Saturday, June 5, 2021

بیت المقدس اور اسکے اطراف یہودیوں کا قابض ہونا قرب قیامت کی نشانی ہے!





 بیت المقدس اور اسکے اطراف یہودیوں کا قابض ہونا قرب قیامت کی نشانی ہے!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے تحفظ القدس کانفرنس سے مولانا سید طلحہ قاسمی نقشبندی کا ولولہ انگیز خطاب!


بنگلور، 02؍ جون (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان آن لائن تحفظ القدس کانفرنس کی چوتھی نشست سے خطاب کرتے ہوئے شیخ طریقت حضرت مولانا سید محمد طلحہ صاحب قاسمی نقشبندی مدظلہ نے فرمایا کہ بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اول ہے، حضور اکرم ؐ نے 16 یا 17 مہینوں تک اسی طرف رخ کرکے نماز ادا کی تھی۔ بیت المقدس روئے زمین پر بنائی گئی دوسری مسجد ہے۔ مکہ اور مدینہ کے بعد مسلمانوں کے نزدیک مسجد اقصٰی تیسرا مقام مقدس ہے جس کی جانب عبادت کیلئے سفر کرنا جائز ہے۔ معراج کے سفر کے وقت بھی حضورؐ نے تمام انبیاء کی امامت بیت المقدس میں فرمائی۔ مولانا نے فرمایا کہ بیت المقدس پر یہودیوں کا قابض ہونا اور ساری دنیا سے ہجرت کر کر کے اس علاقے میں آکر یہودیوں کا آباد ہونا اور اپنی حکومت بنانا یہ قیامت کی ایک بہت بڑی علامت ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ بیت المقدس انبیاء علیہم السلام کی سرزمین فلسطین میں واقع ہے، جب نبی کریمؐ کی بعثت ہوئی تو اس وقت اس پر سلطنت روم کے عیسائیوں کا قبضہ تھا۔ اسی وقت نبی کریم ؐنے بیت المقدس کی آزادی کی خوشخبری سنائی اور اس کو قیامت کی نشانیوں میں سے قرار دیا۔ مولانا قاسمی نے بیت المقدس کی تاریخ پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں بیت المقدس کو یہود و نصاری کے ہاتھوں سے آزاد کرایا تھا۔ بیت المقدس کی یہ مقدس سرزمین تقریباً عباسی دور تک مسلمانوں کے ماتحت رہی پھر جیسے جیسے ان میں آپسی اختلاف و انتشار، خانہ جنگی، سیاسی فتنوں اور باطنی تحریکوں کی وجہ سے سن 1099ء میں صلیبیوں نے بیت المقدس کو مسلمانوں سے چھین لیا۔ مولانا طلحہ قاسمی نے فرمایا کہ اسکے بعد سن 1187ء میں سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے پیہم معرکہ آرائیوں کے بعد بیت المقدس کو صلیبیوں سے آزاد کروالیا۔ اس طرح 88؍ سال بعد بیت المقدس دوبارہ مسلمانوں کے بازیابی میں آگیا اور ارض مقدسہ سے عیسائی حکومت کا صفایہ ہوگیا۔ مولانا نے فرمایا کہ اس طرح ارض مقدسہ پر تقریباً 761؍ برس مسلسل مسلمانوں کی سلطنت رہی، یہاں تک کہ سن 1948ء میں امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی سازشوں سے ارض فلسطین کے خطہ میں صیہونی سلطنت قائم کی گئی اور بیت المقدس کا نصف حصہ یہودیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ پھر سن 1967ء میں بیت المقدس پر اسرائیلیوں نے قبضہ کرلیا اور اب پوری طرح انکے قبضہ میں ہے۔ مولانا نقشبندی نے فرمایا کہ زمانہ قدیم میں جس علاقے کو ”شام“ کہا جاتا تھا، وہ لبنان، فلسطین، اردن اور شام کی سرزمین پر مشتمل تھا، جہاں آج یہودی قابض ہیں۔ پوری دنیا سے یہودی اپنے مقتل ”اسرائیل“ میں جمع ہورہے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ قرب قیامت میں شام میں اسلام کا غلبہ ہوگا، قیامت سے قبل فتنوں کے ادوار میں ان علاقوں خصوصاً شام (بیت المقدس) میں رہائش اختیار کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ قرب قیامت جب فتنے بکثرت ہونگے تو ایمان اور اہل ایمان زیادہ تر شام کے علاقوں میں ہی ہونگے۔ اور شام کیلئے خوشخبری ہے کہ اللہ کے فرشتوں نے اس پر حفاظت کیلئے اپنے پر پھلا رکھے ہونگے۔ مولانا طلحہ قاسمی نے فرمایا کہ فتنوں کے زمانے میں اہل اسلام کی مختلف علاقوں میں مختلف جماعتیں اور لشکر ہونگے اس دور میں آپؐ نے شام اور اہل شام کے لشکر کو اختیار کرنے کی ترغیب دلائی کیونکہ اس دور میں ان کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے لی ہوگی۔ یہ حضرت مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا لشکر ہوگا۔ اور آخری وقت زمانہ قرب قیامت میں خلافت اسلامیہ کامرکز ومحور ارض مقدسہ ہوگی۔ مولانا قاسمی نے فرمایا کہ قیامت سے قبل مدینہ منورہ ویران ہوجائے گا اور بیت المقدس آباد ہوگا تو یہ زمانہ بڑی لڑائیوں اور فتنوں کا ہوگا، اس کے بعد دجال کا خروج ہوگا۔ دجال شام اور عراق کے درمیان میں سے نکلے گا۔ دجال کا فتنہ اس امت کا بہت بڑا فتنہ ہے اس سے ہر نبی نے اپنی قوم کو ڈرایا۔ مگر دجال مکہ، مدینہ اور بیت المقدس میں داخل نہیں ہوسکے گا۔مولانا نے فرمایا کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا نزول بھی ان ہی علاقوں دمشق کے مشرق میں سفید مینار کے پاس ہوگا۔ اور وہ دجال کو ”باب لد“ کے پاس قتل کریں گے۔ باب لد فلسطین کے علاقے میں بیت المقدس کے قریب ہے، جس پر اسرائیل غاصب نے قبضہ کر رکھا ہے۔ اور اسی طرح فتنہ یا جوج و ماجوج کی ہلاکت اور انتہاء بھی بیت المقدس کے قریب”جبل الخمر“ کے پاس ہوگی۔ مولانا نے فرمایا کہ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی کہ جب تک یہودیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا نہ دیا جائے، قیامت سے پہلے یہ وقت ضرور آئے گا کہ مسلمان یہودیوں کو چن چن کر قتل کریں گے اور بیت المقدس آزاد ہوگا۔ مولانا نے فرمایا کہ بیت المقدس اور ارض فلسطین کے موجودہ حالات کو دیکھ کر یہ بات واضح ہوچکی ہیکہ اب قیامت بہت قریب ہے۔ ان حالات میں ہمیں چاہئے کہ ہم اہل فلسطین کی مدد کریں اور اپنے اعمال کی فکر کریں۔ نیز بیت المقدس کے ان مجاہدین کیلئے دعا کریں جو بیت المقدس کی آزادی کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں، اللہ تعالیٰ انکی مدد و نصرت فرمائے۔ قابل ذکر ہیکہ شیخ طریقت حضرت مولانا سید محمد طلحہ صاحب قاسمی نقشبندی مدظلہ نے آخیر میں مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمت کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا اور انہیں کی دعا سے  تحفظ القدس کانفرنس کی یہ نشست اختتام پذیر ہوئی!

No comments:

Post a Comment