🎯 سرور کونینﷺکے دربار سے بارگاہ رب ذوالجلال تک
📌 سفرحج کی ڈائری سےایک ورق
✍️ حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب دامت برکاتہم
(سرپرست مرکز تحفظ اسلام ہند)
مدینہ منورہ ایسی پرکیف،راحت بخش اور دل آویز بستی ہے کہ یہاں جو آئے، واپس جانے کا تصور ہی اس کے لیے رنج اور صدمے کا باعث ہوتا ہے، ایسی مبارک بستی اور کہاں ہوگی جہاں ہر وقت نور ونکہت کی بارش ہوتی رہتی ہے، سکینت کی چادر تنی رہتی ہے اور بڑے سے بڑے مجرم کو بھی رحمۃ للعالمین کے بحر رحمت وکرم سے تسلی وسکون کے جامہائے شیریں ملتے رہتے ہیں، یہاں ایک احساس ہے اپنائیت کا، یہاں ایک کیف ہے دست شفقت کے سرپہ ہونے کا، یہاں ایک سہارا ہے توجہ وعنایت کا، یہاں ایک آسرا ہے محبت وشفاعت کا، مجھ سا گنہگار بھی یہاں کے ایک ایک ذرے سے طمانینت پاتا ہے، مجرم وخطا کار یہاں کی فضا میں سرکار کے قدموں کی آہٹ پاتا ہے، اور اس تمنا کے ساتھ وقت گذارتا ہے کہ”جی چاہتا ہے کہ نقشِ قدم چومتے چلیں!“ یہاں کے ذروں کی بھی قسمت دیکھیے، یہاں کے سنگریزوں کا نصیبہ ملاحظہ کیجیے کہ انہوں نے کائنات کی سب سے مقدس ہستی کے قدم چومے، برسوں گذرے اسی مبارک سرزمین پر مسجد نبوی کے آغوش میں روضہ اطہر کے قریب مشہور عاشق رسول اور صاحب نسبت شیخ پیر جماعت علی شاہ فروکش تھے، حج کے لیے حاضری ہوئی تھی، حج کے مناسک سے فارغ ہوکر اب ان کا قافلہ مدینۃ النبی میں خیمہ زن تھا، پیر صاحب عشق ووارفتگی میں ممتاز تھے، عشق نبوت سے سینہ لبریز تھا، قافلے میں موجود ایک شاعر نے پیر صاحب کی اجازت سے چند شعر سنائے، جذبات کیف ومستی عروج پر آگئے، یہاں تک کہ شاعر نے یہ شعر سنایا ؎
ایسے کہاں نصیب اللہ اکبر سنگ اسود کے
یہاں کے پتھروں نے پاؤں چومے ہیں محمّد کے
بس پیر جماعت علی شاہ بیخود ہوکر کھڑے ہوگئے، وجد کی کیفیت طاری ہوگئی، صدری میں سفر حج کے اخراجات کے ساتھ اس زمانے کے لحاظ سے کافی معقول رقم تھی، صدری اتار کر رقم سمیت شاعر کو بخش دی، اور فرمایا کہ نہ ہو اپنجاب (یعنی وہاں ہوتے تو اور نوازتے) عشق بنیا نہیں ہے کہ سود وزیاں کا حساب کرتا پھرے، یہ کام عقل کا ہے، عشق تو بے خطر آتشِ نمرود میں چھلانگ لگادیتا ہے، اور پہلے ہی قدم پر جان کی بازی لگاکر کامیابی کی سند پاتا ہے ؎
در رہ منزل لیلٰی کہ خطرہاست بجان
شرط اول قدم آنست کہ مجنوں باشی
بات سے بات یاد آتی ہے، ہمارے سلسلہ عالیہ کے عظیم بزرگ اور صاحب کیف وحال شیخ حضرت شاہ فضل رحماں گنج مراد آبادی نور اللہ مرقدہ کی خدمت میں ان کے مریدِ با صفا مولانا حاجی محمد شفیع بجنوری حاضر تھے، یہ خود بھی بڑے صاحب جذب وکیف شخص تھے، اور حرمین شریفین حاضری کے مشتاق ودلدادہ، اس زمانے میں جب کہ حرمین شریفین کا سفر انتہائی دشوار گذار تھا، راہ کی صعوبتیں ایک سے بڑھ کر ایک، رہزنوں کا خطرہ، سمندر کی موجوں کی طغیانی، موسم کی شدت، بھوک پیاس کی مشقت، لوگ کشتیوں پر جھولتے ہوئے اور اونٹوں پر جھومتے ہوئے حرمین حاضر ہوتے تھے، کتنے راہ ہی میں جان کی بازی ہار دیتے تھے کہ ؎
