عشرۂ اخیرہ رمضان ختم ہونے کی گھنٹی ہے، رمضان ختم ہونے سے پہلے مسلمان اسکی قدر کرلیں: مولانا محمد سلمان بجنوری
مرکز تحفظ اسلام ہند کے جلسۂ فضائل رمضان سے مولانا سلمان بجنوری، مفتی اسعد سنبھلی اور حافظ ارشد احمد حنفی کا خطاب!
بنگلور، 06؍ مئی (پریس ریلیز): رمضان المبارک کا مقدس مہینہ ہم پر سایہ فگن ہے۔ رمضان المبارک کے بابرکت ایام میں لاک ڈاؤن کو مدنظر رکھتے ہوئے مرکز تحفظ اسلام ہند کی جانب سے مختلف آن لائن پروگرامات منعقد کئے جارہے ہیں تاکہ امت مسلمہ اکابر علماء سے بھر پور رہنمائی حاصل کرسکے۔ اسی کے پیش نظر گزشتہ دنوں ام المدارس دارالعلوم دیوبند کے مایہ ناز استاذ حضرت مولانا محمد سلمان بجنوری نقشبندی صاحب کی صدارت، مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور مرکز کے ناظم اعلیٰ مولانا محمد رضوان حسامی و کاشفی کی نظامت میں مرکز تحفظ اسلام ہند نے آن لائن جلسۂ فضائل رمضان کی تیسری نشست منعقد کی۔ جس کا آغاز مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان کی تلاوت اور حافظ محمد عمران کے نعتیہ اشعار سے ہوا۔ اپنے صدارتی خطاب میں حضرت مولانا محمد سلمان بجنوری صاحب نے فرمایا کہ رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ ہمارے اوپر سایہ فگن ہے۔ ماہ صیام کا دوسرا عشرہ ہم سے جدا ہوکر تیسرا اور آخری عشرہ جو جہنم سے نجات پانے کا عشرہ ہے، وہ شروع ہوچکا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ یوں تو رمضان المبارک کا پورا مہینہ دیگر مہینوں میں ممتاز اور خصوصی مقام کا حامل ہے، لیکن رمضان المبارک کے آخری دس دنوں یعنی آخری عشرہ کے فضائل اور بھی زیادہ ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم رمضان کے آخری عشرہ میں عبادت وریاضت، شب بیداری اور ذکر و فکر میں اور زیادہ منہمک ہوجاتے تھے۔ مولانا نے فرمایا کہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی ایک اہم خصوصیت اعتکاف ہے۔ آپؐ کا مبارک معمول تھا کہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے۔ اعتکاف خاص طور پر لیلۃ القدر کی تلاش اور اس کی برکات پانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اور لیلۃ القدر ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بھی زیادہ افضل ہے۔ مولانا بجنوری نے فرمایا کہ اس ماہ مبارک کے مکمل ہونے میں محض چند ایام باقی رہ گئے ہیں۔ گویا کہ عشرہ اخیرہ رمضان المبارک ختم ہونے کی گھنٹی ہے۔ لہٰذا ضرورت ہیکہ ہم رمضان المبارک کے ان قیمتی ایام کے ایک ایک لمحے کی قدر کریں اور اپنا سارا وقت عبادت و ریاضت میں گزاریں۔ مولانا سلمان بجنوری نے یوم بدر پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ یوم بدر سے ہمیں یہ سبق ملتا ہیکہ ہم اپنی تمام تدبیریں اور اسباب کو اختیار کرنے کے بعد اللہ کی مدد پر بھروسہ کریں۔ یعنی پہلے ہم کوشش کریں تب ہماری دعا قبول ہوگی اور مدد آئے گی۔ یوم بدر کا دوسرا سبق یہ ہیکہ غزۂ بدر کے موقع پر رسول اللہ نے دعا فرمائی کہ اے اللہ! اگر یہ مسلمانوں کی جماعت آج ہلاک کر دی گئی تو پھر زمین میں تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا۔ اس کے بعد فتح کے ظاہری اسباب نہ ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عطا کی۔ جس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اس زمین پر اپنی عبادت کروانا چاہتا ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اپنی زندگی کے اصل مقصد کو سمجھتے ہوئے اسے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں گزاریں۔ اس موقع پر جامعہ شاہ ولی اللہ مرادآباد کے مہتمم حضرت مولانا مفتی اسعد قاسم سنبھلی صاحب نے زکوٰۃ کی فضیلت و اہمیت کے عنوان پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ زکوٰۃ ان پانچ بنیادوں میں سے ہے جس پر پوری اسلام کی عمارت کھڑی ہے۔ زکوۃ کی ادائیگی میں بہت سارے لوگ تساہل سے کام لیتے ہیں اور اسے شرعی طریقے سے ادا نہیں کرتے، حالانکہ زکوۃ کی ادائیگی ارکان اسلام میں سے ایک اہم ترین رکن ہے اور ہر صاحب نصاب پہ فرض ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ مسلمانوں پر زکوۃ کا فرض ہونا محاسن اسلام میں سے ہے کہ غریب مسلمانوں کی مدد ہو سکے اور وہ اچھی زندگی گزار سکیں۔ زکوٰۃ کا ایک فائدہ اپنے نفس کو کنجوسی اور بخیلی جیسے رذائل اخلاق سے بچانا اور اس کا تزکیہ کرنا بھی ہے۔ مفتی صاحب نے فرمایا کہ زکوٰۃ کی معاشرتی حیثیت ایک مکمل اور جامع نظام کی ہے۔ اگر ہر صاحبِ نصاب زکوٰۃ دینا شروع کر دے تو مسلمان معاشی طور پر خوشحال ہو سکتے ہیں اور اس قابل ہو سکتے ہیں کہ کسی غیر سے قرض کی بھیک نہ مانگیں اور زکوٰۃ ادا کرنے کی وجہ سے بحیثیت مجموعی مسلمان سود کی لعنت سے بچ سکتے ہیں۔ مفتی اسعد سنبھلی نے فرمایا کہ انفاق فی سبیل اللہ میں بخل کرنے والے اور زکوۃ کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے والوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے سخت وعید فرمائی ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ اسلام میں زکوٰۃ کا اہتمام نظام اجتماعیت کے ساتھ مطلوب و پسندیدہ ہے، جس طرح نماز اجتماعی طور پر ادا کی جاتی ہے اسی طرح زکوٰۃ کے لئے بھی اجتماعی نظم قائم کرنے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ زکوٰۃ کی وصولی اور تقسیم کا بہتر انتظام ہو سکے۔ زکوٰۃ کا اجتماعی عمل نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے دور سے اور صحابہ اکرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے زمانے سے رائج ہے۔ لیکن افسوس کہ آج کڑوڑوں صاحبِ نصاب کی موجودگی کے باوجود اجتماعی زکوٰۃ کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے زکوٰۃ کو انفرادی طور پر صرف کرنے کا رواج عام ہوچکا ہے۔ اسکی وجہ سے آج مسلم معاشرہ میں کوئی خیر و برکت نہیں نظر آتی۔ لہٰذا زکوٰۃ کے اجتماعی نظام پر ازسرِنو مستقل و مستحکم عمل کرنے کی اشد ضرورت ہیں۔ ملت کے کئی افراد ہماری امداد کے منتظر ہیں۔ حاصل یہ کہ زکوٰۃ کا یہ اجتماعی عمل ایک خوشحال و خوشگوار معاشرہ تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس موقع پر جمعیۃ علماء میسور کے جنرل سکریٹری قاری ارشد احمد حنفی صاحب نے یوم بدر کا پیغام کے عنوان پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ جنگ بدر اسلام کی سب سے پہلی جنگ ہے جو بغیر کسی ارادے و تیاری کے ہوئی۔ ہمارے بہت سارے مسلمان خصوصاً نوجوانوں کا طبقہ جنگ بدر کے نام سے تو واقف ہے لیکن پیغام بدر سے واقف نہیں۔ انہوں نے اجمالی طور پر جنگ بدر کا پس منظر اور جنگ بدر کا واقعہ پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ بدر سے ہمیں بہت سارے پیغامات ملتے ہیں، انہیں میں سے ایک پیغام یہ ہے کہ یہ جنگ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی طاقت و قوت کے بھروسے پر ہوئی اس لیے کہ مسلمانوں کے پاس نہ صحیح سے ہتھیار تھے نہ صحیح سے سواریاں موجود تھیں اور نہ ہی مستقل کوئی اہتمام و انتظام، اللہ کے نبیؐ نے ایک چھپر میں رات بھر دعائیں کی جہاں آج مسجد عریش بنی ہوئی ہے کہ ائے اللہ اگر آج تونے یہ مٹھی بھر مسلمانوں کی مدد نہ کی تو روئے زمین پر تیرا نام لینے والا کوئی موجود نہیں رہیگا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے حضراتِ صحابہ کی مدد کے لیے پانچ ہزار فرشتوں کو بھیج دیا جسکی بدولت مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔قاری ارشد احمد حنفی نے فرمایا کہ اس سے ہمیں یہ پیغام مل رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو تڑپ کر گڑگڑا کر پکارا جائے، اللہ سے مدد مانگی جائے تو اللہ تعالیٰ ضرور مدد کرے گا۔ قابل ذکر ہیکہ تمام اکابر علماء کرام نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا اور مرکز کی جانب سے جاری پروگرامات کو وقت کی اہم ترین ضرورت بتایا۔ اجلاس کے اختتام سے قبل مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے تمام مقررین و سامعین اور مہمانان خصوصی کا شکریہ ادا کیا۔ اس موقع پر مرکز کے رکن شوریٰ مولانا محمد طاہر قاسمی، اراکین مرکز حافظ محمد یعقوب شمشیر، حافظ محمد نور اللہ، شیخ عدنان احمد، محمد لیاقت وغیرہ خصوصی طور پر شریک تھے۔ حضرت مولانا محمد سلمان بجنوری صاحب کی دعا سے یہ پروگرام اختتام پذیر ہوا!
No comments:
Post a Comment