Sunday, February 14, 2021

ویلنٹائن ڈے منانے والوں کےنام..... ایک پیغام!!!


 ویلنٹائن ڈے منانے والوں کےنام..... ایک پیغام!!! 


عبدالرحمن الخبیر قاسمی بستوی

ترجمان: تنظیم ابنائے ثاقب ورکن شوریٰ مرکز تحفظ اسلام ہند


 

14 فروی ویلنٹائن ڈے! یعنی بے حیائی کا عالمی دن ، یومِ فریب جس میں جانور بھی انسان کی بے حیا اور گھناؤنی حرکتوں کو دیکھ کر شرمندہ ہو جائے، زمین خدا سے پناہ مانگے، ویلنٹائن ڈے جس کو محبت کے نام پر انسانیت کو بے آبرو اور حیا کا جنازہ نکالنے کےلئے ان بے حیا لوگوں نے ایجاد کیا جن کے یہاں ماں، بہن بیٹی کی پہچان تک مشکل ہے، جن کے کتے توبیڈ پر سوتے ہیں پر والدین اولڈ ہاؤس میں پڑے ہوتے ہیں، لیکن افسوس کی انتہا تو تب ہوتی ہے کہ جب اس کو وہ قوم بھی منانے لگتی ہے جو اس رسول اللہ ﷺ کو مانتی ہے جس کی پاکیزہ تعلیم! الحیاءشعبۃ من الایمان! (حیا ایمان ہی کا ایک حصہ ہے) ہر دین کی ایک پہچان ہوا کرتی ہے اور اسلام کی پہچان حیا ہے، جس دین کی پہچان ہی حیا ہو اس دین میں بےحیائی کی کوئی بھی جگہ نہیں ہو سکتی۔ 


محترم قارئین! 

14 فروری یہ عیسائیوں کا تہوار ہے اس دن عیسائی سرخ لباس زیب تن کرتے ہیں، پھولوں کے نذرانے پیش کرتے ہیں، آپس میں تحفہ تحائف دیا اور لیا جاتا ہے، محبت کا اظہار والہانہ انداز میں کیا جاتا ہے، اس تہوار کو منانے کا اک خاص انداز یہ ہوتا ہے کہ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے بے پردگی اور بے حیائی کے ساتھ میل ملاپ، تحفے تحائف کا لین دین سے لے کر فحاشی و عریانی کا جتنا ہو سکے کھلے عام یا چوری چپکے ارتقاب کیا جاتا ہے، اس دن رقص، موسیقی، مے خوری، بدکاری کے ریکارڈ توڑے جاتے ہیں، اس طرح اسلامی تعلیمات کا سرِعام مذاق اڑایا جاتا ہے، اسلام ہمیں حیا اور پاکیزگی کا پیغام دیتا ہے. ارشاد باری تعالیٰ ہے :


(اےنبی) مسلمان مردوں سے کہہ دو اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لیے بہت پاکیزہ ہے. بےشک اللہ کو ان کے کاموں کی خبر ہے. اور مسلمان عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی پاکدامنی کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں. (سورہ نور)


ایک اور جگہ ارشاد ہوا:


اور بدکاری کے قریب نہ جاؤ بے شک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی برا راستہ ہے


نیز آج کی نوجوان نسل یاد رکھےاگر آج اس طرح خوشی خوشی گناہوں کی دلدل میں دھنسے گی تو کل اس کی اولاد بھی اس نحوست کا شکار ہو گی، یہ محبت کا مذاق ہے، محبت تو ایک پاکیزہ انسانی جذبہ ہے جو بندہ مومن کے دل میں اللہ اور اس کے رسول کیلئے پیدا ہوتا ہے، ایسی محبت نہیں جو ہوس پرستی میں رنگی ہو۔ 


پس اس گناہ اور بدکاری سے بچنے کے لئے دنیا بھر میں "یومِ حیا" منایا جاتا ہے، کیونکہ اسلام ہمیں حیا اور پاکیزگی کا حکم دیتا ہے، اور غیر مسلموں کے تہوار منانے سے منا کرتا ہے۔ 


نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا :


جو قوم جس قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انہی میں سے ہے


آخر میں میری نوجوان طبقے سے التجا ہے خدارا اس دن اپنے کردار کو داغدار کر کے پاش پاش ہونے سے بچا لیں، اپنے نامہ اعمال کو گناہوں کی سیاہی سے آلودہ نہ کریں اور اس دن یعنی 14 فروری کو "یوم حیا" اور " یوم حجاب" سمجھ کر حیا کو عام کریں، کسی کو پھول پیش کرنے کے بجائے اپنے گھر میں بہنوں کو حجاب پیش کریں، کیونکہ جو چیزیں عام ہوں اس کے توڑ کےلئے اس کا بدل تلاش کریں اور اسے خوب عام کریں تاکہ برائی بےحیائی بدکاری خود بخود ختم ہوجائے، کسی کےسر پر عزت و آبرو کی چادر ڈالیں، تاکہ معاشرہ حیا کی خوشبو سے مہکنے لگے، حیا کے زیور سے اپنے آپ کو آراستہ کریں ورنہ بےحیائی نسلوں کا سفرطئے کرکے گمراہی تک پہنچائے گی


اللہ رب العزت ہم سب کی عزتوں کی حفاظت فرمائے اور ہمیں شیطان کے شر سے محفوظ رکھے.....آمین

Saturday, February 13, 2021

ویلنٹائن ڈے بے حیائی کا عالمی دن!



 ویلنٹائن ڈے بے حیائی کا عالمی دن!


✍️ بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


اللہ تبارک و تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک پاکیزہ مذہب اور تہذیب عطاء کیا۔ دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات کا نام ہے۔ جس نے انسان کو زندگی کے ہر گوشے میں رہنمائی فراہم کی ہے۔ اسلام نے جہاں ہمیں نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور دیگر عبادات کے حوالے سے رہنمائی فراہم کی وہیں سیاست، معاشرت، معاشیات، اخلاقیات اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں بھی بھرپور تعلیمات عطاء کی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کی کرنیں مکہ و مدینہ سے نکل کر پوری دنیا میں پہنچ چکی ہیں۔ اور دن بدن بلاد کفار میں بسنے والے لوگ دائرۂ اسلام میں داخل ہورہے ہیں۔ آج مغرب میں اسلام سب سے مقبول اور تیزی سے پھیلنے والا مذہب بن چکا ہے۔ اسلام اور مغربی تہذیب کی کشمکش صدیوں سے جاری ہے۔اسلام کی بڑھتی مقبولیت کو دیکھ کر مغرب نہ صرف پریشانی میں مبتلا ہے بلکہ اسلامی تعلیمات اور تہذیب پر منصوبوں کے تحت حملے کیے جارہا ہے اور ان مذموم مقاصد کو سر انجام دینے کیلئے باقاعدہ مختلف ادارے دن رات سرگرم ہیں۔ مغرب کے مشترکہ اہداف میں اولین ہدف مسلم معاشرے میں بے حیائی، بے شرمی، جنسی بے راہ روی اور شہوت رانی کا فروغ دینا ہے۔ اسی کے پیش نظر مغربی تہذیب نے معاشرے میں مختلف بے ہودہ رسوم و رواج، بدکاری و بے حیائی کو جنم دیا ہے۔ انہیں میں سے ایک 14؍ فروری کو ”یوم محبت“ کے نام سے منایا جانے والا ”ویلنٹائن ڈے“ ہے۔ جس کی بنیاد بے حیائی، بے شرمی، بدکاری اور زنا پر ہے۔ افسوس کہ آج مسلمان بھی مغرب کی اس سازش کا شکار ہوچکے ہیں۔

حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی

خدا کرے کہ جوانی تری رہے بے داغ


ہر سال 14؍ فروری کو دنیا کے مختلف حصّوں بالخصوص مغربی ممالک میں ”ویلنٹائن ڈے“ کو بے حیائی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر ناجائز طریقے سے محبت کرنے والوں کے درمیان نہ صرف مٹھائیوں، پھولوں، کارڈز اور ہر طرح کے تحائف کا تبادلہ ہوتا ہے بلکہ ناجائز تعلقات بھی قائم کئے جاتے ہیں۔ کارڈز بھیجنے کے حوالے سے ایک تحقیق کے مطابق عیسائیوں کا تہوار کرسمس کے بعد یہ دوسرا بڑا موقع ہوتا ہے۔ آخر ویلنٹائن ڈے کے پیچھے کیا کہانی ہے؟ آئیے اس حوالے سے سب سے مشہور روایات اور واقعات پر نظر ڈالتے ہیں۔ بعض کے نزدیک یہ وہ دن ہے جب ”سینٹ ویلنٹائن“ نے روزہ رکھا تھا اور لوگوں نے اسے”محبت کا دیوتا“ مان کر یہ دن اسی کے نام کر دیا۔ کئی شرکیہ عقائد کے حامل لوگ اسے یونانی کیوپڈ (محبت کے دیوتا) اور وینس (حسن کی دیوی) سے موسوم کرتے ہیں، یہ لوگ کیوپڈ کو ویلنٹائن ڈے کا مرکزی کردار کہتے ہیں، جو اپنی محبت کے زہر بُجھے تیر نوجوان دلوں پر چلا کر انہیں گھائل کرتا تھا۔ تاریخی شواہد کے مطابق ویلنٹائن کے آغاز کے آثار قدیم رومن تہذیب کے عروج کے زمانے سے چلے آرہے ہیں۔ (ویلنٹائن ڈے تاریخ، حقائق اور اسلام کی نظر میں: 40)


ایک مشہور واقعہ یہ ہیکہ تیسری صدی عیسوی میں ایک ”ویلنٹائن“ نام کا پادری راہبہ کی محبت میں مبتلا ہوچکا تھا۔ چونکہ عیسائیت میں راہبہ سے نکاح ممنوع تھا اسلئے ایک دن پادری نے اپنی معشوقہ کو بتایا کہ اس نے خواب میں دیکھا کہ 14؍ فروری کو اگر کوئی راہبہ سے جسمانی تعلق کرلے تو وہ گناہ میں شامل نہیں ہوگا۔ راہبہ نے اسکی بات پر یقین کرلیا اور دونوں اس دن وہ سب کچھ کر گزرے۔ کلیسا کی روایات کی یوں دھجیاں اڑانے پر انکا حشر وہی ہوا جو عموماً ہوا کرتا ہے، یعنی ان دونوں کو قتل کردیا گیا۔ لیکن کچھ عرصہ بعد چند لوگوں نے انہیں ”محبت کا شہید“ جان کر عقیدت کا اظہار کیا اور انکی یاد میں یہ دن منانا شروع کردیا۔ (ویلنٹائن ڈے تاریخ، حقائق اور اسلام کی نظر میں: 41)


تاریخ یہ بھی بتاتی ہیکہ روم کے جیل خانہ میں ایک ایسے شخص کو مقید کردیا گیا جو راتوں کو لوگوں کے گھروں میں گھس کر عورتوں کے ساتھ زیادتی کرتا تھا۔ اس قیدی کا نام پادری ”سینٹ ویلنٹائن“ تھا، جس کے نام سے اس تہوار کو منسوب کرکے شہرت دی گئی۔ جس جیل میں اسے قیدی بنا کر رکھا گیا تھا اس جیل کی جیلر کی بیٹی روزانہ اپنے والد کو کھانا دینے جیل آیا کرتی تھی، پادری نے کسی طریقے سے اس لڑکی کو اپنی طرف مائل کرلیا، جس کے نتیجے میں اسے جیل سے رہائی نصیب ہوئی۔ اس کے بعد اس نے کچھ عرصہ تک ناجائز طریقے سے اسی داروغہ کی بیٹی کے ساتھ گزارا اور ایک دن اسے چھوڑ کر ایسے غائب ہوا کچھ سراغ نہ ملا! (ویلنٹائن ڈے تاریخ، حقائق اور اسلام کی نظر میں: 48)


اس طرح کی مختلف داستانیں تاریخ کے اوراق میں درج ہیں، جن کا خلاصہ یہ ہیکہ ”ویلنٹائن ڈے“ کی بنیاد ہی کلی طور پر فحاشی، عریانی، بے حیائی اور بدتہذیبی پر مبنی ہے۔ ویلنٹائن ڈے بے حیائی کو فروغ دینے کا باعث ہے، اس کا مقصد صرف اور صرف مرد و عورت کو ایک دوسرے کے قریب لانا ہے اور جنسی بے راہ روی کو محبت کا لبادہ پہنا کر ناجائز تعلقات قائم کروانا ہے۔ یہ اسلامی معاشرہ و تہذیب کو تباہ و برباد کرنے کی عالم کفر کی نہ صرف سازش ہے بلکہ اولین ہدف ہے۔ افسوس کی بات ہیکہ ”ویلنٹائن ڈے“ کے نام پر منایا جانے والا بے حیائی کے اس عالمی دن میں اب مسلمان بھی شریک ہورہے ہیں اور بے حیا، بے شرم اور دوسروں کی بیٹیوں کی عزت پر ڈاکا ڈالنے والے عیسائی پادری کی روایات کو زندہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہیکہ آج معاشرے میں اخلاقیات کا وجود ختم ہوتا نظر آرہا ہے، خاندانی نظام تباہ و بربا ہورہا ہے، مقدس رشتوں کی اہمیت ختم ہوتی جارہی ہے، عصمت و عفت اور پاکدامنی اور شرم و حیا اپنی آخری سانس لینے پر مجبور ہے۔ ان سب حالات کے باوجود بھی بدقسمتی سے آج کل کے ماڈرن مسلمان دین اسلام کی پاکیزگی تہذیب و تمدن کو چھوڑ کر مغرب کا تھوک چاٹنا اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہیں۔ اسلامی تہذیب، مذہبی و معاشرتی روایات کا تحفظ کرنے کے بجائے ویلنٹائن ڈے جیسے فحاشی اور بے غیرتی پر مبنی مغربی انداز ثقافت کے فروغ میں مسلمان شرم ناک کردار ادا کررہا ہے، کسی شاعر نے کیا خوب کہا:

