علیؓ نے حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کی امامت میں نماز پڑھی، اور حضرت فاطمہؓ ان کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آتی تھیں۔ حضرت علیؓ کے صاحبزادے محمد بن حنفیہؒ کا قول ہے: ’’کیا تم لوگ رسول اللہ ﷺ کے بعد سب سے بہتر شخص کو گالیاں دیتے ہو؟‘‘ اور وہ یہ بات حضرت ابوبکرؓ کے بارے میں کہہ رہے تھے۔ لہٰذا اہل بیتؓ کے نام پر دیگر صحابہؓ کی تنقیص ایک باطل فکری دھوکہ ہے جس سے خود اہل بیتؓ بری ہیں۔


اہل السنۃ والجماعۃ بالخصوص اکابر علمائے دیوبند کا اس مسئلہ پر مؤقف نہایت واضح، مدلل اور اعتدال پر مبنی ہے۔ ان حضرات نے نہ صرف صحابہ کرامؓ کی عظمت پر بے شمار کتب تحریر کیں، بلکہ گستاخانِ صحابہ کے فتنوں کا علمی و عوامی سطح پر ہمیشہ دفاع کیا۔ حضرت علامہ سید انور شاہ کشمیریؒ، شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ، حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ، حضرت مفتی محمد شفیع عثمانیؒ، جیسے علمائے ربانیین نے اس باب میں علمی قلعے تعمیر کیے ہیں۔ دیوبند کا مؤقف یہ ہے کہ مشاجراتِ صحابہ کے بارے میں خاموشی اختیار کی جائے، ان کے اعمال کی نیتوں پر حملہ نہ کیا جائے، اور صحابہ کرامؓ کے باہمی اجتہادی معاملات میں عدل و انصاف کے ساتھ زبان کو روکا جائے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے فرمایا: ’’ان مشاجرات میں ہمیں خاموشی اختیار کرنا ہی سلامتی کا راستہ ہے۔‘‘ (کتاب : ازالة الخفاء عن خلافة الخلفاء)


اس کے برعکس آج سوشل میڈیا پر گمنام اکاؤنٹس، یوٹیوب چینلز، نام نہاد خطیب اور شہرت کے بچاری پوری دیدہ دلیری سے حضرت امیر معاویہؓ، حضرت عمرو بن العاصؓ، حضرت مغیرہؓ جیسے جلیل القدر صحابہؓ کی شان میں کھلے الفاظ میں گستاخی کرنے تک کی جسارت کرتے ہیں۔ یہ وہی زبان ہے جو قدیم رافضیوں کی تھی، جسے آج کے فتنہ پرور دہراتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو شخص ایک بھی صحابی کو گالی دیتا ہے، یا اس کی نیت پر حملہ کرتا ہے، وہ صرف اسی صحابی کا گستاخ نہیں بلکہ درحقیقت رسول اللہ ﷺ کی صحبت کا انکار کر رہا ہوتا ہے۔ کیونکہ صحابہ کرامؓ کے ساتھ گستاخی دراصل نبی اکرم ﷺ کے انتخاب پر اعتراض ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’میرے صحابہؓ کے بارے میں اللہ سے ڈرو، میرے بعد ان کو نشانہ نہ بناؤ۔‘‘ (ترمذی)


اس لیے علماءِ کرام کا اس پر اتفاق ہے کہ جو شخص صحابہ کرامؓ کی تنقیص، طعن یا سبّ و شتم کرتا ہے، وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔ علامہ ابن تیمیہؒ، امام مالکؒ، امام احمد بن حنبلؒ اور دیگر ائمہ کرام اس پر متفق ہیں کہ صحابہؓ کی گستاخی، نبی اکرم ﷺ کی گستاخی کے مترادف ہے، اور وہ شخص مسلمان نہیں رہتا۔ علماء دیوبند فرماتے ہیں کہ: ’’جس نے ایک صحابیؓ کو برا کہا، اس نے گویا ان سب کو برا کہا جن کے ذریعے دین ہم تک پہنچا، اور گویا وہ دین کی پوری بنیاد کو منہدم کر رہا ہے۔‘‘


