Sunday, January 31, 2021

پیام فرقان - 04

 { پیام فرقان - 04 }



🎯اسلام کے تین بنیادی عقائد!


✍️بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


اللہ تبارک و تعالیٰ نے دین اسلام کا دارومدار عقائد پر رکھا ہے اور اسلام کے تین بنیادی عقائد ہیں- ان تینوں عقیدوں پر ایمان لانا ضروری ہی نہیں بلکہ لازمی ہے- اگر کوئی شخص ان تین بنیادی عقائد میں سے کسی دو پر ایمان لاکر کسی ایک پر ایمان نہیں لاتا یا اس پر شک و شبہ کرتا ہے تو ایسا شخص گمراہ اور اسلام سے خارج ہے کیونکہ مسلمان ہونے کیلئے ان تینوں عقیدوں پر بلا کسی شک و شبہ ایمان لانا ضروری ہے- قرآن و حدیث میں اللہ تبارک تعالیٰ اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جن تین بنیادی عقیدوں کا کثرت کے ساتھ تذکرہ کیا ہے وہ یہ ہیں (1) عقیدۂ توحید (2) عقیدۂ رسالت اور (3) عقیدۂ آخرت- لہٰذا مسلمان ہونے کیلئے بنیادی طور پر ان تین عقائد پر ایمان لانا ضروری ہے- بقیہ ان عقائد پر بھی ایمان لانا ضروری ہے جو ایمان مفصل میں بیان کی گئی ہیں- اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارے دین و ایمان اور عقائد کی حفاظت فرمائے اور ہمیں صحیح عقائد کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے، آمین-


فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

31 جنوری 2021ء بروز اتوار 

+918495087865

mdfurqan7865@gmail.com

Tuesday, January 26, 2021

دارالعلوم دیوبند اور جمعیۃ علماء ہند کا ملک کی جنگ آزادی میں تاریخی کردار!


 

دارالعلوم دیوبند اور جمعیۃ علماء ہند کا ملک کی جنگ آزادی میں تاریخی کردار!

جدوجہد آزادی 1803ء سے 1947ء تک : ایک جائزہ!



از قلم : جانشین شیخ الاسلام حضرت مولانا مولانا سید ارشد مدنی مدظلہ

(صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند و صدر جمعیۃ علماء ہند) 


جدوجہد آزادی ہی نہیں ملک کی کوئی بھی تاریخہندوستان کے علمائے کرام کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی، خواہ وہ ملی یا قومی قیادت و سیادت ہو یا آزادیٔ وطن کے لئے میدان جنگ میں کود پڑنا، کسی تحریک کی قیادت ہو یا پھر کسی مصیبت اور پریشانی کے وقت میں لوگوں کی مدد و غمگساری، ہر میدان میں علماء نے اہم کارنامے انجام دئے ہیں اور حکومتِ وقت کے سامنے سینہ سپر ہوکر حق اور سچ بات رکھی ہے،ایک بڑی تاریخی سچائی یہ ہے کہ ہندوستان کی آزاد ی کی تحریک علماء اور مسلمانوں نے شروع کی تھی اور یہاں کے عوام کو غلامی کا احساس اس وقت کرایا جب اس بارے میں کوئی سوچ بھی نہیںرہا تھا، ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف سب سے پہلے عَلمِ بغاوت علماء نے ہی بلند کیا تھا اور جنگ آزادی کا صوربھی انہوں نے ہی پھونکا تھا۔ ہندوستان کے بے شمار لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ملک کی پہلی آزادی کی لڑائی 1857ء میں لڑی گئی تھی، لیکن یہ بات اپنی تاریخ اور اپنے بزرگوں کی قربانیوں سے ناواقفیت پر مبنی ہے ۔ آزادی کی تاریخ 1857ء سے نہیں بلکہ 1799ء میںاس وقت شروع ہوئی جب سلطان ٹیپو شہیدؒ نے سرنگاپٹم میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا تھا، جس وقت ان کے خون میں لتھڑی ہوئی لاش پر انگریز فوجی نے کھڑے ہوکر یہ بات کہی تھی کہ ’’آج سے ہندوستان ہمارا ہے‘‘ اس کے بعدہی انگریزیہ کہنے کی ہمت پیدا کر پائے کہ ’’اب کوئی طاقت ہمارا مقابلہ کرنے والی، ہمارے پنجے میں پنجہ ڈالنے والی نہیں ہے‘‘ اور پھر انہوںنے عملی طورپرچھوٹے چھوٹے نوابوں اور راجاؤں کو شکست دیکر ان کو سر تسلیم خم کرنے پر مجبور کردیا۔ ٹیپو سلطانؒ کی شہادت اور انگریزوں کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کے بعدعلمائے کرام نے غلامی کی آہٹ کو محسوس کرلیا تھا اور اس کے بعد سے ہی جہادِ آزادی کاآغاز ہوا، جب انگریز نے 1803میں دہلی کے اندر یہ اعلان کیا کہ ’’خلق خدا کی، ملک بادشاہ کا‘‘ لیکن آج سے حکم ہمارا ہے، اس دن اس ملک کے سب سے بڑے عالم دین اور خدارسیدہ بزرگ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے بڑے بیٹے حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلویؒ نے دلّی میں یہ فتوی دیا کہ ’’آج ہمارا ملک غلام ہوگیا اور اس ملک کو آزاد کرانے کے لئے جہاد کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے‘‘ یہ جراء تمندانہ اعلان ایسے وقت میںکیا گیا کہ اس عالم دین کے علاوہ ہندوستان کے اندر کوئی ایسا نہیں تھا جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے مقابلہ میں اپنی زبان سے آزادیٔ وطن کے لیے جہادکا اعلان کرسکتا تھا۔اس فتویٰ کی پاداش میں ان کو بڑی بڑی تکلیفیں برداشت کرنی پڑیں، انھیں زہر دے دیا گیا، ان کی جائداد کو قرق کرلیا گیا، ان کی آنکھوں کی بینائی اس زہر سے جاتی رہی، ان کو دلّی شہر سے در بدر کردیا گیا،وہ ان تمام سخت ترین حالات میں بھی انھوں نے اپنی موت سے پہلے دو روحانی شاگردپیدا کردیئے، ایک حضرت سیّد احمد شہید رائے بریلویؒ اور دوسرے شاہ اسماعیل شہیدؒ، ان لوگوں نے پورے ملک کے دورے کئے اور مسلمانوں سے جہاد کی بیعت اور اس کا عہد لیا کہ وہ ہمارے ساتھ ملک کی آزادی کے لیے اپنی جان قربان کردیں گے۔ اس کے بعد بالاکوٹ کے میدان میں ہزاروں مسلمان ان دونوں صاحبان کے ساتھ سب سے پہلی آزادیٔ وطن کی جنگ میں شہید ہوئے ،یہ سب سے پہلا آزادیٔ وطن کے لئے جہاد تھا جو دوسرے جہاد آزادی (1857) کا مقدمہ تھا،جو لوگ وہاں اس وقت ناکامی کے بعد واپس ہوئے ان لوگوں نے واپس آکر پھر اِکائیوں کو جمع کیا اور افراد کو تیار کیا،اورچھبیس سال کی محنت کے بعد1857میں دوبارہ آزادیٔ وطن کے لئے جہاد شروع ہوا جس میں ہندو اور مسلمان دونوں شریک ہوئے لیکن مسلمان زیادہ تھے اور ہندو کم تھے۔


آزادیٔ وطن کے لئے یہ دوسرا جہادبھی ناکام ہوا، اس جہاد کی پاداش میں علماء کو گرفتار بھی کیا گیا اور کچھ علماء نے اپنے آپ کو نظر بند کرلیا، جب یہ علماء تین چار سال کے بعد جیل سے باہر نکلے اور عام معافی کا اعلان ہوا تو انھوں نے بڑی عجیب و غریب چیز دیکھی کہ وہ یتیم جن کے باپ جامِ شہادت نوش کرگئے، انگریز کی دشمنی کی وجہ سے ان کے یتیم بچے سڑکوں پر ہیں، ان کے سرپر کوئی ہاتھ رکھنے والا نہیں ہے، ان حالات کا فائدہ اٹھاکر انگریزوں نے فکری محاذ پربھی اپنی لڑائی تیز کردی، چنانچہ کرسچن اسکول، عیسائی پوپ اور چرچ کے لوگ باہر نکل کر ان یتیموں کا ہاتھ پکڑتے اور کہتے کہ ہمارے ساتھ چلو ہم تم کو کھانا،رہائش اور تعلیم مفت دیں گے،مقصد ذہنی اعتبار سے ان کو انگریز بنانا تھا۔ یہ وہ بچے تھے جن کے آباء واجداد نے انگریز دشمنی میں جہاد آزادی میں جامِ شہادت نوش کیا لیکن اب انہیں کی اولاد انگریزوں کے ہاتھ میں تھی اور وہ ان کو فکری اعتبار سے


ان کو انگریز بنانا تھا۔ یہ وہ بچے تھے جن کے آباء واجداد نے انگریز دشمنی میں جہاد آزادی میں جامِ شہادت نوش کیا لیکن اب انہیں کی اولاد انگریزوں کے ہاتھ میں تھی اور وہ ان کو فکری اعتبار سے اپنا غلام بنانا چاہتے تھے، ان حالات کو دیکھ کر علماء کرام سرجوڑ کر بیٹھے اور فیصلہ لیا کہ دو جہادوں میں مجاہدین شہید کر دئے گئے اب ہمیں آزادیٔ وطن کے لئے ایسی فیکٹری کی ضرورت ہے جہاں اپنے ملک ہندوستان کو آزاد کرانے کے لئے اور غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کے لئے مجاہدین تیار کئے جائیں، چنانچہ مکمل سات سال کے بعد 1866ء میں انھوں نے دارالعلوم دیوبند کی بنیادرکھی اور بالکل وہی نعرہ دیا کہ ہم بچوں کومفت کھانااور رہائش کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم سے آراستہ کریں گے اوران بچوں کو ان کے آباء اجداد کی طرح جہادِ آزادی کے لئے مجاہد بنائیں گے، لیکن یہ تو فقیر اور بوریا نشین تھے ،توان لوگوں نے مفت طعام وقیام کے ساتھ مفت تعلیم کابھی پلان کیسے تیار کیا؟ یہ قابل حیرت بات تھی کہ ان لوگوں نے مدرسہ بنایا اور قوم کو پیغام دیا کہ ’’اگر غلامی کی لعنت کی زنجیر توڑ کر آزاد ہونا ہے تو اس مدرسہ کو زندہ رکھیں‘‘ پھر لوگوں نے دل کھول کر اس کی مدد کی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چند برسوں کے اندر بخارا، سمرقند، تاشقند، اور ہندوستان کے شہر شہر سے لڑکے جمع ہونا شروع ہوگئے جن کو مفت تعلیم دی جاتی تھی ، انھوں نے قوم کو یہ بتلایا کہ اگر یہ مدرسہ زندہ ہے تو آپ زندہ ہیں، اور آپ کی اولاد زندہ ہے، آپ کے گھر میںاسلام کی روشنی زندہ ہے، اور آپ آزاد ہیں۔ جنگ آزادی، اسلام کی آبیاری،وطن کی حفاظت، اسلام دشمن طاقتوں سے لوہا لینے کیلئے ایک تحریک کی شکل میں مجاہدین آزادی کو پیدا کرنے کے لئے دارالعلوم دیوبند کی بنیاد ڈالی گئی اور پھردارالعلوم دیوبند نے ایسے سپوتوں کو پیدا کیا جنھوں نے اس ملک کے اندر آزادیٔ وطن کی آگ جلائی، اگر پوچھا جائے کہ ان میںسب سے پہلے سپوت اور دارالعلوم دیوبند کا سب سے مایۂ ناز سرمایہ کون ہے؟ تو جواب ـ’’ حضرت شیخ الہندؒ ‘‘ ہوگا، جو دیوبند کے رہنے والے مولانا محمود حسن صاحب ہیں، پستہ قد، دُبلا پتلا آدمی لیکن اس شخص کے دل کے اندر کیسی آزادیٔ وطن کی آگ تھی جس کا تصور نہیں کیا جاسکتا، صوبہ جات

متحدہ کا انگریز گورنر مسٹن کہتاتھا:

’’اگر شیخ الہند کو جلاکر راکھ کردیا جائے تو ان کی راکھ کے اندر سے بھی انگریز دشمنی کی بو آئے گی‘‘۔

انھوں نے ’’ریشمی رومال‘‘ کی تحریک چلاکر انگریزوں کو حیران کردیا اور ان کو آخر تک معلوم نہیںہوا یہ تحریک کون چلارہے ہیں، انگریز حضرت مولانا عبیدا للہ سندھیؒ اور دوسرے علماء کو اس تحریک کا سربراہ سمجھتے رہے لیکن شیخ الہندؒ کا دماغ تھا جو انگریزوں کی سمجھ سے بالاتر تھا اور انہوں نے سینکڑوں ایسے جیالے اور جید علماء پیدا کئے کہ جنہوں نے انگریزی حکومت کی ناک میں دم کردیا تھا، شیخ الہندؒ کے ساتھ مالٹا میں اسیر شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ بھی تھے جو شیخ الہندؒ کے خاص شاگر اور خاص خادم کا درجہ رکھتے تھے، انہوں نے شیخ الہندؒ کی خاطر جیل جانا ضروری سمجھا اور شیخ الہندؒ کی خدمت کے لئے جیل کی صعوبتوں کو کاٹا۔

شیخ الہندؒ آگے چل کر دارالعلوم کے سب بڑے استاذ بنے ، ساتھ ہی انھوں نے آزادیٔ ہند کے لئے اپنے شاگردوں کی ایک ٹیم اور جماعت تیار کرکے باضابطہ تحریک ِ آزادی شروع کی، تاریخ میں یہ تحریک ’’ تحریک ریشمی رومال‘‘ کے نام سے مشہور ہے، شیخ الہندؒ نے اس تحریک میں رنگ و روغن بھرنے کے لئے حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ کو کابل بھیجا، دوسری طرف شیخ الہندؒ خلافت ِ اسلامیہ سے تعاون حاصل کرنے کے لئے حجاز مقدس تشریف لے گئے، شیخ الہندؒ کی یہ تحریک اگر کامیاب ہوگئی ہوتی تو ہندوستان کب کا آزاد ہوگیا ہوتا لیکن قدرت ابھی اور قربانیاں چاہتی تھی، شریف ِ مکہ کی غداری کی وجہ سے ریشمی خطوط (ریشمی رومال تحریک کے خطوط)پکڑے گئے اور حجاز مقدس ہی سے آپ کو گرفتار کرلیا گیا، گرفتاری کے بعد آپ کو مالٹا بھیج دیا گیا، شیخ الہندؒ جب مالٹا سے رہا ہوکر آئے تو عا م منظر نامہ بدل چکا تھا،س لئے انھوں نے ہندوستان کی آزادی کے لئے دوسرا طریقہ اختیار کیا اور جمعیۃ علماء ہند کو مشورہ دیا کہ وہ انڈین نیشنل کانگریس کا ساتھ دے اور تشدد کو چھوڑ کر عدم تشدد کا نعر ہ لگائے، شیخ الہندؒ کی وفات کے بعد ان کے شاگرد خاص رفیق مالٹا حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ اور شیخ الہندؒ کے شاگرد حضرت مفتی کفایت اللہ صاحبؒ وغیرہ نے ان کے نقش قدم پر چل کر تحریک ِ آزادی کو آگے بڑھایا۔

یہ ایک سوال ہے کہ جمعیۃ علماء ہند کی ضرورت کیوں پڑی اور شیخ الہندؒ نے اس کو کانگریس کے ساتھ مل کر کام کرنے کا مشورہ کیوں دیا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ جدوجہد آزادی میں کوئی ایسی مشترکہ تحریک نہیں تھی، جس کے بینر تلے مسلک و مذہب


آزادیٔ ملک کی خاطر جیل کی صعوبتیں


حضرت شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ نے آزادی کے حوالے سے اپنے استاذ کی کڑھن اور بے چینی کو جذ ب کرلیا تھا، چنانچہ انھوں نے حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ ، حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کے سینہ اور دل کے اندر استعماری قوتوں کے خلاف جو آگ سمائی ہوئی تھی اس کو اور تیز تر کردیا اور جہاد آزادی کے لئے سینہ سپر ہوگئے، اُستاذِ محترم کے دنیا سے چلے جانے کے بعد حضرت مدنیؒ مکمل طور پر ملک کو آزادی دلانے میں لگ گئے، اپنے اُستاذ کی فکر کو آگے بڑھانا حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کا ایسا کارنامہ رہا جس کی نظیر ملنی مشکل ہے، اسی کا نتیجہ ہے کہ آپ نے اپنی 80؍سالہ زندگی میں کم وبیش 9؍سال انگریز کی جیل میں گذارے ہیں، یعنی یوں سمجھئے کہ ہر آٹھ دن کے اندر آپ کا ایک دن جیل میں گذرا ہے، اور اس کے اندر قید تنہائی بھی ہوئی، صعوبتیں اور مشکلات سے دوچار ہونا پڑا ہے، حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ کس جیل میں آپ کو سب سے زیادہ تکلیف ہوئی؟ تو فرمایا کہ سابرمتی جیل گجرات کے اندر قید بڑی بامشقت تھی۔


سیکولر دستور بنوانے میں جمعیۃ علماء ہند کا کردار


ان کی قیادت میں جیسے جیسے ملک کی آزادی قریب آتی گئی، یہ لوگ انڈین نیشنل کانگریس کے بنیادی لوگوں مثلاً موتی لال نہرو، جواہر لال نہرو اور مہاتما گاندھی سے برابر عہد لیتے چلتے ہیں کہ ملک کی آزادی کے بعد ملک کا دستور سیکولر دستور بنے گا اور کانگریس بھی وعدہ کرتی ہے کہ مسلمانوں کی مسجدیں، مسلمانوں کے مدرسے، مسلمانوں کے امام باڑے، مسلمانوں کے قبرستان، مسلمانوں کی زبان، مسلمانوں کا کلچر، مسلمانوں کی تہذیب سب چیزیں محفوظ رہیںگی، اور ملک کا دستور سیکولر دستور بنے گا، ان لوگوں کا تیقن اور دانش مندی دیکھئے کہ یہ سمجھتے تھے کہ ملک کی اکثریت ہندو ہے، اور آج سے نہیں ہے، آٹھ سو سال اس ملک پر مسلمانوں نے حکومت کی ہے، اکثریت تو ہندو ہی کی تھی، وہ بدل تو نہیں گئی تھی؛ لیکن دستور ہندوستان کا سیکولر ہونا چاہئے، اللہ نے ان کو عجیب وغریب عقل ودانش سے نوازا تھا، اتفاق کی بات ہے کہ ملک آزاد ہوا، اور تقسیم ہوگیا اسلام کے نام پر ایک دوسرا ملک بن گیا، اس ملک کے بن جانے کے بعد قدرتی طور پر یہ مسئلہ اُٹھنا تھا کہ جب اسلام کے نام پر مسلمانوں نے اپنا ایک حصہ لے لیا ہے، تو اس ملک کو ہندو اسٹیٹ بننا چاہئے، چنانچہ ہندؤوں کے قد آور لوگ جو برابر آزادی میں شریک تھے، اُنہوں نے ہی یہ آواز اُٹھائی کہ اب ملک کا دستور سیکولر اسٹیٹ نہ بن کرکے ایک ہندو اسٹیٹ ہونا چاہئے، جمعیۃ کے اکابرین اس رائے کے خلاف کھڑے ہوگئے، کہ جو ہم سے وعدے کئے تھے، اُن وعدوں کو پورا کرو، کیوںکہ اگر ملک تقسیم ہوا ہے تو تم نے دستخط کئے ہیں، ہم نے نہیں۔اس لئے اس ملک کا دستور سیکولر بنے گا۔جمعیۃ علماء ہند کا مطالبہ اتنا مظبوط تھا کہ اس مطالبہ کے سامنے سرتسلیم خم کرنا پڑا اور ملک کا دستور سیکولر دستور بنا۔

کیا یہی جمہوریت ہے......؟



 کیا یہی جمہوریت ہے......؟ 


عبدالرحمن الخبیر قاسمی بستوی

ترجمان:تنظیم ابنائے ثاقب

ورکن شوریٰ مرکز تحفظ اسلام ہند


محترم قارئین کرام! 

