Monday, 4 August 2025

قضیہ فلسطین اور بی ڈی ایس تحریک!

 قضیہ فلسطین اور بی ڈی ایس تحریک!

✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


فلسطین کے جانباز شہریوں نے اسرائیل کے ناجائز قبضے، ظلم و ستم، اور انسانی وقار کی پامالی کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے 2005ء میں اپنی سوسائٹی کی نمائندہ 170؍ تنظیمیں، تحریکیں اور این جی اوز کے ذریعے ایک عالمی تحریک کی بنیاد رکھی، جو آج دنیا بھر میں BDS (Boycott, Divestment, Sanctions) کے نام سے جانی جاتی ہے۔ یہ تحریک ایک پُرامن، باوقار اور عالمی سطح پر مؤثر احتجاجی جدوجہد ہے، جس کا مقصد اسرائیل پر دباؤ ڈالنا ہے تاکہ وہ فلسطینی عوام کے حقوق کا احترام کرے۔ BDS تین بنیادی نکات پر قائم ہے: (1) بائیکاٹ (Boycott): یعنی اسرائیلی مصنوعات، اداروں، اور ان کمپنیوں کا مکمل سوشل اور معاشی بائیکاٹ جو اسرائیل کی حمایت یا تعاون کرتی ہیں۔ (2) سرمایہ نکالنا (Divestment): یعنی ان کمپنیوں یا اداروں سے سرمایہ کاری واپس لینا جو اسرائیل کو مالی سہارا فراہم کرتے ہیں یا اس کے قبضے میں شریک ہیں۔ اور (3) پابندیاں (Sanctions): یعنی حکومتوں سے مطالبہ کہ وہ اسرائیل پر اقتصادی، فوجی اور سفارتی پابندیاں عائد کریں تاکہ وہ انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیاں بند کرے۔ یہ تحریک ظلم کے خلاف انسانیت کی آواز ہے اور عالمی ضمیر کو بیدار کرنے کی ایک منظم اور پرامن کاوش ہے۔ بی ڈی ایس تحریک کی نوعیت کسی ہتھیار یا تشدد پر مبنی نہیں بلکہ یہ اخلاقی، سماجی، معاشی اور قانونی دائرے میں رہتے ہوئے ایک ایسے بائیکاٹ کا مطالبہ کرتی ہے جو دنیا کی مختلف اقوام، اداروں اور حکومتوں پر یہ واضح کر دے کہ وہ اسرائیلی ظلم پر خاموش نہیں رہیں گے۔ یہ تحریک اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ یہ کسی خاص مذہب، رنگ، نسل یا ملک سے وابستہ نہیں، بلکہ دنیا کے ہر انصاف پسند انسان کی آواز بن چکی ہے۔



بی ڈی ایس تحریک کے آغاز کی بنیاد 2005ء میں فلسطینی عوام اور سماجی اداروں کے اُس مشترکہ اعلامیے سے ہوئی جس میں اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم، زمین پر غاصبانہ قبضہ، شہری حقوق کی پامالی، جبری نقل مکانی، اور انسانی عزت نفس کی تذلیل کے خلاف دنیا بھر کی اقوام سے بائیکاٹ، سرمایہ نکالنے اور اسرائیل پر پابندیاں عائد کرنے کی اپیل کی گئی۔ یہ وہ دور تھا جب اسرائیل نے دیوارِ فاصل (Apartheid Wall) تعمیر کر کے فلسطینی علاقوں کو مزید محصور کر دیا تھا۔ بستیوں کی تعمیر، مقدس مقامات کی توہین، بچوں، عورتوں اور معمر افراد پر مظالم اور بنیادی انسانی حقوق کی منظم خلاف ورزیوں نے دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا، مگر طاقتور مغربی دنیا اور عالمی ادارے، خاص طور پر اقوام متحدہ، صرف مذمت تک محدود رہے۔ ایسے میں BDS تحریک فلسطینی عوام کی طرف سے ایک مؤثر، پرامن اور عالمی سطح پر منظور شدہ احتجاجی حکمت عملی بن کر ابھری۔


یہ عالمی BDS تحریک کے تین بنیادی مطالبات ہیں: (پہلا) اسرائیل 1967ء سے قبضہ کیے گئے تمام فلسطینی علاقوں سے دستبردار ہو۔(دوسرا) اسرائیل میں موجود عرب نژاد فلسطینیوں کو بھی وہی حقوق دیے جائیں جو یہودیوں کو حاصل ہیں۔ اور(تیسرا) 1948ء اور 1967ء کے دوران جبری طور پر نکالے گئے تمام فلسطینیوں کو واپس اپنے گھروں کو لوٹنے کا حق دیا جائے، جیسا کہ اقوام متحدہ کی قرارداد 194 میں تسلیم کیا گیا ہے۔ یہ تینوں مطالبات نہ صرف انصاف پر مبنی ہیں بلکہ بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کے بنیادی اصولوں سے بھی مطابقت رکھتے ہیں۔


یہ تحریک پرامن بائیکاٹ کو ایک طاقتور ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ اس بائیکاٹ کا دائرہ کار ان مصنوعات، اداروں، یونیورسٹیوں، ثقافتی پروگراموں، اسپورٹس ایونٹس اور سرمایہ کاری منصوبوں تک پھیلتا ہے جو اسرائیل کو سپورٹ کرتے ہیں یا اس کے قبضے کو مضبوط بنانے میں کردار ادا کرتے ہیں۔ Coca-Cola، HP، McDonald’s، Starbucks، Intel، Puma، Caterpillar، اور Nestlé جیسی درجنوں کمپنیاں یا تو اسرائیل کی فوجی سرگرمیوں میں سرمایہ لگاتی ہیں، یا مقبوضہ علاقوں میں غیرقانونی یہودی بستیوں کی تعمیر میں ملوث ہیں۔ BDS ان کمپنیوں کے بائیکاٹ کی عوامی مہم چلاتی ہے، تاکہ اسرائیل کو اس کے جرائم کی قیمت چکانی پڑے۔ اسی تناظر میں مرکز تحفظ اسلام ہند نے سن 2024ء میں ایک نہایت اہم تحقیقی رپورٹ شائع کی، جس میں اسرائیلی مصنوعات اور ان سے وابستہ معاون عالمی و مقامی کمپنیوں کی تفصیلی فہرست پیش کی گئی۔ اس رپورٹ میں امت مسلمہ اور انصاف پسند شہریوں سے ان مصنوعات کے بائیکاٹ کی پُرزور اپیل شامل ہے۔ ملک بھر میں اس رپورٹ کو عوامی سطح پر بے حد سراہا گیا، اور بائیکاٹ کی مہم کو تقویت ملی۔ مرکز کی یہ علمی و تحریکی کاوش درحقیقت عالمی BDS تحریک کی ہم آہنگی اور اس کے اصولوں کا عملی تسلسل ہے، جو فلسطین کی حمایت اور صہیونی استعمار کی مزاحمت کا ایک مضبوط اور سنجیدہ قدم ثابت ہوئی۔


