Thursday, 31 July 2025

فریادِ اقصیٰ، آہِ فلسطین اور ضمیرِ امت کا امتحان!

 فریادِ اقصیٰ، آہِ فلسطین اور ضمیرِ امت کا امتحان!

✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

فلسطین وہ سرزمین ہے جہاں انبیاء علیہ السلام نے قدم رکھے، وہ مقدس خطہ جہاں اللہ کے محبوبوں کی صدائیں گونجتی تھیں، جہاں آسمانوں کی طرف معراج کا سفر شروع ہوا، جہاں بیت المقدس کے در و دیوار نے رسول اللہ ﷺ کی امامت دیکھی۔ وہی فلسطین آج خون میں نہایا ہوا ہے، وہی القدس آج صیہونی جارحیت کی بھینٹ چڑھا ہوا ہے، وہی اقصیٰ آج اُمت کے غفلت آلود سکوت پر نوحہ کناں ہے۔ یہ مسئلہ صرف کسی قوم یا قبیلے کا مسئلہ نہیں، یہ کسی جغرافیائی یا نسلی نزاع کا معاملہ نہیں، بلکہ یہ اُمت مسلمہ کی روحانی، دینی، اور ایمانی غیرت کا مسئلہ ہے۔ یہ وہ درد ہے جسے ہر مومن کو اپنے سینے میں محسوس کرنا چاہیے، یہ وہ زخم ہے جو چودہ سو سالہ تاریخِ اسلام کے قلب پر لگا ہے۔ یہ وہ صدا ہے جو ارضِ اقصیٰ سے اٹھتی ہے اور ہر باضمیر مسلمان کے دل کو چیر دیتی ہے۔


فلسطین کی اہمیت محض اس کی جغرافیائی حیثیت میں نہیں، بلکہ یہ وہ سرزمین ہے جسے قرآن نے مبارک کہا، جسے رسول اللہ ﷺ نے اپنے خوابوں کی وادی قرار دیا، جسے صحابہؓ نے اپنی جانوں سے سینچا، جس پر سیدنا فاروق اعظم ؓنے فتح کے بعد عدل کا جھنڈا گاڑا، اور جس کے باسیوں کو نبی کریم ﷺ نے اپنا بھائی قرار دیا۔ بیت المقدس وہ قبلہ اول ہے جس کی طرف رخ کرکے صحابہؓ نے برسوں نماز ادا کی، وہی مسجد ہے جہاں ایک ہی وقت میں تمام انبیاء نے اللہ کے آخری نبی کے پیچھے نماز پڑھی، وہی جگہ ہے جہاں سے حضوراکرم ﷺ نے آسمانوں کا سفر کیا، اور وہی جگہ ہے جو قیامت کے قریب دجال اور امام مہدیؑ کے درمیان آخری معرکہ کی گواہ بنے گی۔


فلسطین کی سرزمین پر آج جو ظلم ہو رہا ہے، وہ تاریخ کا سب سے بھیانک باب ہے۔ لاکھوں بچے یتیم ہو چکے، ہزاروں عورتیں بیوہ ہو گئیں، مساجد کھنڈر بنادی گئیں، قرآن کے اوراق جلا دیے گئے، اسپتالوں پر بم برسائے گئے، اسکولوں میں بارود بھرا گیا، حتیٰ کہ وہ نومولود جنہوں نے ابھی دنیا کی ہوا تک نہ چھوئی، انہیں بھی میزائلوں نے آغوشِ اجل میں پہنچا دیا۔ یہ ظلم محض انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں، یہ انسانیت کے چہرے پر طمانچہ ہے، یہ تہذیبِ مغرب کا اصل چہرہ ہے، یہ اقوام متحدہ، عالمی عدالت انصاف، اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی مکمل منافقت کا عکاس ہے۔ ایک طرف غزہ کی گلیوں میں بچوں کے ٹکڑے بکھرے ہیں، دوسری طرف امریکہ و اسرائیل ہتھیاروں کے سودے کررہے ہیں۔ ایک طرف فلسطینی مائیں اپنے معصوم بچوں کی لاشیں گود میں لیے بین کررہی ہیں، تو دوسری طرف یورپی اقوام اسرائیلی جارحیت کو ”دفاعی کارروائی“ قرار دے کر عالمی رائے عامہ کو گمراہ کررہی ہیں۔ اقصیٰ کے منبر پر اذان دینے والے شہید کردیے گئے، قرآن سنانے والوں کے سینے چھلنی کردیے گئے، اور پوری دنیا… بالخصوص 57 اسلامی ممالک… صرف مذمتی بیانات، علامتی اجلاس، اور خاموش دعاؤں تک محدود ہیں۔


کیا یہ امت محمد ﷺ کی غیرت کا مظہر ہے؟ کیا یہ اُمت جو ایک جسم کی مانند کہلائی، وہ اپنے ہی جسم کے ایک عضو کے زخم پر خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے؟ کیا یہ وہی امت ہے جس کے لیے نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ اگر تم نے ایک مظلوم مسلمان کی مدد نہ کی، تو اللہ تمہیں بھی بے یار و مددگار چھوڑ دے گا؟۔فلسطین آج صرف فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں، یہ پوری اُمت کا مسئلہ ہے، یہ ہماری ایمانی بقا، دینی غیرت، اور نبوی نسبت کا امتحان ہے۔ اگر آج ہم اقصیٰ کے حق میں نہ اٹھے، اگر آج ہم نے فلسطینیوں کی صداؤں پر لبیک نہ کہا، اگر آج ہم نے اپنی زبان، قلم، دل، اور وجود کو اس میں شریک نہ کیا، تو کل جب ہم رسول اللہ ﷺ کے سامنے کھڑے ہوں گے، تب ہم کس منہ سے کہیں گے کہ ہم آپ کی امت ہیں؟


ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ فلسطین کا دفاع محض عسکری یا سیاسی مسئلہ نہیں، یہ ایمان کا تقاضا ہے۔ جس طرح ہم اپنے گھر کی دیوار کے ایک پتھر کو بھی غیروں کے قبضے میں نہیں جانے دیتے، اسی طرح بیت المقدس… جو ہمارا قبلہ اول ہے… وہ صرف فلسطینیوں کی ذمہ داری نہیں، بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی مشترکہ وراثت ہے، اور اس کا تحفظ ہم سب کا فریضہ ہے۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی صفوں کو درست کریں، اپنی ترجیحات کو بدلیں، اپنے دلوں میں فلسطین کے لیے درد پیدا کریں، اور ہر محاذ پر؛ چاہے وہ میڈیا ہو، معیشت ہو، سیاست ہو یا سفارت؛ فلسطین کے لیے ایک سیسہ پلائی دیوار بن جائیں۔ ہمیں اسرائیلی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کرنا چاہیے، ان کمپنیوں کا محاسبہ کرنا چاہیے جو صیہونی جرائم میں شریک ہیں، ہمیں اپنی حکومتوں پر دباؤ بنانا چاہیے کہ وہ محض مذمتی بیانات پر اکتفا نہ کریں بلکہ عملی اقدامات کریں۔ہماری مساجد، ہمارے مدارس، ہمارے اسکول، ہمارے میڈیا، ہماری تحریریں، ہماری تقریریں، ہر ہر چیز کو فلسطین کا ترجمان بننا چاہیے۔ ہمیں امت کو بیدار کرنا ہوگا، دلوں میں ایمان کی حرارت جگانی ہوگی، نوجوانوں میں بیداری کی روح پھونکنی ہوگی، اور ظالموں کو یہ باور کرانا ہوگا کہ امتِ محمدیہ مر نہیں گئی، بلکہ وہ لمحہ قریب ہے جب یہ امت اپنا کھویا ہوا وقار واپس لے گی۔