جان ہی دیدی جگر نے آج پائے یار پر
عمر بھر کی بے قراری کو قرار آہی گیا
جو مشقتوں کا صحرا اور صعوبتوں کا دریا عبور کرتے ہوئے آگے بڑھتے تھے ان کو بھی قدم بہ قدم یہ خیال ہوتا تھا کہ ؎
شب تاریک وبیم موج وگردابی چنین حائل
کجا دانند حالِ ما سبکبارانِ ساحلہا
اس زمانے میں حرمین شریفین کا سفر واقعی عشق ومحبت کی کسوٹی تھا، کوئی ایک بار بھی حاضر ہوجاتا تھا تو غنیمت خیال کرتا تھا، ایسے دور میں مولانا شفیع بجنوری متعدد بار حاضر ہوئے، اور ان کے عشق ومحبت کا یہ صلہ ان کو ملا کہ عین موسم حج میں مکہ مکرمہ کی مبارک سر زمین نے اس مرد باخدا کو اپنی آغوش میں لے لیا، اور وہ ہمیشہ کے لیے جنت المعلی کے مکین بن گئے، ۸ ذی الحجہ کو حالت احرام میں ان کا وصال ہوا، گویا کہ قیامت تک ان کے لیے حج کا ثواب لکھا جاتا رہے گا، یہی خوش نصیب انسان اپنے مرشد کامل شاہ فضل رحماں کی بارگاہ میں ہے، سفر حج پر روانگی قریب ہے، بارگاہِ مرشد میں سفر کا ذکر آیا، مرشد نے پوچھا: سفر حج کی کچھ تیاری بھی کی؟ کچھ انتظام بھی کیا؟ مرید پر شوق اور عشق کی کیفیت طاری تھی، بے اختیار زبان سے یہ شعر نکلا ؎
در رہ منزل لیلٰی کہ خطر ہاست بجان
شرط اول قدم آنست کہ مجنوں باشی
شعر سننا تھا کہ مرشد بھی بیخود ہوگئے، ایک زور کی چیخ ماری، لیکن فورا ہی سنبھل گئے، ارشاد ہوا: سب واہیات ہے، شریعت کی پابندی ہر حال میں ضروری ہے، اللہ اللہ کیسے تھے ہمارے اسلاف! شریعت وطریقت دونوں کے جامع، در کف جام شریعت سندان عشق کے مصداق، ہوشیاروں میں سب سے زیادہ ہوشیار، اور مستوں میں سب سے زیادہ مست، مست بھی کونسے؟ مست مئے عہد الست، بلیٰ بلیٰ کا نعرہ مستانہ بلند کرنے والے، معرفت ربانی کے دریا میں غوطہ زنی کرنے والے، ایک مالک کے نام پر جینے اوراسی کے نام پر مرنے والے، نظام الملت والدین حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء بوقت تہجد اپنی مناجات میں یہ دو شعر پڑھا کرتے تھے ؎
خواہم کہ ہمیشہ در ہوائے تو زیم
خاکے شوم و زیر پائے توزیم
مقصود من بندہ ز کونین توئی
از بہر تو بمیرم واز برائے توزیم
اور یہ صرف ان کا حال نہیں تھا، ہمارے بزرگوں، بڑوں اور اسلاف نے اسی طریقے کو چنا تھا، وہ خشک ملّا نہیں تھے، معرفت ربانی کے ذوق آشنا، اور محبت الہی کے محرم اسرار تھے، شریعت ان کے سر کا تاج تھی اور طریقت ان کے سینے کا راز، اور ان دونوں کے درمیان توازن قائم رکھنا ان کا امتیاز! وہ پگڈنڈیوں کے راہی نہیں تھے، ان کے قدم ہمیشہ شاہراہِ شریعت وطریقت پر مستقیم رہے، سچے مسلمان، پکے صوفی!
