آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا!
از قلم: بندہ محمد فرقان عفی عنہ
(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)
اس وقت عالم اسلام تاریخ کے نازک ترین اور خطرناک دور سے گذر رہا ہے۔ مشرق سے مغرب تک کی ساری اسلام دشمن طاقتیں مسلمانوں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑگئے ہیں۔ ہر کوئی مسلمانوں کو ہر جگہ نشانہ بنا رہا ہے، انکے شیرازے کو منتشر کرنے، ان کے جسم کے ٹکڑے کرنے، انکا قتل عام کرنے اور انکا نام و نشان مٹانے کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔ بالخصوص وطن عزیز ہندوستان میں بھی مسلمان آر ایس ایس، بی جے پی اور دیگر فاشسٹ ہندو تنظیموں کے غنڈوں کے ہاتھوں مظالم کے منظم طور پر مسلسل شکار ہورہے ہیں۔ کبھی کسی مسلمان کو سر راہ پکڑ کر ’جے شری رام‘ کہنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور اسکی مآب لنچنگ کی جاتی ہے،، تو کبھی ’لو جہاد‘ کے نام پر مسلمان لڑکوں کو جیل میں بند کیا جاتا ہے، تو کبھی ’گؤ رکشا‘ کے نام پر جھوٹا الزام لگا کر بھیڑ کے ہاتھوں ایک بے قصور مسلمان کو پیٹ پیٹ کر بے رحمی سے قتل کردیا جاتا ہے، تو کبھی ’مسلم پرسنل لاء‘ اور ’شریعت‘ میں مداخلت کی کوشش کی جاتی ہے، تو کبھی ہزاروں ’مساجد‘ کو شہید کرنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ ملک میں جاری اس لہر سے مسلمان اور دوسری اقلیتیں انتہائی ڈرے اور سہمے ہوئے ہیں۔ اب فرقہ پرست عناصر کے حوصلے اس قدر بلند ہو چکے ہیں کہ وہ اب مذہبی منافرت اور فرقہ پرستی کا ننگا ناچ بر سر عام علی الاعلان کررہی ہیں۔ دھرم سنسد کے نام پر نفرت کی آگ بھڑکائی جارہی ہے اور مسلمانوں کے قتل عام کی تیاری کی جارہی ہے۔ لیکن ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف آج جو فضا بنائی جارہی ہے اور انہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کی جو سازشیں ناعاقبت اندیش لوگ کر رہے ہیں، ہمیں ان سازشوں سے گھبرانے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں، کیوں کہ اس سے قبل بھی اسلام کے خلاف دنیا کی باطل طاقتوں نے خوب زور لگایا تھا لیکن نہ تو وہ اسلام کو ختم کرسکے اور نہ ہی مسلمانوں کو مٹا سکے۔ علامہ اقبالؒ نے کیا خوب کہا:
توحید کی امانت، سینوں میں ہے ہمارے
آساں نہیں مٹانا، نام و نشاں ہمارا
تاریخ کے اوراق اگر پلٹ کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ اسلام کی چودہ سو سال کی تاریخ میں اسلام اور کفر کا ٹکراؤ ہوتا رہا ہے۔ عرب میں اسلام کے ظہور کے ساتھ ہی اس کے خلاف جنگوں اور سازشوں کا دور بھی چلتا رہا ہے یعنی اسلام دشمنی ازل سے چلی آرہی ہے، ماضی کی طرح حال میں بھی اہل باطل اسلام کو مٹانے کے درپے ہیں اور وہ آئے دن ناپاک چالوں کے ذریعے نئی حرکتیں کر رہے ہیں، ہر ذریعے کو آزمایا جارہا ہے، ہر طریقہئ پیکار کو استعمال کیا جارہا ہے لیکن دشمن کو شاید یہ اندازہ ہی نہیں کہ اسلام مٹنے کے لیے نہیں بلکہ قائم و دائم رہنے کے لیے آیا ہے۔ یہ بات روز و روشن کی طرح عیاں ہیکہ دشمنان اسلام کی لاکھوں سازشوں کے باوجود اسلام کا آفاقی پیغام دنیا کو متاثر کرتا رہا ہے اور اسلام دنیا میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ کیونکہ اسلام کی یہ خاصیت ہیکہ جتنا اسے مٹانے اور دبانے کی کوشش کی جاتی ہے وہ اتنا ہی ابھرتا اور پھیلتا جاتا ہے۔ علامہ اقبالؒ نے اسی کو کہا تھا:
