قضیہ فلسطین اور بی ڈی ایس تحریک!
✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ
(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)
فلسطین کے جانباز شہریوں نے اسرائیل کے ناجائز قبضے، ظلم و ستم، اور انسانی وقار کی پامالی کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے 2005ء میں اپنی سوسائٹی کی نمائندہ 170؍ تنظیمیں، تحریکیں اور این جی اوز کے ذریعے ایک عالمی تحریک کی بنیاد رکھی، جو آج دنیا بھر میں BDS (Boycott, Divestment, Sanctions) کے نام سے جانی جاتی ہے۔ یہ تحریک ایک پُرامن، باوقار اور عالمی سطح پر مؤثر احتجاجی جدوجہد ہے، جس کا مقصد اسرائیل پر دباؤ ڈالنا ہے تاکہ وہ فلسطینی عوام کے حقوق کا احترام کرے۔ BDS تین بنیادی نکات پر قائم ہے: (1) بائیکاٹ (Boycott): یعنی اسرائیلی مصنوعات، اداروں، اور ان کمپنیوں کا مکمل سوشل اور معاشی بائیکاٹ جو اسرائیل کی حمایت یا تعاون کرتی ہیں۔ (2) سرمایہ نکالنا (Divestment): یعنی ان کمپنیوں یا اداروں سے سرمایہ کاری واپس لینا جو اسرائیل کو مالی سہارا فراہم کرتے ہیں یا اس کے قبضے میں شریک ہیں۔ اور (3) پابندیاں (Sanctions): یعنی حکومتوں سے مطالبہ کہ وہ اسرائیل پر اقتصادی، فوجی اور سفارتی پابندیاں عائد کریں تاکہ وہ انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیاں بند کرے۔ یہ تحریک ظلم کے خلاف انسانیت کی آواز ہے اور عالمی ضمیر کو بیدار کرنے کی ایک منظم اور پرامن کاوش ہے۔ بی ڈی ایس تحریک کی نوعیت کسی ہتھیار یا تشدد پر مبنی نہیں بلکہ یہ اخلاقی، سماجی، معاشی اور قانونی دائرے میں رہتے ہوئے ایک ایسے بائیکاٹ کا مطالبہ کرتی ہے جو دنیا کی مختلف اقوام، اداروں اور حکومتوں پر یہ واضح کر دے کہ وہ اسرائیلی ظلم پر خاموش نہیں رہیں گے۔ یہ تحریک اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ یہ کسی خاص مذہب، رنگ، نسل یا ملک سے وابستہ نہیں، بلکہ دنیا کے ہر انصاف پسند انسان کی آواز بن چکی ہے۔
بی ڈی ایس تحریک کے آغاز کی بنیاد 2005ء میں فلسطینی عوام اور سماجی اداروں کے اُس مشترکہ اعلامیے سے ہوئی جس میں اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم، زمین پر غاصبانہ قبضہ، شہری حقوق کی پامالی، جبری نقل مکانی، اور انسانی عزت نفس کی تذلیل کے خلاف دنیا بھر کی اقوام سے بائیکاٹ، سرمایہ نکالنے اور اسرائیل پر پابندیاں عائد کرنے کی اپیل کی گئی۔ یہ وہ دور تھا جب اسرائیل نے دیوارِ فاصل (Apartheid Wall) تعمیر کر کے فلسطینی علاقوں کو مزید محصور کر دیا تھا۔ بستیوں کی تعمیر، مقدس مقامات کی توہین، بچوں، عورتوں اور معمر افراد پر مظالم اور بنیادی انسانی حقوق کی منظم خلاف ورزیوں نے دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا، مگر طاقتور مغربی دنیا اور عالمی ادارے، خاص طور پر اقوام متحدہ، صرف مذمت تک محدود رہے۔ ایسے میں BDS تحریک فلسطینی عوام کی طرف سے ایک مؤثر، پرامن اور عالمی سطح پر منظور شدہ احتجاجی حکمت عملی بن کر ابھری۔