بی ڈی ایس تحریک کی کامیابیاں قابلِ ذکر ہیں۔ دنیا بھر میں کئی بڑی یونیورسٹیوں نے اسرائیلی کمپنیوں سے سرمایہ نکالنے کا اعلان کیا۔ جنوبی افریقہ، آئرلینڈ، ملائیشیا، اور چلی جیسے ممالک میں عوامی دباؤ کے نتیجے میں کئی اداروں نے اسرائیلی مصنوعات پر پابندیاں عائد کیں۔ عالمی شہرت یافتہ موسیقاروں، مصنفین، فنکاروں اور کھلاڑیوں نے اسرائیلی حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کے اشتراک سے انکار کر دیا۔ یہاں تک کہ بعض اسرائیلی دانشوروں اور یہودی انسان دوست حلقوں نے بھی BDS کی حمایت کی۔ اس تحریک کی اخلاقی طاقت نے اسرائیل کو عالمی سطح پر تنہا کرنے میں اہم کردار ادا کیا، حتیٰ کہ اسرائیلی حکومت نے BDS کے خلاف عالمی سطح پر تشہیری مہم شروع کر دی اور بعض ممالک میں اس پر پابندی لگوانے کی کوشش کی۔ یہ سب کچھ اس بات کی علامت ہے کہ BDS ایک کامیاب اور مؤثر تحریک ہے۔ جو آج بھی پوری قوت، مؤثر اور زندہ دلی کے ساتھ عالمی سطح پر جاری و ساری ہے۔ اگر ہم تازہ ترین رپورٹس پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوگا کہ جنوری 2025 میں City University of New York (CUNY) کی پروفیسرز یونین نے اسرائیلی کمپنیوں اور حکومتی بانڈز سے مکمل سرمایہ نکالنے کا اعلان کیا، جو 2026 تک مکمل ہوگا۔ دنیا بھر میں طلبہ، اساتذہ، اور انسانی حقوق کے علمبردار تعلیمی اداروں، پنشن فنڈز، اور سرمایہ کاری کمپنیوں سے اسرائیل کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات منقطع کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ Trinity College Dublin، University of Amsterdam، UC Berkeley، اور Stanford جیسے ادارے اس جدوجہد کا حصہ ہیں، جہاں قراردادیں پاس ہو چکی ہیں، بھوک ہڑتالیں ہوئیں، اور اسرائیلی اداروں سے تعلقات پر پابندیاں عائد کی گئیں۔ ثقافتی محاذ پر BDS کے دباؤ سے بڑے میوزک فیسٹیولز اور کھیلوں کے مقابلے اسرائیلی شراکت داری سے دور ہو رہے ہیں۔ امریکہ میں BDS کے خلاف 38 ریاستوں نے قانون سازی کی ہے، مگر اس کے باوجود طلبہ اور یونیورسٹی یونینز کی مزاحمت جاری ہے۔ 2025ء میں Protect Economic and Academic Freedom Act جیسے قوانین BDS کے خلاف لائے گئے، مگر اس تحریک کے اثرات Harvard، Yale، Georgetown، اور NYU جیسے اداروں کے سرمایہ نکالنے کے فیصلوں کی صورت میں نظر آ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ نیویارک سٹی نے اسرائیلی بانڈز میں اپنی سرکاری سرمایہ کاری تقریباً مکمل طور پر ختم کر دی۔ یہ تمام حقائق اس بات کا ثبوت ہیں کہ BDS تحریک نہ صرف زندہ ہے بلکہ دن بہ دن عالمی سطح پر مضبوط تر ہو رہی ہے، اور تعلیم، ثقافت، معیشت اور سیاست جیسے شعبوں میں فلسطینی کاز کے حق میں ایک موثر آواز بنتی جا رہی ہے۔


یہ تحریک نہ صرف فلسطینی عوام کی آواز ہے بلکہ ظلم کے خلاف ہر مظلوم قوم کی علامت بن چکی ہے۔ اس تحریک نے دنیا کو یاد دلایا کہ طاقت صرف فوجی ہتھیاروں میں نہیں بلکہ عوامی بیداری، معاشی دباؤ اور اخلاقی سچائی میں بھی ہوتی ہے۔ BDS نے دنیا کے نوجوانوں کو متحرک کیا، تعلیمی اداروں کو بیدار کیا، اور عام انسانوں کو احساس دلایا کہ ان کا روزمرہ کا ایک چھوٹا سا قدم مثلاً کسی اسرائیلی مصنوعات کا نہ خریدنا بھی عالمی انصاف کی طرف ایک بڑا قدم ہو سکتا ہے۔ اس تحریک نے ایک عام شہری کو ایک عالمی مجاہد میں بدل دیا، جس کا میدان جنگ اس کا بٹوہ، اس کی زبان، اس کی سوشل میڈیا پوسٹ اور اس کا شعور بن گیا۔ BDS کی موجودہ اہمیت اس وقت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ اسرائیل غزہ میں انسانیت کو روند رہا ہے، ہزاروں بچوں، عورتوں اور معصوم شہریوں کو بمباری سے شہید کیا جا رہا ہے، ہسپتالوں، اسکولوں اور مساجد کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا جا رہا ہے، اور دنیا کی بڑی طاقتیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے بے بسی کا شکار ہیں، اور عالمی میڈیا اسرائیلی ظلم کو چھپاتا اور فلسطینی مزاحمت کو دہشت گردی کے طور پر پیش کرتا ہے۔ ایسے حالات میں BDS ایک مظلوم کی آخری عالمی صدا ہے جو ہر زندہ ضمیر تک پہنچنا چاہتی ہے۔


اسلامی نقطہ نظر سے بھی BDS ایک نہایت جائز اور ضروری اقدام ہے۔ جب کسی مسلمان پر ظلم ہو، تو شریعت ہمیں حکم دیتی ہے کہ ظالم کا ہاتھ روکو، مظلوم کی مدد کرو، کم از کم دل سے برا جانو۔ BDS تحریک دل کی برائی کو زبان، عمل اور شعور میں بدلتی ہے۔ یہ بائیکاٹ صرف معاشی نہیں، ایک دینی غیرت، ملی حمیت اور انسانی ضمیر کا اعلان ہے۔ یہ کہنا کہ ”ہم ظالم کو سپورٹ نہیں کریں گے“ ایک اسلامی اصول ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ”ظالم کی بھی مدد کرو، چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم“۔ صحابہؓ نے پوچھا کہ ظالم کی مدد کیسے؟ آپؐ نے فرمایا: ”اسے ظلم سے روکو، یہی اس کی مدد ہے“۔ بی ڈی ایس تحریک اسی اصول پر عمل کر رہی ہے۔


افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض مسلم ممالک نے اسرائیل سے تجارتی، سفارتی اور عسکری تعلقات قائم کر لیے ہیں، جو امت مسلمہ کے اجتماعی شعور کے خلاف ہے۔ ایسے وقت میں BDS امت مسلمہ کو جگانے کی ایک صدا ہے کہ اگر تم میں سے ہر کوئی ظالم کے خلاف کھڑا ہو جائے، تو وقت کے فرعون کو بھی گھٹنے ٹیکنے پڑیں گے۔ فلسطین کی سرزمین ہم سے پکار پکار کر کہتی ہے کہ ہم سے مت غافل ہو، ہم پر ظلم ہو رہا ہے، تمہاری خاموشی ہمارے قاتل کی طاقت بن رہی ہے۔ BDS ایک تحریک ہے، ایک دعوت ہے، ایک غیرت ہے، ایک مزاحمت ہے، ایک شعور ہے۔ یہ ایک صدا ہے کہ اگر ظلم کے خلاف کھڑے نہیں ہو سکتے، تو کم از کم ظالم کے ساتھ کھڑے نہ ہو۔ اگر جنگ کے میدان میں نہیں جا سکتے، تو اپنے بٹوے، اپنے بازار، اور اپنی زبان کو ایک ہتھیار بنا دو۔ اگر تم صرف ایک Coca-Cola کی بوتل سے ہاتھ کھینچ لو، تو یہ بھی ایک مزاحمت ہے۔ اگر تم اپنے اسکول، اپنی یونیورسٹی، اپنے دفتر، اپنی مسجد میں فلسطین کا تذکرہ کرتے ہو، BDS کا شعور دیتے ہو، تو یہ بھی ایک جہاد ہے۔

وقت آ گیا ہے کہ BDS کو محض ایک تحریک نہ سمجھا جائے بلکہ اسے ایک عالمی فریضہ سمجھا جائے۔ یہ ایک امت کی اجتماعی آواز ہے جو ظلم، قبضے، اور نسل پرستی کے خلاف صف آرا ہے۔ یہ تحریک اس وقت تک جاری رہے گی جب تک اسرائیل غاصب قبضے سے دستبردار نہیں ہوتا، فلسطینیوں کو ان کے حقوق نہیں دیے جاتے، اور مظلوم انسانیت کو انصاف نہیں ملتا۔ اور جب تک دنیا کے کسی بھی کونے میں کوئی ظالم باقی ہے، BDS جیسے پرامن اور مؤثر ہتھیار باقی رہیں گے، کیونکہ ظلم کے خلاف مزاحمت ہی انسانیت کی بقاء کی ضامن ہے۔ اگر BDS کے اس پیغام کو دنیا بھر کے مسلمان، انصاف پسند اور انسانی حقوق کے علمبردار قبول کر لیں تو ایک دن ضرور آئے گا جب القدس آزاد ہوگا، فلسطین کے بچے ہنسی کھیلیں گے، اور ظالم اسرائیلی حکومت کو اپنے ظلم کا حساب دینا پڑے گا۔ یہی BDS کا خواب ہے، اور یہی ہر زندہ انسان کا خواب ہونا چاہیے۔


فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

04؍ اگست 2025ء بروز پیر


#Palestine | #Gaza | #BDSMovement | #BoycottIsraelProducts | #IsraelProducts | #PaighameFurqan | #MTIH #TIMS

Thursday, 31 July 2025

فریادِ اقصیٰ، آہِ فلسطین اور ضمیرِ امت کا امتحان!