جو درر ملا اپنوں سے ملا

غیروں سے شکایت کون کرے؟


اسلام تو ”حیا“ کی تعلیم دیتا ہے اور اسکی پاسداری کی خوب ترغیب دیتا ہے بلکہ حیا کو ایمان کا شعبہ قرار دیا گیا ہے۔ بخاری شریف کی روایت ہیکہ ”حیا ایمان کا ایک اہم جز ہے!“ (صحیح البخاری،163)۔ اور ایک دوسری حدیث میں فرمایا کہ ”بے شک ہر دین کی کوئی خاص خصلت (فطرت، مزاج یا پہچان) ہوتی ہے اور اسلام کی وہ خاص خصلت حیا ہے!“ (ابن ماجہ، 4181)۔ یہی وجہ ہے کہ عالم کفر نے اسلام کی پہچان ”حیا“ پر حملہ کرکے اپنی دشمنی کا آغاز کیا۔ اور آج 14؍ فروری آتے ہی بے ہودگی اور بے حیائی کا سیلاب امڈتا چلا آتا ہے۔ نسل نو اپنے مقصد حیات کو چھوڑ کر بے حیائی کا ننگا ناچ کھیلنے لگتی ہے اور ہمارے تعلیمی اداروں میں بھی اس بے حیائی کا سبق دیا جانے لگا ہے۔ نہ صرف عیسائی مشنریز کے پابند تعلیمی ادارے بلکہ آج کل مسلم اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیس میں بھی  پابندی کے ساتھ ویلنٹائن ڈے منا کر عذاب خداوندی کو دعوت دی جاتی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ”اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ“ کہ ”جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی پھیلے ان کیلئے دنیا و آخرت میں دردناک عذاب ہے!“ (سورۃ النور: 19)


اسلام دین فطرت ہے اور محبت فطرت کا تقاضا ہے، اسلام نے محبت کرنے سے نہیں روکا بلکہ اسکے کچھ حدود و قیود مقرر فرمائی تاکہ مسلمان محبت اللہ اور اسکے رسول ؐ اور انکے ارشادات کے مطابق جائز طریقے سے کرے۔ لیکن ویلنٹائن ڈے کے دن ایک لڑکا ایک لڑکی سے ناجائز طریقہ سے اظہار محبت کرتا ہے۔ آج اس رسمِ بد نے ایک طوفانِ بے حیائی برپا کردیا ہے۔ عفت و عصمت کی عظمت اور رشتہئ نکاح کے تقدس کو پامال کردیا ہے۔ معاشرہ کو پورا گندہ کرنے اور حیا و اخلاق کی تعلیمات، اور جنسی بے راہ روی کو فروغ دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑا ہے، بر سرعام اظہار محبت کے نت نئے طریقوں کے ذریعہ شرم و حیا، ادب وشرافت کو ختم کردیا گیا ہے۔ اور افسوس کی بات ہیکہ آج ملت اسلامیہ کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بھی ویلنٹائن ڈے منارہی ہیں۔ یہی وجہ ہیکہ آج ہماری نسل نو سے دین و شریعت کا تصور ختم ہوتا جارہا ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے واضح طور پر ارشاد فرمایا کہ ”حیا اور ایمان یہ دنوں ہمیشہ ساتھ اکٹھے رہتے ہیں، جب ان دونوں میں سے کوئی ایک اٹھا لیا جائے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے!“ (شعب الایمان)۔ اور اسی کے ساتھ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہیکہ ”ویلنٹائن ڈے منانا سراسر حرام ہے۔“ کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہیکہ ”قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ“ کہ ”کہ دو میرے پروردگار نے تو بے حیائی کے کاموں کو حرام قرار دیا ہے، چاہے وہ بے حیائی کھلی ہوئی ہو یا چھپی ہوئی ہو!“ (سورہ اعراف، 33)۔ اور ویلنٹائن ڈے منانا کھلے عام زنا کرنے کے برابر ہے، ویلنٹائن ڈے یوم محبت نہیں بلکہ یوم زنا ہے۔ بخاری شریف کی روایت ہیکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سر عام گناہ کرنے کے وبال پر فرمایا کہ ”میری پوری امت معاف کردی جائے گی، لیکن کھلم کھلا گناہ کرنے والوں کو معاف نہیں کیا جائے گا۔“ اور ویلنٹائن ڈے منانے کا مطلب عیسائیوں کی مشابہت اختیار کرنا ہے اور اللہ کے رسولؐ نے واضح طور پر کہا کہ ”جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ انہیں میں سے ہے!“ (ابو داؤد، 4033)


آج مسلمان مغرب کی اس سازش میں اس طرح پھنستا چلا جارہا ہے وہ اپنی شناخت اور پہچان ہی بھلا بیٹھا ہے۔ نبی کریمؐ نے جو معاشرے قائم فرمایا اسکی بنیاد ”حیا“ پر رکھی جس میں زنا کرنا ہی نہیں بلکہ اسکے اسباب پھیلانا بھی ایک جرم تھا۔ جس دین کی پہچان اور بنیادی ہی حیا ہو اس میں بے حیائی کی کہاں گنجائش ہوسکتی ہے؟ جو شریعت عورتوں کو پردہ میں رکھنے کا حکم دیتی ہو وہ کیوں کر ویلنٹائن ڈے منانے کی اجازت دے گی؟ اور یہ بات واضح ہیکہ ”ویلنٹائن ڈے منانے کی اسلام میں قطعاً اجازت نہیں۔“ ہمیں تو چاہئے تھا کہ ہم اپنے آقا دوعالم جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تہذیب و ثقافت کو اس طرح غالب کرتے کہ عالم کفر بھی اسکی نقالی پر مجبور ہوجاتا۔ لیکن ہائے افسوس کہ ہم اسکے برعکس کام کررہے ہیں۔ کیا کمی تھی میرے آقا ؐ کی پاکیزہ تہذیب و ثقافت میں کہ ہم نے اسے اپنے معاشرے سے ہی جدا کردیا؟ اور نبیؐ کے دشمنوں کی غلیظ تہذیب کو سینے سے لگایا؟ کیا ہم اس طوفان بے حیائی سے اپنے آقا ؐ کو تکلیف نہیں پہنچا رہے رہیں؟ جس نبیؐ نے ہماری خاطر اپنا سب کچھ قربان کردیا آج ہم نے انہیں یہ صلہ دیا کہ انکی سنت و شریعت کو ہی اپنی زندگی سے نکال دیا، کیا یہی ایمان اور عشقِ رسول کا تقاضہ ہے؟ آج ویلنٹائن ڈے کے نام پر جو کچھ ہورہا ہے وہ تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ لہٰذا آج ضرورت ہیکہ ہم سب ملکر عہد کریں کہ دین اسلام کی تہذیب و ثقافت کی حفاظت کرتے ہوئے ویلنٹائن ڈے کا مکمل بائیکاٹ کریں گے، معاشرے کو پاکیزہ بنانے کی فکر کریں گے اور ہم اپنی محبت کو اسلام کی مقرر کردہ حدود و قیود یعنی پاکیزہ رشتوں تک ہی محدود رکھیں گے کیونکہ پاکیزگی ایمان کا حصہ ہے اور ہمارا ایمان ہماری شان، آن اور بان ہے!

اب جس کے جی میں آئے وہ پائے روشنی

ہم نے تو دل جلاکر سر عام رکھ دیا!

Wednesday, February 10, 2021

مجلس احرار اسلام پاکستان کے امیر مولانا سید عطاء المہیمن بخاریؒ کا انتقال!




مجلس احرار اسلام پاکستان کے امیر مولانا سید عطاء المہیمن بخاریؒ کا انتقال!