انگریزوں کے خلاف ہندوستان کی جنگ آزادی تقریباً دو سو برس تک جاری رہی، اس دوران متعدد تحریکوں نے جنم لیا، ایک تحریک ختم ہوئی کہ دوسرے نے اس کی جگہ لے لی، یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ ۱۵/اگست ۱۹۴۷ء نصف شب کو وطن عزیز آزادی کی نعمت سے بہرہ ور ہوا۔

یہ نعمت ہمیں یونہی نہیں ملی بلکہ اس کے حصول کےلئے ہمارے بزرگوں نے اپنا لہو بہایا، اور یہ لہو ایک دو دن نہیں مہینے دو مہینے نہیں بلکہ وہ صدیوں تک بہتا رہا ۱۷۵۷ء میں سراج الدولہ نے اپنے لہو سے حصول آزادی کا جو چراغ روشن کیا تھا وہ ملک بھر میں برسوں گردش کرتا رہا کبھی یہ چراغ ٹیپو سلطان شہید رحمۃ االلہ علیہ کے ہاتھ میں اور کبھی اسے مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ کے ہاتھوں نے تھاما، کبھی اس میں حضرت شیخ الہند اور ان کے شاگردوں نے خون سے روشنی دی ان بزرگوں کی قیادت میں ہزاروں لاکھوں لوگوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا گولیاں کھائیں، پھانسیوں پر لٹکے کتنے ہی لوگوں نے زندگی کے ماہ وسال قیدو بند کی صورتوں میں گزارے، جلا وطن ہوئے، اس داستانِ آزادی کا ہر حرف اور لفظ ہمارے بزرگوں کے خونِ شہادت سے رنگین ہیں۔ 

آزادی ملنے کے بعد یہ سوال ہوا کہ اب اس ملک کو کس رخ پر چلنا ہے مطلق العنانیت جبر واستبداء کی طرف یا انصاف اور مساوات کی طرف، تو اس وقت کے سیاسی لیڈروں اور حکومتی نمائندوں نے اتفاقِ رائے کے ساتھ طئے کیا کہ اب شہنشاہیت اور مطلق العنانیت کا دور ختم ہوچکا ہے، آزادی کی صبح ہوچکی ہے، یہ ملک اب جبراً استبداء کی تیرگی کے بجائے جمہوریت کی روشنی میں سفر کرے گا، اس طرح ۲۶/جنوری ۱۹۵۰ء کو ایک اور نعمت ملی اور وہ ہے اس ملک میں جمہوریت کی نعمت ۔ 

قارئین کرام! 

یہ دو دن ۱۵/اگست اور ۲۶/جنوری ہمارے لئے بڑی اہمیت کےحامل ہیں لیکن آج افسوس کہ جمہوریت صرف نام کی باقی رہ گئی ہے، آج ملک کو آزاد ہوئے ۷۲/سال اور جمہوری نظام قائم ہوئے ۷۰/سال ہوگئے، لیکن اگر ماضی کی طرف بڑھ کر دیکھا جائے تو آزادی اور جمہوریت محض سراب معلوم ہوتی ہے، جو دور سے دیکھنے میں بڑی خوبصورت و دلکش اور دلفریب ہے، مگر قریب جاکر دیکھا جائے تو سیاہ چمکتی ریت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے، کیا واقعی ہمارے اسلاف اور بزرگوں نے اسی آزادی و جمہوریت کےلئے اپنی بیش قمیت جانیں قربان کی تھیں، اور کیا ہمارے دستور ساز رہنما ایک ایسا ملک بنانا چاہتے تھے جہاں طبقاتی کشمکش ہو، جہاں پسماندگی غربت وافلاس اور جہالت ہو، جہاں رنگ ونسل پر تفریق پر مبنی سیاست کا بول بالا ہو، جہاں اقتدار کےلئے تمام اخلاقیات اٹھاکر رکھ دی جاتی ہوں، جہاں قانون تو ہو مگر کمزوروں کےلئے جہاں طاقت اور قانون سے بالا تر ہوں، جہاں تنگ نظری عصبیت اور فرقہ واریت ہو، جہاں بے گناہوں اور بے قصوروں کو ناکردہ گناہوں کی سزا دی جاتی ہو، اور جیل کی سلاخیں برداشت کرنی پڑتی ہوں، اور مجرم کھلے بندوں گھومتے پھرتے ہوں، جہاں سیدھے سادے اور بے قصور لوگوں کو دہشت گرد قرار دئیے جاتے ہوں، اور اقلیتوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہوں، اور ان کے خلاف ہندوستان چھوڑو کے نعرے لگ رہے ہوں، جہاں کسانوں کے خلاف بل پاس کر کے کسانوں پر ظلم و زیادتی کا شکار بنایا جا رہا ہو،جہاں یونیفارم سول کوڈ جیسے بل پاس کرکے مسلمانوں کی شریعت میں مداخلت کی جارہی ہو، اگر یہ جمہوریت ہے تو شاید ہی کسی مذہب سماج کو ایسی جمہوریت کی ضرورت ہو؟

اللہ سے دعا ہیکہ انھیں صحیح سمجھ عطا فرمائے اور ملک میں صحیح معنی میں جمہوری نظام چلے۔ آمین ثم آمین

Tuesday, January 19, 2021

ارتدادی فتنوں سے بچاؤ کیلئے عقائد اسلام کی حفاظت وقت کی اہم ترین ضرورت!


 

ارتدادی فتنوں سے بچاؤ کیلئے عقائد اسلام کی حفاظت وقت کی اہم ترین ضرورت!

آن لائن تحفظ عقائد اسلام کانفرنس کی اختتامی نشست سے مفتی محمد شعیب اللہ خان مفتاحی کا خطاب!


بنگلور، 19؍ جنوری (ایم ٹی آئی ہچ): مرکز تحفظ اسلام ہند کی فخریہ پیشکش چالیس روزہ”سلسلہ عقائد اسلام“ کے زیر اہتمام منعقد آن لائن تحفظ عقائد اسلام کانفرنس کی اختتامی نشست سے خطاب کرتے ہوئے جامعہ اسلامیہ مسیح العلوم، بنگلور کے بانی و مہتمم، فقیہ العصر حضرت مولانا مفتی محمد شعیب اللہ خان صاحب مفتاحی مدظلہ نے فرمایا کہ عقیدہ و ایمان وہ چیز ہے جس کے اوپر انسان کی نجات کا دار و مدار ہے۔ اور اعمال کا نمبر عقیدہ کے بعد آتا ہے۔ ایک آدمی کا عقیدہ صحیح نہ ہو اور دین و شریعت کے بتائے ہوئے قانون کے مطابق نہ ہو تو ایسا آدمی روزہ بھی رکھے، نماز بھی پڑھے، زکوٰۃ بھی دے، حج بھی کرے لیکن اسکا کوئی اعتبار نہیں ہوا کرتا کیونکہ اعمال کا اعتبار ایمان اور صحیح عقیدہ پر ہے۔ اس لیے اسکی بڑی ضرورت ہے کہ مسلمان اس بات پر توجہ دیں کہ انکا ایمان صحیح ہو اور انکا عقیدہ اسلامی عقیدہ کے مطابق ہو، اس لیے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم ایمان کو بھی لیکر آئے جیسے اعمال کو لیکر آئے اور آپ نے لوگوں کو واضح طور پر بتا دیا کہ ایمان کیا ہوتا ہے؟ ایمان کیسا ہوتا ہے؟ ایمان کے لوازمات کیا ہیں؟ ایمان کے تقاضے کیا ہیں؟ کچھ چیزیں قرآن پاک نے بتائی اور کچھ چیزیں محمد عربی صلی اللہ علیہ و سلم نے اسکی تشریح میں اور اسکی وضاحت میں ارشاد فرمائیں۔ مفتی صاحب نے درد بھرے انداز میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ آج عقیدہ میں بڑی کمزوریاں پائی جاتی ہیں، اور نہ صرف یہ کہ کمزوریاں بلکہ کئی طبقات ایسے ہیں جنکے اندر عقیدہ کی خرابیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ ایک ہے کمزوری کا ہونا اور ایک ہے خرابی کا ہونا، کمزوری اگرچہ نہیں ہونا چاہیے لیکن ایک حدتک قابل برداشت ہوتی ہے لیکن عقیدہ ہی خراب ہوجائے تو ساری چیزیں بیکار ہیں۔


مولانا نے فرمایا کہ اللہ کے بارے میں، اللہ کے رسولوں کے بارے میں، تقدیر کے بارے میں، صحابہ کے بارے میں، اہل اللہ کے بارے میں کیا عقیدہ رکھنا چاہیے یہ اسلام نے واضح طور پر ہمیں بتایا ہے لیکن اس کے باوجود بعض لوگ غلطیاں کرتے ہیں اور اپنے اندر عقیدہ کی خرابی پیدا کر لیتے ہیں یہاں تک کہ انکا عقیدہ اسلامی عقیدہ سے ہٹا ہوا ہوتا ہے۔ مفتی صاحب نے فرمایا کہ اہل سنت و الجماعت جن میں اصحاب رسولؓ، تابعین، تبع تابعین اور ہر دور کے اہل حق کا طبقہ شامل ہے، انہوں نے ہم کو بتایا کہ کس کے بارے میں کیا عقیدہ رکھنا چاہیے، اس لیے کہ اگر عقیدہ خراب ہو گیا تو آدمی اہل سنت و الجماعت سے نکل جاتا ہے۔ مولانا مفتاحی نے فرمایا کہ ایک یہ ہے کہ آدمی ایمان نہ لائے، ایمان نہ لایا تو کافر ہو گیا اور اسکا اسلام سے کوئی رشتہ اور کوئی تعلق نہیں لیکن ایک آدمی ایمان تو رکھتا ہے، لیکن اسکے عقیدہ میں کچھ خرابیاں پیدا ہو گئی، اسکی وجہ سے وہ اہل سنت کے عقیدہ سے ہٹ جاتا ہے۔ اس لیے بڑی ضرورت ہے کہ اہل سنت کے عقیدہ کے مطابق اپنے عقیدوں کی اصلاح کی جائے، اپنے عقیدوں کو بنایا اور سوارا جائے۔


مفتی شعیب اللہ خان صاحب مفتاحی نے فرمایا کہ حدیث میں آقا نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا بنی اسرائیل 72؍ فرقوں میں بٹ گئے تھے اور میری امت 73؍ فرقوں میں بٹ جائے گی ان میں سے 72؍ فرقے جہنم میں جائیں گے اور ایک فرقہ نجات پائے گا، حضرات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پوچھا کہ یا رسول اللہؐ وہ ناجی فرقہ کونسا ہے؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا ”ما انا علیہ و اصحابی“ جو ان عقیدوں پر قائم ہو، جو اس ڈگر پر قائم ہو، اُس روش پر قائم ہو جس پر میں ہوں اور میرے صحابہ ہیں وہ فرقہ جنتی ہوگا۔ اور یہی عقیدہ اہل سنت و الجماعت کا ہے، جس کی طرف اللہ کے نبیؐ نے اشارہ کیا۔ مفتی صاحب نے فرمایا کہ آج ضرورت ہیکہ ہمیں اپنے اور دوسروں کے خصوصاً ہماری نئی نسلوں کے عقیدوں کو درست کرنے کی فکر کرنی چاہیے کیونکہ عقیدوں کی خرابی ہی وہ وجہ ہیکہ آج ہماری نئی نسلیں ارتدادی فتنوں کا شکار ہوتی جارہی ہیں۔ لہٰذا ارتدادی فتنوں سے بچاؤ کیلئے عقائد اسلام کی حفاظت وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ قابل ذکر ہیکہ مفتی محمد شعیب اللہ خان صاحب مفتاحی مدظلہ نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا اور اس منفرد چالیس روزہ سلسلہ عقائد اسلام پر مبارکبادی پیش کی۔ علاوہ ازیں مفتی صاحب کی ہی دعا سے یہ سلسلہ اور کانفرنس اپنے اختتام کو پہنچی۔

Sunday, January 17, 2021

پیام فرقان - 03

 


{ پیام فرقان - 03 }

🎯عقیدہ ہر عمل کی قبولیت کی اولین شرط ہے!


✍️ بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


عقیدہ ہر عمل کی قبولیت کی اولین شرط ہے، اگر عقیدہ درست ہو گا تو عمل قبول ہوگا اور اگر عقیدہ غلط ہوگا تو عمل قبول نہیں ہوگا۔ اسلامی عقیدے کی تعلیم وتفہیم اور اس کی طرف دعوت دینا ہر دور کا اہم فریضہ ہے۔ کیونکہ اعمال کی قبولیت عقیدے کی صحت پر موقوف ہے۔ اور دنیا وآخرت کی خوش نصیبی اسے مضبوطی سے تھامنے پر منحصر ہے اور اس عقیدے کے جمال وکمال میں نقص یا خلل ڈالنے والے تمام قسم کے امور سے بچنے پر موقوف ہے۔ لہٰذا ہمیں اپنے اور دوسروں کے عقیدوں کو درست کرنے کی فکر کرنی چاہیے تاکہ ہمیں دونوں جہاں کی خوشیاں اور کامیابیاں میسر ہو!


فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

17 جنوری 2021ء بروز اتوار

+918495087865

mdfurqan7865@gmail.com


Thursday, January 14, 2021

انسان کی نجات صحیح عقیدہ و ایمان پر منحصر ہے؛ توحید، رسالت اور آخرت اسلام کی بنیادی عقائد ہیں

 


انسان کی نجات صحیح عقیدہ و ایمان پر منحصر ہے؛ توحید، رسالت اور آخرت اسلام کی بنیادی عقائد ہیں!

آن لائن تحفظ عقائد اسلام کانفرنس سے مولانا محمد الیاس کا خطاب!


بنگلور، 14؍ جنوری (ایم ٹی آئی ہچ): مرکز تحفظ اسلام ہند کی آن لائن تحفظ عقائد اسلام کانفرنس کی تیسری اور چوتھی نشست سے خطاب کرتے ہوئے مجلس تحفظ ختم نبوت ہانگ کانگ کے امیر مولانا محمد الیاس صاحب نے فرمایا کہ عقیدہ و ایمان کا نور تین ستونوں پر جگمگاتا ہے جسکو علماء کی اصطلاح میں ”الایمان بثلاثیات“ کہا جاتا ہے یعنی ایمان کے تین نہایت ہی اہم مسئلے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ پورے قرآن پاک میں الم کی الف سے لیکر والناس کی سین تک جگہ جگہ ان تین چیزوں کو بیان کیا گیا ہے۔ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی مجلسوں میں مختلف لوگوں کے سامنے مختلف مقامات پر بیان کیا ہے، پہلا توحید، دوسرا رسالت، تیسرا آخرت، یہ تینوں عنوانات ہیں اور انکو یاد رکھنا بہت ضروری ہے، یہی وہ عنوانات ہیں جس پر انسان کی نجات ٹھہری ہوئی ہے۔


مولانا محمد الیاس نے عقیدۂ توحید پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ مولانا ادریس کاندھلویؒ نے اپنی کتاب”عقائد الاسلام“ میں اللہ رب ذوالجلال والاکرام کے متعلق 33؍ عقیدے لکھے ہیں۔ انہوں نے لکھا ہیکہ اللہ جل شانہ ایک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اس لیے کہ شرکت عیب ہے اور اللہ تعالیٰ ہر عیب سے پاک ہے۔ نیز شریک کی ضرورت جب ہوتی ہے کہ جب وہ کافی اور مستقل نہ ہو اور یہ نقص ہے جو الوہیت کے منافی ہے، اور جب وہ خود کافی اور مستقل ہوگا تو شریک کا وجود عبث اور بیکار ہوگا اور وہ خدا نہیں ہو سکتا۔پس شریک ثابت کرنے سے دو شریکوں میں سے کسی ایک شریک کا ناقص اور عیب دار ہونا لازم آتا ہے جو الوہیت کے منافی ہے۔ غرض یہ کہ شرکت کا ثابت کرنا شرکت کی نفی کو مستلزم ہے، پس ثابت ہوا کہ اللہ کا شریک محال ہے اور جب یہ ثابت ہو گیا کہ خدا کا کوئی شریک نہیں تو اس سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ خدا کے لیے نہ کوئی بیٹا ہو سکتا ہے اور نہ بیٹی، اس لیے کہ اولاد باپ کی ہم جنس اور ہم نوع ہوتی ہے۔ مولانا الیاس صاحب نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ذات کے اعتبار سے بھی اکیلا ہے اور صفات کے اعتبار سے بھی اکیلا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی پاک ذات میں بھی کوئی شریک نہیں اور اس پاک ذات کی صفات میں بھی کوئی شریک نہیں۔ اسی کو عقیدۂ توحید کہا جاتا ہے۔ مولانا الیاس صاحب نے اہل سنت و الجماعت کے عقیدۂ توحید پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ہے جو ہمیشہ ہمیش سے ہے اور ہمیشہ رہیگی نہ جسکی ابتدا ہے نہ انتہا، اور یہ شان صرف اور صرف اللہ کی ہے اللہ کے سوا یہ کسی کی شان نہیں۔ مولانا نے فرمایا جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات قدیم ہے ازلی و ابدی ہے ٹھیک اسی طرح اللہ کی صفات بھی قدیم ہیں، ازلی و ابدی ہیں۔ اور اہل سنت کا یہ عقیدہ بھی ہے کہ اللہ کی ذات ایک ہے اور اسکی صفتیں بہت ساری ہیں تو یہ صفات نہ عین ذات ہیں، نہ غیر ذات ہیں، بلکہ یہ سب لوازم ذات ہیں۔


مولانامحمد الیاس صاحب نے مولانا نورالحسن بخاریؒ کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا پہلا مقصد ہی عقیدۂ توحید کی خدمت ہے۔ مولانا الیاس نے دو ٹوک الفاظ میں فرمایا کہ علماء اہل سنت و الجماعت کے نزدیک عقیدہ توحید اللہ تعالیٰ کو صرف ماننے اور صرف اللہ اللہ کرنے کا نام نہیں بلکہ عقیدۂ توحید یہ ہے کہ فقط اسی ایک اللہ کی عبادت ہو اور مشکل کشاء بھی اسی ایک کو سمجھا جائے پھر حاجت روا بھی فقط اسی پاک ذات کو مانا جائے۔ قابل ذکر ہیکہ مولانا محمد الیاس صاحب نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔ اطلاعات کے مطابق مرکز تحفظ اسلام ہند کی فخریہ پیشکش چالیس روزہ ”سلسلہ عقائد اسلام“ اور آن لائن تحفظ عقائد اسلام کانفرنس کا اختتامی پروگرام 15؍ جنوری 2021ء کو منعقد ہے اور فقیہ العصر حضرت مولانا مفتی محمد شعیب اللہ خان صاحب مفتاحی مدظلہ کے خطاب و دعا سے اس سلسلے اور کانفرنس کا اختتام ہوگا۔

Wednesday, January 13, 2021

عقائد اسلام اور اسکی اہمیت!