اب سوال یہ ہے کہ ہم امت کے ہر فرد کی حیثیت سے کیا کر رہے ہیں؟ کیا ہم ان گستاخیوں پر خاموش رہ کر خود بھی اس جرم میں شریک نہیں ہو رہے؟ کیا سوشل میڈیا پر ان گستاخانہ ویڈیوز کو دیکھ کر، شیئر کر کے، یا لائک کر کے ہم صحابہ کرامؓ کی توہین میں حصہ نہیں ڈال رہے؟ یہ وقت ہے کہ ہم امت کو بیدار کریں، خاص طور پر نوجوان نسل کو اس فتنے سے بچائیں، ان کی ذہن سازی کریں، اور علمی، قانونی، اور فکری محاذ پر بھرپور دفاع کریں۔ ہمارے ادارے، تنظیمیں، مدارس، مساجد، سب کو اس مقصد کے لیے منظم ہونا ہوگا۔ ہمیں صحابہ کرامؓ کے فضائل، ان کی قربانیوں، اور ان کے دینی خدمات کو مسلسل اجاگر کرنا ہوگا، تاکہ امت کے دل میں ان کی محبت، عزت، اور عقیدت راسخ ہو۔


مرکز تحفظ اسلام ہند جیسے ادارے اسی بیداری کی عملی مثال بن کر میدان میں اترے ہیں۔ عظمتِ صحابہ کانفرنس جیسے پروگرام اس بات کی علامت ہیں کہ امت اب بیدار ہو رہی ہے۔ مگر یہ بیداری اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی جب تک ہم ہر پلیٹ فارم پر، ہر سطح پر، اور ہر طریقہ سے صحابہ کرامؓ کا دفاع نہ کریں، اور ان کے خلاف اٹھنے والی ہر زبان کو علم، دلیل، محبت اور غیرتِ ایمانی سے خاموش نہ کر دیں۔


لہٰذا، اب وقت آ چکا ہے کہ ہم صرف محبتِ صحابہ کو دل میں رکھنے پر اکتفا نہ کریں، بلکہ ان کی ناموس کے تحفظ کے لیے کھل کر سامنے آئیں۔ یاد رکھیں! صحابہؓ کی عظمت پر حملہ درحقیقت اسلام پر حملہ ہے، اور جو شخص اس حملے پر خاموش ہے وہ خود بھی ایمان کے خطرے میں ہے۔ آج ہر مسلمان، ہر نوجوان، ہر عالم، ہر خطیب، اور ہر ادارے پر یہ شرعی، اخلاقی اور تاریخی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ناموسِ صحابہؓ کے تحفظ کے لیے سینہ سپر ہو، اور امت کو اس فتنے کے خلاف یکجا کرے۔ یہی ہماری دینی غیرت کا تقاضا ہے، اور یہی ہماری نسلوں کے ایمان کی حفاظت کا واحد راستہ ہے۔ اگر ہم نے آج دفاعِ صحابہؓ کے فریضے کو پسِ پشت ڈال دیا، تو آنے والی نسلوں کے ایمان پر اس کا سنگین اثر پڑے گا۔ وہ ہمیں معاف نہیں کریں گی، اور قیامت کے دن اللہ کے دربار میں ہمیں ان کی گمراہی اور اپنے سکوت کا جواب دینا ہوگا۔


اب نہیں وقت کہ خاموش تماشائی بنیں

ناموسِ صحابہؓ پر جو حملہ ہو، صف آرائی کریں


فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

11؍ جولائی 2025، بروز جمعہ


#Sahaba | #AzmateSahaba | #NamooseSahaba | #MTIH | #TIMS

Tuesday, 8 July 2025

”ادے پور فائلز“: فلم کے پردے پر اسلاموفوبیا کا زہر!

 ”ادے پور فائلز“: فلم کے پردے پر اسلاموفوبیا کا زہر!

✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


ہندوستان میں حالیہ برسوں میں جس تیزی سے مذہبی منافرت، فرقہ واریت، اور اقلیتوں کے خلاف زہریلے بیانیے کو فروغ ملا ہے، وہ کسی بھی مہذب، جمہوری اور کثیر الثقافتی سماج کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ آزادی کے بعد کا ہندوستان، جسے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت، ایک تکثیری معاشرہ اور رواداری کا علمبردار ملک سمجھا جاتا تھا، آج ایک خطرناک دوراہے پر کھڑا ہے۔ اقلیتوں، خصوصاً مسلمانوں کے خلاف نفرت کی جو منظم مہم گزشتہ دہائی میں زور پکڑ چکی ہے، وہ اب محض زبانی، سیاسی جلسوں، سوشل میڈیا یا اشتعال انگیز بیانات تک محدود نہیں رہا بلکہ فلمی اسکرینوں، ڈاکیومنٹریز، ویب سیریز اور نیوز رومز میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ منتقل کیا جا چکا ہے اور اسے ایک ہتھیار کی طرح استعمال کیا جا رہا ہے۔ حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم ”ادے پور فائلز“ اسی سلسلے کی ایک خطرناک کڑی ہے، جس کا مقصد امن و امان، سماجی ہم آہنگی اور قومی یکجہتی کو نیست و نابود کرنا ہے۔