لدھیانہ جامع مسجد میں تعزیتی اجلاس کا انعقاد، شاہ جیؒ کے خاندان کے غم میں برابر کے شریک ہیں: مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانوی


لدھیانہ، 10/فروری (پریس ریلیز): ابن امیر شریعت مولانا سید عطاء المہیمن بخاریؒ (٨١) صدر مجلس احرار اسلام پاکستان کے انتقال کے بعد آج یہاں مجلس احرار اسلام ہند کے صدر دفتر جامع مسجد لدھیانہ میں ایک تعزیتی اجلاس کا انعقاد کیا گیا، جس کی صدارت مجلس احراراسلام ہند کے قومی صدر و شاہی امام پنجاب حضرت مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانوی نے فرمائی۔ اس موقعہ پر نائب شاہی امام قائد احرار مولانا محمد عثمان رحمانی لدھیانوی، بزم حبیب کے صدر غلام حسن قیصر، ہریانہ احرار کے صدر قاری سعید الزماں خضرآبادی، مفتی جمال الدین احرار، محمد مستقیم احرار، شاہنواز خان احرار، قاری محمد محترم، اور جامعہ حبیبیہ لدھیانہ کے طلبہ خاص طور پر موجود تھے۔ اس موقعہ ختم قرآن پاک کے بعد امیر احرار شاہ جی مولاناسید عطاء المہیمن بخاریؒ کی مغفرت کیلئے دعاء کروائی گئی۔ تعزیتی اجلاس کو خطاب کرتے ہوئے صدر احرار شاہی امام مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانوی نے کہا کہ اس غم میں ہم شاہ جی رحمتہ اللہ علیہ کے خاندان کے برابر کے شریک ہیں۔ مولانا سید عطاء المہیمن بخاری مرحوم کے انتقال سے صرف احرار کا ہی نہیں بلکہ ہمارا ذاتی نقصان بھی ہوا ہے۔ شاہ جی کے خاندان سے رئیس الاحرار حضرت مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی رحمتہ علیہ سے ایسا قلب و جان کا تعلق رہا ہے کہ جس کی مثال نہیں ملتی، ہم بچپن میں حبیب و بخاری کے قصے سن کر ہی بڑے ہوئے ہیں۔مولانا حبیب الرحمن ثانی نے کہا کہ امیر شریعت مولاناسید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ اور انکے فرزندوں کی مجلس احرار اسلام میں خدمات سب سے نمایا ہیں اور تاریخ ہمیشہ ان سرفروشان اسلام کو یاد رکھے گی۔ انہوں نے کہا کہ میرے دادا، رئیس الاحرار حضرت مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ اور شاہ جی علیہ الرحمہ تحریک آزادی ہند اور تحریک تحفظ ختم نبوتؐ کے وہ رہنماء ہیں کہ جن کی قیادت سے ہندو پاک میں آج بھی احرار مستفیض ہو رہے ہیں، جماعت احرار میں بے باکی، جرائے اور استقامت، کی بنیاد ان ہی حضرات نے رکھی تھی۔ ان حضرات کا ہی استقلال تھا کہ انگریز اور اسکے توڈی دونوں ہی شکست سے دو چار ہوئے، انہوں نے کہا کہ تقسیم ہند کے وقت گرچہ شاہ جی پاکستان کے اور رئیس الاحراربھارت کے ہو گئے لیکن دونوں میں آپس تعلق اور محبت میں کوئی کمی نہیں آئی۔انہوں نے کہا کہ مولانا سید عطاء المہیمن بخاری مرحوم اپنے والد محترم امیر شریعت مولاناسید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے حقیقی وارث اور عملی ترجمان تھے، آپ نے جس انداز سے احرار کی قیادت کی اور وقتا فوقتا الگ الگ حکومتوں کے دور میں اپنے موقف پر ڈٹے رہے، انہوں نے کہا کہ ہم دعاء گو ہیں کہ پاکستان میں احرار کو اس خانوادے کی سرپرستی حاصل رہے اور پیغام احرار اسی طرح جاری رہے۔


فوٹو کیپشن۔(۱)امیر احرار پاکستان مولانا سید عطاء المہیمن بخاریؒ کی فائل فوٹو (۲) جامع مسجد لدھیانہ میں تعزیتی اجلاس میں دعاکرواتے امیر احرار ہند شاہی امام مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانوی۔۔(آزاد)

Tuesday, February 9, 2021

پیام فرقان - 05


 