یہ عالمی BDS تحریک کے تین بنیادی مطالبات ہیں: (پہلا) اسرائیل 1967ء سے قبضہ کیے گئے تمام فلسطینی علاقوں سے دستبردار ہو۔(دوسرا) اسرائیل میں موجود عرب نژاد فلسطینیوں کو بھی وہی حقوق دیے جائیں جو یہودیوں کو حاصل ہیں۔ اور(تیسرا) 1948ء اور 1967ء کے دوران جبری طور پر نکالے گئے تمام فلسطینیوں کو واپس اپنے گھروں کو لوٹنے کا حق دیا جائے، جیسا کہ اقوام متحدہ کی قرارداد 194 میں تسلیم کیا گیا ہے۔ یہ تینوں مطالبات نہ صرف انصاف پر مبنی ہیں بلکہ بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کے بنیادی اصولوں سے بھی مطابقت رکھتے ہیں۔
یہ تحریک پرامن بائیکاٹ کو ایک طاقتور ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ اس بائیکاٹ کا دائرہ کار ان مصنوعات، اداروں، یونیورسٹیوں، ثقافتی پروگراموں، اسپورٹس ایونٹس اور سرمایہ کاری منصوبوں تک پھیلتا ہے جو اسرائیل کو سپورٹ کرتے ہیں یا اس کے قبضے کو مضبوط بنانے میں کردار ادا کرتے ہیں۔ Coca-Cola، HP، McDonald’s، Starbucks، Intel، Puma، Caterpillar، اور Nestlé جیسی درجنوں کمپنیاں یا تو اسرائیل کی فوجی سرگرمیوں میں سرمایہ لگاتی ہیں، یا مقبوضہ علاقوں میں غیرقانونی یہودی بستیوں کی تعمیر میں ملوث ہیں۔ BDS ان کمپنیوں کے بائیکاٹ کی عوامی مہم چلاتی ہے، تاکہ اسرائیل کو اس کے جرائم کی قیمت چکانی پڑے۔ اسی تناظر میں مرکز تحفظ اسلام ہند نے سن 2024ء میں ایک نہایت اہم تحقیقی رپورٹ شائع کی، جس میں اسرائیلی مصنوعات اور ان سے وابستہ معاون عالمی و مقامی کمپنیوں کی تفصیلی فہرست پیش کی گئی۔ اس رپورٹ میں امت مسلمہ اور انصاف پسند شہریوں سے ان مصنوعات کے بائیکاٹ کی پُرزور اپیل شامل ہے۔ ملک بھر میں اس رپورٹ کو عوامی سطح پر بے حد سراہا گیا، اور بائیکاٹ کی مہم کو تقویت ملی۔ مرکز کی یہ علمی و تحریکی کاوش درحقیقت عالمی BDS تحریک کی ہم آہنگی اور اس کے اصولوں کا عملی تسلسل ہے، جو فلسطین کی حمایت اور صہیونی استعمار کی مزاحمت کا ایک مضبوط اور سنجیدہ قدم ثابت ہوئی۔
بی ڈی ایس تحریک کی کامیابیاں قابلِ ذکر ہیں۔ دنیا بھر میں کئی بڑی یونیورسٹیوں نے اسرائیلی کمپنیوں سے سرمایہ نکالنے کا اعلان کیا۔ جنوبی افریقہ، آئرلینڈ، ملائیشیا، اور چلی جیسے ممالک میں عوامی دباؤ کے نتیجے میں کئی اداروں نے اسرائیلی مصنوعات پر پابندیاں عائد کیں۔ عالمی شہرت یافتہ موسیقاروں، مصنفین، فنکاروں اور کھلاڑیوں نے اسرائیلی حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کے اشتراک سے انکار کر دیا۔ یہاں تک کہ بعض اسرائیلی دانشوروں اور یہودی انسان دوست حلقوں نے بھی BDS کی حمایت کی۔ اس تحریک کی اخلاقی طاقت نے اسرائیل کو عالمی سطح پر تنہا کرنے میں اہم کردار ادا کیا، حتیٰ کہ اسرائیلی حکومت نے BDS کے خلاف عالمی سطح پر تشہیری مہم شروع کر دی اور بعض ممالک میں اس پر پابندی لگوانے کی کوشش کی۔ یہ سب کچھ اس بات کی علامت ہے کہ BDS ایک کامیاب اور مؤثر تحریک ہے۔ جو آج بھی پوری قوت، مؤثر اور زندہ دلی کے ساتھ عالمی سطح پر جاری و ساری ہے۔ اگر ہم تازہ ترین رپورٹس پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوگا کہ جنوری 2025 میں City University of New York (CUNY) کی پروفیسرز یونین نے اسرائیلی کمپنیوں اور حکومتی بانڈز سے مکمل سرمایہ نکالنے کا اعلان کیا، جو 2026 تک مکمل ہوگا۔ دنیا بھر میں طلبہ، اساتذہ، اور انسانی حقوق کے علمبردار تعلیمی اداروں، پنشن فنڈز، اور سرمایہ کاری کمپنیوں سے اسرائیل کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات منقطع کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ Trinity College Dublin، University of Amsterdam، UC Berkeley، اور Stanford جیسے ادارے اس جدوجہد کا حصہ ہیں، جہاں قراردادیں پاس ہو چکی ہیں، بھوک ہڑتالیں ہوئیں، اور اسرائیلی اداروں سے تعلقات پر پابندیاں عائد کی گئیں۔ ثقافتی محاذ پر BDS کے دباؤ سے بڑے میوزک فیسٹیولز اور کھیلوں کے مقابلے اسرائیلی شراکت داری سے دور ہو رہے ہیں۔ امریکہ میں BDS کے خلاف 38 ریاستوں نے قانون سازی کی ہے، مگر اس کے باوجود طلبہ اور یونیورسٹی یونینز کی مزاحمت جاری ہے۔ 2025ء میں Protect Economic and Academic Freedom Act جیسے قوانین BDS کے خلاف لائے گئے، مگر اس تحریک کے اثرات Harvard، Yale، Georgetown، اور NYU جیسے اداروں کے سرمایہ نکالنے کے فیصلوں کی صورت میں نظر آ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ نیویارک سٹی نے اسرائیلی بانڈز میں اپنی سرکاری سرمایہ کاری تقریباً مکمل طور پر ختم کر دی۔ یہ تمام حقائق اس بات کا ثبوت ہیں کہ BDS تحریک نہ صرف زندہ ہے بلکہ دن بہ دن عالمی سطح پر مضبوط تر ہو رہی ہے، اور تعلیم، ثقافت، معیشت اور سیاست جیسے شعبوں میں فلسطینی کاز کے حق میں ایک موثر آواز بنتی جا رہی ہے۔
یہ تحریک نہ صرف فلسطینی عوام کی آواز ہے بلکہ ظلم کے خلاف ہر مظلوم قوم کی علامت بن چکی ہے۔ اس تحریک نے دنیا کو یاد دلایا کہ طاقت صرف فوجی ہتھیاروں میں نہیں بلکہ عوامی بیداری، معاشی دباؤ اور اخلاقی سچائی میں بھی ہوتی ہے۔ BDS نے دنیا کے نوجوانوں کو متحرک کیا، تعلیمی اداروں کو بیدار کیا، اور عام انسانوں کو احساس دلایا کہ ان کا روزمرہ کا ایک چھوٹا سا قدم مثلاً کسی اسرائیلی مصنوعات کا نہ خریدنا بھی عالمی انصاف کی طرف ایک بڑا قدم ہو سکتا ہے۔ اس تحریک نے ایک عام شہری کو ایک عالمی مجاہد میں بدل دیا، جس کا میدان جنگ اس کا بٹوہ، اس کی زبان، اس کی سوشل میڈیا پوسٹ اور اس کا شعور بن گیا۔ BDS کی موجودہ اہمیت اس وقت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ اسرائیل غزہ میں انسانیت کو روند رہا ہے، ہزاروں بچوں، عورتوں اور معصوم شہریوں کو بمباری سے شہید کیا جا رہا ہے، ہسپتالوں، اسکولوں اور مساجد کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا جا رہا ہے، اور دنیا کی بڑی طاقتیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے بے بسی کا شکار ہیں، اور عالمی میڈیا اسرائیلی ظلم کو چھپاتا اور فلسطینی مزاحمت کو دہشت گردی کے طور پر پیش کرتا ہے۔ ایسے حالات میں BDS ایک مظلوم کی آخری عالمی صدا ہے جو ہر زندہ ضمیر تک پہنچنا چاہتی ہے۔