 فریادِ اقصیٰ، آہِ فلسطین اور ضمیرِ امت کا امتحان!

✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

فلسطین وہ سرزمین ہے جہاں انبیاء علیہ السلام نے قدم رکھے، وہ مقدس خطہ جہاں اللہ کے محبوبوں کی صدائیں گونجتی تھیں، جہاں آسمانوں کی طرف معراج کا سفر شروع ہوا، جہاں بیت المقدس کے در و دیوار نے رسول اللہ ﷺ کی امامت دیکھی۔ وہی فلسطین آج خون میں نہایا ہوا ہے، وہی القدس آج صیہونی جارحیت کی بھینٹ چڑھا ہوا ہے، وہی اقصیٰ آج اُمت کے غفلت آلود سکوت پر نوحہ کناں ہے۔ یہ مسئلہ صرف کسی قوم یا قبیلے کا مسئلہ نہیں، یہ کسی جغرافیائی یا نسلی نزاع کا معاملہ نہیں، بلکہ یہ اُمت مسلمہ کی روحانی، دینی، اور ایمانی غیرت کا مسئلہ ہے۔ یہ وہ درد ہے جسے ہر مومن کو اپنے سینے میں محسوس کرنا چاہیے، یہ وہ زخم ہے جو چودہ سو سالہ تاریخِ اسلام کے قلب پر لگا ہے۔ یہ وہ صدا ہے جو ارضِ اقصیٰ سے اٹھتی ہے اور ہر باضمیر مسلمان کے دل کو چیر دیتی ہے۔


فلسطین کی اہمیت محض اس کی جغرافیائی حیثیت میں نہیں، بلکہ یہ وہ سرزمین ہے جسے قرآن نے مبارک کہا، جسے رسول اللہ ﷺ نے اپنے خوابوں کی وادی قرار دیا، جسے صحابہؓ نے اپنی جانوں سے سینچا، جس پر سیدنا فاروق اعظم ؓنے فتح کے بعد عدل کا جھنڈا گاڑا، اور جس کے باسیوں کو نبی کریم ﷺ نے اپنا بھائی قرار دیا۔ بیت المقدس وہ قبلہ اول ہے جس کی طرف رخ کرکے صحابہؓ نے برسوں نماز ادا کی، وہی مسجد ہے جہاں ایک ہی وقت میں تمام انبیاء نے اللہ کے آخری نبی کے پیچھے نماز پڑھی، وہی جگہ ہے جہاں سے حضوراکرم ﷺ نے آسمانوں کا سفر کیا، اور وہی جگہ ہے جو قیامت کے قریب دجال اور امام مہدیؑ کے درمیان آخری معرکہ کی گواہ بنے گی۔


فلسطین کی سرزمین پر آج جو ظلم ہو رہا ہے، وہ تاریخ کا سب سے بھیانک باب ہے۔ لاکھوں بچے یتیم ہو چکے، ہزاروں عورتیں بیوہ ہو گئیں، مساجد کھنڈر بنادی گئیں، قرآن کے اوراق جلا دیے گئے، اسپتالوں پر بم برسائے گئے، اسکولوں میں بارود بھرا گیا، حتیٰ کہ وہ نومولود جنہوں نے ابھی دنیا کی ہوا تک نہ چھوئی، انہیں بھی میزائلوں نے آغوشِ اجل میں پہنچا دیا۔ یہ ظلم محض انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں، یہ انسانیت کے چہرے پر طمانچہ ہے، یہ تہذیبِ مغرب کا اصل چہرہ ہے، یہ اقوام متحدہ، عالمی عدالت انصاف، اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی مکمل منافقت کا عکاس ہے۔ ایک طرف غزہ کی گلیوں میں بچوں کے ٹکڑے بکھرے ہیں، دوسری طرف امریکہ و اسرائیل ہتھیاروں کے سودے کررہے ہیں۔ ایک طرف فلسطینی مائیں اپنے معصوم بچوں کی لاشیں گود میں لیے بین کررہی ہیں، تو دوسری طرف یورپی اقوام اسرائیلی جارحیت کو ”دفاعی کارروائی“ قرار دے کر عالمی رائے عامہ کو گمراہ کررہی ہیں۔ اقصیٰ کے منبر پر اذان دینے والے شہید کردیے گئے، قرآن سنانے والوں کے سینے چھلنی کردیے گئے، اور پوری دنیا… بالخصوص 57 اسلامی ممالک… صرف مذمتی بیانات، علامتی اجلاس، اور خاموش دعاؤں تک محدود ہیں۔


کیا یہ امت محمد ﷺ کی غیرت کا مظہر ہے؟ کیا یہ اُمت جو ایک جسم کی مانند کہلائی، وہ اپنے ہی جسم کے ایک عضو کے زخم پر خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے؟ کیا یہ وہی امت ہے جس کے لیے نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ اگر تم نے ایک مظلوم مسلمان کی مدد نہ کی، تو اللہ تمہیں بھی بے یار و مددگار چھوڑ دے گا؟۔فلسطین آج صرف فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں، یہ پوری اُمت کا مسئلہ ہے، یہ ہماری ایمانی بقا، دینی غیرت، اور نبوی نسبت کا امتحان ہے۔ اگر آج ہم اقصیٰ کے حق میں نہ اٹھے، اگر آج ہم نے فلسطینیوں کی صداؤں پر لبیک نہ کہا، اگر آج ہم نے اپنی زبان، قلم، دل، اور وجود کو اس میں شریک نہ کیا، تو کل جب ہم رسول اللہ ﷺ کے سامنے کھڑے ہوں گے، تب ہم کس منہ سے کہیں گے کہ ہم آپ کی امت ہیں؟


ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ فلسطین کا دفاع محض عسکری یا سیاسی مسئلہ نہیں، یہ ایمان کا تقاضا ہے۔ جس طرح ہم اپنے گھر کی دیوار کے ایک پتھر کو بھی غیروں کے قبضے میں نہیں جانے دیتے، اسی طرح بیت المقدس… جو ہمارا قبلہ اول ہے… وہ صرف فلسطینیوں کی ذمہ داری نہیں، بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی مشترکہ وراثت ہے، اور اس کا تحفظ ہم سب کا فریضہ ہے۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی صفوں کو درست کریں، اپنی ترجیحات کو بدلیں، اپنے دلوں میں فلسطین کے لیے درد پیدا کریں، اور ہر محاذ پر؛ چاہے وہ میڈیا ہو، معیشت ہو، سیاست ہو یا سفارت؛ فلسطین کے لیے ایک سیسہ پلائی دیوار بن جائیں۔ ہمیں اسرائیلی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کرنا چاہیے، ان کمپنیوں کا محاسبہ کرنا چاہیے جو صیہونی جرائم میں شریک ہیں، ہمیں اپنی حکومتوں پر دباؤ بنانا چاہیے کہ وہ محض مذمتی بیانات پر اکتفا نہ کریں بلکہ عملی اقدامات کریں۔ہماری مساجد، ہمارے مدارس، ہمارے اسکول، ہمارے میڈیا، ہماری تحریریں، ہماری تقریریں، ہر ہر چیز کو فلسطین کا ترجمان بننا چاہیے۔ ہمیں امت کو بیدار کرنا ہوگا، دلوں میں ایمان کی حرارت جگانی ہوگی، نوجوانوں میں بیداری کی روح پھونکنی ہوگی، اور ظالموں کو یہ باور کرانا ہوگا کہ امتِ محمدیہ مر نہیں گئی، بلکہ وہ لمحہ قریب ہے جب یہ امت اپنا کھویا ہوا وقار واپس لے گی۔