{ پیام فرقان - 05 }


🎯آخر شاہی امام پنجاب ہی نشانہ پر کیوں؟


✍️بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


حدیث نبوی ہیکہ ظالم حکمرانوں کے خلاف آواز بلند کرنا سب سے بڑا جہاد ہے- اگر تاریخ اٹھا کر دیکھیں گے تو معلوم ہوگا کہ ہر دور میں علماء حق نے ظالم حکمرانوں کے خلاف آواز بلند کیا ہے- اسی طرح ہندوستان میں بھی علماء حق نے ماضی میں برطانوی حکومت کے خلاف آواز بلند کیا تھا اور حال میں فسطائی حکومت کے خلاف آواز بلند کررہے ہیں- اس دور میں جو علماء حق فسطائی حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے ہیں ان میں سرفہرست مجلس احرار اسلام ہند کے قومی صدر اور پنجاب کے شاہی امام حضرت مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانوی مدظلہ ہیں- جب کبھی ملک میں حکومت مظلوموں پر ظلم و ستم کرنا چاہتی قائد الاحرار شیشہ پلائے ہوئی دیوار کی طرح انکے آگے گھڑے رہتے ہیں- یہی وجہ ہیکہ انکی ایک آواز پر ملت اسلامیہ ہندیہ کا ایک بڑا طبقہ جہاں اٹھ کھڑا ہوتا ہے وہیں دشمن کی راتوں کی نیندیں حرام ہوجاتی ہیں- اسی لئے ہر آئے دن حکومت اپنے دلال گودی میڈیا کی جانب سے انکے خلاف سازشیں کرتی نظر آتی ہے- ہندوستان میں میڈیا کو جمہوریت کا چوتھا ستون مانا جاتا ہے- میڈیا کا کام تھا کہ وہ عوام تک حقائق پہنچاتے، صحیح معلومات فراہم کرتے اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے اور مظلوموں کا ساتھ دیتے- لیکن ہندوستانی گودی میڈیا برسر اقتدار حکومت اور حکمرانوں کی مدح سرائی اور ان کے ہر اقدام کو سراہتا ہے اور جو خبریں حکمرانوں کا پردہ فاش کرنے کا سبب بن سکتی ہیں انہیں وہ نشر نہیں کرتا، یہاں تک کے اگر کوئی مرد مجاہد ظالم حکمرانوں کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے اپنا احتجاج درج کروائے تو انکے خلاف سازش کرتے ہوئے ان پر افواہوں کا انبار لگا دیتی ہے- ابھی ملک بھر میں جاری کسانوں کے احتجاج کو بدنام کرنے اور بی جے پی حکومت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے گودی میڈیا اس حد تک جاچکا ہے کہ اپنے جائز مطالبات منوانے کے لیے دھرنے پر بیٹھے کسانوں کو نہ صرف پاکستان اور چین کے ساتھ جوڑ رہا ہے بلکہ دہشت گرد، خالصتانی اور اینٹی نیشنل ہونے کا بھی لیبل چسپاں کر رہا ہے- یہاں تک کہ کسانوں کی حمایت کرنے والوں کو بنا حقائق کے ایک سانس میں نکسلی، غدار اور غدار وطن بتاتا ہے۔ یہی حال گودی میڈیا کا روح رواں انڈیا ٹی وی کا ہے- اس نے پچھلے دنوں سازش کے تحت ایک پروگرام میں کسانوں کی حمایت میں مجلس احرار اسلام ہند کے صدر دفتر جامع مسجد لدھیانہ میں منعقد ایک میٹنگ کو غلط طریقے سے پیش کرتے ہوئے قائد الاحرار حضرت مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانوی مدظلہ کو بدنام کرنے کی کوشش کی کہ یہ ہمیشہ سے حکومت کے خلاف ہیں اور تصور دیا کہ ملک کی حکومت کے خلاف ہونا ملک کے خلاف ہونے کے مانند ہے- جبکہ ان جیسے گودی میڈیا والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ حب الوطنی کا مطلب ملک کے ساتھ ہونا ہے ملک کی حکومت کے ساتھ نہیں- ماضی میں بھی شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ہو رہے احتجاج کے موقع پر قائد الاحرار کے ایک بیان کو توڑ موڑ کر اسی انڈیا ٹی وی نے اسی طرح کا ایک پروگرام نشر کرتے ہوئے سازش کی تھی، جسکا تحریراً منھ توڑ جواب ہم نے اسی وقت دیا تھا جو ملک کے مختلف اخبارات میں بھی شائع ہوا- آج ایک بار پھر گودی میڈیا قائد الاحرار کی آواز کو دبانے اور انکے خلاف سازش کرنے کیلئے میدان میں اتر چکی ہے کیونکہ انہیں معلوم ہیکہ مولانا لدھیانوی جیسے بے باک جرأت مند قائدین کی آواز پر ملک کے باشندے بیدار ہوجایا کرتے ہیں اور برسر اقتدار ظالم حکومت کو انکی اوقات یاد دلا دیا کرتے- ان گودی میڈیا والوں کو معلوم ہونا چاہیے جس شیر دل انسان کو وہ ڈرانے اور دھمکانے کی کوشش کررہے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کے آباء و اجداد کے سامنے انگریز کی ظالم حکومت کانپ اٹھتی تھی اور جن کے آباؤ اجداد نے اس ملک کی آزادی کیلئے اپنا جان و مال سب کچھ قربان کردیا اور آج بھی اس ملک اور اسکے آئین کی حفاظت کی خاطر جدوجہد کررہے ہیں- گودی میڈیا کا مظلوم کسانوں کا ساتھ نہ دیکر مودی کی فسطائی حکومت کا ساتھ دینا اور کسانوں کی حمایت اور انکے حقوق کیلئے آواز بلند کرنے والے قائدین کے خلاف سازشیں اور غلط پروپیگنڈے کرنا اس بات کی واضح دلیل ہیکہ ہندوستانی گودی میڈیا سرکاری اور درباری بن گیا ہے- جمہوریت کا چوتھا ستون مانا جانے والا میڈیا آج خود جمہوریت کے لئے خطرہ بن گیا ہے۔ وہ عوام کے خلاف کھڑا ہے، باعزت شہریوں کے خلاف سازشیں کر رہا ہے- لیکن وہ کان کھول کر سن لے کہ وہ لاکھ کوششیں کرلیں لیکن انکی سازش کبھی کامیاب نہیں ہوگی، ہم فسطائی حکومت کے ہر ظلم و ستم اور کالے قوانین کے خلاف آواز اٹھاتے رہیں گے کیونکہ یہ ہمارا جمہوری حق ہونے کے ساتھ ساتھ ایک باعزت شہری ہونے کی دلیل ہے اور ہم قائد الاحرار مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانوی جیسے جرأت مند قائدین کی آواز پر لبیک کہتے رہیں گے اور عنقریب وہ دن آئے گا جب حکومت کو جھکنا پڑے گا یا مٹنا پڑے گا کیونکہ ظلم جب حد سے گزرتا ہے تو مٹ جاتا ہے!


فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

8 فروری 2021ء، بروز پیر

+918495087865

mdfurqan7865@gmail.com

Saturday, February 6, 2021

اسلام کے تین بنیادی عقائد!


اسلام کے تین بنیادی عقائد!

✍️بندہ محمّد فرقان عفی عنہ
(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

عقیدہ مضبوط بندھی ہوئی گرہ کو کہتے ہیں، دین کی وہ اصولی اور ضروری باتیں جن کا جاننا اور دل سے ان پر یقین رکھنا مسلمان کیلئے ضروری ہے۔اسلام میں عقیدہ کو اولیت حاصل ہے۔ صحیح عقیدے کے بعد ہی اعمال کی ابتداء ہوتی ہے۔ صحیح عقیدہ ہی وہ بنیاد ہے جس پر دین قائم ہوتا ہے، اور اس کی درستگی پر ہی اعمال کی صحت کا دارومدار ہے۔ حیات انسانی میں عقیدہ کی جو اہمیت ہے، اس کی مثال عمارت کی بنیاد کی ہے۔ اگر اسکی بنیاد صحیح اور مضبوط ہوگی تو عمارت بھی صحیح اور مضبوط ہوگی اور اگر بنیاد ہی کھوکھلی، کمزور اور غلط ہوگی تو عمارت بھی کمزور اور غلط ہوگی اور ایک نہ ایک دن اسکے بھیانک نتائج لاحق ہونگے۔ بس کسی کا عقیدہ درست ہو اور کثرت عبادت نہ بھی ہو تو ایک نہ ایک دن جنت ضرور ملے گی اور اگر عقیدہ ہی غلط اور باطل ہو تو اسکا ٹھکانہ ہمیشہ ہمیش کیلئے جہنم ہوگا۔ تو معلوم ہوا کہ عقیدہ ہر عمل کی قبولیت کی اولین شرط ہے، اگر عقیدہ درست ہوگا تو عمل قبول ہوگا اور اگر عقیدہ غلط ہوگا تو عمل قبول نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح عقیدہ اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

اسلام کے تین بنیادی عقائد:
اللہ تبارک و تعالیٰ نے دین اسلام کا دارومدار عقائد پر رکھا ہے اور اسلام کے تین بنیادی عقائد ہیں۔ ان تینوں عقیدوں پر ایمان لانا ضروری ہی نہیں بلکہ لازمی ہے۔ اگر کوئی شخص ان تین بنیادی عقائد میں سے کسی دو پر ایمان لاکر کسی ایک پر ایمان نہیں لاتا یا اس پر شک و شبہ کرتا ہے تو ایسا شخص گمراہ اور اسلام سے خارج ہے کیونکہ مسلمان ہونے کیلئے ان تینوں عقیدوں پر بلا کسی شک و شبہ کے ایمان لانا ضروری ہے۔ قرآن و حدیث میں اللہ تبارک تعالیٰ اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جن تین بنیادی عقیدوں کا کثرت کے ساتھ تذکرہ کیا ہے وہ یہ ہیں؛ پہلا عقیدۂ توحید، دوسرا عقیدۂ رسالت اور تیسرا عقیدۂ آخرت ہے۔ لہٰذا مسلمان ہونے کیلئے بنیادی طور پر ان تین عقائد پر ایمان لانا بہت ضروری ہے۔ بقیہ ان عقائد پر بھی ایمان لانا ضروری ہے جو ایمان مفصل میں بیان کی گئی ہیں۔