یاد رکھیے! اقصیٰ کا مسئلہ صرف فلسطینی ماں کے بیٹے کا مسئلہ نہیں، یہ آپ کے بیٹے کا مسئلہ بھی ہے، یہ آپ کی بیٹی کے حجاب کا مسئلہ بھی ہے، یہ آپ کے ایمان کا مسئلہ بھی ہے۔ اگر آج ہم نے فلسطین کو تنہا چھوڑ دیا، تو کل ہماری گلیوں میں بھی یہی ظلم دہرایا جائے گا۔آج مسجد اقصیٰ پکار رہا ہے، غزہ چیخ رہا ہے، اور مظلوم بچوں کے لاشے ہم سے سوال کر رہے ہیں کہ کہاں ہے وہ امت جس کے نبی ﷺ نے فرمایا تھا: ”مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں“؟ کہاں ہے وہ غیرت جو بدر و اُحد کے میدانوں میں گونجی تھی؟ کہاں ہیں وہ آنسو جو مظلوموں کے لیے بہا کرتے تھے؟ کہاں گیا وہ جذبہ جو کربلا میں یزید کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن گیا تھا؟ اے امت مسلمہ! اُٹھ جا، ابھی وقت ہے، اب بھی جاگ جائے تو اقصیٰ بچ سکتا ہے، اگر تُو نے صدائے حق بلند کی تو ظلم کے ایوان لرز سکتے ہیں، اگر تُو نے فلسطینی بچوں کی چیخوں کو اپنی صدا بنا لیا تو پھر اقصیٰ کے منبر سے اذان کی گونج سنائی دے سکتی ہے، ورنہ یاد رکھ، تاریخ خاموش نہیں رہتی، کل یہی فلسطین تمہیں یاد کرے گا اور کہے گا: ”تم ہمارے اپنے تھے، مگر تم نے ہمیں یتیموں کی طرح تنہا چھوڑ دیا!“۔ اگر تیرے ہاتھ میں قلم ہے تو اسے فلسطین کا سفیر بنا، اگر تیری زبان میں اثر ہے تو اس سے فلسطین کی آہ کو دنیا تک پہنچا، اگر تیرے پاس دولت ہے تو اسے مظلوموں کی مدد میں خرچ کر، اگر تیرے پاس اثر و رسوخ ہے تو اسے اسرائیلی بائیکاٹ کے لیے استعمال کر، اور اگر تیرے پاس صرف دعا ہے تو اسے آنسوؤں اور سچائی سے بھر دے تاکہ وہ عرشِ الٰہی تک جا پہنچے؛ ورنہ جب قیامت کے دن ایمان کا سوال ہوگا، تو فلسطین کی چیخ تیرے جواب کے بیچ گونجے گی، اور بیت المقدس کی دیواریں گواہی دیں گی: ”یہ وہ لوگ تھے… جو امت کے زخموں پر پھول چڑھاتے رہے!“

اٹھ باندھ کمر مرد مجاہد کا جگر لے

مومن ہے تو پھر مسجد اقصیٰ کی خبر لے


فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

31 جولائی 2025ء بروز جمعرات


8495087865

mdfurqan7865@gmail.com


#Palestine | #Gaza | #Israel | #PahalgamTerroristAttack | #FREEPalestine | #PaighameFurqan | #MTIH | #TIMS


Monday, 28 July 2025

مرکز تحفظ اسلام ہند کی پوری ملت اسلامیہ سے مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھنے کی اپیل!

 مرکز تحفظ اسلام ہند کی پوری ملت اسلامیہ سے مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھنے کی اپیل!


فلسطین اور غزہ پر اسرائیلی ظلم کے خلاف عالمی دباؤ اور امت مسلمہ کی بیداری وقت کا اہم تقاضا: محمد فرقان


بنگلور، 28؍ جولائی (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند موجودہ فلسطینی بحران، بالخصوص غزہ میں اسرائیلی جارحیت، خونریزی، انسانی حقوق کی پامالی، بچوں، عورتوں اور معصوم شہریوں کے قتل عام اور انسانیت سوز مظالم پر شدید رنج، غم اور اضطراب کا اظہار کرتا ہے۔ مرکز تحفظ اسلام ہند کے اراکین کی ایک اہم مشاورتی اجلاس میں مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے مسئلہ فلسطین پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نہتے فلسطینی عوام پر جاری اسرائیلی بمباری، محاصرہ، غذائی و طبی ناکہ بندی، اسپتالوں اور پناہ گاہوں پر حملے صرف ایک علاقائی مسئلہ نہیں بلکہ پوری انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑ دینے والا سانحہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ امر نہایت افسوسناک ہے کہ جب پوری دنیا کی آنکھوں کے سامنے ظلم ہو رہا ہے، تب 57؍ اسلامی ممالک کی خاموشی اور عالمی اداروں کی مجرمانہ بے حسی اس ظلم کی خاموش معاون بنتی جا رہی ہے۔ محمد فرقان نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین کو امت مسلمہ کے دلوں میں زندہ رکھا جائے۔ یہ محض وقتی جذباتی ردعمل کا نہیں، بلکہ ایک طویل المدت، مربوط، مسلسل، منظم اور مؤثر جدوجہد کا تقاضا ہے تاکہ یہ مسئلہ عالمی منظرنامے سے اوجھل نہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ مساجد، مدارس، جامعات، دینی اداروں، جلسے جلوس اور عوامی پلیٹ فارمز پر فلسطین سے متعلق بیداری مہمات کا آغاز کیا جانا چاہیے، جمعہ کے خطبات میں مظلوم فلسطینیوں کی تکالیف کو امت کے سامنے رکھا جائے، اور خاص طور پر سوشل میڈیا پر ایک عالمی کیمپین چلائی جائے جو عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ دے۔ اسی کے ساتھ رجوع الی اللہ، آیت کریمہ کا ورد اور دعائیہ مجلسوں کا اہتمام بھی کیا جانا چاہیے تاکہ روحانی سطح پر بھی نصرتِ الٰہی کی امید بندھی رہے۔

محمد فرقان نے کہا کہ مرکز تحفظ اسلام ہند اسلامی ممالک سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ مشترکہ مؤقف اختیار کریں اور اقوام متحدہ، او آئی سی اور دیگر بین الاقوامی اداروں پر مؤثر دباؤ ڈالیں تاکہ سفارتی، سیاسی، اقتصادی اور قانونی سطح پر اسرائیل کو روکا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ بیت المقدس صرف فلسطینیوں کا نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کا مرکز و محور ہے۔ قبلہ اول کے تحفظ، اس کی آزادی اور اس پر جاری حملوں کی مذمت ہر مسلمان کی دینی و ایمانی ذمہ داری ہے۔ اس کے فضائل، تاریخی حیثیت اور مرکزیت کو امت میں عام کیا جانا چاہیے تاکہ نوجوان نسل اپنے قبلہ اول سے جڑ سکے۔

انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ فلسطین کے مظلوموں کی حمایت صرف جذباتی نعرہ نہ بنے بلکہ امت اس مسئلہ کو دل سے اپنائے۔ علمی، فکری، تنظیمی اور عملی سطح پر اس کے لیے اقدامات کیے جائیں، دیگر دینی و ملی تنظیموں سے اشتراک عمل کیا جائے، مشترکہ موقف سامنے لایا جائے، عالمی میڈیا میں اسرائیل کے ظلم کو بے نقاب کیا جائے، سوشل میڈیا کو آوازِ مظلوم بنانے کا ذریعہ بنایا جائے، اور ہر ہر پلیٹ فارم سے اس مظلوم ملت کے ساتھ کھڑے ہونے کا عملی مظاہرہ کیا جائے۔

آخر میں مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی جانب سے امت مسلمہ سے دردمندانہ اپیل کی کہ فلسطینی عوام کی حمایت کو اپنی ذمہ داری سمجھا جائے، اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کو ایمان کا تقاضا جانا جائے، مظلوموں کی عملی امداد اور پشتیبانی کو اپنا فریضہ بنایا جائے، اور صرف دعاؤں پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ دعاؤں کے ساتھ ساتھ ظلم کو روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ مرکز تحفظ اسلام ہند ان شاء اللہ مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھنے، فلسطینی مظلومین کی حمایت اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے ہر ممکن پیش رفت کرتا رہے گا۔

قابل ذکر ہے کہ اس مشاورتی اجلاس میں مرکز کے سابقہ اور حالیہ کاموں کا جامع جائزہ لیا گیا، بالخصوص تحریک تحفظ ختم نبوت ؐ، تحریک دفاعِ صحابہؓ، وقف بچاؤ دستور بچاؤ تحریک، اور ارتداد ی و الحادی فتنوں خصوصاً ایکس کے فتنے کے سلسلے میں جاری مساعی پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ اسی کے ساتھ مرکز تحفظ اسلام ہند کے سالانہ مشاورتی اجلاس کے انعقاد کے حوالے سے اہم فیصلے بھی کیے گئے، جنہیں عملی جامہ پہنانے میں کے لیے تمام اراکین مرکز نے پختہ عزم و اتحاد کا اظہار کیا۔ اس موقع پر مرکز تحفظ اسلام ہند کے عہدیداران بالخصوص آرگنائزر حافظ محمد حیات خان، خازن قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی، اراکین تاسیسی مولانا محمد نظام الدین مظاہری، عمیر الدین، اراکین شوریٰ مولانا اسرار احمد قاسمی، مولانا سید ایوب قاسمی، مولانا محمود الرحمن قاسمی، حافظ سمیع اللہ، قاری محمد عمران، انعامدار خضر علی، دیگر اراکین مفتی مختار احمد قاسمی، مولانا اسعد بستوی، سید توصیف، شبیر احمد، شبلی محمد اجمعین، شیخ عدنان احمد، حفظ اللہ، محمد فرحان خان، محمد کیف، تبریز عالم، مولانا بلال احمد اور مختلف شعبہ جات کے کنوینرز اور دیگر ذمہ داران کی ایک بڑی تعداد اجلاس میں شریک رہی۔ اجلاس کا آغاز مولانا اسرار احمد قاسمی کی تلاوت سے ہوا،مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے اجلاس کی صدارت فرمائی اور دعا ئیہ کلمات پرمرکز تحفظ اسلام ہند کا یہ اہم آن لائن مشاورتی اجلاس اختتام پذیر ہوا۔


#Palestine | #Gaza | #Alquds | #Israel | #PressRelease | #MTIH | #TIMS

اسلامی نکاح پر اعتراضات کا علمی و عقلی تجزیہ!