یاد رکھیے! اقصیٰ کا مسئلہ صرف فلسطینی ماں کے بیٹے کا مسئلہ نہیں، یہ آپ کے بیٹے کا مسئلہ بھی ہے، یہ آپ کی بیٹی کے حجاب کا مسئلہ بھی ہے، یہ آپ کے ایمان کا مسئلہ بھی ہے۔ اگر آج ہم نے فلسطین کو تنہا چھوڑ دیا، تو کل ہماری گلیوں میں بھی یہی ظلم دہرایا جائے گا۔آج مسجد اقصیٰ پکار رہا ہے، غزہ چیخ رہا ہے، اور مظلوم بچوں کے لاشے ہم سے سوال کر رہے ہیں کہ کہاں ہے وہ امت جس کے نبی ﷺ نے فرمایا تھا: ”مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں“؟ کہاں ہے وہ غیرت جو بدر و اُحد کے میدانوں میں گونجی تھی؟ کہاں ہیں وہ آنسو جو مظلوموں کے لیے بہا کرتے تھے؟ کہاں گیا وہ جذبہ جو کربلا میں یزید کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن گیا تھا؟ اے امت مسلمہ! اُٹھ جا، ابھی وقت ہے، اب بھی جاگ جائے تو اقصیٰ بچ سکتا ہے، اگر تُو نے صدائے حق بلند کی تو ظلم کے ایوان لرز سکتے ہیں، اگر تُو نے فلسطینی بچوں کی چیخوں کو اپنی صدا بنا لیا تو پھر اقصیٰ کے منبر سے اذان کی گونج سنائی دے سکتی ہے، ورنہ یاد رکھ، تاریخ خاموش نہیں رہتی، کل یہی فلسطین تمہیں یاد کرے گا اور کہے گا: ”تم ہمارے اپنے تھے، مگر تم نے ہمیں یتیموں کی طرح تنہا چھوڑ دیا!“۔ اگر تیرے ہاتھ میں قلم ہے تو اسے فلسطین کا سفیر بنا، اگر تیری زبان میں اثر ہے تو اس سے فلسطین کی آہ کو دنیا تک پہنچا، اگر تیرے پاس دولت ہے تو اسے مظلوموں کی مدد میں خرچ کر، اگر تیرے پاس اثر و رسوخ ہے تو اسے اسرائیلی بائیکاٹ کے لیے استعمال کر، اور اگر تیرے پاس صرف دعا ہے تو اسے آنسوؤں اور سچائی سے بھر دے تاکہ وہ عرشِ الٰہی تک جا پہنچے؛ ورنہ جب قیامت کے دن ایمان کا سوال ہوگا، تو فلسطین کی چیخ تیرے جواب کے بیچ گونجے گی، اور بیت المقدس کی دیواریں گواہی دیں گی: ”یہ وہ لوگ تھے… جو امت کے زخموں پر پھول چڑھاتے رہے!“

اٹھ باندھ کمر مرد مجاہد کا جگر لے

مومن ہے تو پھر مسجد اقصیٰ کی خبر لے


فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

31 جولائی 2025ء بروز جمعرات


8495087865

mdfurqan7865@gmail.com


#Palestine | #Gaza | #Israel | #PahalgamTerroristAttack | #FREEPalestine | #PaighameFurqan | #MTIH | #TIMS


Monday, 28 July 2025

مرکز تحفظ اسلام ہند کی پوری ملت اسلامیہ سے مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھنے کی اپیل!

 مرکز تحفظ اسلام ہند کی پوری ملت اسلامیہ سے مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھنے کی اپیل!


فلسطین اور غزہ پر اسرائیلی ظلم کے خلاف عالمی دباؤ اور امت مسلمہ کی بیداری وقت کا اہم تقاضا: محمد فرقان


بنگلور، 28؍ جولائی (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند موجودہ فلسطینی بحران، بالخصوص غزہ میں اسرائیلی جارحیت، خونریزی، انسانی حقوق کی پامالی، بچوں، عورتوں اور معصوم شہریوں کے قتل عام اور انسانیت سوز مظالم پر شدید رنج، غم اور اضطراب کا اظہار کرتا ہے۔ مرکز تحفظ اسلام ہند کے اراکین کی ایک اہم مشاورتی اجلاس میں مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے مسئلہ فلسطین پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نہتے فلسطینی عوام پر جاری اسرائیلی بمباری، محاصرہ، غذائی و طبی ناکہ بندی، اسپتالوں اور پناہ گاہوں پر حملے صرف ایک علاقائی مسئلہ نہیں بلکہ پوری انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑ دینے والا سانحہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ امر نہایت افسوسناک ہے کہ جب پوری دنیا کی آنکھوں کے سامنے ظلم ہو رہا ہے، تب 57؍ اسلامی ممالک کی خاموشی اور عالمی اداروں کی مجرمانہ بے حسی اس ظلم کی خاموش معاون بنتی جا رہی ہے۔ محمد فرقان نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین کو امت مسلمہ کے دلوں میں زندہ رکھا جائے۔ یہ محض وقتی جذباتی ردعمل کا نہیں، بلکہ ایک طویل المدت، مربوط، مسلسل، منظم اور مؤثر جدوجہد کا تقاضا ہے تاکہ یہ مسئلہ عالمی منظرنامے سے اوجھل نہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ مساجد، مدارس، جامعات، دینی اداروں، جلسے جلوس اور عوامی پلیٹ فارمز پر فلسطین سے متعلق بیداری مہمات کا آغاز کیا جانا چاہیے، جمعہ کے خطبات میں مظلوم فلسطینیوں کی تکالیف کو امت کے سامنے رکھا جائے، اور خاص طور پر سوشل میڈیا پر ایک عالمی کیمپین چلائی جائے جو عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ دے۔ اسی کے ساتھ رجوع الی اللہ، آیت کریمہ کا ورد اور دعائیہ مجلسوں کا اہتمام بھی کیا جانا چاہیے تاکہ روحانی سطح پر بھی نصرتِ الٰہی کی امید بندھی رہے۔

محمد فرقان نے کہا کہ مرکز تحفظ اسلام ہند اسلامی ممالک سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ مشترکہ مؤقف اختیار کریں اور اقوام متحدہ، او آئی سی اور دیگر بین الاقوامی اداروں پر مؤثر دباؤ ڈالیں تاکہ سفارتی، سیاسی، اقتصادی اور قانونی سطح پر اسرائیل کو روکا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ بیت المقدس صرف فلسطینیوں کا نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کا مرکز و محور ہے۔ قبلہ اول کے تحفظ، اس کی آزادی اور اس پر جاری حملوں کی مذمت ہر مسلمان کی دینی و ایمانی ذمہ داری ہے۔ اس کے فضائل، تاریخی حیثیت اور مرکزیت کو امت میں عام کیا جانا چاہیے تاکہ نوجوان نسل اپنے قبلہ اول سے جڑ سکے۔

انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ فلسطین کے مظلوموں کی حمایت صرف جذباتی نعرہ نہ بنے بلکہ امت اس مسئلہ کو دل سے اپنائے۔ علمی، فکری، تنظیمی اور عملی سطح پر اس کے لیے اقدامات کیے جائیں، دیگر دینی و ملی تنظیموں سے اشتراک عمل کیا جائے، مشترکہ موقف سامنے لایا جائے، عالمی میڈیا میں اسرائیل کے ظلم کو بے نقاب کیا جائے، سوشل میڈیا کو آوازِ مظلوم بنانے کا ذریعہ بنایا جائے، اور ہر ہر پلیٹ فارم سے اس مظلوم ملت کے ساتھ کھڑے ہونے کا عملی مظاہرہ کیا جائے۔

آخر میں مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی جانب سے امت مسلمہ سے دردمندانہ اپیل کی کہ فلسطینی عوام کی حمایت کو اپنی ذمہ داری سمجھا جائے، اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کو ایمان کا تقاضا جانا جائے، مظلوموں کی عملی امداد اور پشتیبانی کو اپنا فریضہ بنایا جائے، اور صرف دعاؤں پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ دعاؤں کے ساتھ ساتھ ظلم کو روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ مرکز تحفظ اسلام ہند ان شاء اللہ مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھنے، فلسطینی مظلومین کی حمایت اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے ہر ممکن پیش رفت کرتا رہے گا۔

قابل ذکر ہے کہ اس مشاورتی اجلاس میں مرکز کے سابقہ اور حالیہ کاموں کا جامع جائزہ لیا گیا، بالخصوص تحریک تحفظ ختم نبوت ؐ، تحریک دفاعِ صحابہؓ، وقف بچاؤ دستور بچاؤ تحریک، اور ارتداد ی و الحادی فتنوں خصوصاً ایکس کے فتنے کے سلسلے میں جاری مساعی پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ اسی کے ساتھ مرکز تحفظ اسلام ہند کے سالانہ مشاورتی اجلاس کے انعقاد کے حوالے سے اہم فیصلے بھی کیے گئے، جنہیں عملی جامہ پہنانے میں کے لیے تمام اراکین مرکز نے پختہ عزم و اتحاد کا اظہار کیا۔ اس موقع پر مرکز تحفظ اسلام ہند کے عہدیداران بالخصوص آرگنائزر حافظ محمد حیات خان، خازن قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی، اراکین تاسیسی مولانا محمد نظام الدین مظاہری، عمیر الدین، اراکین شوریٰ مولانا اسرار احمد قاسمی، مولانا سید ایوب قاسمی، مولانا محمود الرحمن قاسمی، حافظ سمیع اللہ، قاری محمد عمران، انعامدار خضر علی، دیگر اراکین مفتی مختار احمد قاسمی، مولانا اسعد بستوی، سید توصیف، شبیر احمد، شبلی محمد اجمعین، شیخ عدنان احمد، حفظ اللہ، محمد فرحان خان، محمد کیف، تبریز عالم، مولانا بلال احمد اور مختلف شعبہ جات کے کنوینرز اور دیگر ذمہ داران کی ایک بڑی تعداد اجلاس میں شریک رہی۔ اجلاس کا آغاز مولانا اسرار احمد قاسمی کی تلاوت سے ہوا،مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے اجلاس کی صدارت فرمائی اور دعا ئیہ کلمات پرمرکز تحفظ اسلام ہند کا یہ اہم آن لائن مشاورتی اجلاس اختتام پذیر ہوا۔


#Palestine | #Gaza | #Alquds | #Israel | #PressRelease | #MTIH | #TIMS

اسلامی نکاح پر اعتراضات کا علمی و عقلی تجزیہ!