عقیدۂ توحید اور اسکی اہمیت:
اسلام کے بنیادی عقائد میں سب سے پہلا عقیدہ عقیدۂ توحید ہے۔ عقیدۂ توحید کا مطلب یہ ہیکہ انسان یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی ذات و صفات اور جُملہ اوصاف و کمالات میں یکتا و بے مثال ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، وہ وحدہ لاشریک ہے۔ ہر شئی کا مالک اور رب ہے۔ کوئی اس کا ہم پلہ یا ہم مرتبہ نہیں۔ صرف وہی با اختیار ہے۔ ساری عبادتوں کے لائق وہی پاکیزہ ذات ہے۔ اس کے علاوہ تمام معبود باطل ہیں۔ وہ ہر کمال والی صفت سے متصف ہے اور تمام عیوب ونقائص سے پاک ہے۔ حتیٰ کہ اس کی نہ اولاد ہے اور نہ ہی وہ کسی سے پیدا ہوا ہے۔ عقیدۂ توحید اسلام کی اساس اور بنیاد ہے۔ عقیدۂ توحید تمام عقائد کی جڑ اور اصل الاصول ہے اور اعمالِ صالحہ دین کی فرع ہیں۔ ہر مسلمان کو اس بات سے بخوبی آگاہ ہونا چاہیے کہ مومن اور مشرک کے درمیان حد فاصل کلمۂ توحید ”لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللہ“ ہے۔ شریعت اسلامیہ اسی کلمۂ توحید کی تشریح اور تفسیر ہے۔ عقیدۂ توحید کی اہمیت کا اندازہ فقط اس بات سے لگایا جاسکتا ہیکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جتنے بھی انبیاء کو مبعوث کیا سب کے سب انبیاء حتی کہ خاتم النبیین حضرت محمدﷺ کا بنیادی مقصد اور بنیادی دعوت عقیدۂ توحید ہی تھی۔ قرآن مجید کے سورۃ اعراف میں ہیکہ تمام انبیاء کرام اسی دعوت توحید کو لے کر آئے اور اپنی قوم سے یوں مخاطب ہوئے کہ: ’’يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللّـٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰـهٍ غَيْـرُهٝ ؕ‘‘  کہ ”اے میری قوم! اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔“ (سورۃ الاعراف، 59)۔  ایک حدیث میں ہیکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی سب سے پہلے مشرکین مکہ کو یہی دعوت توحید دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’یَا أیُّہَا النَّاسُ قُوْلُوْا لاَ الٰہَ الاّ اللّٰہُ تُفْلِحُوْا‘‘ کہ ”اے لوگو! لاالٰہ الا اللہ کہو کامیاب رہوگے۔“ (مسند احمد)۔ توحید کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے توحید یعنی اپنی عبادت کی خاطر اس پوری کائنات کو بنایا اور اسی توحید کی طرف بلانے کے لیے انبیاء ورسل مبعوث فرمائے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے عالم ارواح میں اپنے بندوں سے سب سے پہلے اسی توحید کا اقرار لیا کہ: ’’اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۖ ‘‘ کہ ”کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟“ تو بنی آدم نے جواب دیا: ’’قَالُوْا بَلٰىۚ شَهِدْنَاۚ‘‘ کہ ”کیوں نہیں آپ ہمارے رب ہیں۔“ (سورۃ الاعراف، 172)- عقیدۂ توحید کی تعلیم و تفہیم کے لیے حضرات انبیاء و خاتم النبیینﷺ، اصحاب رسول رضوان اللہ علیہم اجمعین، تابعین و تبع تابعین، ائمہ عظام و سلف صالحین، بزرگانِ دین و دیوبندی اکابرین نے بیشمار قربانیاں دیں ہیں کیونکہ عقیدۂ توحید صرف آخرت کی کامیابی اور کامرانیوں کی ہی ضمانت نہیں، بلکہ دنیا کی فلاح، سعادت و سیادت، غلبہ و حکمرانی اور استحکام معیشت کا علمبردار بھی ہے۔ امت مسلمہ کے عروج اور زوال کی یہی اساس ہے۔ لہٰذا عقیدہئ توحید پر ایمان دونوں جہاں کی کامیابی ہے اور اسکی حفاظت و دعوت امت مسلمہ پر فرض عین ہے!

عقیدۂ رسالت اور اسکی اہمیت:
عقیدۂ رسالت دین اسلام کا دوسرا بنیادی عقیدہ ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر دور میں اپنی مخلوق کی ہدایت اور رہنمائی کیلئے اپنے برگزیدہ بندوں نبیوں اور رسولوں کو ان کے درمیان بھیجا، جو اللہ تعالیٰ کا پیغام لیکر امت تک پہنچاتے تھے۔ یہ سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوکر امام الانبیاء، خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر ختم ہوا۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم الانبیاء حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات اقدس تک تمام انبیا و رسل کی نبوت اور رسالت کو برحق ماننے کو عقیدۂ رسالت کہتے ہیں۔ قرآن مجید کی متعدد آیات میں جہاں عقیدۂ توحید کا ذکر ہے وہیں عقیدۂ رسالت کا بھی واضح طور پر ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ النُّوْرِ الَّذِیْۤ اَنْزَلْنَاؕ‘‘ کہ ”پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس نور پر وہ جو اتارا ہم نے۔“ (سورۃتغابن، 8)۔ اللہ تعالیٰ کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ رسالت کی حکمت وجود باری تعالیٰ کی شہادت اور سفر حیات میں اس کے احکامات کی اطاعت ہے۔ رسول کی اطاعت ایک مستند ذریعہ ہے جس سے ہم کو اللہ کے احکام و فرامین پہنچتے ہیں۔ اللہ کے نبی پر ایمان اور اسکی اطاعت ہم پر فرض ہے اور اسکی شہادت کے بغیر ایمان نا مکمل ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہیکہ ”قُلْ یَآ اَیُّہَا النَّاسُ کہہ دو اے لوگو! اِنِّـىْ رَسُوْلُ اللّـٰهِ اِلَيْكُمْ جَـمِيْعَا ِۨ میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں، الَّـذِىْ لَـهٝ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ ۖ  جس کی حکومت آسمانوں اور زمین میں ہے، لَآ اِلٰـهَ اِلَّا هُوَ يُحْيِىْ وَيُمِيْتُ ۖ  اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں وہی زندہ کرتا اور مارتا ہے، فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول اُمّی نبی پر الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَکَلِمَاتِہٖ وَاتَّبِعُوْہُ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُوْنَ جو کہ اللہ پر اور اس کے سب کلاموں پر یقین رکھتا ہے اور اس کی پیروی کرو تاکہ تم راہ پاؤ۔“ (سورۃ الاعراف، 158)۔ لہٰذا ہمیں یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ عقیدۂ توحید اور عقیدۂ رسالت ایمان کا اہم حصہ ہیں، جسکی شہادت و اطاعت پر ہی ہماری نجات کا دارومدار ہے۔ بعض گمراہ لوگ تمام انبیاء و رسل پر تو ایمان لاتے ہیں لیکن خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ختم نبوت کا انکار کرتے ہیں لہٰذا یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہیکہ جب تک کوئی شخص تمام انبیاء و رسل پر ایمان نہ لائے اور ساتھ میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو خاتم الانبیاء نہ مانے وہ صاحب ایمان نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خاتم النبیین پر نبوت کا دروازہ ہمیشہ ہمیش کیلئے بند کردیا ہے۔ ترمذی شریف کی روایت ہیکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’اِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدْ انْقَطعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِيْ وَلَا نَبِيَ‘‘ کہ ”اب نبوت اور رسالت کا انقطاع عمل میں آچکا ہے لہٰذا میرے بعد نہ کوئی رسول آئے گا اور نہ کوئی نبی۔“ لہٰذا ایک مسلمان کو تمام انبیاء و رسل پر ایمان لانے کے  ساتھ ساتھ رسول اللہ کے آخری نبی ہونے کا اقرار کرنا لازمی ہے ورنہ اس کے بغیر آدمی اسلام سے خارج ہے۔