اسلامی نقطہ نظر سے بھی BDS ایک نہایت جائز اور ضروری اقدام ہے۔ جب کسی مسلمان پر ظلم ہو، تو شریعت ہمیں حکم دیتی ہے کہ ظالم کا ہاتھ روکو، مظلوم کی مدد کرو، کم از کم دل سے برا جانو۔ BDS تحریک دل کی برائی کو زبان، عمل اور شعور میں بدلتی ہے۔ یہ بائیکاٹ صرف معاشی نہیں، ایک دینی غیرت، ملی حمیت اور انسانی ضمیر کا اعلان ہے۔ یہ کہنا کہ ”ہم ظالم کو سپورٹ نہیں کریں گے“ ایک اسلامی اصول ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ”ظالم کی بھی مدد کرو، چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم“۔ صحابہؓ نے پوچھا کہ ظالم کی مدد کیسے؟ آپؐ نے فرمایا: ”اسے ظلم سے روکو، یہی اس کی مدد ہے“۔ بی ڈی ایس تحریک اسی اصول پر عمل کر رہی ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض مسلم ممالک نے اسرائیل سے تجارتی، سفارتی اور عسکری تعلقات قائم کر لیے ہیں، جو امت مسلمہ کے اجتماعی شعور کے خلاف ہے۔ ایسے وقت میں BDS امت مسلمہ کو جگانے کی ایک صدا ہے کہ اگر تم میں سے ہر کوئی ظالم کے خلاف کھڑا ہو جائے، تو وقت کے فرعون کو بھی گھٹنے ٹیکنے پڑیں گے۔ فلسطین کی سرزمین ہم سے پکار پکار کر کہتی ہے کہ ہم سے مت غافل ہو، ہم پر ظلم ہو رہا ہے، تمہاری خاموشی ہمارے قاتل کی طاقت بن رہی ہے۔ BDS ایک تحریک ہے، ایک دعوت ہے، ایک غیرت ہے، ایک مزاحمت ہے، ایک شعور ہے۔ یہ ایک صدا ہے کہ اگر ظلم کے خلاف کھڑے نہیں ہو سکتے، تو کم از کم ظالم کے ساتھ کھڑے نہ ہو۔ اگر جنگ کے میدان میں نہیں جا سکتے، تو اپنے بٹوے، اپنے بازار، اور اپنی زبان کو ایک ہتھیار بنا دو۔ اگر تم صرف ایک Coca-Cola کی بوتل سے ہاتھ کھینچ لو، تو یہ بھی ایک مزاحمت ہے۔ اگر تم اپنے اسکول، اپنی یونیورسٹی، اپنے دفتر، اپنی مسجد میں فلسطین کا تذکرہ کرتے ہو، BDS کا شعور دیتے ہو، تو یہ بھی ایک جہاد ہے۔
وقت آ گیا ہے کہ BDS کو محض ایک تحریک نہ سمجھا جائے بلکہ اسے ایک عالمی فریضہ سمجھا جائے۔ یہ ایک امت کی اجتماعی آواز ہے جو ظلم، قبضے، اور نسل پرستی کے خلاف صف آرا ہے۔ یہ تحریک اس وقت تک جاری رہے گی جب تک اسرائیل غاصب قبضے سے دستبردار نہیں ہوتا، فلسطینیوں کو ان کے حقوق نہیں دیے جاتے، اور مظلوم انسانیت کو انصاف نہیں ملتا۔ اور جب تک دنیا کے کسی بھی کونے میں کوئی ظالم باقی ہے، BDS جیسے پرامن اور مؤثر ہتھیار باقی رہیں گے، کیونکہ ظلم کے خلاف مزاحمت ہی انسانیت کی بقاء کی ضامن ہے۔ اگر BDS کے اس پیغام کو دنیا بھر کے مسلمان، انصاف پسند اور انسانی حقوق کے علمبردار قبول کر لیں تو ایک دن ضرور آئے گا جب القدس آزاد ہوگا، فلسطین کے بچے ہنسی کھیلیں گے، اور ظالم اسرائیلی حکومت کو اپنے ظلم کا حساب دینا پڑے گا۔ یہی BDS کا خواب ہے، اور یہی ہر زندہ انسان کا خواب ہونا چاہیے۔
فقط و السلام
بندہ محمّد فرقان عفی عنہ
04؍ اگست 2025ء بروز پیر
#Palestine | #Gaza | #BDSMovement | #BoycottIsraelProducts | #IsraelProducts | #PaighameFurqan | #MTIH #TIMS





