Sunday, July 31, 2022

حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین امت کے عظیم محسن، رہنما طبقہ اور رول ماڈل ہیں!

 حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین امت کے عظیم محسن، رہنما طبقہ اور رول ماڈل ہیں!




مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام ہفت روزہ ”عظمت صحابہؓ کانفرنس“، برداران اسلام سے شرکت کی اپیل!


بنگلور، 30؍ جولائی (پریس ریلیز): حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حضرات انبیائے کرام علیہ السلام کے بعد پورے روئے زمین کے سب سے مقدس اور پاکیزہ جماعت ہے۔ اور اس امت محمدیہ کے بھی سب سے برگزیدہ لوگ ہیں، کیوں کہ امام الانبیاء خاتم النبیین جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور ہم نشینی کا انھیں شرف حاصل ہے، بارگاہِ نبوت سے خوشہ چینی کا انھیں خوش نصیب موقع ملا ہے۔ مذکورہ خیالات کا اظہار مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان نے کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ حضرات صحابہ کرامؓ حضور اکرم ؐ کی وہ مقدس جماعت ہے، جنہیں اللہ پاک نے اپنے رسول ؐ کی صحبت، نصرت اور اِعانت کے لئے منتخب فرمایا، جنہوں نے حضرت رسول اللہ ؐ اور آپؐ کے لائے ہوئے دین پر نہ صرف ایمان لایا، بلکہ قرآن کو نازل ہوتے ہوئے دیکھا، رسول اللہ ؐ کی زندگی کے تمام پہلوؤں کا عملی طور سے مشاہدہ کیا، آپؐ سے دین کو سیکھا اور وہ اس کے سب سے پہلے پھیلانے والے خوش نصیب افراد ہیں۔ محمد فرقان نے فرمایا کہ صحابہ کرامؓ کی فضیلت و مدح میں قرآن پاک میں جابجا آیات مبارکہ وارد ہیں جن میں ان کے حسن عمل، حسن اخلاق اور حسن ایمان کا تذکرہ ہے اور انہیں دنیا ہی میں مغفرت اور انعامات اخروی کا مژدہ سنا دیا گیا ہے۔ لہٰذا صحابہ کرامؓ سے محبت کرنا اور انکا احترام کرنا، صحابہؓ کے باہمی ظاہری اختلافات میں خاموشی اختیار کرنا اور ہر قسم کی منفی رائی دہی سے اجتناب کرنا، اور یہ عقیدہ رکھنا کہ تمام صحابہ مجتہد ہیں اور اللہ کے یہاں انتہائی معزز اور اجر و ثواب والے ہیں اور ان کی سیرت و کردار کو زبانی و عملی طور پر اپنانا ہر مسلمان پر واجب وضروری ہے۔ محمد فرقان نے فرمایا کہ حضرات صحابہ کرامؓ نوعِ انسانی کے لئے باعث شرف وافتخار ہیں، یہ امت کے محسن،رہنما وقائد اور رول ماڈل ہیں۔ ایسے برگزیدہ لوگوں کی عظمت کو سمجھنے، ان کی فضیلت کو دل و جان سے تسلیم کرنے اور انکے نقش قدم پر چلنے سے ہمیں دونوں جہاں میں کامیاب مل سکتی ہے۔ لہٰذا اسی کے پیش نظر مرکز تحفظ اسلام ہند بتاریخ یکم؍ اگست 2022ء بروز پیر سے ہفت روزہ آن لائن ”عظمت صحابہؓ کانفرنس“ منعقد کرنے جارہی ہے۔ جو روزانہ رات 9:30 بجے مرکز کے آفیشیل یوٹیوب چینل اور فیس بک پیج تحفظ اسلام میڈیا سروس پر براہ راست نشر کیا جائے گا۔ جس سے ملک کے مختلف اکابر علماء کرام بالخصوص سرپرستاں مرکز تحفظ اسلام ہند خطاب فرمائیں گے۔ محمد فرقان نے تمام برادران اسلام سے اپیل کی کہ وہ اس اہم اور عظیم الشان ”عظمت صحابہؓ کانفرنس“ میں شرکت فرماکر اکابرین کے خطابات سے مستفید ہوں اور اسکے پیغام کو زیادہ سے زیادہ عام کرنے کی کوشش کریں!


#Press_Release #News #Letter_Head #AzmateSahaba #Sahaba #MTIH #TIMS

Saturday, July 30, 2022

”سیرت خلیفۂ ثانی،امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ“

 ”سیرت خلیفۂ ثانی،امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ“

(یکم محرم الحرام یوم شہادت)



✍️ بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(بانی و ڈائریکٹرمرکز تحفظ اسلام ہند)


 امیر المومنین، خلیفۃ المسلمین حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی پیدائش مکۃ المکرمہ میں واقعہ فیل سے تیرہ سال بعد قبیلہ بنو عدی میں خطاب بن نفیل کے گھر ہوئی۔ آپؓ صحابی رسول اور مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ راشد ہیں۔ آپؓ کا شمار عشرے مبشرہ جن کو دنیا میں جنت کی بشارت ملی، ان میں ہوتا ہے۔ حضرت عمر ؓرسول اللہ ؐ کے خسربھی ہیں۔ آپؓ کی صاحبزادی ام المومنین حضرت سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہما رسول اللہؐ کی ازواج میں سے ایک ہیں۔آپ ؓکا لقب فاروق، کنیت ابو حفص ہے۔ لقب و کنیت دونوں محمدﷺ کے عطا کردہ ہیں۔ آپ کا نسب نویں پشت میں رسول اللہ ؐسے جا ملتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نویں پشت میں کعب کے دو بیٹے ہیں مرہ اور عدی۔ رسول اللہؐ مرہ کی اولاد میں سے ہیں، جبکہ حضرت عمرؓ عدی کی اولاد میں سے ہیں۔


 حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا شمار مکہ کے ان لوگوں میں ہوتا تھا جو پڑھ لکھ سکتے تھے۔ جب حضور ؐ نے پہلے اسلام کی تبلیغ شروع کی تو حضرت عمرؓ اسکے مخالف تھے۔ آپ ؐ کی دعا سے آپؓ نے نبوت کے چھٹے سال ستائیس برس کی عمر میں چالیس مردوں اور گیارہ عورتوں کے بعد مشرف بااسلام ہوئے۔ اسی لئے آپکو مراد رسولؐ کہا جاتا ہے۔”آپؓ کے اسلام لانے پر فرشتوں نے بھی خوشیاں منائی تھیں“ (مستدرک حاکم)۔ ہجرت کے موقعے پر کفار مکہ کے شر سے بچنے کیلئے سب نے خاموشی سے ہجرت کی مگر آپؓ کی غیرت ایمانی نے چھپ کر ہجرت کرنا گوارا نہیں کیا۔ آپؓ نے تلوار ہاتھ میں لی، کعبہ کا طواف کیا اور کفار کے مجمع کو مخاطب کر کے کہا ’’تم میں سے اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کی بیوی بیوہ ہو جائے، اس کے بچے یتیم ہوجائیں تو وہ مکہ سے باہر آکر میرا راستہ روک کر دیکھ لے“۔ مگر کسی کافر کی ہمت نہ پڑی کہ آپ کا راستہ روک سکتا۔ رسول اللہ ؐ نے آپؓ کو مخاطب کرتے ہوئے ایک دفعہ ارشاد فرمایا کہ ”قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، آپ جس راستے پر چلتے ہیں شیطان وہ راستہ چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کرلیتا ہے“ (مصنف ابن ابی شیبہ)۔ ہجرت کے بعد سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ تمام غزوات میں رسول اللہﷺ کی معیت میں رہے۔


 حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کفر و نفاق کے مقابلہ میں بہت جلال والے تھے اور کفار و منافقین سے شدید نفرت رکھتے تھے۔ ایک دفعہ ایک یہودی و منافق کے مابین حضور ؐ نے یہودی کے حق میں فیصلہ فرمایا مگر منافق نہ مانا اور آپؓ سے فیصلہ کیلئے کہا۔ آپؓ کو جب علم ہوا کہ نبیؐ کے فیصلہ کے بعد یہ آپ سے فیصلہ کروانے آیا ہے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس کو قتل کر کے فرمایا جو میرے نبیؐ کا فیصلہ نہیں مانتا میرے پاس اس کا یہی فیصلہ ہے۔ کئی مواقع پر نبی کریمؐ کے مشورہ مانگنے پر جو مشورہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے دیا قرآن کریم کی آیات مبارکہ اس کی تائید میں نازل ہوئیں۔