”ادے پور فائلز“ کا ظاہری پس منظر 2022ء کے کنہیا لال کے قتل سے جوڑا گیا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس فلم کا اصل مقصد ایک فرد یا کسی واقعہ کو موضوع بنانا نہیں بلکہ اسلام اور مسلمانوں کو اجتماعی طور پر نشانہ بنانا ہے، بلکہ مسلمانوں کے خلاف ایک نفرت انگیز سیاسی پروپیگنڈا کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ فلم کا ٹریلر ہی انتہائی اشتعال انگیز، گستاخانہ اور یک طرفہ ہے، جس میں نبی کریم ﷺ اور آپ کی ازواجِ مطہراتؓ کے بارے میں توہین آمیز جملے شامل کیے گئے ہیں۔ یہ صرف مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کی کوشش نہیں بلکہ ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینے اور آئینی ڈھانچے پر بھی کھلا وار ہے۔

یہ فلم نہ صرف اسلامی شعائر کی توہین ہے بلکہ ملک کے آئین کی کھلی خلاف ورزی بھی ہے۔ بھارتی آئین کا آرٹیکل 14: سب کو برابری کی ضمانت دیتا ہے، آرٹیکل 15: مذہب، نسل یا ذات کی بنیاد پر امتیاز کو ممنوع قرار دیتا ہے، آرٹیکل 19: ہر شہری کو اظہارِ رائے کی آزادی دیتا ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اس آزادی سے کسی کی عزت و ناموس، قومی سالمیت یا مذہبی جذبات مجروح نہ ہوں، تاکہ ملک کی سالمیت، امنِ عامہ، اور دوسرے افراد کی عزت محفوظ رہے، جبکہ آرٹیکل 21: ہر شخص کو وقار کے ساتھ جینے کا حق فراہم کرتا ہے۔ ”ادے پور فائلز“ جیسی فلمیں ان تمام دفعات کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔ یہ آزادیِ اظہار کے نام پر ایک خاص مذہبی طبقے کی عزت، جذبات اور شناخت پر کھلا حملہ کرتی ہیں۔ یہ نہ صرف ایک مخصوص مذہبی طبقے کی عزت اور وقار کو مجروح کرتی ہیں بلکہ پورے ملک کے اندرونی امن کو خطرے میں ڈالتی ہیں۔


یہ پہلا موقع نہیں ہے جب فلمی اسکرین کو اسلاموفوبیا کے پرچار کے لیے استعمال کیا گیا ہو۔ اس سے پہلے ”دی کشمیر فائلز“ (The Kashmir Files) اور ”دی کیرالہ اسٹوری“ (The Kerala Story) جیسی فلموں نے بھی نفرت کے بیج بوئے۔ ”کشمیر فائلز“ نے ایک مخصوص تاریخی واقعے کو بنیاد بنا کر پورے مسلم طبقے کو بدنام کیا اور ایسا ماحول پیدا کیا کہ ملک کے کئی حصوں میں مسلمانوں کے خلاف تشدد، گالیاں اور بائیکاٹ کی مہم چلی، جو آج بھی کئی علاقوں میں محسوس کی جا سکتی ہے۔ یہ فلم حکومتی سطح پر اتنی سراہا گئی کہ خود ملک کے وزیر اعظم نے اس کی تعریف کی اور بی جے پی کی متعدد ریاستی حکومتوں نے اسے ٹیکس فری قرار دیا۔ جب ریاستی طاقتیں ایک مخصوص مذہبی طبقے کے خلاف بیانیے کو فروغ دیں تو یہ محض فلمی سرگرمی نہیں بلکہ ایک منظم سیاسی مہم ہوتی ہے۔ اسی طرح ”دی کیرالہ اسٹوری“ نے مسلمان لڑکوں کو ’لَو جہاد‘ کے ذریعہ ہندو لڑکیوں کو دہشت گرد بنانے والا گروہ بنا کر پیش کیا۔ بعد میں عدالت نے فلم میں دیے گئے اعداد و شمار کو غلط اور من گھڑت قرار دیا، لیکن فلم اپنا کام کر چکی تھی، یعنی مسلم نوجوانوں کے خلاف نفرت پیدا کرنا اور ہندو لڑکیوں کو ان سے خوفزدہ کرنا۔ اس فلم کو بھی، باوجود سپریم کورٹ کے فیصلے کے، سرکاری سطح پر تحفظ حاصل رہا، جس نے نفرت کو اور زیادہ تقویت بخشی۔ یہ فلمیں ایک خاص نظریے کے تحت بنائی جاتی ہیں تاکہ لوگوں کی نظر میں ہر مسلمان مشکوک، ہر مدرسہ دہشت گردی کا اڈہ، ہر پردہ دار عورت پسماندہ، ہر داڑھی والا شدت پسند دکھائی دے۔ یہ بیانیہ نہ صرف جھوٹا اور تعصبانہ ہے بلکہ ایک پوری قوم کے وجود کے خلاف نفسیاتی جنگ ہے۔