عقیدۂ آخرت اور اسکی اہمیت:
عقیدۂ آخرت عقیدۂ توحید و رسالت کے بعد اسلام کا تیسرا بنیادی اور اہم عقیدہ ہے۔ آخرت سے مراد یہ ہے کہ یہ دنیا ایک دن فنا ہوجائے گی اور مرنے کے بعد ایک دن ہرجاندار کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ اور ان کے اعمال کے مطابق ان کا فیصلہ کیا جائے گا، نیک لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے جنت میں اور گناہگاروں کو اپنے عدل سے جہنم میں داخل فرمائے گا، اس بات پر کسی شک و شبہ کے بغیر یقین رکھنے کو عقیدۂ آخرت کہتے ہیں۔ جس طرح دیگر عقائد کے منکرین ہوتے ہیں اسی طرح اس دنیائے فانی میں عقیدۂ آخرت کے منکرین بھی پائے جاتے ہیں، جبکہ انکی دلیلیں بیبنیاد اور سرار غلط ہیں۔ قرآن مجید کی بے شمار آیات اور آپﷺ سے بے شمار احادیث عقیدۂ آخرت کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہیکہ ’’قُلِ اللّـٰهُ يُحْيِيْكُمْ ثُـمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُـمَّ يَجْـمَعُكُمْ اِلٰى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا رَيْبَ فِيْهِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ‘‘ کہ ”کہہ دو اللہ ہی تمہیں زندہ کرتا ہے پھر تمہیں مارتا ہے پھر وہی تم سب کو قیامت میں جمع کرے گا جس میں کوئی شک نہیں لیکن اکثر آدمی نہیں جانتے۔“ (سورۃ الجاثیہ،26)۔ اس آیت مبارکہ سے واضح ہوگیا کہ عقیدۂ آخرت صحیح اور حق ہے، اسی لیے آخرت پر یقین کے بغیر ہمارا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا۔ عقیدۂ آخرت انسان کو اس تصور کے ساتھ زندگی گزارنے کی تعلیم دیتا ہے کہ کل قیامت کے دن ہمیں اللہ کے حضور تن تنہا حاضر ہونا ہوگا اور اپنے اعمال کا حساب و کتاب دینا ہوگا، وہاں کوئی رشتہ داری یا آل اولاد کام آنے والی نہیں، بس اپنے اعمال صالحہ کام آئیں گے- عقیدۂ آخرت کی وجہ سے جواب دہی کا احساس انسان کو نیکی و تقویٰ کی راہ پر گامزن کرتا ہے، اس کے افکار و نظریات کو ایمان کے رنگ میں رنگ دیتا ہے، اس کا ایمان اسے اخلاق حسنہ اور اعمال صالحہ کی بلندیوں پر پہونچا دیتا ہے۔ الغرض آخرت پر ایمان لانا نہ صرف ضروری ہے بلکہ لازم ہے، کیونکہ اسکے بغیر انسان اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔

بنیادی عقائد پر ایمان ضروری ہے:
دین اسلام کے ان تین بنیادی عقائد توحید، رسالت اور آخرت پر ایمان لانا نہ صرف ضروری ہے بلکہ لازمی ہے، اسکے بغیر اسلام کا کوئی تصور نہیں اور آدمی اس پر ایمان لائے بغیر اسلام سے خارج ہے۔ ان تین بنیادی عقائد کے ساتھ ساتھ ہمیں ان عقائد پر بھی ایمان لانا ضروری ہے جو ایمان مفصل میں درج ہیں۔ایمان مفصل میں سات اجزاء بیان کی گئی ہیں  ’’اٰمَنْتُ بِاﷲِ وَمَلَائِکَتِه وَ کُتُبِه وَ رُسُلِه وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْقَدْرِ خَيْرِه وَ شَرِّه مِنَ اﷲِ تَعَالٰی وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ‘‘ کہ ”ایمان لایا اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اور قیامت کے دن پر اور اس پر کہ اچھی بری تقدیر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے اور موت کے بعد اٹھائے جانے پر!“- (صحیح مسلم)۔

خلاصۂ کلام:
خلاصہ یہ ہے کہ اسلامی عقیدے کی تعلیم وتفہیم اور اس کی طرف دعوت دینا ہر دور کا اہم فریضہ ہے۔ کیونکہ اعمال کی قبولیت عقیدے کی صحت پر موقوف ہے۔ اور دنیا وآخرت کی خوش نصیبی اسے مضبوطی سے تھامنے پر منحصر ہے اور اس عقیدے کے جمال وکمال میں نقص یا خلل ڈالنے والے تمام قسم کے امور سے بچنے پر موقوف ہے۔ لیکن افسوس کہ عقائد کی جتنی اہمیت ہے اتنے ہی ہم عقائد کے معاملے میں غافل اور اسکی محنت سے دور ہیں۔ یہی وجہ ہیکہ آج جگہ جگہ فتنوں کی کثرت ہورہی ہے اور نئے نئے ارتدادی فتنے جنم لے رہے ہیں۔لہٰذا ہمیں عقائد اسلام پر اس طرح کی پختگی حاصل کرنی چاہیے کہ اس کے خلاف سوچنے یا عمل کرنے کی ہمارے اندر ہمت نہ ہو، اس کے خلاف سننا یا دیکھنا ہم سے برداشت نہ ہو، ہم اپنے عقائد پر اس طرح مضبوط ہوجائیں کہ پوری دنیا بھی اگر ہمارے پیچھے لگ جائے تب بھی ہم اپنے عقائد پر مضبوطی کے ساتھ جمے رہیں۔ کیونکہ عقائد اصل ہیں اور اعمال فرع ہیں اور صحیح عقائد ہی مدار نجات ہیں۔ لہٰذا ہمیں اپنے اور دوسروں کے عقیدوں کو درست کرنے کی فکر کرنی چاہیے تاکہ ہمیں دونوں جہاں کی خوشیاں اور کامیابیاں میسر ہو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارے دین و ایمان اور عقائد کی حفاظت فرمائے اور صحیح عقیدہ اپنانے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

فقط و السلام
بندہ محمد فرقان عفی عنہ*
(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)
٢٣؍ جمادی الثانی ١٤٤٢ھ
مطابق 06؍ فروری 2021ء

+91 8495087865
mdfurqan7865@gmail.com
_________________
*ابن مولانا محمد ریاض الدین مظاہری
متعلم جامعہ ابو ہریرہ ؓ اکیڈمی
بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند
صدر مجلس احرار اسلام بنگلور
رکن عاملہ جمعیۃ علماء ساؤتھ بنگلور

#پیغام_فرقان
#PaighameFurqan #Article #Mazmoon #AqaidIslam #IslamicBeliefs #AqaidSeries #AqaidArticles

Tuesday, February 2, 2021

اسلام میں عقیدہ کو اولیت حاصل ہے اور صحیح عقیدہ پر ہی دین قائم ہے!