مدینہ منورہ کی نکھری اور اجلی صبح تھی، حالت احرام میں ایک سیہ کار تنہا مسجد نبوی کی طرف رواں دواں تھا، ریحان نے ساتھ چلنا چاہا، میں نے منع کردیا، مسجد نبوی میں داخل ہوا، رگ وپے میں ٹھنڈک پھیل گئی، ساتھ ہی اضطراب بھی بڑھا، مسجد شریف تقریبا خالی تھی، زیادہ تر قافلے مکہ مکرمہ کے لیے روانہ ہوچکے ہیں، مقامی لوگ اور بچے کچھے عازمین حج قیام گاہوں پر ہیں، ترکی حرم کا حصہ صفائی کے لیے بند تھا، اس کے قریب ہی ایک ستون کے پیچھے نماز میں مشغول ہوگیا، تحیۃ المسجد پڑھی، پھرتوبہ کی نماز، پھر شکر کی نماز، پھر حاجت کی نماز، توبہ اس بات کی کہ وقت غفلت میں گذر چکا، شکر اس کا کہ رب کریم! تونے اس مبارک مقام تک پہونچایا، التجا اس تمنا کی کہ یہاں کی حاضری پھر نصیب ہو، اور ابھی کی حاضری قبول ہوجائے، نماز بھی آنسوؤں کے ساتھ پڑھی گئی، اور پھر جب دعا کے لیے ہاتھ اٹھے تو بند ٹوٹ گیا، اللہ! اس کریم بارگاہ کو چھوڑ کر جانے کا وقت آگیا، اب یہ سایہٴ رحمت کہاں ملے گا؟ یہ سنہری جالی کا منظر، یہ گنبد خضراء کا جلوہ، یہ روضہ شریف کا نظارہ کب میسر آئے گا؟ جہان میں کہیں اور مجھ سے گنہگاروں کے لیے امان نہیں ہے، اگر کہیں امان ہے تو یہیں ہے، جس کی کملی میں مجرم منہ چھپالیتے ہیں، جس کی رحمت ورافت مومنوں کو سکون بخشتی ہے، جس کی رحمۃ للعالمینی کی چادر عادی خطا کاروں کو بھی سایہ فراہم کرتی ہے، جس کی ذات سخت دھوپ میں برگد کی ٹھنڈی چھاؤں ہے، اور صحراء کی حدت وحرارت میں کوثر وتسنیم کا سرچشمہ ہے، ایسی پاکیزہ، شفیق اور غم خوار ہستی کی بارگاہ سے رخصت کی گھڑی ہے، بار الہا! اس کا در چھوڑ کر جانا ہے جس کے ذریعے تجھ کو پہچانا ہے، پاک پروردگار! ایسے مقام سے واپسی ہے جو رشک ملائک ہےــــــــــــ دیر تک کج مج زبان میں عرض کرتا رہا، کچھ زبان نے کہا، زیادہ تر آنکھوں کے اشک نے!