اسی زہریلے رجحان کا تسلسل ہے کہ ”ادے پور فائلز“ نامی اس فلم میں نوپور شرما جیسے گستاخ اور فرقہ پرست عناصر کا وہ بیان بھی شامل کیا گیا ہے، جو اس نے ٹی وی چینل پر بیٹھ کر کھلے عام نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی کی تھی۔ اس گستاخی پر دنیا بھر میں شدید ردِ عمل ہوا، درجنوں ممالک نے بھارتی سفیروں کو طلب کر کے حکومت سے احتجاج کیا، لیکن افسوس کہ آج تک اس کے خلاف کوئی مؤثر قانونی کارروائی نہ ہوئی۔ جبکہ یہی ملک گستاخی یا حساس امور پر دوسرے مذاہب کے خلاف کسی بیان پر فوری کارروائی کرتا ہے۔ یہ دوہرا معیار ملک کی عدالتی و آئینی غیرجانبداری پر سوالیہ نشان ہے۔ افسوس کہ عالمی سطح پر رسوائی کا باعث بننے والا گستاخانہ بیان اس فلم کا حصہ بنا دیا گیا ہے، جس سے اس کے خطرناک عزائم بے نقاب ہوتے ہیں۔


”ادے پور فائلز“ نہ صرف اس دوہرے معیار کا مظہر ہے بلکہ اس فلم کا انداز یہ تاثر دیتا ہے کہ ہندوستانی مسلمان صرف ایک قوم ہی نہیں بلکہ ایک مسلسل خطرہ ہیں، جنہیں بدنام، دیوار سے لگانا اور بے وقار کرنا ضروری ہے۔ فلم کے ٹریلر میں جس طرح مسلمانوں کے کردار کو پیش کیا گیا ہے اور نبی کریم ﷺ اور ازواجِ مطہراتؓ کے سلسلے میں گستاخ آمیز تبصرے شامل کیے گئے ہیں، وہ ظاہر کرتا ہے کہ اس فلم کا مقصد کوئی تحقیق، انصاف یا مکالمہ نہیں بلکہ کھلی دشمنی اور اشتعال انگیزی ہے۔


ان تمام فلموں کی ایک بات مشترک ہے کہ انہیں حکومت یا اس سے منسلک اداروں کی بالواسطہ یا بلاواسطہ سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔ سینسر بورڈ، جسے دستور کے مطابق ہر فلم کا جائزہ لینا چاہیے، وہ یا تو خاموش تماشائی بنا بیٹھا ہے یا اس نفرت کے پروپیگنڈے کو خاموشی سے سہولت فراہم کر رہا ہے۔ عدالتیں، جن کا فریضہ آئین کا تحفظ ہے، وہ بھی بعض اوقات تاخیر یا سکوت کی شکار نظر آتی ہیں۔


یہ تمام فلمیں صرف مسلمانوں کو نشانہ نہیں بناتیں، بلکہ ہندوستانی معاشرے کی روح یعنی گنگا-جمنی تہذیب، ہم آہنگی، کثرت میں وحدت کو مجروح کرتی ہیں۔ جب ایک مذہب یا فرقے کو مسلسل شک، نفرت اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو وہ محض اقلیت نہیں بلکہ پورا سماج متاثر ہوتا ہے۔ کیونکہ ایک ملک میں جب نفرت، پروپیگنڈا، اور تعصب کو قانونی اور فلمی جواز دے دیا جائے، تو وہ معاشرہ جلد یا بدیر اپنی جڑوں سے کٹ جاتا ہے۔ ہٹلر نے بھی ابتدا پروپیگنڈا فلموں اور جھوٹے بیانیے سے کی تھی، اور نتیجہ نسل کشی پر منتج ہوا۔ اگر ہندوستانی سماج نے وقت پر بیداری نہ دکھائی، تو ہم بھی ایک ایسی دلدل میں دھنس سکتے ہیں جہاں سے نکلنا ممکن نہ ہوگا۔


