اہلِ فلسطین کی جرأت کو سلام، عارضی جنگ بندی فلسطین کی فتح اور اسرائیل کی شکست ہے!
مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ سے مفتی افتخار احمد قاسمی کا ولولہ انگیز خطاب!
بنگلور، 27؍ نومبر(پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کی تحریک تحفظ القدس کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان آن لائن ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی چھبیسویں نشست سے خطاب کرتے ہوئے مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست اور جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر عالی قدر حضرت مولانا مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب مدظلہ نے فرمایا بیت المقدس مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے، یہ روئے زمین پر مسجد حرام خانۂ کعبہ کے بعد یہ دوسری قدیم ترین مسجد ہے، اس سرزمین پر بکثرت انبیاء کرام علیہم السلام کی بعثت مبارکہ ہوئی جس کی وجہ یہ خطہ انوار نبوت سے درخشاں رہا اور یہ پیغام توحید کی درخشانیاں سارے عالم کو روشن و منور کرگئیں، بیت المقدس سے مسلمانوں کا مذہبی اور جذباتی تعلق ہے، اس کی حفاظت مسلمانوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ لہٰذا اسکی حفاظت کیلئے امت کو بیدار کرنا، اسکی اہمیت و فضیلت سے امت کو واقف کروانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ فلسطین کے مظلوم مسلمان گزشتہ ایک صدی سے اسرائیل کے جبر وتشدد کا شکار ہیں، ارضِ فلسطین پر اسرائیل کا تسلط غیر قانونی بھی ہے اور غیر اخلاقی بھی ہے۔ اسلام دشمن طاقتوں نے منصوبہ بند سازش سے فلسطین میں یہودیوں کو آباد کیا ہے۔ ارضو فلسطین پر ناجائز قبضہ کے ساتھ ہی غاصب یہودی فلسطینیوں کے قتل وخون سے اپنے ہاتھ رنگین کررہے ہیں، ان کے اسباب معیشت کو تباہ و برباد کرنا اور مسجد اقصیٰ کی تقدس کو پامال کرنا ان کا مشغلہ بن گیا ہے۔ فلسطین کے علاقوں پر مسلسل قبضہ جماتے ہوئے یہودیوں کو بسایا جارہا ہے، نہتے فلسطینی مظلوموں پر فضائی حملے اسرائیل کی جارحیت کا زندہ ثبوت ہیں۔ فلسطینی ظلم وجور کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو فلسطینیوں کے لئے بڑا صبرآزما ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ اسرائیل مسلسل فلسطین میں ظلم و بربریت کا ننگا ناچ ناچ رہا ہے مگر تمام نام نہاد انسانیت دوست ممالک، حقوق انسانی کی محافظ تنظیمیں اور مظلوموں کے علم بردار خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں بلکہ اقوام متحدہ اور اس کے کرتا دھرتا امریکہ اور یورپ کے ممالک یہودیوں کے سرپرست اور پشتیبان بنے ہوئے ہیں۔ افسوس کا مقام ہیکہ بعض نام نہاد مسلم ممالک اپنی ذاتی حقیر مفادات اور اپنی چند روزہ شان و شوکت اور عارضی کرسی کی بقا کی خاطر یا تو ان دشمنان اسلام کی حمایت کررہی ہے یا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ اس کے باوجود فلسطینی مسلمانوں نے ہمت نہیں ہاری، مادی وسائل کی قلت اور تناہ ہونے کے باوجود وہ آج تک وہ نہتے دنیا کی طاقتور حکومت کہلائی جانی والی اسرائیل سے نبرد آزما ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ یہی وجہ ہیکہ گزشتہ ڈیڑھ مہینے سے اسرائیل کی دہشت گردی جاری تھی، لیکن اب اسرائیل عارضی جنگ بندی پر رضامند ہونے پر اس لئے مجبور ہوگیا کیونکہ وہ ان سے جیت نہیں رہا تھا، اس کے دل میں اللہ تعالیٰ نے ہارنے اور مرنے کا خوف پیدا کردیا ہے۔ یہ یقیناً اہل فلسطین کی ہمت و جرأت اور استقامت نیز اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان ہونے کا جذبۂ ایمانی اور پوری امت کے دعاؤں اور قنوت کا صدقہ ہیکہ آج اللہ تعالیٰ نے یہ عارضی جنگ بندی کے ذریعے اہل فلسطین کی فتح اور اسرائیل کی شکست کا منظر دیکھایا۔ مولانا نے فرمایا کہ ہر روز فلسطین پر کوئی نہ کوئی بمباری ہوتی ہے جس کے نتیجے میں ہمارے بزرگ، مائیں، بیٹیاں اور نوجوان شہید ہوتے ہیں، مساجد شہید ہوتی ہیں لیکن ہمارے افسوس کہ اسلامی ممالک کے حاکم ٹس سے مس نہیں ہوتے، بیدار نہیں ہوتے۔ مولانا نے فرمایا کہ اہلِ فلسطین پوری امت مسلمہ کی جانب سے فرض کفایہ ادا کرتے ہوئے مسجد اقصیٰ کے تحفظ کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں، ان شاء اللہ ثم ان شاء اللہ وہ سرخرو ہونگے اور فلسطین اور مسجد اقصیٰ آج نہیں تو کل آزاد ہوکر رہے گا۔ مولانا نے فرمایا ان شہداء کی قربانیوں اور فلسطین کے موجودہ حالات کو دیکھ کر مایوس ہونی کی قطعاً ضرورت نہیں کیونکہ مشکل حالات اور آزمائش زندہ قوموں پر ہی آتی ہیں۔ زندہ قومیں مشکل سے مشکل حالات کا حکمت اور جرأت کے ساتھ مقابلے کرتی ہیں اور نئے عزم و حوصلہ کے ساتھ مستقبل کا لائحہ عمل تیار کرتی ہیں، جس پر اہلِ فلسطین اس عمل پیرا ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ آج اسرائیل کی درندگی، وحشیانہ فضائی حملوں، ہزاروں کی تعداد میں فلسطینی بچوں کی شہادتوں اور غزہ کو ملبہ کے ڈھیر میں تبدیل کئے جانے کے باوجود فلسطینیوں کے صبر و شکر نے دنیا کو حیران کردیا ہے۔ دنیا یہ سوچنے پر مجبور ہیکہ آخر اس قدر تباہی و بربادی، اپنے عزیز و رشتہ داروں کی شہادت، پانی، بجلی، گھر اور خوراک سے محرومی کے باوجود مسجد اقصیٰ کی حفاظت کرتے ہوئے فلسطینی اپنے رب کا شکر ادا کررہے ہیں۔ صابر و شاکر بن کر ابھر رہے ہیں۔ ان کے لبوں پر اپنے رب سے کوئی شکایت نہیں۔ ان کے اس عزم و استقلال اور جذبۂ ایمانی میں کوئی کمی نہیں اور انکی کوئی مثال نہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ ایسے حالات میں ہماری ذمہ داری ہیکہ ہم ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنے ایمان کو مضبوط کریں، اسرائیلی جارحیت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں، اہل فلسطین و غزہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کریں، انکی مدد و معاونت کریں، اسرائیلی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں۔ مسجد اقصیٰ اور اہلِ فلسطین کی مجاہدانہ تاریخ سے امت مسلمہ کو واقف کروائیں تاکہ امت مسجد اقصیٰ کی حفاظت کیلئے ہمہ وقت تیار رہیں۔ قابل ذکر ہیکہ یہ عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی چھبیسویں نشست مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور مرکز رکن شوریٰ مفتی سید حسن ذیشان قادری قاسمی کی نظامت میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا آغاز مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان کی تلاوت اور رکن شوریٰ قاری محمد عمران کے نعتیہ کلام سے ہوا۔ جبکہ اسٹیج پر مرکز کے رکن شوریٰ قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی بطور خاص موجود تھے۔ اس موقع پر حضرت مولانا مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب مدظلہ نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا اور مرکز کے تحریک تحفظ القدس اور تحفظ القدس کانفرنس کو وقت کی اہم ترین ضرورت بتایا۔ اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے صدر اجلاس اور سامعین کا شکریہ ادا کیا۔ اور صدر اجلاس حضرت مولانا مفتی مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب مدظلہ کی دعا سے یہ عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی چھبیسویں نشست اختتام پذیر ہوئی۔
#Press_Release #News #Alquds #Palestine #Gaza #Alqudsseries #MasjidAqsa #MasjidAlAqsa #BaitulMaqdis #AlqudsConference #MTIH #TIMS
No comments:
Post a Comment