آنسو مری آنکھوں میں ہیں نالے مرے لب پر
سودا مرے سر میں ہے تمنا مرے دل میں
نماز ودعا سے فارغ ہوکر باب السلام کی طرف بڑھا، الوداعی سلام پیش کرنا تھا، قدم بوجھل ہوئے جارہے تھے، روانگی کا وقت بھی قریب ہورہا تھا، جیسے تیسے بارگاہ میں حاضر ہوا، اللہ کے رسول! سیہ کار امتی کا سلام قبول ہو، وقت رخصت ہے، جا تو رہا ہوں مگر کس دل سے؟ یہ بس دل ہی جانتا ہے، چند دن بس چند لمحات کی طرح گذر گئے، یہاں آکر بھی غفلت اور سستی سے پیچھا نہ چھوٹا، شرمندہ دل اور مضطرب روح کے ساتھ آپ کا در چھوڑ کر جارہا ہوں، آپ کے در سے اللہ پاک کے گھر کی طرف سفر کرنا ہے، اللہ پاک سے آسانی، قبولیت اور پھر سے مقبول حاضری کی دعا کردیجیے، دل میں جذبات واحساسات کا سیلاب امڈا جارہا تھا، آنکھ بہتی چلی جارہی تھی، اور قدم آگے بڑھنے سے انکاری تھے، کوئی ہجوم بھی نہیں تھا، بس تھوڑے سے لوگ تھے، جو صلاۃ وسلام کا نذرانہ بارگاہِ نبوت میں پیش کررہے تھے، مگر شرطہ کو بڑی جلدی تھی، ”یا حاج تحرّک“ کی صدا بار بار کانوں سے ٹکرارہی تھی، اس لیے بادلِ نخواستہ قدم آگے کی طرف بڑھے، حضرت ابوبکر وعمر کو سلام کرتا ہوا نم آنکھوں کے ساتھ آگے بڑھا، دروازے سے نکل کر پھر کھڑا ہوگیا، گنبد خضراء کا منظر سامنے تھا، پولس والے یہاں بھی کھڑے نہیں رہنے دیتے ہیں، لیکن بھیڑ نہیں تھی تو کسی نے توجہ نہیں دی، کچھ دیر کھڑا رہا، گنبد کو دیکھتا رہا، حسرت کے آنسو بہاتا رہا، قریب میں ایک اور نوجوان بھی تھا، اس کے ساتھی تو سلام پیش کرکے آگے بڑھ گئے مگر وہ صدمہ سے بے حال تھا، بلک بلک کر رو رہا تھا، احرام کی حالت تھی، ہاتھ آنکھوں پر، اور بے قراری دیدنی! شمع نبوت پر جان لٹانے اور اپنا آپ نچھاور کرنے والے پروانے ایک دو نہیں، لاکھوں کروڑوں ہیں، زمانے کی گردشیں عشق و وارفتگی کے جذبات پر گرد نہ ڈال سکیں، مادیت اپنے تمام تر ہتھیار استعمال کرکے بھی جنون محبت کو شکست نہ دے سکی، آج بھی عشق زندہ ہے! آج بھی محبت پائندہ ہے! اور محبت بھی کیسی اور کتنی؟ جو جگر کو پگھلادے، جو دل کو گرمادے، جو حساب کم وبیش اور فکر سود وزیاں سے بیگانہ کردے، اور ذات نبوی کا دیوانہ بنادے، ایسا دیوانہ جس کی دیوانگی پر ہزار فرزانگی قربان!
دل سےبےاختیاریہ دعانکلی کہ
دمکتے رہیں ترےگنبد کےجلوے
چمکتی رہےترےروضےکی جالی
گنبد خضراء پر نگاہ جمائے کچھ دیر کھڑا رہا، دعا بھی مانگتا رہا، اور صلاۃ وسلام بھی پڑھتا رہا، جہاں مدینہ پاک چھوٹنے کا غم تھا، وہیں احساس ندامت سے بھی دل لبریز تھا، وقت کی قدر نہ ہوسکی، یہاں کی خیرات وبرکات سے دامن نہ بھرسکا، درِ فیض تو کھلا تھا مجھ سے ہی کمی کوتاہی ہوگئی، جہاں سر کے بل حاضر ہونا چاہیے تھا وہاں قدموں کے بل حاضر ہوا، اور اپنی نادانی اور غفلت کی وجہ سے خسارے میں رہا، دل میں ندامت، آنکھ میں آنسو اور زبان پریہ دعا لے کر قیام گاہ واپس لوٹا”اللھم لا تجعل عہدنا ھذا آخر