 { پیام فرقان - 02 } 


🎯عقائد اسلام اور اسکی اہمیت!


✍️بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


عقیدہ مضبوط بندھی ہوئی گرہ کو کہتے ہیں، دین کی وہ اصولی اور ضروری باتیں جن کا جاننا اور دل سے ان پر یقین کرنا مسلمان کیلئے ضروری ہے- اسلام میں عقیدہ کو اولیت حاصل ہے- صحیح عقیدے کے بعد ہی اعمال کی ابتداء ہوتی ہے- صحیح عقیدہ ہی وہ بنیاد ہے جس پر دین قائم ہوتا ہے، اور اس کی درستگی پر ہی اعمال کی صحت کا دارومدار ہے- حیات انسانی میں عقیدہ کی جو اہمیت ہے، اس کی مثال عمارت کی بنیاد کی ہے- اگر اسکی بنیاد صحیح اور مضبوط ہوگی تو عمارت بھی صحیح اور مضبوط ہوگی اور اگر بنیاد ہی کھوکھلی، کمزور اور غلط ہوگی تو عمارت بھی کمزور اور غلط ہوگی اور ایک نہ ایک دن اسکے بھیانک نتائج لاحق ہونگے- بس کسی کا عقیدہ درست ہو اور کثرت عبادت نہ بھی ہو تو ایک نہ ایک دن جنت ضرور ملے گی اور اگر عقیدہ ہی غلط اور باطل ہو تو اسکا ٹھکانی ہمیشہ ہمیش کیلئے جہنم ہوگا- معلوم ہوا کہ عقائد اصل ہیں اور اعمال فرع ہیں اور صحیح عقائد ہی مدار نجات ہیں- لیکن افسوس کہ عقائد کی جتنی اہمیت ہے اتنے ہی ہم عقائد کے معاملے میں غافل اور اسکی محنت سے دور ہیں- یہی وجہ ہیکہ آج جگہ جگہ فتنوں کی کثرت ہورہی ہے اور نئے نئے ارتدادی فتنے جنم لے رہے ہیں- لہٰذا ہمیں عقائد اسلام پر اس طرح کی پختگی حاصل کرنی چاہیے کہ اس کے خلاف سوچنے یا عمل کرنے کی ہمارے اندر ہمت نہ ہو، اس کے خلاف سننا یا دیکھنا ہم سے برداشت نہ ہو، ہم اپنے عقائد پر اس طرح مضبوط ہوجائیں کہ پوری دنیا بھی اگر ہمارے پیچھے لگ جائے تب بھی ہم اپنے عقائد پر مضبوطی کے ساتھ جمے رہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے عقائد کی حفاظت فرمائے- آمین


فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

13 جنوری 2021ء بروز بدھ

+918495087865

mdfurqan7865@gmail.com



Tuesday, January 12, 2021

واٹساپ پرائیویسی بمقابلہ آخرت پرائیویسی! ✍️ بندہ محمّد فرقان عفی عنہ (ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)



 واٹساپ پرائیویسی بمقابلہ آخرت پرائیویسی!

✍️ بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


سوشل میڈیا کا مشہور و معروف میسنجنگ ایپ واٹس ایپ نے نئے سال میں اپنی سروس اور پرائیویسی پالیسی میں تبدیلیاں متعارف کرواتے ہوئے صارفین کو نوٹیفکیشنز بھیجی ہیں۔ اور نئی پالیسی کو قبول نہ کرنے کی صورت میں صارف اپنے واٹس ایپ اکاؤنٹ تک رسائی کھوبیٹھے گا اور اسے اکاؤنٹ ڈیلیٹ کرنا پڑے گا۔ صارفین کو نئی پالیسی قبول کرنے کے لیے آٹھ فروری تک کا وقت بھی دیا ہے۔ نئی پالیسی کے مطابق واٹس ایپ صارفین کا ڈیٹا نہ صرف استعمال کرے گا بلکہ اسے تھرڈ پارٹی بالخصوص فیس بک کے ساتھ شیئر بھی کرے گا۔ واٹس ایپ کی نئی پالیسی کے مطابق وہ صارف کا نام، موبائل نمبر، تصویر، سٹیٹس، فون ماڈل، آپریٹنگ سسٹم کے ساتھ ساتھ ڈیوائس کی انفارمیشن، آئی پی ایڈریس، موبائل نیٹ ورک اور لوکیشن بھی واٹس ایپ اور اس سے منسلک دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو مہیا کرے گا۔ اس کے ساتھ واٹس ایپ ٹرانزیکشن اور پیمنٹ کے نئے فیچر کی انفارمیشن بھی شئیر کرے گا۔ نئی پرائیویسی پالیسی میں واضح طور پہ کہا گیا ہے کہ انتظامیہ صارفین کا ڈیٹا سٹور کرنے کے لیے فیس بک کا عالمی انفرا سٹرکچر اور اس کے ڈیٹا سنٹرز استعمال کر رہی ہیں۔ ان میں امریکہ میں موجود ڈیٹا سنٹر بھی شامل ہے۔


صارفین کی جانب سے واٹس ایپ پرائیویسی پالیسی میں تبدیلی پر خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے اور ان میں ڈر و خوف کا ماحول پایا جارہا ہے۔واٹساپ صارفین کی ایک بڑی تعداد واٹساپ کو الوداع کہ چکی ہے اور ایک بڑی تعداد الوداع کہنے کی تیاری میں ہے۔ صارفین اپنی پرائیویسی بچانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور واٹس ایپ کا متبادل تلاش کرتے ہوئے دیگر میسیجنگ ایپ کی طرف منتقل ہورہے ہیں۔ پرائیویسی کے خطرات مسلمانوں کیلئے زیادہ معنیٰ رکھتی ہیں کیونکہ یہود و نصاریٰ کے رگوں کے اندر دوڑنے والے خون کے ایک ایک قطرے میں اسلام دشمنی شامل ہے۔ اور حالیہ دنوں میں اپنی پرائیویسی کو لیکر مسلمان بھی فکرمند نظر آرہے ہیں۔ لیکن کیا ہم مسلمانوں کو واقعی اپنی پرائیویسی کی فکر ہے؟ کیا واقعی پرائیویسی ہمارے لئے کوئی معنیٰ رکھتی ہے؟ کیا ہم واقعی اپنا ڈیٹا محفوظ رکھنا چاہتے ہیں؟ یقیناً ہم پرائیویسی کو لیکر فکر مند نظر آرہے ہیں۔ لیکن کیا ہمیں معلوم نہیں کہ ایک ایسا دن بھی آنے والا ہے جب ہماری زندگی کی پرائیویسی کا نام و نشان ختم کردیا جائے گا اور ہماری زندگی کا مکمل ڈیٹا سب کے سامنے کھول کر رکھا جائے گا اور شئیر کیا جائے گا!


جی ہاں! آپ نے صحیح پڑھا کہ عنقریب ایک ایسا ہولناک دن آنے والا ہے جب آپکا مکمل ڈیٹا نوع انسانی کے سامنے رکھا جائے۔ جس دن جن و انس، چرند و پرند سب حیرت کے عالم میں ادھر ادھر بھاگتے ہونگے اور ایک بھیانک آواز سے سب کے جگر ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے، پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر روئی کی طرح اڑنے لگیں گے، آسمان پھٹ جائے گا، ستارے جھڑ جائیں گے، پورا عالم فنا ہوجائے گا اور اللہ کی ذات کے علاوہ کوئی چیز باقی نہیں رہے گی۔ ہاں ہم اسی ہولناک دن کی بات کررہے ہیں جس دن سنگین حادثات پیش آئیں گے، ہر طرف شر پھیلا ہوگا اور مصیبت چھائی ہوگی، مردے قبروں سے اٹھیں گے اور میدان محشر میں آئیں گے، جہاں اللہ کی عدالت لگی ہوئی ہوگی، بڑے بڑے شیر دل اور بہادر لوگوں کے دل بھی زور زور سے دھڑکنے لگیں گے اور ان کی آنکھیں فرط خوف سے جھکی ہوں گی، اوپر آنکھ اٹھاکر دیکھنے کی انہیں ہمت نہیں ہوگی، لیکن ہر ایک کو بار گاہ الٰہی میں پیش ہونا ہوگا، رب کے سامنے آکر ہم کلام ہونا پڑے گا، درمیان میں کوئی ترجمان بھی نہیں ہوگا، زندگی کا مکمل ڈیٹا یعنی دنیا میں کیے ہوئے سب اعمال سامنے ہوں گے، ان کے بارے میں جواب دہی ہوگی، انسان کا ہر عمل اللہ کے علم، لوح محفوظ اور کرامً کاتبین کے رجسٹر میں محفوظ ہوگا۔ یہی وہ قیامت کا دن ہوگا جس دن پرائیویسی کا کوئی تصور نہ ہوگا، جہاں آپکے والدین، بیوی بچے، رشتہ دار اور پوری نوع انسانی کے سامنے آپکی زندگی کا مکمل ڈیٹا رکھا جائے گا اور حساب و کتاب ہوگا، ایک ترازو میں آپ کے اعمال تولے جائیں گے اور اعمال کے اعتبار سے نیک لوگوں کو جنت کا عیش اور بد لوگوں کو جہنم کا عذاب نصیب ہوگا۔ ایسے ہولناک دن میں اپنی پرائیویسی کو محفوظ رکھنے کے بارے میں کیا ہم نے کبھی سوچا ہے؟ جبکہ روز محشر ایک ایسی پالیسی ہے جسکو صدیوں سے بیان کیا جارہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو قرآن میں واضح الفاظ میں میدان محشر کی ہولناکی اور حساب و کتاب کا تذکرہ کیا ہے۔ قرآن کے سورۃ الانفطار میں فرمایا ”اِذَا السَّمَآءُ انْفَطَرَتْ“ کہ جب آسمان پھٹ جائے۔”وَاِذَا الْکَوَاکِبُ انْتَثَرَتْ“ اور جب ستارے جھڑ جائیں۔ ”وَاِذَا الْبِحَارُ فُجِّرَتْ“اور جب سمندر ابل پڑیں۔”وَاِذَا الْقُبُوْرُ بُعْثِرَتْ“ اور جب قبریں اکھاڑ دی جائیں۔”عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ وَاَخَّرَتْ“ تب ہر شخص جان لے گا کہ کیا آگے بھیجا اور کیا پیچھے چھوڑ آیا۔ (سورۃ الانفطار، آیت 1 یا 5)۔ ایک اور جگہ سورۃ الجاثیۃ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ”قُلِ اللّٰہُ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یَجْمَعُکُمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ لَا رَیْبَ فِیْہِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ“ کہ کہہ دو اللہ ہی تمہیں زندہ کرتا ہے پھر تمہیں مارتا ہے پھر وہی تم سب کو قیامت میں جمع کرے گا جس میں کوئی شک نہیں لیکن اکثر آدمی نہیں جانتے۔(سورۃ الجاثیۃ، آیت 26)۔ اور فرمایا ”وَوَتَرٰی کُلَّ اُمَّۃٍ جَاثِیَۃً ۚ کُلُّ اُمَّۃٍ تُدْعٰٓی اِلٰی كِتَابِـهَاۖ اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ“ اور آپ ہر ایک جماعت کو گھٹنے ٹیکے ہوئے دیکھیں گے، ہر ایک جماعت اپنے نامۂ اعمال کی طرف بلائی جائے گی، (کہا جائے گا) آج تمہیں تمہارے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔(سورۃ الجاثیۃ، آیت 28)۔ اور فرمایا ”ہٰذَا کِتَابُنَا یَنْطِقُ عَلَیْکُمْ بِالْحَقِّ اِنَّا کُنَّا نَسْتَنْسِخُ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ“ یہ ہمارا دفتر تم پر سچ سچ بول رہا ہے، کیونکہ جو کچھ تم کیا کرتے تھے اسے ہم لکھ لیا کرتے تھے۔ (سورۃ الجاثیۃ، آیت 29)۔ ایسی متعدد آیات و احادیث میں قیامت کی ہولناکی اور آخرت کا واضح طور پر تذکرہ کیا گیا ہے۔ اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہیکہ اس دنیائے فانی میں انسان کو آخرت کی تیاری کیلئے ہی بھیجا گیا ہے اور اس بات کو بار بار یاد دلوانے کیلئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے تقریباً سوا لاکھ پیغمبروں کو اپنے بندوں کے درمیان بھیجا۔ لیکن افسوس کی بات ہیکہ آج ہم قیامت کے ہولناک دن کو بھول چکے ہیں۔ ہم واٹساپ اور اسکی نئی پالیسی کے بارے میں تو فکر مند ہیں لیکن ہم نے میدان محشراور اسکے حساب و کتاب کی پالیسی کو بھلا دیا، ہمیں یہ بات تو خوب ستارہی ہے کہ واٹساپ ہمارا ڈیٹا فیس بک اور دیگر کمپنیوں کے سامنے رکھے گا لیکن ہائے افسوس کہ ہمیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ میدان محشر میں ہم لوگوں کی زندگی کا مکمل ڈیٹا ہمارے آباؤ اجداد اور نسلوں کے سامنے رکھا جائے گا، ہم اپنی پرائیویسی کی فکر کرتے ہوئے واٹساپ کا متبادل تلاش کرنے میں لگے ہوئے ہیں لیکن کیا ہم نے میدان محشر میں اپنی پرائیویسی کو محفوظ رکھنے کیلئے بنا حساب و کتاب جنت میں داخل ہونے کے متبادل طریقہ کو کبھی تلاش کیا؟ جبکہ یہ بات متعدد حدیثوں سے ثابت ہیکہ بعض خوش نصیب اللہ تعالیٰ کے نیک بندے اس روز ہر حزن و غم سے محفوظ ہوں گے، ان کے دل مطمئن ہوں گے، ان کی طبیعتوں میں کسی قسم کا اضطراب نہ ہوگا اور فرشتے ان کا استقبال کریں گے، انھیں بتائیں گے یہی وہ تمہارا دن ہے، جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا اور وہ لوگ بنا حساب و کتاب جنت میں داخل ہوجائیں۔لیکن افسوس کہ ہم دنیاوی زندگی کو پرتعیش اور کامیاب بنانے میں اس قدر مشغول ہیں کہ اپنی آخرت کو ہی بھول گئے۔ حالانکہ دنیا کی زندگی تو چند دن کی ہے اور اسی زندگی میں ہم آخرت کیلئے اچھے اعمال کرکے جنت میں اپنے لئے ہمیشہ کی زندگی کو کامیاب بناسکتے ہیں۔ اسی کو کسی نے کہا تھا:

