مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام مشاعرۂ جشن آزادی کا انعقاد، ملک کے مشہور شعراء نے کی شرکت!
تحریک آزادی اردو شعر و ادب کے تذکرے کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی: مفتی افتخار احمد قاسمی
بنگلور، 16؍ اگست (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام یوم آزادی کی مناسبت سے ایک عظیم الشان آن لائن مشاعرۂ جشن آزادی مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست حضرت مولانا مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب (مہتمم جامعہ اسلامیہ تعلیم القرآن بنگلور و صدر جمعیۃ علماء کرناٹک) کی صدارت اور مرکز کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی میں منعقد ہوا۔ جسکی نظامت کے فرائض مدرسہ تعلیم القرآن شاخ دارالعلوم ندوۃ العلماء کے صدر المدرسین مولانا غفران احمد ندوی نے انجام دئے۔ جبکہ مرکز کے رکن شوریٰ قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی بستوی اس مشاعرے کے کنوینر رہے اور مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان خاص طور پر شریک تھے۔ مشاعرے کا آغاز قاری محمد ثاقب قاسمی معروفی کی تلاوت اور قاری بدرعالم چمپارنی کے نعتیہ اشعار سے ہوا۔ مشاعرۂ جشن آزادی میں ملک کے مشہور و معروف شعراء کرام نے شرکت کی۔ خصوصاً مولانا سجاد اعظم قاسمی لکھیم پوری، قاری اشفاق بہرائچی، قاری وجیہ الدین جلال کبیرنگری، مولانا فیصل میرٹھی، قاری فردوس کوثر جھارکھنڈ، قاری بدرعالم چمپارنی، وغیرہ نے اس عظیم الشان آن لائن مشاعرۂ جشن آزادی میں شرکت فرماکر سامعین کو اپنے کلام سے محظوظ فرمایا۔ بالخصوص جنگ آزادی میں مسلمانوں کا کردار، اپنے بزرگوں کی جد وجہد، دارالعلوم دیوبند اور اسکے اکابرین کی قربانیاں، حب الوطنی اور قومی یکجہتی پر بہترین اشعار پڑھے۔ اس موقع پر صدارتی خطاب کرتے ہوئے مرکز کے سرپرست مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب نے فرمایا کہ شاعری انسانی جزبات کی عکاسی کرنے کا ایک خوبصورت اور نہایت طاقتور ذریعہ ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ نبیوں اور رسولوں کی باتیں چونکہ وحی خداوندی والہامات ربانی پہ مبنی ہوتی ہیں؛ جبکہ شعراء کی باتیں شعور وآگہی، تخیل، پروازیِ فکر اور بسا اوقات حد درجہ مبالغہ آرائی پر مبنی ہوتی ہیں؛ اس لیے شعر وشاعری نبیوں اور رسولوں کے مقام نبوت کی شایان شان قرار تو نہیں دی گئی، لیکن رسولوں سے مطلقاً اس کی نفی نہیں کی گئی، یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اگرچہ یہ فن عطاء نہیں ہوا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذبان مبارک سے مختلف مواقع پر بیساختہ اشعار جاری فرمایا۔ اس معلوم ہوا کہ شعر و شاعری کہنا جائز ہے کیونکہ اگر شعر کہنا صحیح نہیں ہوتا تو آپ ﷺ کی زبان مبارک سے شعر کبھی جاری نہیں ہوتا۔ مولانا نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں صحابہ کرام اشعار پڑھتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم داد وتحسین سے نوازتے تھے، گویا کہ یہ مشاعروں کی محفل ہوا کرتی تھی۔ مولانا نے فرمایا کہ شعر و شاعری بہت اچھا فن ہے اور اس کے ذریعے بڑے بڑے انقلابات روئے زمین پر رونما ہوئے ہیں۔ ہندوستان میں قدیم زمانے سے شعر و شاعری کا سلسلہ چلا آرہا ہے اور ہندوستان کے مشاعروں نے قومی یکجہتی میں بڑا رول ادا کیا ہے، ملک کی آزادی کی تحریک میں قومی جذبے اور حرارت کو کوٹ کوٹ کر بھردیئے۔ یہی وجہ ہیکہ تحریک آزادی شعر و شاعری اور اردو ادب کے تذکرے کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔مولانا قاسمی نے فرمایا کہ ہمارے ملک میں مشاعرے ابتداء خالص اصولی، ادبی اور تہذیبی شان کے حامل وامین اور تہذیبی اقدار وتقدس کے محافظ رہے۔ ادب وشائستگی، حیاء و وقار ان مشاعروں کا خاص امتیاز رہا ہے۔ لیکن ادھر قریب ایک دہائی سے ہمارے ملک کے اردو مشاعرے ہماری تاریخی ثقافت، ادبی معنویت اور تہذیبی روایات کھو بیٹھے، مشاعرے کی تہذیبی فضاء بری طرح مجروح ہوئی، ادبی معیار گھٹ کر بازاری بن گیا، اسلام نے جس جاہلی شاعری کی تطہیر کی تھی، فحاشی وعریانیت، شہوت انگیز بد گوئی اور فضولیات پہ مشتمل اشعار کو ناجائز وحرام قرار دیا تھا۔ اعتقادات و اخلاقیات کو خراب وفاسد کردینے والی حیاء باختہ و گمراہ کُن منفی شاعری پہ بندش لگائی تھی، ہمارے مشاعرے پھر اسی جاہلی شاعری کی ڈگر پہ رواں ہوگئے، دبے پاؤں ان میں پھر وہی ساری خرابیاں در آئیں۔ مولانا نے فرمایا آج ضرورت ہیکہ ہم ان مروجہ مشاعروں کو روکنے کی بھر پور کوشش کریں اور انکا بائیکاٹ کریں اور مشاعروں کی محفلیں اس طریقہ پر منعقد کریں جس کی ہمیں شریعت اجازت دیتی ہو اور جس طرح دور نبوی میں قائم ہوتا تھا۔ مولانا افتخار احمد قاسمی نے مرکز تحفظ اسلام ہند کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ مرکز تحفظ اسلام ہند کے اراکین قابل مبارکباد ہیں کہ انہوں نے شرعی حدود میں رہ کر اس مشاعرہ کو منعقد کرکے امت کے سامنے ایک مثال قائم کردی، لہٰذا ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ آئندہ بھی اسی طریقے پر مشاعرہ منعقد کریں اور مروجہ مشاعرہ سے بلکل احتراز کریں۔ قابل ذکر ہیکہ پروگرام کے اختتام سے قبل مرکز کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان نے صدر مشاعرہ، شعراء کرام، مہمانان خصوصی اور آنے والے سامعین کا شکریہ ادا کیا۔ اور صدر مشاعرہ مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب کی دعا سے یہ عظیم الشان مشاعرۂ جشن آزادی اختتام پذیر ہوا۔
No comments:
Post a Comment