 اسلامی نکاح پر اعتراضات کا علمی و عقلی تجزیہ! 

✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

اسلامی تعلیمات کی روشنی میں نکاح محض ایک سماجی معاہدہ نہیں بلکہ ایک مقدس بندھن، عبادت، فطرت کی تکمیل اور روحانی پاکیزگی کا ذریعہ ہے۔ یہ محض دو افراد کا ملاپ نہیں، بلکہ دو خاندانوں، دو نسلوں، اور دو دلوں کا باوقار، باہمی فہم و تعاون پر مبنی تعلق ہے۔ لیکن جدید دور میں جب عقل کو مذہب سے کاٹ دیا گیا، اور خواہشات کو آزادی کا لباس پہنا دیا گیا، تو بہت سے لوگ خصوصاً وہ جو الحاد یا مذہب بیزاری کی طرف مائل ہو گئے، اسلامی نکاح کے اصولوں پر اعتراضات کرنے لگے۔ ان میں بعض ایکس مسلم کہلائے جانے والے بھی ہیں، جو یا تو جذباتی یا فکری الجھن کا شکار ہوئے، یا مغربی پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر دین اسلام پر سوالات اٹھانے لگے۔ ان اعتراضات کا مقصد بظاہر بعض اوقات حق کی تلاش ہوتا ہے، تو بعض اوقات صرف مخالفت برائے مخالفت۔ لیکن اسلام سچائی کا دین ہے۔ یہ نہ اندھی تقلید سکھاتا ہے، نہ اندھا انکار۔ یہ دلیل، فطرت اور وحی کا حسین امتزاج ہے۔ اس لیے ہم ان اعتراضات کو سنجیدگی سے لیتے ہیں، اور ان کے جوابات بھی اسی سنجیدگی، محبت اور دلائل کے ساتھ دیتے ہیں۔


پہلا اعتراض جو اکثر کیا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ اسلام میں مرد کو عورت پر فوقیت دی گئی ہے، اور نکاح میں بھی مرد حاکم اور عورت محکوم ہے۔ حالانکہ یہ دعویٰ حقیقت سے کوسوں دور ہے۔ قرآن کہتا ہے: "وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ"* یعنی "عورتوں کے ساتھ حسن سلوک سے رہو۔" (النساء: 19)۔ اس ایک جملے میں اسلام کے خاندانی نظام کی بنیاد پوشیدہ ہے؛ حسن سلوک، محبت، مہربانی اور انصاف۔ اسلام نے مرد کو قوام ضرور بنایا، لیکن اس لیے نہیں کہ وہ عورت پر ظلم کرے، بلکہ اس لیے کہ وہ اس کی حفاظت، کفالت اور رہنمائی کرے۔ قوامیت، حاکمیت نہیں بلکہ خدمت کی ذمہ داری ہے، جیسا کہ ایک ملاح اپنے جہاز کو سنبھالتا ہے، نہ کہ اسے تباہ کرتا ہے۔


پھر سوال کیا جاتا ہے کہ اسلام میں مرد کو چار شادیاں کیوں جائز ہیں جبکہ عورت کو نہیں؟ اور یہ باور کرایا جاتا ہے کہ یہ غیر مساوات ہے، مگر درحقیقت یہ ایک فطری، سماجی اور نفسیاتی حکمت پر مبنی اصول ہے۔ مرد اور عورت کی حیاتیاتی ساخت (Biological Structure)، تولیدی صلاحیت (Fertility)، جذباتی مزاج (Emotional temperament)، اور سماجی کردار (Social Role) یکساں نہیں۔ ایک عورت صرف ایک وقت میں ایک ہی مرد سے حاملہ ہو سکتی ہے، اور بچہ پیدا ہونے کے بعد کئی ماہ و سال تک ماں کی شدید توجہ اور پرورش کا محتاج ہوتا ہے۔ اس دوران ماں کا تعلق اور ذمہ داری ایک شوہر اور بچے تک محدود ہوتی ہے۔ برخلاف اس کے، مرد کی تولیدی صلاحیت مسلسل جاری رہتی ہے، اور وہ بیک وقت کئی بیویوں اور بچوں کی کفالت کر سکتا ہے بشرطیکہ وہ عدل کرے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے چار شادیوں کی اجازت مشروط کی: "فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً" (النساء: 3) یعنی "اگر عدل نہ کر سکو تو ایک ہی پر اکتفا کرو۔" یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ معاشرے میں بیواؤں، مطلقہ خواتین، یا غیر شادی شدہ خواتین کی تعداد بعض اوقات مردوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے، خاص کر جنگوں، قدرتی آفات یا سماجی عوامل کے بعد۔ اس وقت تعددِ ازوجات ان خواتین کے لیے ایک باعزت زندگی کی ضمانت بن جاتا ہے۔ جس معاشرے نے اس کو رد کیا، وہاں یا تو خواتین "live-in relationships" کا شکار ہوئیں، یا بازاروں کی زینت بن گئیں۔


ایک اور اعتراض اکثر سننے کو ملتا ہے کہ اسلامی نکاح میں عورت کی مرضی کو ثانوی حیثیت دی گئی ہے، اور ولی کا کردار زبردستی مسلط کیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ ایک بنیادی غلط فہمی ہے۔ اسلام عورت کی مرضی کے بغیر نکاح کو باطل قرار دیتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "بیوہ عورت کی شادی بغیر اس کی اجازت کے نہ کی جائے، اور کنواری سے اجازت لی جائے، اور اس کی خاموشی (انکار نہ کرے) اس کی اجازت ہے۔" (صحیح مسلم)۔ ولی کا کردار عورت کی حفاظت کے لیے ہے، نہ کہ اس کی آزادی کو سلب کرنے کے لیے۔ ولی اس وقت تک مداخلت کرتا ہے جب لڑکی کوئی غیر معقول فیصلہ کرے، یا جذبات میں آکر اپنے یا خاندان کے لیے نقصان دہ قدم اٹھائے۔ عقلی اعتبار سے بھی دیکھیں تو شادی جیسا اہم فیصلہ جس کا اثر پوری زندگی، نسل اور معاشرت پر پڑتا ہے، محض ایک فرد کا ذاتی فیصلہ نہیں ہو سکتا، خاص کر جب وہ فرد تجربے یا فہم سے عاری ہو۔ ایک بالغ، باشعور لڑکی جسے زندگی کا تجربہ ہے، اگر وہ خود فیصلہ کرے تو شریعت اس پر سختی نہیں کرتی، بلکہ اس کے ولی کو اس کی رائے کا احترام لازم ہے۔


کچھ لوگ اسلامی مہر پر بھی اعتراض کرتے ہیں، کہ یہ گویا عورت کی قیمت ہے۔ لیکن دراصل مہر عورت کا "حق" ہے، قیمت نہیں۔ قیمت وہ ہوتی ہے جو مالک کو ملتی ہے، جبکہ مہر عورت خود وصول کرتی ہے، یہ اس کے احترام، تحفظ، اور اس رشتے کی سنجیدگی کا نشان ہے۔ قرآن نے فرمایا: "وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً" یعنی "عورتوں کو ان کا مہر خوش دلی سے ادا کرو۔" (سورۃ النساء: 4)۔ حیرت کی بات ہے کہ جو لوگ تحفے تحائف، ڈیٹ، رِنگ، اور سفر پر لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں، وہ نکاح کے وقت مہر پر سوال اٹھاتے ہیں، حالانکہ مہر عورت کی مالی آزادی اور خودمختاری کی علامت ہے۔


اسی طرح بعض افراد کو یہ اعتراض ہوتا ہے کہ طلاق کا اختیار مرد کو ہے، عورت کو نہیں۔ حالانکہ اسلام میں عورت کو بھی مکمل حق دیا گیا ہے؛ خلع، عدالتی فسخ اور اس کے کئی طریقے موجود ہیں۔ مرد کو طلاق کا حق فوری طور پر اس لیے دیا گیا کہ وہ مالی و قانونی ذمہ دار ہے، اور اسے خاندان کے استحکام کو ذہن میں رکھنا ہوتا ہے۔ عورت کے لیے بھی شرعی عدالت کا دروازہ کھلا ہے، تاکہ وہ بغیر عدل و فکر کے محض جذبات میں آکر نکاح نہ توڑے۔ اسلام کی نظر میں طلاق اگرچہ ایک ناگوار اور ناپسندیدہ عمل ہے، لیکن اگر صلح و صفائی کے تمام طریقے ناکام ہو جائیں اور زوجین کے درمیان اعتماد ختم ہو جائے، تو نکاح کو زبردستی برقرار رکھنا ظلم بن جاتا ہے۔ ایسی صورت میں زندگی تنگی، نفرت اور گناہوں کا باعث بن سکتی ہے۔ اسلام میں طلاق ناپسندیدہ ضرور ہے، لیکن مجبوری کی حالت میں اسے جائز قرار دیا گیا ہے تاکہ میاں بیوی سکون کے ساتھ اپنی راہ جدا کر سکیں۔ ایسے حالات میں طلاق ایک رحمت پر مبنی شریعت کا حل ہے، جس سے دونوں کو نئی زندگی شروع کرنے کا موقع ملتا ہے۔