دنیا کی عشرت یاد رہی محشر کا منظر بھول گئے

جی ایسا لگایا جینے میں مرنے کو مسلماں بھول گئے


قرآن مجید کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آخرت لازمی ہے اور آنے والی ہے۔ دنیوی زندگی محدود ہے اور اخروی زندگی لا محدود ہے۔ ہرانسان کو دنیا کی زندگی میں کیے ہوئے اعمال کا بدلہ آخرت میں ملنے والا ہے۔ دنیا دار العمل ہے اور آخرت دار الجزاء ہے۔ انبیاء کرام علیہم السلام کی زندگیاں فکر آخرت سے کبھی خالی نہیں رہیں۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی آخرت کی فکر میں گزاری اور اپنی امت کو بھی یہی تعلیم دی کہ آخرت کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں اور اسکی تیاری کریں۔ صحابہ کرام اور صلحاء عظام کی زندگیوں پر بھی فکر آخرت غالب رہتی تھی۔ اللہ کی عظمت، اس کا جلال، آخرت کی فکر اور یوم الحساب کی ہولناکی کا تصور ان کے دل و دماغ پر چھا گیا تھا۔ وہ قرآن کریم پڑھتے یا سنتے تو سسکیاں لینے لگتے۔ وہ قبریں دیکھتے تو اتنا روتے کہ داڑھی آنسوؤں سے تر ہوجاتی۔ وہ میدان جنگ میں حیدر کرار تھے لیکن تنہائیوں میں خدا کے خوف اور آخرت کی فکر سے اس طرح کانپتے، تلملاتے اور بے چین ہوتے جیسے انہیں کچھ ہوگیا ہو۔ وہ صداقت وامانت میں صدیق ہوتے لیکن چڑیوں کوچہچہاتے دیکھتے تو کہہ اُٹھتے کاش میں بھی چڑیا ہوتا کہ آخرت کے حساب کتاب سے بچ جاتا۔ ہائے افسوس کہ آج ہم نے نہ صرف اپنے اسلاف کی تعلیم کو بھلا دیا ہے بلکہ اپنے مقصد زندگی اور اپنی منزل کو ہی بھلا بیٹھے ہیں۔ہماری منزل اللہ کی رضا، اس کی خوشنودی، جنت کا حصول ہے۔ ایک مومن کا اصل گھر آخرت ہے، یہ دنیا اس گھر کی تیاری کی جگہ ہے۔ لہٰذا اس کو اس کی تیاری کرتے رہنا چاہیے۔ ہمہ وقت، ہر لحظہ، ہر آن اس کی فکر کرنی چاہیے۔ اس عارضی گھر دنیا کو اپنا وطن نہ سمجھے، سفر کے دوران سو نہ جائے، اس میں مگن نہ ہوجائے۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو منزل پر پہنچنا دشوار ہوجائے گا۔ اور ایک مومن کا اللہ سے ایک معاہدہ ہوا ہے اور وہ جان ومال کے بدلے جنت کا معاہدہ ہے۔ اللہ نے فرمایا: ”إِنَّ اللَّہَ اشْتَرَیٰ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ أَنفُسَہُمْ وَأَمْوَالَہُم بِأَنَّ لَہُمُ الْجَنَّۃَ“بے شک اللہ نے مسلمانوں سے ان کی جان اور ان کا مال اس قیمت پر خرید لیے ہیں کہ ان کے لیے جنت ہے۔(سورۃ التوبہ: 111)۔ جنت بہت قیمتی چیز ہے یہ تبھی ملے گی، جب زبان کے اعلان کے ساتھ عمل سے ثابت کیاجائے۔ اپنی جان ومال، اپنی تمام صلاحیتوں، قوتوں، لیاقتوں اور ہنرمندیوں کے ساتھ اس کے حصول کے لیے لگا جائے۔ ہرطرف سے کٹ کر اللہ کی رضا کے لیے یکسو ہوجائیں۔ جس دن ہم اسے عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوگئے تو یاد رکھیں دنیا و آخرت کی کامیابیاں ہمارے قدم چومیں گی اور ہماری آخرت کی پرائیویسی محفوظ رہے گی۔ اور ایسے حالات میں جب قرب قیامت کی نشانیاں ظاہر ہونی شروع ہوچکی ہیں تو آخرت کی تیاری میں غفلت آگے پریشانی کا سبب بن سکتی ہے۔لہٰذا اب وقت ہیکہ ہم خواب غفلت سے جاگیں اور آخرت کی تیاری کریں کیونکہ قیامت اب قریب ہے۔

کوئی تیری غفلت کی ہے انتہا بھی

جنون چھوڑ کر اب ہوش میں آبھی

جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے

یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے


فقط و السلام

بندہ محمد فرقان عفی عنہ*

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

٢٧؍ جمادی الاول ١٤٤٢ھ

مطابق 12؍ جنوری 2021ء


+91 8495087865

mdfurqan7865@gmail.com

_________________

*ابن مولانا محمد ریاض الدین مظاہری

متعلم جامعہ ابو ہریرہ ؓ اکیڈمی

ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند

صدر مجلس احرار اسلام بنگلور

رکن عاملہ جمعیۃ علماء ساؤتھ بنگلور


#پیغام_فرقان #آخرت #قیامت #واٹساپ

عقیدہ ایمان کا دوسرا نام ہے، عقیدۂ توحید اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے!



 عقیدہ ایمان کا دوسرا نام ہے، عقیدۂ توحید اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے!

آن لائن تحفظ عقائد اسلام کانفرنس سے مولانا محمد الیاس کا خطاب!


ٍ بنگلور، 12/ جنوری (ایم ٹی آئی ہچ): مرکز تحفظ اسلام ہند کی آن لائن تحفظ عقائد اسلام کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مجلس تحفظ ختم نبوت ہانگ کانگ کے رکن حضرت مولانا محمد الیاس صاحب نے فرمایا کہ عقیدہ کا لغوی معنی گرہ کے ہیں اور اصطلاحی (اسلامی) معنی ایمان کے ہیں یعنی عقیدہ کا دوسرا نام ایمان ہے۔ عقیدہ اس بات کو کہتے ہیں جس بات کو ماننا اور جاننا ہر انسان کے لیے ضروری ہے۔ اعمال کیلئے عقیدہ ایسا ہے جیسے انسان کے جسم کیلئے روح، معلوم ہوا کہ اعمال کی روح اور جان صحیح عقیدہ ہے۔ اسکی اہمیت فقط اس بات سے لگائی جاسکتی ہیکہ امام اعظم ابو حنیفہؒ نے اعمال کی فقہ لکھنے سے پہلے”فقہ الاکبر“ کے نام سے عقائد کی فقہ لکھی تاکہ امت کے عقائد کی حفاظت ہو سکے۔ مولانا الیاس صاحب نے فرمایا کہ مولانا ادریس کاندھلویؒ فرماتے ہیں کہ ضروریات دین کی ہر بات کو ماننا ایمان ہے اور ضروریات دین میں سے کسی بات کا انکار کرنا کفر ہے۔ انہوں نے کتاب ”عقائد الاسلام“کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ جسکے عقیدے صحیح ہوں گے اس کے حق میں دوزخ کا دائمی عذاب مفقود ہے۔ مولانا الیاس نے دو ٹوک الفاظ میں فرمایا کہ اسلام کی بنیاد میں اگر ایک عقیدہ بھی خراب ہو گیا تو اسلام کی تمام عمارت خراب ہو گئی۔ اور عقیدہ و ایمان ایک ایسا نور ہے کہ یہ جس دل میں آئیگا تو پورا آئیگا ورنہ ذرا بھی نہیں آئیگا۔ حضرت نے فرمایا یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک آدمی 90/ فیصد مسلمان ہو اور 10/ فیصد کافر ہو یا 90/ فیصد کافر ہو اور 10/ فیصد مسلمان ہو۔ لہٰذا عقائد اسلام کی اہمیت و عظمت کو جاننا اور سمجھنا بہت ضروری ہے۔


آن لائن تحفظ عقائد اسلام کانفرنس کی دوسری نشست میں عقیدۂ توحید پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا محمد الیاس نے فرمایا کہ عقیدۂ توحید اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے۔ مولانا الیاس نے کتاب ”عقائد الاسلام“ کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنی قدیم ذات اور صفات کے ساتھ خود بخود موجود اور موصوف ہے اور اسکے سوا تمام اشیاء اسی کی ایجاد سے موجود ہوئی ہیں، خدا تعالیٰ کو خدا اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ وہ خود بخود ہے اس کی ہستی خود اسی سے ہے اور اسکی ذات و صفات کے سوا تمام عالم اور اسکی تمام اشیاء حادث اور نو پیدا ہیں عدم سے وجود میں آئی ہیں۔ اسی لیے جہان کی کوئی شے ایک حال پر قائم نہیں تغیر اور تبدل کی آماجگاہ اور فنا اور زوال کی جولا نگاہ بنی ہوئی ہے۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ عالم خود بخود موجود نہیں ہوا۔ بلکہ اسکا وجود اور ہستی کسی اور ذات کا عطیہ ہے۔ پس وہ ذات بابرکات جو تمام اشیاء کے وجود اور ہستی کا مالک ہے اسی کو ہم اللہ اور خدا اور مالک الملک کہتے ہیں، اور اصل مالک یعنی مالک حقیقی بھی وہی ہے۔ جسکے قبضۂ قدرت میں تمام کائنات کا وجود ہو۔ مولانا نے فرمایا کہ خوب سمجھ لو کہ حقیقی مالک وہی ہے جو وجود کا مالک ہے اور جو وجود کا مالک نہیں وہ حقیقی مالک نہیں۔ مولانا الیاس نے فرمایا کہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء آفرینش عالم سے اس وقت تک تمام دنیا کے ہر حصے اور خطے میں تقریباً سب کے سب خدا تعالیٰ کے قائل رہے اور دنیا کے تمام مذاہب و ادیان سب اس پر متفق ہیں کہ خدائے برحق موجود ہے، اسی نے اپنی قدرت اور ارادے سے اس عالم کو پیدا کیا۔ مولانا نے فرمایا کہ مادہ پرستوں کا گروہ جن کا دوسرا نام منکرین مذہب ہے وہ نہایت بے باکی کے ساتھ خدا کے وجود کا انکار کرتے ہیں۔ اور یہ کہتا ہے کہ خدا کا کوئی واقعی وجود نہیں۔ خدا محض ایک موہوم اور فرضی شے ہے۔ حالانکہ یہ بات سراسر غلط اور بے بنیاد ہے۔ قابل ذکر ہے کہ مولانا محمد الیاس صاحب نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔ اطلاعات کے مطابق مرکز تحفظ اسلام ہند کی فخریہ پیشکش چالیس روزہ ”سلسلہ عقائد اسلام“ اپنے اختتام کی طرف گامزن ہے۔ بتایا جارہا ہیکہ اسی سلسلے کی سب سے اہم کڑی آن لائن تحفظ عقائد اسلام کانفرنس سے عنقریب مولانا احمد ومیض صاحب ندوی نقشبندی اور مفتی شعیب اللہ خان صاحب مفتاحی مدظلہم وغیرہ بھی خطاب کرنے والے ہیں۔

Friday, January 8, 2021

مسیح و مہدی سے متعلق پیشین گوئیاں!

 


مسیح و مہدی سے متعلق پیشین گوئیاں! 


 از قلم : حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب مدظلہ


رسول اللہ کے ذریعہ دین و شریعت کی جو تعلیمات ہم تک پہنچی ہیں ، وہ اسلام کا سب سے آخری اور سب سے مکمل ایڈیشن ہے ، جس کا آغاز حضرت آدم علیہ السلام سے ہوا اور جس کی انتہاء حضور ختمی مرتبت جناب محمد رسول اللہ اپر ہوئی ، اسی کو قرآن مجید نے ’ اکمال دین ‘ یعنی دین کو مکمل کرنے اور ’ اتمام نعمت ‘ یعنی نعمت وحی کو پوری کردینے سے تعبیر کیا ہے ، (المائدۃ : ۳) آپ سے پہلے ہر عہد میں نبی آیا کرتے تھے اور وہ اُمت کی نہ صرف دینی رہنمائی کرتے تھے ؛ بلکہ بعض اوقات ان کی سیاسی قیادت بھی فرمایا کرتے تھے ، جیسے حضرت داؤد علیہ السلام ، حضرت سلیمان علیہ السلام ، حضرت یوسف علیہ السلام اور خود رسول اللہ ا ، نبوت کا مقام مخلوق میں سب سے اعلیٰ ترین مقام ہے ، یہاں تک کہ اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ انبیاء کو فرشتوں پر بھی فضیلت حاصل ہے ؛ لیکن نبوت کا تعلق کسب و محنت ، جدوجہد اور مجاہدات سے نہیں تھا ؛ بلکہ یہ اللہ کی طرف سے انتخاب ہوا کرتا تھا ، جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اجتباء اور اصطفاء کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے ، (الانعام : ۸۷ ، آل عمران : ۳۳) جس کے معنی چُن لینے اور منتخب کرلینے کے ہیں ۔


لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اب اُمت کو ہادی و نمونہ اور مصلح کی ضرورت نہیں رہی ، یہ ضرورت باقی ہے اور قیامت تک باقی رہے گی اور آپ انے اس بات کی بھی صراحت فرمادی کہ اس اُمت میں مصلحین کا تسلسل رہے گا : ’’ لا تزال طائفۃ من أمتی یقاتلون علی الحق ظاہرین إلی یوم القیامۃ‘‘ ( مسلم ، عن جابر بن عبد اللہ ، کتاب الایمان ، حدیث نمبر : ۲۴۷) لیکن اُمت کے یہ مصلحین مجاہدات کے ذریعہ اپنے فریضے کو انجام دیں گے اور جدوجہد کے ذریعہ اس مقام پر پہنچیں گے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ اُمت کو نفع پہنچائیں ، یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ایسا منتخب عہدہ نہیں ہوگا کہ جس کا دعویٰ کیا جاسکے ، وہ شخص یہ کہہ سکے کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور کیا گیا ہوں اور تم لوگوں کو ہماری اطاعت و اتباع کرنی ہے ، ان مصلحین میں سب سے اعلیٰ درجہ خلفائے راشدین کا تھا اور خلافت راشدہ کا دور حدیث کی صراحت کے مطابق آپ اکے بعد تیس سال کا تھا ، جو حضرت حسن بن علی ؓکی وفات پر مکمل ہوتا ہے ، (سنن الترمذی ، باب ماجاء فی الخلافۃ ، حدیث نمبر : ۲۲۲، العرف الشذی : ۲؍۴۲۰) ان کے بعد امراء و سلاطین آئے ، جن میں اچھے بھی تھے اور بُرے بھی ، جن میں خادمین دین و شریعت بھی تھے اور ہادمین دین و شریعت بھی ، عادل بھی تھے اور ظالم بھی ؛ چنانچہ خلافت راشدہ کے بعد دینی اور سیاسی اقتدار آہستہ آہستہ تقسیم ہوگیا ، بادشاہوں نے حکومت سنبھالی اور اُمت کے مصلحین ، علماء ربانیین اور داعیان دین نے تعلیم و تربیت ، ترزکیہ و احسان ، دعوت و تبلیغ ، احکام شریعت کا اجتہاد و استنباط ، اسلامی علوم کی نشر واشاعت ، اسلام کے خلاف اُٹھنے والے ارتداد و انحراف کے فتنوں کا مقابلہ ، یہ سارے اہم فرائض انجام دیئے اور ان ہی کے ذریعہ دین کی امانت ہم تک پہنچی ہے ، یہ دراصل وہ کام ہے جس کو رسول اللہ ا نے تجدید دین قرار دیا ہے ، یعنی دین کی بنیادوں کو بار بار تازہ کرنا ، مخالفانہ تحریکوں سے اس کی حفاظت کرنا اور دین و شریعت کو ہر طرح کی آمیزش اور ملاوٹ سے بچائے رکھنا ، رسول اللہ انے فرمایا کہ ہر صدی میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے ، (سنن ابی داؤد ، کتاب الملاحم ، حدیث نمبر : ۴۲۹۱) کیوںکہ جب رسول اللہ اپر نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا اور آپ اکے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا ، تو اب اُمت میں ایسے مجددین و مصلحین کا تسلسل ضروری ہے ۔


کار ِتجدید و اصلاح کے لئے مستقبل میں صرف دو ایسی شخصیتوں کی آمد ہونے والی ہے ، جن کو خصوصی اہمیت حاصل ہے اور وہ انتہائی نازک حالات میں اسلام کی سربلندی ، اعداء اسلام کی سرکوبی اور غیر معمولی حالات میں اُمت کی رہنمائی اور قیادت کے لئے دنیا میں تشریف لائیں گے ، جن کا اصل ہدف یہودیوں اور نصرانیوں کی طرف سے مسلمانوں پر ہونے والی یلغار کا مقابلہ کرنا ہوگا ؛ چنانچہ رسول اللہ انے ارشاد فرمایا کہ وہ اُمت ہلاک نہیں ہوگی ، جس کی ابتدا مجھ سے ہوئی ہے ، جس کی انتہاء میں حضرت عیسیٰ بن مریم نازل ہوں گے اور درمیان میں امام مہدی آئیں گے : ’’لن تھلک أمۃ أنا فی أولھا وعیسیٰ بن مریم فی آخرھا والمپدی فی وسطھا‘‘ ۔ (کنز العمال ، خروج المہدی ، حدیث نمبر : ۳۸۶۷۲)


رسول اللہ اپر سلسلۂ نبوت کے مکمل ہوجانے کا ایک بڑا فائدہ اس اُمت کو جمعیت اور اور یکسوئی کی شکل میں حاصل ہوا ہے ، یعنی اب کسی نبی کا انتظار باقی نہیں رہا ، اگر نبوت کا سلسلہ جاری رہتا تو ہمیشہ لوگوں کو اگلے نبی کا انتظار ہوتا ، یہ یقینا انتہائی مصیبت اور آزمائش کی بات ہوتی ، پھر جب کوئی نیا نبی آتا تو کچھ ایمان لاتے اور کچھ لوگ انکار کرتے ، جیساکہ گذشتہ انبیاء کے ساتھ ہوتا رہا ، اس کی وجہ سے ہمیشہ اُمت اختلاف و انتشار ، بے اطمینانی اور امتحان و آزمائش سے گذرتی رہتی ، رسول اللہ اپر سلسلۂ نبوت کی تکمیل نے اس راستہ کو ہمیشہ کے لئے بند کردیا ؛ اسی لئے مسلمانوں میں فکر و نظر کے ہزار اختلاف کے باوجود رسول اللہ اکی ذات گرامی نقطۂ اتفاق بنی رہی ، یہ وحدت اُمت کی ایسی اساس ہے جو دوسری قوموں کو حاصل نہیں ۔


جن دو غیر معمولی شخصیتوں کی آمد اور ظہور کا آپ انے ذکر فرمایا ہے ، آپ نے ان کی علامتوں کو بھی بہت زیادہ واضح فرمادیا ہے ؛ کیوںکہ آپ کو اندازہ رہا ہوگا کہ جو بدبخت آپ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرے گا ، مسلمان کسی تامل وتردد کے بغیر اس کو رد کردیں گے ؛ لیکن یہ اندیشہ تھا کہ کوئی بہروپیا اپنے آپ کو مسیح یا مہدی قرار دے ، اور آپ کی پیشین گوئیوں کو اپنے لئے بہانہ بنائے ؛ اس لئے آپ نے ان دونوں شخصیتوں کی اتنی وضاحت کے ساتھ نشاندھی فرمادی ، جتنی عام طورپر ایک پیغمبر اپنے بعد آنے والے پیغمبر کی بھی نہیں کیا کرتا تھا ، قرآن مجید کا خود بیان ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے بعد رسول اللہ اکی آمد کی بشارت دی تھی اور کہا تھا کہ آنے والے نبی کا نام ’ احمد ‘ ہوگا ؛ لیکن آپ کے والدین کے کیا نام ہوں گے ، آپ کا خاندان کیا ہوگا ، کہاں آپ کی ولادت کہاں ہوگی ، کہاں آپ کی وفات ہوگی ، کتنے سال دنیا میں آپ کا قیام رہے گا ؟ اس کی صراحت اس پیشین گوئی میں نہیں ہے ؛ لیکن مسیح و مہدی کے بارے میں رسول اللہ اکے ارشادات میں ہمیں ان تمام باتوں کی صراحت ملتی ہے ۔


حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خاندان کے ذکر کی ضرورت تو اس لئے نہیں تھی کہ قرآن مجید میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ، آپ کی والدہ حضرت مریم ، آپ کے معجزات ، آپ کی دعوتی جدوجہد ، یہودیوں کے ساتھ آپ کے سلوک اور پھر آپ کے آسمان پر اُٹھائے جانے کا ذکر وضاحت و صراحت کے ساتھ موجود ہے اور رسول اللہ اکی حدیثیں اس کو مزید واضح کرتی ہیں ، اب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی کا یہ حصہ باقی رہ گیا تھا کہ جب وہ جو قیامت کے قریب آسمان سے اُتریں گے — جس کے قائل مسلمان بھی ہیں اور عیسائی بھی — تو ان کی اُترنے کی کیا کیفیت ہوگی ؟ چنانچہ احادیث میں تفصیل موجود ہے کہ آپ کا نزول دمشق میں ہوگا ، آپ سفید مینارہ پر اُتریں گے ، آپ کو ایک بادل نے اُٹھا رکھا ہوگا ، آپ کے جسم پر دو چادریں ہوں گی ، آپ دجال جو ایک یہودی فریب کار ہوگا ، کو قتل فرمائیں گے ، تشریف آوری کے اکیس سال بعد حضرت شعیب علیہ السلام کے قبیلہ میں آپ کا نکاح ہوگا ، آپ ہی کے عہد میں یاجوج ماجوج کا اسلامی سلطنت پر حملہ ہوگا ، اور وہ پورے مشرق وسطی کو تباہ وبرباد کرکے رکھ دیں گے ، اپنی تشریف آوری کے بعد چالیس سال تک دنیا میں قیام فرمائیں گے ، آپ کی وفات مدینہ منورہ میں ہوگی اور رسول ا کے روضۂ اطہر میں آپ کی تدفین ہوگی ، یہ بات بڑی اہم ہے کہ قرآن مجید میں کتنے ہی انبیاء کا ذکر آیا ہے ؛ لیکن ان کے نام کے ساتھ ان کی ولدیت کا ذکر نہیں کیا گیا ، مثلاً اسماعیل بن ابراہیم ، یعقوب بن اسحاق یا یوسف بن یعقوب نہیں فرمایا گیا ، یہی صورت حال احادیث کی ہے ؛ لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر قرآن و حدیث میں زیادہ تر عیسیٰ بن مریم کے نام سے ہے ، اور یہ ان حدیثوں میں بھی ہے جن میں قیامت کے قریب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد کی پیشین گوئی کی گئی ہے ، یہ اس بات کی صراحت ہے کہ جو مسیح پہلے دنیا سے اُٹھائے جاچکے ہیں ، وہی حضرت مریم کے بیٹے مسیح پھر آسمان سے اُتارے جائیں گے ، یہ مراد نہیں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جیسا یا آپ کی صفات کا حامل شخص موجودہ لوگوں میں ظاہر ہوگا ، یہ علامتیں اتنی واضح ہیں کہ کوئی حقیقت پسند شخص اس کی جھوٹی تاویل نہیں کرسکتا ، اس کی تاویل وہی شخص کرسکتا ہے ، جو دن کو رات کہنے سے بھی نہ شرماتا ہو۔


حضرت مسیح کا دوبارہ آسمان سے نازل ہونا ایک ایسا واقعہ ہے جس پر ڈھیر ساری حدیثیں موجود ہیں اور نقل حدیث کی جو سب سے اعلیٰ صورت ہوتی ہے جس کو ’ تواتر ‘ کہتے ہیں ، اس سے اس کا ثبوت ہے ، ہندوستان کے ایک بڑے محدث علامہ سید انور شاہ کشمیریؒ نے ’’ التصریح بما تواتر فی نزول المسیح‘‘ کے نام سے ان ساری روایتوں کو جمع فرمایا ہے ، قرآن و حدیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اُمت محمدیہ کی تائید و تقویت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ایک خصوصی مقام حاصل ہے ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام من جانب اللہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے ، اس بات نے بچپن ہی میں آپ کی دُور دُور تک شہرت پہنچائی ، پھر آپ کے ہاتھوں پر ایسے حیرت انگیز معجزے ظاہر ہوئے ، جس سے شہر شہر قریہ قریہ آپ کا چرچا ہونے لگا ، پھر جب آپ شہرت و تعارف کی بلند چوٹی پر پہنچ گئے تو آپ کی زبان مبارک سے رسول اللہ ا کی نبوت کی بشارت سنائی گئی ؛ تاکہ یہ پیغام دُور دُور تک پہنچے ؛ کیوںکہ جب کسی شخص سے حیرت انگیز باتیں ظاہر ہوتی ہیں تو اس کی ہر بات کان لگاکر سنی جاتی ہے ؛ اسی لئے جب رسول اللہ انبی بنائے گئے تو نہ صرف یہودیوں کے اور عیسائیوں میں بلکہ عربوں میں بھی یہ چرچا تھا کہ کوئی نبی ظاہر ہونے والا ہے ، یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے حکم سے اوپر اُٹھالئے گئے ، اب پھر جب آپ قیامت کے قریب اُتارے جائیں گے تو اس کا مقصد بھی اُمت محمدیہ کی تقویت اور اسلام کو غلبہ عطا کرنا ہوگا ، یہاں تک کہ آپ خود نماز کی امامت کرنے کے بجائے امام مہدی کی اقتداء میں نماز ادا کریں گے اور مسلمانوں کی خواہش کے باوجود امامت کے لئے تیار نہ ہوں گے ۔


دوسری شخصیت جن کی آپ انے خوشخبری دی ہے ، امام مہدی کی ہے ، امام مہدی نہ نبی ہوں گے، نہ ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے احکام کا نزول ہوگا ، نہ اللہ کی طرف سے ان سے کہا جائے گا کہ میں نے تم کو مہدی بنایا ہے ، یہ نبی کی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے بخشا ہوا کوئی ایسا عہدہ نہیں ہوگا ، جس پر ایمان لانے کی دعوت دی جائے ، یا ان کی مہدویت کو کلمہ کا جزء بنالیا جائے ؛ بلکہ ان کی حیثیت ایک خلیفۂ راشد کی ہوگی ، ان کا سب سے اہم کارنامہ اللہ کے راستہ میں جہاد اور عدل و انصاف کا قیام ہوگا ، وہ اس اُمت کے آخری مجدد اور خلیفۂ راشد ہوں گے ، نہ وہ مہدویت کا دعویٰ کریں گے اور نہ لوگوں کو اپنے آپ پر ایمان لانے کے لئے کہیں گے ؛ بلکہ وہ صلحاء اُمت میں سے ایک عظیم شخصیت ہوں گے ، لوگ ان کے ہاتھوں پر اطاعت اور جہاد کی بیعت کریں گے ، جیساکہ خلفائے راشدین کے ہاتھوں پر صحابہ نے کی تھی ، یہ لوگ انھیں ان علامتوں سے پہچانیں گے ، جو رسول اللہ نے بتائی ہیں اور اصرار کرکے ان کے ہاتھوں پر بیعت کریں گے ۔


چوںکہ امام مہدی اُمت ہی کے ایک فرد ہوں گے اور عام انسانوں ہی کی طرح ان کی پیدائش ہوگی ؛ اس لئے اس بات کا اندیشہ تھا کہ کچھ طالع آزما ، جھوٹے ، دھوکہ باز اور فریبی قسم کے لوگ اپنے آپ کو امام مہدی قرار دینے لگیں اور اس کو جاہ و مال کی سوداگری کا ذریعہ بنائیں ، غالباً اسی مصلحت کی خاطر آپ انے زیادہ تفصیل سے امام مہدی کے بارے میں بتایا کہ ان کا نام محمد ہوگا ، ان کے والد کا نام عبد اللہ ہوگا ، وہ حضرت فاطمہ ؓکے بڑے صاحبزادے حضرت حسن بن علی ؓکی نسل سے ہوں گے ، مدینہ منورہ میں ولادت ہوگی ، مکہ مکرمہ میں رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان لوگ آپ کے ہاتھوں پر بیعت کریں گے ، آپ کے ظہور سے پہلے دریائے فرات ( عراق ) میں ایک سونے کا پہاڑ ظاہر ہوگا ، جس کے لئے ایک خونریز جنگ ہوگی ، ان کے خلاف شام کی طرف سے سفیان نام کا ایک ظالم حکمراں مکہ پر حملہ آور ہوگا اور بری طرح شکست کھائے گا ، امام مہدی عیسائیوں کو شکست دیں گے ، ان کا قیام دمشق کی جامع مسجد میں ہوگا ، جب ان کی شناخت ہوجائے گی تو اس کے چھ سال بعد دجال کا خروج ہوگا ، آپ کی مدد کے لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے اُتارے جائیں گے اور یہودیوں کو فیصلہ کن شکست دیں گے ، امام مہدی اپنے ہاتھوں پر بیعت کے بعد سات سے نو سال تک زندہ رہیں گے ۔


یہ تو امام مہدی کے بارے میں وہ باتیں ہیں ، جو دو اور دوچار کی طرح واضح ہیں ، یہاں تک کہ حدیث میں بعض ایسی شخصیتوں کے نام بھی ظاہر کئے گئے ہیں ، جو آپ کی مدد میں پیش پیش ہوں گے ، ان کے علاوہ امام مہدی کے اوصاف بھی واضح طورپر احادیث میں ذکر کئے گئے ہیں ، ان صراحتوں کا مقصد یہی سمجھ میں آتا ہے کہ کوئی شخص اس اُمت کا استحصال نہ کرسکے اور جھوٹی حیلہ بازیوں کے ذریعہ مہدی ہونے کا دعویٰ کرکے اُمت میں انتشار کا سبب نہ بن سکے ، افسوس کہ ایسی وضاحت کے باوجود ان پیشین گوئیوں کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے مختلف گمراہ فکر لوگ مسیح اورمہدی ہونے کا دعویٰ کرتے رہے ہیں ،اور اُمت کو انحراف و انتشار میں مبتلا کرچکے ہیں ، انھوںنے احادیث کو ایسا معنی پہنانے کی کوشش کی ہے کہ الفاظ کی ایسی بازیگری کے ذریعہ تو سفید کو سیاہ اور انسان کو گدھا بھی ثابت کیا جاسکتا ہے ، اور چوںکہ حدیث میں دو شخصیتوں کا ذکر آیا ہے : حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور امام مہدی ، ان دونوں کو جمع کرنا مشکل تھا ، یا شاید ان مدعیوں کو خود ایک عہدہ لے کر دوسرے کو کوئی عہدہ دینا گوارہ نہیں تھا ؛ اس لئے انھوںنے کہنا شروع کردیا کہ میں ہی مہدی بھی ہوں اور مسیح بھی ، اس تحریف اور بے جا تاویل کی سب سے بڑی مثال مرزا غلام احمد قادیانی ہے ، جس نے عیسائی قوتوں کے شہ پر پیغمبر اسلام اکی ختم نبوت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ۔


اسی طرح کی ایک مثال ابھی کچھ عرصہ پہلے شکیل نام کے ایک شخص کی شکل میں ظاہر ہوئی ہے ، جس کے والد کا نام حنیف ہے ، جو بہار کے شہر دربھنگہ کا رہنے والا ہے ، جس نے دہلی سے اپنی انحرافی کوششوں کا آغاز کیا ، اپنے مسیح اور مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ، احادیث نبوی کی نہایت نامعقول و بے بنیاد تاویلیں کیں ، جو زیادہ تر قادیانی لٹریچر سے ماخوذ ہیں اور اسی طرح کی تاویلات ہیں، جو ایران میں ’ باب ‘ اور ’ بہاء ‘ کے ماننے والے مرتدین نے کی تھی ، اب اس نے مہاراشٹر کے شہر اورنگ آباد کو اپنا مرکز بنایا ہے اور ملک کے مختلف حصوں خاص کر جنوبی ہند کے علاقوں میں لوگوں کی دین سے ناواقفیت کا فائدہ اُٹھاکر اس فتنہ کو پھیلانے کی کوشش کررہا ہے ، یہ دعویٰ اس قدر نامعقول ، گمراہانہ اور نادرست ہے کہ اہل علم کے لئے اس پر قلم اُٹھانے کی بھی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ؛ لیکن اصل خوف مسلمانوں کی ناواقفیت و جہالت سے ہے اور اس بات سے ہے کہ اسلام دشمن طاقتوں کے غلبہ کی وجہ سے مسلمان اس وقت سخت نااُمیدی کی حالت میں ہیں ، ان کے حوصلے ٹوٹے ہوئے ہیں ، ان کی ہمتیں شکستہ ہیں اوروہ کسی مرد ِغیب کے انتظار میں ہیں ، جو اس بھنور سے اُمت کی کشتی کو نکال لے جائے ، اس لئے وہ ایسے جھوٹے دعوے کرنے والوں کے گرد آسانی سے جمع ہوجاتے ہیں اور مصیبت کی اس گھڑی میں سراب کو آب اور پیتل کو سونا سمجھنے لگتے ہیں ، اس طرح کے بعض اور واقعات بھی کہیں کہیں پیش آرہے ہیں اور بعض لوگ مسیح و مہدی کے انتظار میں اس درجہ بے قرار ہیں کہ وہ کسی بھی مصنوعی نجات دہندہ کا دامن تھامنے کے لئے تیار ہیں ، مرزا غلام احمد قادیانی نے بھی ایسے ہی حالات میں نبوت کا دعویٰ کیاتھا ، جب کہ انگریزوں کا غلبہ تھا اور مسلمان سخت مایوسی کی حالت میں تھے ۔


اس لئے علماء کو چاہئے کہ اچھی طرح اس مسئلہ کی حقیقت کو سمجھائیں اور مسلمانوں کو بھی چاہئے کہ وہ اس بات کو سمجھ لیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے اُتارا جانا ایک بنیادی عقیدہ ہے ، متواتر حدیثوں سے ثابت ہے اور اس کا انکار آخری درجہ کی گمراہی اور حدیث کا انکار ہے ، نیز مہدی کوئی ایسا منصب نہیں جس پر نبی کی طرح ایمان لایا جاتا ہو ، جو نبی کی طرح معصوم ہو اور جس پر اللہ کی طرف سے احکام اُتارے جاتے ہوں ، ایسا نہ ہوکہ وہ کسی ایسے شخص کی چرب زبانی کا شکار ہوجائیں جو دشمنانِ اسلام کے آلۂ کار ہوں اور جن کو اس اُمت میں انتشار پیدا کرنے کے لئے اُٹھایا گیا ہو ۔

وباﷲ التوفیق وھو المستعان ۔


پیشکش : سلسلہ عقائد اسلام، شعبۂ تحفظ اسلام میڈیا سروس، مرکز تحفظ اسلام ہند

حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آیات قرآنی!

 


حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آیات قرآنی!


از قلم : حضرت مولانا مفتی عبد الواحد قریشی صاحب مدظلہ


اہل السنۃ والجماعۃ کے بہت سارے عقائدہیں ۔جیسے توحید،رسالت،معاد وغیرہ، انہی عقائد میں سے ایک عقیدہ'' حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم'' ہے۔اس عقیدہ کا مختصر تعارف یہ ہے کہ نبی علیہ السلام دنیا میں تشریف فرماہونے کے بعد جب موت کا ذائقہ چکھتے ہیں تو اس کے بعد قبر مبارک میں نبی علیہ السلام کو زندگی عطاء کی جاتی ہے ۔یہ زندگی روح اور جسم عنصری کے تعلق کے ساتھ ہوتی ہے۔ اور اسی کی وجہ سے قبر مبارک پر پڑھے جانے والے صلوۃ وسلام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس سنتے ہیں ۔یہ عقیدہ امت مسلمہ میں اجماعی رہا ہے۔ احناف،شوافع،مالکیہ اور حنابلہ جو اہل السنۃ والجماعۃ ہیں ،ان میں سے کوئی بھی اس عقیدے کا منکر نہیں اور یہ عقیدہ ان کو قرآن وحدیث واجماع سے ملا ہے۔اس دور میں اہل حق علماء دیوبند کا بھی یہی عقیدہ ہے اور یہ عقیدہ انہیں توارث سے ملا ہے۔


یہ عقیدہ قرآن مجید ،تفاسیر،احادیث ،شروح احادیث،کتب عقائد وکلام اور رسائل صوفیاء کرام میں ملتا ہے۔تمام کا احصاء تو اس مختصر مضمون میں نہیں ہوسکتااس لیے صرف قرآن مجید کی تفاسیر پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔


وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ


(البقرۃ:154)


کی تفسیر میں علامہ ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :


فلیس الشہید باولٰی من النبی وان نبی اللہ حی یرزق فی قبرہ کماورد فی الحدیث


(احکام القرآن تھانوی ج1ص92)


یعنی شہید نبی سے تو بہتر نہیں اور بالیقین اللہ کے نبی قبر میں زندہ ہیں اور ان کو رزق دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں آیاہے۔ وَمَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا أَنْ تَنْكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِنْ بَعْدِهِ أَبَدًا


(الاحزاب :53)


کی تفسیر میں علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:


قلت وجاز ان يكون ذلك لاجل ان النبي صلى اللّه عليه وسلم حىّ فى قبره ولذلك لم يورث ولم يتئم أزواجه عن أبى هريرة قال قال رسول اللّه صلى اللّه عليہ وسلم من صلى علىّ عند قبرى سمعته ومن صلّى علىّ نائيا أبلغته رواه البيهقي فى شعب الايمان.