 حضرت عمر فاروقؓ باعظمت، انصاف پسند اور عادل حکمران تھے۔ان کی عدالت میں مسلم و غیر مسلم دونوں کو یکساں انصاف ملا کرتا تھا۔ حضرت عمرؓ حق و صداقت کے علمبردار تھے۔ امیر المومنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے وقت وصال امت کی زمام آپؓ ہی کے سپرد کی تھی، 22؍ جمادی الثانی 13؍ ھجری کو آپ مسند نشین خلافت ہوئے۔آپؓ کے دور خلافت میں عراق، مصر، لیبیا، سرزمین شام، ایران، خراسان، مشرقی اناطولیہ، جنوبی آرمینیا اور سجستان فتح ہو کر مملکت اسلامی میں شامل ہوئے۔ آپ ہی کہ دور خلافت میں پہلی مرتبہ یروشلم فتح ہوا، اس طرح ساسانی سلطنت کا مکمل رقبہ اور بازنطینی سلطنت کا تقریباً تہائی حصہ اسلامی سلطنت کے زیر نگین آگیا۔آپؓ نے 22؍ لاکھ مربع میل کے رقبے پر اسلام کا جھنڈا لہرایا اور قبلہ اول بیت المقدس کی شاندار فتح کا سہرا بھی آپ کے سر ہے۔ حضرت عمر بن خطاب ؓنے جس مہارت، شجاعت اور عسکری صلاحیت سے ساسانی سلطنت کی مکمل شہنشاہیت کو دو سال سے بھی کم عرصہ میں زیر کر لیا، نیز اپنی سلطنت و حدود سلطنت کا انتظام، رعایا کی جملہ ضروریات کی نگہداشت اور دیگر امور سلطنت کو جس خوش اسلوبی اور مہارت و ذمہ داری کے ساتھ نبھایا وہ ان کی عبقریت کی دلیل ہے۔ آپؓ کا دور خلافت عدل و انصاف کا درخشندہ باب اور مثالی دور ہے نیز بہت مبارک اور اشاعت و اظہار اسلام کا باعث تھا۔ آپؓ ہی نے تقویم اسلامی (اسلامی کیلنڈر) کی ابتداء ہجرت مدینہ کی بنیاد پر یکم محرم الحرام سے کروائی۔ مفتوحہ علاقوں میں 900؍ جامع مساجد اور 4000؍ عام مساجد تعمیر کروا کر اس میں تعلیم و تدریس کا انتظام کروایا، جب کہ حرمین شریفین کی توسیع بھی آپؓ کے دور خلافت میں ہوئی۔تاریخ کی سب سے پہلی مردم شماری، کرنسی سکہ کا اجراء، مہمان خانوں (سرائے) کی تعمیر، لاوارث بچوں کی خوراک، تعلیم و تربیت کا انتظام اور وطائف کا اجراء دور فاروقی میں کیا گیا۔ آپؓ کا مقام و مرتبہ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ ”میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتے تو عمر بن خطاب ہوتے۔“ (ترمذی شریف)


 27؍ ذی الحجہ سن 23ھ بروز بدھ کو مسجد نبوی میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فجر کی نماز کی امامت کررہے تھے۔ نماز کے دوران ابو لؤلؤفیروز نامی بدبخت مجوسی غلام نے زہر آلود خنجر سے آپؓ کے جسم مبارک پر تین چار وار کئے۔ جس کی وجہ سے حضرت عمرؓ زخمی ہوکر گر پڑے۔ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی۔ آپؓ کو بے ہوشی کے حالات میں گھر لایا گیا۔ ہوش آنے پر آپکو جب یہ بتایا گیا کہ حملہ آور مجوسی تھا تو آپؓ نے اس بات پر اللہ کا شکریہ ادا کیا کہ حملہ آور مسلمان نہیں تھا۔ آپؓ کے علاج کے باوجود افاقہ نہیں ہو رہا تھا،اس دوران اپنے بیٹے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس جاکر کہیں کہ ”عمر کی خواہش ہے کہ انہیں اپنے رفقا ء کے جوار میں دفن ہونے کی اجازت دے دی جائے“۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا پیغام سننے کے بعد حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ”بخدا یہ جگہ میں نے اپنے لیے منتخب کرلی تھی، لیکن آج کے دن میں یہ قربان کئے دیتی ہوں۔“ تین دن کرب میں گزارنے کے بعد آپ رضی اللہ عنہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے یکم محرم الحرام سن 24ھ جام شہادت نوش فرماگئے۔آپؓ کی نماز جنازہ حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ نے پڑھائی۔ (المنتظم) روضۂ نبوی میں خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلیفۂ اول حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی پہلو میں حضرت سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی قبر مبارک بنائی گئی۔ اور یوں عدل و انصاف کا آفتاب ومہتاب غروب ہو گیا۔ یہ مشیعت خداوندی ہی ہے کہ اسلامی سال کی ابتداء ہی شہادت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ہوتی ہے اور پھر مرقد رسول اللہؐ کے سرہانے تاقیامت استراحت کیلئے دو گز جگہ بھی عطا فر مادی گئی۔ قیامت تک جو بھی مسلمان روضہئ اقدس میں سلامی کیلئے حاضر خدمت ہوگا وہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ پر سلام بھیجے بغیر آگے نہ بڑھ سکے گا۔ دشمنان صحابہ کا منہ بند کرنے کیلئے یہ ایک اعزاز خداوندی ہی کافی ہے۔


فقط و السلام

بندہ محمد فرقان عفی عنہ*

یکم محرم الحرام ١٤٤٤ھ

30؍ جولائی 2022ء


+91 8495087865

mdfurqan7865@gmail.com


______________


*ابن مولانا محمد ریاض الدین مظاہری

ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند

سوشل میڈیا انچارج جمعیۃ علماء کرناٹک

صدر مجلس احرار اسلام بنگلور

رکن عاملہ جمعیۃ علماء بنگلور


#PaighameFurqan 

#پیغام_فرقان 

#Mazmoon #Article #UmarFarooq #Umar #HazratUmar #CaliphOfIslam #HazratUmarFarooq

Thursday, July 21, 2022

سرور کونینﷺکے دربار سے بارگاہ رب ذوالجلال تک

 🎯 سرور کونینﷺکے دربار سے بارگاہ رب ذوالجلال تک



📌 سفرحج کی ڈائری سےایک ورق

 

✍️ حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب دامت برکاتہم

(سرپرست مرکز تحفظ اسلام ہند)


  مدینہ منورہ ایسی پرکیف،راحت بخش اور دل آویز بستی ہے کہ یہاں جو آئے، واپس جانے کا تصور ہی اس کے لیے رنج اور صدمے کا باعث ہوتا ہے، ایسی مبارک بستی اور کہاں ہوگی جہاں ہر وقت نور ونکہت کی بارش ہوتی رہتی ہے، سکینت کی چادر تنی رہتی ہے اور بڑے سے بڑے مجرم کو بھی رحمۃ للعالمین کے بحر رحمت وکرم سے تسلی وسکون کے جامہائے شیریں ملتے رہتے ہیں، یہاں ایک احساس ہے اپنائیت کا، یہاں ایک کیف ہے دست شفقت کے سرپہ ہونے کا، یہاں ایک سہارا ہے توجہ وعنایت کا، یہاں ایک آسرا ہے محبت وشفاعت کا، مجھ سا گنہگار بھی یہاں کے ایک ایک ذرے سے طمانینت پاتا ہے، مجرم وخطا کار یہاں کی فضا میں سرکار کے قدموں کی آہٹ پاتا ہے، اور اس تمنا کے ساتھ وقت گذارتا ہے کہ”جی چاہتا ہے کہ نقشِ قدم چومتے چلیں!“ یہاں کے ذروں کی بھی قسمت دیکھیے، یہاں کے سنگریزوں کا نصیبہ ملاحظہ کیجیے کہ انہوں نے کائنات کی سب سے مقدس ہستی کے قدم چومے، برسوں گذرے اسی مبارک سرزمین پر مسجد نبوی کے آغوش میں روضہ اطہر کے قریب مشہور عاشق رسول اور صاحب نسبت شیخ پیر جماعت علی شاہ فروکش تھے، حج کے لیے حاضری ہوئی تھی، حج کے مناسک سے فارغ ہوکر اب ان کا قافلہ مدینۃ النبی میں خیمہ زن تھا، پیر صاحب عشق ووارفتگی میں ممتاز تھے، عشق نبوت سے سینہ لبریز تھا، قافلے میں موجود ایک شاعر نے پیر صاحب کی اجازت سے چند شعر سنائے، جذبات کیف ومستی عروج پر آگئے، یہاں تک کہ شاعر نے یہ شعر سنایا ؎

 ایسے کہاں نصیب اللہ اکبر سنگ اسود کے

یہاں کے پتھروں نے پاؤں چومے ہیں محمّد کے

  بس پیر جماعت علی شاہ بیخود ہوکر کھڑے ہوگئے، وجد کی کیفیت طاری ہوگئی، صدری میں سفر حج کے اخراجات کے ساتھ اس زمانے کے لحاظ سے کافی معقول رقم تھی، صدری اتار کر رقم سمیت شاعر کو بخش دی، اور فرمایا کہ نہ ہو اپنجاب (یعنی وہاں ہوتے تو اور نوازتے) عشق بنیا نہیں ہے کہ سود وزیاں کا حساب کرتا پھرے، یہ کام عقل کا ہے، عشق تو بے خطر آتشِ نمرود میں چھلانگ لگادیتا ہے، اور پہلے ہی قدم پر جان کی بازی لگاکر کامیابی کی سند پاتا ہے ؎

در رہ منزل لیلٰی کہ خطرہاست بجان 

شرط اول قدم آنست کہ مجنوں باشی

  بات سے بات یاد آتی ہے، ہمارے سلسلہ عالیہ کے عظیم بزرگ اور صاحب کیف وحال شیخ حضرت شاہ فضل رحماں گنج مراد آبادی نور اللہ مرقدہ کی خدمت میں ان کے مریدِ با صفا مولانا حاجی محمد شفیع بجنوری حاضر تھے، یہ خود بھی بڑے صاحب جذب وکیف شخص تھے، اور حرمین شریفین حاضری کے مشتاق ودلدادہ، اس زمانے میں جب کہ حرمین شریفین کا سفر انتہائی دشوار گذار تھا، راہ کی صعوبتیں ایک سے بڑھ کر ایک، رہزنوں کا خطرہ، سمندر کی موجوں کی طغیانی، موسم کی شدت، بھوک پیاس کی مشقت، لوگ کشتیوں پر جھولتے ہوئے اور اونٹوں پر جھومتے ہوئے حرمین حاضر ہوتے تھے، کتنے راہ ہی میں جان کی بازی ہار دیتے تھے کہ ؎