العہد“، اللہ! اس حاضری کو آخری حاضری نہ بنا، اپنے محبوب کے شہر میں پھر بلالے، مقبول حاضری سے مشرف فرمادے، قیام گاہ پر سامان تیار تھا، اہلیہ نے سامان ترتیب سے رکھ دیا تھا، اور ریحان سلّمہ نے اسے نیچے اتار دیا تھا، روانگی ساڑھے دس بجے تھی، مگر معلم کی جانب سے بس آنے میں دیر ہوئی، کوئی ساڑھے بارہ بجے روانگی ہوئی، بس میں بیٹھے ہوئے اہلیہ مسجد نبوی کے میناروں پر نظر جمائے ہوئے تھیں، تھوڑی دیر کے بعد نجانے کیا خیال آیا کہ سسکیوں کے ساتھ روپڑیں، بس روانہ ہوئی تو ان کا رونا بڑھ گیا، ہمارے ٹور کے ذمہ دار حافظ سلمان صاحب کے اصرار پر میں نے چند منٹ تقریر کی، پھر دعا کرائی، دعا میں رقت طاری ہوگئی، اور ساتھیوں میں سے بہت سے روپڑے، اور دعاؤں کے ساتھ حج کی آسانی کی دعا بھی کی، اللہ پاک قبول فرمائے، ذو الحلیفہ پہونچ کر ظہر کی نماز با جماعت ادا کی، فقیر کی امامت میں سب نے نماز پڑھی، پھر دو رکعت نفل پڑھ کر تلبیہ پڑھا، لبیک اللہم لبیک، لبیک لا شریک لک لبیک، ان الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک لک، یہ بھی کیسا پیارا ترانہ ہے، کیسی البیلی دعا ہے، کتنا خوب صورت التجا کا انداز ہے!گویا کہ پروردگار نے پکارا کہ میرے بندے! مادیت کے غلبے سے نکل کر روحانیت کی طرف آ، ضلالت وشقاوت کے اندھیرے سے نکل کر ہدایت وسعادت کے اجالے کی طرف سفر کر، نفس وشیطان کو چھوڑ، رب رحمان کی طرف آ، جہالت کی گھاٹی سے ابھر، علم ومعرفت کی وادی میں بسیرا کر، اور اس پکار پر بندہ دیوانہ وار دوڑتا ہوا پاک پروردگار کی بارگاہ میں حاضر ہوا، اس ندا کے ساتھ کہ” لبیک اللہم لبیک، لبیک لا شریک لک لبیک، ان الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک لک“ حاضر ہوں، میرے اللہ! میں حاضر ہوں، تو نے بلایا، میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، تونے طلب کیا، میں تیری بارگاہ میں حاضر ہوں، حمد وثنا تیرے لیے، نعمت اور بادشاہت تیری، ملک اور اقتدار تیرا، (میں خالی ہاتھ ہوں اور سارا اختیار واقتدار تیرا ہے) اللہ پاک بندے کو بلارہا ہے کہ آ، تاکہ میں تیرا دامن نعمت سے بھردوں، تیری جھولی مراد سے لبریز کردوں، تیرے گناہ معاف کردوں، تیر ی معصیت پر قلم عفو پھیردوں، کتاب زندگی کی ساری خطائیں دم بھر میں مٹادوں، شیطان کے بنائے قلعے کو مسمار کردوں، دل میں محبت ومعرفت کے چراغ روشن کردوں، نگاہ کو عفت، زبان کو سچائی، کانوں کو حیا اور جسم کو طاعت کا مزہ دوں، پھول کی سی تازگی، پھل کی سی مٹھاس، ٹھنڈے پانی کی سی فرحت اور شبنم کی سی خنکی بخش دوں، یہ اعلان سن کر بندہ پکار اٹھتا ہے: لبیک اللہم لبیک، لبیک لا شریک لک لبیک، ان الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک لک، ندا دی جارہی ہے کہ آ، میں تجھے اخلاق کی وسعت، فکر کی بلندی اور آفاقیت ، کردار کی رفعت اور اعمال پر استقامت سے مالا مال کردوں، تیرے ذہن وفکر کے دریچے وا کردوں، تجھ پر نعمت وبرکت کے دہانے کھول دوں، تجھے شہوتوں اور لذتوں سے دور کردوں، تجھے اپنی ذات سے قریب کرلوں، یہ روح پرور ندا سن کر بندہ لپک کر آتا ہے اور پکا ر پکار کر اپنی حاضری درج کراتا ہے، لبیک اللہم لبیک، لبیک لا شریک لک لبیک، ان الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک لک۔