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دباؤ گے
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ بھارت میں مسلم دشمن قوتوں کے پاس حکومت واقتدار ہے، ان کے پاس مسلح افواج، پولیس، سیکورٹی فورسز سبھی کچھ ہیں۔ اسکے علاوہ دنیا کی اسلام مسلمان دشمن طاقتیں بھی انہیں کی طرفدار ہیں۔ آج اسلام مسلمان دشمن اقتدار پر اس طرح قابض ہیں کہ ان کے لیے مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنا آسان ہو گیا ہے۔ یہی وجہ ہیکہ بھارت کی اس سرزمین پر مسلمان فرقہ وارانہ عناصر کی طرف سے کئے جانے والے حملوں اور حکومت کی جانب سے ان کے ساتھ ناانصافی اور جانبدارنہ رویہ سے خوفزدہ اور پریشان نظر آتے ہیں۔ ملک میں موجودہ صورتحال یہ ہے کہ فرقہ وارانہ عناصر مسلمانوں کے خلاف بشمول نسل کشی کے کسی بھی قسم کے مظالم ڈھانے کے لیے آزاد ہیں۔ بھارت میں ہوئے کسی بھی فرقہ وارانہ حملوں کے خلاف آج تک کوئی مناسب کارروائی نہیں کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ معصوم اور بے قصور مسلمانوں کو جھوٹے الزام میں گرفتار کرکے انہیں جیلوں میں کئی سال سے مقید کرکے رکھا گیا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ہمیں یقین ہیکہ یہ فرقہ پرست دہشت گرد عناصر ہندوستان کی اس سرزمین پر وہی کہانی دہرانا چاہتے ہیں جو اندلس، سسلی، بوسنیا، سنٹرل افریقہ، فلسطین اور میانمار میں اسلام دشمنوں کے ذریعہ دہرائی گئیں تھی۔ لیکن یہ چیزیں زندہ قوموں کو مایوس کرنے کی بجائے مزید حوصلہ دیتی ہیں اور متحرک رکھتی ہیں۔ کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ جب جب اللہ کے دین پر آنچ آئی ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے دین کی حفاظت کے لیے یا تو غیبی مدد بھیجی ہے یا ایسے دین پرور بندوں کا انتخاب کیا ہے کہ جنہوں نے دشمنوں کے ہر وار کا مقابلہ کیا اور ہر بات کا منھ توڑ جواب دیا۔ لہٰذا دشمنانِ اسلام اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے سے وہ اپنی سازشوں میں کامیاب ہوجائیں گے، یا چند مسلمانوں اور مسجدوں کو شہید کردینے سے مسلمانوں کو ڈر و خوف میں مبتلا کردینگے۔ بلکہ انہیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ مسلمانوں کی تاریخ یہ ہیکہ مسلمان خون کے بحر قلزم سے گزر کر بھی عزیمت و جرأت کی نئی داستان لکھا کرتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے کیا خوب کہا:
باطل سے دبنے والے، اے آسماں نہیں ہم
سو بار کر چکا ہے، تو امتحاں ہمارا
تیغوں کے سایے میں ہم، پل کر جواں ہوئے ہیں
خنجر ہلال کا ہے، قومی نشاں ہمارا