جان ہی دیدی جگر نے آج پائے یار پر

عمر بھر کی بے قراری کو قرار آہی گیا

جو مشقتوں کا صحرا اور صعوبتوں کا دریا عبور کرتے ہوئے آگے بڑھتے تھے ان کو بھی قدم بہ قدم یہ خیال ہوتا تھا کہ ؎

شب تاریک وبیم موج وگردابی چنین حائل

کجا دانند حالِ ما سبکبارانِ ساحلہا

  اس زمانے میں حرمین شریفین کا سفر واقعی عشق ومحبت کی کسوٹی تھا، کوئی ایک بار بھی حاضر ہوجاتا تھا تو غنیمت خیال کرتا تھا، ایسے دور میں مولانا شفیع بجنوری متعدد بار حاضر ہوئے، اور ان کے عشق ومحبت کا یہ صلہ ان کو ملا کہ عین موسم حج میں مکہ مکرمہ کی مبارک سر زمین نے اس مرد باخدا کو اپنی آغوش میں لے لیا، اور وہ ہمیشہ کے لیے جنت المعلی کے مکین بن گئے، ۸ ذی الحجہ کو حالت احرام میں ان کا وصال ہوا، گویا کہ قیامت تک ان کے لیے حج کا ثواب لکھا جاتا رہے گا، یہی خوش نصیب انسان اپنے مرشد کامل شاہ فضل رحماں کی بارگاہ میں ہے، سفر حج پر روانگی قریب ہے، بارگاہِ مرشد میں سفر کا ذکر آیا، مرشد نے پوچھا: سفر حج کی کچھ تیاری بھی کی؟ کچھ انتظام بھی کیا؟ مرید پر شوق اور عشق کی کیفیت طاری تھی، بے اختیار زبان سے یہ شعر نکلا ؎

در رہ منزل لیلٰی کہ خطر ہاست بجان 

شرط اول قدم آنست کہ مجنوں باشی

شعر سننا تھا کہ مرشد بھی بیخود ہوگئے، ایک زور کی چیخ ماری، لیکن فورا ہی سنبھل گئے، ارشاد ہوا: سب واہیات ہے، شریعت کی پابندی ہر حال میں ضروری ہے، اللہ اللہ کیسے تھے ہمارے اسلاف! شریعت وطریقت دونوں کے جامع، در کف جام شریعت سندان عشق کے مصداق، ہوشیاروں میں سب سے زیادہ ہوشیار، اور مستوں میں سب سے زیادہ مست، مست بھی کونسے؟ مست مئے عہد الست، بلیٰ بلیٰ کا نعرہ مستانہ بلند کرنے والے، معرفت ربانی کے دریا میں غوطہ زنی کرنے والے، ایک مالک کے نام پر جینے اوراسی کے نام پر مرنے والے، نظام الملت والدین حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء بوقت تہجد اپنی مناجات میں یہ دو شعر پڑھا کرتے تھے ؎

خواہم کہ ہمیشہ در ہوائے تو زیم

خاکے شوم و زیر پائے توزیم

مقصود من بندہ ز کونین توئی

از بہر تو بمیرم واز برائے توزیم

  اور یہ صرف ان کا حال نہیں تھا، ہمارے بزرگوں، بڑوں اور اسلاف نے اسی طریقے کو چنا تھا، وہ خشک ملّا نہیں تھے، معرفت ربانی کے ذوق آشنا، اور محبت الہی کے محرم اسرار تھے، شریعت ان کے سر کا تاج تھی اور طریقت ان کے سینے کا راز، اور ان دونوں کے درمیان توازن قائم رکھنا ان کا امتیاز! وہ پگڈنڈیوں کے راہی نہیں تھے، ان کے قدم ہمیشہ شاہراہِ شریعت وطریقت پر مستقیم رہے، سچے مسلمان، پکے صوفی!

  مدینہ منورہ کی نکھری اور اجلی صبح تھی، حالت احرام میں ایک سیہ کار تنہا مسجد نبوی کی طرف رواں دواں تھا، ریحان نے ساتھ چلنا چاہا، میں نے منع کردیا، مسجد نبوی میں داخل ہوا، رگ وپے میں ٹھنڈک پھیل گئی، ساتھ ہی اضطراب بھی بڑھا، مسجد شریف تقریبا خالی تھی، زیادہ تر قافلے مکہ مکرمہ کے لیے روانہ ہوچکے ہیں، مقامی لوگ اور بچے کچھے عازمین حج قیام گاہوں پر ہیں، ترکی حرم کا حصہ صفائی کے لیے بند تھا، اس کے قریب ہی ایک ستون کے پیچھے نماز میں مشغول ہوگیا، تحیۃ المسجد پڑھی، پھرتوبہ کی نماز، پھر شکر کی نماز، پھر حاجت کی نماز، توبہ اس بات کی کہ وقت غفلت میں گذر چکا، شکر اس کا کہ رب کریم! تونے اس مبارک مقام تک پہونچایا، التجا اس تمنا کی کہ یہاں کی حاضری پھر نصیب ہو، اور ابھی کی حاضری قبول ہوجائے، نماز بھی آنسوؤں کے ساتھ پڑھی گئی، اور پھر جب دعا کے لیے ہاتھ اٹھے تو بند ٹوٹ گیا، اللہ! اس کریم بارگاہ کو چھوڑ کر جانے کا وقت آگیا، اب یہ سایہٴ رحمت کہاں ملے گا؟ یہ سنہری جالی کا منظر، یہ گنبد خضراء کا جلوہ، یہ روضہ شریف کا نظارہ کب میسر آئے گا؟ جہان میں کہیں اور مجھ سے گنہگاروں کے لیے امان نہیں ہے، اگر کہیں امان ہے تو یہیں ہے، جس کی کملی میں مجرم منہ چھپالیتے ہیں، جس کی رحمت ورافت مومنوں کو سکون بخشتی ہے، جس کی رحمۃ للعالمینی کی چادر عادی خطا کاروں کو بھی سایہ فراہم کرتی ہے، جس کی ذات سخت دھوپ میں برگد کی ٹھنڈی چھاؤں ہے، اور صحراء کی حدت وحرارت میں کوثر وتسنیم کا سرچشمہ ہے، ایسی پاکیزہ، شفیق اور غم خوار ہستی کی بارگاہ سے رخصت کی گھڑی ہے، بار الہا! اس کا در چھوڑ کر جانا ہے جس کے ذریعے تجھ کو پہچانا ہے، پاک پروردگار! ایسے مقام سے واپسی ہے جو رشک ملائک ہےــــــــــــ دیر تک کج مج زبان میں عرض کرتا رہا، کچھ زبان نے کہا، زیادہ تر آنکھوں کے اشک نے!

آنسو مری آنکھوں میں ہیں نالے مرے لب پر

سودا مرے سر میں ہے تمنا مرے دل میں

نماز ودعا سے فارغ ہوکر باب السلام کی طرف بڑھا، الوداعی سلام پیش کرنا تھا، قدم بوجھل ہوئے جارہے تھے، روانگی کا وقت بھی قریب ہورہا تھا، جیسے تیسے بارگاہ میں حاضر ہوا، اللہ کے رسول! سیہ کار امتی کا سلام قبول ہو، وقت رخصت ہے، جا تو رہا ہوں مگر کس دل سے؟ یہ بس دل ہی جانتا ہے، چند دن بس چند لمحات کی طرح گذر گئے، یہاں آکر بھی غفلت اور سستی سے پیچھا نہ چھوٹا، شرمندہ دل اور مضطرب روح کے ساتھ آپ کا در چھوڑ کر جارہا ہوں، آپ کے در سے اللہ پاک کے گھر کی طرف سفر کرنا ہے، اللہ پاک سے آسانی، قبولیت اور پھر سے مقبول حاضری کی دعا کردیجیے، دل میں جذبات واحساسات کا سیلاب امڈا جارہا تھا، آنکھ بہتی چلی جارہی تھی، اور قدم آگے بڑھنے سے انکاری تھے، کوئی ہجوم بھی نہیں تھا، بس تھوڑے سے لوگ تھے، جو صلاۃ وسلام کا نذرانہ بارگاہِ نبوت میں پیش کررہے تھے، مگر شرطہ کو بڑی جلدی تھی، ”یا حاج تحرّک“ کی صدا بار بار کانوں سے ٹکرارہی تھی، اس لیے بادلِ نخواستہ قدم آگے کی طرف بڑھے، حضرت ابوبکر وعمر کو سلام کرتا ہوا نم آنکھوں کے ساتھ آگے بڑھا، دروازے سے نکل کر پھر کھڑا ہوگیا، گنبد خضراء کا منظر سامنے تھا، پولس والے یہاں بھی کھڑے نہیں رہنے دیتے ہیں، لیکن بھیڑ نہیں تھی تو کسی نے توجہ نہیں دی، کچھ دیر کھڑا رہا، گنبد کو دیکھتا رہا، حسرت کے آنسو بہاتا رہا، قریب میں ایک اور نوجوان بھی تھا، اس کے ساتھی تو سلام پیش کرکے آگے بڑھ گئے مگر وہ صدمہ سے بے حال تھا، بلک بلک کر رو رہا تھا، احرام کی حالت تھی، ہاتھ آنکھوں پر، اور بے قراری دیدنی! شمع نبوت پر جان لٹانے اور اپنا آپ نچھاور کرنے والے پروانے ایک دو نہیں، لاکھوں کروڑوں ہیں، زمانے کی گردشیں عشق و وارفتگی کے جذبات پر گرد نہ ڈال سکیں، مادیت اپنے تمام تر ہتھیار استعمال کرکے بھی جنون محبت کو شکست نہ دے سکی، آج بھی عشق زندہ ہے! آج بھی محبت پائندہ ہے! اور محبت بھی کیسی اور کتنی؟ جو جگر کو پگھلادے، جو دل کو گرمادے، جو حساب کم وبیش اور فکر سود وزیاں سے بیگانہ کردے، اور ذات نبوی کا دیوانہ بنادے، ایسا دیوانہ جس کی دیوانگی پر ہزار فرزانگی قربان!