”ادے پور فائلز“ جیسی فلمیں نہ صرف مسلمانوں کے خلاف نفرت کو بڑھا رہی ہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی بھارت کو اقلیتی دشمن، متعصب اور انتہا پسند ملک کے طور پر پیش کر رہی ہیں۔ اقوام متحدہ، OIC، یورپی یونین، اور انسانی حقوق کے عالمی ادارے کئی بار بھارت میں اقلیتوں کی حالتِ زار پر تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔ اگر ہم نے اس رجحان کو نہ روکا تو یہ صرف اقلیتوں کے لیے نہیں بلکہ ملک کی سالمیت اور بین الاقوامی ساکھ کے لیے بھی سنگین خطرہ بن جائے گا۔


یہ وقت خاموش رہنے کا نہیں۔ جمعیۃ علماء ہند نے بجا طور پر اس فلم کے خلاف کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے اور اس پر پابندی لگانے کی اپیل کی ہے۔ جمعیۃ علماء ہند اور اس کے صدر مولانا ارشد مدنی کا یہ قدم نہایت بروقت اور قابلِ ستائش ہے۔ انہوں نے صرف مسلمانوں کے مذہبی جذبات کا دفاع نہیں کیا بلکہ ہندوستان کے آئینی اصولوں، مذہبی ہم آہنگی، اور انسانی شرافت کا بھی تحفظ کیا ہے۔ لیکن یہ محض مسلمانوں کا مسئلہ نہیں بلکہ ہر اس شہری کا مسئلہ ہے جو اس ملک کے آئینی اقدار، ہم آہنگی، اور انسانی مساوات پر یقین رکھتا ہے۔ لہٰذا ہمیں بھی اس کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے۔ اور اس کے خلاف قانونی محاذ پر، الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا پر، سوشل میڈیا پر، جلسوں میں، تحریروں میں، اور بیداری کی مہمات کے ذریعہ مؤثر مہم چلانی ہوگی۔ کیونکہ سینسر بورڈ، عدلیہ، حکومت، اور عوام کو یہ احساس دلانا ضروری ہے کہ نفرت کا بیانیہ وقتی سیاست تو چمکا سکتا ہے، مگر قوموں کو تباہ کر دیتا ہے۔ آج اگر ادے پور فائلز پر روک نہ لگی، اگر اس کے جھوٹے بیانیے کا رد نہ کیا گیا، اگر اس کی وجہ سے پھیلنے والی نفرت کو چیلنج نہ کیا گیا، تو کل ہر گلی، ہر شہر اور ہر بستی میں فرقہ وارانہ تشدد کی آگ بھڑک سکتی ہے۔


اب وقت آ گیا ہے کہ صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ہر انصاف پسند، باشعور، اور آئین پسند شہری کھڑا ہو۔ کیونکہ آج اگر نبی کریم ﷺ کی ذات، اسلام اور مسلمانوں پر زبان دراز کی جا رہی ہے، تو کل کو کسی اور مذہب، قوم یا طبقہ کی باری بھی آ سکتی ہے۔ کیونکہ نفرت کی آگ صرف ایک دیوار نہیں جلاتی، پورا شہر جلا دیتی ہے۔ یہ ہمارے ملک کے تمام باشندگان کا مشترکہ امتحان ہے کہ کیا ہم ہندوستان کو امن، عدل، برابری، اور رواداری کا گہوارہ بنائیں گے، یا اسے نفرت، جھوٹ، اور سازشوں کا قبرستان بننے دیں گے؟ فیصلہ ہمیں کرنا ہے: قلم سے، زبان سے، قانون سے، اور اجتماعی شعور سے۔ اگر ہم نے آج خاموشی اختیار کی، تو ہماری آئندہ نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔


#UdaipurFiles #PaighameFurqan #Islamophobia #IslamobhopicFilm #Film #Bollywood #MTIH #TIMS