بعض لوگ نکاح میں عمر کی کوئی حد نہ ہونے پر اعتراض کرتے ہیں، اور اسلام پر الزام لگاتے ہیں کہ اس نے بچپن میں شادی کی اجازت دے کر بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی کی ہے، حالانکہ یہ اعتراض دراصل اسلامی نکاح کے صحیح مفہوم سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔ اسلام میں نکاح کو صرف ایک ابتدائی معاہدہ (Contract) تصور کیا گیا ہے، نہ کہ فوراً ازدواجی زندگی کا آغاز۔ اگر کسی کم عمر بچے یا بچی کا نکاح کر بھی دیا جائے تو اس کے عملی تقاضے، جیسے جسمانی تعلق، صرف اس وقت جائز اور نافذ ہوتے ہیں جب وہ بلوغت کو پہنچ کر ذہنی طور پر سمجھدار ہو جائے اور ازدواجی زندگی کی ذمہ داریاں اٹھانے کے قابل ہو۔ یہ اصول دراصل بچوں کے تحفظ اور ان کی فلاح کا ضامن ہے، کیونکہ اسلام کسی پر ایسی ذمہ داری نہیں ڈالتا جو وہ سمجھ اور جسمانی طور پر اٹھانے کے لائق نہ ہو۔ اس طرح اسلامی تعلیمات بچوں کے حقوق کی حفاظت اور ان کی جسمانی و ذہنی صحت کے احترام پر مبنی ہیں، نہ کہ ان کی خلاف ورزی پر۔ دوسری طرف، دنیا بھر کے سیکولر قوانین میں بھی "کم عمری کی شادی" کی تعریف متغیر ہے۔ امریکہ کی کئی ریاستوں میں آج بھی 14–16 سال کی عمر میں والدین کی رضامندی یا عدالتی اجازت کے ساتھ شادی ممکن ہے۔ سچ یہ ہے کہ مسئلہ عمر کا نہیں بلکہ شعور، رضامندی، اور فطرت کی تکمیل کا ہے۔ اسلامی قانون نے انہی اصولوں کو بنیاد بنایا۔ اگر کوئی بالغ، سمجھدار لڑکی خود یا والدین کی رضامندی سے نکاح کرے تو اس پر اعتراض صرف اس لیے کرنا کہ وہ "کم عمر" ہے، ایک تہذیبی تعصب ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کے دور میں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ہزاروں کم سن لڑکے اور لڑکیاں "Boyfriend" اور "Girlfriend" کے نام پر بے حیائی میں مبتلا ہیں، ناجائز تعلقات عام ہیں، اور معاشرہ خاموش تماشائی بنا ہوا ہے، کسی کو اس پر اعتراض نہیں ہوتا۔ لیکن جب اسلام ایک پاکیزہ، ذمہ دار اور باقاعدہ نکاح جیسے مقدس رشتے کے ذریعے زندگی کو نظم و اخلاق کا پابند بناتا ہے، تو اسی پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نکاح انسان کی فطری ضرورت کو عزت، تحفظ، اور شریعت کے دائرے میں پورا کرنے کا ذریعہ ہے، جب کہ آزاد تعلقات معاشرتی بگاڑ، ذہنی تناؤ اور اخلاقی زوال کا سبب بنتے ہیں۔ اسلام کی تعلیمات زندگی کو باحیا اور متوازن رکھنے کے لیے ہیں، نہ کہ کسی کی آزادی کو سلب کرنے کے لیے۔



ایک اور اعتراض یہ ہے کہ نکاح عورت کی آزادی کو محدود کرتا ہے، اسے گھر، شوہر اور بچوں کے دائرے میں قید کر دیتا ہے۔ اس اعتراض کا جواب بہت واضح ہے: جو شخص آزادی کو صرف جسمانی خواہش، بے لگام تعلقات، اور خاندانی ذمہ داری سے انکار کے طور پر سمجھتا ہے، وہ کبھی نکاح کی حکمت کو نہیں سمجھ سکتا۔ اسلام میں نکاح دونوں کے لیے سکون، اطمینان، محبت اور تعاون کا ذریعہ ہے: "وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً" (سورہ الروم: 21)۔ عورت نکاح میں قید نہیں ہوتی، بلکہ وہ تسلیم شدہ، محفوظ، محبت سے بھرپور تعلق میں شامل ہوتی ہے، جہاں اس کے حقوق اور اس کی عزت کی ضمانت دی جاتی ہے۔ اس کے برخلاف جو مغربی معاشرے نے “freedom” کے نام پر "Live-in relationships" اور casual تعلقات کو فروغ دیا، وہاں نہ صرف عورت بلکہ بچے بھی قانونی تحفظ سے محروم ہو گئے۔ سائنسی مطالعات (جیسے CDC USA، Pew Research) بتاتے ہیں کہ live-in تعلقات میں طلاق کی شرح، domestic violence، اور بچوں میں ذہنی پریشانی کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ نکاح ایک قانونی، روحانی اور سماجی معاہدہ ہے، جو نہ صرف جسموں کو، بلکہ دلوں اور خاندانوں کو جوڑتا ہے۔


کچھ لوگ کہتے ہیں کہ نکاح ایک “پرانی روایتی چیز” ہے، جو آج کے جدید، ترقی یافتہ معاشرے کے لیے موزوں نہیں۔ یہ اعتراض بھی دراصل “زمانہ پرستی” (chronological snobbery) کا شکار ہے؛ یعنی ہر نئی چیز اچھی اور ہر پرانی چیز دقیانوسی! لیکن تاریخ شاہد ہے کہ جن معاشروں نے نکاح کو کمزور کیا، وہاں خاندان ٹوٹ گئے، جنسی تعلقات بے اصول ہو گئے، بچے والدین کے بغیر یا سنگل والدین کے ساتھ محرومی میں پلنے لگے، اور خود عورت سب سے زیادہ استحصال کا شکار بنی، خواہ وہ جسم فروشی کی صنعت ہو، یا ورک پلیس پر ہراسانی، یا اکیلی ماں بننے کا درد۔ اس کے برخلاف اسلام نے عورت کو ماں، بیوی، بیٹی، بہن کے ہر روپ میں تحفظ دیا، اور نکاح کو اس تحفظ، عزت، محبت اور سکون کی ضمانت بنایا۔ اسلام نکاح کو شہوت کی تسکین کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک مقدس عبادت قرار دیتا ہے۔ وہ اسے نسلِ انسانی کی بقا، مرد و عورت کی روحانی و جذباتی تکمیل، اور ایک صالح معاشرے کی بنیاد کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اگر اسلام میں بعض حدود مقرر کی گئی ہیں، جیسے مہر، عدل، قوامیت، خلع، طلاق یا تعددِ ازوجات، تو یہ سب انسان کی فطرت، معاشرتی تقاضوں اور انسانی کمزوریوں کو سامنے رکھ کر دی گئی ہیں۔ ان حدود کا مقصد مرد کو برتری دینا نہیں، بلکہ دونوں کے لیے توازن، حفاظت، سکون اور باہمی تعاون فراہم کرنا ہے۔


یہاں ایک اور اہم بات واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ اعتراض کرنے والوں میں بعض sincere اور سوالات کے ذریعے سچ کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ ان کے لیے دعوتِ فکر کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہنا چاہیے۔ ہمیں سختی، طنز یا نفرت کے بجائے محبت، دلائل اور حکمت سے بات کرنی چاہیے، کیونکہ قرآن خود کہتا ہے: "ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ" (النحل: 125) یعنی "اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت سے بلاؤ۔" اگر کوئی شخص اسلام میں نکاح کے اصولوں کو "پسماندہ" یا "ظالمانہ" سمجھتا ہے تو اسے دعوت ہے کہ وہ صرف اعتراض نہ کرے، بلکہ قرآن، سنت، اور فطری عقل کے ساتھ اس نظام کو سمجھے، اس کی حکمت کو دیکھے، اس کے نتائج کو دوسروں نظاموں سے تقابل کرے۔ ان شاء اللہ، جس دل میں انصاف کی طلب ہوگی، وہ دل اس نظام کے حسن کے آگے جھک جائے گا۔ ہم سب کی یہ ذمہ داری ہے کہ ہم اسلام کے خاندانی نظام کو صرف زبانی نہ بیان کریں، بلکہ خود اپنی زندگیوں میں نکاح کو واقعی محبت، سکون، حسنِ سلوک، عدل، اور وفاداری کا نمونہ بنائیں۔ تب ہی ہم سچائی کے علمبردار بن کر دنیا کو دکھا سکیں گے کہ اسلام نہ صرف عبادت، عقیدہ اور روحانیت کا دین ہے، بلکہ انسانی تعلقات، ازدواجی زندگی، اور معاشرتی استحکام کا بھی کامل نظام ہے۔


فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

03؍ جولائی 2025ء بروز جمعرات


+91 8495087865

mdfurqan7865@gmail.com


#Nikah #Marriage #IslamicNikah #IslamicMarriage #PaighameFurqan #MTIH #TIMS

Saturday, 26 July 2025

اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ، غیرتِ ایمانی کا امتحان ہے!

 اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ : غیرتِ ایمانی کا امتحان ہے! 

✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند) 

یقیناً کچھ لمحے ایسے آتے ہیں جب انسانیت چیخ اُٹھتی ہے، جب ضمیر دہاڑتا ہے، جب دل کے اندر ایسی آگ بھڑکتی ہے کہ لفظ اس کا ساتھ دینے سے عاجز ہوجاتے ہیں۔ فلسطین کی سرزمین پر، غزہ کی گلیوں میں، بیت المقدس کے سائے میں، ایک سال سے بھی زائد عرصہ سے جو کچھ ہورہا ہے، وہ صرف قتل و غارت گری نہیں، وہ انسانیت کی توہین، بچوں کی آہیں، ماؤں کی سسکیاں، اور بے گھر لوگوں کی تڑپ ہے۔ وہ لاشیں نہیں جو زمین پر گری ہوئی ہیں، وہ جیتی جاگتی زندگیاں تھیں، خواب تھیں، خواہشیں تھیں، اور ہمارے جیسے انسان تھے جنہیں صہیونی درندوں نے بموں، میزائلوں اور گولیوں سے روند ڈالا۔ فلسطین میں مرنے والوں کی تعداد اب دو لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے، جن میں زیادہ تر معصوم بچے، کمزور خواتین اور نہتے بزرگ شامل ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں لاشیں اٹھتی ہیں، گھروں کے ملبے سے بچوں کی لاشیں نکالی جاتی ہیں، ماں کی گود سے اس کا لعل چھین لیا جاتا ہے، اور ایک نسل کو صفحہئ ہستی سے مٹانے کی منظم کوشش کی جارہی ہے۔


یہ کوئی وقتی جنگ نہیں، یہ دہائیوں پر محیط ظلم و ستم کا تسلسل ہے، جس کی منصوبہ بندی صہیونی دماغوں نے کی ہے اور جس کو انجام تک پہنچانے کیلئے امریکہ جیسے سامراجی طاقتوں نے اپنے اسلحے، پیسوں اور اقوام متحدہ جیسے اداروں کی بے حسی کے ساتھ تعاون دیا ہے۔ اسرائیل کی جارحیت اب صرف غزہ، رفح اور نابلس تک محدود نہیں رہی، بلکہ اس کا ہدف پورے عالم اسلام کو کمزور کرنا، مسلمانوں کی غیرت کو مار ڈالنا اور اسلامی شعور کو مٹا دینا ہے۔ جب امریکہ اسرائیل کے حق میں کھڑے ہوکر اسلحہ فراہم کرتا ہے، جب یورپی ممالک انسانی حقوق کا نعرہ لگاتے ہوئے فلسطینی بچوں کے قتل پر خاموش رہتے ہیں، جب اقوام متحدہ صرف قراردادیں منظور کرکے اپنی جان چھڑاتا ہے، تو ایسی دنیا میں مظلوموں کی آخری امید خود امت مسلمہ کے افراد ہوتے ہیں۔


ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم بے بس ہیں؟ کیا ہم کچھ نہیں کر سکتے؟ کیا ہمارے ہاتھوں میں کوئی طاقت نہیں؟ نہیں! ہم بے بس نہیں، ہمارے پاس ایک طاقت ہے، ایک ایسا ہتھیار جو دشمن کی بنیادیں ہلا سکتا ہے، اور وہ ہے ”بائیکاٹ“! ہاں، ان کمپنیوں کا مکمل بائیکاٹ جو اسرائیل کی پشت پناہی کرتی ہیں، جو صہیونی فوج کو مالی مدد فراہم کرتی ہیں، جو اپنے منافع سے فلسطینی بچوں کی قبریں کھودتی ہیں، اور جو ہمارے پیسوں سے ہمیں ہی مارنے کیلئے اسرائیلی اسلحہ ساز کمپنیوں کو سرمایہ فراہم کرتی ہیں۔ہم جو جب کسی سوپرمارکیٹ میں خریداری کرتے ہیں، جب کسی فاسٹ فوڈ چین میں کھانا کھاتے ہیں، جب کسی مشروب کو پیاس بجھانے کیلئے حلق سے نیچے اتارتے ہیں، ہم نہیں جانتے کہ ہم دراصل کن ہاتھوں کو پیسہ دے رہے ہیں۔ ہمیں یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہی کمپنیاں جیسے Coca-Cola, Pepsi, Nestlé, McDonald's, Starbucks, Domino's, KFC, Maggi اور Unilever وغیرہ جیسی کمپنیاں اسرائیل کو نہ صرف معاشی سہارا دے رہی ہیں بلکہ کئی مرتبہ صہیونی فوج کو براہ راست امداد فراہم کرتی ہیں۔ تحقیقی رپورٹس کے مطابق ان کمپنیوں کا بڑا سرمایہ اسرائیلی مارکیٹ میں گردش کرتا ہے، اور ان کے منافع کا حصہ ان تنظیموں کو جاتا ہے جو فلسطین میں نسل کشی کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔


ابھی 2023ء کے اختتام پر شائع ہونے والی AFSC کی ایک تحقیق میں انکشاف کیا گیا کہ امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو ملنے والی سالانہ 3.8 بلین ڈالر کی امداد کے علاوہ بڑی کارپوریٹ کمپنیاں بھی کروڑوں ڈالرز کی رقم براہ راست یا بالواسطہ صہیونی اداروں کو دیتی ہیں۔ ایسی کمپنیوں میں سب سے نمایاں Starbucks ہے، جس کی انتظامیہ نے اسرائیل کی کھل کر حمایت کی اور فلسطین کی حمایت میں بولنے والے اپنے ملازمین کو نوکری سے برخاست کیا۔ McDonald'sنے اسرائیلی فوجیوں کو مفت کھانا فراہم کیا۔ HP اور Intel جیسی ٹیکنالوجی کمپنیاں اسرائیلی سیکیورٹی سسٹم کی تیاری میں براہ راست شریک ہیں۔ Coca-Cola کا مرکزی پلانٹ اسرائیل کے مقبوضہ علاقوں میں واقع ہے اور اس کا CEO کھل کر صہیونی عزائم کی حمایت کرتا ہے۔


فلسطین سالیڈیریٹی کیمپین اور BDS موومنٹ کی تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ اگر پوری دنیا کے مسلمان ان کمپنیوں کا صرف 20 فیصد بائیکاٹ کریں، تو ان کا سالانہ نقصان 30 بلین ڈالر سے زائد ہوسکتا ہے۔ جب کوئی کمپنی یا ادارہ صہیونی ریاست اسرائیل کی مالی مدد کر رہا ہو، اور اس کی مصنوعات کی خریداری سے ظالم کو تقویت ملتی ہو، تو ایسی صورت میں ان مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا صرف جذباتی ردعمل نہیں بلکہ شرعی ذمہ داری بن جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں صاف فرمایا: ”وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَی الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ“ (سورۃ المائدہ: 2) کہ ”گناہ اور زیادتی (ظلم) کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔“ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اپنے بھائی کی مدد کرو، خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔“عرض کیا گیا: مظلوم کی تو مدد سمجھ آتی ہے، مگر ظالم کی کیسے؟ فرمایا: ”اسے ظلم سے روک کر“ (صحیح بخاری: 2444)۔ اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ دراصل ظالم کو ظلم سے روکنے کا عملی قدم ہے۔ اور اگر کوئی کمپنی کسی ایسی ریاست یا فوج کی مالی معاونت کرتی ہو جو مسلمانوں پر ظلم کر رہی ہو، تو اس کے بائیکاٹ کا مطالبہ نہ صرف شرعاً درست بلکہ واجب کے قریب ہے۔ لہٰذا، اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ صرف ایک اخلاقی اقدام نہیں بلکہ ایک شرعی فریضہ ہے، جو ہر غیرت مند مسلمان پر لازم ہے۔ Bloomberg اور Reuters کی رپورٹس کے مطابق صرف عرب ممالک میں 2023 ء میں ہونے والے جزوی بائیکاٹ کی وجہ سے McDonald'sکو ایک چوتھائی خسارہ ہوا اور Middle East Eye کے رپورٹ کے مطابق کئی ممالک میں ان کے آؤٹ لیٹس بند کرنے پڑے۔ اسی طرح Coca-Cola کو خلیجی ممالک میں اپنی برانڈ ویلیو کھونا پڑی۔ اگر یہی بائیکاٹ مکمل اور منظم ہو، تو ان کمپنیوں کے مالی مفادات کو کاری ضرب لگائی جاسکتی ہے، اور اسرائیل کو عالمی سطح پر تنہائی کی طرف دھکیلا جاسکتا ہے۔


ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ کیا ایک مشروب ہماری غیرت سے زیادہ قیمتی ہے؟ کیا ایک برگر یا چکن پیس اتنا اہم ہے کہ اس کے بدلے ہم کسی فلسطینی بچے کی لاش کا سودا کرلیں؟ جب ہم Starbucks کی کافی پیتے ہیں تو کیا ہمیں وہ تصویر یاد آتی ہے جس میں ایک بچہ اپنی ماں کی لاش سے لپٹا ہوا تھا؟ جب ہم Nestlé کے چاکلیٹ کھاتے ہیں تو کیا ہم بھول جاتے ہیں کہ غزہ میں مائیں اپنے بچوں کو نمک ملا پانی پلا کر سلانے پر مجبور ہیں؟ یہ بائیکاٹ صرف معاشی اقدام نہیں، یہ ضمیر کی پکار ہے، یہ ایمان کی صداقت ہے، یہ مظلوموں کے ساتھ ہمارے ربط کا ثبوت ہے۔


آج سوشل میڈیا پر کئی ایسی رپورٹس گردش کر رہی ہیں جو ثابت کرتی ہیں کہ اسرائیلی مصنوعات کے خلاف بائیکاٹ نے اسرائیلی معیشت کو دھچکا پہنچایا ہے۔ الجزیرہ کے ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل میں 2024ء کے دوران گھریلو مصنوعات کی فروخت میں 17 فیصد کمی آئی اور براہ راست سرمایہ کاری میں 23 فیصد کمی دیکھی گئی۔ یہ محض اعداد و شمار نہیں، بلکہ ان بچوں کی دعائیں ہیں جن کے ماں باپ کو زندہ جلایا گیا، یہ ان ماؤں کی آہیں ہیں جو اپنے بچوں کی لاشیں اٹھا اٹھا کر تھک چکی ہیں۔ جب ہم ان مصنوعات کا بائیکاٹ کرتے ہیں، تو ہم ظالم کو براہ راست پیغام دیتے ہیں کہ ہم خاموش تماشائی نہیں، بلکہ امت کا زندہ ضمیر ہیں۔اسلامی شریعت بھی ہمیں یہی حکم دیتی ہے کہ ظالم کے خلاف آواز بلند کی جائے، اور اگر قوت نہ ہو تو کم از کم دل میں نفرت اور معاشی بائیکاٹ کے ذریعے اس کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا جائے۔ اگرہمارے ذریعہ ظالم حکمران کی مدد مالی طور ہورہی ہوتوگویا یہ ظلم میں شرکت مترادف ہے۔ تو جو کمپنی ظلم کی پشت پناہی کرے، اس کی مصنوعات خریدنا کیا ہے؟ کیا یہ ظلم میں حصہ داری نہیں؟


یہ صرف انفرادی عمل نہیں ہونا چاہیے، بلکہ ادارہ جاتی سطح پر بھی اس کو منظم کیا جانا چاہیے، اور الحمدللہ، مرکز تحفظ اسلام ہند نے اس حوالے سے ایک بڑی خدمت انجام دی ہے۔ ایک تین ماہ کی تفصیلی تحقیق کے بعد ایک ایسی فہرست مرتب کی گئی ہے جس میں ان تمام مصنوعات کا احاطہ کیا گیا ہے جو اسرائیل یا اس کے معاونین سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ فہرست نہ صرف درست اور مستند ہے بلکہ اس میں ہر پراڈکٹ کے پیچھے موجود کمپنی اور اس کا اسرائیل سے تعلق بھی تحقیق کے ساتھ درج ہے۔ مرکز تحفظ اسلام ہند نے یہ فہرست ملک بھر کی تنظیموں، اداروں اور عوام الناس تک پہنچانے کی کوشش کی ہے تاکہ لوگ بیدار ہوں اور اس تحریک کا حصہ بنیں۔ یہ وقت غیرتِ ایمانی کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم اسرائیلی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں۔ یہ محض ایک مہم نہیں، یہ ضمیر کا فیصلہ، دل کی پکار، اور ایمان کا امتحان ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کون اس آزمائش میں سرخرو ہوتا ہے اور کون رسوا۔ ہم یا تو ظلم کے خلاف کھڑے ہو سکتے ہیں، یا اپنی بے حسی سے قاتلوں کے معاون بن سکتے ہیں۔ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔


اب وقت آچکا ہے کہ ہم دو ٹوک فیصلہ کریں۔ یا تو ہم فلسطین کے ان بچوں کا ساتھ دیں جو ہر روز شہید ہو رہے ہیں، یا ان کمپنیوں کا جو ان کے قاتلوں کو طاقت فراہم کر رہی ہیں۔ ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم کس کے ساتھ ہیں؛ مظلوموں کے یا ظالموں کے؟ اگر ہم واقعی ایمان رکھتے ہیں، اگر ہماری غیرت ابھی زندہ ہے، اگر ہمارے دل میں امت کا درد ہے، تو ہمیں آج سے، اسی لمحے سے ان تمام اسرائیلی اور ان کے مددگار کمپنیوں کے مصنوعات کا مکمل، غیر مشروط، اٹل بائیکاٹ کرنا ہوگا۔ یہ صرف بائیکاٹ نہیں ہوگا، بلکہ مظلوم فلسطینیوں کے زخموں پر مرہم ہوگا، اور ظالم اسرائیل کے وجود پر ضربِ کاری۔


ابھی نہیں تو کب؟ ہم نہیں تو کون؟ خدارا اٹھو! خریدو نہیں، جھاڑ دو ان پراڈکٹس کو، نکال دو انہیں اپنے گھروں سے، دکانوں سے، دلوں سے۔ کیونکہ جب آخرت میں ہم سے پوچھا جائے گا کہ تم نے کیا کیا تھا؟ تو ہم کم از کم یہ تو کہہ سکیں گے: اے اللہ! ہم نے ظالم کا ساتھ نہیں دیا، ہم نے مظلوم کا ساتھ دیا، ہم نے ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا تھا۔


فقط والسلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

26؍ جولائی 2025ء بروز سنیچر 


+91 8495087865

mdfurqan7865@gmail.com


#BoycottIsraelProducts | #IsraelProducts | #Palestine | #Gaza | #IndianMuslims | #MTIH | #TIMS | #PaighameFurqan

Thursday, 24 July 2025

”بس جرم ہے اتنا کہ مسلمان ہیں ہم لوگ!“

 ”بس جرم ہے اتنا کہ مسلمان ہیں ہم لوگ!“

(11/7 ممبئی لوکل ٹرین بم دھماکہ : 12؍ مسلم نوجوان 19؍ سال بعد باعزت بری) 

”انصاف“ کے نام پر انیس سال کی سزا“..!

✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)



انیس برس کے طویل اندھیرے کے بعد بالآخر وہ روشنی جھلکی جس کی امید وقتاً فوقتاً دم توڑتی رہی۔ بامبے ہائی کورٹ نے 7/11 ممبئی لوکل ٹرین بم دھماکہ کیس میں دہشت گردی کے الزام میں قید بارہ مسلم نوجوانوں کو باعزت بری کر دیا۔ عدالت نے نہ صرف مکوکا عدالت کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دیا، بلکہ ان کے خلاف دیے گئے اقبالیہ بیانات اور تمام سرکاری گواہیوں کو بھی ناقابل قبول مانا۔ یہ فیصلہ اگرچہ عدالتی نظام میں آئینی انصاف کی ایک روشن مثال بن کر سامنے آیا، مگر اس کی چمک میں ان انیس برسوں کا وہ ظلم چھپا نہیں جا سکتا جو ان نوجوانوں نے جیل کی کال کوٹھریوں میں جھیلا۔ انصاف آیا، مگر ایک ایسے وقت جب زندگی کا سب کچھ بکھر چکا تھا۔


07؍ جولائی 2006ء کی شام ممبئی کی لوکل ٹرینیں موت کا کارواں بن گئی تھیں۔ یکے بعد دیگرے ہونے والے دھماکوں نے شہر کی روح کو لرزا دیا، ایک 189 جانیں چھن گئیں، سینکڑوں افراد زخمی ہوئے، اور ہر جانب چیخ و پکار کا عالم برپا ہو گیا۔ حکومت پر سوالات کی بارش شروع ہوئی، اور دباؤ میں آ کر جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا، وہ وہی تھے جو سب سے زیادہ بے بس تھے؛ مسلم نوجوان، 

یہ وہ نوجوان تھے جنہیں دہشت گردی کے الزامات میں صرف ان کے مذہب کی بنیاد پر گھسیٹا گیا۔ نہ کوئی پختہ ثبوت، نہ کوئی گواہ، نہ کوئی فارنسک بنیاد، صرف مذہب اور نام کی بنیاد پر انہیں اٹھا لیا گیا۔ تفتیشی اداروں نے ان سے جھوٹے اقبالیہ بیانات حاصل کیے، میڈیا نے انہیں مجرم ٹھہرا دیا، اور عوام کے ذہنوں میں نفرت کے بیج بو دیے گئے۔ برسوں تک یہ نوجوان جیل میں سڑتے رہے، ایک ایک دن ان پر قیامت بن کر گزرتا رہا، اور سچائی پر پردے ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی رہی۔