دل سےبےاختیاریہ دعانکلی کہ

دمکتے رہیں ترےگنبد کےجلوے

چمکتی رہےترےروضےکی جالی 


  گنبد خضراء پر نگاہ جمائے کچھ دیر کھڑا رہا، دعا بھی مانگتا رہا، اور صلاۃ وسلام بھی پڑھتا رہا، جہاں مدینہ پاک چھوٹنے کا غم تھا، وہیں احساس ندامت سے بھی دل لبریز تھا، وقت کی قدر نہ ہوسکی، یہاں کی خیرات وبرکات سے دامن نہ بھرسکا، درِ فیض تو کھلا تھا مجھ سے ہی کمی کوتاہی ہوگئی، جہاں سر کے بل حاضر ہونا چاہیے تھا وہاں قدموں کے بل حاضر ہوا، اور اپنی نادانی اور غفلت کی وجہ سے خسارے میں رہا، دل میں ندامت، آنکھ میں آنسو اور زبان پریہ دعا لے کر قیام گاہ واپس لوٹا”اللھم لا تجعل عہدنا ھذا آخر العہد“، اللہ! اس حاضری کو آخری حاضری نہ بنا، اپنے محبوب کے شہر میں پھر بلالے، مقبول حاضری سے مشرف فرمادے، قیام گاہ پر سامان تیار تھا، اہلیہ نے سامان ترتیب سے رکھ دیا تھا، اور ریحان سلّمہ نے اسے نیچے اتار دیا تھا، روانگی ساڑھے دس بجے تھی، مگر معلم کی جانب سے بس آنے میں دیر ہوئی، کوئی ساڑھے بارہ بجے روانگی ہوئی، بس میں بیٹھے ہوئے اہلیہ مسجد نبوی کے میناروں پر نظر جمائے ہوئے تھیں، تھوڑی دیر کے بعد نجانے کیا خیال آیا کہ سسکیوں کے ساتھ روپڑیں، بس روانہ ہوئی تو ان کا رونا بڑھ گیا، ہمارے ٹور کے ذمہ دار حافظ سلمان صاحب کے اصرار پر میں نے چند منٹ تقریر کی، پھر دعا کرائی، دعا میں رقت طاری ہوگئی، اور ساتھیوں میں سے بہت سے روپڑے، اور دعاؤں کے ساتھ حج کی آسانی کی دعا بھی کی، اللہ پاک قبول فرمائے، ذو الحلیفہ پہونچ کر ظہر کی نماز با جماعت ادا کی، فقیر کی امامت میں سب نے نماز پڑھی، پھر دو رکعت نفل پڑھ کر تلبیہ پڑھا، لبیک اللہم لبیک، لبیک لا شریک لک لبیک، ان الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک لک، یہ بھی کیسا پیارا ترانہ ہے، کیسی البیلی دعا ہے، کتنا خوب صورت التجا کا انداز ہے!گویا کہ پروردگار نے پکارا کہ میرے بندے! مادیت کے غلبے سے نکل کر روحانیت کی طرف آ، ضلالت وشقاوت کے اندھیرے سے نکل کر ہدایت وسعادت کے اجالے کی طرف سفر کر، نفس وشیطان کو چھوڑ، رب رحمان کی طرف آ، جہالت کی گھاٹی سے ابھر، علم ومعرفت کی وادی میں بسیرا کر، اور اس پکار پر بندہ دیوانہ وار دوڑتا ہوا پاک پروردگار کی بارگاہ میں حاضر ہوا، اس ندا کے ساتھ کہ” لبیک اللہم لبیک، لبیک لا شریک لک لبیک، ان الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک لک“ حاضر ہوں، میرے اللہ! میں حاضر ہوں، تو نے بلایا، میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، تونے طلب کیا، میں تیری بارگاہ میں حاضر ہوں، حمد وثنا تیرے لیے، نعمت اور بادشاہت تیری، ملک اور اقتدار تیرا، (میں خالی ہاتھ ہوں اور سارا اختیار واقتدار تیرا ہے) اللہ پاک بندے کو بلارہا ہے کہ آ، تاکہ میں تیرا دامن نعمت سے بھردوں، تیری جھولی مراد سے لبریز کردوں، تیرے گناہ معاف کردوں، تیر ی معصیت پر قلم عفو پھیردوں، کتاب زندگی کی ساری خطائیں دم بھر میں مٹادوں، شیطان کے بنائے قلعے کو مسمار کردوں، دل میں محبت ومعرفت کے چراغ روشن کردوں، نگاہ کو عفت، زبان کو سچائی، کانوں کو حیا اور جسم کو طاعت کا مزہ دوں، پھول کی سی تازگی، پھل کی سی مٹھاس، ٹھنڈے پانی کی سی فرحت اور شبنم کی سی خنکی بخش دوں، یہ اعلان سن کر بندہ پکار اٹھتا ہے: لبیک اللہم لبیک، لبیک لا شریک لک لبیک، ان الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک لک، ندا دی جارہی ہے کہ آ، میں تجھے اخلاق کی وسعت، فکر کی بلندی اور آفاقیت ، کردار کی رفعت اور اعمال پر استقامت سے مالا مال کردوں، تیرے ذہن وفکر کے دریچے وا کردوں، تجھ پر نعمت وبرکت کے دہانے کھول دوں، تجھے شہوتوں اور لذتوں سے دور کردوں، تجھے اپنی ذات سے قریب کرلوں، یہ روح پرور ندا سن کر بندہ لپک کر آتا ہے اور پکا ر پکار کر اپنی حاضری درج کراتا ہے، لبیک اللہم لبیک، لبیک لا شریک لک لبیک، ان الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک لک۔

  احرام کی حالت میں سب کی زبان پر تلبیہ جاری ہے، آس پاس اور بہت سے قافلے موجود ہیں، کچھ نماز پڑھ رہے ہیں، کچھ لبیک کی صدا بلند کررہے ہیں، ٹور کے اکثر لوگ حج تمتع کررہے ہیں، یعنی مکہ مکرمہ پہونچ کر عمرہ کریں گے، احرام اتاردیں گے، پھر ۸ ذی الحجہ کو حج کا احرام باندھیں گے، اور حج کریں گے، ہم لوگ چونکہ براہ راست ہندوستان سے مدینہ منورہ حاضر ہوئے، اس لیے حج قران کی گنجائش تھی، ہم چاروں (راقم اور اس کی اہلیہ، ریحان اور ان کی اہلیہ) نے حج قران کی نیت کی، حضور اکرم ﷺ نے اپنے پہلے اور آخری حج کے موقع پر ذو الحلیفہ سے ہی احرام باندھا تھا اور حج قران کی نیت کی تھی، پھر اس سال بھی حج کا دن اور جمعہ کا دن ایک ساتھ آئے تھے، (جسے عام لوگ حج اکبری کہتے ہیں) اس سال بھی اللہ پاک نے دونوں مبارک دنوں کو اکٹھا کردیا ہے، ان مشابہتوں کے اکٹھا ہونے سے دل مسرور ہے، غلاموں کو آقا کی راہ پر چلنا نصیب ہورہا ہے، ۲۰۱۹ء میں بھی جب حج کے لیے حاضری ہوئی تھی تو حج قران ہی کیا تھا، اس سال بھی اللہ پاک پھر موقع دے رہا ہے، اس پر جتنا شکر ادا کروں کم ہے، اللہم لک الحمد ولک الشکر کلہ! تلبیہ کی صداؤں کے ساتھ قافلہ روانہ ہوا، سب کے دل میں شوق بھی ہے کہ بارگاہ رب کریم میں حاضر ہورہے ہیں، منی، مزدلفہ، عرفات میں ٹھہریں گے، اللہ پاک کا حکم بجالائیں گے، ساتھ ہی خوف بھی ہے کہ حج کے ارکان صحیح سے ادا ہوپائیں گے یا نہیں؟ کہیں کوئی غلطی نہ ہوجائے، کہیں کوئی قصور نہ ہوجائے! ہجوم اور ازدحام کی وجہ سے کسی رکن کی ادائیگی میں خلل نہ پڑجائے، شوق اور خوف کی ملی جلی کیفیت میں قدم آگے بڑھ رہے ہیں، دیوار کے پیچھے کیا ہے؟ خدا جانتا ہے، زمانوں اور وقت کے پار کیا ہے؟ عالم الغیب کے علم میں ہے، جو ہونا ہے ہو کر رہے گا، اور جو ہوگا وہ اللہ پاک کے حکم اور اشارے ہی سے ہوگا، اس لیے سب اسی کے آگے ہاتھ پھیلارہے ہیں، سب اسی سے خیر اور آسانی کی التجا کررہے ہیں، سب کے دل اسی کے آگے جھکے ہوئے ہیں، سب کی نگاہیں اسی کی طرف لگی ہوئی ہیں، اے کریم! اے رحیم! اے حلیم! اے عظیم! تیری رحمت عام ہے، تیری بخشش لا کلام ہے، ہر مشکل کو آسان کرنے والا، ہر مصیبت کو دور کرنے والا، عافیت اور نعمت کے خزانوں سے مالا مال کرنے والا، توفیق وسعادت کی مایہ عطا کرنے والا تو ہے، تجھ سے رحمت کا، کرم کا، عافیت کا، نعمت کا، توفیق کا، سعادت کا سوال ہے، التجا اور کسی کی نہیں تیری بارگاہ میں ہے کہ تو ہی داتا ہے، تو ہی پالنہار ہے، تو ہی بخشندہ ہے، توہی پروردگار ہے!