احرام کی حالت میں سب کی زبان پر تلبیہ جاری ہے، آس پاس اور بہت سے قافلے موجود ہیں، کچھ نماز پڑھ رہے ہیں، کچھ لبیک کی صدا بلند کررہے ہیں، ٹور کے اکثر لوگ حج تمتع کررہے ہیں، یعنی مکہ مکرمہ پہونچ کر عمرہ کریں گے، احرام اتاردیں گے، پھر ۸ ذی الحجہ کو حج کا احرام باندھیں گے، اور حج کریں گے، ہم لوگ چونکہ براہ راست ہندوستان سے مدینہ منورہ حاضر ہوئے، اس لیے حج قران کی گنجائش تھی، ہم چاروں (راقم اور اس کی اہلیہ، ریحان اور ان کی اہلیہ) نے حج قران کی نیت کی، حضور اکرم ﷺ نے اپنے پہلے اور آخری حج کے موقع پر ذو الحلیفہ سے ہی احرام باندھا تھا اور حج قران کی نیت کی تھی، پھر اس سال بھی حج کا دن اور جمعہ کا دن ایک ساتھ آئے تھے، (جسے عام لوگ حج اکبری کہتے ہیں) اس سال بھی اللہ پاک نے دونوں مبارک دنوں کو اکٹھا کردیا ہے، ان مشابہتوں کے اکٹھا ہونے سے دل مسرور ہے، غلاموں کو آقا کی راہ پر چلنا نصیب ہورہا ہے، ۲۰۱۹ء میں بھی جب حج کے لیے حاضری ہوئی تھی تو حج قران ہی کیا تھا، اس سال بھی اللہ پاک پھر موقع دے رہا ہے، اس پر جتنا شکر ادا کروں کم ہے، اللہم لک الحمد ولک الشکر کلہ! تلبیہ کی صداؤں کے ساتھ قافلہ روانہ ہوا، سب کے دل میں شوق بھی ہے کہ بارگاہ رب کریم میں حاضر ہورہے ہیں، منی، مزدلفہ، عرفات میں ٹھہریں گے، اللہ پاک کا حکم بجالائیں گے، ساتھ ہی خوف بھی ہے کہ حج کے ارکان صحیح سے ادا ہوپائیں گے یا نہیں؟ کہیں کوئی غلطی نہ ہوجائے، کہیں کوئی قصور نہ ہوجائے! ہجوم اور ازدحام کی وجہ سے کسی رکن کی ادائیگی میں خلل نہ پڑجائے، شوق اور خوف کی ملی جلی کیفیت میں قدم آگے بڑھ رہے ہیں، دیوار کے پیچھے کیا ہے؟ خدا جانتا ہے، زمانوں اور وقت کے پار کیا ہے؟ عالم الغیب کے علم میں ہے، جو ہونا ہے ہو کر رہے گا، اور جو ہوگا وہ اللہ پاک کے حکم اور اشارے ہی سے ہوگا، اس لیے سب اسی کے آگے ہاتھ پھیلارہے ہیں، سب اسی سے خیر اور آسانی کی التجا کررہے ہیں، سب کے دل اسی کے آگے جھکے ہوئے ہیں، سب کی نگاہیں اسی کی طرف لگی ہوئی ہیں، اے کریم! اے رحیم! اے حلیم! اے عظیم! تیری رحمت عام ہے، تیری بخشش لا کلام ہے، ہر مشکل کو آسان کرنے والا، ہر مصیبت کو دور کرنے والا، عافیت اور نعمت کے خزانوں سے مالا مال کرنے والا، توفیق وسعادت کی مایہ عطا کرنے والا تو ہے، تجھ سے رحمت کا، کرم کا، عافیت کا، نعمت کا، توفیق کا، سعادت کا سوال ہے، التجا اور کسی کی نہیں تیری بارگاہ میں ہے کہ تو ہی داتا ہے، تو ہی پالنہار ہے، تو ہی بخشندہ ہے، توہی پروردگار ہے!