 اسلامی نکاح پر اعتراضات کا علمی و عقلی تجزیہ! 

✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

اسلامی تعلیمات کی روشنی میں نکاح محض ایک سماجی معاہدہ نہیں بلکہ ایک مقدس بندھن، عبادت، فطرت کی تکمیل اور روحانی پاکیزگی کا ذریعہ ہے۔ یہ محض دو افراد کا ملاپ نہیں، بلکہ دو خاندانوں، دو نسلوں، اور دو دلوں کا باوقار، باہمی فہم و تعاون پر مبنی تعلق ہے۔ لیکن جدید دور میں جب عقل کو مذہب سے کاٹ دیا گیا، اور خواہشات کو آزادی کا لباس پہنا دیا گیا، تو بہت سے لوگ خصوصاً وہ جو الحاد یا مذہب بیزاری کی طرف مائل ہو گئے، اسلامی نکاح کے اصولوں پر اعتراضات کرنے لگے۔ ان میں بعض ایکس مسلم کہلائے جانے والے بھی ہیں، جو یا تو جذباتی یا فکری الجھن کا شکار ہوئے، یا مغربی پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر دین اسلام پر سوالات اٹھانے لگے۔ ان اعتراضات کا مقصد بظاہر بعض اوقات حق کی تلاش ہوتا ہے، تو بعض اوقات صرف مخالفت برائے مخالفت۔ لیکن اسلام سچائی کا دین ہے۔ یہ نہ اندھی تقلید سکھاتا ہے، نہ اندھا انکار۔ یہ دلیل، فطرت اور وحی کا حسین امتزاج ہے۔ اس لیے ہم ان اعتراضات کو سنجیدگی سے لیتے ہیں، اور ان کے جوابات بھی اسی سنجیدگی، محبت اور دلائل کے ساتھ دیتے ہیں۔


پہلا اعتراض جو اکثر کیا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ اسلام میں مرد کو عورت پر فوقیت دی گئی ہے، اور نکاح میں بھی مرد حاکم اور عورت محکوم ہے۔ حالانکہ یہ دعویٰ حقیقت سے کوسوں دور ہے۔ قرآن کہتا ہے: "وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ"* یعنی "عورتوں کے ساتھ حسن سلوک سے رہو۔" (النساء: 19)۔ اس ایک جملے میں اسلام کے خاندانی نظام کی بنیاد پوشیدہ ہے؛ حسن سلوک، محبت، مہربانی اور انصاف۔ اسلام نے مرد کو قوام ضرور بنایا، لیکن اس لیے نہیں کہ وہ عورت پر ظلم کرے، بلکہ اس لیے کہ وہ اس کی حفاظت، کفالت اور رہنمائی کرے۔ قوامیت، حاکمیت نہیں بلکہ خدمت کی ذمہ داری ہے، جیسا کہ ایک ملاح اپنے جہاز کو سنبھالتا ہے، نہ کہ اسے تباہ کرتا ہے۔


پھر سوال کیا جاتا ہے کہ اسلام میں مرد کو چار شادیاں کیوں جائز ہیں جبکہ عورت کو نہیں؟ اور یہ باور کرایا جاتا ہے کہ یہ غیر مساوات ہے، مگر درحقیقت یہ ایک فطری، سماجی اور نفسیاتی حکمت پر مبنی اصول ہے۔ مرد اور عورت کی حیاتیاتی ساخت (Biological Structure)، تولیدی صلاحیت (Fertility)، جذباتی مزاج (Emotional temperament)، اور سماجی کردار (Social Role) یکساں نہیں۔ ایک عورت صرف ایک وقت میں ایک ہی مرد سے حاملہ ہو سکتی ہے، اور بچہ پیدا ہونے کے بعد کئی ماہ و سال تک ماں کی شدید توجہ اور پرورش کا محتاج ہوتا ہے۔ اس دوران ماں کا تعلق اور ذمہ داری ایک شوہر اور بچے تک محدود ہوتی ہے۔ برخلاف اس کے، مرد کی تولیدی صلاحیت مسلسل جاری رہتی ہے، اور وہ بیک وقت کئی بیویوں اور بچوں کی کفالت کر سکتا ہے بشرطیکہ وہ عدل کرے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے چار شادیوں کی اجازت مشروط کی: "فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً" (النساء: 3) یعنی "اگر عدل نہ کر سکو تو ایک ہی پر اکتفا کرو۔" یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ معاشرے میں بیواؤں، مطلقہ خواتین، یا غیر شادی شدہ خواتین کی تعداد بعض اوقات مردوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے، خاص کر جنگوں، قدرتی آفات یا سماجی عوامل کے بعد۔ اس وقت تعددِ ازوجات ان خواتین کے لیے ایک باعزت زندگی کی ضمانت بن جاتا ہے۔ جس معاشرے نے اس کو رد کیا، وہاں یا تو خواتین "live-in relationships" کا شکار ہوئیں، یا بازاروں کی زینت بن گئیں۔


ایک اور اعتراض اکثر سننے کو ملتا ہے کہ اسلامی نکاح میں عورت کی مرضی کو ثانوی حیثیت دی گئی ہے، اور ولی کا کردار زبردستی مسلط کیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ ایک بنیادی غلط فہمی ہے۔ اسلام عورت کی مرضی کے بغیر نکاح کو باطل قرار دیتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "بیوہ عورت کی شادی بغیر اس کی اجازت کے نہ کی جائے، اور کنواری سے اجازت لی جائے، اور اس کی خاموشی (انکار نہ کرے) اس کی اجازت ہے۔" (صحیح مسلم)۔ ولی کا کردار عورت کی حفاظت کے لیے ہے، نہ کہ اس کی آزادی کو سلب کرنے کے لیے۔ ولی اس وقت تک مداخلت کرتا ہے جب لڑکی کوئی غیر معقول فیصلہ کرے، یا جذبات میں آکر اپنے یا خاندان کے لیے نقصان دہ قدم اٹھائے۔ عقلی اعتبار سے بھی دیکھیں تو شادی جیسا اہم فیصلہ جس کا اثر پوری زندگی، نسل اور معاشرت پر پڑتا ہے، محض ایک فرد کا ذاتی فیصلہ نہیں ہو سکتا، خاص کر جب وہ فرد تجربے یا فہم سے عاری ہو۔ ایک بالغ، باشعور لڑکی جسے زندگی کا تجربہ ہے، اگر وہ خود فیصلہ کرے تو شریعت اس پر سختی نہیں کرتی، بلکہ اس کے ولی کو اس کی رائے کا احترام لازم ہے۔


کچھ لوگ اسلامی مہر پر بھی اعتراض کرتے ہیں، کہ یہ گویا عورت کی قیمت ہے۔ لیکن دراصل مہر عورت کا "حق" ہے، قیمت نہیں۔ قیمت وہ ہوتی ہے جو مالک کو ملتی ہے، جبکہ مہر عورت خود وصول کرتی ہے، یہ اس کے احترام، تحفظ، اور اس رشتے کی سنجیدگی کا نشان ہے۔ قرآن نے فرمایا: "وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً" یعنی "عورتوں کو ان کا مہر خوش دلی سے ادا کرو۔" (سورۃ النساء: 4)۔ حیرت کی بات ہے کہ جو لوگ تحفے تحائف، ڈیٹ، رِنگ، اور سفر پر لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں، وہ نکاح کے وقت مہر پر سوال اٹھاتے ہیں، حالانکہ مہر عورت کی مالی آزادی اور خودمختاری کی علامت ہے۔