بس آرام دہ اور تیز رفتار ہے، البتہ جگہ جگہ چیک پوسٹ ہے، بار بار رکنا پڑرہا ہے، کہیں کہیں رفتار کم کرنی پڑ رہی ہے، وادی ستارہ کی مسجد جابر ابن سالم میں عصر کی نماز با جماعت پڑھی، مسجد میں داخل ہوا تو یاد آیا کہ اس سے پہلے بھی اس مسجد میں نماز پڑھ چکا ہوں، اس وقت مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ جارہا تھا، غالبا فجر کی نماز یہاں پڑھی تھی، کہیں ڈائری میں لکھا ہوا ہوگا، وہیں ٹھہر کر شام کی چائے پی، پھر سفر شروع ہوا، میں تلاوت میں مشغول تھا، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے تذکرے میں کہیں پڑھا تھا کہ جب انہوں نےامام مالک علیہ الرحمۃ والرضوان سے علم حاصل کرنے کی غرض سے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کا رخت سفر باندھا تو مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ اونٹ پر جاتے ہوئے روزانہ ایک کلام پاک ختم فرماتے تھے، اس وقت امام شافعی بالکل نو عمر تھے، مگر عبادت اور بندگی کا کیسا مزاج تھا، وقت کی قدر دانی کس درجے کی تھی! اللہ پاک کے کلام سے کیسی مناسبت اور کس درجے محبت تھی! ائمہ اربعہ کے ذکر کے وقت عام طور پر صرف ان کے علمی رسوخ، فقاہت، ذہانت، نکتہ رسی اور دقیقہ سنجی کا بیان ہوتا ہے، حالانکہ ان کا اصل کمال علم وعمل کی جامعیت، تقوی وطہارت، کثرت عبادت، زہد وقناعت اور توکل وانابت جیسی صفات مومنانہ تھیں، عزت وعظمت کا تاج ان کے سر کی زینت صرف ان کے علم کی وجہ سے نہیں بنا، بلکہ عمل واخلاص کا جوہر اس کا اصل سبب تھا، علم والے تو دنیا میں اور بھی گذرے ہیں، مگر چمکے وہی جنہوں نے علم کو عمل سے جوڑا، اور خشیت الہی سے سینے کو منورکیا، کیسے موقع سے مولانا روم یاد آگئے ؎

علم را برتن زنی مارے بود

علم را بردل زنی یارے بود

  مرشد کی مجلس تھی، علم وعمل پر گفتگو جاری تھی، ارشاد ہوا: کئی بڑے علماء کو میں نے دیکھا، علم پختہ تھا، ذہانت کمال درجے کی تھی، تقریر کرتے تھے تو موتی رولتے تھے، لکھتے تھے تو الفاظ کا تاج محل کھڑا کردیتے تھے، متحرک اور فعال بھی تھے، عوام سے رابطہ بھی خوب تھا، مگر با فیض نہ ہوئے، شمع جلی، جل کر بجھ گئی، نہ مقبول ہوسکے، نہ فیض کا دائرہ بڑھ اور پھیل سکا، ان میں کچھ ایسے بھی تھے جو میرے والد ماجد کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے، فقیر نے عرض کیا: دادا جان (عام طور پر یہ ناکارہ حضرت مولانا منت اللہ رحمانی نور اللہ مرقدہ کے لیے دادا جان یا بڑے حضرت کا لقب ہی استعمال کرتا تھا) کی صحبت میں رہنے کے باوجود ایسا کیوں ہوا؟ ان پر رنگ کیوں نہ چڑھا؟ مرشد کا مختصر جواب تھا، مولانا !آپ نے مولانا !روم کا شعر نہیں پڑھا؟

علم را برتن زنی مارے بود

علم را بر دل زنی یارے بود

  آہ! مرشد بھی کیا خوب انسان تھے! مختصر جملوں میں الجھی ہوئی گتھیاں سلجھانے والے، اشارے اشارے میں مشکلات کو حل کردینے والے، واقعی ان کا وجود اس مصرعے کا مصداق تھا ؎

اے لقائے تو جواب ہر سوال 

 مشکل از تو حل شود بے قیل و قال

  )اے وہ ذات کہ تیری ملاقات ہر سوال کا جواب ہے، بےشک تجھ سے بے قیل وقال ہر مشکل حل ہوجاتی ہے)

  بات دور نکل گئی، ذکر تھا امام شافعی کا، مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ جاتے ہوئے روزانہ ایک کلام پاک ختم فرماتے، یہ بات ذہن کے کسی گوشے میں چپکی ہوئی تھی، مدینہ طیبہ سے روانہ ہوتے ہوئے مسجد نبوی ہی میں نیت کی کہ یہ فقیر بھی مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کے سفر میں پندرہ پارے تلاوت کرے گا، بحمد اللہ اور اوراد واذکار اور تلبیہ کی کثرت کے ساتھ تلاوت کی یہ مقدار اس وقت پوری ہوگئی جب بس مکہ مکرمہ کی قیام گاہ کے سامنے رک رہی تھی۔ فللہ الحمد والمنۃ۔

رات ساڑھے نو بجے کا وقت تھا جب مکہ مکرمہ کی آبادی نظر آنا شروع ہوئی، دل کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں، شہر جلال آرہا ہے، پاک پروردگار کی تجلیات کا مرکز قریب ہورہا ہے، حرم محترم سے نزدیکی بڑھ رہی ہے، ”البلد الامین“ کی مبارک ہوائیں اور پرنور فضائیں بس نصیب ہونےہی والی ہیں، میرا عجیب حال ہے، مدینہ منورہ جتنا قریب آتا جاتا ہے شوق غالب ہوتا ہے، اور مکہ مکرمہ سے جتنا قرب بڑھتا ہے خوف کا غلبہ ہوتا ہے، دل ڈر جاتا ہے، کہیں کوئی غلطی نہ ہوجائے، کہیں بارگاہ رب ذو الجلال کے آداب کی خلاف ورزی نہ ہوجائے، یہ مقام کوئی عام مقام نہیں ہے، یہ مکہ مکرمہ ہے، روئے زمین کا افضل ترین مقام! یہ مہبط وحی اور مولد نبی ہے، برکتوں اور رحمتوں نے اس کا احاطہ کر رکھا ہے، تجلیات جلال رحمانی نے اسے مرکز انوار بنا رکھا ہے، یہاں کی عبادت ہر جگہ کی عبادت سے بڑھ کر! یہاں کی خطا بھی ہر جگہ کی خطا سے بڑھ کر! اس کے بارے میں ارشاد ہے: ”وَ مَنْ یُّرِدْ فِیْهِ بِاِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ“، (ترجمہ: اور جو اس میں کسی زیادتی کا ناحق ارادہ کرے ہم اُسے دردناک عذاب چکھائیں گے۔) آیت قرآنی ڈرا رہی ہے: خبر دار رہو! یہ مقام ادب ہے، ڈرتے رہو! یہ بارگاہِ رب کبریاء ہے، ہر غلطی سے بچو! ہر معصیت کے ارادے سے باز رہو! پاک مقام پر ہو، پاک اور پاکیزہ بن کر رہو! پاک پروردگار کے تقدس کا خیال رکھو، اس کی ذات کا استحضار پیدا کرو کہ وہ تم کو دیکھ رہا ہے، تمہاری باتوں کو سن رہا ہے، تمہارے دل کے ارادوں سے واقف ہے، ”الم یعلم بأن اللہ یری“ ــــــــــــ الم یعلموا أن اللہ یعلم سرھم ونجواھم وأن اللہ علام الغیوب۔

  لیجیے، خیالات اور تصورات کی دنیا سجی ہوئی تھی کہ مکہ مکرمہ کی آبادی شروع ہوگئی، ”اللھم إن ھذا الحرم حرمک والبیت بیتک الخ“ والی دعا زبان پر جاری ہوگئی، تلبیہ کی آواز بھی بلند ہونے لگی، آیا پروردگار آیا، تیرے دربار میں حاضر ہوگیا، ناپاک ہوں، مگر پاک جگہ آگیا، سیہ کار ہوں، مگر تیرے بلاوے پر حاضر ہوں، تونے بلایا، تونے اپنا مہمان بنایا، میں اس قابل تو نہ تھا، مگر تیری عطا کا کوئی کنارہ نہیں، تیری نوازش کی کوئی انتہا نہیں! حاضر ہوں، اے پروردگار حاضر ہوں، رات کے ٹھیک دس بجے تھے جب بس نے ”المختارون بلازہ“ نامی ہوٹل کے سامنے پہونچادیا، معلوم ہوا کہ مکرمہ مکرمہ کی قیام گاہ یہی ہے، بس سے قدم نیچے رکھتے ہوئے بے اختیار یہ شعر یاد آیا ؎