بس آرام دہ اور تیز رفتار ہے، البتہ جگہ جگہ چیک پوسٹ ہے، بار بار رکنا پڑرہا ہے، کہیں کہیں رفتار کم کرنی پڑ رہی ہے، وادی ستارہ کی مسجد جابر ابن سالم میں عصر کی نماز با جماعت پڑھی، مسجد میں داخل ہوا تو یاد آیا کہ اس سے پہلے بھی اس مسجد میں نماز پڑھ چکا ہوں، اس وقت مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ جارہا تھا، غالبا فجر کی نماز یہاں پڑھی تھی، کہیں ڈائری میں لکھا ہوا ہوگا، وہیں ٹھہر کر شام کی چائے پی، پھر سفر شروع ہوا، میں تلاوت میں مشغول تھا، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے تذکرے میں کہیں پڑھا تھا کہ جب انہوں نےامام مالک علیہ الرحمۃ والرضوان سے علم حاصل کرنے کی غرض سے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کا رخت سفر باندھا تو مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ اونٹ پر جاتے ہوئے روزانہ ایک کلام پاک ختم فرماتے تھے، اس وقت امام شافعی بالکل نو عمر تھے، مگر عبادت اور بندگی کا کیسا مزاج تھا، وقت کی قدر دانی کس درجے کی تھی! اللہ پاک کے کلام سے کیسی مناسبت اور کس درجے محبت تھی! ائمہ اربعہ کے ذکر کے وقت عام طور پر صرف ان کے علمی رسوخ، فقاہت، ذہانت، نکتہ رسی اور دقیقہ سنجی کا بیان ہوتا ہے، حالانکہ ان کا اصل کمال علم وعمل کی جامعیت، تقوی وطہارت، کثرت عبادت، زہد وقناعت اور توکل وانابت جیسی صفات مومنانہ تھیں، عزت وعظمت کا تاج ان کے سر کی زینت صرف ان کے علم کی وجہ سے نہیں بنا، بلکہ عمل واخلاص کا جوہر اس کا اصل سبب تھا، علم والے تو دنیا میں اور بھی گذرے ہیں، مگر چمکے وہی جنہوں نے علم کو عمل سے جوڑا، اور خشیت الہی سے سینے کو منورکیا، کیسے موقع سے مولانا روم یاد آگئے ؎
علم را برتن زنی مارے بود
علم را بردل زنی یارے بود
مرشد کی مجلس تھی، علم وعمل پر گفتگو جاری تھی، ارشاد ہوا: کئی بڑے علماء کو میں نے دیکھا، علم پختہ تھا، ذہانت کمال درجے کی تھی، تقریر کرتے تھے تو موتی رولتے تھے، لکھتے تھے تو الفاظ کا تاج محل کھڑا کردیتے تھے، متحرک اور فعال بھی تھے، عوام سے رابطہ بھی خوب تھا، مگر با فیض نہ ہوئے، شمع جلی، جل کر بجھ گئی، نہ مقبول ہوسکے، نہ فیض کا دائرہ بڑھ اور پھیل سکا، ان میں کچھ ایسے بھی تھے جو میرے والد ماجد کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے، فقیر نے عرض کیا: دادا جان (عام طور پر یہ ناکارہ حضرت مولانا منت اللہ رحمانی نور اللہ مرقدہ کے لیے دادا جان یا بڑے حضرت کا لقب ہی استعمال کرتا تھا) کی صحبت میں رہنے کے باوجود ایسا کیوں ہوا؟ ان پر رنگ کیوں نہ چڑھا؟ مرشد کا مختصر جواب تھا، مولانا !آپ نے مولانا !روم کا شعر نہیں پڑھا؟
علم را برتن زنی مارے بود
علم را بر دل زنی یارے بود
آہ! مرشد بھی کیا خوب انسان تھے! مختصر جملوں میں الجھی ہوئی گتھیاں سلجھانے والے، اشارے اشارے میں مشکلات کو حل کردینے والے، واقعی ان کا وجود اس مصرعے کا مصداق تھا ؎
اے لقائے تو جواب ہر سوال
مشکل از تو حل شود بے قیل و قال
)اے وہ ذات کہ تیری ملاقات ہر سوال کا جواب ہے، بےشک تجھ سے بے قیل وقال ہر مشکل حل ہوجاتی ہے)