قارئین کرام! اس امت پر سخت حالات پہلی مرتبہ نہیں آئے بلکہ سابق میں کئی مرتبہ ایسے حالات پیش آچکے ہیں اور مسلمانوں نے حکمت و بصیرت کے ذریعہ ان کا مقابلہ بھی کیا ہے۔ ایمان کا تحفظ سابق میں بھی ضروری تھا اور آج بھی ضروری ہے۔ اس کے لئے ہمیں ان ہی خطوط پر گامزن رہنا چاہئے جو ہمارے اسلاف نے متعین کئے ہیں۔ فرقہ پرستوں کا ہندوستان سے اسلام کو مٹانے کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوگا کیونکہ ہندوستان سے مسلمانوں کا رشتہ اتنا ہی قدیم ہے جتنا کے انسانیت کا تعلق کرہ ارض سے ہے۔ اور وطن عزیز ہندوستان کو بنانے، سجانے اور سنوارنے کے ساتھ ساتھ اس ملک کو اقوام عالم میں اعتبار بخشنے میں مسلمانوں کا بڑا کردار رہا ہے۔ یہاں کی فقط جنگ آزادی کی تاریخ ہی اٹھا کر دیکھیں گے تو معلوم ہوگا کہ ہندوستان کی تحریک آزادی میں مسلمانوں خاص کر علمائے کرام کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ مسلمانوں نے تحریک آزادی اس وقت شروع کردی تھی جب دیگر اقوام کے خواب وخیال میں آزادی کا کوئی تصور نہ تھا۔ اگر آزادی ہند میں مسلمان اور خصوصاً علماء کرام حصہ نہ لیتے تو ہندوستان کی آزادی کا خواب شرمندہئ تعبیر نہ ہوتا اور تحریک آزادی کبھی نہ چلتی۔ علمائے کرام کے ساتھ ساتھ عام مسلمانوں نے بھی اس جنگِ آزادی میں دل و جان سے حصہ لیا اور انتہائی درجہ کی تکلیفیں برداشت کیں اور ہزاروں علمائے کرام کو انگریزوں نے جوشِ انتقام میں پھانسی پر لٹکا دیا اور علمائے کرام نے بڑے عزم و حوصلہ سے مسکراتے ہوئے پھانسی کے پھندوں کو قبول کر لیا تب جاکر ہندوستان کو آزادی کی نعمت ملی ہے۔ تحریکِ آزادی میں مسلمانوں کی جد وجہد وقربانی کے لازوال داستانیں تاریخ کے اوراق میں درج ہیں۔ لہٰذا انگریز جیسی ظالم و جابر اور طاقتور حکومت سے نہ ڈرتے ہوئے مسلمانان ہند جب مردانہ وار مقابلہ کیا اور انہیں شکست فاش دیکر ہندوستان کو انکے چنگل سے آزاد کروا دیا تو یہ فرقہ پرست عناصر کس کھیت کی مولی ہے؟ ہندوستان کے فاشسٹ ہندو دہشتگردوں کی طرح مغرب نے بھی ہر جگہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف شرمناک اور خطرناک سازشیں کیں۔ لیکن یہ سازشیں کبھی کامیاب نہیں ہوپائیں۔ بلکہ اسلام اپنی تمام تر قوت و شوکت اور پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ ہے۔ علامہ اقبالؒ نے کیا خوب کہا:
مغرب کی وادیوں میں، گونجی اذاں ہماری
تھمتا نہ تھا کسی سے، سیلِ رواں ہمارا
گزشتہ دنوں دھرم سنسند کے نام پر ہندوتوا دہشت گردوں کی جانب سے مسلمانوں کا قتل عام اور اسلام کو مٹانا کی جو بات علی الاعلان کی گئی ہے اس سے پورے ملک میں بے چینی پائی جارہی ہے۔ لیکن کیا وجہ ہیکہ وہ لوگ اسلام سے اتنا زیادہ خوفزدہ ہیں؟ اگر عالمی سطح پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہیکہ موجودہ حالات میں پوری دنیا میں اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جو بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ پیو ریسرچ سینٹر کے مطابق اسلام تمام مذاہب کو پیچھے چھوڑتے ہوئے 2050ء اور 2070ء درمیان تک دنیا کا سب سے بڑا مذہب بن جائے گا۔ طاغوتی قوتوں کی تمام تر سازشوں اور دجالی میڈیا کے شیطانی پروپیگنڈے کے باوجود ہندوستان سمیت دنیا بھر کے تمام ممالک میں اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے اور غیر مسلموں کے اسلام قبول کرنے میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ آج دنیا اسلام سے خائف ہے تو اس کا یہ خوف بے بنیاد نہیں۔ کیونکہ وہ دیکھ رہے ہیں کہ آج مسلمانوں کی تعداد ڈیڑھ ارب ہے۔ روئے زمین کی مجموعی آبادی کا چوتھا حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ یہ دنیا کے ایک بڑے رقبے پر آباد ہیں۔ 54 ملین مربع میل کا ایک چوتھائی حصہ ان کے قبضے میں ہے اور جنوبی خط استوا سے پھیلتے ہوئے وسط ایشیاء میں 55 خط الارض سے بھی زائد حصے اس کی قدرت و تصرف میں ہیں۔ روئے زمین کے سرسبز وشاداب خطے ان کی سکونت میں ہیں جنھیں تقریباََ تمام قدیم تہذیبوں کا مرکز و محور ہونے کا شرف حاصل ہے۔ عالم اسلام زمین کے ایک اہم اور وسیع رقبے پر مشتمل ہے۔ مسلمان پورے اسلامی تشخص اور تہذیبی شناخت کے ساتھ ہر میدان میں دنیا کے مختلف ممالک میں اپنا وجود تسلیم کرا رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جہل کے اندھیروں میں رہنے والوں کو علم کی روشنی کبھی برداشت نہیں ہوسکتی۔ تاریخ اٹھا کر دیکھیں گے تو معلوم ہوگا کہ وہ افراد جو تاریکی کو غنیمت شمار کر کے اپنی ریاست کا سکہ جمائے ہوئے تھے۔ اسلام کے نورانی وجود کے سامنے ان تمام رئیسوں کی ریاست دھری کی دھری رہ گئی۔ یہی وجہ ہیکہ اب وہ لوگ سونچنے لگے کہ جسطرح بھی ممکن ہو اس نور کا خاتمہ کر دیا جائے۔ لیکن چونکہ خدا نے اپنے اس نورانی وجود کی حفاظت کی ذمہ داری لی تھی اس لئے وہ تمام طاقتیں جو اسلام کے خلاف اٹھیں انکا سر کچل دیا گیا اور اسلام کا سر بلند و بالا ہو کر کائنات کو یہ سمجھا گیا کہ جسکا محافظ خدا ہو آسمان و زمین کی تمام طاقتیں مل کر بھی اسکا بال بیکا نہیں کر سکتی ہیں۔ ورنہ تاریخ گواہ ہے کہ اسلام کے ابتدائی دور میں مسلمانوں کو کن کن پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا، دہکتے پتھروں کے نیچے لٹایا گیا، اقتصادی پابندی لگائی گئی، سماجی بائیکاٹ کیا گیا۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر پتھر پھینکے گئے، انہیں زخمی کیا گیا، ہزاروں اصحاب رسول رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جام شہادت نوش کرنا پڑا۔ لیکن تاریخ کے اوراق اس بات کو چیخ چیخ کر بیان کر رہی ہیں کہ یہ تمام پریشانیاں ایک طرف اور مسلمانوں کا جوش و ولولہ دوسری طرف ہے۔ گویا کہ کلمہ توحید نے ان کے وجود میں روح استقامت پھونک دی تھی۔ جس قدر اذیتوں میں اضافہ ہوتا تھا اتنا ہی ان کے فولادی ارادوں میں استحکام پیدا ہو رہا تھا۔ اور عنقریب وہ دن بھی آگیا جب اسلام کا پرچم مدینہ منورہ سے نکل کر مکہ مکرمہ اور پورے جزیرہ العرب میں پھیل گیا اور دیکھتے دیکھتے پوری دنیا کو متاثر کرتا گیا۔ آج بھی ہمارے اندر انہیں نفوس قدسیہ کا خون دوڑ رہا ہے جنکے خون سے اسلام پھیلتا اور پھولتا رہا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آج مسلمان ناقص العمل ہیں لیکن مسلمان ناقص الایمان قطعاً نہیں ہیں۔ اور جب تک ایمان زندہ ہے اس وقت تک یہ امکان ہر وقت موجود ہے کہ مسلمان آج نہیں تو کل اپنے اعمال کے نقائص سے بھی دور کرلیں گے۔ مسلمانوں کے اعمال اور اخلاق دونوں ہی کمزور ہیں مگر ان کے جذبے اور ایمان کا یہ عالم ہے کہ وہ اسلام یا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و سلم کی معمولی سی توہین بھی برداشت نہیں کرسکتے۔ آج بھی بھارت سمیت دنیا کی سوپر پاور طاقتیں خوفزدہ ہیں کہ کہیں ہمارے یہاں اسلامی نظام یا انقلاب محمدیﷺ کا دوبارہ ظہور نہ ہوجائے۔ ظاہر سی بات ہے کہ نبی کائناتﷺ نے دنیا میں جو انقلاب برپا کیا وہ دنیا کا سب سے انوکھا اور بہترین انقلاب تھا۔ عرب کے معاشرے میں پڑھے لکھے لوگ انگلیوں پر گنے جاسکتے تھے مگر محبوب کائناتﷺ نے اس قوم کو علم کے میدان میں دنیا کا امام بنادیا۔ جنہوں نے دنیا میں بہت سے نئے علوم متعارف کروائے۔ انقلاب محمدیؐ کے نتیجے میں پہلی مرتبہ انسانی افراط و تفریط پر مبنی معاشرے کا خاتمہ ہوا اور انسانی اخوت، مساوات اور حریت کے اصولوں پر مبنی معاشرے کی داغ بیل پڑی۔ انقلاب نبویﷺ کی دنیا میں کوئی نظیر نہیں۔ دنیا میں بعد میں رونما ہونے والے انقلابات کا جائزہ لیا جائے تو وہ انقلاب محمدیؐ کے مقابلے میں ہیچ نظر آتے ہیں۔ کیونکہ اسلام ایک ہمہ گیر اور آفاقی دین ہے، اس کی تعلیمات انسان کی پوری زندگی کو محیط ہیں اور یہ زندگی کے ہر پہلو، ہر لمحہ اور ہر موضوع کی اس خوب صورتی سے وضاحت کرتا ہے کہ زندگی کا کوئی مرحلہ اس کی رہنمائی سے محروم نہیں رہتا۔ اسلام ہی حقیقی طریق زندگی اور صحیح طرز فکر وعمل ہے۔ عالم کفر بالخصوص ہندوستان کے ہندوتوا دہشت گردوں کا اس امر پر اتفاق ہے کہ اس انقلاب محمدیؐ کا دنیا میں دوبارہ ظہور نہ ہونے دیا جائے۔ اسلام کے حسن کے دنیا پر آشکارا ہوجانے کے ڈر سے کفر کی تمام طاقتیں مسلمانوں پر حملہ آور ہیں اور عالم اسلام کے خلاف فوجی، سیاسی، اقتصادی اورثقافتی جنگ جاری ہے اور اسلام کی اقدار اور تہذیب تباہ کردینا چاہتے ہیں۔ یقیناً ظاہری اعتبار سے ہندوستان میں مسلمانوں اور اسلام کا مستقبل بہت تاریک نظر آتی ہے مگر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہیکہ جب رات کی تاریکی بڑھ جائے تو سمجھ لیں کہ صبح روشن قریب ہے۔ لہٰذا ہمیں ڈرنے اور گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں، کیونکہ ان شاء اللہ عنقریب اسلام کا سورج طلوع ہونے والا ہے، جب اسلام کے دشمنوں کے منصوبے خاک میں ملیں گے اور اسلام بحیثیت دین پوری دنیا پر غالب آئے گا اور پوری دنیا کی طرح ہندوستان کا چپہ چپہ بھی اللہ اکبر کی صداء سے گونجے گا۔ علامہ اقبالؒ نے کیا خوب کہا تھا:
شب گریزاں ہوگی آخر جلوہ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمہ توحید سے
فقط و السلام
بندہ محمد فرقان عفی عنہ*
یکم جمادی الآخر ١٤٤٢ھ
05؍ جنوری 2022ء
+91 8495087865
mdfurqan7865@gmail.com
_________________________
*ابن مولانا محمد ریاض الدین مظاہری
ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند
سوشل میڈیا انچارج جمعیۃ علماء کرناٹک
صدر مجلس احرار اسلام بنگلور
رکن عاملہ جمعیۃ علماء بنگلور
#PaighameFurqan
#پیغام_فرقان
#Mazmoon #Article #MuslimLivesMatter #Muslim #Islam #Islamophobia
No comments:
Post a Comment