یہاں نہ گھاس اگتی ھے یہاں نہ پھول کھلتے ہیں

پھر بھی اس سرزمیں سے آسماں جھک کےملتے ہیں


                        *٭٭٭٭٭*


🗓 بروز پیر، 4جولائی 2022ء/۳ ذی الحجہ ۱۴۴۳ھ

Monday, July 11, 2022

Ae Hajiyon! Zara Ghor Se Suno | Ashaar-e-Furqani

 اے حاجیوں! ذرا غور سے سننا

لبیک کا نعرہ، لگاتے ہی رہنا

مصطفیٰ ؐ کے حضور، حاضر ہوں جب بھی

فرقاں کا سلام! ذرا یاد سے کہنا


✍🏻 بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند) 


Ǽy ĥajiyon! ᵶara Gₕₒᵣ sἓ sunNa

LαႦႦαιƙ Ka ἢaRa, 𝐿aɠate hi rehNa

𝐌𝐮𝐬𝐭𝐚𝐟𝐚 ke Hυȥσσɾ, hαzir hσσn jab вhi

𝕱𝖚𝖗𝖖𝖆𝖓 Ka sαlÃm! zara ɏaad se kёhNa


✍🏻 𝐌𝐨𝐡𝐚𝐦𝐦𝐞𝐝 𝐅𝐮𝐫𝐪𝐚𝐧

(Founder & Director Markaz Tahaffuz-e-Islam Hind)


#اشعار_فرقانی

#AshaareFurqani #mdfurqanofficial

Pahad ki choti per khada hun | Ashaar -e- Furqani

پہاڑ کی چوٹی پہ کھڑا ہوں

بلندی سے کبھی نہ ڈرا ہوں

گرانے میں لگے ہیں مجھے ہر ایک

میں طوفان سے ہر وقت لڑا ہوں


✍🏻 بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


pahāḌ kī choti pἕ khaḌā hบuñ

Ƀulandī se kⱥbhi ña Ḍarā hบuñ

ǤirAñe māin lⱥGe hāiñ mujhe hār ɇk

ᵯāin tooƑāaᾔ ᵴe hār wāqt lⱥdā hบuñ


✍🏻 Mohammed Furqan

(Founder & Director Markaz Tahaffuz-e-Islam Hind)



#AshaareFurqani #mdfurqanofficial #اشعار_فرقانی

Main Alfaaz nahi ehsaas likha karta hun | Mohammad Furqan | Markaz Tahaffuz-e-Islam Hind

 میں الفاظ نہیں، احساس لکھا کرتا ہوں

دل پہ جو گزرتی ہے، وہ آواز لکھا کرتا ہوں

ظلمت کے اس دور میں، قلم کی نوک سے

میں ہر ایک ظلم پر انقلاب لکھا کرتا ہوں


✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


𝙈ain Aʅϝααȥ nahi, 𝐄𝐡𝐬𝐚𝐚𝐬 Lιƙԋα ӄǟʀȶǟ ԋσσɳ

𝕯𝖎𝖑 pe jo ɠυȥαɾƚι hai, woh 𝐀𝐰𝐚𝐳 Lιƙԋα ӄǟʀȶǟ ԋσσɳ

𝖅𝖚𝖑𝖒𝖆𝖙 ke is ɖǟʊʀ main, 𝐐𝐚𝐥𝐚𝐦 ki nok se

𝙈ain har ek ⱫɄⱠ₥ per, 𝐈𝐧𝐪𝐢𝐥𝐚𝐛 Lιƙԋα ӄǟʀȶǟ ԋσσɳ


✍️ 𝐌𝐨𝐡𝐚𝐦𝐦𝐞𝐝 𝐅𝐮𝐫𝐪𝐚𝐧

(Founder & Director Markaz Tahaffuz-e-Islam Hind)


#mdfurqanofficial #AshaareFurqani #اشعار_فرقانی

Monday, July 4, 2022

نبیؐ کی شان میں گستاخی ہرگز برداشت نہیں، حکومت گستاخ نوپور شرما اور نوین جندل کو فوراً گرفتار کرے!

 نبیؐ کی شان میں گستاخی ہرگز برداشت نہیں، حکومت گستاخ نوپور شرما اور نوین جندل کو فوراً گرفتار کرے!



علماء کرام کے ولولہ انگیز خطابات سے مرکز تحفظ اسلام ہند کی ہفت روزہ عظیم الشان ”تحفظ ناموس رسالتؐ کانفرنس“ اختتام پذیر!


بنگلور، 04؍ جولائی (پریس ریلیز): اسلام میں عقیدہ توحید کے بعد دوسرے نمبر پر عقیدہ رسالتؐ پر ایمان لانا بہت ضروری ہے، مسلمانوں پر لازم ہے کہ تمام پیغمبروں پر ایمان لائیں ان کا ادب و احترام کریں اور نبی آخرالزماں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے بعد ان کی اطاعت کریں اور آپؐ کی جملہ امور میں پیروی بھی کریں۔ سید الانبیاء حضرت محمدﷺ سے محبت وعقیدت مسلمان کے ایمان کا بنیادی جز ہے اور کسی بھی شخص کا ایمان اس وقت تک مکمل قرار نہیں دیا جاسکتا جب تک رسول اللہ ؐ کو تمام رشتوں سے بڑھ کر محبوب ومقرب نہ جانا جائے۔ مذکورہ خیالات کا اظہار مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان نے کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ امت مسلمہ کا شروع دن سے ہی یہ عقیدہ ہے کہ نبی کریم ؐ کی ذات گرامی سے محبت وتعلق کے بغیر ایمان کا دعویٰ باطل اور غلط ہے۔ ہر دور میں اہل ایمان نے آپ ؐ کی شخصیت کے ساتھ تعلق ومحبت کی لازوال داستانیں رقم کیں۔ اور اگر تاریخ کے کسی موڑ پرکسی بد بخت نے آپؐ کی شان میں کسی بھی قسم کی گستاخی کرنے کی کوشش کی تو مسلمانوں کے اجتماعی ضمیر نے شاتم رسولؐ کے مرتکبین کو کیفر کردار تک پہنچایا ہے۔ کیونکہ مسلمان سب کچھ برداشت کرسکتا ہے لیکن نبی کریمؐ کی شان اقدس میں ذرہ برابر بھی گستاخی ہرگز برداشت نہیں کرسکتا۔ انہوں نے فرمایا کہ حالیہ دنوں میں ہندوستان کی موجودہ بی جے پی حکومت کی قومی ترجمان گستاخ نوپور شرما اور سوشل میڈیا انچارج ملعون نوین جندل نے آپؐ اور امی جان حضرت سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا کی شان اقدس میں جو گستاخی کی ہے، اس سے نہ صرف ہندوستانی مسلمان بلکہ پورا عالم اسلام مضطرب اور دل گرفتہ ہوا ہے اور نبی کریم ؐ سے عقیدت ومحبت کے تقاضا کو سامنے رکھتے ہوئے اہل ایمان سراپا احتجاج ہیں۔ یہی وجہ ہیکہ ملک کے مختلف حصوں میں مسلمان نہ صرف احتجاجی مظاہرے کررہے ہیں بلکہ ان کوششوں چلتے ظالم کا شکار ہوکر گرفتار ہونے کے ساتھ ساتھ جام شہادت کو بھی نوش کر چکے۔ محمد فرقان نے فرمایا کہ مرکز تحفظ اسلام ہند بی جے پی کے ان ملعون کی جانب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں بدترین گستاخی کی شدید مذمت کرتے ہوئے حکومت سے ان دونوں گستاخ کی فوری طور پر گرفتاری کا مطالبہ کرتی ہے۔ اور ملک کے انہی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے امت مسلمہ کی رہبری و رہنمائی کیلئے مرکز تحفظ اسلام ہند نے عظیم الشان ہفت روزہ آن لائن ”تحفظ ناموس رسالتؐ کانفرنس“ کا انعقاد کیا۔ جس سے حضرت مولانا سید محمد حذیفہ قاسمی صاحب (ناظم تنظیم جمعیۃ علماء مہاراشٹرا)، حضرت مولانا عبد العلیم فاروقی صاحب (سرپرست مرکز تحفظ اسلام ہند و رکن شوریٰ دارالعلوم دیوبند و ندوۃ العلماء لکھنؤ)، حضرت مولانا مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب (سرپرست مرکز تحفظ اسلام ہند و صدر جمعیۃ علماء کرناٹک)، حضرت مولانا محمد مقصود عمران رشادی صاحب (امام و خطیب جامع مسجد سٹی بنگلور)، حضرت مولانا ثمیر الدین قاسمی صاحب (مانچسٹر، انگلینڈ)، حضرت مولانا مفتی اسعد قاسم سنبھلی صاحب (مہتمم جامعہ شاہ ولی اللہ، مرادآباد) نے ولولہ انگیز خطاب کیا۔ اس عظیم الشان تحفظ ناموس رسالتؐ کانفرنس کا اختتام ریاست کرناٹک کے مؤقر علماء اور تمام ملی و سماجی تنظیموں کے ذمہ داران کا احتجاجی پروگرام کے طور پر منعقد ہوا۔ جس کی صدارت امیر شریعت کرناٹک حضرت مولانا صغیر احمد خان رشادی صاحب (مہتمم دارالعلوم سبیل الرشاد بنگلور) نے فرمائی۔ جس میں حضرت مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب (صدر جمعیۃ علماء کرناٹک)، حضرت مولانا محمد مقصود عمران رشادی صاحب (امام و خطیب جامع مسجد سٹی بنگلور)،حضرت مولانا محمد زین العابدین رشادی مظاہری صاحب (صدر رابطہ مدارس اسلامیہ دارالعلوم دیوبند شاخ کرناٹک و مہتمم دارالعلوم شاہ ولی اللہ بنگلور)، جناب ڈاکٹر سعد بلگامی صاحب (امیر جماعت اسلامی کرناٹک)، حضرت مولانا تنویر ہاشمی صاحب (صدر جماعت اہل سنت کرناٹک)، حضرت مولانا عبد الرحیم رشیدی صاحب (صدر جمعیۃ علماء کرناٹک)، حضرت مولانا اعجاز احمد ندوی صاحب (امام و خطیب مرکزی مسجد اہلحدیث، بنگلور)، حضرت مولانا محمد الیاس بھٹکلی صاحب (رکن آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ)، حضرت مولانا ذوالفقار نوری صاحب (امام و خطیب جامعہ حضرت بلال، بنگلور) وغیرہ بطور خاص شریک ہوئے اور اپنے گرانقدر خیالات کا اظہار فرمایا۔ یہ کانفرنس مرکز تحفظ اسلام ہند کے آفیشیل یوٹیوب چینل اور فیس بک پیج تحفظ اسلام میڈیا سروس پر براہ راست لائیو نشر کیا جارہا تھا، جسے سننے والوں کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے تمام اکابر علماء کرام نے فرمایا کہ حضورؐ کی محبت جان ایمان ہے۔ وہ تمام جہانوں کیلئے رحمت العالمین بنا کر بھیجے گئے اور ان کی تعظیم بھی تمام جہان پر فرض ہے۔ ایک مسلمان اپنی جان سے زیادہ حضورؐ سے محبت کرتا ہے اور حضورؐ کی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ حضور اقدس ؐکی ناموس کی حفاظت کی جائے۔ تمام اکابرین نے دوٹوک فرمایا کہ مسلمان سب کچھ برداشت کرسکتا ہے لیکن نبی کریمﷺ کی شان اقدس میں ذرہ برابر بھی گستاخی کبھی برداشت نہیں کرسکتا۔ لہٰذا حکومت فوری طور پر گستاخ نوپور شرما اور نوین کمار جندل کو گرفتار کریں اور انہیں سخت سے سخت سزا دیں تاکہ آئندہ کوئی بھی شخص اس طرح کی گستاخی کرنے کی ہمت تو دور تصور بھی نہ کرسکے اور ملک میں امن و امان قائم رہے۔ قابل ذکر ہیکہ یہ عظیم الشان ہفت روزہ ”تحفظ ناموس رسالتؐ کانفرنس“ امیر شریعت کرناٹک حضرت مولانا صغیر احمد خان صاحب رشادی کے خطاب و دعا سے اختتام پذیر ہوا۔ اس موقع پر مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان نے تمام اکابر علماء، سامعین کرام اور اراکین مرکز کا شکریہ ادا کیا۔