اسی طرح بعض افراد کو یہ اعتراض ہوتا ہے کہ طلاق کا اختیار مرد کو ہے، عورت کو نہیں۔ حالانکہ اسلام میں عورت کو بھی مکمل حق دیا گیا ہے؛ خلع، عدالتی فسخ اور اس کے کئی طریقے موجود ہیں۔ مرد کو طلاق کا حق فوری طور پر اس لیے دیا گیا کہ وہ مالی و قانونی ذمہ دار ہے، اور اسے خاندان کے استحکام کو ذہن میں رکھنا ہوتا ہے۔ عورت کے لیے بھی شرعی عدالت کا دروازہ کھلا ہے، تاکہ وہ بغیر عدل و فکر کے محض جذبات میں آکر نکاح نہ توڑے۔ اسلام کی نظر میں طلاق اگرچہ ایک ناگوار اور ناپسندیدہ عمل ہے، لیکن اگر صلح و صفائی کے تمام طریقے ناکام ہو جائیں اور زوجین کے درمیان اعتماد ختم ہو جائے، تو نکاح کو زبردستی برقرار رکھنا ظلم بن جاتا ہے۔ ایسی صورت میں زندگی تنگی، نفرت اور گناہوں کا باعث بن سکتی ہے۔ اسلام میں طلاق ناپسندیدہ ضرور ہے، لیکن مجبوری کی حالت میں اسے جائز قرار دیا گیا ہے تاکہ میاں بیوی سکون کے ساتھ اپنی راہ جدا کر سکیں۔ ایسے حالات میں طلاق ایک رحمت پر مبنی شریعت کا حل ہے، جس سے دونوں کو نئی زندگی شروع کرنے کا موقع ملتا ہے۔


بعض لوگ نکاح میں عمر کی کوئی حد نہ ہونے پر اعتراض کرتے ہیں، اور اسلام پر الزام لگاتے ہیں کہ اس نے بچپن میں شادی کی اجازت دے کر بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی کی ہے، حالانکہ یہ اعتراض دراصل اسلامی نکاح کے صحیح مفہوم سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔ اسلام میں نکاح کو صرف ایک ابتدائی معاہدہ (Contract) تصور کیا گیا ہے، نہ کہ فوراً ازدواجی زندگی کا آغاز۔ اگر کسی کم عمر بچے یا بچی کا نکاح کر بھی دیا جائے تو اس کے عملی تقاضے، جیسے جسمانی تعلق، صرف اس وقت جائز اور نافذ ہوتے ہیں جب وہ بلوغت کو پہنچ کر ذہنی طور پر سمجھدار ہو جائے اور ازدواجی زندگی کی ذمہ داریاں اٹھانے کے قابل ہو۔ یہ اصول دراصل بچوں کے تحفظ اور ان کی فلاح کا ضامن ہے، کیونکہ اسلام کسی پر ایسی ذمہ داری نہیں ڈالتا جو وہ سمجھ اور جسمانی طور پر اٹھانے کے لائق نہ ہو۔ اس طرح اسلامی تعلیمات بچوں کے حقوق کی حفاظت اور ان کی جسمانی و ذہنی صحت کے احترام پر مبنی ہیں، نہ کہ ان کی خلاف ورزی پر۔ دوسری طرف، دنیا بھر کے سیکولر قوانین میں بھی "کم عمری کی شادی" کی تعریف متغیر ہے۔ امریکہ کی کئی ریاستوں میں آج بھی 14–16 سال کی عمر میں والدین کی رضامندی یا عدالتی اجازت کے ساتھ شادی ممکن ہے۔ سچ یہ ہے کہ مسئلہ عمر کا نہیں بلکہ شعور، رضامندی، اور فطرت کی تکمیل کا ہے۔ اسلامی قانون نے انہی اصولوں کو بنیاد بنایا۔ اگر کوئی بالغ، سمجھدار لڑکی خود یا والدین کی رضامندی سے نکاح کرے تو اس پر اعتراض صرف اس لیے کرنا کہ وہ "کم عمر" ہے، ایک تہذیبی تعصب ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کے دور میں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ہزاروں کم سن لڑکے اور لڑکیاں "Boyfriend" اور "Girlfriend" کے نام پر بے حیائی میں مبتلا ہیں، ناجائز تعلقات عام ہیں، اور معاشرہ خاموش تماشائی بنا ہوا ہے، کسی کو اس پر اعتراض نہیں ہوتا۔ لیکن جب اسلام ایک پاکیزہ، ذمہ دار اور باقاعدہ نکاح جیسے مقدس رشتے کے ذریعے زندگی کو نظم و اخلاق کا پابند بناتا ہے، تو اسی پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نکاح انسان کی فطری ضرورت کو عزت، تحفظ، اور شریعت کے دائرے میں پورا کرنے کا ذریعہ ہے، جب کہ آزاد تعلقات معاشرتی بگاڑ، ذہنی تناؤ اور اخلاقی زوال کا سبب بنتے ہیں۔ اسلام کی تعلیمات زندگی کو باحیا اور متوازن رکھنے کے لیے ہیں، نہ کہ کسی کی آزادی کو سلب کرنے کے لیے۔



ایک اور اعتراض یہ ہے کہ نکاح عورت کی آزادی کو محدود کرتا ہے، اسے گھر، شوہر اور بچوں کے دائرے میں قید کر دیتا ہے۔ اس اعتراض کا جواب بہت واضح ہے: جو شخص آزادی کو صرف جسمانی خواہش، بے لگام تعلقات، اور خاندانی ذمہ داری سے انکار کے طور پر سمجھتا ہے، وہ کبھی نکاح کی حکمت کو نہیں سمجھ سکتا۔ اسلام میں نکاح دونوں کے لیے سکون، اطمینان، محبت اور تعاون کا ذریعہ ہے: "وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً" (سورہ الروم: 21)۔ عورت نکاح میں قید نہیں ہوتی، بلکہ وہ تسلیم شدہ، محفوظ، محبت سے بھرپور تعلق میں شامل ہوتی ہے، جہاں اس کے حقوق اور اس کی عزت کی ضمانت دی جاتی ہے۔ اس کے برخلاف جو مغربی معاشرے نے “freedom” کے نام پر "Live-in relationships" اور casual تعلقات کو فروغ دیا، وہاں نہ صرف عورت بلکہ بچے بھی قانونی تحفظ سے محروم ہو گئے۔ سائنسی مطالعات (جیسے CDC USA، Pew Research) بتاتے ہیں کہ live-in تعلقات میں طلاق کی شرح، domestic violence، اور بچوں میں ذہنی پریشانی کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ نکاح ایک قانونی، روحانی اور سماجی معاہدہ ہے، جو نہ صرف جسموں کو، بلکہ دلوں اور خاندانوں کو جوڑتا ہے۔


کچھ لوگ کہتے ہیں کہ نکاح ایک “پرانی روایتی چیز” ہے، جو آج کے جدید، ترقی یافتہ معاشرے کے لیے موزوں نہیں۔ یہ اعتراض بھی دراصل “زمانہ پرستی” (chronological snobbery) کا شکار ہے؛ یعنی ہر نئی چیز اچھی اور ہر پرانی چیز دقیانوسی! لیکن تاریخ شاہد ہے کہ جن معاشروں نے نکاح کو کمزور کیا، وہاں خاندان ٹوٹ گئے، جنسی تعلقات بے اصول ہو گئے، بچے والدین کے بغیر یا سنگل والدین کے ساتھ محرومی میں پلنے لگے، اور خود عورت سب سے زیادہ استحصال کا شکار بنی، خواہ وہ جسم فروشی کی صنعت ہو، یا ورک پلیس پر ہراسانی، یا اکیلی ماں بننے کا درد۔ اس کے برخلاف اسلام نے عورت کو ماں، بیوی، بیٹی، بہن کے ہر روپ میں تحفظ دیا، اور نکاح کو اس تحفظ، عزت، محبت اور سکون کی ضمانت بنایا۔ اسلام نکاح کو شہوت کی تسکین کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک مقدس عبادت قرار دیتا ہے۔ وہ اسے نسلِ انسانی کی بقا، مرد و عورت کی روحانی و جذباتی تکمیل، اور ایک صالح معاشرے کی بنیاد کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اگر اسلام میں بعض حدود مقرر کی گئی ہیں، جیسے مہر، عدل، قوامیت، خلع، طلاق یا تعددِ ازوجات، تو یہ سب انسان کی فطرت، معاشرتی تقاضوں اور انسانی کمزوریوں کو سامنے رکھ کر دی گئی ہیں۔ ان حدود کا مقصد مرد کو برتری دینا نہیں، بلکہ دونوں کے لیے توازن، حفاظت، سکون اور باہمی تعاون فراہم کرنا ہے۔