 

اسلام میں عقیدہ کو اولیت حاصل ہے اور صحیح عقیدہ پر ہی دین قائم ہے!

عقائد اسلام کی حفاظت کے عہد کیساتھ مرکز تحفظ اسلام ہند کا چالیس روزہ سلسلہ عقائد اسلام اختتام پذیر!


02؍ فروری (ایم ٹی آئی ہچ): اسلام میں عقیدہ کو اولیت حاصل ہے۔ عقیدہ مضبوط بندھی ہوئی گرہ کو کہتے ہیں، دین کی وہ اصولی اور ضروری باتیں جن کا جاننا اور دل سے ان پر یقین کرنا مسلمان کیلئے ضروری ہے۔ صحیح عقیدے کے بعد ہی اعمال کی ابتداء ہوتی ہے۔ صحیح عقیدہ ہی وہ بنیاد ہے جس پر دین قائم ہوتا ہے، اور اس کی درستگی پر ہی اعمال کی صحت کا دارومدار ہے۔ کسی کا عقیدہ درست ہو اور کثرت عبادت نہ بھی ہو تو ایک نہ ایک دن جنت ضرور ملے گی اور اگر عقیدہ ہی غلط اور باطل ہو تو اسکا ٹھکانہ ہمیشہ ہمیش کیلئے جہنم ہوگا۔معلوم ہوا کہ عقائد اصل ہیں اور اعمال فرع ہیں اور صحیح عقائد ہی مدار نجات ہیں۔ لیکن افسوس کہ عقائد کی جتنی اہمیت ہے اتنے ہی ہم عقائد کے معاملے میں غافل اور اسکی محنت سے کوسو دور ہیں۔ بلکہ غفلت کا عالم یہ ہے کہ یہ احساس ہی دلوں سے مٹتا چلا جارہا ہے کہ عقائد درست کرنے اور سیکھنے کی بھی کوئی ضرورت ہے! یہی حال عصری تعلیمی اداروں کا بھی ہے کہ ان میں پروان چڑھنے والی ہماری نوجوان نسل اپنے دین کے ضروری عقائد سے بھی نابلد رہتی ہیں۔ یہی وجہ ہیکہ آج جگہ جگہ فتنوں کی کثرت ہورہی ہے اور نئے نئے ارتدادی فتنے جنم لے رہے ہیں۔اسی طرح اہل السنۃ والجماعۃ کے حق عقائد کے خلاف بھی مسلسل مہم جاری ہے تاکہ مسلمانوں کو حق جماعت اہل السنۃ والجماعۃ سے ہٹا کر گمراہی کی راہ پر لگایا جاسکے۔ مذکورہ خیالات کا اظہار مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے کیا۔


انہوں نے فرمایا کہ اگر ہر مسلمان اپنے دین کے بنیادی عقائد سیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کریں تو ان فتنوں سے بخوبی حفاظت ہوسکتی ہے۔ اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے گزشتہ دنوں مرکز تحفظ اسلام ہند نے 07؍ ڈسمبر 2020ء سے 15؍ جنوری 2021ء تک چالیس روزہ ”سلسلہ عقائد اسلام“ کا اہتمام کیا تا کہ عام فہم انداز میں ہر مسلمان کو عقائد سیکھنے کا موقع میسر آسکے۔ اس منفرد سلسلے کا آغاز مجلس تحفظ ختم نبوت ہانگ کانگ کے امیر حضرت مولانا محمد الیاس صاحب کے خطاب سے ہوا۔ اس چالیس روزہ سلسلہ کے دوران سوشل میڈیا پر عقائد سے متعلق دس مضامین، مختلف اکابر علماء دیوبند کی تصانیف میں سے دس کتابیں اور دارالعلوم دیوبند کے دس فتاویٰ نشر کیے گئے۔اور فقیہ العصر حضرت مولانا مفتی محمد شعیب اللہ خان صاحب مفتاحی مدظلہ کی کتاب اسلامی اسباق کے باب عقائد کو قسط وار اردو، ہندی اور رومن ترجمہ کے ساتھ اشتہارات کی شکل میں نشر کئے گئے، علاوہ ازیں اسی باب کو مرکز تحفظ اسلام ہند کے رکن شوریٰ قاری عبد الرحمن الخبیر بستوی قاسمی کی پرسوز آواز میں ریکارڈ کرکے ویڈیوز کی شکل میں جاری کئے گئے تاکہ جو لوگ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے وہ اس سے محروم نہ ہوں بلکہ آڈیو یا ویڈیو کو سن کر اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔اسی کے ساتھ متکلم اسلام حضرت مولانا محمد الیاس گھمن صاحب مدظلہ کے 44؍ قسطوں پر مشتمل کتاب ”شرح عقیدہ طحاویہ“ کے دروس کو بھی نشر کیا گیا۔ اور مختلف اکابرین کے مختصر پیغامات بطور واٹساپ اسٹیٹس بھی نشر کئے گئے۔اس چالیس روزہ سلسلہ کے دوران ہر ہفتے ”آن لائن تحفظ عقائد اسلام کانفرنس“ بھی منعقد ہوتی رہی، جس کی پہلی چار نشستوں سے مجلس تحفظ ختم نبوت ہانگ کانگ کے امیر مولانا محمد الیاس صاحب اور پانچویں و اختتامی نشست سے فقیہ العصر حضرت مولانا مفتی محمد شعیب اللہ خان صاحب مفتاحی مدظلہ نے خطاب کیا اور انہیں کی دعا سے چالیس روزہ سلسلہ عقائد اسلام اپنے اختتام کو پہنچا۔ مرکز کے آرگنائزر حافظ حیات خان نے فرمایا کہ مرکز تحفظ اسلام ہند کے اس چالیس روزہ”سلسلہ عقائد اسلام“کے ذریعہ مسلمانوں کو عام فہم انداز میں اسلام کے بنیادی عقائد کو سیکھنے اور سمجھنے کا موقع میسر ہوا۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے کی تمام چیزیں مضامین و کتب، فتاویٰ، اشتہارات، دروس، پیغامات و بیانات وغیرہ ہزاروں لوگوں تک پہنچے اور ایک بڑی تعداد مرکز کے مختلف پلیٹ فارم سے جڑی ہے۔اس چالیس روزہ سلسلہ کی نگرانی مرکز کے ناظم اعلیٰ مولانا محمد رضوان حسامی و کاشفی، مرکز کے اراکین شوریٰ مفتی محمد جلال قاسمی، مولانا محافظ احمد نے انجام دیں، علاوہ ازیں مرکز کی سوشل میڈیا ڈیسک تحفظ اسلام میڈیا سروس کے تمام اراکین نے پیغامات کی ترسیلات میں بھر پور حصہ لیا۔ مرکز تحفظ اسلام ہند کے اس منفرد ”سلسلہ عقائد اسلام“ کو مختلف اکابر علماء کرام نے سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔ اللہ تعالیٰ مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو شرف قبولیت بخشے اور پوری امت مسلمہ کے عقائد و ایمان کی حفاظت فرمائے!