بات دور نکل گئی، ذکر تھا امام شافعی کا، مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ جاتے ہوئے روزانہ ایک کلام پاک ختم فرماتے، یہ بات ذہن کے کسی گوشے میں چپکی ہوئی تھی، مدینہ طیبہ سے روانہ ہوتے ہوئے مسجد نبوی ہی میں نیت کی کہ یہ فقیر بھی مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کے سفر میں پندرہ پارے تلاوت کرے گا، بحمد اللہ اور اوراد واذکار اور تلبیہ کی کثرت کے ساتھ تلاوت کی یہ مقدار اس وقت پوری ہوگئی جب بس مکہ مکرمہ کی قیام گاہ کے سامنے رک رہی تھی۔ فللہ الحمد والمنۃ۔
رات ساڑھے نو بجے کا وقت تھا جب مکہ مکرمہ کی آبادی نظر آنا شروع ہوئی، دل کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں، شہر جلال آرہا ہے، پاک پروردگار کی تجلیات کا مرکز قریب ہورہا ہے، حرم محترم سے نزدیکی بڑھ رہی ہے، ”البلد الامین“ کی مبارک ہوائیں اور پرنور فضائیں بس نصیب ہونےہی والی ہیں، میرا عجیب حال ہے، مدینہ منورہ جتنا قریب آتا جاتا ہے شوق غالب ہوتا ہے، اور مکہ مکرمہ سے جتنا قرب بڑھتا ہے خوف کا غلبہ ہوتا ہے، دل ڈر جاتا ہے، کہیں کوئی غلطی نہ ہوجائے، کہیں بارگاہ رب ذو الجلال کے آداب کی خلاف ورزی نہ ہوجائے، یہ مقام کوئی عام مقام نہیں ہے، یہ مکہ مکرمہ ہے، روئے زمین کا افضل ترین مقام! یہ مہبط وحی اور مولد نبی ہے، برکتوں اور رحمتوں نے اس کا احاطہ کر رکھا ہے، تجلیات جلال رحمانی نے اسے مرکز انوار بنا رکھا ہے، یہاں کی عبادت ہر جگہ کی عبادت سے بڑھ کر! یہاں کی خطا بھی ہر جگہ کی خطا سے بڑھ کر! اس کے بارے میں ارشاد ہے: ”وَ مَنْ یُّرِدْ فِیْهِ بِاِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ“، (ترجمہ: اور جو اس میں کسی زیادتی کا ناحق ارادہ کرے ہم اُسے دردناک عذاب چکھائیں گے۔) آیت قرآنی ڈرا رہی ہے: خبر دار رہو! یہ مقام ادب ہے، ڈرتے رہو! یہ بارگاہِ رب کبریاء ہے، ہر غلطی سے بچو! ہر معصیت کے ارادے سے باز رہو! پاک مقام پر ہو، پاک اور پاکیزہ بن کر رہو! پاک پروردگار کے تقدس کا خیال رکھو، اس کی ذات کا استحضار پیدا کرو کہ وہ تم کو دیکھ رہا ہے، تمہاری باتوں کو سن رہا ہے، تمہارے دل کے ارادوں سے واقف ہے، ”الم یعلم بأن اللہ یری“ ــــــــــــ الم یعلموا أن اللہ یعلم سرھم ونجواھم وأن اللہ علام الغیوب۔
لیجیے، خیالات اور تصورات کی دنیا سجی ہوئی تھی کہ مکہ مکرمہ کی آبادی شروع ہوگئی، ”اللھم إن ھذا الحرم حرمک والبیت بیتک الخ“ والی دعا زبان پر جاری ہوگئی، تلبیہ کی آواز بھی بلند ہونے لگی، آیا پروردگار آیا، تیرے دربار میں حاضر ہوگیا، ناپاک ہوں، مگر پاک جگہ آگیا، سیہ کار ہوں، مگر تیرے بلاوے پر حاضر ہوں، تونے بلایا، تونے اپنا مہمان بنایا، میں اس قابل تو نہ تھا، مگر تیری عطا کا کوئی کنارہ نہیں، تیری نوازش کی کوئی انتہا نہیں! حاضر ہوں، اے پروردگار حاضر ہوں، رات کے ٹھیک دس بجے تھے جب بس نے ”المختارون بلازہ“ نامی ہوٹل کے سامنے پہونچادیا، معلوم ہوا کہ مکرمہ مکرمہ کی قیام گاہ یہی ہے، بس سے قدم نیچے رکھتے ہوئے بے اختیار یہ شعر یاد آیا ؎
یہاں نہ گھاس اگتی ھے یہاں نہ پھول کھلتے ہیں
پھر بھی اس سرزمیں سے آسماں جھک کےملتے ہیں
*٭٭٭٭٭*
🗓 بروز پیر، 4جولائی 2022ء/۳ ذی الحجہ ۱۴۴۳ھ