یہاں ایک اور اہم بات واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ اعتراض کرنے والوں میں بعض sincere اور سوالات کے ذریعے سچ کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ ان کے لیے دعوتِ فکر کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہنا چاہیے۔ ہمیں سختی، طنز یا نفرت کے بجائے محبت، دلائل اور حکمت سے بات کرنی چاہیے، کیونکہ قرآن خود کہتا ہے: "ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ" (النحل: 125) یعنی "اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت سے بلاؤ۔" اگر کوئی شخص اسلام میں نکاح کے اصولوں کو "پسماندہ" یا "ظالمانہ" سمجھتا ہے تو اسے دعوت ہے کہ وہ صرف اعتراض نہ کرے، بلکہ قرآن، سنت، اور فطری عقل کے ساتھ اس نظام کو سمجھے، اس کی حکمت کو دیکھے، اس کے نتائج کو دوسروں نظاموں سے تقابل کرے۔ ان شاء اللہ، جس دل میں انصاف کی طلب ہوگی، وہ دل اس نظام کے حسن کے آگے جھک جائے گا۔ ہم سب کی یہ ذمہ داری ہے کہ ہم اسلام کے خاندانی نظام کو صرف زبانی نہ بیان کریں، بلکہ خود اپنی زندگیوں میں نکاح کو واقعی محبت، سکون، حسنِ سلوک، عدل، اور وفاداری کا نمونہ بنائیں۔ تب ہی ہم سچائی کے علمبردار بن کر دنیا کو دکھا سکیں گے کہ اسلام نہ صرف عبادت، عقیدہ اور روحانیت کا دین ہے، بلکہ انسانی تعلقات، ازدواجی زندگی، اور معاشرتی استحکام کا بھی کامل نظام ہے۔


فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

03؍ جولائی 2025ء بروز جمعرات


+91 8495087865

mdfurqan7865@gmail.com


#Nikah #Marriage #IslamicNikah #IslamicMarriage #PaighameFurqan #MTIH #TIMS

Saturday, 26 July 2025

اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ، غیرتِ ایمانی کا امتحان ہے!

 اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ : غیرتِ ایمانی کا امتحان ہے! 

✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند) 

یقیناً کچھ لمحے ایسے آتے ہیں جب انسانیت چیخ اُٹھتی ہے، جب ضمیر دہاڑتا ہے، جب دل کے اندر ایسی آگ بھڑکتی ہے کہ لفظ اس کا ساتھ دینے سے عاجز ہوجاتے ہیں۔ فلسطین کی سرزمین پر، غزہ کی گلیوں میں، بیت المقدس کے سائے میں، ایک سال سے بھی زائد عرصہ سے جو کچھ ہورہا ہے، وہ صرف قتل و غارت گری نہیں، وہ انسانیت کی توہین، بچوں کی آہیں، ماؤں کی سسکیاں، اور بے گھر لوگوں کی تڑپ ہے۔ وہ لاشیں نہیں جو زمین پر گری ہوئی ہیں، وہ جیتی جاگتی زندگیاں تھیں، خواب تھیں، خواہشیں تھیں، اور ہمارے جیسے انسان تھے جنہیں صہیونی درندوں نے بموں، میزائلوں اور گولیوں سے روند ڈالا۔ فلسطین میں مرنے والوں کی تعداد اب دو لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے، جن میں زیادہ تر معصوم بچے، کمزور خواتین اور نہتے بزرگ شامل ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں لاشیں اٹھتی ہیں، گھروں کے ملبے سے بچوں کی لاشیں نکالی جاتی ہیں، ماں کی گود سے اس کا لعل چھین لیا جاتا ہے، اور ایک نسل کو صفحہئ ہستی سے مٹانے کی منظم کوشش کی جارہی ہے۔


یہ کوئی وقتی جنگ نہیں، یہ دہائیوں پر محیط ظلم و ستم کا تسلسل ہے، جس کی منصوبہ بندی صہیونی دماغوں نے کی ہے اور جس کو انجام تک پہنچانے کیلئے امریکہ جیسے سامراجی طاقتوں نے اپنے اسلحے، پیسوں اور اقوام متحدہ جیسے اداروں کی بے حسی کے ساتھ تعاون دیا ہے۔ اسرائیل کی جارحیت اب صرف غزہ، رفح اور نابلس تک محدود نہیں رہی، بلکہ اس کا ہدف پورے عالم اسلام کو کمزور کرنا، مسلمانوں کی غیرت کو مار ڈالنا اور اسلامی شعور کو مٹا دینا ہے۔ جب امریکہ اسرائیل کے حق میں کھڑے ہوکر اسلحہ فراہم کرتا ہے، جب یورپی ممالک انسانی حقوق کا نعرہ لگاتے ہوئے فلسطینی بچوں کے قتل پر خاموش رہتے ہیں، جب اقوام متحدہ صرف قراردادیں منظور کرکے اپنی جان چھڑاتا ہے، تو ایسی دنیا میں مظلوموں کی آخری امید خود امت مسلمہ کے افراد ہوتے ہیں۔


ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم بے بس ہیں؟ کیا ہم کچھ نہیں کر سکتے؟ کیا ہمارے ہاتھوں میں کوئی طاقت نہیں؟ نہیں! ہم بے بس نہیں، ہمارے پاس ایک طاقت ہے، ایک ایسا ہتھیار جو دشمن کی بنیادیں ہلا سکتا ہے، اور وہ ہے ”بائیکاٹ“! ہاں، ان کمپنیوں کا مکمل بائیکاٹ جو اسرائیل کی پشت پناہی کرتی ہیں، جو صہیونی فوج کو مالی مدد فراہم کرتی ہیں، جو اپنے منافع سے فلسطینی بچوں کی قبریں کھودتی ہیں، اور جو ہمارے پیسوں سے ہمیں ہی مارنے کیلئے اسرائیلی اسلحہ ساز کمپنیوں کو سرمایہ فراہم کرتی ہیں۔ہم جو جب کسی سوپرمارکیٹ میں خریداری کرتے ہیں، جب کسی فاسٹ فوڈ چین میں کھانا کھاتے ہیں، جب کسی مشروب کو پیاس بجھانے کیلئے حلق سے نیچے اتارتے ہیں، ہم نہیں جانتے کہ ہم دراصل کن ہاتھوں کو پیسہ دے رہے ہیں۔ ہمیں یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہی کمپنیاں جیسے Coca-Cola, Pepsi, Nestlé, McDonald's, Starbucks, Domino's, KFC, Maggi اور Unilever وغیرہ جیسی کمپنیاں اسرائیل کو نہ صرف معاشی سہارا دے رہی ہیں بلکہ کئی مرتبہ صہیونی فوج کو براہ راست امداد فراہم کرتی ہیں۔ تحقیقی رپورٹس کے مطابق ان کمپنیوں کا بڑا سرمایہ اسرائیلی مارکیٹ میں گردش کرتا ہے، اور ان کے منافع کا حصہ ان تنظیموں کو جاتا ہے جو فلسطین میں نسل کشی کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔


ابھی 2023ء کے اختتام پر شائع ہونے والی AFSC کی ایک تحقیق میں انکشاف کیا گیا کہ امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو ملنے والی سالانہ 3.8 بلین ڈالر کی امداد کے علاوہ بڑی کارپوریٹ کمپنیاں بھی کروڑوں ڈالرز کی رقم براہ راست یا بالواسطہ صہیونی اداروں کو دیتی ہیں۔ ایسی کمپنیوں میں سب سے نمایاں Starbucks ہے، جس کی انتظامیہ نے اسرائیل کی کھل کر حمایت کی اور فلسطین کی حمایت میں بولنے والے اپنے ملازمین کو نوکری سے برخاست کیا۔ McDonald'sنے اسرائیلی فوجیوں کو مفت کھانا فراہم کیا۔ HP اور Intel جیسی ٹیکنالوجی کمپنیاں اسرائیلی سیکیورٹی سسٹم کی تیاری میں براہ راست شریک ہیں۔ Coca-Cola کا مرکزی پلانٹ اسرائیل کے مقبوضہ علاقوں میں واقع ہے اور اس کا CEO کھل کر صہیونی عزائم کی حمایت کرتا ہے۔