(تفسیر مظہری ج7ص408)


یعنی میں [مفسر علام رحمہ اللہ]کہتا ہوں کہ ازواج مطہرات سے نکاح حرام ہونے کی یہ وجہ بھی ہوسکتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر شریف میں زندہ ہیں۔اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مال کا کوئی وارث نہیں ہوتا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں بیوہ نہیں ہوتیں۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو آدمی میری قبر کے نزدیک مجھ پر درود عرض کرے گا میں اسے بنفس نفیس سنوں گااور جو دور سے پڑھے گا تو وہ مجھے پہنچایا جائیگا۔اس حدیث کو امام بیہقی رحمہ اللہ نے شعب الایمان میں روایت کیا ہے۔


اسی طرح اسی آیت کی تفسیر کے تحت حضرت اقدس مولانامفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ازواج مطہرات سے نکاح حرام ہے۔ (اس کی دو جہیں ہیں۔ از ناقل)وہ بنص قرآن مومنوں کی مائیں ہیں ……اور دوسری وجہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات کے بعد اپنی قبر شریف میں زندہ ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ ایسا ہے جیسے کوئی زندہ شوہر گھر سے غائب ہو۔


(تفسیر معارف القرآن ج7ص203)


وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ


(آل عمران :169)


اس کی تفسیر میں سحبان الہند حضرت مولانا احمد سعید دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : انبیاء علیہم السلام کی ارواح کا ان کے ابدان مقدسہ کے ساتھ قائم رہنا اور قبر پر جاکر سلام کرنے والے کے سلام کو سننا اور اس کا جواب دینا(ثابت)ہے۔


(تفسیر کشف الرحمن ج1ص114)


یاد رہے کہ اس تفسیر پر مولانا سیدحسین احمد مدنی رحمہ اللہ،شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمہ اللہ،مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ ،حضرت مولانا مفتی مہدی حسن شاہجہانپوری رحمہ اللہ کی تقاریظ ثبت ہیں اور یہ مفتی اعظم ہند حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی رحمہ اللہ کی نگرانی میں طبع ہوئی۔


يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا


(الاحزاب :45)


اس آیت کی تفسیر میں مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانامفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: تمام انبیاء کرام علیہم السلام خصوصا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے گزرنے کے بعد بھی اپنی اپنی قبروں میں زندہ ہیں۔


(معارف القرآن ج7ص177)


مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ


)الاحزاب:40)


اس آیت کی تفسیر میں علامہ آلوسی رحمہ اللہ ،علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ کا یہ قول بلا نکیر نقل فرماتے ہیں: فحصل من مجموع ھذاالکلام النقول والاحادیث ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم حی بجسدہ وروحہ


(روح المعانی ج22ص36)


یعنی اس تمام کلام سے یہ بات حاصل ہوئی کہ نقول واحادیث کے مطابق نبی علیہ السلام اپنے جسد اور روح کے ساتھ زندہ ہیں۔پھر آگے مزید لکھتے ہیں:


والمرئی اماروحہ علیہ الصلاۃ والسلام التی ہی اکمل الارواح تجردا وتقدسابان تکون قد تطورت وظہرت بصورۃ مرئیۃ بتلک الرویۃ مع بقاء تعلقہا بجسدہ الشریف الحی فی القبر السامی المنیف


(ایضاًج22ص37)


جس کا خلاصہ یہ ہے کہ نظر آنے والی یا تو روح مقدس ہوگی جو کہ تمام روحوں سے مقدس ہے۔لیکن اس کاتعلق قبر شریف میں جسد مبارک سے ہوگا جو کہ زندہ ہے۔مزید ارقام فرماتے ہیں:


وقد الف البیہقی جزء فی حیاتہم فی قبورھم واوردہ فیہ عدۃ اخبار


( ایضاًج22ص 38)


یعنی امام بیہقی رحمہ اللہ نے انبیاء کرام علیہم السلام کے اپنی قبور میں زندہ ہونے پر ایک رسالہ لکھا ہے اور اس میں بہت سی احادیث ذکر کی ہیں۔مزید لکھتے ہیں :


ثم ان کانت تلک الحیوۃ فی القبر وان کانت یترتب علیہا بعض مایترتب علی الحیوۃ فی الدنیا المعروفۃ لنا من الصلاۃ والاذان والاقامۃ ورد السلام المسموع۔


( ایضاًج22ص 38)


جس کا حاصل یہ ہے کہ قبر کی اس زندگی پر دنیا والے کچھ احکام لگتے ہیں جیسے نماز، اذان ،اقامت اور سنے ہوئے سلام کا جواب دینا۔


فَضَرَبْنَا عَلَى آذَانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَدًا


(الکہف :11)


کی تفسیر میں امام رازی رحمہ اللہ نے کرامت کی بحث چھیڑ دی اور اسی میں یہ بھی درج کیا:


اما ابوبکرفمن کراماتہ انہ لما حملت جنازتہ الی باب قبر النبی صلی اللہ علیہ وسلم ونودی: السلام علیک یارسول اللہ ھذا ابوبکر بالباب فاذا الباب قد انفتح واذا بہاتف یہتف من القبر :''ادخلوا الحبیب الی الحبیب''


(مفاتیح الغیب المعروف تفسیر کبیر ج7ص433)


یعنی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی کرامات میں سے یہ ہے کہ جب ان کا جنازہ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر اٹھاکر لایا گیا اور "السلام علیک یارسول اللہ" عرض کرکے کہاگیا کہ یہ ابوبکر دروازے پر حاضر ہیں تو دروازہ کھل گیا اور قبر مبارک سے آوازدینے والے کی آواز آئی کہ دوست کو دوست کے پاس داخل کردو۔


وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ،


(النساء :64)


اس آیت کی تفسیر میں امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :


عن علی رضی اللہ عنہ قال قدم علینا اعرابی بعد مادفنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بثلاثۃ ایام فرمی بنفسہ علی قبر رسول ،وحثا علی راسہ من ترابہ فقال قلت یارسول اللہ: فسمعنا قولک ووعیت عن اللہ فوعیناعنک وکان فیہا انزل اللہ علیک وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ الخ وقد ظلمت نفسی وجئتک تستغفرلی، فنودی من القبر انہ قد غفر لک


(الجامع الاحکام القرآن ج5ص255)


یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دفن کرنے کے 3دن بعد ایک دیہاتی آیا اور قبر پر گر کر سر پر مٹی ڈال کر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ،ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی سے اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محفوظ کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر "وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ الخ" نازل ہوئی اور یقیناً میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے لیے استغفار کریں تو قبر مبارک سے آواز آئی کہ تیری بخشش کردی گئی۔


مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ اسی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں : اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیوی حیات کے زمانہ میں ہوسکتی تھی ،اسی طرح آج بھی روضہ اقدس پر حاضری اسی حکم میں ہے…… اس کے بعد حضرت نے درج بالا واقعہ بحوالہ تفسیر بحر محیط ذکر فرمایا ہے۔


(معارف القرآن ج2ص459،460)


اسی طرح اسی آیت کے تحت علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے علامہ عتبی رحمہ اللہ کا واقعہ درج کیا ہے کہ ایک شخص نے آکر قبر مبارک پر استشفاع کیا توخواب میں علامہ عتبی رحمہ اللہ کو نبی علیہ السلام کی زیارت ہوئی کہ اس شخص کو بشارت دے دو کہ اللہ تعالی نے اس کی مغفرت فرمادی۔


(تفسیر ابن کثیر ج2ص315)


وَاسْئَلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُسُلِنَا


(الزخرف:45)


کے تحت حضرت مولانا علامہ سید انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ لکھتے ہیں :


یستدل بہ علی حیوۃ الانبیاء


(مشکلات القرآن ص234)


یعنی اس سے حیات الانبیاء پر دلیل پکڑی گئی ہے۔


وَلَا أَنْ تَنْكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِنْ بَعْدِهِ أَبَدًا


)الاحزاب:53)


کی تفسیر میں مفسر قرآن حضرت مولانا علامہ شبیراحمد عثمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس مسئلہ کی نہایت بحث حضرت مولانامحمد قاسم نانوتوی قدس سرہ کی کتاب آب حیات میں ہے۔انتہی کلامہ اور آب حیات کس مسئلہ پر لکھی گئی اہل مطالعہ پر یہ مخفی نہیں۔


پیشکش : سلسلہ عقائد اسلام، شعبۂ تحفظ اسلام میڈیا سروس، مرکز تحفظ اسلام ہند

سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں!

 


سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں!


از قلم : حضرت مولانا سید کمال اللہ بختیاری ندوی‏ مدظلہ

(لکچرر شعبۂ عربی دی نیوکالج، چینائی)

 


”اللہ تعالیٰ نے دین کی ترویج و تقسیم کا کام آدم علیہ السلام سے شروع کیا اور بالآخر سیدالمرسلین خاتم النّبیین  صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ زریں سلسلہ مکمل و ختم فرمادیا آپ  صلی اللہ علیہ وسلم وہی دین لے کر آئے جو دیگر انبیاء کرام لے کر آئے تھے جو ابتدا آفرینش سے تمام رسولوں کا دین تھا اسی دین کو تمام آمیزیشوں سے پاک کرکے اس کی اصل خالص صورت میں پیش کیا اب خدا کا حکم اس کا دین اس کا قانون وہ ہے جو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش فرمایا آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی خداکی نافرمانی ہے کلمہ طیبہ کی استدلالی و منطقی توجیہ یہ ہے کہ اس میں پہلے تمام خداؤں کا انکار پھر ایک خدائے وحدہ لاشریک لہ کا اقرار ہے اسی طرح تمام انبیاء کی سابقہ شریعتوں و طریقوں پر عمل کرنے کا انکار ہے (اس لئے کہ تمام شریعتیں شریعت محمدی  صلی اللہ علیہ وسلم میں سموگئی ہیں) اور صرف اسوئہ نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم پر چلنے کا اقرار ہے۔


قصراسلام میں ایک اینٹ کی جگہ خالی رہ گئی تھی سو وہ آپ کے ذریعے اللہ نے پرُکردی۔ آپ کی رسالت نسل انسانی پر اللہ کی سب سے بڑی رحمت اور نعمت غیرمترقبہ ہے۔ نزولِ کتب وصحف کا سلسلہ و طریقہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم پر منقطع کردیاگیا۔ سلسلہٴ نبوت و رسالت کو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کردیا گیا۔ اب آپ کے بعد کوئی رسول یا نبی نہیں آئیگا۔ قرآن کی طرح آپ کی رسالت ونبوت بھی آفاقی وعالمگیر ہے جس طرح تعلیمات قرآنی پر عمل پیرا ہونا فرض ہے اسی طرح تعلیمات نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنا فرض ہے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت تمام جن وانس کیلئے عام ہے دنیا کی ساری قومیں اور نسلیں آپ کی مدعو ہیں تمام انبیاء کرام میں رسالت کی بین الاقوامی خصوصیت اور نبوت کی ہمیشگی کا امتیاز صرف آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے۔ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم گروہ انبیاء کرام کے آخری فرد ہیں اور سلسلہٴ نبوت و رسالت کی آخری کڑی ہیں۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم خلاصہ انسانیت ہیں۔“(۱)


ختم نبوت قرآنی آیات کی روشنی میں


ختم نبوت اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے اسلام کی ساری خصوصیات اورامتیازات اسی پر موقوف ہیں۔ ختم نبوت ہی کے عقیدہ میں اسلام کا کمال اور دوام باقی ہے۔ چنانچہ اس آیت میں اس کی پوری وضاحت اور ہرطرح کی صراحت موجود ہے ”مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِن رَّسُولَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلَیْمًا“ نہیں ہیں محمد  صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ لیکن اللہ کے رسول اور تمام انبیاء کے سلسلہ کو ختم کرنے والے ہیں اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے(۲)


آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم علیہ وسلم کے متعلق اس آیت میں جو اعلان کیاگیا ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم آخری رسول ہیں۔ اب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے کے بعد کوئی رسول آنے والا نہیں ہے اس قرآنی اعلان کا مقصد محض فہرست انبیاء و رسل کے پورے ہوجانے کی اطلاع دینا نہیں ہے بلکہ اس قرآنی اعلان اور پیغام کا مقصد یہ بتانا ہے کہ اگرچہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ نبوت دنیا میں رہ جانے والی نہیں ہے مگر آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا بدل کارِ نبوت کی شکل میں ہمیشہ تاقیامت باقی ہے۔ اللہ نے اس آیت میں خاتم الرسل یا خاتم المرسلین لفظ کے بجائے خاتم النّبیین کا لفظ اختیار فرمایا ہے اس میں قابل غور نکتہ یہ ہے کہ نبی میں عمومیت ہوتی ہے اور رسول میں خصوصیت ہوتی ہے نبی وہ ہوتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ اصلاح خلق کیلئے منتخب فرماتا اور اپنی وحی سے مشرف فرماتا ہے اور اس کے لئے کوئی مستقل کتاب اور مستقل شریعت نہیں ہوتی ہے۔ پچھلی کتاب و شریعت کے تابع لوگوں کو ہدایت کرنے پر مامور ہوتا ہے جیسے حضرت ہارون علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب و شریعت کے تابع اور ہدایت کرنے پر مامور تھے۔ رسول وہ ہوتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ مستقل کتاب و مستقل شریعت سے نوازتا ہے جو رسول ہوتا ہے وہ اپنے آپ نبی ہوتا ہے لیکن جو نبی ہوتا ہے وہ رسول نہیں ہوتا لفظ خاتم النّبیین کا صاف مطلب یہ ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم انبیاء کے سلسلہ کو ختم کرنے والے اور سب سے آخر ہیں اب قیامت تک نہ تو نئی شریعت و کتاب کے ساتھ کسی کو منصب رسالت پر فائز کیاجائے گا اور نہ پچھلی شریعت کے متبع کسی شخص کو نبی بناکر بھیجا جائے گا۔


اس آیت میں ان لوگوں کے خیال کا رد بھی ہے جو اپنی جاہلانہ رسم و رواج کی بناء پر لے پالک کو حقیقی بیٹا سمجھتے اور بیٹے کا درجہ دیتے تھے۔ زید بن حارثہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کے منھ بولے بیٹے تھے چنانچہ جب انھوں نے اپنی بیوی حضرت زینب کو طلاق دیدی تو آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کرلیا تو اس نکا پر طعن کرتے تھے کہ بیٹے کی بیوی سے آپ نے نکاح کرلیا اس آیت میں یہ بتانا مقصود ہے کہ زید بن حارثہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی بیٹے نہیں ہیں وہ تو حارثہ کے بیٹے ہیں مزید تاکید کے طور پر یہ بھی بتادیاگیا کہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم تم مردوں میں سے کسی جسمانی باپ نہیں ہیں البتہ اللہ کے رسول ہونے کی حیثیت سے سب کے روحانی باپ ضرور ہیں۔ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کے چار بیٹے قاسم، طیب، طاہر حضرت خدیجہ سے اور ابراہیم حضرت ماریہ قبطیہ سے تھے لیکن ان میں سے کوئی رجال کی حد تک نہیں پہنچاتھا اوراس آیت کے نزول کے وقت آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی بیٹا نہیں تھا۔ حقیقی باپ ہوتو اس پر نکاح کے حلال وحرام کے احکام عائد ہوتے ہیں لیکن حضرت زید بن حارثہ تو لے پالک بیٹے تھے اس آیت کا مطلب یہ ہوا کہ آپ اُمت کے مردوں میں سے کسی کے بھی نسبی باپ نہیں لیکن روحانی باپ سب کے ہیں۔


یہاں لفظ خاتم پر ایسی روشنی ڈالی جارہی ہے جس سے عقیدہٴ ختم نبوت کی پوری وضاحت ہوجاتی ہے۔ لفظ خاتم دوقرأتوں سے بھی ثابت ہے۔ امام حسن اور عاصم کی قرأت سے خاتم بفتح التاء ہے اور دوسرے ائمہ قرأت سے خاتم بکسر التاء ہے۔ دونوں کا معنی ایک ہی ہے یعنی انبیاء کے سلسلہ کو ختم کرنے والے اور دونوں کے معنی آخر اور مہرکے ہیں۔ اور مہر کے معنی میں یہ دونوں لفظ استعمال ہوتے ہیں۔ مہر کے یہ معنی ہوئے کہ اب دستاویز مکمل ہوگئی۔ اس میں اب کسی قسم کی گنجائش اضافہ کی ہے نہ کمی کی ہے۔ امام راغب نے مفردات القرآن میں فرمایاہے: وَخَاتَمُ النُّبُوَّةِ لِاَنَّہُ خَتَمَ النُّبُوَّةَ الَّتِی تَمَّمَہَا بِمَجِیْئِہ “ یعنی آپ کو خاتم النبوت“ اس لئے کہاگیا کہ آپ نے نبوت کو اپنے تشریف لانے سے ختم اور مکمل فرمادیا۔ (۳)


خاتم القوم سے مراد آخر ہم قبیلے کا آخری آدمی(۴) ”خَتَمَ النُّبُوَّةَ فَطُبِعَ عَلَیْہَا فَلاَ تُفْتَحُ لِاَحَدٍ بَعْدَہُ اِلَی قِیَامِ السَّاعَةِ“ آپ نے نبوت کو ختم کردیا اور اس پر مہر لگادی اب قیامت تک یہ دروازہ نہیں کھلے گا۔(۵)


امام غزالی لکھتے ہیں: ”اِنَّ الْاُمَّةَ فَہِمَتْ بِالْاِجْمَاعِ مِنْ ہٰذَا اللَّفْظِ خَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ وَمِنْ قَرَائِنِ اَحْوَالِہِ اَنَّہُ فَہِمَ عَدْمَ نَبِیِّ بَعْدَہُ اَبَدًا وَاَنَّہُ لَیْسَ فِیْہِ تَاوِیْلٌ وَلاَ تَخْصِیْصٌ فَمُنْکِرُ ہٰذَا لاَ یَکُوْنُ الاَّ اِنْکَارَ الْاِجْمَاعِ“ بیشک امت نے اس لفظ خاتم النّبیین سے اور اسکے قرائن احوال سے بالاجماع یہی سمجھا ہے کہ اس آیت کا مطلب یہی ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہوگا اور نہ رسول اور نہ اس میں کوئی تاویل چل سکتی ہے اور نہ تخصیص اور اس کا منکر یقینا اجماع کا منکر ہے(۶)


ارشاداتِ ربانی فرموداتِ نبوی کی روشنی میں علمائے اُمت وصلحائے ملت نے اجماعی طور پر صدیوں سے اس آیت کا یہی مطلب یعنی ختم نبوت سمجھا اور سمجھایا ہے۔


ختم نبوت احادیث وروایات کی روشنی میں


حضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم تھا کہ آپ کے تشریف لے جانے کے بعد دشمنانِ اسلام نئے نئے فتنے اٹھائیں گے دین میں طرح طرح کے رخنے ڈالیں گے اور خصوصاً ختم نبوت کے تعلق سے شبہات پیدا کرکے اُمت مسلمہ کو راہِ راست سے ہٹانے کی کوشش کریں گے لہٰذا آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور پیش بندی اُمت کو ان آئندہ خطرات سے آگاہ فرمادیا اور اُمت کو پوری طرح چوکنا کردیا کہ جو بھی نبوت کا دعویٰ کرے اسے وقت کا دجال باطل پرست اور فتنہ پرور سمجھا جائے اور اسے دین سے خارج کردیا جائے چنانچہ عقیدئہ ختم نبوت ہر زمانہ میں تمام مسلمانوں کا متفق علیہ عقیدہ رہا ہے اور اس امر میں مسلمانوں کے درمیان کبھی کوئی اختلاف نہیں رہا جس کسی نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا ہے یا جس کسی نے بھی دعویٰ کو قبول کیا ہے اسے متفقہ طور پر اسلام سے خارج سمجھا گیا ہے اس پر تاریخ کے بہت سے واقعات شاہد ہیں۔ چند مندرجہ ذیل پیش کئے جارہے ہیں۔


آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے دور میں اسود عنسی نے نبوت کا دعویٰ کیا تو آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو اس کے قتل کیلئے روانہ فرمایا۔ صحابی رسول نے جاکر اسود عنسی کا قصہ تمام کردیا۔ حضرت عروة بن الزبیر کا بیان ہے کہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات کے ایک دن پہلے اسود عنسی کے مارے جانے کی خوشخبری ملی تو آپ نے خوشی کا اظہار فرمایا۔(۷)


حضرت ابوبکر صدیق کے د ور میں سب سے پہلے جو کام ہوا وہ یہ تھا کہ حضرت ابوبکر نے مسیلمہ کذاب جس نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا اسکی سرکوبی کیلئے حضرت خالد بن ولید کو صحابہ کرام کی ایک جماعت کے ساتھ روانہ فرمایا تو حضرت خالد بن ولید نے مسیلمہ بن کذاب سمیت اٹھائیس ہزار جوانوں کو ٹھکانے لگاکر فاتح کی حیثیت سے مدینہ واپس ہوئے۔ صدیقی دور میں ایک اور شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا جس کا نام طلیحہ بن خویلد بتایاجاتا ہے اس کے قتل کیلئے بھی حضرت خالد بن ولید روانہ کئے گئے تھے۔(۸) ”اسی طرح خلیفہ عبدالملک کے دور میں جب حارث نامی شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا تو خلیفہ وقت نے صحابہ و تابعین سے فتوے لیے اور متفقہ طور پر اسے قتل کیاگیا۔ خلیفہ ہارون رشید نے بھی اپنے دور میں نبوت کا دعویٰ کرنے والے شخص کو علماء کے متفقہ فتویٰ پر قتل کی سزا دی ہے“۔(۹)


امام ابوحنیفہ کے زمانے میں ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا اور کہا کہ مجھے موقع دو کہ میں اپنی نبوت کے علامات پیش کروں اس پر امام اعظم نے فرمایا کہ جو شخص اس سے نبوت کی کوئی علامت طلب کرے گا وہ بھی کافر ہوجائے گا کیونکہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم فرماچکے ہیں کہ ”لاَنَبِیَّ بَعْدِیْ“(۱۰) غرض یہ کہ شروع سے اب تک تمام اسلامی عدالتوں اور درباروں کا یہی فیصلہ رہا ہے کہ نبوت کا دعویٰ کرنے والے اور اسے ماننے والے کافر مرتد اور واجب القتل ہیں۔


اب آئیے ذرا احادیث کی روشنی میں ختم نبوت پر روشنی ڈالی جائے ”قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّ الرِّسَالَةَ النُّبُوَّةَ قَدْ اِنْقَطَعَتْ فَلاَ رَسُوْلَ بَعْدِی وَلاَنَبِیَّ“ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رسالت و نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا میرے بعد اب کوئی رسول ہے اور نہ نبی۔(۱۱)


قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ مَثَلِیْ وَمَثَلَ الْاَنْبِیَاءِ مِنْ قَبْلِیْ کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنٰی بَیْتًا فَاحْسَنَہُ وَاَجْمَلَہُ اِلاَّ مَوضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِیَةٍ فَجَعَلَ النَّٓسُ یَطُوْفُوْنَ بِہ یَعْجَبُوْنَ لَہُ وَیَقُوْلُوْنَ ہَلاَّ وُضِعَتْ ہٰذِہ اللَّبِنَةُ قَالَ فَاَنَا اللَّبِنَةُ وَاَنَا خَاتِمُ النَّبِیِّیْنَ“۔ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری اور مجھ سے پہلے گزرے ہوئے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے ایک عمارت بنائی اور خوب حسین وجمیل بنائی مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوٹی ہوئی تھی لوگ اس عمارت کے گرد پھرتے اور اظہارِ حیرت کرتے اور کہتے تھے کہ اس جگہ ایک اینٹ نہیں رکھی گئی آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو وہ اینٹ میں ہوں اور میں خاتم النّبیین ہوں یعنی میرے آنے کے بعد اب کوئی جگہ باقی نہیں ہے نبوت کی عمارت مکمل ہوچکی ہے۔(۱۲)


قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لاَنَبِیَ بَعْدِیْ وَلاَ اُمَّةَ بَعْدِیْ“ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے بعد کوئی نبی نہیں اور میری اُمت کے بعد کوئی امت نہیں یعنی کسی نئے آنے والے نبی کی امت نہیں۔(۱۳)


”قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَجِئْتُ فَخَتَمْتُ الْاَنْبِیَاءَ“ پس میں آیا اور میں نے انبیاء کا سلسلہ ختم کردیا۔(۱۴)


”قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَا مُحَمَّدٌ وَاَنَا اَحْمَدُ وَاَنَا الْمَاحِی الَّذِیْ یُمْحٰی بِی الْکُفْرُ وَاَنَا الْحَاشِرُ یُحْشَرُ النَّاسُ عَلَی عَقْبِیْ وَاَنَا الْعَاقِبُ الَّذِیْ لَیْسَ بَعْدَہُ نَبِیٌّ“ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں محمد ہوں میں احمد ہوں میں ماحی ہوں کہ میرے ذریعے سے کفر محو کیا جائے گا میں حاشر ہوں کہ میرے بعد لوگ حشر میں جمع کئے جائیں گے یعنی میرے بعداب بس قیامت ہی آنی ہے اور میں عاقب ہوں اور عاقب وہ ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔(۱۵)


”اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: فُضِّلْتُ عَلَی الْاَنْبَیاءِ بِسِتٍ اُعْطِیْتُ جَوَامِعَ الْکَلِمَ وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ وَاُحِلَّتْ لِی الْغَنَائِمُ وَجُعِلَتْ لِی الْاَرْضُ مَسْجِدًا وَطَہُوْرًا وَاُرْسِلْتُ اِلَی الْخَلْقِ کَافَّةً وَخُتِمَ بِی النَّبِیُّوْنَ“ آنحضرت نے فرمایا مجھے چھ باتوں میں دیگر انبیا پر فضیلت دی گئی ہے: (۱) مجھے جامع و مختصر بات کہنے کی صلاحیت دی گئی، (۲) مجھے رعب کے ذریعے نصرت بخشی گئی، (۳) میرے لئے اموالِ غنیمت حلال کئے گئے،(۴) میرے لئے زمین کو مسجد بھی بنادیاگیا اور پاکیزگی حاصل کرنے کا ذریعہ بھی یعنی میری شریعت میں نماز مخصوص عبادت گاہوں میں ہی نہیں بلکہ روئے زمین میں ہرجگہ پڑھی جاسکتی ہے اور پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کرکے وضو کی حاجت بھی پوری کی جاسکتی ہے،(۵) مجھے تمام دنیاکیلئے رسول بنایا گیا ہے،(۶) اور میرے اوپر انبیاء کا سلسلہ ختم کردیاگیا۔“(۱۶)


قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَوْکَانَ بَعْدِی نَبِیٌّ لَکَانَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّاب․ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے بعداگر کوئی نبی ہوتا تو عمر بن الخطاب ہوتے۔ چونکہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم کردی گئی ہے اب کسی کو کسی طرح کی بھی نبوت نہیں مل سکتی۔(۱۷)


قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِعَلِیٍّ اَنْتَ مِنِّی بِمَنْزِلَةِ ہَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی اِلاَّ اَنَّہُ لاَنَبِیَّ بَعْدِیْ․ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی سے ارشاد فرمایا کہ میرے ساتھ تمہاری نسبت وہی ہے جو موسیٰ کے ساتھ ہارون کی تھی مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔(۱۸)


”قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَوْکَانَ مُوْسٰی حَیًّا لَمَا وَسَعَہُ اِلاَّ اِتِّبَاعِیْ“ اگر موسیٰ زندہ ہوتے تو ان کیلئے میری پیروی کے علاوہ چارہ کار نہ تھا۔(۱۹)


چنانچہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے اولوالعزم پیغمبر کے تعلق سے یہ وضاحت فرمادی کہ اگر موسیٰ بھی دوبارہ اس دنیامیں آتے تو انھیں میری شریعت پر ایک امتی کی حیثیت سے عمل پیرا ہونا پڑتا۔ اسی طرح آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے مستقبل کے بارے میں بتادیا کہ جب عیسیٰ علیہ السلام آسمانسے نزول فرمائیں گے تو ان کی بھی حیثیت امتی کی ہوگی۔ حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں۔ ابوہریرہ سے روایت ہے: ”قَالَ النَّبِیُّ کَیْفَ اَنْتُمْ اِذَا نَزَلَ عِیْسَی بْنُ مَرْیَمَ فِیْکُمْ وَاِمَامُکُمْ مِنْکُمْ“ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارا کیا حال ہوگا جب ابن مریم تمہارے درمیان اتریں گے اور تمہارا قائد تمہیں میں سے ہوگا۔(۲۰)


قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ”کَانَتْ بَنُوْ اِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُہُمْ الْاَنْبِیَاءُ کُلَّمَا ہَلَکَ نَبِیٌّ خَلَفَہُ وَاِنَّہُ لاَ نَبِیَّ بَعْدِیْ وَسَیَکُوْنُ خُلَفَاءُ“ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بنی اسرائیل کی قیادت انبیاء کیا کرتے تھے جب کوئی نبی فوت پایا جاتا تو دوسرا نبی اس کا جانشین ہوجاتا تھا مگر میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا بلکہ خلفاء ہوں گے۔(۲۱)


حضرت آدم علیہ السلام سے نبوت کا سلسلہ شروع ہوا۔ انبیاء آتے رہے اوراسلام کی تعلیمات کو پیش کرتے رہے۔ اس طرح اسلام بتدریج تکمیل کی طرف بڑھتا چلاگیا۔ یہاں تک کہ عمارت کا آخری پتھر سلسلہ انبیاء کے آخری نبی، رسولوں کی فہرست کے آخری رسول محمد عربی  صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوگیا نبوت کے سلسلہ کو بند کرناتھا تو نبی کے خلفاء کی طرف اشارہ کیاگیا اور خلافت رسول کا وعدہ کیاگیا۔ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوالصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الْاَرْضِ وعدہ کرلیا اللہ نے ان لوگوں سے جو تم میں ایمان لائے اور نیک عمل کئے۔ یقینا ان کو خلافت ارضی عطا کرے گا۔(۲۲)


ختم نبوت  صلی اللہ علیہ وسلم اکابرِ اُمت کی تحقیقات کی روشنی میں


علامہ ابن جریر اپنی مشہور تفسیر میں سورة احزاب کی آیت کی تشریح میں ختم نبوت کے تعلق سے یوں رقمطراز ہیں اللہ نے آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم کردی اور اس پر مہرلگادی اب یہ دروازہ قیامت تک کسی کیلئے نہیں کھلے گا۔(۲۳)


امام طحاوی اپنی کتاب (العقیدة السلفیہ) میں ختم نبوت کے بارے میں ائمہ سلف خصوصاً امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف، امام محمد کے اقوال کی روشنی میں لکھتے ہیں کہ حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے اوراس کے محبوب اورآخری نبی ہیں اور یہ بھی لکھتے ہیں کہ سیدالانبیاء وسیدالمرسلین محمد  صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اورآپ  صلی اللہ علیہ وسلم رب العالمین کے محبوب ہیں۔(۲۴)


علامہ امام غزالی فرماتے ہیں اس امر (ختم نبوت) پر اُمت مسلمہ کا کامل اجماع ہے کہ اللہ کے رسول حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں اور پوری اُمت اس بات پر متفق ہے کہ رسولِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد ”لا نَبِیَّ بَعْدِیْ“ سے مراد یہی ہے کہ ان کے بعد نہ کوئی نبی اور نہ رسول ہوگا جو شخص بھی اس حدیث کا کوئی اور مطلب بیان کرے وہ دائرئہ اسلام سے خارج ہے اس کی تشریح باطل اور اس کی تحریر کفر ہے۔علاوہ ازیں امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ اس کے سوا اس کی کوئی تشریح نہیں جو اس کا انکار کرے وہ اجماعِ امت کا منکر ہے۔(۲۵)


علامہ زمخشری اپنی تفسیر الکشاف میں لکھتے ہیں: اگر آپ یہ سوال کریں کہ جب یہ عقیدہ ہوکہ اللہ کے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت سے پہلے آخری زمانے میں نازل ہوں گے تو پھر رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی کیسے ہوسکتے ہیں میں کہتا ہوں کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم اس معنی میںآ خری ہیں کہ ان کے بعد کوئی اور شخص نبی کی حیثیت سے مبعوث نہ ہوگا۔ رہا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا معاملہ تو وہ ان انبیاء کرام میں سے ہیں جنھیں حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے نبوت سے سرفراز کیاگیاتھا اور جب وہ دوبارہ آئیں گے تو حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے متبع ہوں گے اور انھیں کے قبلہ الکعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھیں گے۔(۲۶)


علامہ ابن کثیر تحریر فرماتے ہیں ”یہ آیت (یعنی سورہ احزاب والی) اس امر میں نص ہے کہ انکے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا کیونکہ مقامِ رسالت مقامِ نبوت سے اخص ہے کیونکہ ہر رسول نبی ہوتا ہے اور ہر نبی رسول نہیں ہوتا ہے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدجو شخص بھی اس منصب کادعویٰ کرتا ہے وہ کذاب دجال مفتر اور کافر ہے خواہ وہ کسی قسم کے غیرمعمولی کرشمے اور جادوگری کے طلاسم دکھاتا پھرے اوراسی طرح قیامت تک جو شخص بھی اس منصب کا مدعی ہو وہ کذاب ہے۔(۲۷)


علامہ آلوسی لکھتے ہیں نبی کا لفظ عام ہے اور رسول خاص ہے اس لئے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النّبیین ہونے سے خاتم المرسلین ہونا لازمی ہے کہ اس دنیا میں آپ کے منصب نبوت پر فائز ہونے کے بعد کسی بھی انسان یا جن کو یہ منصب نصیب نہیں ہوگا۔(۲۸)


علامہ جلال الدین سیوطی اس آیت ”وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا“ کے تحت لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز سے آگاہ ہے اورجانتا ہے کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہ ہوگا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب نازل ہوں گے تو وہ حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے پیروکار ہوں گے۔(۲۹)


علامہ بیضاوی یوں رقمطراز ہیں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم انبیاء کرام کی آخری کڑی ہیں جنھوں نے ان کے سلسلہ کو ختم کردیا ہے اور سلسلہٴ نبوت پر مہر لگادی ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بعث ثانیہ سے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے کی تردید نہیں ہوتی کیوں کہ وہ جب آئیں گے تو انہی کے شریعت کے پیروکار ہوں گے۔(۳۰)


تاج العروس میں اس طرح ہے: ”وَمِنْ اَسْمَائِہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَلْخَاتِمُ وَالْخَاتَمُ وَہُو الَّذِیْ فَقَدَ النُّبُوَّةَ بِمَجِیْئِہ “ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموں میں سے خاتِم اور خاتَم بھی ہیں جن کا معنی یہ ہے کہ ان کی آمد پر نبوت ختم ہوگی۔(۳۱)


حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب کی کتاب سے مضمون بعنوان ”منکرین ختم نبوت وسنت کا مغالطہ اور اس کا مدلل اورمعقول جواب“ پیش خدمت ہے۔ واقعی حکیم الاسلام کا یہ جواب اتنا مدلل اور معقول ہے کہ اس سے گمراہ فرقہ قادیانیوں کی سازش کو سمجھنے اور بھولے بھالے مسلمانوں کو ان کے فتنہ سے بچانے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ ”اس میں اکثر قادیانی یہ مغالطہ دیتے ہیں کہ نبوت تو دنیاکیلئے رحمت ہے جب نبوت ختم ہوگئی اور زحمت پیداہوگئی۔ نبوت تو ایک نور ہے جب وہ نور نہ رہا تو دنیا میں ظلمت پیدا ہوگئی تواس میں (معاذ اللہ) حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین ہے کہ آپ دنیا کو زحمت دینے کیلئے آئے یا دنیامیں معاذ اللہ ظلمت پیدا کرنے کیلئے آئے کہ نور ہی ختم کردیا اور رحمت ہی ختم کردی یہ ایک مغالطہ ہے اور مغالطہ واقع ہوا ہے ختم نبوت کے معنی سمجھنے کے اندر یاتو سمجھا نہیں ان لوگوں نے یا سمجھ کر جان بوجھ کر دغا اور فریب سے کام لیا ہے۔


ختم نبوت کے معنی قطعِ نبوت کے نہیں ہیں کہ نبوت منقطع ہوگئی ختم نبوت کے حقیقی معنی تکمیل نبوت کے ہیں کہ نبوت اپنی انتہا کو پہنچ کر حدکمال کو پہنچ گئی ہے اب کوئی درجہ نبوت کا ایسا باقی نہیں رہا کہ بعد میں کوئی نبی لایا جائے اوراس درجہ کو پورا کرایا جائے۔ ایک ہی ذاتِ اقدس نے ساری نبوت کو حد کمال پر پہنچادیا کہ نبوت کامل ہوگئی تو ختم نبوت کے معنی تکمیل نبوت کے ہیں۔ قطع نبوت کے نہیں ہیں گویا کہ ایک ہی نبوت قیامت تک کام دے گی، کسی اور نبی کے آنے کی ضرورت نہیں اس لئے کہ نبوت کے جتنے کمالات تھے وہ سب ایک ذاتِ بابرکات میں جمع کردئیے گئے۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہے کہ جیسے آسمان پر رات کے وقت ستارے چمکتے ہیں ایک نکلا دوسرا تیسرا اور پھر لاکھوں اور کروڑوں کی تعداد میں ستارے جگمگا جاتے ہیں بھراہوا ہوتا ہے آسمان ستاروں سے اور روشنی بھی پوری ہوتی ہے لیکن رات رات ہی رہتی ہے دن نہیں ہوتا کروڑوں ستارے جمع ہیں مگر رات ہی ہے روشنی کتنی بھی ہوجائے لیکن جونہی آفتاب نکلنے کا وقت آتا ہے تو ایک ایک ستارہ غائب ہونا شروع ہوتا ہے یہاں تک کہ جب آفتاب نکل آتا ہے تو اب کوئی بھی ستارہ نظر نہیں پڑتا۔ چاند بھی نظر نہیں پڑتا تو یہ مطلب نہیں کہ ستارے غائب ہوگئے دنیا سے بلکہ اس کا نور مدغم ہوگیا۔ آفتاب کے نور میں کہ اب اس نور کے بعد سب کے نور دھیمے پڑگئے اور وہ سب جذب ہوگئے آفتاب کے نور میں اب آفتاب ہی کا نور کافی ہے کسی اور ستارے کی ضرورت نہیں اور نکلے گا تواس کا چمکنا ہی نظر نہیں آئے گا آفتاب کے نور میں مغلوب ہوجائے گا تو یوں نہیں کہیں گے کہ آفتاب نے نکلنے کے بعد دنیامیں ظلمت پیدا کردی نور کو ختم کردیا بلکہ یوں کہا جائے گا کہ نور کو اتنا مکمل کردیا کہ اب چھوٹے موٹے ستاروں کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ آفتاب کافی ہے غروب تک پورا دن اسی کی روشنی میں چلے گا تو اور انبیاء بمنزلہ ستاروں کے ہیں اور نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم بمنزلہ آفتاب کے ہیں جب آفتاب طلوع ہوگیا اور ستارے غائب ہوگئے تویہ مطلب نہیں ہے کہ نبوت ختم ہوگئی بلکہ اتنی مکمل ہوگئی کہ اب قیامت تک کسی نبوت کی ضرورت نہیں گویا نبوت کی فہرست تھی جس پر مہر لگ گئی۔ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے آکر لگادی اب کوئی نبی زائد ہوگا نہ کم ہوگا یہ ممکن ہے کہ بیچ میں سے کسی نبی کو بعد میں لے آیا جائے جیسے عیسیٰ علیہ السلام بعد میں نازل ہوں گے مگر وہ اسی فہرست میں داخل ہوں گے اوران کی متبع کی حیثیت ہوگی یہ نہیں ہے کہ کوئی جدید نبی داخل ہو۔ پچھلے نبی کو اگر اللہ تعالیٰ لانا چاہیں تو لائیں گے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرہست مکمل کردی کہ اب نہ کوئی نبی زائد ہوسکتا ہے نہ کم ہوسکتا ہے۔(۳۲)

______________________________


ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ10، جلد: 90 ‏،رمضان المبارک1427 ہجری مطابق اکتوبر2006ء


پیشکش : سلسلہ عقائد اسلام، شعبۂ تحفظ اسلام میڈیا سروس، مرکز تحفظ اسلام ہند

Wednesday, January 6, 2021

وجودِ باری تعالیٰ اور توحید کا اثبات واقعاتی دلائل سے!