#Press_Release #News #Letter_Head #NamooseRisalat #ProphetMuhammad #Gustakherasool #MTIH #TIMS #ArrestNupurSharma #ArrestNaveenJindal

Saturday, July 2, 2022

نبی کریمﷺ کی شان اقدس میں گستاخی ناقابل معافی جرم اور ناقابل برداشت ہے!

 نبی کریمﷺ کی شان اقدس میں گستاخی ناقابل معافی جرم اور ناقابل برداشت ہے!



مرکز تحفظ اسلام ہند کے ”تحفظ ناموس رسالتؐ کانفرنس“ سے مفتی اسعد قاسم سنبھلی کا ولولہ انگیز خطاب!


  بنگلور، 02؍ جولائی (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان آن لائن ہفت روزہ ”تحفظ ناموس رسالتؐ کانفرنس“ کی چھٹی نشست سے خطاب کرتے ہوئے جامعہ شاہ ولی اللہؒ، مرادآباد کے مہتمم حضرت مولانا مفتی اسعد قاسم سنبھلی صاحب نے فرمایا کہ پیغمبر اسلام دنیا میں اللہ کے سفیر ہوتے ہیں اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالیٰ کے آخری سفیر ہیں۔ آپؐ کا مقام و مرتبہ اللہ نے بہت بلند رکھا ہے، اور یہی وجہ ہیکہ حضورؐ کا مقام و مرتبہ جتنا عظیم ہے انکی شان میں گستاخی بھی اتنا ہی بڑا جرم ہے اور شریعت نے بھی کسی کو یہ اجازت نہیں دی کہ کوئی بھی شخص آپؐ کی شان اقدس میں ذرہ برابر بھی گستاخی کرے۔ مولانا نے فرمایا کہ حضورؐ کی محبت جان ایمان عین ایمان ہے۔ ان کی تعظیم تمام جہان پر فرض ہے اور ان کی توہین و بے ادبی کفر ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ حضورؐ کی محبت ہماری زندگی کا ماحصل اور ہمارے ایمان کا حصہ ہے، کوئی مسلمان اس وقت تک مسلمان ہو ہی نہیں سکتا، جب تک اس کے دل میں دنیا کی ساری چیز، حتیٰ کہ جان ومال والدین اور اولاد سے آقا ؐ محبوب نہ ہوں، اور حضورؐ کی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ حضور اقدس ؐکی ناموس کی حفاظت کی جائے۔ انہوں نے فرمایا کہ اسلامی ممالک میں توہین رسالتؐ کی سزا قتل ہے لیکن ایک غیر اسلامی جمہوری ملک میں اس سزا کو نافذ کرنا مشکل ہے، لیکن ہم بحیثیت ہندوستانی شہری، ہندوستانی آئین میں دئے گئے حق کا استعمال کریں۔ ایسے شخص کے خلاف اپنی نفرت کا کھلے عام اظہار کریں، ایسے شخص کے خلاف انفرادی اور اجتماعی طور پر ایف آئی آر درج کرائیں، آئین نے جو سزا مقرر کی ہے، اس کو دلوانے کی پوری جد و جہد کریں۔ مولانا سنبھلی نے فرمایا کہ آج کے دور میں دنیا کی حکومتیں احتجاج کی زبان بہت جلد سمجھتی ہیں، اگر حکومت ایکشن نہیں لے رہی ہے، تو ہم پر امن احتجاج کرکے اور ریلیاں نکال کر حکومت پر دباؤ بنائیں، تاکہ حکومت ایکشن لینے پر مجبور ہو اور قومی امن کو خطرہ میں ڈالنے والے ایسے شخص کو عبرتناک سزا دے اور آئندہ کے لیے ایسے لوگوں کی زبان پر تالا لگ جائے۔ مفتی صاحب نے فرمایا کہ آج تک مسلمان پر امن احتجاج کرتا آیا ہے لیکن افسوس کہ ملک کی موجودہ ظالم حکومت پر امن احتجاج کرنے والوں کو گرفتار کررہی ہے، انکے گھروں پر بلڈوزر چلا رہی ہے، ان پر گولیاں برسا رہی ہے لیکن جس ملعون گستاخ رسول کی وجہ سے ملک کا امن و امان خراب ہوا اور کروڑوں مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی، اسکو گرفتار کرنے کے بجائے اسے سیکورٹی دی جارہی ہے، جو قابل افسوس اور قابل مذمت ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ اسکے علاوہ دوسری طرف ہماری صفوں کے ہی بعض ناداں حکومت پر دباؤ بنانے کے بجائے مسلمانوں سے ہی امن برقرار رکھنے اور گستاخ رسول کو معاف کرنے کی اپیلیں کررہے ہیں۔ ان لوگوں کو سمجھ لینا چاہئے کہ پوری دنیا میں مسلمانوں سے زیادہ کوئی امن پسند نہیں ہے۔ اور گستاخ رسول کو کس صورت میں معاف کیا جاسکتا ہے؟ جبکہ وہ اپنے بیان پر قائم بھی ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ جب ایک شخص اپنی شان میں تھوڑی سی گستاخی برداشت نہیں کرسکتا تو ایک مسلمان نبیؐ کی شان اقدس میں گستاخی کیسے برداشت کرے گا؟ اور یہ بات یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ؐکی محبت، ان کے دشمنوں سے دشمنی کئے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی اور گستاخ رسول پر خوش اخلاق کا نہیں بلکہ غیظ و غضب کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور گستاخ رسول پہ جس کا خون نہ کھولے وہ مسلمان ہو ہی نہیں سکتا۔ مولانا نے فرمایا کہ دشمن چاہتا ہیکہ مسلمانوں کے دلوں سے نبیؐ کی عقیدت و محبت اور انکی ناموس پر مر مٹنے کا جذبہ ختم ہوجائے لیکن یہ کبھی ممکن نہیں کیونکہ ایک مسلمان کے نزدیک حضورؐ کی ذات تمام چیزوں سے افضل ہے اور ہزاروں جانیں انکی ناموس کیلئے قربان ہیں۔ مولانا نے واضح الفاظ میں فرمایا کہ امت مسلمہ یہ بات جان لیں کہ اگر ہم اپنے احتجاج کے حق سے بھی دستبردار ہوگئے تو آئندہ ہمارا دین، ہماری شریعت، ہمارے آقا ؐ کی ناموس تک محفوظ نہ رہے گی اور مستقل میں ہمارا وجود ہی ختم ہوجائے گا۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے اندر تحفظ ناموسِ رسالتﷺ کے متعلق بیداری پیدا کریں، شمع رسالت کے پروانے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کی زندگی کو اپنے لئے مشعل راہ بنائیں۔ گستاخوں کے لئے اپنے دل میں کوئی نرم گوشہ نہ رکھیں اور اپنی آخری سانس اور قیامت کی صبح تک نبی ؐ کی عظمت اور ناموس کی حفاظت کرتے رہیں۔ قابل ذکر ہیکہ یہ ہفت روزہ ”تحفظ ناموس رسالتؐ کانفرنس“ کی چھٹی نشست مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور مرکز کے رکن شوریٰ قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی کی نظامت میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا آغاز مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان کی تلاوت اور مرکز کے رکن شوریٰ حافظ محمد عمران کی نعتیہ کلام سے ہوا، جبکہ مرکز کے رکن شوریٰ مولانا محمد طاہر قاسمی نے استقبالیہ پیش فرمایا اور مرکز کے رکن شوریٰ مولانا سید ایوب مظہر قاسمی خصوصی طور پر شریک رہے۔ اس موقع پر حضرت مولانا مفتی اسعد قاسم سنبھلی صاحب نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔ اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے حضرت والا اور تمام سامعین کا شکریہ ادا کیا اور صدر اجلاس حضرت مولانا مفتی اسعد قاسم سنبھلی صاحب کی دعا سے یہ کانفرنس اختتام پذیر ہوا۔