آخرکار 2025ء میں بامبے ہائی کورٹ نے اپنے تفصیلی فیصلے میں کہا کہ ان نوجوانوں کے خلاف کوئی قابل قبول ثبوت موجود نہیں، سرکاری گواہیاں مشتبہ اور اقبالیہ بیانات غیر قانونی ہیں، اور پوری تفتیشی کہانی محض مفروضوں پر مبنی تھی۔ یہ فیصلہ اگرچہ ان افراد کو آزادی دے گیا، مگر قوم کے ضمیر پر ایک ایسا دھبہ لگا گیا جو شاید کبھی مٹ نہ سکے۔ سوال یہ نہیں کہ ان ملزمین کو رہا کر دیا گیا، سوال یہ ہے کہ ان کی جوانی کیوں چھین لی گئی؟ ان کے خاندانوں کو کیوں برباد کیا گیا؟ اور کیوں انصاف کو انیس برس لگ گئے؟ کیا یہ فیصلہ انصاف کہلائے گا یا ایک ایسے سسٹم پر فردِ جرم ہے، جو جرم سے زیادہ کسی کی مذہبی شناخت کو مجرم بنانے پر آمادہ ہے؟


ان بے قصور نوجوانوں کی زندگیاں تباہ ہوگئیں۔ ان میں سے کئی کی شادیوں کے رشتے ٹوٹ گئے تو کئی کی شادیاں ہی ختم ہو گئیں، کئی کے ماں باپ انصاف کی آس میں دنیا سے رخصت ہو گئے، کئی کے بچے باپ ہونے کے باوجود یتیمی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے اور کئی نے جیل کی سلاخوں کے پیچھے اپنی جوانی، خواب، عزت، وقت اور مستقبل سب کچھ گنوا دیا۔ یہ سب وہ سزائیں تھیں جو عدالت سے پہلے سنائی جا چکی تھیں۔انہیں صرف مجرم بنا کر جیل میں نہیں ڈالا گیا بلکہ ان کے گھروں کو برباد کیا گیا، ان کی نسلوں کا مستقبل تاریک کر دیا گیا اور ان کی شناخت کو داغدار کیا گیا۔ اور سب کچھ صرف اس لیے کیونکہ وہ مسلمان تھے۔ 


حکومتیں بدلتی رہیں، وزرائے داخلہ، وزرائے قانون آتے جاتے رہے، لیکن ان بے قصور نوجوانوں کی فائلیں عدالت کی کسی دھول بھری الماری میں پڑی رہیں۔ اس دوران کئی مجرم آزاد گھومتے رہے، کئی اصل سازشی عناصر سیاسی پناہ لیتے رہے، اور کچھ کو "قومی ہیرو" کے طور پر پیش کیا جاتا رہا۔ یہ معاملہ محض چند افراد کی زندگی کا نہیں، یہ پورے ملک کے نظامِ انصاف، پولیس، تحقیقاتی ایجنسیوں، میڈیا اور حکومتوں کی اجتماعی ناکامی اور مجرمانہ غفلت کی علامت ہے۔ جب بامبے ہائی کورٹ نے کہا کہ ان کے خلاف نہ کوئی ثبوت ہے، نہ کوئی چشم دید گواہ، نہ کوئی سائنسی یا فارنسک معاونت، تب پوری قوم کو یہ سوچنے پر مجبور ہونا پڑا کہ اگر کچھ بھی نہیں تھا تو انہیں 19؍ سال تک کیوں قید رکھا گیا؟ اس کا سیدھا سا جواب ہے: کیونکہ وہ مسلمان تھے۔ ایک بار پھر ریاست نے مسلمانوں کے ساتھ وہی سلوک کیا جو پہلے بھی کیا جاتا رہا ہے؛ نہ کوئی گارنٹی، نہ کوئی تحفظ، نہ کوئی رعایت، اور نہ کوئی معذرت۔


اس پورے اندھیرے میں ایک چراغ وہ تنظیم تھی جسے جمعیۃ علماء ہند کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ وہ ادارہ ہے جس نے قانونی محاذ پر ان نوجوانوں کی پیروی کی، ان کے خاندانوں کو سہارا دیا، بہترین وکلاء کا انتظام کیا، عدالتی اخراجات برداشت کیے، اور ہر محاذ پر ان کے ساتھ کھڑا رہا۔ اگر جمعیۃ نہ ہوتی تو شاید یہ فیصلہ کبھی نہ آتا۔ مولانا ارشد مدنی کی قیادت میں جمعیۃ نے برسوں اس کیس کو زندہ رکھا، قانونی ٹیم بنائی، دلائل پیش کیے، جھوٹ کو بے نقاب کیا اور بالآخر ان معصوموں کو رہائی دلوائی۔ یہ کام صرف ایک ادارے کا نہیں بلکہ پوری ملت کا تھا، لیکن افسوس کہ پوری ملت نے خاموشی اختیار کی، اور صرف جمعیۃ نے اپنا فرض نبھایا۔


یہ پہلا واقعہ اور ایک دو ناموں پر محدود نہیں۔ ہمیں مفتی عبد القیوم قاسمی کا کیس یاد ہے، جنہیں اکشردھام حملے میں جھوٹے طور پر پھنسا کر گیارہ سال تک اذیت دی گئی۔ ہمیں وہ ہزاروں مسلم نوجوان یاد ہیں جنہیں ٹاڈا، پوٹا اور مکوکا جیسے کالے قوانین کے تحت گرفتار کیا گیا، برسوں قید رکھا گیا، اور آخرکار عدالتوں نے انہیں باعزت بری کیا۔ ہمیں مولانا انظر شاہ قاسمی جیسے علماء یاد ہیں جنہیں بغیر کسی جرم کے میڈیا نے دہشت گرد بنا کر پیش کیا، لیکن آخر میں عدالت نے انہیں بے قصور مانا۔ ہمیں کشمیر کے وہ پانچ نوجوان یاد ہیں جو 23 سال بعد باعزت بری ہوئے تھے، ان کے ماں باپ قبروں میں جا چکے تھے، ان کی جوانی قبرستان بن چکی تھی، اور ان کی واپسی پر صرف آنسو، سناٹا اور سوال باقی رہ گئے تھے۔  یہ فہرست طویل ہے کشمیر سے کنیاکماری تک، گجرات سے مغربی بنگال تک، یہ قصے ہر جگہ دہرائے جا رہے ہیں۔ ہر علاقے سے ایسے ہزاروں کیسز سامنے آتے ہیں جہاں مسلمان نوجوانوں کو صرف ان کی شناخت کی بنیاد پر نشانہ بنایا گیا۔ آج بھی ملک کی مختلف جیلوں میں ہزاروں مسلمان نوجوان ایسے الزامات میں قید ہیں جن کا کوئی ثبوت نہیں، جن کے مقدمات کی سماعت نہیں ہو رہی، جنہیں ضمانت نہیں دی جا رہی اور جنہیں وکیل میسر نہیں آ رہا۔ ان کے خلاف صرف اور صرف پولیس کی کہانی ہے، جسے میڈیا سچ بنا کر پیش کرتا ہے، اور عدالتیں برسوں بعد غلط ثابت کرتی ہیں۔ لیکن جب تک عدالتیں فیصلہ سناتی ہیں، تب تک اس کی پوری زندگی تباہ ہو چکی ہوتی ہے۔


عدالتی نظام کی سست روی اور تفتیشی ایجنسیوں کی تعصب زدہ روش نہ صرف انفرادی المیوں کو جنم دیتی ہے بلکہ ایک پوری قوم کو احساسِ کمتری میں مبتلا کر دیتی ہے۔ 19؍ سال بعد اگر عدالت فیصلہ دیتی ہے تو یہ انصاف نہیں، بلکہ نظام کی ناکامی کا اعلان ہے۔ اس فیصلے میں خوشی کم، شرمندگی زیادہ ہے۔ سب سے شرمناک پہلو یہ ہے کہ پولیس، اے ٹی ایس، اور تفتیشی ایجنسیوں نے جو ثبوت عدالت میں پیش کیے، وہ خود ان کے منہ پر طمانچہ بن کر سامنے آئے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں صاف لکھا کہ پولیس کی کہانی میں جھول ہے، ملزمان کی موجودگی کے شواہد مشکوک ہیں، ان کے اقبالیہ بیانات قانون کے مطابق نہیں لیے گئے، اور پورے کیس میں متعدد نقائص ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سب کچھ جان بوجھ کر کیا گیا۔ مقصد اصل مجرم کو پکڑنا نہیں تھا، بلکہ فوری طور پر کسی کو پکڑ کر کیس بند کرنا تھا، اور اس کے لیے سب سے آسان شکار مسلمان تھے۔


اور میڈیا؟ جسے معاشرے کا ضمیر کہا جاتا ہے، وہ اس معاملے میں سب سے بڑا مجرم ہے۔ گرفتاری کے فوراً بعد ان نوجوانوں کی تصویریں دکھا دکھا کر چیخ چیخ کر بتایا گیا کہ "دہشت گرد پکڑے گئے"۔ مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو شک کی نظر سے دیکھا گیا، دینی مدارس کو دہشت گردی کا گڑھ قرار دیا گیا، اور عام مسلمان کو ایک مشتبہ مخلوق بنا دیا گیا۔ پھر جب عدالت نے کہا کہ یہ سب بے قصور تھے تو کوئی معذرت نہیں، کوئی ندامت نہیں، کوئی پچھتاوا نہیں۔ میڈیا نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ ان کی خبروں نے کتنے گھروں کو برباد کیا، کتنے رشتے توڑے، کتنی ملازمتیں چھن گئیں، اور کتنے ذہنوں میں نفرت کے بیج بوئے۔