 

وجودِ باری تعالیٰ اور توحید کا اثبات واقعاتی دلائل سے! 


از قلم : حضرت مولانا عبد الصمد صاحب


عقیدۂ توحید کی اہمیت اور ضرورت کے متعلق حضرت مولانا مفتی محمد شفیع  ؒ کی عبارت ملاحظہ فرمائیں:

’’عقیدۂ توحید جو اسلام کا سب سے پہلا بنیادی عقیدہ ہے، یہ صر ف ایک نظر یہ نہیں، بلکہ انسان کو صحیح معنی میں انسان بنانے کا واحد ذریعہ ہے جو انسان کی تمام مشکلات کا حل اور ہر حالت میں اس کی پناہ گاہ، اور ہر غم و فکر میں اس کا غمگسار ہے، کیونکہ عقیدۂ توحید کا حاصل یہ ہے کہ: عناصر کے کون و فساد اور ان کے سارے تغیرات صرف ایک ہستی کی حیثیت کے تابع اور اس کی حکمت کے مظاہر ہیں:


ہر  تغیر  ہے  غیب  کی  آواز

ہر  تجدُّد  میں  ہیں  ہزاروں  راز


اس عقیدہ کا مالک ساری دنیا سے بے نیاز، ہر خوف و خطر سے بالاتر ہوکر زندگی گزارتا ہے۔‘‘        (معارف القرآن، ص: ۱۳۹)

ہمارے اکابر اور اسلاف نے ہر دور میں مسئلہ توحید سمجھانے کے لیے روز مرہ زندگی میں پیش آنے والے واقعات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سمجھانے کی پوری پوری کوشش فرمائی ہے۔ جب بھی اسلاف سے توحید کے متعلق سوالات کیے گئے تو اللہ تبارک نے مخالفین کے حالات کے اعتبار سے ان کے دل میں ایسی مثالیں ڈالیں جو بیان کرنے کے بعد بہت ہی مؤثر ثابت ہوئیں اور ہدایت کا ذریعہ بنیں۔ اس طرح کے واقعات تو بہت زیادہ ہیں، لیکن ہم یہاں چند نمونے کے طور پر ذکر کر رہے ہیں، جن میں ابھی تک افادیت اور تاثیر کی خوشبو مہک رہی ہے :

۱:- امام اعظم ابو حنیفہ ؒ ایک دن اپنی مسجد میں تشریف فرما تھے، دہریوں کے خلاف آپ ننگی تلوار تھے،ا دھریہ لوگ آپ کو فرصت کا موقع پاکر قتل کرنے کے در پے رہتے تھے۔ ایک دن دہریہ لوگ تلوار یں تان کر جماعت کی شکل میں امام ابوحنیفہؒ کے پاس آدھمکے اور وجودِ باری تعالیٰ کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ: میں اس وقت ایک بڑی سوچ میں ہوں، لوگوں نے مجھ سے کہا ہے کہ ایک بہت بڑی کشتی جس میں طرح طرح کا تجارتی سامان ہے، مگر نہ کوئی اس کا نگہبان ہے نہ چلانے والا ہے، مگر اس کے باوجود برابر آجا رہی ہے اور بڑی بڑی موجوں کو خود بخود چیرتی، پھاڑتی گزر جاتی ہے، رُکنے کی جگہ پر رُک جاتی ہے اور چلنے کی جگہ پر چلنے لگتی ہے، نہ کوئی ملاح ہے، نہ منتظم۔ سوال کرنے والے دہریوں نے کہا کہ: آپ کس سوچ میں پڑ گئے؟ کوئی عقلمند انسان ایسی بات کہہ سکتا ہے کہ اتنی بڑی کشتی نظام کے ساتھ طوفانی سمندر میں آئے جائے، اور کوئی اس کا نگران اور چلانے والا نہ ہو؟! حضرت امام صاحب ؒ نے فرمایا کہ: افسوس تمہاری عقلوں پر کہ ایک کشتی تو بغیر چلانے والے کے نہ چل سکے، لیکن یہ ساری دنیا آسمان وزمین کی سب چیزیں ٹھیک اپنے اپنے کام پر لگی رہیں اور اس کا مالک حاکم اور خالق کوئی نہ ہو؟ یہ جواب سن کر وہ لاجواب ہو گئے اور حق معلوم کرکے اسلام لائے۔ (التفسیر الکبیر، ج:۱، ص: ۳۳۳۔ تفسیر ابن کثیر، ج:۱، ص:۵۹۔ الخیرات الحسان، ص: ۷۹)

۲:-امام مالک ؒ سے ہارون رشید نے پوچھا کہ: اللہ تعالیٰ کے وجود پر کیا دلیل ہے؟ آپ نے فرمایا: زبانوں کا مختلف ہونا، آوازوں کا جدا ہونا، لب ولہجہ کا الگ ہونا، ثابت کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ ہے۔ (التفسیر الکبیر، ج:۱، ص: ۳۳۴۔ ابن کثیر، ج: ۱، ص: ۵۸)

۳:- امام شافعی ؒ سے وجودِ باری تعالیٰ کے بارے میں سوال کیا گیا کہ تو آپ نے جواب دیا کہ: شہتوت درخت کے سب پتے ایک ہی جیسے ہیں، ایک ہی ذائقہ کے ہوتے ہیں، کیڑے اور شہد کی مکھی اور گائے، بکریاں اور ہرن وغیرہ سب اس کو چاٹتے ہیں، کھاتے ہیں، چگتے ہیں، چرتے ہیں، اسی کو کھا کر کیڑے میں سے ریشم نکلتا ہے، شہد کی مکھی شہد دیتی ہے، ہرن میں مشک پیدا ہوتا ہے، گائے، بکریاں اسے کھا کر مینگنیاں دیتی ہیں، کیا یہ اس امر کی صاف دلیل نہیں کہ ایک ہی پتے میں مختلف خواص پیدا کرنے والا کوئی ہے؟ اور اسی کو ہم اللہ تبارک تعالیٰ کہتے ہیں، وہ ہی موجد اور صانع ہے۔ (التفسیر الکبیر، ج:۱ ، ص:۳۳۳۔ ابن کثیر، ج: ۱، ص: ۵۷)

۴:- امام احمد بن حنبل ؒ سے ایک بار وجودِ باری تعالیٰ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ: سنو، یہاں ایک نہایت مضبوط قلعہ ہے، جس میں کوئی دروازہ نہیں، نہ کوئی راستہ ہے، بلکہ سوراخ تک نہیں، باہر سے چاندی کی طرح چمک رہا ہے اور اندر سے سونے کی طرح دمک رہا ہے اور اوپر نیچے دائیں بائیں چاروں طرف سے بالکل بند ہے۔ ہوا تک اس میں نہیں جا سکتی ہے، اچانک اس کی ایک دیوار گرتی ہے اور ایک جاندار آنکھوں والا ، کانوں والا بولتا چلتا، خوبصورت شکل والا، پیاری بولی والا، چلتا پھرتا نکل آتا ہے۔ بتائو! اس بند اور محفوظ مکان میں اسے پیدا کرنے والا کوئی ہے یا نہیں؟ اور وہ ہستی انسانی ہستیوں سے بالا تر اور اس کی قدرت غیر محدود ہے یا نہیں؟ آپ کا مطلب یہ تھا کہ انڈے کو دیکھو جو ہر طرف سے بند ہے، پھر اس کی سفید زردی سے پروردگار خالق یکتا جاندار بچہ پیدا کر دیتا ہے، یہ ہی دلیل ہے خدا کے وجود پر اور اس کی توحید پر۔ (التفسیرالکبیر، ج:۱، ص: ۳۳۴۔ ابن کثیر، ج: ۱، ص: ۵۹)

۵:- عالمِ اسلام اور اہلِ بیتؓ کی مشہور شخصیت حضرت جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ  کے پاس ایک زندیق ملحد آیا اور صانع و خالق کا انکار کرنے لگا۔ امام نے اس کو سمجھانے کی غرض سے سوال کیا کہ: تم نے کبھی سمندر کا سفر کشتی پر کیا ہے؟ اس نے جواباً کہا: جی ہاں ، پھر امام نے پوچھا کہ: کیاتونے سمندر کے خوفناک حالات کابھی کبھی مشاہدہ کیا ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں! پھر امام نے فرمایا: کیسے؟ ذرا تفصیل تو بتائیں؟ اس شخص نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ: ایک دن سمندری سفر کے دوران سخت خوف زدہ طوفانی ہوا چل پڑی، جس کے نتیجہ میں کشتی بھی ٹوٹ گئی اور ملاح بھی ڈوب کر مرگئے۔ میں نے ٹوٹی ہوئی کشتی میں سے ایک تختہ کو پکڑا، لیکن بالآخر سمندری موجوں کی وجہ سے وہ تختہ بھی مجھ سے چھوٹ گیا، بالآخر سمندری موجوں  نے مجھے کنارے تک پہنچا دیا۔ یہ سن کر حضرت جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا کہ: پہلے تو سمندری سفر کے دوران سمندری پانی سے گزرنے کے لیے کشتی پر اعتماد کرکے سوار ہوا اور ساتھ ساتھ ملاحوں پر بھی اعتماد کیا، لیکن جب یہ دو نوں ختم ہو گئے تو کشتی کے ایک تختہ پر اعتماد کرکے اپنے آپ کو بچانے کے لیے تو نے اس پراعتماد کیا، یہ جب سارے سہارے ختم ہوئے تو تونے اپنے آپ کو ہلاکت کے لیے تیار کرلیا۔ اس پر حضرت جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا کہ: کیا تونے اس کے بعد سلامتی کی تمنا کی؟ کہا کہ: جی ہاں، حضرت جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا کہ: اس درد ناک حالت میں سلامتی کی امید کس سے رکھی؟ وہ شخص خاموش ہوگیا۔ اس پر حضرت جعفر رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا کہ: اس خوفناک حالت میں تونے جس سے سلامتی کی اُمید رکھی، یہ ہی تو صانع وخالق ہے، جس نے تجھے غرق ہونے سے بچایا۔ یہ سن کر وہ آپ ؒ کے ہاتھ پر مسلمان ہو گیا۔ واہ کیا ہی سمجھانے کا انداز ہے ۔ (التفسیر الکبیر، ج: ۱، ص: ۳۳۳)

۶:- امام اعظم ابو حنیفہ ؒ سے ایک بار وجودِ باری تعالیٰ کے متعلق سوال کیا گیا تو آپؒ نے فرمایا کہ: تم نے یہ نہیں دیکھا کہ والدین کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ لڑکا پیدا ہو، لیکن اس کے برعکس لڑکی پیدا ہو جاتی ہے۔ اسی طرح بعض اوقات والدین کی یہ آرزو ہوتی ہے کہ لڑکی پیدا ہو، لیکن اس کے برعکس لڑکا پیدا ہو جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کوئی ایسی ذات ہے جو والدین کی خواہش کی تکمیل میں مانع ہے اور اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتی ہے۔ یہ وہی ذات ہے جس کو ہم اللہ تبارک تعالیٰ کہتے ہیں۔ (التفسیر الکبیر، ج:۱، ص: ۳۳۳)

۷:- شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ  وجودِ باری تعالیٰ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ: جس دہریہ سے چاہیں پوچھ دیکھئے کہ تمہاری کتنی عمر ہے؟ وہ ضرور بیس ، تیس، چالیس، پچاس کوئی عدد یقینی یا تخمینی بیان کرے گا، جس کے معنی یہ ہیں کہ ہم کو موجود ہوئے اتنے برس ہوئے ہیں۔ اب اس سے پوچھئے کہ آیا آپ خود بخود پیدا ہو گئے یا کسی نے تم کو پیدا کیا ہے؟ اور پھر وہ پید ا کرنے والا ممکن ہے یا واجب؟ یہ تو ظاہر ہے کہ وہ خود بخود پیدا نہیں ہوا، ورنہ واجب الوجود ہو جاتا،ا ور ہمیشہ پایا جاتاا ور پھر معدوم نہ ہوتا۔ جس کا وجود اپنا ہو‘ وہ ہمیشہ رہتا ہے۔ یہ بد یہی بات ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس کا پیدا کرنے والا ممکن نہیں، ورنہ تسلسل لازم آئے گا، اور پھر اس ممکن کے پیدا کرنے والے اور پھر اس کے پیدا کرنے میں کلام کیا جائے اور یہ سلسلہ کسی واجب الوجود کی طرف منتہی مانا جائے گا، جس نے ہم کو اس خوبی اور محبوب کی شان میں پیدا کیا ہے، وہ رب ہے جس کا ہر زمان میں ایک جدا نام ہے اور جب وہ خالق ہے تو اس میں علم، قدرت ، حیات، ارادہ وغیرہ عمدہ صفات بھی ہیں، خواہ وہ عین ذات ہو یا غیر، خواہ لاعین ولاغیر۔ (تفسیر حقانی، ج:۱، ص: ۱۱۲)

۸:- کسی بدوی دیہاتی سے وجودِ باری تعالیٰ کے بارے میں سو ال کیا گیا تو اس نے کہا کہ: ’’یَا سُبْحَانَ اللّٰہِ اِنَّ البَعْرَۃَ تَدُلُّ عَلَی الْبَعِیْرِ‘‘ زمین پر پڑی ہوئی مینگنیاں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ یہاں سے اونٹ گزر گیا ہے۔ ’’وَإِنَّ اَثَرَ الأََ قْدَامِ یَدُ لُّ عَلَی المَسِیْرِ‘‘  زمین پر پائوں کے نشانات سے کسی آدمی کے گزرنے کا پتہ چلتا ہے۔ ’’وَالْرَّوْثُ عَلَی الْحَمِیْر‘‘  لید سے گدھے کا پتہ چلتا ہے۔  ’’فَسَمَائٌ ذَاتِ الْأَبْرَاجِ وَأَرْضٌ ذَاتُ فِجَاجِ وَبحَارٌ ذَاتُ الْأَمْوَاجِ، أَلاَ یَدُلُّ عَلٰی ذٰلِکَ؟‘‘  تو کیا برجوں والا آسمان، اور راستوں والی زمین، اور موج مارنے والے سمندر، اللہ تعالیٰ باریک بین اور خبردار کے وجود پر اور توحید پر دلیل نہیں بن سکتے؟ ۔ ( التفسیر الکبیر، ج: ۱، ص: ۳۳۴۔ تفسیر ابن کثیر، ج: ۱، ص: ۵۹)

۹:-ایک حکیم سے وجودِ باری تعالیٰ کے بارے میں سوال کیا گیا کہ آپ نے اپنے رب کو کیسے پہچانا؟ تو فرمایا کہ : ’’ ہڑ اگر خشک استعمال کی جائے تو اسہال کر دیتی ہے اور اگر تر گیلی نرم کھا ئی جائے تو اسہال کو روک دیتی ہے۔‘‘ ( التفسیر الکبیر، ج:۱، ص: ۳۳۴)

۱۰:- ایک حکیم سے سوال کیا گیا کہ آپ نے اپنے رب کو کیسے پہچانا؟ تو فرمایا کہ: شہد کی مکھی کے ذریعہ، وہ اس طرح کہ شہد کی مکھی کی دو طرف ہوتی ہیں: ان میں سے ایک طرف سے تو شہد دیتی ہے اور دوسری طرف  سے ڈنگ مارتی ہے اور یہ شہد حقیقت میں اس ڈنگ کے نتیجہ میں حاصل ہوتی ہے:  ’’عرفتہ بنحلۃ  بأحد طرفیھا تعسل والآخر تلسع والعسل مقلوب اللسع۔‘‘  (التفسیرالکبیر، ج:۱، ص: ۳۳۴)

۱۱:-  ابن المعتز کا قول ہے کہ افسوس اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اس کی ذات کے جھٹلانے پر لوگ کیسی دلیری کرجاتے ہیں، حالانکہ ہر چیز اس پر وردگار کی ہستی اور وحدہٗ لاشریک ہونے پر گواہ ہے:


فیا عجباً کیف یعص الإلٰہ

أم کیف یجحدہ الجاحد

و في کل شيء لہٗ آیۃ

تدل علی أنہ واحد

 (تفسیر ابن کثیر، ج: ۷، ص: ۵۹)


پیشکش: سلسلہ عقائد اسلام، شعبۂ تحفظ اسلام میڈیا سروس، مرکز تحفظ اسلام ہند