#Press_Release #News #NamooseRisalat #ProphetMuhammad #Gustakherasool #MTIH #TIMS #ArrestNupurSharma

Friday, July 1, 2022

نبی کریم ؐاور حضرت عائشہؓ کے نکاح پر انگلیاں اٹھانے والوں کو تاریخ کا مطالعہ کرنا چائیے!

 نبی کریم ؐاور حضرت عائشہؓ کے نکاح پر انگلیاں اٹھانے والوں کو تاریخ کا مطالعہ کرنا چائیے!


مرکز تحفظ اسلام ہند کے ”تحفظ ناموس رسالتؐ کانفرنس“ سے مولانا ثمیر الدین قاسمی کا خطاب!


بنگلور، یکم؍ جولائی (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان آن لائن ہفت روزہ ”تحفظ ناموس رسالتؐ کانفرنس“ کی پانچوں نشست سے خطاب کرتے ہوئے شارح ہدایہ، ماہر فلکیات حضرت مولانا ثمیر الدین قاسمی صاحب (مانچسٹر، انگلینڈ) نے فرمایا کہ ام المؤمنین حضرت سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہما ان پاکباز اور ستودہ صفات خواتین میں سے ہیں، جنہوں نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض صحبت سے مالا مال ہوکر علم وفضل اور معرفت ودانش مندی کے وہ گہر لٹائے ہیں جس کی ہم سری دنیا کی کوئی خاتون نہیں کر سکتی۔ انہوں نے فرمایا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح آپؐ کا نبوت و رسالت کے لیے انتخاب فرمایا تھا،اسی طرح آپؐ کی زوجیت ومصاحبت کے لیے بھی اعلیٰ صفات کی حامل ازواج مطہرات کو منتخب فرما لیا تھا؛جن میں گوناگوں خصوصیات کی وجہ سے حضرت عائشہؓ کو ایک خاص مقام اور امتیاز حاصل ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ آپؐ نے اللہ کے حکم سے ام المؤمنین حضرت عائشہؓ سے نکاح فرمایا، جب کہ انکی عمر مبارک 6؍ سال تھی، مگر اسی وقت رخصتی نہیں کی گئی، جب حضرت عائشہؓ کی عمر 9؍ سال کی ہوئی تب آپکی رخصتی ہوئی۔ مولانا نے فرمایا کہ حضرت عائشہؓ کا نکاح نبی اکرم ؐکے ساتھ کم سنی میں ہوئی، اس بات کو لیکر دشمنانِ اسلام حضرت محمد رسول اللہ ؐکی شان اقدس میں گستاخی کرتے نظر آتے ہیں اور آپ ؐ کے مبارک تقدس کو پامال کرنے کی ناپاک کوشش کرتے ہیں۔ مولانا قاسمی نے فرمایا کہ ایسے لوگوں کو سمجھنا چاہیے کہ نکاح ایک معاشرتی عمل اور ضرورت ہے، اس لیے نکاح میں ہر جگہ کے معاشرے، وہاں کی تہذیب اور عرف وعادت کو بڑا دخل ہوتا ہے، اس تناظر میں ہمیں نظر آتاہے کہ حضرت عائشہؓ جس معاشرے کا حصہ ہیں، اس میں کم سنی میں نکاح قطعاً معیوب نہیں بلکہ متعارف اور رائج ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ کفار مکہ جو آپؐ کے پیغام کو جھٹلایا کرتے، اور ہر طریقے سے آپؐ کو بدنام کرنے اور آپکو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے اور وہ ہر اس موقع کی تاک میں رہتے تھے کہ جس سے وہ آپؐ کی شخصیت پر وار کر سکیں، لیکن ان کفار مکہ نے بھی کبھی یہ نہیں سوچا کہ حضرت عائشہؓ سے آپؐ کے نکاح کو لیکر اعتراض کریں یا طعنہ دیں، کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ اسوقت انکے سماج میں یہ عام سی بات تھی اور انکے نزدیک وہ کوئی ایسی عیب کی بات نہیں تھی کہ جس کو بنیاد بنا کر وہ آپؐ کو طعنہ دیتے۔ مولانا نے فرمایا کہ جو لوگ اس نکاح پر اعتراض کرتے ہیں وہ یا تو جہالت کی بنیاد پر یا سیاسی مفاد کی خاطر کرتے ہیں۔ کیونکہ کم عمری میں لڑکی کا نکاح اور بیوی وشوہر کے درمیان عمر کا فرق طرفین کی باہمی رضامندی، معاشی رواج، موسم، صحت اور بلوغ سے متعلق ہے، مشرق ومغرب کے اکثر سماج میں کم عمر لڑکیوں کا نکاح ہوتا رہا ہے، مختلف مذہبی کتابوں میں نہ صرف اس کی اجازت دی گئی ہے بلکہ اس کی ترغیب دی گئی ہے، اور خاص کر ہندو سماج میں اس کا رواج زیادہ رہا ہے، اور مذہب کی مقدس شخصیتوں نے اس عمر میں نکاح کیا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ آپؐ کا حضرت عائشہؓ سے کم سنی میں نکاح سے متعدد دینی تعلیمی اور تربیتی مصلحتیں وابستہ تھیں اور علم نبوت کا ایک اہم حصہ ان کے ذریعے امت تک پہنچ سکا۔ آپؐ نے اس ایک نکاح کے علاوہ سارے نکاح بیوہ یا طلاق یافتہ خواتین سے کیا، اور حضرت عائشہؓ سے یہ نکاح بھی دو بیوہ خاتون سے نکاح کرنے کے بعد کیا۔ اور جس مصلحت کی خاطر اللہ نے اس نکاح کا اشارہ دیا تھا وہ مصلحت تاریخ اسلام کا سنہرا باب ہے کہ آج دینی مسائل کا ایک چوتھائی حصہ حضرت عائشہؓ کی روایت ہی سے موجود ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ آپؐنے اپنی حیات طیبہ میں جتنے بھی نکاح فرمائے وہ مردوں والے شوق کی شادیاں نہیں تھیں، بلکہ وہ حکم الٰہی اور حکمت خداوندی کی بنیاد پر تھیں۔ لہٰذا اس پر اعتراضات کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ اپنی دشمنی، نفرت اور تعصب کا چشمہ نکال کر اسکے پیچھے پوشیدہ حکمتوں کو دیکھیں اور سمجھیں۔ قابل ذکر ہیکہ یہ ہفت روزہ ”تحفظ ناموس رسالتؐ کانفرنس“ کی چوتھی نشست مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور مرکز کے رکن شوریٰ قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی کی نظامت میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا آغاز مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان کی تلاوت اور مرکز کے رکن شوریٰ حافظ محمد عمران کی نعتیہ کلام سے ہوا۔ کانفرنس میں مرکز کے اراکین مولانا محمد طاہر قاسمی اور حارث پٹیل خصوصی طور پر شریک تھے۔ اس موقع پر حضرت مولانا ثمیر الدین قاسمی صاحب نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔ اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے حضرت والا اور تمام سامعین کا شکریہ ادا کیا اور صدر اجلاس حضرت مولانا ثمیر الدین قاسمی صاحب کی دعا سے یہ کانفرنس اختتام پذیر ہوا۔


#Press_Release #News #NamooseRisalat #ProphetMuhammad #Gustakherasool #MTIH #TIMS #ArrestNupurSharma #HazratAyesha