سوال یہ ہے کہ جب عدالت نے سب گواہوں، اقبالیہ بیانات اور شواہد کو مسترد کر دیا تو اتنے سال تک ان نوجوانوں کو قید میں رکھنے کی بنیاد کیا تھی؟ اور سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ اصل مجرموں کو پکڑنے کے بجائے پولیس نے صرف اپنی فائلیں بند کرنے کیلئے مسلمانوں کو قربانی کا بکرا بنایا۔ لیکن کیا ان افسروں پر مقدمہ چلے گا جنہوں نے جھوٹے کیس بنائے، بے بنیاد ثبوت گھڑے، اذیتیں دیں؟ کیا ان ایجنسیوں سے سوال کیا جائے گا جنہوں نے معصوم نوجوان کو دہشت گرد بنا کر پیش کیا؟ کیا ان سیاستدانوں سے سوال ہوگا جنہوں نے مجرموں کی گرفتاری کے نام پر سیاسی واہ واہی لوٹی؟ کیا میڈیا سے جواب طلب کیا جائے گا؟ افسوس کہ نہیں! کیونکہ اس ملک میں مسلمان کا انصاف مانگنا بھی خود ایک جرم بن چکا ہے۔


عدالتوں سے رہا ہو جانا انصاف نہیں کہلاتا، جب تک ظلم کرنے والوں کو سزائیں نہ دی جائیں، اور متاثرین کو ازالہ نہ دیا جائے۔ اس وقت ان نوجوانوں کے پاس نہ کوئی روزگار ہے، نہ کوئی نفسیاتی سہارا، نہ ریاستی مدد، نہ کوئی رسمی معافی۔ وہ برسوں کی اذیتیں لے کر باہر نکلے ہیں، مگر زندگی کی گاڑی اب بھی پٹری سے اتری ہوئی ہے۔ اگر ان بے قصور پر ظلم کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوئی، تو کیا یہی انصاف ہے؟ اگر ان افسران پر جنہوں نے سازش رچی ان پر مقدمہ نہیں چلایا گیا تو یاد رکھیں کہ پھر اگلے کسی حادثے میں کوئی اور قاسم، کوئی اور کلیم، کوئی اور عرفان نشانہ بنے گا اور عنقریب ہم بھی ان کے نشانے پر ہونگے! 


ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ ایسے کیسز کے بعد مسلمانوں کا عدلیہ اور نظامِ انصاف پر جو اعتماد مجروح ہوتا ہے، اس کی تلافی کیسے ہوگی؟ کیا عدالتیں صرف ثبوت کی بنیاد پر ہی فیصلہ دیں گی، یا اس نظام کے اندر موجود تعصب، نفرت اور استحصال کو بھی دیکھیں گی؟ جب مسلمان نوجوان ہر دھماکے کے بعد پہلے ملزم بن جاتے ہیں، اور برسوں بعد بے قصور قرار دیے جاتے ہیں، تو پھر قوم کا اعتماد ٹوٹتا ہے، دلوں میں ناامیدی جڑ پکڑتی ہے، اور سماج میں فاصلے بڑھتے ہیں۔ 7/11 کیس میں جو کچھ ہوا وہ ایک مکمل ریاستی و ادارہ جاتی ناکامی تھی۔ یہ ایک آزاد ملک کے اس "سیکولر" ڈھانچے پر سوالیہ نشان ہے جو اقلیتوں کو برابری کے حقوق دینے کا دعویٰ کرتا ہے۔ اس کیس نے ثابت کر دیا کہ مذہبی اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں کو ایک مخصوص بیانیہ کے تحت نشانہ بنایا جاتا ہے، انہیں شکوک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اور ان کے خلاف مقدمات بنانے کے لیے پولیس، ایجنسیاں، اور میڈیا سب مل کر کام کرتے ہیں۔ اس ظالمانہ سسٹم میں عدالت صرف آخری دروازہ بن کر رہ جاتی ہے، جو اگر انصاف کرے بھی تو بہت دیر سے کرتی ہے۔


قوم کے سامنے اب دو راستے ہیں: یا تو ہم خاموشی سے ہر بار یہی تماشا دیکھتے رہیں گے، یا پھر ہم منظم ہو کر اس سسٹم کو چیلنج کریں گے۔ ہمیں قانونی میدان میں مضبوطی لانا ہوگی، ہر کیس کی پیروی کرنی ہوگی، میڈیا کی نگرانی کرنی ہوگی، اور مظلوموں کی داد رسی کو دینی و ملی فریضہ سمجھنا ہوگا، کیونکہ آج جو ان نوجوانوں کے ساتھ ہوا، وہ کل کسی اور کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ اور اگر ہم خاموش رہے تو کل شاید ہمارا بھی نمبر ہو۔ اب وقت آ چکا ہے کہ ہم صرف رہائی کی خبر پر خوش ہونا چھوڑ دیں، اور ان سوالات کو بنیاد بنائیں جو اس نظام کے کھوکھلے پن کو بے نقاب کرتے ہیں۔ ہمیں متحد ہو کر مطالبہ کرنا ہوگا کہ ان نوجوانوں کو مکمل انصاف دیا جائے، سرکاری معافی، مالی ازالہ، نفسیاتی بحالی، روزگار کی ضمانت، اور سب سے بڑھ کر ان کے ساتھ ظلم کرنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔ انہیں نشانِ عبرت بنایا جائے تاکہ آئندہ کوئی معصوم صرف مذہب کی بنیاد پر قربانی کا بکرا نہ بنے۔ اگر ہم اب بھی خاموش رہے، تو ظلم کا یہ پہیہ رکنے والا نہیں، بلکہ کل کو پوری قوم اس کی زد میں آ سکتی ہے۔


اس فیصلے نے ہمیں ایک تلخ حقیقت کا سامنا کروایا ہے کہ جب ریاستی طاقت مذہبی تعصب کے تابع ہو جائے تو قانون صرف ایک دکھاوا بن جاتا ہے، اور انصاف کی کرسی پر بیٹھنے والا اگر وقت پر سچ نہ بولے تو وہ خود جرم میں شریک ہو جاتا ہے۔ مگر ہمیں مایوس نہیں ہونا، ہار نہیں ماننی۔ ہمیں اپنے مظلوم بھائیوں کے لیے مسلسل آواز بلند کرتے رہنا ہے، قانونی میدان میں مضبوطی سے جمے رہنا ہے، میڈیا کے زہریلے کردار کا محاسبہ کرنا ہے، اور اپنی نسلوں کو یہ شعور دینا ہے کہ سچ کو دبایا جا سکتا ہے، مگر ختم نہیں کیا جا سکتا؛ آخرکار وہ سامنے آتا ہے، اگر ہم ڈٹے رہیں۔ یہ فیصلہ درحقیقت عدالت کا نہیں بلکہ ظلم کے خلاف ایک گواہی ہے، اور یہ رہائی انصاف کی فتح نہیں بلکہ ریاستی نظام کی ناکامی کا اقرار ہے۔ ہمیں اس وقت تک لڑنا ہے جب تک ہر بے گناہ قیدی آزاد نہ ہو جائے، ہر جھوٹے مقدمے کو ختم نہ کر دیا جائے، ہر ایجنسی جواب دہ نہ بن جائے، اور ہر مسلمان کو یہ اعتماد حاصل نہ ہو جائے کہ اس ملک میں اس کی جان، عزت اور ایمان محفوظ ہے۔ یہ کیس ہمارے لیے ایک سبق بھی ہے اور انتباہ بھی؛ سبق اس لیے کہ ہمیں اپنی نئی نسل کو قانون، عدلیہ اور میڈیا کے مکر و فریب سے واقف کرانا ہوگا، انہیں اپنی حفاظت کے لیے شعور اور تیاری دینا ہوگی، اور ظلم کے خلاف ایک منظم تحریک اٹھانی ہوگی اور آخیر تک لڑائی لڑنی ہے کیونکہ یہ صرف انصاف کی نہیں، انسانی وقار، مذہبی آزادی اور قومی سلامتی کی بھی لڑائی ہے۔ اور انتباہ اس لیے کہ اگر ہم اب بھی غفلت میں رہے تو یہ ظلم دوبارہ کسی اور شہر، کسی اور نام، کسی اور حادثے کی آڑ میں سر اٹھا سکتا ہے، اور اگلا فیصلہ شاید پھر انیس سال بعد آئے؛ تب جب ہم شاید بہت کچھ کھو چکے ہوں۔ اور ہوسکتا ہے کہ آج اگر ہم خاموش رہے تو کل شاید ہمارا ہی نمبر ہو!  

اس دیش میں برسوں سے پریشان ہیں ہم لوگ 

بس جرم ہے اتنا کہ مسلمان ہیں ہم لوگ


فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

23؍ جولائی 2025 ء بروز بدھ


#MumbaiTrainBlast #InnocentMuslim #Jamiat #ArshadMadani #MTIH #TIMS #PaighameFurqan