فلسطین سالیڈیریٹی کیمپین اور BDS موومنٹ کی تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ اگر پوری دنیا کے مسلمان ان کمپنیوں کا صرف 20 فیصد بائیکاٹ کریں، تو ان کا سالانہ نقصان 30 بلین ڈالر سے زائد ہوسکتا ہے۔ جب کوئی کمپنی یا ادارہ صہیونی ریاست اسرائیل کی مالی مدد کر رہا ہو، اور اس کی مصنوعات کی خریداری سے ظالم کو تقویت ملتی ہو، تو ایسی صورت میں ان مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا صرف جذباتی ردعمل نہیں بلکہ شرعی ذمہ داری بن جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں صاف فرمایا: ”وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَی الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ“ (سورۃ المائدہ: 2) کہ ”گناہ اور زیادتی (ظلم) کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔“ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اپنے بھائی کی مدد کرو، خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔“عرض کیا گیا: مظلوم کی تو مدد سمجھ آتی ہے، مگر ظالم کی کیسے؟ فرمایا: ”اسے ظلم سے روک کر“ (صحیح بخاری: 2444)۔ اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ دراصل ظالم کو ظلم سے روکنے کا عملی قدم ہے۔ اور اگر کوئی کمپنی کسی ایسی ریاست یا فوج کی مالی معاونت کرتی ہو جو مسلمانوں پر ظلم کر رہی ہو، تو اس کے بائیکاٹ کا مطالبہ نہ صرف شرعاً درست بلکہ واجب کے قریب ہے۔ لہٰذا، اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ صرف ایک اخلاقی اقدام نہیں بلکہ ایک شرعی فریضہ ہے، جو ہر غیرت مند مسلمان پر لازم ہے۔ Bloomberg اور Reuters کی رپورٹس کے مطابق صرف عرب ممالک میں 2023 ء میں ہونے والے جزوی بائیکاٹ کی وجہ سے McDonald'sکو ایک چوتھائی خسارہ ہوا اور Middle East Eye کے رپورٹ کے مطابق کئی ممالک میں ان کے آؤٹ لیٹس بند کرنے پڑے۔ اسی طرح Coca-Cola کو خلیجی ممالک میں اپنی برانڈ ویلیو کھونا پڑی۔ اگر یہی بائیکاٹ مکمل اور منظم ہو، تو ان کمپنیوں کے مالی مفادات کو کاری ضرب لگائی جاسکتی ہے، اور اسرائیل کو عالمی سطح پر تنہائی کی طرف دھکیلا جاسکتا ہے۔


ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ کیا ایک مشروب ہماری غیرت سے زیادہ قیمتی ہے؟ کیا ایک برگر یا چکن پیس اتنا اہم ہے کہ اس کے بدلے ہم کسی فلسطینی بچے کی لاش کا سودا کرلیں؟ جب ہم Starbucks کی کافی پیتے ہیں تو کیا ہمیں وہ تصویر یاد آتی ہے جس میں ایک بچہ اپنی ماں کی لاش سے لپٹا ہوا تھا؟ جب ہم Nestlé کے چاکلیٹ کھاتے ہیں تو کیا ہم بھول جاتے ہیں کہ غزہ میں مائیں اپنے بچوں کو نمک ملا پانی پلا کر سلانے پر مجبور ہیں؟ یہ بائیکاٹ صرف معاشی اقدام نہیں، یہ ضمیر کی پکار ہے، یہ ایمان کی صداقت ہے، یہ مظلوموں کے ساتھ ہمارے ربط کا ثبوت ہے۔


آج سوشل میڈیا پر کئی ایسی رپورٹس گردش کر رہی ہیں جو ثابت کرتی ہیں کہ اسرائیلی مصنوعات کے خلاف بائیکاٹ نے اسرائیلی معیشت کو دھچکا پہنچایا ہے۔ الجزیرہ کے ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل میں 2024ء کے دوران گھریلو مصنوعات کی فروخت میں 17 فیصد کمی آئی اور براہ راست سرمایہ کاری میں 23 فیصد کمی دیکھی گئی۔ یہ محض اعداد و شمار نہیں، بلکہ ان بچوں کی دعائیں ہیں جن کے ماں باپ کو زندہ جلایا گیا، یہ ان ماؤں کی آہیں ہیں جو اپنے بچوں کی لاشیں اٹھا اٹھا کر تھک چکی ہیں۔ جب ہم ان مصنوعات کا بائیکاٹ کرتے ہیں، تو ہم ظالم کو براہ راست پیغام دیتے ہیں کہ ہم خاموش تماشائی نہیں، بلکہ امت کا زندہ ضمیر ہیں۔اسلامی شریعت بھی ہمیں یہی حکم دیتی ہے کہ ظالم کے خلاف آواز بلند کی جائے، اور اگر قوت نہ ہو تو کم از کم دل میں نفرت اور معاشی بائیکاٹ کے ذریعے اس کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا جائے۔ اگرہمارے ذریعہ ظالم حکمران کی مدد مالی طور ہورہی ہوتوگویا یہ ظلم میں شرکت مترادف ہے۔ تو جو کمپنی ظلم کی پشت پناہی کرے، اس کی مصنوعات خریدنا کیا ہے؟ کیا یہ ظلم میں حصہ داری نہیں؟


یہ صرف انفرادی عمل نہیں ہونا چاہیے، بلکہ ادارہ جاتی سطح پر بھی اس کو منظم کیا جانا چاہیے، اور الحمدللہ، مرکز تحفظ اسلام ہند نے اس حوالے سے ایک بڑی خدمت انجام دی ہے۔ ایک تین ماہ کی تفصیلی تحقیق کے بعد ایک ایسی فہرست مرتب کی گئی ہے جس میں ان تمام مصنوعات کا احاطہ کیا گیا ہے جو اسرائیل یا اس کے معاونین سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ فہرست نہ صرف درست اور مستند ہے بلکہ اس میں ہر پراڈکٹ کے پیچھے موجود کمپنی اور اس کا اسرائیل سے تعلق بھی تحقیق کے ساتھ درج ہے۔ مرکز تحفظ اسلام ہند نے یہ فہرست ملک بھر کی تنظیموں، اداروں اور عوام الناس تک پہنچانے کی کوشش کی ہے تاکہ لوگ بیدار ہوں اور اس تحریک کا حصہ بنیں۔ یہ وقت غیرتِ ایمانی کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم اسرائیلی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں۔ یہ محض ایک مہم نہیں، یہ ضمیر کا فیصلہ، دل کی پکار، اور ایمان کا امتحان ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کون اس آزمائش میں سرخرو ہوتا ہے اور کون رسوا۔ ہم یا تو ظلم کے خلاف کھڑے ہو سکتے ہیں، یا اپنی بے حسی سے قاتلوں کے معاون بن سکتے ہیں۔ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔


اب وقت آچکا ہے کہ ہم دو ٹوک فیصلہ کریں۔ یا تو ہم فلسطین کے ان بچوں کا ساتھ دیں جو ہر روز شہید ہو رہے ہیں، یا ان کمپنیوں کا جو ان کے قاتلوں کو طاقت فراہم کر رہی ہیں۔ ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم کس کے ساتھ ہیں؛ مظلوموں کے یا ظالموں کے؟ اگر ہم واقعی ایمان رکھتے ہیں، اگر ہماری غیرت ابھی زندہ ہے، اگر ہمارے دل میں امت کا درد ہے، تو ہمیں آج سے، اسی لمحے سے ان تمام اسرائیلی اور ان کے مددگار کمپنیوں کے مصنوعات کا مکمل، غیر مشروط، اٹل بائیکاٹ کرنا ہوگا۔ یہ صرف بائیکاٹ نہیں ہوگا، بلکہ مظلوم فلسطینیوں کے زخموں پر مرہم ہوگا، اور ظالم اسرائیل کے وجود پر ضربِ کاری۔


ابھی نہیں تو کب؟ ہم نہیں تو کون؟ خدارا اٹھو! خریدو نہیں، جھاڑ دو ان پراڈکٹس کو، نکال دو انہیں اپنے گھروں سے، دکانوں سے، دلوں سے۔ کیونکہ جب آخرت میں ہم سے پوچھا جائے گا کہ تم نے کیا کیا تھا؟ تو ہم کم از کم یہ تو کہہ سکیں گے: اے اللہ! ہم نے ظالم کا ساتھ نہیں دیا، ہم نے مظلوم کا ساتھ دیا، ہم نے ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا تھا۔


فقط والسلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

26؍ جولائی 2025ء بروز سنیچر 


+91 8495087865

mdfurqan7865@gmail.com


#BoycottIsraelProducts | #IsraelProducts | #Palestine | #Gaza | #IndianMuslims | #MTIH | #TIMS | #PaighameFurqan